توضیح المسائل(آقائے سیستانی)
 
زکوٰة کے احکام
(۱۸۲۰)زکوٰة چند چیزوں پر واجب ہے۔
(۱)گیہوں(۲)جو(۳)کھجور(۴)کشمش(۵)سونا(۶)چاندی(۷)اونٹ(۸)گائے(۹)بھیڑبکری (۱۰)احتیاط لازم کی بنا پر مال تجارت۔
اگر کوئی شخص ان دس چیزوں میں سے کسی ایک کا مالک ہو تو ان شرائط کے تحت جن کاذکر بعد میں کیا جائے گا ضروری ہے کہ جو مقدار مقرر کی گئی ہے اسے ان مصارف میں سے کسی ایک مد میں خرچ کرے جن کا حکم دیا گیا ہے۔

زکوٰة واجب ہونے کی شرائط
(۱۸۲۱)زکوٰة مذکورہ دس چیزوں پر اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب مال اس نصاب کی مقدار تک پہنچ جائے جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا اور وہ مال انسان کی اپنی ملکیت ہو اور اس کا مالک آزاد ہو۔
(۱۸۲۲)اگر انسان گیارہ مہینے گائے، بھیڑ بکری،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک رہے تو اگرچہ بارہویں مہینے کی پہلی تاریخ کو زکوٰة اس پر واجب ہوجائے گی لیکن ضروری ہے کہ اگلے سال کی ابتداء کا حساب بارہویں مہینے کے خاتمے کے بعد سے کرے۔
(۱۸۲۳)سونے ،چاندی اور مال تجارت پر زکوٰة کے واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ ان چیزوں کا مالک پورے سال بالغ اور عاقل ہو ۔لیکن گیہوں،جو ،کھجور،کشمش اور اسی طرح اونٹ ،گائے اور بھیڑ بکریوں میں مالک کا بالغ اور عاقل ہونا شرط نہیں ہے۔
(۱۸۲۴)گیہوں اور جو پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب انہیں گیہوں اور جو کہا جائے۔کشمش پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ ابھی انگورہی کی صورت میں ہوں۔کھجور پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب(وہ پک جائیں اور )عرب اسے تمر کہیں۔ لیکن ان میں زکوٰة کا نصاب دیکھنے کا وقت وہ ہے جب یہ خشک ہو جائیں اور گندم و جوکی زکوٰة دینے کا وقت وہ ہوتا ہے جب یہ غلہ کھلیان میں پہنچے اور ان(کی بالیوں ) سے بھوسا اور (دانہ)الگ کیا جائے،جبکہ کھجور اور کشمش میں یہ وقت وہ ہوتا ہے جب انہیں اتار لیتے ہیں۔اگر اس وقت کے بعد مستحق کے ہوتے ہوئے بلاوجہ تاخیر کرے اور تلف ہو جائے تو مالک ضامن ہے۔
(۱۸۲۵)گیہوں،جو،کشمش اور کھجور میں زکوٰة ثابت ہونے کے لئے جیسا کہ سابقہ مسئلے میں بتایا گیا ہے۔معتبر نہیں ہے کہ ان کامالک ان میں تصرف کر سکے۔پس اگر مالک غائب ہو اور مال بھی اس کے یا اس کے وکیل کے ہاتھ میں نہ ہو مثلاً کسی نے ان چیزوں کو غصب کر لیا ہو تب بھی جس وقت وہ مال اس کو مل جائے زکوٰة ان چیزوں میں ثابت ہے۔
(۱۸۲۶)اگر گائے،بھیڑ،اونٹ،سونے اور چاندی کا مالک سال کا کچھ حصہ مست (بے حواس) یا بے ہوش رہے تو زکوٰة اس پر سے ساقط نہیں ہوتی اور اسی طرح گیہوں،جو کھجور اور کشمش کامالک زکوٰة واجب ہونے کے موقع پر مست یا بے ہوش ہوجائے توبھی یہی حکم ہے۔
(۱۸۲۷)گیہوں،جو کھجوراور کشمش کے علاوہ دوسری چیزوں میں زکوٰة ثابت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ مالک اس مال میں شرعاً اور تکویناً تصرف کر سکتا ہو۔پس اگر سال کے ایک قابل توجہ حصے میں کسی نے اس مال کوغصب کر لیا ہو یا مالک اس مال میں شرعاً تصرف نہ کر سکتا ہو تو اس میں زکوةٰ نہیں ہے۔
(۱۸۲۸)اگر کسی نے سونا اور چاندی یاکوئی اور چیز جس پرزکوٰة دینا واجب ہوکسی سے قرض لی ہو اور وہ چیز ایک سال تک اس کے پاس رہے توضروری ہے کہ اس کی زکوٰة دے اورجس نے قرض دیا ہواس پر کچھ واجب نہیں ہے۔ہاں اگر قرض دینے والااس کی زکوٰة دیدے تو قرضدار پرکچھ واجب نہیں۔

گیہوں،جو کھجوراور کشمش کی زکوٰة
(۱۸۲۹)گیہوں،جوکھجور اور کشمش پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ نصاب کی حد تک پہنچ جائیں اوران کا نصاب تین سو صاع ہے جوایک گروہ(علماء) کے بقول تقریباً۸۴۷کلو ہوتا ہے۔
(۱۸۳۰)جس انگور،کھجور،جو اور گیہوں پر زکوٰة واجب ہوچکی ہو اگر کوئی شخص خود یا اس کے اہل وعیال اسے کھالیں یا مثلاً وہ یہ اجناس کسی فقیر کو زکوٰة کے علاوہ کسی اور نیت سے دیدے تو ضروری ہے کہ جتنی مقدار استعمال کی ہو اس پر زکوٰة دے۔
(۱۸۳۱)اگر گیہوں،جو کھجور اور انگور پر زکوٰة واجب ہونے کے بعد ان چیزوں کا مالک مر جائے تو جتنی زکوٰة بنتی ہو وہ اس کے مال سے دینی ضروری ہے لیکن اگر وہ شخص زکوٰة واجب ہونے سے پہلے مر جائے تو ہر وہ وارث جس کاحصہ نصاب تک پہنچ جائے ضروری ہے کہ اپنے حصے کی زکوٰة خود ادا کرے۔
(۱۸۳۲)جو شخص حاکم شرع کی طرف سے زکوٰة جمع کرنے پر مامور ہو وہ گیہوں اورجو کے کھلیان میں بھوسا (اور دانہ) الگ کرنے کے وقت اور کھجور اور انگور کے خشک ہونے کے وقت زکوٰة کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر مالک نہ دے اورجس چیز پر زکوٰة واجب ہو گئی ہو وہ تلف ہو جائے توضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔
(۱۸۳۳)اگر کسی شخص کے کھجور کے درختوں،انگور کی بیلوں یا گیہوں اور جوکھیتوں(کی پیداور)کا مالک بننے کے بعد ان چیزوں پر زکوٰة واجب ہوجائے توضروری ہے کہ ان پر زکوٰة دے۔
(۱۸۳۴)اگر گیہوں،جوکھجور اور انگور پر زکوٰة واجب ہونے کے بعد کوئی شخص کھیتوں اور درختوں کو بیچ دے تو بیچنے والے پر ان اجناس کی زکوٰة دینا واجب ہے اور جب وہ زکوٰة ادا کردے تو خریدنے والے پر کچھ واجب نہیں ہے۔
(۱۸۳۵)اگر کوئی شخص گیہوں،جو ،کھجور یاانگور خریدے اور اسے علم ہو کہ بیچنے والے نے ان کی زکوٰة دے دی ہے یا شک کرے کہ اس نے زکوٰة دی ہے یا نہیں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے اور اگر اسے معلوم ہو کہ بیچنے والے نے ان پرزکوٰة نہیں دی تو ضروری ہے کہ وہ خود اس پر زکوٰة دے دے،لیکن اگر بیچنے والے نے اسے دھوکہ دیا ہوتو وہ زکوٰة دینے کے بعد اس سے رجوع کرسکتا ہے اور زکوٰة کی مقدار کا اس سے مطالبہ کر سکتاہے۔
(۱۸۳۶)اگر گیہوں،جو،کھجور اور انگور کا وزن تر ہونے کے وقت نصاب کی حد تک پہنچ جائے اور خشک ہونے کے وقت اس حد سے کم ہوجائے تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۳۷)اگر کوئی شخص گیہوں،جواور کھجور کو خشک ہونے کے وقت سے پہلے خرچ کرے تو اگر وہ خشک ہوکر نصاب پر پوری اتریں تو ضروری ہے کہ ان کی زکوٰة دے۔
(۱۸۳۸)کجھور کی تین قسمیں ہیں:
(۱) وہ جسے خشک کیا جاتا ہے اس کی زکوٰة کا حکم بیان ہوچکا۔
(۲)وہ جو رطب(پکی ہوئی رس دار) ہونے کی حالت میں کھائی جاتی ہے۔
(۳)وہ جو کچی ہی کھائی جاتی ہے۔
دوسری قسم کی مقدار اگرخشک ہونے پر نصاب کی حد تک پہنچ جائے تو احتیاط مستحب ہے کہ اس کی زکوٰة دی جائے۔جہاں تک تیسری قسم کا تعلق ہے ظاہر یہ ہے کہ اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۳۹)جس گیہوں،جو،کھجور اور کشمش کی زکوٰة کسی شخص نے دے دی ہو اگر وہ چند سال اس کے پاس پڑی بھی رہیں تو ان پر دوبارہ زکوٰة واجب نہیں ہوگی۔
(۱۸۴۰) اگر گیہوں، جو، کھجور اور انگور (کی کاشت) بارانی یا نہری زمین پر کی جائے یا مصری زراعت کی طرح انہیں زمین کی نمی سے فائدہ پہنچے تو ان پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر ان کی سینچائی (جھیل یا کنویں وغیرہ کے پانی سے) بذریعہ ڈول کی جائے تو ان پر زکوٰة بیسواں حصہ ہے۔
(۱۸۴۱)اگر گیہوں،جو،کھجور اور انگور(کی کاشت) بارش کے پانی سے بھی سیراب ہو اور اسے ڈول وغیرہ کے پانی سے بھی فائدہ پہنچے تو اگر یہ سینچائی ایسی ہو کہ عام طور پر کہا جاسکے کہ ان کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی گئی ہے تو اس پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ نہر اور بارش کے پانی سے سیراب ہوئے ہیں تو ان پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر سینچائی کی صورت یہ ہو کہ عالم طور پر کہا جائے کہ دونوں ذرائع سے سیراب ہوئے ہیں تو اس پر زکوٰة ساڑھے سات فیصد ہے۔
(۱۸۴۲)اگر کوئی شک کرے کہ عام طور پر کون سی بات صحیح سمجھی جائے گی او ر اسے علم نہ ہو کہ سینچائی کی صورت ایسی ہے کہ لوگ عام طور پر کہیں کہ دونوں ذرائع سے سینچائی ہوئی یا یہ کہیں کہ مثلاً بارش کے پانی سے ہوئی ہے تو وہ اگر ساڑھے سات فیصد زکوٰة دے تو کافی ہے۔
(۱۸۴۳)اگر کوئی شک کرے اور اسے علم نہ ہوکہ عموماً لوگ کہتے ہیں کہ دونوں ذرائع سے سینچائی ہوئی ہے یا یہ کہتے ہیں کہ ڈول وغیرہ سے ہوئی ہے تو اس صورت میں بیسواں حصہ دینا کافی ہے او اگر اس بات کا احتمال بھی ہو کہ عموماً لوگ کہیں کہ بارش کے پانی سے سیراب ہوئی ہے تب بھی یہی حکم ہے۔
(۱۸۴۴)اگر گیہوں،جو ،کھجور اور انگور بارش اور نہر کے پانی سے سیراب ہوں اور انہیں ڈول وغیرہ کے پانی کی حاجت نہ ہولیکن ان کی سینچائی ڈول کے پانی سے بھی ہوئی ہو اور ڈول کے پانی سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مدد نہ ملی ہو تو ان پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر ڈول وغیرہ کے پانی سے سینچائی ہوئی ہواور نہر اور بارش کے پانی کی حاجت نہ ہولیکن نہر اور بارش کے پانی سے بھی سیراب ہوں اور اس سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مدد نہ ملی ہوتو ان پر زکوٰة بیسواں حصہ ہے۔
(۱۸۴۵)اگر کسی کھیت کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی جائے اور اس سے ملحقہ زمین میں کھیتی باڑی کی جائے او ر وہ ملحقہ زمین اس زمین سے فائدہ اٹھائے اور اسے سینچائی کی ضرورت نہ رہے تو جس زمین کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی گئی ہے اس کی زکوٰة بیسواں حصہ اور اس سے ملحقہ کھیت کی زکوٰة احتیاط کی بنا پر دسواں حصہ ہے۔
(۱۸۴۶)جو اخراجات کسی شخص نے گیہوں،جو کھجوراور انگور پر کئے ہوں انہیں وہ فصل کی آمدنی سے منہاکر کے نصاب کا حساب نہیں لگا سکتا لہذا اگر ان میں سے کسی ایک کا وزن اخراجات کا حساب لگانے سے پہلے نصاب کی مقدار تک پہنچ جائے توضروری ہے کہ اس پر زکوٰة دے۔
(۱۸۴۷)جس شخص نے زراعت میں بیج استعمال کیا ہو خواہ وہ اس کے پاس موجود ہویا اس نے خریدا ہو وہ نصاب کاحساب اس بیج کو فصل کی آمدنی سے منہا کر کے نہیں کر سکتا بلکہ ضروری ہے کہ نصاب کا حساب پوری فصل کو مد نظر رکھتے ہوئے لگائے۔
(۱۷۴۸)جو کچھ حکومت اصلی مال سے(جس پر زکوٰة واجب ہو)بطور محصول لے لے اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔مثلاً اگر کھیت کی پیداوار۲۰۰۰کلو ہواور حکومت ۱۰۰کلو بطور لگان کے لے لے تو زکوٰة فقط۱۹۰۰ کلو پر واجب ہے۔
(۱۸۴۹)احتیاط واجب کی بنا پر انسان یہ نہیں کر سکتا کہ جو اخراجات اس نے زکوٰة واجب ہونے سے پہلے کئے ہوں انہیں وہ پیداوار سے منہا کرے اور باقی ماندہ پر زکوٰة دے۔
(۱۸۵۰)زکوٰةواجب ہونے کے بعد اخراجات کئے جائیں جو کچھ زکوٰة کی مقدار کی نسبت خرچ کیا جائے وہ پہداوار سے منہا نہیں کیا جاسکتا اگرچہ احتیاط کی بنا پر حاکم شرع یا اس کے وکیل سے اس کو خرچ کرنے کی اجازت بھی لے لی ہو۔
(۱۸۵۱)کسی شخص کے لئے یہ واجب نہیں کہ وہ انتظار کرے تاکہ جو اور گیہوں کھلیان تک پہنچ جائیں اور انگوراور کھجور کے خشک ہونے کاوقت ہوجائے پھر زکوٰة دے بلکہ جونہی زکوٰة واجب ہو جائز ہے کہ زکوٰة کی مقدار کاا ندازہ لگا کر وہ قیمت بطور زکوٰة دے۔
(۱۸۵۲)زکوٰة واجب ہونے کے بعد انسان یہ کرسکتا ہے کہ کھڑی فصل کاٹنے یا کھجور اور انگور کے چننے سے پہلے زکوٰة،مستحق شخص یا حاکم شرع یا اس کے وکیل کو مشترکہ طور پرپیش کر دے اور اس کے بعد وہ اخراجات میں شریک ہوں گے۔
(۱۸۵۳) جب کوئی شخص فصل یا کھجور اور انگور کی زکوٰة عین مال کی شکل میں حاکم شرع یا مستحق شخص یا ان کے وکیل کو دے دے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ بلا معاوضہ مشترکہ طور پر ان چیزوں کی حفاظت کرے بلکہ وہ فصل کی کٹائی یا کھجور اور انگور کے خشک ہونے تک مال زکوٰة اپنی زمین میں رہنے کے بدلے اجرت کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
(۱۸۵۴)اگر انسان چند شہروں میں گیہوں،جو ،کھجور یا انگور کا مالک ہو اور ان شہروں میں فصل پکنے کا وقت ایک دوسرے سے مختلف ہو اور ان سب شہروں سے فصل اور میوے ایک ہی وقت میں دستیاب نہ ہوتے ہوں اور یہ سب ایک سال کی پیداور شمار ہوتے ہوں تو اگر ان میں سے جوچیز پہلے پک جائے وہ نصاب کے مطابق ہو توضروری ہے کہ اس پر اس کے پکنے کے وقت زکوٰة دے اور باقی ماندہ اجناس پر اس وقت زکوٰة دے جب وہ دستیاب ہوں اور اگر پہلے والی چیز نصاب کے برابر نہ ہو تو انتطار کرے تاکہ باقی اجناس پک جائیں۔پھر اگر سب ملاکر نصاب کے برابر ہوجائیں تو ان پر زکوٰة واجب ہے اور اگر نصاب کے برابر نہ ہوں تو ان پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۵۵)اگر کھجور اور انگور کے درخت سال میں دو دفعہ پھل دیں اور دونوں مرتبہ کی پیداور جمع کرنے پر نصاب کے برابر ہوجائے تواحتیاط کی بنا پر اس پیداور پر زکوٰة واجب ہے۔
(۱۸۵۶)اگر کسی شخص کے پاس غیر خشک شدہ کھجوریں ہوں یا انگور ہوں جو خشک ہونے کی صورت میں نصاب کے مطابق ہوں تو اگر ان کے تازہ ہونے کی حالت میں وہ زکوٰة کی نیت سے ان کی اتنی مقدار زکوٰة کے مصرف میں لے آئے جتنی ان کے خشک ہونے پر زکوٰة کی اس مقدار کے برابر ہو جو اس پر واجب ہے تواس میں کوئی حرج نہیں۔
(۱۸۵۷)اگر کسی شخص پر خشک کھجور یا کشمش کی زکوٰة واجب ہو تو وہ ان کی زکوٰة تازہ کھجور یا انگور کی شکل میں نہیں دے سکتا بلکہ اگر وہ خشک کھجور یا کشمش کی زکوٰة کی قیمت لگائے انگور یا تازہ کھجور یں یا کوئی اور کشمش یا خشک کھجوریں اس قیمت کے طور پر دے تو اس میں بھی اشکال ہے نیز اگر کسی پر تازہ کھجور یا انگور کی زکوٰة واجب ہو تو وہ خشک کھجور یا کشمش دے کر وہ زکوٰة ادا نہیں کر سکتا بلکہ اگر وہ قیمت لگا کر کوئی دوسری کھجور یا انگور دے تو اگرچہ تازہ ہی ہو اس میں اشکال ہے۔
(۱۸۵۸)اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جو مقروض ہو اور اس کے پاس ایسا مال بھی ہو جس پر زکوٰة واجب ہوچکی ہو توضروری ہے کہ جس مال پر زکوٰة واجب ہو چکی ہو پہلے اس میں تمام زکوٰة دی جائے اور اس کے بعد اس کا قرضہ ادا کیا جائے ۔لیکن اگرزکوٰة اس کے ذمے واجب الادا ہوچکی ہو تواس کا حکم بھی باقی قرضوں کا حکم ہے۔
(۱۸۵۹)اگر کوئی ایسا شخص مرجائے جو مقروض ہو اور ا سکے پاس گیہوں،جو کھجور یا انگور بھی ہو اور اس سے پہلے کہ ان اجناس پر زکوٰة واجب ہو اس کے ورثاء اس کا قرضہ کسی دوسرے مال سے ادا کر دیں تو جس وارث کا حصہ نصاب کی مقدار تک پہنچتا ہو تو ضروری ہے کہ زکوٰة دے اور اگر اس سے پہلے کہ زکوٰة ان اجناس پر واجب ہو متوفی کا قرضہ ادا نہ کریں اور اگر اس کا مال فقط اس قرضے جتنا ہو تو ورثاء کے لئے واجب نہیں کہ ان اجناس پر زکوٰة دیں اور اگر متوفی کا مال اس کے قرض سے زیادہ ہو جبکہ متوفی پر اتنا قرض ہو کہ اگر اسے ادا کرنا چاہیں توگیہوں،جو،کھجور اور انگور میں سے بھی کچھ مقدار قرض خواہ کو دینی پڑے گی تو جو کچھ قرض خواہ کو دیں اس پر زکوٰة نہیں ہے اور باقی ماندہ مال پر وارثوں میں سے جس کا بھی حصہ زکوٰة کے نصاب کے برابر ہو اس کی زکوٰة دینا ضروری ہے۔
(۱۸۶۰)جس شخص کے پاس اچھی اورگھٹیا دونوں قسم کی گندم،جو،کھجوراور انگور ہوں جن پر زکوٰة واجب ہوگئی ہو اس کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ اچھی والی قسم کی زکوٰة گھٹیا قسم سے نہ دے۔

سونے کانصاب
(۱۸۶۱)سونے کا نصاب دو ہیں:
اس کا پہلا نصاب بیس مثقال شرعی ہے جبکہ ہر مثقال شرعی۱۸ نخود کا ہوتا ہے۔پس جس وقت سونے کی مقدار بیس مثقال شرعی تک جو آج کل کے پندرہ مثقال کے برابر ہوتے ہیں،پہنچ جائے اور دوسری شرائط بھی پوری ہوتی ہوں جو بیا ن کی جاچکی ہیں توضروری ہے کہ انسان اس کا چالیسواں حصہ جو ۹ نخود کے برابر ہوتا ہے زکوٰة کے طور پر دے اور اگر سونا اس مقدار تک نہ پہنچے تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے اور اس کا دوسرا نصاب چارمثقال شرعی ہے جو آج کل کے تین مثقال پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰة دے اور اگر تین مثقال سے کم اضافہ ہو تو ضروری ہے کہ تمام تر ۱۸ مثقال پر زکوٰة دے اور اس صورت میں اضافے پر زکوٰة نہیں ہے اور جوں جوں اضافہ ہو اس کے لئے یہی حکم ہے یعنی اگر تین مثقال اضافہ ہو توضروری ہے کہ تمام تر مقدار پر زکوٰة دے اور اگر اضافہ تین مثقال سے کم ہو تو جو مقدار بڑھی ہو اس پر کوئی زکوٰة نہیں ہے۔

چاندی کا نصاب
(۱۸۶۲)اس کاپہلا نصاب ۱۰۵ مروجہ مثقال ہے۔لہذا جب چاندی کی مقدار ۱۰۵ مثقال تک پہنچ جائے اور وہ دوسری شرائط بھی پوری کرتی ہو جو بیان کی جاچکی ہیں توضروری ہے کہ انسان ا سکا ڈھائی فیصد جو دو مثقال اور ۱۵ نخود بنتا ہے بطورزکوٰة دے اور اگر وہ مقدار تک نہ پہنچے تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے اور اس کا دوسرا نصاب۲۱ مثقال ہے یعنی اگر ۱۰۵ مثقال پر ۲۱ کا اضافہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے پورے ۱۲۶ مثقال پر زکوٰة دے اور اگر۲۱ مثقال سے کم اضافہ ہو تو ضروری ہے کہ صرف ۱۰۵ مثقال پر زکوٰة دے اور جو اضافہ ہو اہے اس پر زکوٰة نہیں ہے اور جتنا بھی اضافہ ہو تا جائے یہی حکم ہے یعنی اگر۲۱ مثقال کا اضافہ ہو توضروری ہے کہ تمام تر مقدار پر زکوٰة دے اور اگر اس سے کم اضافہ ہو تو وہ مقدار جسکا اضافہ ہوا ہے اور جو ۲۱مثقال سے کم ہے اس پر زکوٰة نہیں ہے اور اگر اسے شک ہو کہ نصاب کی حد تک جا پہنچی ہے تو احتیاط واجب کی بنا پرضروری ہے کہ تحقیق کرے۔
(۱۸۶۳)جس شخص کے پاس نصاب کے مطابق سونا یا چاندی ہو اگرچہ و ہ اس پر زکوٰة دے دے لیکن جب تک اس کے پاس سونا یاچاندی پہلے نصاب سے کم نہ ہوجائے ضروری ہے کہ ہر سال ان پر زکوٰة دے۔
(۱۸۶۴)سونے اور چاندی پرزکوٰة اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب وہ ڈھلے ہوئے سکوں کی صورت میں ہوں اور ان کے ذریعے لین دین کا رواج ہواور اگر ان کی مہر مٹ بھی چکی ہولیکن لین دین کارواج ہو تو زکوٰة ادا کرنا ضروری ہے لیکن اگر لین دین کا راج ختم ہو چکا ہو تو چاہے مہر مٹ چکی ہو،زکوٰة اداکرنا ضروری نہیں۔
(۱۸۶۵)وہ سکہ دار سونا اور چاندی جنہیں عورتیں بطور زیور پہنتی ہوں جب تک وہ رائج ہوں یعنی سونے اور چاندی کے سکوں کے طور پر ان کے ذریعے لین دین ہو تا ہو احتیاط کی بنا پر ان کی زکوٰة دینا واجب ہے لیکن اگر ان کے ذریعے لین دین کا رواج باقی نہ ہوتو ان پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۶۶)جس شخص کے پاس سونا اور چاندی دونوں ہوں اگران میں سے کوئی بھی پہلی نصاب کے برابر نہ ہو مثلاً ا س کے پاس۱۰۴ مثقال چاندی اور ۱۴ مثقال سونا ہو تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۶۷)جیساکہ پہلے بتایا گیا ہے کہ سونے اور چاندی پر زکوٰة اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب وہ گیارہ مہینے نصاب کی مقدار کے مطابق کسی شخص کی ملکیت میں رہیں اور اگر گیارہ مہینوں میں کسی وقت سونا اور چاندی پہلے نصاب سے کم ہوجائیں تو اس شخص پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۶۸)اگر کسی شخص کے پاس سونا اور چاندی ہو اور گیارہ مہینے کے دوران انہیں کسی دوسری چیز سے بدل لے یا انہیں پگھلالے تو اس پر زکوٰة واجب نہیں۔لیکن اگروہ زکوٰة سے بچنے کے لئے ان کو سونے یا چاندی سے بدل لے یعنی سونے کو سونے یا چاندی سے یا چاندی کو سونے سے بدل لے تواحتیاط واجب ہے کہ زکوٰة دے۔
(۱۸۶۹)اگر کوئی شخص بارہویں مہینے میں سونا یا چاندی کے سکے پگھلا ئے توضروری ہے کہ ان پر زکوٰة دے اور اگر پگھلانے کی وجہ سے ان کا وزن یاقیمت کم ہوجائے تو ضروری ہے کہ ان چیزوں کو پگھلانے سے پہلے جو زکوٰة ا س پر واجب تھی وہ دے۔
(۱۸۷۰)سونے اور چاندی کے سکے جن میں معمول سے زیادہ دوسری دھات کی آمیزش ہو اگر انہیں چاندی اور سونے کے سکے کہا جاتا ہو تو اس صورت میں جب وہ نصاب کی حد تک پہنچ جائیں ان پر زکوٰة واجب ہے گو ان کا خالص حصہ نصاب کی حد تک نہ پہنچے لیکن اگر انہیں سونے اور چاندی کے سکے نہ کہا جاتا ہوتو خواہ ان کا خالص حصہ نصاب کی حد تک پہنچ بھی جائے ان پر زکوٰة واجب نہیں۔
(۱۸۷۱)جس شخص کے پاس سونے اور چاندی کے سکے ہوں اگر ان میں دوسری دھات کی آمیزش معمول کے مطابق ہو تو اگر وہ شخص ان کی زکوٰة سونے اور چاندی کے ایسے سکوں میں دے جن میں دوسری دھات کی آمیزش معمول سے زیادہ ہو یا ایسے سکوں میں دے جو سونے اور چاندی کے بنے ہوئے نہ ہوں لیکن یہ سکے اتنی مقدار میں ہوں کہ ان کی قیمت اس زکوٰة کی قیمت کے برابر ہو جو اس پر واجب ہوگئی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اونٹ،گائے اور بھیڑ بکری کی زکوٰة
(۱۸۷۲)اونٹ،گائے اور بھیڑ بکری کی زکوٰة کے لئے ان شرائط کے علاوہ جن کاذکر آچکا ہے ایک شرط اور بھی ہے و ہ یہ کہ حیوان سارا سال صرف(خودرو)جنگلی گھاس چرتا رہاہو۔لہذا اگر سارا سال یا اس کاکچھ حصہ کاٹی ہوئی گھاس کھائے یا ایسی چراگاہ میں چرے جوخود اس شخص کی (یعنی حیوان کے مالک کی)یاکسی دوسرے شخص کی ملکیت ہو تو اس حیوان پر زکوٰة نہیں ہے لیکن اگر وہ حیوان سال بھر میں ایک مختصر مقدار مالک کی دوسرے شخص کی ملیکت ہو تو اس حیوان پر زکوٰة نہیں ہے لیکن اگر وہ حیوان سال بھر میں ایک مختصر مقدار مالک کی مملوکہ گھاس(یا چارا)کھائے جبکہ اب بھی عرفاً کہا جاسکے کہ اس نے باہر کی گھاس ہی کھائی ہے تو اس کی زکوٰة واجب ہے۔لیکن اونٹ،گائے اور بھیڑ کی زکوٰة واجب ہونے میں شرط یہ نہیں ہے کہ سارا سال حیوان بیکار رہے بلکہ اگر آبیاری یا ہل چلانے یا ان جیسے امور میں ان حیوانوں سے استفادہ کیا جائے جبکہ عرفاً کہا جاسکے کہ یہ سارا سال بے کار درہے ہیں تو ان کی زکوٰة دینا ضروری ہے بلکہ اگر نہ کہا جاسکے تب بھی احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ ان کی زکوٰة دے۔
(۱۸۷۳)اگر کوئی شخص اپنے اونٹ گائے اور بھیڑ کیلئے ایک ایسی چراگاہ خریدے جسے کسی نے کاشت نہ کیا ہو یا اسے کرائے(یا ٹھیکے) پر حاصل کرے تو اس صورت میں زکوٰة کا واجب ہونا مشکل ہے اگرچہ زکوٰة کا دینااحوط ہے لیکن اگر وہاں جانورچرانے کا محصول ادا کرے تو ضروری ہے کہ زکوٰة دے۔

اونٹ کے نصاب
(۱۸۷۴)اونٹ کے نصاب بارہ ہیں:
(۱)پانچ اونٹ۔انکی زکوٰة ایک بھیڑ ہے اورجب تک اونٹوں کی تعداد اس حد تک نہ پہنچے،زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۲)دس اونٹ۔ان کی زکوٰة دو بھیڑیں ہیں۔
(۳)پندرہ اونٹ۔انکی زکوٰة تین بھیڑیں ہیں،
(۴)بیس اونٹ۔ ان کی زکوٰة چاربھیریں ہیں۔
(۵)پچیس اونٹ۔ا ن کی زکوٰة پانچ بھیڑیں ہیں۔
(۶)چھبیس اونٹ۔ا نکی زکوٰة ایک ایسا اونٹ ہے جو دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔
(۷)چھتیس اونٹ۔ ان کی زکوٰة ایک ایسا اونٹ ہے جو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔
(۸) چھیالیس اونٹ۔ ان کی زکوٰة ایک ایسا اونٹ ہے جو چوتھے سال میں داخل ہو چکا۔
(۹)اکسٹھ اونٹ۔ان کی زکوٰة ایک ایسا اونٹ ہے جو پانچویں سال میں داخل ہو چکا ہو۔
(۱۰)چھہتر اونٹ۔ان کی زکوٰة دو ایسے اونٹ ہیں جو تیسرے سال میں داخل ہوچکے ہوں۔
(۱۱)اکیانوے اونٹ۔ان کی زکوٰة دو ایسے اونٹ ہیں جو چوتھے سال میں داخل ہوچکے ہوں۔
(۱۲)ایک سو اکیس اور اس سے اوپر جتنے ہوتے جائیں ضروری ہے کہ زکوٰة دینے والا یا تو ان کاچالیس سے چالیس تک حساب کرے اور ہر چالیس اونٹوں کیلئے ایک ایسا اونٹ دے جو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو یا پچاس سے پچاس تک کا حساب کرے اور ہر پچاس اونٹوں کے لئے ایک اونٹ دے جو چوتھے سال میں داخل ہوچکا ہو یا چالیس اور پچاس دونوں سے حساب کرے اور بعض مقامات پر اس کو اختیار ہے کہ چالیس اور پچاس دونوں سے حساب کرے اور بعض مقامات پر اس کو اختیار ہے کہ چالیس سے حساب کرے یا پچاس سے لیکن ہر صورت میں اس طرح حساب کرنا ضرروی ہے کہ کچھ باقی نہ بچے یا اگر بچے بھی تو نو سے زیادہ نہ ہو مثلاً اگر اس کے پاس ۱۴۰اونٹ ہوں توضروری ہے کہ ایک سو کیلئے دو ایسے اونٹ دے جو چوتھے سال میں داخل ہو چکے ہوں اورچالیس کے لئے ایسا اونٹ دے جو تیسرے سال میں داخل ہوچکا ہو اور جو اونٹ زکوٰة میں دیاجائے اس کا مادہ ہونا ضروری ہے۔لیکن اگر چھٹے نصاب میں اس کے پاس دو سالہ اونٹنی نہ ہو تو تین سالہ اونٹ کافی ہے اور اگر وہ بھی نہ ہو توخریدنے میں اسے اختیار ہے کہ کسی کو بھی خریدلے۔
(۱۸۷۵)دونوں نصابوں کے درمیان زکوٰة واجب نہیں ہے لہذا اگر ایک شخص جو اونٹ رکھتا ہو ان کی تعداد پہلے نصاب سے جو پانچ ہے، بڑھ جائے توجب تک وہ دوسرے نصاب تک جو دس ہے نہ پہنچے ضروری ہے کہ فقط پانچ پر زکوٰة دے اور باقی نصابوں کی صورت بھی ایسی ہی ہے۔

گائے کا نصاب
(۱۸۷۶)گائے کے دونصاب ہیں:
اس کا پہلا نصاب تیس ہے ۔جب کسی شخص کی گایوں کی تعداد تیس تک پہنچ جائے اور وہ شرائط بھی پوری ہوتی ہوں جن کاذکر کیا جاچکا ہے توضروری ہے کہ گائے کا ایک ایسا بچہ جو دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہو زکوٰة کے طور پر دے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ بچھڑا ہو۔اس کادوسرا نصاب چالیس ہے اوراس کی زکوٰة ایک بچھیا ہے جو تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہو اور تیس اور چالیس کے درمیان زکوٰة واجب نہیں ہے۔ مثلاً جس شخص کے پاس انتالیس گائیں ہوں تو ضروری ہے کہ صرف تیس کی زکوٰة دے اور اگر اس کے پاس چالیس سے زیادہ گائیں ہوں تو جب تک ان کی تعداد ساٹھ تک نہ پہنچ جائے ضروری ہے کہ صرف چالیس پر زکوٰة دے۔جب ان کی تعداد ساٹھ تک پہنچ جائے تو چونکہ یہ تعداد پہلے نصاب سے دگنی ہے اس لئے ضروری ہے کہ دو ایسے بچھڑے بطور زکوٰة دے جو دوسرے سال میں داخل ہوچکے ہوں اور اسی طرح جوں جوں گایوں کی تعداد بڑھتی جائے توضروری ہے کہ یا تو تیس سے تیس تک حساب کرے یا چالیس سے چالیس تک یا تیس اور چالیس دونوں کاحساب کرے اور ان پر اس طریقے کے مطابق زکوٰة دے جو بتایا گیا ہے۔لیکن ضروری ہے کہ اس طرح حساب کرے کہ کچھ باقی نہ بچے اور اگر کچھ بچے تو نو سے زیادہ نہ ہو۔مثلاً اگر اس کے پاس ستر گائیں ہوں تو ضروری ہے کہ تیس اور چالیس کے مطابق حساب کرے اور تیس کے لئے تیس کی اور چالیس کے لئے چالیس کی زکوٰة دے کیونکہ اگر وہ تیس کے لحاظ سے حساب کرے گا تو دس گائیں بغیر زکوٰہ دیئے رہ جائیں گی اور۔بعض مقامات ،مثلاً۱۲۰گائیں پر اس کواختیار ہے کہ جیسے چاہیے حساب کرے۔

بھیڑ کانصاب
(۱۸۷۷)بھیڑ کے پانچ نصاب ہیں:
پہلا نصاب ۴۰ ہے اور اس کی زکوٰة ایک بھیڑ ہے اور جب تک بھیڑوں کی تعداد چالیس تک نہ پہنچے ان پر زکوٰة نہیں ہے۔
دوسرا نصاب ۱۲۱ ہے اور اس کی زکوٰة دو بھیڑیں ہیں۔
تیسرانصاب۲۰۱ ہے اور اس کی زکوٰة تین بھیڑیں ہیں۔
چوتھا نصاب۳۰۱ ہے او راس کی زکوٰة چار بھیڑیں ہیں۔
پانچواں نصاب ۴۰۰ اوراس سے اوپر کی ہے اور ان کا حساب سو سے سو تک کر نا ضروری ہے اور ہر سو بھیڑوں پر ایک بھیڑ دی جائے اور یہ ضروری نہیں کہ زکوٰة انہی بھیڑوں میں سے دی جائے بلکہ اگر کوئی اور بھیڑیں دے دی جائیں یابھیڑوں کی قیمت کے برابر نقدی دے دی جائے تو کا فی ہے۔
(۱۸۷۸)دو نصابوں کے درمیان زکوٰة واجب نہیں ہے ۔لہذا اگر کسی کی بھیڑوں کی تعداد پہلے نصاب سے جو کہ چالیس ہے زیادہ ہو لیکن دوسرے نصاب تک جو ۱۲۱ ہے نہ پہنچی ہو تو اسے چاہیے کہ صرف چالیس پر زکوٰة دے اور جو تعداد اس سے زیادہ ہو اس پر زکوٰة نہیں ہے اور اس کے بعد کے نصابوں کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
(۱۸۷۹)اونٹ،گائیں اور بھیڑیں جب نصاب کی حد تک پہنچ جائیں توخواہ وہ سب نرہوں یا مادہ یا کچھ نر ہو ں اور کچھ مادہ تو ان پر زکوٰة واجب ہے۔
(۱۸۸۰)زکوٰة کے ضمن میں گائے اور بھینس ایک جنس شمار ہوتی ہیں اور عربی اور غیر عربی اونٹ ایک جنس ہیں۔ اسی طرح بھیڑ،بکرے او ر دنبے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
(۱۸۸۱)اگر کوئی شخص زکوٰة کے طور پر بھیڑ دے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے وہ کم از کم دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہو اور اگر بکری دے تو احتیاط ضروری ہے کہ وہ تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہو۔
(۱۸۸۲)جو بھیڑ کوئی شخص زکوٰة کے طور پر دے اگر اس کی قیمت اس کی بھیڑوں سے معمولی سی کم بھی ہوتو کوئی حرج نہیں لیکن بہتر ہے کہ ایسی بھیڑ دے جس کی قیمت اس کی ہر بھیڑ سے زیادہ۔ہو نیز گائے اور اونٹ کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔
(۱۸۸۳)اگر کئی افراد باہم حصے دار ہوں تو جس جس کا حصہ پہلے نصاب تک پہنچ جائے ضروری ہے کہ زکوٰة دے اور جس کا حصہ پہلے نصاب سے کم ہو اس پر زکوٰة واجب نہیں۔
(۱۸۸۴)اگر ایک شخص کی گائیں یااونٹ یا بھیڑیں مختلف جگہوں پر ہوں اور وہ سب ملا کر نصاب کے برابر ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی زکوٰہ دے۔
(۱۸۸۵)اگر کسی شخص کی گائیں،بھیڑیں یا اونٹ بیمار اور عیب دار ہوں تب بھی ضروری ہے کہ ان کی زکوٰة دے۔
(۱۸۸۶)اگر کسی شخص کی ساری گائیں،بھیڑیں یا اونٹ بیمار یا عیب دار یا بوڑھے ہوں تو وہ خود انہی میں سے زکوٰة دے سکتا ہے لیکن اگر وہ سب تندرست، بے عیب اور جوان ہوں تو وہ ان کی زکوٰة میں بیمار یا عیب دار یا بوڑھے جانورنہیں دے سکتا بلکہ اگر ان میں سے بعض تندرست اور بعض بیمار کچھ عیب دار اور کچھ بے عیب اور کچھ بوڑھے اور کچھ جوان ہوں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ ان کی زکوٰة میں تندرست بے عیب اور جوان جانوردے۔
(۱۸۸۷)اگر کوئی شخص گیارہ مہینے ختم ہونے سے پہلے اپنی گائیں بھیڑیں اور اونٹ کسی دوسری چیزسے بدل لے یا نصاب بتایا ہو اسے اسی جنس کے اتنے ہی نصاب سے بدل لے،مثلاً چالیس بھیڑیں د ے کر چالیس اور بھیڑیں لے لے تو اگر ایساکرنا زکوٰة سے بچنے کی نیت سے نہ ہو تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔لیکن اگر زکوٰة سے بچنے کی نیت سے ہو تو اس صورت میں جبکہ دونوں چیزیں ایک ہی نوعیت کا فائدہ رکھتی ہوں مثلاً دونوں بھیڑیں دودھ دیتی ہوں تو احتیاط لازم ہے کہ اس کی زکوٰة دے۔
(۱۸۸۸)جس شخص کو گائے، بھیڑ اور اونٹ کی زکوٰة دینی ضروری ہو اگر وہ ان کی زکوٰة اپنے کسی دوسرے مال سے دے دے تو جب تک ان جانوروں کی تعداد نصاب سے کم نہ ہو تو ضروری ہے کہ ہر سال زکوٰة دے اور اگر وہ زکوٰة انہی جانوروں میں سے دے اور وہ پہلے نصاب سے کم ہوجائیں تو زکوٰة اس پر واجب نہیں ہے۔ مثلاً جو شخص چالیس بھیڑیں رکھتا ہو اگر وہ ان کی زکوٰة اپنے دوسرے مال سے دے دے تو جب تک اس کی بھیڑیں چالیس سے کم نہ ہوں ضروری ہے کہ ہر سال ایک بھیڑ دے اور اگر خود ان بھیڑوں میں سے زکوٰة دے تو جب تک ان کی تعداد چالیس تک نہ پہنچ جائے اس پرزکوٰةواجب نہیں ہے۔

مال تجار ت کی زکوٰة
جس مال کاانسان معاوضہ دے کر مالک ہو اہو اور اس نے وہ مال تجارت اور فائدہ حاصل کرنے کے لئے محفوظ رکھا ہو تواحتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ(مندرجہ ذیل) چند شرائط کے ساتھ اس کی زکوٰة دے جو کہ چالیسواں حصہ ہے۔
(۱)مالک بالغ اور عاقل ہو۔
(۲)مال کی قیمت کم از کم ۱۵مثقال سکہ دار سونے یا ۱۵ مثقال سکے دار چاندی کے برابر ہو۔
(۳)جس وقت سے اس مال سے فائدہ اٹھانے کی نیت کی ہو اس پر ایک سال گزر جائے۔
(۴)فائدہ اٹھانے کی نیت پورے سال باقی رہے ۔پس اگر سال کے دوران اس کی نیت بدل جائے مثلاً اس کو اخراجات کی مد میں صرف کرنے کی نیت کرے توضروری نہیں کہ اس پر زکوٰة دے۔
(۵)مالک اس مال میں پورا سال تصرف کر سکتاہو۔
(۶)تمام سال اس کے سرمائے کی مقدار یا اس سے زیادہ پر خریدار موجود ہو ۔پس اگر سال کے کچھ حصے میں سرمائے کی مقدار کاخریدار نہ ہو تو اس پر زکوٰة دینا واجب نہیں ہے۔

زکوٰة کا مصرف
(۱۸۸۹)زکوٰة کا مال آٹھ مقامات پرخرچ ہو سکتاہے۔
(۱)فقیر…وہ شخص جس کے پاس اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے سال بھر کے اخراجات نہ ہوں فقیر ہے۔ لیکن جس شخص کے پاس کوئی ہنر یا جائیداد یا سرمایہ ہو جس سے وہ اپنے سال بھر کے اخراجات پورے کر سکتا ہو وہ فقیر نہیں ہے۔
(۲)مسکین…وہ شخص جو فقیر سے زیادہ تنگدست ہو،مسکین ہے۔
(۳)وہ شخص جو امام عصر علیہ السلام یا نائب امام کی جانب سے اس کام پر مامور ہوکہ زکوٰة جمع کرے،اس کی نگہداشت کرے،حساب کی جانچ پڑتال کرے اور جمع کیا ہوا مال امام علیہ السلام یا نائب امام یا فقراء کو پہنچائے۔
(۴)وہ کفار جنہیں زکوٰة دی جائے تو وہ دین اسلام کی جانب مائل ہوں یاجنگ میں یا جنگ کے علاوہ مسلمانوں کی مدد کریں۔اسی طرح وہ مسلمان جن کا ایمان ان بعض چیزوں پر جو پیغمبر اسلام ﷺ لائے ہیں کمزور ہو لیکن اگر ان کو زکوٰة دی جائے تو ان کے ایمان کی تقویت کا سبب بن جائے یا جو مسلمان امام علی - کی ولایت پر ایمان نہیں رکھتے لیکن اگر ان کو زکوٰة دی جائے تووہ امیر المومنین - کی ولایت کی طرف مائل ہوں اور اس پر ایمان لے آئیں۔
(۵)غلاموں کو خرید کر انہیں آزاد کرنا۔ جس کی تفصیل اس کے باب میں بیان ہوئی ہے۔
(۶)وہ مقروض جو اپنا قرض ادا نہ کر سکتا ہو۔
(۷)فی سبیل اللہ یعنی وہ کام جن کافائدہ تمام مسلمانوں کو پہنچتا ہو،مثلاً مسجد بنانا،ایسا مدرسہ تعمیر کرنا جہاں دینی تعلیم دی جاتی ہو،شہر کی صفائی کرنا نیز سڑکوں کو پختہ بنانا اور انہیں چوڑا کرنا اور ان ہی جیسے دوسرے کام کرنا۔
(۸)ابن السبیل یعنی وہ مسافر جو سفر میں ناچار ہو گیا ہو۔
یہ وہ مدیں ہیں جہاں زکوٰة خرچ ہوتی ہے لیکن مالک زکوٰة کو امام یا نائب امام کی اجازت کے بغیر مد نمبر۳ اورمد نمبر ۴ میں خرچ نہیں کر سکتا اوراسی طرح احتیاط لازم کی بنا پر مد نمبر۷ کاحکم بھی یہی ہے اور مذکورہ مدوں کے احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
(۱۸۹۰)احتیاط واجب یہ ہے کہ فقیر اور مسکین اپنے اور اپنے اہل و عیال کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ زکوٰة نہ لے اور اگر اس کے پاس کچھ رقم یا جنس ہوتو فقط اتنی زکوٰة لے جتنی رقم یا جنس اس کے سال بھر کے اخراجات کے لئے کم پڑتی ہو۔
(۱۸۹۱) جس شخص کے پاس اپنا پورے سال کا خرچ ہو اگر وہ اس کا کچھ حصہ استعمال کر لے اور بعد میں شک کرے کہ جو کچھ باقی بچا ہے وہ اس کے سال بھر کے اخراجات کے لیے کافی ہے یا نہیں تو وہ زکوٰة نہیں لے سکتا۔
(۱۸۹۲)جس ہنر مند یا صاحب جائیداد یا تاجر کی آمدنی اس کے سال بھر کے اخراجات سے کم ہو وہ اپنے اخراجات کی کمی پوری کرنے کے لئے زکوٰة لے سکتا ہے اور لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے کام کے اوزار یا جائیداد یا سرمایہ اپنے اخراجات کے مصرف میں لے آئے۔
(۱۸۹۳)جس فقیر کے پاس اپنے اوراپنے اہل وعیال کے لئے سال بھر کا خرچ نہ ہو لیکن ایک گھر کا مالک ہو جس میں وہ رہتا ہو یا سواری کی چیز رکھتا ہو اور ان کے بغیر گزر بسر نہ کرسکتا ہو خواہ یہ صورت اپنی عزت رکھنے کے لئے ہی ہو وہ زکوٰة لے سکتا ہے اور گھر کے سامان،برتنوں اور گرمی و سردی کے کپڑوں اورجن چیزوں کی اسے ضرورت ہو ان کے لئے یہی حکم ہے اور فقیر یہ چیزیں نہ رکھتا ہو اگر اسے اس کی ضرورت ہو تو وہ زکوٰة میں سے خرید سکتاہے۔
(۱۸۹۴)جو فقیر محنت کر کے روزی کما سکتا ہو اور اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچہ بر داشت کر سکتا ہو لیکن سستی کی وجہ سے روزی نہ کمارہا ہو،اس کے لئے زکوٰة لینا جائز نہیں ہے۔ وہ طالب علم جس کے لئے روزی کمانااس کے تحصیل علم کی راہ میں رکاوٹ ہو۔اگر اس پر علم حاصل کرنا واجب عینی نہ ہوتو کسی بھی صورت میں فقراء کے حصے سے زکوٰة نہیں لے سکتا۔ہاں اگر اس کا علم حاصل کرنا عمومی فائدے کا سبب ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر حاکم شرع کی اجازت سے سبیل اللہ کے حصے سے لے سکتا ہے اور جس فقیر کے لئے ہنر سیکھنا مشکل نہ ہو احتیاط واجب کی بنا پر زکوٰة پر زندگی بسر نہ کرے لیکن جب تک ہنر سیکھنے میں مشغول ہو زکوٰة لے سکتا ہے۔
(۱۸۹۵)جو شخص پہلے فقیر رہا ہو اور وہ کہتا ہو کہ میں فقیر ہوں تو اگر چہ اس کے کہنے پر انسان کو اطمینان نہ ہو پھر بھی اُسے زکوٰة دے سکتا ہے لیکن جس شخص کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ وہ پہلے فقیر رہا ہے یا نہیں تو احتیاط لازم کی بنا پر جب تک اس کے فقیر ہونے کا اطمینان نہ کر لے، اس کو زکوٰة نہیں دے سکتا۔
(۱۸۹۶)جو شخص کہے کہ میں فقیر ہوں اور پہلے فقیر نہ رہا ہو اگر اس کے کہنے سے اطمینان نہ ہوتا ہو تو اسے زکوٰة نہیں دی جا سکتی۔
(۱۸۹۷)جس شخص پر زکوٰة واجب ہو،اگر کوئی فقیر اس کا مقروض ہو تو وہ زکوٰة میں سے اپنا قرض وصول کر سکتا ہے۔
(۱۸۹۸)اگر فقیر مر جائے اور اس کا مال اتنا نہ ہو جتنا اس نے قرضہ دینا ہو تو قرض خواہ قرضے کو زکوٰة میں شمار کر سکتا ہے بلکہ اگر متوفی کا مال اس پر واجب الادا قرضے کے برابر ہو اور اس کے ورثاء اس کا قرضہ ادا نہ کریں یا کسی اور وجہ سے قرض خواہ اپنا قرضہ واپس نہ لے سکتا ہو تب بھی وہ اپنا قرضہ زکوٰة میں شمار کر سکتا ہے۔
(۱۸۹۹)یہ ضروری نہیں کہ کوئی شخص جو چیز فقیر کو بطور زکوٰة دے ا سکے بارے میں اسے بتائے کہ یہ زکوٰة ہے بلکہ اگر فقیر زکوٰة لینے میں خفت محسوس کرتا ہو تو مستحب ہے کہ اسے مال تو زکوٰة کی نیت سے دیا جائے لیکن اس کا زکوٰة ہونا اس پر ظاہر نہ کیا جائے۔
(۱۹۰۰)اگر کوئی شخص یہ خیال کرتے ہوئے کسی کو زکوٰة دے کہ وہ فقیر ہے اور بعد میں اسے پتا چلے کہ وہ فقیر نہ تھا یا مسئلے سے ناواقف ہونے کی بنا پر کسی ایسے شخص کو زکوٰة دے دے جس کے متعلق اسے علم ہو کہ وہ فقیر نہیں ہے تو یہ کافی نہیں ہے۔لہذا اس نے جو چیز اس شخص کو بطور زکوٰة دی تھی اگر وہ باقی ہو توضروری ہے کہ اس شخص سے واپس لے کر مستحق کو دے اور اگرختم ہو گئی ہو تو اگر لینے والے کو علم تھا کہ وہ مال زکوٰة ہے تو انسان اس کو عوض اس سے لے کرمستحق کو دے سکتا ہے اوراگر لینے والے کوعلم نہ تھا کہ وہ مال زکوٰة ہے تو اس سے کچھ نہیں لے سکتا اور انسان کے اپنے مال سے زکوٰة کو عوض مستحق کو دینا ضروری ہے۔ احتیاط واجب کی بنا پر یہ حکم اس وقت بھی ہے جب اس نے فقیر کے بارے میں تحقیق کر لی ہو یا کسی شرعی گواہی کے طور پر اسے فقیر ماناہو۔
(۱۹۰۱)جو شخص مقروض ہو اور قرضہ ادا نہ کر سکتا ہو اگر اس کے پاس اپنا سال بھر کا خرچ بھی ہو تب بھی اپنا قرضہ ادا کرنے کے لئے زکوٰةلے سکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ اس نے جو مال بطور قرض لیا ہوا اسے کسی گناہ کے کام میں خرچ نہ کیا ہو۔
(۱۹۰۲)اگر انسان ایک ایسے شخص کو زکوٰة جو مقروض ہو اور اپنا قرضہ ادا نہ کر سکتا ہو اور بعد میں اسے پتا چلے کہ اس شخص نے جو قرضہ لیا تھا وہ گناہ کے کام پر خرچ کیا تھا تو اگر وہ مقروض فقیر ہو تو انسان نے جوکچھ اسے دیا ہو اسے سہم فقراء میں شمار کر سکتاہے۔
(۱۹۰۳)جو شخص مقروض ہو اور اپنا قرضہ ادا نہ کرسکتا ہو اگرچہ و ہ فقیر ہو تب بھی قرض خواہ قرضے کو جو اسے مقروض سے وصول کرنا ہے زکوٰة میں شمار کر سکتا ہے۔
(۱۹۰۴)جس مسافر کا زادراہ ختم ہو جائے یا اس کی سوراری قابل استعمال نہ رہے اگر اس کا سفر گنا ہ کی غرض سے نہ ہو اور وہ قرض لے کر یا اپنی کوئی چیز بیچ کر منزل مقصود تک نہ پہنچ سکتا ہو تو اگرچہ وہ اپنے وطن میں فقیر نہ بھی ہو تو زکوٰة لے سکتا ہے ۔لیکن اگر وہ کسی دوسری جگہ سے قرض لے کر یا اپنی کوئی چیز بیچ کر سفر کے اخراجات حاصل کر سکتا ہو تو وہ فقط اتنی مقدار میں زکوٰة لے سکتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے اور اگر اپنے وطن میں کوئی چیز فروخت کر کے یا کرائے پر دے کر،اپنے لئے زادراہ مہیا کر سکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر زکوٰة نہیں لے سکتا۔
(۱۹۰۵)جو مسافر سفر میں ناچار ہوجائے اور زکوٰة لے اگر اس کے وطن پہنچ جانے کے بعد زکوٰة میں سے کچھ بچ جائے اور اسے زکوٰة دینے والے کو واپس نہ پہنچا سکتا ہو تو ضروری ہے کہ وہ زائد مال حاکم شرع کو پہنچا دے اور اسے بتا دے کہ یہ مال زکوٰة ہے۔

مستحقین زکوٰة کی شرائط
(۱۹۰۶)(مال کا)مالک جس شخص کو اپنی زکوٰة دے سکتا ہے،ضروری ہے کہ وہ شیعہ اثناعشری ہو۔اگر انسان کسی کو شیعہ سمجھتے ہوئے زکوٰة دے دے اور بعد میں پتا چلے کہ وہ شیعہ نہ تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ زکوٰة دے ۔یہی حکم اس وقت بھی ہے جب اس نے کسی کے شیعہ ہونے کے بارے میں تحقیق کر لی ہو یا کسی شرعی گواہی کے طور پر اسے شیعہ ماناہو۔
(۱۹۰۷)اگر کوئی شیعہ بچہ یا دیوانہ فقیر ہو تو انسان اس کے سر پرست کو اس نیت سے زکوٰة دے سکتا ہے کہ وہ جو کچھ دے رہا ہے وہ بچے یا دیوانے کی ملکیت ہوگی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان خود یا کسی امین شخص کے توسط سے زکوٰة کو بچے یا دیوانے پر خرچ کرے ،ضروری ہے کہ زکوٰة کی نیت اس وقت کرے جب وہ زکوٰة ان کے استعمال میں لائی جائے۔
(۱۹۰۸)جو فقیر بھیک مانگتا ہو او ر اس کا فقیر ہونا ثابت ہو اسے زکوٰة دی جاسکتی ہے لیکن جو شخص مال زکوٰة گناہ کے کام پر خرچ کرتا ہو ضروری ہے کہ اسے زکوٰة نہ دی جائے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ وہ شخص جسے زکوٰة دینا گناہ کی طرف مائل کرنے کا سبب ہو اگرچہ وہ اسے گناہ کے کام میں خرچ نہ بھی کرے اسے زکوٰة نہ دی جائے۔
(۱۹۰۹)جو شخص شراب پیتا ہو یا نماز نہ پڑھتا ہو اور اسی طرح جو شخص کھلم کھلا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتو ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اسے زکوٰة نہ دی جائے۔
(۱۹۱۰)جو شخص مقروض ہو اور اپنا قرضہ ادا نہ کر سکتا ہو اس کو قرضہ زکوٰة سے دیا جاسکتا ہے خواہ اس شخص کے اخراجات زکوٰة دینے والے پر ہی واجب کیوں نہ ہوں۔
(۱۹۱۱)انسان ان لوگوں کے اخراجات جن کی کفالت اس پر واجب ہو ۔مثلاً اولاد کے اخراجات۔ زکوٰة سے ادا نہیں کر سکتا لیکن اگر وہ خود اولاد کا خرچہ نہ دے تو دوسرے لوگ انہیں زکوٰة دے سکتے ہیں۔ہاں اگر ان واجب النفقہ افراد کا خرچہ دینے کے قابل نہ ہو لیکن اس پر زکوٰة واجب ہوچکی ہو تو ان کے اخراجات زکوٰة سے ادا کر سکتا ہے۔
(۱۹۱۲)اگر انسان اپنے بیٹے کو زکوٰة اس لے دے تاکہ اسے اپنی بیوی ،نوکر اور نوکرانی پر خرچ کرے یا اپنا قرضہ ادا کرے جبکہ باقی شرائط بھی موجود ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱۹۱۳)باپ اپنے بیٹے کو سہم فی سبیل اللہ میں سے علمی اور دینی کتابیں جن کی بیٹے کو ضرورت ہو خرید کر نہیں دے سکتا۔لیکن اگر رفاہ عامہ کے لئے ان کتابوں کی ضرورت ہو تواحتیاط کی بنا پر حاکم شرع سے اجازت لے لے۔
(۱۹۱۴)جو باپ بیٹے کی شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ بیٹے کی شادی کے لئے زکوٰة میں سے خرچ کر سکتا ہے اور بیٹا بھی باپ کے لئے ایسا ہی کر سکتاہے۔
(۱۹۱۵)کسی ایسی عورت کو زکوٰة نہیں دی جاسکتی جس کاشوہر اسے اخراجات دیتا ہو اور ایسی عورت جسے اس کا شوہر اخراجات نہ دیتا ہو لیکن جو حاکم جور سے رجوع کر کے ہی سہی،شوہر کو اخراجات دینے پر مجبور کر سکتی ہو اسے زکوٰة نہ دی جائے۔
(۱۹۱۶)جس عورت نے متعہ کیا ہو اگر وہ فقیر ہو تو اس کا شوہر اور دوسرے لوگ اسے زکوٰة دے سکتے ہیں ۔ہاں اگر عقد کے موقع پر شوہر نے یہ شرط قبول کی ہو کہ اس کے اخراجات دے گا یا کسی اور وجہ سے اس کے اخراجات دینا شوہر پر واجب ہو اور وہ اس عورت کے اخراجات دیتا ہو تو اس عورت کو زکوٰة نہیں دی جاسکتی۔
(۱۹۱۷)عورت اپنے فقیر شوہر کو زکوٰة دے سکتی ہے خواہ شوہر وہ زکوٰة اس عورت پر ہی کیوں نہ خرچ کرے۔
(۱۹۱۸)سید ،غیر سید سے حالت مجبور کے علاوہ زکوٰة نہیں لے سکتا اور احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ایسی مجبوری ہو کہ خمس اور دوسرے ذرائع آمدنی اس کے خراجات کیلئے کافی نہ ہوں۔اسی طرح احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اگر ممکن ہو تو روزانہ صرف اسی دن کے ضروری اخراجات کی مقدار میں زکوٰة لینے پر اکتفا کرے۔
(۱۹۱۹)جس شخص کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ سید ہے یاغیر سید، اسے زکوٰة دی جاسکتی ہے۔ہاں اگر وہ خود سید ہونے کا دعویٰ کرے اور مالک اسے زکوٰة دے دے تو وہ مالک بری الذمہ نہ ہو گا۔

زکوٰة کی نیت
(۱۹۲۰)ضروری ہے کہ انسان بہ قصد قربت یعنی بارگاہ الہی میں اظہار ذلت کی نیت سے زکوٰة دے اور اگر قصد قربت کے بغیر دے تو گناہ ہگار ہونے کے باوجود کا فی ہے اور اپنی نیت میں معین کر ے کہ جو کچھ دے رہا ہے وہ مال کی زکوٰة ہے زکوٰة فطرہ ہے بلکہ مثال کے طور پر اگر گیہوں اور جو کی زکوٰة اس پر واجب ہو اور وہ کچھ رقم زکوٰة کے طور پر دینا چاہیے تو اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ معین کرے کہ گیہوں کی زکوٰة دے رہا ہے یا جوکی۔
(۱۹۲۱)اگر کسی شخص پر متعدد چیزوں کی زکوٰة واجب ہو اور وہ زکوٰة میں کوئی چیز دے لیکن کسی بھی چیز کی نیت نہ کرے تو جو چیز اس نے زکوٰة میں دی ہے اگر اس کی جنس وہی ہو جو ان چیزوں میں سے کسی ایک کی ہے تو وہ اسی جنس کی زکوٰة شمار ہو گی۔ فرض کریں کہ کسی شخص پر چالیس بھیڑوں اور پندرہ مثقال سونے کی زکوٰة واجب ہے،اگر وہ مثلاً ایک بھیڑ زکوٰة میں دے اور ان چیزوں میں سے(کہ جن پر زکوٰة واجب ہے) کسی کی بھی نیت نہ کرے تو وہ بھیڑوں کی شمار ہو گی۔لیکن اگر وہ چاندی کے سکے یا کرنسی نوٹ دے جو ان(چیزوں) کے ہم جنس نہیں ہے تو بعض(علماء) کے بقول وہ (سکے یا نوٹ) ان تمام(چیزوں) پر حساب سے بانٹ دیئے جائیں لیکن یہ بات اشکال سے خالی نہیں بلکہ احتمال یہ ہے کہ وہ ان چیزوں میں سے کسی کی بھی (زکوٰة) شمار نہ ہوں گے اور(نیت نہ کرنے تک)مالک مال کی ملکیت رہیں گے۔
(۱۹۲۲)اگر کوئی شخص اپنے مال کی زکوٰة اد اکرنے کے لئے کسی کو وکیل بنائے توضروری ہے کہ مال زکوٰة وکیل کے حوالے کرتے وقت نیت کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس زکوٰة کے فقیر تک پہنچنے تک اپنی اسی نیت پر باقی رہے۔

زکوٰة کے متفرق مسائل
(۱۹۲۳)ضروری ہے کہ انسان گیہوں اور جو کوبھوسے سے الگ کرنے کے موقع پر اور کھجور اور انگور کے خشک ہونے کے وقت زکوٰة فقیر کو دے دے یا اپنے مال سے علیحدہ کر دے۔ضروری ہے کہ سونے ،چاندی،گائے،بھیڑ اور اونٹ کی زکوٰة گیارہ مہینے ختم ہونے کے بعد فقیر کو دے یا اپنے مال سے علیحدہ کر دے۔
(۱۹۲۴)زکوٰة علیحدہ کرنے کے بعد ایک شخص کے لئے لازم نہیں کہ اسے فوراً مستحق شخص کر دے دے اور اگر کسی عقلی مقصد سے اس میں تاخیر کرے تو کوئی حرج نہیں۔
(۱۹۲۵)جو شخص زکوٰة مستحق شخص کو پہنچا سکتا ہو اگر وہ اسے زکوٰة نہ پہنچائے اور اس کے کوتاہی برتنے کی وجہ سے مال زکوٰة تلف ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔
(۱۹۲۶)جو شخص زکوٰة مستحق تک پہنچا سکتا ہواگر وہ اسے زکوٰةنہ پہنچائے اور مال زکوٰة حفاظت کرنے کے باوجود تلف ہو جائے تو زکوٰة ادا کرنے میں تاخیر کی کوئی صحیح وجہ نہ ہو توضروری ہے کہ اس کا عوض دے لیکن اگر تاخیر کرنے کی کوئی صحیح وجہ تھی مثلاً ایک خاص فقیر اس کی نظر میں تھا یا تھوڑا تھوڑا کر کے فقراء کودینا چاہتا تھا تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا ضامن ہے۔
(۱۹۲۷) اگر کوئی شخص زکوٰة(عین اسی)مال سے جدا کر دے تو وہ باقی ماندہ مال میں تصرف کر سکتا ہے اور اگر وہ زکوٰة اپنے کسی دوسرے مال سے جدا کردے تو اس پورے مال میں تصرف کر سکتاہے۔
(۱۹۲۸)انسان نے جو مال زکوٰة کے طور پر علیحدہ کیا ہو اسے اپنے لئے اٹھا کر اس کی جگہ کوئی دوسری چیز نہیں رکھ سکتا۔
(۱۹۲۹)اگر اس مال زکوٰة سے جو کسی شخص نے علیحدہ کر دیا ہو کوئی منفعت حاصل ہو مثلاً جو بھیڑ بطور زکوٰة علیحدہ کی ہو وہ بچہ جنے تو وہ منفعت زکوٰة کا حکم رکھتی ہے۔
(۱۹۳۰)جب کوئی شخص مال زکوٰة علیحدہ کر رہا ہو اگر اس وقت کوئی مستحق موجو د ہو تو بہتر ہے کہ زکوٰة اسے دیدے بجز اس صورت کے کوئی ایسا شخص اس کی نظر میں ہوجسے زکوٰة دینا کسی وجہ سے بہتر ہو۔
(۱۹۳۱)اگر کوئی شخص حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اس مال سے کاروبار کرے جو اس نے زکوٰة کیلئے علیحدہ کر دی ہو اور اس میں خسارہ ہو جائے تو وہ زکوٰة میں سے کوئی کمی نہیں کر سکتا لیکن اگر منافع ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ مستحق کو دیدے۔
(۱۹۳۲)اگر کوئی شخص اس سے پہلے کی زکوٰة اس پر واجب ہو کوئی چیز بطور زکوٰة فقیر کو دے دے تو وہ زکوٰة میں شمار نہیں ہوگی اور اگر اس پر زکوٰة واجب ہونے کے بعد وہ چیز جو اس نے فقیر کو دی تھی تلف نہ ہوئی ہو اور فقیر ابھی تک فقیری میں مبتلا ہو تو زکوٰة دینے والا اس چیز کو جو اس نے فقیر کو دی تھی زکوٰة میں شمار کر سکتا ہے۔
(۱۹۳۳)اگر فقیر یہ جانتے ہوئے کہ زکوٰة ایک شخص پرو اجب نہیں ہوئی اس سے کوئی چیز بطور زکوٰة کے لے لے اور وہ چیز فقیر کی تحویل میں تلف ہو جائے تو فقیر اس کا ذمہ دار ہے اور جب زکوٰة اس شخص پر واجب ہو جائے اور فقیر اس وقت تک تنگدست ہو تو جو چیز اس شخص پر واجب نہیں ہوئی ہے اور اس سے کوئی چیز بطور زکوٰة لے لے اور وہ چیز فقیر کی تحویل میں تلف ہو جائے تو فقیر ذمے دار نہیں ہے اور دینے والاشخص اس چیز کا عوض زکوٰة میں شمار نہیں کر سکتا۔
(۱۹۳۴)اگر کوئی فقیر نہ جانتا ہو کہ زکوٰة ایک شخص پر واجب نہیں ہوئی ہے اور اس سے کوئی چیز بطور زکوٰة لے لے اور وہ چیز فقیر کی تحویل میں تلف ہو جائے تو فقیر ذمے دار نہیں ہے اور دینے والا شخص ا س چیز کا عوض زکوٰة میں شمار نہیں کر سکتا۔
(۱۹۳۵)مستحب ہے کہ گائے، بھیڑ اور اونٹ کی زکوٰة آبرو مند فقراء کو دی جائے اور زکوٰة دینے میں اپنے رشتہ داروں کو دوسروں پر اوراہل علم کے بے علم لوگوں پر اور اور جو لوگ ہاتھ نہ پھیلاتے ہوں ان کو منگتوں پر ترجیح دی جائے۔ہاں ،یہ ممکن ہے کہ کسی فقیر کو کسی اور وجہ سے زکوٰة دینا بہتر ہو۔
(۱۹۳۶)بہتر ہے کہ زکوٰة علانیہ دی جائے اور مستحب صدقہ پوشیدہ طور پر دیا جائے۔
(۱۹۳۷)جو شخص زکوٰة دینا چاہتا ہو اگر اس کے شہر میں کوئی مستحق نہ ہو اور وہ زکوٰة کو اس کے لئے کسی اور معین مد میں بھی صرف نہ کر سکتا ہو تو وہ اسے کسی دوسرے شہر لے جا سکتا ہے اور اس صورت میں اگر اس نے حفاظت میں کوتاہی نہ کی ہو اور وہ مال تلف ہو جائے تو ضامن نہیں ہے۔وہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ حاکم شرع سے وکالت لے لے اور اس مال کو حاکم شرع کی وکالت میں وصول کرے اورپھر اسے کسی شہر میں منتقل کرے ۔اس صورت میں وہ تلف کا ذمہ دار بھی نہ ہوگا اور منتقل کرنے کی اجرت بھی زکوٰة میں سے لے سکتاہے۔
(۱۹۳۸)اگر زکوٰة دینے والے کو اپنے شہر میں کوئی مستحق مل جائے تب بھی وہ مال زکوٰة دوسرے شہر لے جاسکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ اس شہر میں لے جانے کے اخراجات خود برداشت کرے اور اگرمال زکوٰة تلف ہو جائے تو وہ خود ذمے دار ہے بجز اس صورت کے کہ مال زکوٰة دوسرے شہر میں حاکم شرع کے حکم سے لے گیا ہو۔
(۱۹۳۹)جو شخص گیہوں،جو،کشمش اور کجھور بطور زکوٰة دے رہا ہو،ان اجناس کے ناپ تول کی اجرت اس کی اپنی ذمے داری ہے۔
(۱۹۴۰)انسان کے لئے مکروہ ہے کہ مستحق سے درخواست کرے کہ جوزکوٰة اس نے اس سے لی ہے اسی کے ہاتھ فروخت کر دے لیکن اگر مستحق نے جو بطور زکوٰة لی ہے اسے بیچنا چاہیے تو جب اس کی قیمت طے ہو جائے تو جس شخص نے مستحق کو زکوٰة دی ہو اس چیز کو خریدنے کیلئے اس کا حق دوسروں پر فائق ہے۔
(۱۹۴۱)اگر کسی شخص کو شک ہو کہ جو زکوٰة اس پر واجب ہوئی تھی وہ اس نے دی ہے یا نہیں اور جس مال میں زکوٰة واجب ہوئی تھی وہ بھی موجود ہو تو ضروری ہے کہ زکوٰة دے خواہ اس کا شک گزشتہ سالوں کی زکوٰة کے متعلق ہی کیوں نہ ہو ۔اوراگروہ مال ضائع ہو چکا ہو تو اگر چہ اسی سال کی زکوٰة کے متعلق ہی شک کیوں نہ ہو اس پر زکوٰة نہیں ہے۔
(۱۹۴۲)فقیر یہ نہیں کر سکتا کہ زکوٰة لینے سے پہلے اس کی مقدار سے کم مقدار پر مصالحت کر لے یا کسی چیز کو اس کی قیمت سے زیادہ قیمت پر بطور زکوٰة قبول کرے اور اسی طرح مالک بھی یہ نہیں کر سکتا کہ مستحق کو اس شرط پر زکوٰة دے کہ وہ مستحق اسے واپس کر دے گا لیکن اگر مستحق زکوٰة لینے کے بعد راضی ہو جائے ااور اس زکوٰة کو اسے واپس کر دے توکوئی حرج نہیں ۔مثلاً کسی شخص پر بہت زیادہ زکوٰة واجب ہو اور فقیر ہو جانے کی وجہ سے وہ زکوٰة ادا نہ کر سکتا ہواور اس نے توبہ کر لی ہو تو اگر فقیر راضی ہو جائے کہ اس سے زکوٰة لے کر پھر اسے بخش دے تو کوئی حرج نہیں۔
(۱۹۴۳)انسان قرآن مجید،دینی کتابیں یا دعا کی کتابیں سہم فی سبیل اللہ سے خرید کر وقف نہیں کر سکتا۔لیکن اگر رفاہ عامہ کے لئے ان چیزوں کی ضرورت ہو تواحتیاط لازم کی بنا پر حاکم شرع سے اجازت لے لے۔
(۱۹۴۴)انسان مال زکوٰة سے جائیداد خرید کر اپنی اولاد یا ان لوگوں کو وقف نہیں کر سکتا جن کا خرچہ اس پر واجب ہو تاکہ وہ اس جائیداد کی منفعت اپنے مصرف میں لے آئیں۔
(۱۹۴۵)حج اور زیارات وغیرہ پر جانے کے لئے انسان فی سبیل اللہ کے حصے سے زکوٰة لے سکتا ہے اگر چہ وہ فقیر نہ ہویا اپنے سال بھر کے اخراجات کے لئے زکوٰة لے چکا ہو لیکن یہ اس صورت میں ہے جبکہ اس کا حج اور زیارات وغیرہ کے لئے جانا لوگوں کے مفاد میں ہو اور احتیاط کی بنا پر ایسے کاموں میں زکوٰة خرچ کرنے کے لئے حاکم شرع سے اجازت لے لے۔
(۱۹۴۶)اگر ایک مالک اپنے مال کی زکوٰة دینے کیلئے کسی فقیر کو وکیل بنائے اور فقیر کو یہ احتمال ہو کہ مالک کا ارادہ یہ تھا کہ وہ خود(یعنی فقیر) اس مال سے کچھ نہ لے تو اس صور ت میں وہ کوئی چیز ان میں سے اپنے لئے نہیں لے سکتا اور اگر فقیر کو یہ یقین ہو کہ مالک کا ارادہ یہ نہیں تھا تو اہ اپنے لئے بھی لے سکتا ہے۔
(۱۹۴۷)اگر کوئی فقیر اونٹ،گائیں،بھیڑیں،سونا اور چاندی بطور زکوٰة حاصل کرے اور ان میں وہ سب شرائط موجود ہوں جو زکوٰة واجب ہونے کے لئے بیان کی گئی ہیں تو ضروری ہے کہ فقیر ان پر زکوٰة دے۔
(۱۹۴۸)اگر دو اشخاص ایک ایسے مال میں حصہ دار ہوں جس کی زکوٰة واجب ہو چکی ہواور ان میں سے ایک اپنے حصے کی زکوٰة دے دے اور بعد میں وہ مال تقسیم کر لیں(اور جوشخص زکوٰة دے چکاہے)اگر چہ اسے علم ہو کہ اس کے ساتھی نے اپنے حصے کی زکوٰة نہیں دی اور نہ ہی بعد میں دے گا تو اس کا اپنے حصے میں تصرف کرنا اشکال نہیں رکھتا۔
(۱۹۴۹)اگر خمس او ر زکوٰة کسی شخص کے ذمے واجب ہو اور کفارہ اور منت وغیرہ بھی اس پر واجب ہو اور وہ مقروض بھی ہو اور ان سب کی ادائیگی نہ کر سکتا ہو تو اگر وہ مال جس پر خمس یا زکوٰة واجب ہو چکی ہو تلف نہ ہو گیا ہو تو ضروری ہے کہ خمس اور زکوٰة دے اور اگر وہ مال تلف ہو گیا ہو تو کفارے او ر نذر سے پہلے زکوٰة ،خمس اور قرض ادا کرے۔
(۱۹۵۰)جس شخص کے ذمے خمس یا زکوٰة واجب الادا ہو اور حج بھی اس پر واجب ہواور وہ مقروض بھی ہو اگروہ مرجائے او ر اس کا مال ان تمام چیزوں کیلئے کافی نہ ہو تو اگر وہ مال جس پر خمس اور زکوٰة واجب ہو چکے ہو ں تلف نہ ہوگیا ہو توضروری ہے کہ خمس یا زکوٰة ادا کی جائے اوراس کا باقی ماندہ مال قرض کی ادائیگی پرخرچ کیا جائے۔اگر وہ مال جس پر خمس اور زکوٰة واجب ہو چکی ہو تلف ہو گیا ہو توضروری ہے کہ اس کا مال قرض کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے اور اس صورت میں اگر بچ جائے توحج کیا جائے اور اگر زیادہ بچا ہو تواسے خمس اور زکوٰة پر تقسیم کر دیا جائے۔
(۱۹۵۱)جو شخص علم حاصل کرنے میں مشغول ہو اگر علم حاصل نہ کرے تو اپنی روزی کمانے کے لئے کام کر سکتا ہو ،اگر اس کا علم حاصل کرنا واجب عینی ہو تو فقراء کے حصے سے اس کو زکوٰة دے سکتے ہیں اور اگر اس علم کا حاصل کرنا عوامی بہبود کے لئے ہو تو فی سبیل اللہ کی مد سے احتیاط کی بنا پر حاکم شرع کی اجازت سے اس کو زکوٰة دینا جائز ہے ۔ان دو صورتوں کے علاوہ اس کو زکوٰة دینا جائز نہیں ہے۔

زکوٰة فطرہ
(۱۹۵۲)عید الفطر کی رات غروب آفتاب کے وقت جو شخص بالغ اور عاقل ہو اور نہ تو بے ہوش ہو اور نہ فقیر اور نہ کسی دوسرے کا غلام ہو توضروری ہے کہ اپنے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو اس کے ہاں کھانا کھاتے ہوں فی کس ایک صاع جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تقریباً تین کلو ہوتا ہے ان غذاؤں میں سے جو اس کے شہر (یا علاقے)میں استعمال ہوتی ہوں،مثلاً گیہوں یا جو کھجوریاکشمش یا چاول یاجوار مستحق شخص کودے اور اگر ان کے بجائے ان کی قیمت نقدی کی شکل میں دے تب بھی کافی ہے۔احتیاط لازم یہ ہے کہ جو غذا اس کے شہر میں عام طور پر استعمال نہ ہوتی ہو چاہیے وہ گیہوں ،جو،کھجور یا کشمش ہو،نہ دے۔
(۱۹۵۳)جس شخص کے پاس اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے سال بھرکے اخراجات نہ ہوں اور اس کا کوئی روزگار بھی نہ ہو جس کے ذریعے وہ اپنے اہل وعیال کا سال بھر کاخرچہ پورا کر سکے وہ فقیر ہے اور اس پر فطرہ دینا واجب نہیں ہے۔
(۱۹۵۴)جو لوگ عید الفطر کی رات غروب کے وقت کسی کے ہاں کھانے والے سمجھے جائیں ضروری ہے کہ صاحب خانہ ان کا فطرہ دے ،قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، مسلمان ہوں یا کافر ،ان کاخرچہ اس پر واجب ہو یا نہ ہو اور وہ اس کے شہر میں ہوں یا کسی دوسرے شہر میں ہوں۔
(۱۹۵۵)اگر کوئی شخص ایک ایسے شخص کو جو اس کے ہاں کھانا کھانے والا گردانا جائے ،اور دوسرے شہر میں ہو، اپنا نمائندہ مقرر کرے کہ اس کے(یعنی صاحب خانہ کے)مال سے اپنا فطرہ دے دے اور اسے اطمینان ہو کہ وہ شخص فطرہ دے دے گا تو خود صاحب خانہ کے لئے اس کا فطرہ دینا ضروری نہیں۔
(۱۹۵۶)جو مہمان عید الفطر کی رات غروب سے پہلے صاحب خانہ کی رضامندی سے اس کے گھر آئے، رات اس کے ہاں گزارے اور اس کے ہاں کھانا کھانے والوں میں اگرچہ وقتی طور پر شمار ہو اس کا فطرہ بھی صاحب خانہ پر واجب ہے۔
(۱۹۵۷)جو مہمان عید الفطر کی رات غروب کے بعد وارد ہو اگر وہ صاحب خانہ کے ہاں کھانا کھانے والا شمار ہو تو اس کا فطرہ صاحب خانہ پراحتیاط کی بنا پر واجب ہے اور کھانا کھانے والا شمار نہ ہو تو واجب نہیں ہے اور جس شخص کو انسان نے عید کی شب میں اپنے گھر افطار پر بلایا ہو،وہ اس کے ہاں کھانا کھانا والاشمار نہیں ہوتا اور صاحب خانہ پر اس کا فطرہ واجب نہیں ہے۔
(۱۹۵۸)اگر کوئی شخص عید الفطر کی رات غروب کے وقت دیوانہ ہو اور اس کی دیوانگی عید الفطر کے دن ظہر کے وقت تک باقی رہے تو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے ورنہ احتیاط واجب کی بنا لازم ہے کہ فطرہ دے۔
(۱۹۵۹)غروب آفتاب سے پہلے اگر کوئی بچہ بالغ ہو جائے یا کوئی دیوانہ عاقل ہو جائے یا کوئی فقیر غنی ہو جائے تو اگر وہ فطرہ واجب ہونیکی شرائط پوری کرتا ہو توضروری ہے کہ فطرہ دے۔
(۱۹۶۰)اگر عید الفطر کی رات غروب کے وقت فطرہ واجب ہونیکی شرائط نہ ہوں،لیکن اگر عید کے دن ظہر کے وقت سے پہلے تک فطرہ واجب ہونے کی شرائط اس میں موجود ہوجائیں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ فطرہ دے۔
(۱۹۶۱)اگر کوئی کافر عید الفطر کی رات غروب آفتاب کے بعد مسلمان ہو جائے تو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے۔لیکن اگر ایک ایسا مسلمان جو شیعہ نہ ہو وہ عید کا چاند دیکھنے کے بعد شیعہ ہو جائے توضروری ہے کہ فطرہ دے۔
(۱۹۶۲)جس شخص کے پاس صرف اندازاً ایک صاع گیہوں یا اس جیسی کوئی جنس ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ فطرہ دے اور اگر اس کے اہل وعیال بھی ہوں اور وہ ان کا فطرہ بھی دینا چاہتا ہو تو وہ ایسا کر سکتا ہے کہ فطرے کی نیت سے ایک صاع گیہوں وغیرہ اپنے اہل و عیال میں سے کسی ایک کو دے دے اور وہ بھی اسی نیت سے دوسرے کو دے دے اور وہ اسی طرح دیتے رہیں حتیٰ کہ وہ جنس خاندان کے آخری فرد تک پہنچ جائے اور بہتر ہے کہ جوچیز آخری فرد کے ملے وہ کسی ایسے شخص کو دے جو خود ان لوگوں میں سے نہ ہو جنہوں نے فطرہ ایک دوسرے کودیا ہے اور اگر ان لوگوں میں کوئی نابالغ یا دیوانہ ہو تو اس کا سر پرست اس کی بجائے فطرہ لے سکتا ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ چیز اس کی نیت سے نہ لے بلکہ خود کے لئے لے۔
(۱۹۶۳)اگر عید الفطر کی رات غروب کے بعد کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کا فطرہ دینا واجب نہیں ہے لیکن اگر غروب سے پہلے صاحب اولاد ہو جائے یا شادی کرلے،اگر وہ اس کے ہاں کھانا کھانے والے شمار ہوں تو ان کا فطرہ دینا ضروری ہے اوراگر وہ کسی اور کے ہاں کھانا کھانے والے شمار ہوں تو اس پر(یعنی باپ یا شوہر پر)ان کا فطرہ واجب نہیں اور اگر کسی کے ہاں کھانا کھانے والے نہ سمجھے جائیں تو عورت کافطرہ خود پر واجب ہے اور بچے کی کوئی ذمہ داری نہیں۔
(۱۹۶۴)اگر کوئی شخص کسی کے ہاں کھانا کھاتا ہو اور غروب سے پہلے کسی دوسرے کے ہاں کھانا کھانے والا ہوجائے تو اس کافطرہ اسی شخص پر واجب ہے جس کے ہاں وہ کھانا کھانے والابن جائے۔مثلاً اگر عورت غروب سے پہلے شوہر کے گھر چلی جائے توضروری ہے کہ شوہر اس کا فطرہ دے۔
(۱۹۶۵)جس شخص کا فطرہ کسی دوسرے شخص پر واجب ہو اس پر اپنا فطر ہ دینا واجب نہیں ہے۔لیکن اگر وہ اس کا فطرہ نہ دے یا نہ دے سکتا ہو تو احتیاط کی بنا پر خود اس شخص پر واجب ہے کہ مسئلہ ۱۹۵۲میں ذکر شدہ شرائط اگر اس میں موجود ہوں توخود اپنا فطرہ دے۔
(۱۹۶۶)جس شخص کا فطرہ کسی دوسرے شخص پر واجب ہو،اگر وہ خود اپنا فطرہ دے دے تو جس شخص پر اس کا فطرہ واجب ہو اس پر سے اس کی ادائیگی کاوجوب ساقط نہیں ہوتا۔
(۱۹۶۷)غیر سید،کسی سید کو فطرہ نہیں دے سکتا حتیٰ کہ اگر سید اس کے ہاں کھانا کھاتا ہو تب بھی اس کا فطرہ وہ کسی دوسرے سید کو نہیں دے سکتا۔
(۱۹۶۸)جو بچہ ماں یا دایہ کادودھ پیتا ہو اس کافطرہ اس شخص پر واجب ہے جو ماں یا دایہ کے اخراجات برداشت کرتا ہو،لیکن اگر ماں یا دایہ اپنا خرچہ بچے کے مال سے پورا کرتی ہو توبچے کا فطرہ کسی پر واجب نہیں۔
(۱۹۶۹)انسان اگرچہ اپنے اہل و عیال کا خرچ حرام مال سے دیتا ہو ،ضروری ہے کہ ان کا فطرہ حلال مال سے دے۔
(۱۹۷۰)اگر انسان کسی شخص کو اجرت پر رکھے جیسے مستری،بڑھئی یا خدمتگار اور اس کاخرچ اس طرح دے کہ وہ اس کا کھاناکھانے والوں میں شمار ہو توضروری ہے کہ اس کا فطرہ بھی دے۔لیکن اگر اسے صرف کام کی مزدوری دے تو اس(اجیر)کا فطرہ ادا کرنا اس پر واجب نہیں ہے۔
(۱۹۷۱)اگرکوئی شخص عیدا لفطرکی رات غروب سے پہلے فوت ہوجائے تو اس کا اور اس کے اہل وعیال کا فطرہ اس کے مال سے دیا جاناضروری نہیں۔لیکن اگر غروب کے بعد فوت ہو تو علماء میں مشہور یہ ہے کہ اس کا اور اس کے اہل وعیال کا فطرہ اس کے مال سے دیا جائے۔لیکن یہ حکم اشکال سے خالی نہیں اوراحتیاط کے تقاضوں کو ترک نہ کیا جائے۔

زکوٰة فطرہ کا مصرف
(۱۹۷۲)فطرہ احتیاط واجب کی بنا پر فقط ان شیعہ اثنا عشری فقراء کو دینا ضروری ہے جوان شرائط پر پورے اترتے ہوں جن کاذکر زکوٰة کے مستحقین میں ہوچکا ہے اور اگر شہر میں شیعہ اثنا عشری فقراء نہ ملیں تو دوسرے مسلمان فقراء کو فطرہ دے سکتا ہے ۔لیکن ضروری ہے کہ کسی بھی صورت میں ناصبی کو نہ دیا جائے۔
(۱۹۷۳)اگر کوئی شیعہ بچہ فقیر ہو تو انسان یہ کر سکتا ہے کہ فطرہ اس پرخرچ کرے یا اس کے سر پرست کو دے کر اسے بچے کی ملکیت قرار دے۔
(۱۹۷۴)جس فقیر کو فطرہ دیا جائے توضروری نہیں کہ وہ عادل ہولیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ شرابی ،بے نمازی اور جو کھلم کھلا گناہ کرتا ہو اسے فطرہ نہ دیا جائے۔
(۱۹۷۵)جو شخص فطرہ ناجائز کاموں میں خرچ کرتاہو تو اسے فطرہ نہ دیا جائے۔
(۱۹۷۶)احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک فقیر کو ایک صاع سے کم فطرہ نہ دیا جائے۔مگر اس صورت میں دیا جا سکتا ہے کہ سب موجود فقراء کو نہ پہنچ سکے۔البتہ ایک صاع سے زیادہ دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۱۹۷۷)جب کسی جنس کی قیمت اسی جنس کی معمولی قسم سے دگنی ہو ،مثلاً کسی گیہوں کی قیمت معمولی قسم کی گیہوں کی قیمت سے دگنی ہو تو اگر کوئی شخص اس(بڑھیا جنس)کا آدھا صاع فطرہ دے تو یہ کافی نہیں ہے بلکہ اگر وہ آدھا صاع فطرہ کی قیمت کی نیت سے بھی دے تو کافی نہیں ہے۔
(۱۹۷۸)انسان آدھا صاع ایک جنس کا مثلاً گیہوں کا اور آدھا صاع کسی دوسری جنس مثلاً جوکا ،بطور فطرہ نہیں دے سکتا بلکہ اگر یہ آدھا آدھاصاع فطرہ کی قیمت کی نیت سے بھی دے تو کافی نہیں ہے۔
(۱۹۷۹)انسان کے لئے مستحب ہے کہ زکوٰة دینے میں اپنے رشتے داروں اور ہمسایوں کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دے۔مناسب یہ ہے کہ اہل علم و فضل اور دیندار لوگوں کو بھی دوسروں پر ترجیح دے۔
(۱۹۸۰)اگر انسان یہ خیال کرتے ہوئے کی ایک شخص فقیر ہے اسے فطرہ دے اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ فقیر نہ تھا تو اگر اس نے جو مال فقیر کو دیا تھا وہ ختم نہ ہوگیا ہو توضروری ہے کہ واپس لے لے اور مستحق کو دے دے اور اگر واپس نہ لے سکتا ہو تو ضروری ہے کہ خود اپنے مال سے فطرے کاعوض دے اور اگر اسے یہ علم نہ ہو تو عوض دینا اس پر واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ فطرہ دینے والے خود فطرے کو عوض دے۔
(۱۹۸۱)اگر کوئی شخص کہے کہ میں فقیر ہوں تو اسے فطرہ نہیں دیا جاسکتا بجز اس صورت کے کہ کسی کے کہنے سے اطمینان ہو جائے یا اسے علم ہو کہ وہ پہلے فقیرتھا۔

زکوٰة فطرہ کے متفرق مسائل
(۱۹۸۲)ضروری ہے کہ انسان فطرہ قربت کے قصد سے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے دے اور اسے دیتے وقت فطرے کی نیت کرے۔
(۱۹۸۴)گیہوں یا کوئی دوسری چیز جو فطرہ کے طور پر دی جائے ضروری ہے کہ اس پر واجب ہو جائے قرضے کو فطرے میں شمار کرلے ،تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱۹۸۴)گیہوں یا کوئی دوسری چیز جو فطرہ کے طور پر دی جائے ضروری ہے کہ اس میں کوئی اورجنس یامٹی نہ ملی ہوئی ہو۔ اگر اس میں کوئی ایسی چیز ملی ہوئی ہو اورخالص مال ایک صاع تک پہنچ جائے اور ملی ہوئی چیز جداکئے بغیر استعمال کے قابل ہو یا جدا کرنے میں حد سے زیادہ زحمت نہ ہو یا جوچیز ملی ہوئی ہو وہ اتنی کم ہو کہ قابل توجہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱۹۸۵)اگر کوئی شخص عیب دارچیز فطرے کے طور پر دے تواحتیاط واجب کی بنا پر کافی نہیں ہے۔
(۱۹۸۶)جس شخص کو کئی اشخاص کا فطرہ دینا ہو اس کیلئے ضروری نہیں کہ سارا فطرہ ایک ہی جنس سے دے۔مثلاً اگر بعض افراد کا فطرہ گیہوں سے اور بعض دوسروں کا جو سے دے تو بھی کافی ہے۔
(۱۹۸۷)عید کی نماز پڑھنے والے شخص کو احتیاط واجب کی بنا پر عید کی نماز سے پہلے فطرہ دینا ضروری ہے لیکن اگر کوئی شخص نماز عید نہیں پڑھتا ہے تو فطرے کی ادائیگی میں ظہر تک تاخیر کر سکتاہے۔
(۱۹۸۸)اگر کوئی شخص فطرے کی نیت سے اپنے مال کی کچھ مقدار علیحدہ کر دے اور عید کے دن ظہر کے وقت تک مستحق کو نہ دے توجب بھی وہ مال مستحق کو دے فطرے کی نیت کرے۔اگر تاخیر میں کوئی عقلی وجہ ہو تو کوئی اشکال نہیں۔
(۱۹۸۹)اگر کوئی شخص عید کے دن ظہر تک فطرہ نہ دے اور الگ بھی نہ کرے تو اس کے بعد ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر فطرہ دے۔
(۱۹۹۰)اگر کوئی شخص فطرہ الگ کر دے تو وہ اسے اپنے لئے اٹھا کر دوسرا مال اس کی جگہ بطور فطرہ نہیں رکھ سکتا۔
(۱۹۹۱)اگر کسی شخص کے پاس ایسا مال ہو جس کی قیمت فطرے سے زیادہ ہو تو اگر وہ شخص فطرہ نہ دے اور نیت کرے کہ اس مال کی کچھ مقدار فطرے کیلئے قراد دینا احتیاط واجب کی بنا پر کافی نہیں۔
(۱۹۹۲)کسی شخص نے جو مال فطرے کے لئے الگ کیا ہو اگر وہ تلف ہوجائے تو اگر وہ فقیر تک پہنچ سکتا تھا۔اس نے فطرہ دینے میں تاخیر کی ہو یا اس کی حفاظت کرنے میں کوتاہی کی ہوتوضروری ہے کہ اس کاعوض دے اور اگر فقیر تک نہیں پہنچ سکتا تھا اور اس کی حفاظت مین کوتاہی نہ کی ہو تو پھر ذمہ دار نہیں ہے۔
(۱۹۹۳)اگر فطرہ دینے والے کے اپنے علاقے میں مستحق مل جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ فطرہ دوسری جگہ نہ لے جائے اور اگر دوسری جگہ لے جائے اور مستحق تک پہنچائے تو کافی ہے اور اگر دوسری جگہ پہنچائے اور وہ مال تلف ہو جائے توضروری ہے کہ اس کو کاعوض دے۔