خمس کے احکام
(۱۷۲۱)خمس سات چیزوں پر واجب ہے:
(۱)کاروبار(یارروزگار) کامنافع۔
(۲)معدنی کانیں۔
(۳)دفینہ(گڑا ہوا خزانہ)
(۴)حلال ما ل جو حرام مال میں مخلوط ہو جائے۔
(۵) غوطہ خوری سے حاصل ہونے والے سمندری موتی اور مونگے۔
(۶)جنگ میں ملنے والا مال غنیمت۔
(۷)مشہور قول کی بنا پر وہ زمین جو ذمی کافر کسی مسلمان سے خریدے۔
(ذیل میں ان کے احکام تفصیل سے بیان کئے جائیں گے۔)
(۱)کاروبار کامنافع
(۱۷۲۲)جب انسان تجارت، صنعت وحرفت یا دوسرے کام دھندوں سے روپیہ پیسہ کمائے مثال کے طور پر اگر کوئی اجیر بن کر کسی متوفی کی نمازیں پڑھے اور روزے رکھے اور اس طرح کچھ روپیہ کمائے لہٰذا اگر وہ کمائی خود اس کے اور اس کے اہل و عیال کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ زائد کمائی کاخمس یعنی پانچواں حصہ اس طریقے کے مطابق دے جس کی تفصیل بعد میں بیان ہوگی۔
(۱۷۲۳)اگر کسی کو کمائی کئے بغیر کوئی آمدنی ہو جائے سوائے کچھ ان چیزوں کے جنہیں آنے والے مسائل میں استثناء کیا جائے گا،مثلاً کوئی شخص اسے بطور تحفہ کوئی چیز دے اور وہ اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔
(۱۷۲۴)عورت کو جو مہر ملتا ہے اور شوہر ،بیوی کو طلاق خلع دینے کے عوض جو مال حاصل کرتا ہے ان پر خمس نہیں ہے۔یہی حکم دیت کے طور پر ملنے والے مال کا ہے اور اسی طرح میراث کے معتبر قواعد کی رو سے جو میراث انسان کو ملے اس کا بھی یہی حکم ہے۔اگر کسی شیعہ مسلمان کو اس کے علاوہ کسی اور ذریعے مثلاً تعصیب ۱ کے ذریعے میراث ملے تو اسے آمدنی سمجھا جائے گا ور اس کا خمس نکالنا ضروری ہے۔اسی طرح اگر اسے باپ اور بیٹے کے علاوہ کسی اور کی طرف سے میراث ملے کہ جس کا خود اسے گمان تک نہ ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ میراث اگرا س کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہو تو اس کا خمس دے۔
(۱۷۲۵)اگر کسی شخص کو کوئی میراث ملے اور اسے معلوم ہو کہ جس شخص سے اسے یہ میراث ملی ہے اس نے اس کا خمس نہیں دیا تھا تو ضروری ہے کہ وارث اس کا خمس دے۔اسی طرح اگر خود اس مال پر خمس واجب نہ ہواور وارث کو علم ہو کہ جس شخص سے اسے مال ورثے میں مِلا ہے اس شخص کے ذمے خمس واجب الادا تھا تو ضروری ہے کہ اس کے مال سے خمس ادا کرے۔ لیکن دونوں صورتوں میں جس شخص سے ما ل ورثے میں ملا ہو اگر وہ خمس دینے کا معتقد نہ ہو یا یہ کہ وہ خمس دیتا ہی نہ ہو تو ضروری نہیں کہ وارث وہ خمس ادا کرے جو اس شخص پر واجب تھا۔
(۱۷۲۶)اگر کسی شخص سے کفایت شعاری کے سبب سال بھر کے اخراجات کے بعد کچھ رقم جمع کی ہو توضروری ہے کہ اس بچت کا خمس دے۔
(۱۷۲۷) جس شخص نے تمام اخراجات کوئی دوسرا شخص برداشت کرتا ہو تو ضروری ہے کہ جتنا مال اس کے ہاتھ آئے اس کا خمس دے۔
(۱۷۲۸)اگر کوئی شخص اپنی جائیداد کچھ خاص افراد مثلاً اپنی اولاد کے لئے وقف کردے اور وہ لوگ اس جائیداد میں کھیتی باڑی اور شجر کاری کریں اور اس سے منافع کمائیں اور وہ کمائی ان کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کمائی کا خمس دیں۔ نیز یہ کہ اگر وہ کسی اور طریقے سے اس جائیداد سے نفع حاصل کریں مثلاً اسے کرائے(یاٹھیکے) پردے دیں توضروری ہے کہ نفع کی جو مقدار ان کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو اس کا خمس دیں۔
(۱۷۲۹)جو مال کسی فقیر نے واجب صدقے مثلاً کفارات یار د مظالم یا مستحب صدقے کے طور پر حاصل کیا ہواگر وہ اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو یا جو مال اسے دیا گیا ہواس سے اس نے نفع کمایا ہو مثلاً اس نے ایک ایسے درخت سے جو اسے دیا گیا ہو میوہ حاصل کیا ہو اور وہ اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوتو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔لیکن جو مال اسے خمس یا زکوٰة کا مستحق سمجھ کر دیا گیا ہو تو ضروری نہیں کہ اس اصلی مال کا خمس دے۔ہاں !اگر اس سے کچھ منافع حاصل ہواہوجو سال بھر کے اخراجات کے بعد بچ گیا ہوتو اس کا خمس ادا کرنا ضروری ہے۔
(۱۷۳۰)اگر کوئی شخص ایسی رقم سے کوئی چیز خریدے جس کا خمس نہ دیا گیا ہو یعنی بیچنے والے سے کہے کہ میں یہ چیز اس رقم سے خرید رہا ہوں اگر بیچنے والا شیعہ اثنا عشری ہو تو ظاہر یہ ہے کہ کل مال کے متعلق معا ملہ درست ہے اور خمس کا تعلق اس چیز سے ہو جاتا ہے جو اس نے اس رقم سے خریدی ہے اور (معاملے میں) حاکم شرع کی اجازت اور دستخط کی ضرورت نہیں ہے۔
(۱۷۳۱)اگر کوئی شخص کوئی چیز خریدے اور معاملہ طے کرنے کے بعد اس کی قیمت اس رقم سے ادا کرے جس کاخمس نہ دیا ہو تو جو معاملہ اس نے کیا ہے وہ صحیح ہے اور جو رقم اس نے فروشندہ کو دی ہے اس کے خمس کے لئے وہ خمس کے مستحقین کامقروض ہے۔
(۱۷۳۲) اگر کوئی شیعہ اثناعشری مسلمان کوئی ایسا مال خریدے جس کاخمس نہ دیا گیا ہو تو اس کا خمس بیچنے والے کی ذمہ داری ہے اورخریدار کے ذمے کچھ نہیں۔
(۱۷۳۳)اگر کوئی شخص کسی شیعہ اثنا عشری مسلمان کو کوئی ایسی چیز بطور عطیہ دے جس کا خمس نہ دیا گیا ہو تو اس کے خمس کی ادائیگی کی ذمہ داری عطیہ دینے والے پر ہے اور (جس شخص کو عطیہ دیا گیا ہو) اس کے ذمے کچھ نہیں۔
(۱۷۳۴) اگر انسان کو کسی کافر سے یا ایسے شخص سے جو خمس دینے پر اعتقاد نہ رکھتا ہو، کوئی مال ملے تو اس مال کا خمس دینا واجب نہیں ہے۔
(۱۷۳۵)تاجر، دکاندار،کاریگر او ر اس قسم کے دوسرے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت سے جب انہوں نے کاروبار یا کام شروع کیا ہو، ایک سال گزر جائے تو جو کچھ ان کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو اس کاخمس دیں۔یہی حکم مجالس پڑھنے والے ذاکر وغیرہ کا ہے۔چاہیے اسے سال کے مخصوص ایام میں ہی آمدنی ہوئی ہو،جبکہ اس کی آمدنی سالانہ اخراجات کا ایک بڑا حصہ ادا کر رہی ہو،جو شخص کسی کام دھندے سے کمائی نہ کرتا ہوتاکہ اس ذریعے سے اپنے اخراجات ادا کرے بلکہ لوگوں یاحکومت کی مدد پر اس کا گزارا ہو یا یا اسے اتفاقاً کوئی نفع حاصل ہوجائے تو جب اسے یہ نفع ملے اس وقت سے ایک سال گزرنے کے بعد جتنی مقدار اس کے سال بھر کے اخراجت سے زیادہ ہو ضروری ہے کہ اس کاخمس دے۔اس اعتبار سے ہر منافع کے لئے ایک علیحدہ سال بھی قرار دے سکتا ہے۔
(۱۷۳۶)سال کے دوران جس وقت بھی کسی شخص کو منافع ملے وہ اس کاخمس دے سکتا ہے اور اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ سال کے ختم ہونے تک اس کی ادائیگی کو موخر کردے، لیکن اگر جانتا ہو کہ سال کے اختتام تک اسے اس کی ضرورت نہیں پڑنے والی ہے تواحتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ فوراً اس کا خمس اد اکرے اور اگر وہ خمس اداکرنے کے لئے شمسی سال(رومن کیلنڈر)کے اختیار کرے تو کوئی حرج نہیں۔
(۱۷۳۷)اگر کسی شخص کو کوئی منافع حاصل ہو لیکن وہ سال کے دوران مر جائے تو ضروری ہے کہ اس کی موت تک کے اخراجات اس منافع میں سے نکال کر باقی ماندہ کا خمس فوراًدے دیاجائے۔
(۱۷۳۸) اگر کسی شخص کے بغرض تجارت خریدے ہوئے مال کی قیمت بڑھ جائے اور وہ اسے نہ بیچے اور اسی سال کے دوران اس کی قیمت گِر جائے تو جتنی مقدار تک قیمت بڑھی ہو اس کا خمس واجب نہیں ہے۔
(۱۷۳۹) اگر کسی شخص کے بغرض تجارت خریدے ہوئے مال کی قیمت بڑھ جائے اور وہ اس امید پر کہ ابھی اس کی قیمت اور بڑھے گی اس مال کو سال کے خاتمے تک فروخت نہ کرے اور پھر اس کی قیمت گر جائے تو جس مقدار تک قیمت بڑھی ہو اس کاخمس دینا احتیاط واجب کی بنا پر واجب ہے۔
(۱۷۴۰)کسی شخص نے مال تجارت کے علاوہ کوئی مال خرید کر یا اسی کی طرح کسی طریقے سے حاصل کیا ہو جس کا خمس وہ ادا کرچکا ہو تو اگر اس کی قیمت بڑھ جائے اور وہ اسے بیچ دے تو ضروری ہے کہ جس قدر اس چیز کی قیمت بڑھی ہے،اگر سال بھر کے اخراجات کے بعد بچ جائے تو اس کا خمس دے۔اسی طرح مثلاً اگر کوئی درخت خریدے اور اس میں پھل لگیں یا (بھیڑ خریدے اور وہ) بھیڑ موٹی ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس اضافی مقدار کا خمس دے۔
(۱۷۴۱)اگر کوئی شخص ایسے مال سے جس کا خمس اداکر دیا ہے یا ابھی اس پر خمس واجب نہیں ہوا ہے،اس خیال سے باغ(میں پودے)لگائے کہ قیمت بڑھ جانے پر انہیں بیچ دے گا تو ضروری ہے کہ پھلوں کی اور درختوں کی نشوونما،خودرو یا کاشت کئے ہوئے پودے، خشک شدہ لکڑیاں جو کاٹ کر استفادہ حاصل کرنے کے قابل ہوگئی ہوں اور باغ کی بڑھی ہوئی قیمت کا خمس دے۔لیکن اگر اس کا ارادہ یہ رہا ہو کہ ان درختوں کے پھل بیچ کر ان سے نفع کمائے گا تو قیمت کی اضافی مقدار کا خمس ضروری نہیں، باقی ہر چیز کا خمس دیناضروری ہے۔
(۱۷۴۲)اگر کوئی شخص بید،مشک اور چنار وغیرہ کے درخت لگائے توضروری ہے کہ ہر سال ان کے بڑھنے کاخمس دے اور اسی طرح اگر مثلاً ان درختوں کی ان شاخوں سے نفع کمائے جو عموماً ہر سال کاٹی جاتی ہیں اگر اس کی آمدنی اس کے سال بھر کے اخراجات سے بڑھ جائے توضروری ہے کہ اس کاخمس دے،
(۱۷۴۳)اگر کسی شخص کی آمدنی کے متعدد ذرائع ہوں، مثلاً اپنے سرمائے سے اس نے شکر بھی خرید کر رکھی ہو اور چاول بھی،اگر ان تما م ذرائع تجارت کی آمدنی اور اخراجات اور تمام رقم کا حساب کتاب یکجا ہو تو ضروری ہے کہ سال کے خاتمے پر جو کچھ اس کے اخراجات سے زائد ہو اس کا خمس ادا کرے۔اگر ایک ذریعے سے نفع کمائے اور دوسرے ذریعے سے نقصان اٹھائے تو وہ ایک ذریعے کے نقصان کا دوسرے ذریعے کے نقصان سے تدارک کر سکتا ہے۔لیکن اگر اس کے دو مختلف پیشے ہوں مثلاً تجارت اور زراعت کرتا ہو یا ایک پیشہ ہو لیکن مختلف چیزوں کا حساب کتاب بالکل جدا ہو تو ان دو صورتوں میں احتیاط واجب کی بنا پر وہ ایک پیشے کے نقصان کا تدارک دوسرے پیشے کے نفع سے نہیں کر سکتا۔
(۱۷۴۴)انسان جو اخراجات فائدہ حاصل کرنے کے لئے مثلاً دلالی اوربار برداری کے سلسلے میں خرچ کرے اسی طرح آلات اور وسائل پر جو نقص آئے تو انہیں منافع میں سے منہا کر سکتا ہے اور اتنی مقدار کا خمس اداکرنا لازم نہیں۔
(۱۷۴۵)کاروبار کے منافع سے کوئی شخص سال بھر میں جو کچھ خوراک،لباس،گھر کے سازوسامان،مکان کی خریداری،بیٹے کی شادی ،بیٹی کے جہیزاورزیارات وغیرہ پر خرچ کرے اس پر خمس نہیں ہے بشرطیکہ ایسے اخراجات اس کی حیثیت سے زیادہ نہ ہوں۔
(۲۷۴۶)جو مال انسان منت اور کفارے پر خرچ کرے وہ سالانہ اخراجات کا حصہ ہے۔اسی طرح وہ مال بھی اس کے سالانہ اخراجات کا حصہ ہے جو وہ کسی کو تحفے یا انعام کے طور پر دے بشرطیکہ اس کی حیثیت سے زیادہ نہ ہو۔
(۱۷۴۷)اگر رواج اس بات کا ہو کہ انسان اپنی لڑکی کا جہیز چند سالوں میں بتدریج بنائے اور جہیز تیار نہ کرنا اس کی شان کے خلاف ہو،چاہے اسی اعتبار سے کہ وہ عین وقت پر سارا جہیز تیار نہ کر پائے گا اور وہ سال کے دوران اسی سال کے منافع سے کچھ جہیز خریدے جو اس کی حیثیت سے بڑھ کر نہ ہو اور عرفی اعتبار سے جہیز کی اتنی مقدار اس کے سال کے اخراجات میں سے سمجھی جائے تو اس پر خمس دینا لازم نہیں ہے اور اگر وہ جہیز اس کی حیثیت سے بڑھ کر ہو یا ایک سال کے منافع سے دوسرے سال میں تیار کیا گیا ہو تو اس کا خمس دینا ضروری ہے۔
(۱۷۴۸)جو مال کسی شخص نے زیارت بیت اللہ(حج) اور دوسری زیارات کے سفر پر خرچ کیا ہو وہ اس سال کے اخراجات میں شمار ہوتا ہے جس سال میں خرچ کیا جائے اور اگر اس کا سفر سال سے زیادہ لمبا ہو جائے تو جو کچھ وہ دوسرے سال میں خرچ کرے اس کا خمس دینا ضروری ہے۔
(۱۷۴۹)جو شخص کسی پیشے یا تجارت وغیرہ سے منافع حاصل کرے اگر اس کے پاس کوئی اور مال بھی ہو جس پر خمس واجب نہ ہو تو وہ اپنے سال بھر کے اخراجات کا حساب فقط اپنے منافع کو مد نظر رکھتے ہوئے کر سکتاہے۔
(۱۷۵۰)جو سامان کسی شخص نے سال بھر استعمال کرنے کے لئے اپنے منافع سے خریدا ہواگر سال کے آخر میں اس میں سے کچھ بچ جائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگرخمس اس کی قیمت کی صورت میں دینا چاہیے اور جب وہ سامان خریدا تھااس کے مقابلے میں اس کی قیمت بڑھ گئی ہو تو ضروری ہے کہ سال کے خاتمے پر جوقیمت ہوا س کا حساب لگائے۔
(۱۷۵۱)کوئی شخص خمس دینے سے پہلے اپنے منافع میں سے گھریلو استعمال کے لئے سامان خریدے اگر اس کی ضرورت منافع حاصل ہونے والے سال کے بعد ختم ہو جائے توضروری نہیں کہ اس کا خمس دے اور اگر دوران سال اس کی ضرورت ختم ہو جائے لیکن وہ سامان ان چیزوں میں سے ہو جو عموماًآئندہ سالوں میں استعمال کے لئے رکھی جاتی ہو جیسے سردی اور گرمی کے کپڑے تو ان پر خمس نہیں ہوتا۔اس صورت کے علاوہ دوران سال اگر اس سامان کی ضرورت ختم ہو جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کا خمس دے۔عورت کے لئے جن زیورات کو بطور زینت استعمال کرنے کا زمانہ گزرجائے اس پر بھی خمس نہیں ہے۔
(۱۷۵۲)اگر کسی شخص کو کسی سال میں منافع نہ ہو تو وہ اس سال کے اخراجات کو آئندہ سال کے منافع سے منہا نہیں کر سکتا۔
(۱۷۵۳)اگر سرمائے کا کچھ حصہ تجارت وغیرہ میں ڈوب جائے تو جس قدر سرمایہ ڈوبا ہو انسان اتنی مقدار اس سال کے منافع میں سے منہا کر سکتا ہے۔
(۱۷۵۴)اگر سرمائے کا کچھ حصہ تجارت وغیرہ میں ڈوب جائے تو جس قدر سرمایہ ڈوبا ہو انسان اتنی مقدار اس سال کے منافع میں سے منہا کر سکتا ہے۔
(۱۷۵۵) اگر کسی شخص کے مال میں سے سر مائے کے علاوہ کوئی اور چیز ضائع ہو جائے، اگر اسے اسی سال میں اس چیز کی ضرورت پڑجائے تو وہ اس سال کے دوران اپنے منافع سے مہیا کر سکتا ہے ،اس پر خمس نہیں ہے۔
(۱۷۵۶)اگر کسی شخص کو سارا سال کوئی منافع نہ ہو اور وہ اپنے اخراجات قرض لے کر پورے کرے تو وہ آئندہ سالوں کے منافع سے قرض کی رقم منہا نہیں کر سکتا۔لیکن اگر سال کے دوران اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض لے اور سال ختم ہونے سے پہلے منافع کمائے تو اپنے قرضے کی رقم اس منافع میں سے منہا کر سکتا ہے ۔اسی طرح پہلی صورت میں وہ اس قرض کو سال کے منافع سے ادا کر سکتا ہے اور منافع کی اس مقدار سے خمس کا کوئی تعلق نہیں۔
(۱۷۵۷)اگر کوئی شخص مال بڑھانے کی غرض سے یا ایسی املاک خریدنے کیلئے جس کی اسے ضرورت نہ ہو قرض لے تو اگر وہ اس سال کے منافع میں سے خمس ادا کئے بغیر وہ قرضہ ادا کر دے تو سال گزرنے پر ضروری ہے کہ اس چیز کا خمس ادا کرے،سوائے اس صورت میں کہ قرضے میں لیا ہو امال اس مال سے خریدی گئی چیز سال کے دوران ہی ختم ہو جائے۔
(۱۷۵۸)انسان ہر اس چیز پر خمس واجب ہو چکا ہو اسی چیز کی شکل میں خمس دے سکتا ہے اور اگر چاہے تو جتنا خمس اس پر واجب ہو اس کی قیمت کے برابر رقم بھی دے سکتا ہے لیکن اگر کسی دوسری جنس کی صورت میں جس پر خمس واجب نہ ہو دینا چاہے تو محل اشکال ہے بجز اس کے کہ ایسا کرنا حاکم شرع کی اجازت سے ہو۔
(۱۷۵۹)جس شخص کے مال پر خمس واجب الادا ہو اور سال گزر گیا ہو لیکن اس نے خمس نہ دیا ہو تو وہ اس مال میں تصرف نہیں کر سکتا۔
(۱۷۶۰)جس شخص کو خمس ادا کرنا ہو وہ یہ نہیں کر سکتا کہ اس خمس کو اپنے ذمے لے یعنی اپنے آپ کو خمس کے مستحقیں کا مقروض تصور کرے اور سارا مال استعمال کرتارہے اور اگر استعمال کرے اور وہ مال تلف ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔
(۱۷۶۱)جس شخص کا خمس ادا کرنا ہو اگر وہ حاکم شرع سے مفاہمت کر کے خمس کو اپنے ذمے لے لے تو سارا مال استعمال کر سکتا ہے اور مفاہمت کے بعداس مال سے جو منافع اسے حاصل ہو وہ اس کا اپنا مال ہے۔البتہ ضروری ہے کہ اپنا خمس والا قرضہ بتدریج اس طرح ادا کرے کہ اسے خمس ادا کرنے میں سستی کرنا نہ کہا جاسکے۔
(۱۷۶۲)جو شخص کاروبار میں کسی دوسرے کے ساتھ شریک ہوا گروہ اپنے منافع پر خمس دیدے اور اس کا حصے دار نہ دے اورآئندہ سال وہ حصے دار اس مال کو جس کا خمس اس نے نہیں دیا سانجھے میں سرمائے کے طور پر پیش کرے تو وہ شخص(جس نے خمس ادا کر دیا ہو)اگر شیعہ اثنا عشری مسلمان ہو تو اس مال کو استعمال میں لاسکتا ہے۔
(۱۷۶۳)اگر نابالغ بچے کو کوئی منافع حاصل ہو چاہے تحفوں کی صورت میں ہی ہو اور دوران سال وہ بچے کے ضروریات میں استعمال نہ ہو تو اس کا خمس دینا ہو گا اور اس کے ولی پر واجب ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر ولی خمس نہ دے تو بالغ ہونے کے بعد واجب ہے کہ وہ خود اس کا خمس دے۔
(۱۷۶۴)جس شخص کو کسی دوسرے شخص سے کوئی مال ملے اور اسے شک ہو کہ (مال دینے والے) دوسرے شخص نے اس کا خمس دیا ہے یا نہیں تو وہ(مال حاصل کرنے والاشخص)اس مال میں تصرف کر سکتا ہے۔بلکہ اگر یقین بھی ہو کہ اس دوسرے شخص نے خمس نہیں دیا تب بھی اگر وہ شیعہ اثنا عشری مسلمان ہو تو اس مال میں تصرف کر سکتا ہے۔
(۱۷۶۵)اگر کوئی شخص کاروبار کے منافع سے سال کے دوران کوئی ایسی چیز خریدے جو اس کی سال بھر کی ضروریات اور اخراجات میں شمار نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ سال کے خاتمے پر اس کا خمس دے اور اگر خمس نہ دے اور اس چیز کی قیمت بڑھ جائے تو لازم ہے کہ اس کی موجودہ قیمت پر خمس دے۔
(۱۷۶۶)اگر کوئی شخص کوئی چیز خریدے اور ایسے مال سے جس پر خمس نہ دیا ہو اور اس پر ایک سال گزر چکا ہو، اس کی قیمت ادا کرے اور پھر اس کی قیمت بڑھ جائے ،اگر اس نے یہ چیز اس ارادے سے نہ خریدی ہو کہ اس کی قیمت بڑھ جائے گی تو بیچ دے گا، مثلاً کھیتی باڑی کے لئے زمین خریدی ہو تو ضروری ہے کہ قیمت خرید پر خمس دے اور مثلاً اگر بیچنے والے کو وہ رقم دی ہو جس پر خمس نہ دیا ہو اور اس سے کہا ہو کہ میں یہ جائیداد اس رقم سے خریدتا ہوں تو ضروری ہے کہ اس جائیداد کی موجودہ قیمت پر خمس دے۔
(۱۷۶۷)جس شخص نے شروع سے (یعنی جب سے خمس کی ادائیگی اس پر واجب ہوئی)یا چند سالوں سے خمس نہ دیا ہو اگر اس نے اپنے کاروبار کے منافع سے کوئی ایسی چیز خریدی ہو جس کی اسے ضرورت نہ ہو اور اسے کاروبار شروع کئے ہوئے یااگر کاروباری نہ ہو تو منافع کمائے ایک سال گذر گیا ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اگر اس نے گھر کا سازوسامان اور ضرورت کی چیزیں اپنی حیثیت کے مطابق خریدی ہوں اور جانتا ہو کہ اس نے یہ چیزیں اس سال کے دوران اس منافع سے خریدی ہیں جس سال میں اسے منافع ہواہے اوراسی سال میں انہیں استعمال بھی کر لیا ہے تو اس ان پر خمس دینا لازم نہیں۔لیکن اگراسے یہ معلوم نہ ہو تواحتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ حاکم شرع سے احتمالی نسبت پر مفاہمت کرے یعنی اگر مثلاً۵۰ فیصد پر خمس واجب ہو گیا ہو گا تو ضروری ہے کہ اس کا ۵۰ فیصد خمس کے طور پر دے۔
۲۔معدنی کا نیں
(۱۷۶۸)سونے، چاندی، سیسے، تانبے، لوہے، (جیسی دھاتوں کی کانیں)نیز پیڑولیم، کوئلے، فیروزے، عقیق، پھٹکری یا نمک کی کانیں اور(اسی طرح کی) دوسری کانیں انفال کے زمرے میں آتی ہیں یعنی وہ امام عصر -کی ملکیت ہیں۔لیکن اگر کوئی شخص ان میں سے کوئی چیز نکالے جبکہ شرعاً کوئی حرج نہ ہوتو وہ اسے اپنی ملکیت قراردے سکتا ہے اور اگر وہ چیز نصاب کے مطابق ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔
(۱۷۶۹)کان سے نکلی ہوئی چیز کا نصاب ۱۵ مثقال مروجہ سکہ دار سونا ہے یعنی اگر کان سے نکالی ہوئی کسی چیز کی قیمت ضروری اخراجات نکالنے کے بعد ۱۵ مثقال سکہ دار سونے تک پہنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس پر بعد میں جو اخراجات آئے ہوں جیسے اس دھات کو خالص بنانے کے اخراجات ،انہیں منہا کر کے جو باقی بچے اس کا خمس دے۔
(۱۷۷۰)جس شخص نے کان سے منافع کمایا ہو اور جو چیز کان سے نکالی ہو اگر س کی قیمت ۱۵ مثقال سکہ دار سونے تک نہ پہنچے تو اس پر خمس تب واجب ہو گا جب صرف یہ منافع یا اس کے دوسرے منافعے اس منافع کو ملا کر اس کے سال بھر کیاخراجات سے زیادہ ہو جائیں۔
(۱۷۷۱)جپسم اور چونے پر احتیاط لازم کی بنا پر معدنی چیزوں کے حکم کا اطلاق ہوتا ہے لہذا اگر یہ چیزیں حد نصاب تک پہنچ جائیں تو سال بھر کے اخراجات نکالنے سے پہلے ان کاخمس دینا ضروری ہے۔
(۱۷۷۲)جو شخص کان سے کوئی چیز نکالے تو ضروری ہے کہ اس کاخمس دے خواہ وہ کا ن زمیں کے اوپر ہو یا زیر زمین اورخواہ ایسی زمین میں ہو جو اس کی ملیکت ہو یا ایسی زمین میں ہو جس کا کوئی مالک نہ ہو۔
(۱۷۷۳)اگر کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ جو چیز اس نے کان سے نکالی ہے اس کی قیمت ۱۵مثقال سکہ دار سونے کے برابر ہے یا نہیں تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو وزن کر کے یا کسی اور طریقے سے اس کی قیمت معلوم کرے اور اگر ممکن نہ ہو تو اس پر خمس واجب نہیں۔
(۱۷۷۴)اگر کئی افراد مل کر کان سے کوئی چیز نکالیں اور اس کی قیمت۱۵مثقال سکہ دار سونے تک پہنچ جائے لیکن ان میں سے ہر ایک کا حصہ اس مقدار سے کم ہو تو اس پر خمس واجب نہیں۔
(۱۷۷۵)اگر کوئی شخص اس معدنی چیز کو ایسی زمین کے نیچے سے جو دوسرے کی ملکیت میں ہو اس کی اجازت کے بغیر اس کی زمین کھود کر نکالے تو مشہور قول یہ ہے کہ جو چیز دوسرے کی زمین سے نکالی جائے وہ اسی مالک کی ہے لیکن یہ بات اشکال سے خالی نہیں اور بہتر یہ ہے کہ باہم معاملہ طے کریں اور اگر آپس میں سمجھوتہ نہ ہو سکے تو حاکم شرع کی طرف رجوع کریں تاکہ وہ اس تنازعے کا فیصلہ کرے۔
۳۔گڑا ہوا دفینہ
(۱۷۷۶)دفینہ وہ منتقل شدہ مال ہے جو چھپا ہو اہو اور لوگوں کی دسترس سے نکل چکا ہواور جسے زمیں،درخت ،پہاڑیا دیوار میں چھپایا گیاہو،جبکہ معمولاً وہ ایسی جگہ نہیں ہو تا۔
(۱۷۷۷)اگر انسان کو کسی ایسی زمین سے دفینہ ملے جو کسی کی ملکیت نہ ہو یا موات اور خود اس نے اس زمین پر محنت کر کے اسے اپنی ملکیت میں لیا ہو تو وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔
(۱۷۷۸)دفینے کا نصاب۱۰۵مثقال سکہ دار چاندی اور ۱۵مثقال سکہ دار سونا ہے یعنی جو چیز دفینے سے ملے اگر اس کی قیمت ان دونوں میں سے کسی ایک کے بھی برابر ہو تو اس کا خمس دینا واجب ہے۔
ّ(۱۷۷۹)اگر کسی شخص کو ایسی زمین سے جو اس نے کسی سے خریدی ہو مثلاً اجارے وغیرہ سے اس پر حق تصرف حاصل کیا ہو کوئی ایسا دفینہ ملے جس کا تعلق کسی مسلمان یا کافر ذمی سے نہ ہویااگر ہو تو اتنے قدیم زمانے سے تعلق ہو کہ جس کے بعد اس کے کسی بھی وارث کو تلاش نہ کیا جا سکے تو وہ اسے ملکیت میں لے سکتا ہے اور اس پر خمس دینا بھی ضروری ہے۔ اگر عقلی احتمال ہو کہ یہ سابقہ مالک کا مال ہے جبکہ زمین اور اسی طرح دفینہ یا وہ جگہ ضمناً زمین میں شامل ہونے کی بنا پر اس کا حق ہو توضروری ہے کہ اسے اطلاع دے اب اگر وہ اِس مال کا دعویٰ کرے تو ضروری ہے کہ وہ مال اسے دے دے اور اگر دعویٰ نہ کرے تو اس شخص کو اطلاع دے جو اس نے بھی پہلے اس زمین کا مالک تھا اور اس پر اس کا حق تھا اور اسی ترتیب سے ان تمام لوگوں کو اطلاع دے جوخود اس سے پہلے ان زمین کے مالک رہے ہوں اور اس پر ان کا حق ہو۔اب اگران میں سے کوئی اس کا دعویٰ نہ کرے اور اسے بھی یہ یقین یہ ہو کہ یہ کسی غیر قدیم مسلمان یا ذمی کا مال ہے تو پھر وہ اسے قبضے میں لے سکتا ہے۔لیکن اس کا خمس دینا ضروری ہے۔
(۱۷۸۰) اگر کسی شخص کو ایک وقت میں چند جگہوں سے مال ملے جس کی مجموعی قیمت ۱۰۵ مثقال چاندی یا ۱۵ مثقال سونے کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ اس مال کا خمس دے لیکن اگر مختلف اوقات مین دفینے ملیں تو زیادہ فاصلہ نہ ہونے کی صورت میں ان تمام کی قیمت ایک ساتھ لگائی جائے گی لیکن اگر فاصلہ زیادہ ہو تو ہر ایک کی قیمت علیحدہ لگائی جائے گی۔
(۱۷۸۱)جب وہ اشخاص کو ایسا دفینہ ملے جس کی قیمت۱۰۵ مثقال چاندی یا ۱۵مثقال سونے تک پہنچتی ہو لیکن ان میں سے ہر ایک کا حصہ اتنا نہ بنتا ہوتو اس پر خمس ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔
(۱۷۸۲)اگر کوئی شخص جانور خریدے اور اس کے پیٹ سے اسے کوئی مال ملے تو اگر اسے احتمال ہو کہ یہ مال بیچنے والے یا پہلے مالک کا ہے اور جانور پر اور جو کچھ اس کے پیٹ سے برآمد ہو اہے اُس پرحق رکھتا ہے تو ضروری ہے کہ اسے اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ وہ مال ان میں سے کسی ایک کا بھی نہیں ہے اور اس کی مقدار نصاب تک ہو توضروری ہے کہ اس کاخمس دے بلکہ احتیاط لازم یہ ہے کہ اس کا خمس دے اگرچہ وہ مال دفینے کے نصاب کے برابرنہ ہو اور باقی مال اس کی ملکیت ہو گا اور یہ حکم مچھلی اور اس کی مانند دوسرے ایسے جانداروں کے لئے بھی ہے جن کی کوئی شخص کسی مخصوص جگہ میں افزائش و پرورش کرے اور ان کی غذا کا انتظام کرے اور اگر سمندر یا دریا سے اسے پکڑلے تو کسی کو اس کی اطلاع دینا لازم نہیں۔
۴۔ وہ حلال مال جو حرام مال میں مخلوط ہو جائے
(۱۷۸۳)اگر حلال مال حرام مال کے ساتھ مل جائے کہ انسان انہیں ایک دوسرے سے الگ نہ کر سکے اور حرام مال کے مالک اور اس کی مقدار کا بھی علم نہ ہو اور یہ بھی علم نہ ہوکہ حرام مال کی مقدار خمس سے کم ہے یا زیادہ تو تمام مال کا خمس نکالنے سے وہ مال حلال ہوجاتا ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ کسی ایسے شخص کو دے جو خمس اور رد مظالم کا مستحق ہو۔
(۱۷۸۴)اگر حلال مال حرام سے مل جائے اورانسان کوحرام کی مقدار کا علم نہ ہو۔۔خواہ وہ خمس سے کم ہو یا زیادہ… جانتا ہو لیکن اس کے مالک کو نہ جانتا ہو تو ضروری ہے کہ اتنی مقدار اس مال کے مالک کی طرف سے صدقہ کردے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع سے بھی اجازت لے۔
(۱۷۸۵)اگرحلال مال حرام سے مل جائے اورا نسان حرام کی مقدار کا علم نہ ہو لیکن اس مال کے مالک کوپہچانتا ہو اور دونوں ایک دوسرے سے راضی نہ کر سکیں تو ضروری ہے کہ جتنی مقدار کے بارے میں یقین ہو کہ دوسرے کا مال ہے وہ اسے دیدے۔بلکہ اگر دو مال اس کی اپنی غلطی سے مخلوط ہوئے ہوں تو احتیاط کی بنا پر مال کی جس زیادہ مقدار کے بارے میں احتمال ہو کہ وہ دوسرے کا ہے وہ اسے دینا ضروری ہے۔
(۱۷۸۶)اگر کوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دیدے اوربعد میں اسے پتا چلے کہ حرام کی مقدار خمس سے زیادہ تھی تو ضروری ہے کہ جتنی مقدار کے بارے میں علم ہو کہ خمس سے زیادہ تھی اسے اس کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دے۔
(۱۷۸۷)اگر کوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کاخمس دے یا ایسا مال جس کے مالک کو نہ پہنچانتا ہو مال کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دے اور بعد میں اس کا مالک مل جائے تو اگر وہ راضی نہ ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کے مال کے برابر اسے دینا ضروری ہے۔
(۱۷۸۸)اگر حلال مال حرام مال سے مل جائے اور حرام کی مقدار معلوم ہو اور انسان جانتا ہو کہ اس کا مالک چند لوگوں میں سے کوئی ایک ہے لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ وہ کون ہے تو ضروری ہے کہ ان سب کو اطلاع دے۔
چنانچہ ان میں سے کوئی ایک کہے کہ یہ میرا مال ہے اور دوسرے کہیں کہ ہمارا مال نہیں یا اس پہلے کی تصدیق کردیں تو اسی پہلے شخص کو وہ مال دیدے اور اگر دو یا دو سے زیادہ آدمی کہیں کہ یہ ہمارا مال ہے اور صلح یا اسی طرح کسی طریقے سے وہ معاملہ حل نہ ہو توضروری ہے کہ تنازعے کے حل کے لئے حاکم شرع سے رجوع کریں اور اگر وہ سب لاعلمی کا اظہار کریں اور باہم صلح بھی نہ کریں تو ظاہر یہ کہ اس مال کے مالک کا تعین قرعہ اندازی کے ذریعے ہو گا اور احتیاط یہ ہے کہ حاکم شرع یا اس کا وکیل قرعہ اندازی کی نگرانی کرے۔
۵۔غواصی سے حاصل کئے ہوئے موتی
(۱۷۸۹)اگر غواصی کے ذریعے یعنی سمندرمیں غوطہ لگا کرلئولئو،مرجان یا دوسرے موتی نکالے جائیں تو خواہ وہ ایسی چیزوں میں سے ہوں جو اگتی ہیں یا معدنیات میں سے ہوں ، اگر اس کی قیمت۱۸ چنے سونے کے برابر ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دیا جائے،خواہ انہیں ایک دفعہ میں سمندر سے نکالا گیا ہو یا ایک سے زیادہ دفعہ میں بشرطیکہ پہلی دفعہ اور دوسری دفعہ غوطہ لگانے میں زیادہ فاصلہ نہ ہو مال اگر دونوں مرتبہ میں فاصلہ زیادہ ہو مثلاً یہ کہ دو موسموں میں غواصی کی ہو اور ہر ایک دفعہ میں۱۸ چنے سونے کی قیمت کے برابر نہ ہوتو اس کا خمس دینا واجب نہیں ہے اور اسی طرح جب غواصی میں شریک تمام غوطہ خوروں میں سے ہر ایک کا حصہ ۱۸ چنے سونے کی قیمت کے برابر نہ ہو تو ان پر اس کا خمس دینا واجب نہیں ہے۔
(۱۷۹۰)اگر سمندر میں غوطہ لگائے بغیر دوسرے ذرائع سے موتی نکالے جائیں تو احتیاط کی بنا پر ان پرخمس واجب ہے۔لیکن اگر کوئی شخص سمندر کے پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے موتی حاصل کرے تو ان کا خمس اسے اس صورت میں دینا ضروری ہے جب جو موتی اسے دستیاب ہوئے ہوں وہ تنہا یا اس کے کاروبارکے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو۔
(۱۷۹۱)مچھلیوں اور ان دوسرے(آبی) جانوروں کا خمس جنہیں انسان سمندر میں غوطہ لگائے بغیر حاصل کرتا ہے اس صورت میں واجب ہوتا ہے جب ان چیزوں سے حاصل کردہ منافع تنہا یا کاروبار کے دوسرے منافع سے ملک کر اس کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہو۔
(۱۷۹۲) اگر انسان کوئی چیز نکالنے کا ارادہ کیے بغیر سمندر میں غوطہ لگائے اور اتفاق سے کوئی موتی اس کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے اپنی ملکیت میں لینے کا ارادہ کرے تو اس کا خمس دینا ضروری ہے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ ہر حال میں اس کا خمس دے۔
(۱۷۹۳)اگر انسان سمندر میں غوطہ لگائے اور کوئی جانور نکال لائے اور اس کے پیٹ میں سے اسے کوئی موتی ملے تو اگر وہ جانور سیپی کی مانند ہوجس کے پیٹ میں عموماً موتی ہوتے ہیں اور وہ نصاب تک پہنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر وہ کوئی ایسا جانور ہو جس نے اتفاقاً موتی نگل لیا ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اگر چہ وہ حد نصاب تک نہ پہنچے تب بھی اس کا خمس دے۔
(۱۷۹۴)اگر کوئی شخص بڑے دریاؤں مثلاً دجلہ او ر فرات میں غوطہ لگائے اور موتی نکال لائے تو ضروری ہے کہ ان کا خمس دے۔
(۱۷۹۵)اگر کوئی شخص پانی میں غوطہ لگائے اور کچھ عنبر نکال لائے ور اس کی قیمت ۱۸ چنے سونے یا اس سے زیادہ ہو توضروری ہے کہ اس کا خمس دے بلکہ اگر پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے بھی حاصل کرے تو اس کابھی یہی حکم ہے۔
(۱۷۹۶)جس شخص کا پیشہ غوطہ خوری یا کان کنی ہو اگر وہ ان کا خمس اد ا کردے اور پھر اس کے سال بھر کے اخراجات سے کچھ بچ رہے تو اس کے لئے یہ لازم نہیں کہ دوبارہ اس کا خمس اداکرے۔
(۱۷۹۷)اگر بچہ کوئی معدنی چیز نکالے یا اسے کوئی دفینہ مل جائے یا سمندر میں غوطہ لگا کر موتی نکال لائے تو بچے کا ولی اس کا خمس دے اور اگر ولی خمس ادا نہ کرے تو ضروری ہے کہ بچہ بالغ ہونے کے بعد خود خمس ادا کرے اور اسی طرح اگر اس کے پاس حرام مال میں حلال مال ملا ہوا ہو توضروری ہے کہ اس کا ولی ان احکام کے مطابق عمل کرے جو اس قسم کے مال کے بارے میں بیان کئے گے ہیں۔
۶۔مال غنیمت
(۱۷۹۸)اگر مسلمان امام علیہ السلام کے حکم سے کفار سے جنگ کریں اور جوچیزیں جنگ میں ان کے ہاتھ لگیں انہیں غنیمت کہا جاتا ہے۔اس میں سے جو خاص امام علیہ السلام کا حق ہے اسے علیحدہ کرنے کے بعد ضروری ہے کہ باقی ماندہ پر خمس ادا کیا جائے۔مال غنیمت پر خمس ثابت ہونے میں اشیائے منقولہ اور غیر منقولہ میں کوئی فرق نہیں۔ ہاں جن زمینوں کا لا تعلق انفال سے ہے وہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہیں اگرچہ جنگ امام علیہ السلام کی اجازت سے نہ ہو۔
(۱۷۹۹)اگرمسلمان کافروں سے امام علیہ السلام کی اجازت کے بغیر جنگ کریں اور ان سے مال غنیمت حاصل ہو تو جو غنیمت حاصل ہو وہ امام علیہ السلام کی ملکیت ہے اور جنگ کرنے والوں کا اس میں کوئی حق نہیں۔
(۱۸۰۰)جو کچھ کافروں کے ہاتھ میں ہے اگر اس کا مالک محترم المال یعنی مسلمان یا کافر ذمی یا معاہدہ ہو تو اس پر غنیمت کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔
(۱۸۰۱)کافر حربی کا مال چرانا اور اس جیسا کوئی کام کرنا اگرخیانت اور نقص امن میں شمار ہو تو حرام ہے اور اس طرح کی جو چیزیں ان سے حاصل کی جائیں احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ انہیں لوٹا دی جائیں۔
(۱۸۰۲)مشہور یہ ہے کہ ناصبی کا مال مومن اپنے لئے لے سکتا ہے البتہ اس کا خمس دے لیکن یہ حکم اشکال سے خالی نہیں ہے۔
۷۔وہ زمین جو ذمی کافر کسی مسلمان سے خریدے
(۱۸۰۳)اگر کافرذمی مسلمان سے زمین خریدے تو مشہور قول کی بنا پر اس کا خمس اسی زمین سے یا اپنے کسی دوسرے مال سے دے لیکن اس صورت میں خمس کے عام قواعد کے مطابق خمس کے واجب ہونے میں اشکال ہے۔
خمس کا مصرف
(۱۸۰۴)ضروری ہے کہ خمس دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔اس کا ایک حصہ سادات کا حق ہے اور ضروری ہے کہ کسی فقیر سید یا یتیم سید کو دیاجائے جو سفر میں ناچار ہوگیا ہو اور دوسرا حصہ امام علیہ السلام کا ہے جو ضروری ہے کہ موجودہ زمانے میں جامع الشرائط مجتہد کو دیا جائے یا ایسے کاموں پر جس کی وہ مجتہد اجازت دے خرچ کیاجائے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ وہ مرجع اعلم ہو اور عمومی مصلحتوں سے آگاہ ہو۔
(۱۸۰۵)جس یتیم سید کوخمس دیا جائے ضروری ہے کہ وہ فقیر بھی ہو لیکن جوسید سفر میں ناچار ہوجائے وہ خواہ اپنے وطن میں فقیر نہ بھی ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے۔
(۱۸۰۶)جو سید سفر میں ناچار ہو گیا ہو اگر س کا سفر گناہ کا سفر ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اسے خمس نہ دیا جائے۔
(۱۸۰۷)جو سید عادل نہ ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے لیکن جو سید اثنا عشری نہ ہو ضروری ہے کہ اسے خمس نہ دیا جائے۔
(۱۸۰۸)جو سید خمس کو گناہ کے کام میں استعمال کرے اسے خمس نہیں دیا جاسکتا بلکہ اگر اسے خمس دینے سے گناہ کرنے میں اس کی مدد ہوتی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اسے خمس نہ دیا جائے چاہیے وہ اسے گناہ میں استعمال نہ بھی کرے۔ اسی طرح احتیاط واجب یہ ہے کہ اس سید کو بھی خمس نہ دیا جائے جو شراب پیتا ہو یا نماز نہ پڑھتا ہو یا علانیہ گناہ کرتا ہو۔
(۱۸۰۹)جو شخص کہے کہ میں سید ہوں اسے اس وقت تک خمس نہ دیا جائے جب تک دو عادل اشخاص اس کے سید ہونے کی تصدیق نی کر دیں یا انسان کو کسی طریقے سے یقین یا اطمینان ہو جائے کہ وہ سید ہے۔
(۱۸۱۰)کوئی شخص اپنے شہر میں سید مشہور ہو،اگر انسان کو اس کے برخلاف بات کا یقین یا اطمینان نہ ہو تو اسے خمس دیا جاسکتاہے۔
(۱۸۱۱)اگر کسی کی بیوی سیدانی ہو تواحتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ شوہر اسے اس مقصد کے لئے خمس نہ دے کہ وہ اسے اپنے ذاتی استعمال میں لے آئے لیکن اگر دوسرے لوگوں کی کفالت اس عورت پر واجب ہو اور وہ ان اخراجات کی ادائیگی سے قاصر ہو تو انسان کے لئے جائز ہے کہ اپنی بیوی کو خمس دے تاکہ وہ زیر کفالت لوگوں پر خرچ کرے اسی طرح اس عورت کے اپنے غیر واجب اخراجات پرصرف کرنے کے کئے خمس دینے کا بھی یہی حکم ہے۔
(۱۸۱۲)اگر انسان پر کسی سید کے یا ایسی سیدانی کے اخراجات واجب ہوں جو اس کی بیوی نہ ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر وہ اس سید یا سیدانی کے خوراک اور پوشاک کے اخراجات اور باقی واجب اخراجات اپنے خمس سے ادا نہیں کر سکتا۔ہاں اگر وہ اس سید یا سیدانی کو خمس کی کچھ رقم اس مقصد سے دے کہ وہ واجب اخراجات کے علاوہ اسے دوسری ضروریات پرخرچ کریں تو کوئی حرج نہیں۔
(۱۸۱۳)اگر کسی فقیر سید کے اخراجات کسی دوسرے شخص پر واجب ہوں اور وہ شخص اس سید کے اخراجات برداشت نہ کر سکتا ہو یا استطاعت رکھتا ہولیکن نہ دیتا ہو تو اس سید کو خمس دیا جاسکتاہے۔
(۱۸۱۴)احتیاط واجب یہ ہے کہ کسی ایک فقیر سید کو اس کے ایک سال کے اخراجات سے زیادہ خمس نہ دیا جائے۔
(۱۸۱۵)اگر کسی شخص کے شہر میں کوئی مستحق نہ ہو تو وہ خمس کو دوسرے شہر لے جا سکتا ہے بلکہ اگر خمس کی ادائیگی میں سستی نہ سمجھی جائے تو مستحق کے ہوتے ہوئے بھی دوسرے شہر لے جاسکتا ہے۔لیکن ہر صورت میں اگر خمس تلف ہو جائے تو تلف شدہ مقدار کاضامن ہے چاہے اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کی ہو اورخمس دوسری جگہ لے جانے کے اخراجات بھی اس خمس میں سے نہیں لے سکتا۔
(۱۸۱۶)اگر کوئی شخص حاکم شرع یا اس کے وکیل کی وکالت میں خمس وصول کرے تو وہ بری الذمہ ہو جاتا ہے اور اگر ان دو میں سے کسی ایک کی اجازت سے دوسرے شہر لے جائے اور بغیر کوتاہی کے تلف ہو جائے توضامن نہیں ہے۔
(۱۸۱۷)یہ جائز نہیں کہ کسی چیز کی قیمت اس کی اصل قیمت سے زیادہ لگا کر اسے بطور خمس دیا جائے اور جیسا کہ مسئلہ ۱۷۵۶ میں بتایا گیا کہ کسی دوسری جنس کی شکل میں خمس ادا کرنا مطلقاً محل اشکال ہے۔سوائے اس کے حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت ہو۔
(۱۸۱۸)جس شخص کو خمس کے مستحق شخص سے کچھ لینا ہو اور چاہتا ہو کہ اپنا قرضہ خمس کی رقم سے منہا کر لے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ یا تو حاکم شرع سے اجازت لے یا خمس اس مستحق کو دیدے اور بعد میں مستحق شخص اسے وہ مال قرضے کی ادائیگی کے طور پر لوٹا دے اور وہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ خمس کے مستحق شخص کی اجازت سے اس کا وکیل بن کر خود اس کی طرف سے خمس لے لے اور اس سے اپنا قرض چکا لے۔
(۱۸۱۹)مالک،خمس کے مستحق شخص سے یہ شرائط نہیں کر سکتا کہ وہ خمس لینے کے بعد اسے واپس لوٹا دے۔
|