|
کھا نا کھا نے کے آ دا ب
(۲۵۹۴) کھا نا کھا نے کے آ دا ب میں چند چیز یں مستحب شما ر کی گئی ہیں
(۱)کھا نا کھا نے سے پہلے کھانے والا دو نو ں ہا تھ دھو ئے ۔
(۲)کھا نا کھا لینے کے بعد ا پنے ہا تھ دھو ئے اور رو ما ل ( تو لیے و غیر ہ ) سے خشک کرے ۔
(۳) میز با ن سب سے پہلے کھا نا کھا نا شر و ع کرے اور سب بعد کھا نے سے ہا تھ کھینچے ۔ کھا نا شروع کر نے سے قبل میز با ن سب سے پہلے ہا تھ دھو ئے اس کے بعد جو شخص اس کی دا ئیں طرف بیٹھاہو وہ د ھو ئے اور اس طر ح سلسلہ وا ر ہا تھ د ھو تے ر ہیں حتی کے نو بت میز با ن تک پہنچ آ جائے جو اس کے بائیں طرف بیٹھا ہو اور کھانا کھا لینے کے بعد جو شخص میزبان کی بائیں طرف بیٹھا ہو سب سے پہلے وہ ہاتھ دھوئے اور اسی طرح دھوتے چلے جائیں حتیٰ کہ نوبت میزبان تک پہنچ جائے۔
(۴) کھا ناا کھا نے سے پہلے بسم ا للہ پڑ ھے لیکن اگر ا یک دستر خوان پر ا نو ا ع و اقسا م کے کھا نے ہو ں تو ان میں سے ہر ا یک کھا ناکھا نے سے پہلے بسم ا للہ پڑ ھنا مستحب ہے ۔
(۵) کھا نا دا ئیں ہا تھ سے کھا ئے ۔
(۶)تین یا ز یادہ انگلیو ں سے کھا نا کھا ئے او ر دو انگلیو ں سے نہ کھا ئے ۔
(۷) اگر چند اشخا ص دستر خوا ن پر بیٹھیں تو ہر ا یک ا پنے سا منے سے کھا نا کھا ئے ۔
(۸)چھو ٹے چھو ٹے لقمے بنا کر کھا ئے ۔
(۹)دستر خو ا ن پر ز یا د ہ د یر بیٹھے اور کھا نے کو طو ل د ے ۔
(۱۰) کھا نا خو ب اچھی طر ح چبا کر کھا ئے ۔
(۱۱) کھا نا کھا لینے لے بعد اللہ تعا لی کا شکر بجا لا ئے ۔
(۱۲) انگلیو ں کو چا ٹے ۔
(۱۳) کھا نا کھا نے کے بعد دا نتو ں میں خلا ل کرے ا لبتہ ر یحا ن کے تنکے ا نا ر کی لکڑی یا کھجو ر کے در خت کے پتے سے خلا ل نہ کرے۔
(۱۴) جو غذا دستر خو ا ن سے باہر گر جا ئے اسے جمع کر ے اور کھا لے لیکن اگر جنگل میں کھانا کھائے تو مستحب ہے کہ جو کچھ گر ے اسے پر ندو ں اور جا نو ر و ں کے لیے چھو ڑ دے ۔
(۱۵) د ن اور را ت کی ا بتدا میں کھا نا کھا ئے اور د ن کے در میا ن میں را ت کے درمیان میں نہ کھا ئے
(۱۶) کھا نا کھا نے کے بعد پیٹھ کے بل لیٹے اور دا یں پاؤں کو با ئیں پاؤں پر ر کھے
(۱۷) کھا نا شر وع کر تے و قت اور کھا لینے کے بعد نمک چکھے
(۱۸) پھل کھا نے سے پہلے ا نہیں پا نی سے د ھو لے
وہ با تیں جو کھا نا کھا تے و قت مکر وہ ہیں
(۲۵۹۵) کھا نا کھا تے و قت چند با تیں مذ مو م شما ر کی گئی ہیں
(۱) بھر ے پیٹ پر کھا نا کھا نا ۔
(۲) بہت ز یا د ہ کھا نا … روا یت میں ہے کہ خدا و ند عا لم کے نز د یک پیٹ بھرا شخص دو سرو ں کی نسبت ز یا د ہ قا بل نفر ت ہے ۔
(۳) کھا نا کھا تے و قت دو سر و ں کا منہ د یکھنا ۔
(۴) گر م کھا نا کھا نا ۔
(۵) جو چیز کھا ئی یا پی جا ر ہی ہو اسے پھو نک ما رنا ۔
(۶) دستر خوا ن پر کھا نا لگ جا نے کے بعد کسی اورچیز کا منتظر ہو نا ۔
(۷) رو ٹی کو چھر ی سے کا ٹنا ۔
(۸) رو ٹی کو کھا نے کے بر تن کے نیچے ر کھنا ۔
(۹) ہڈ ی سے چپکے ہو ئے گوشت کو یو ں کھا نا کہ ہڈ ی پر با لکل گو شت با قی نہ ر ہے ۔
(۱۰) اس پھل کا چھلکا اتار نا جو چھلکے کے سا تھ کھا یا جا تا ہے ۔
(۱۱) پھل پو را کھا نے سے پہلے پھینک د ینا ۔
پا نی پینے کے آدا ب
(۲۵۹۶) پا نی پینے کے آدا ب میں چند چیز یں شما ر کی گئی ہیں
(۱) پا نی چو سنے کی طر ز پر پیئے ۔
(۲) پا نی د ن میں د ن میں کھڑ ے ہو کر پیئے ۔
(۳) پا نی سے پہلے بسم ا للہ اور پینے کے بعد الحمد اللہ کہے ۔
(۴) پا نی(غٹا غٹ نہ پیئے بلکہ ) تین سا نس میں پیئے ۔
(۵)پا نی خوا ہش کے مطا بق پیئے ۔
(۶) پا نی پینے کے بعد حضرت امام حسین - اور ا ن کے اہل حر م کو یا د کر ے اور ا ن کے قا تلو ں پر لعنت بھیجے۔
وہ با تیں جو پا نی پیتے و قت مکرو ہ ہیں
(۲۵۹۷) ز یا د ہ پا نی پینا مر غن کھا نے کے بعد پا نی پینا اور را ت کو کھڑے ہو کر پا نی پینا مذ مو م شمار کیا گیا ہے علاو ہ ا ز یں پانی با ئیں ہا تھ سے پینا اوراسی کو ز ے (و غیر ہ ) کی ٹو ٹی ہو ئی جگہ سے اور اس سے پینا جہا ں کو ز ے کا د ستہ ہو مذ مو م شما ر کیا گیا ہے ۔
منت اور عہد کے ا حکا م
(۲۵۹۸) منت یہ ہے کہ انسا ن ا پنے آ پ پر وا جب کر لے کہ ا للہ تعا لی کی رضا کے لیے کو ئی اچھا کا م کر ے گا یا کو ئی ایسا کا م نہ کر نا بہترہو تر ک کر د ے گا ۔
(۲۵۹۹) منت میں صیغہ پڑ ھنا ضر ور ی ہے اور یہ لا ز م نہیں کہ صیغہ عر بی میں ہی پڑ ھا جا ئے لہٰذا اگر کو ئی شخص کہے کہ میرا مر یض صحت یا ب ہو گا تو ا للہ تعا لی کی خا طر مجھ پر لا ز م ہے کہ میں د س رو پے فقیر کو د و ں تو اس کی منت صحیح ہے یا یو ں کہے کہ خدا کی خا طر میں نے یہ منت ما نی ہے تو ا حتیا ط وا جب ہے کہ اس پر عمل کر ے لیکن ا گر خدا کا نا م نہ لے یا اس کے بجا ئے او لیا اللہ میں سے کسی کا نا م لے لے تو منت صحیح نہیں ہے اگر نذ ر صحیح ہو اور مکلف جا ن بو جھ کر اس پر عمل نہ کرے تو کنا ہ ہے اسے چا ہئے کہ کفا ر ہ د ے د ے منت نہ پو ر ی ہو نے کر نے کا کفا ر ہ قسم کی مخا لفت کر نے کے جیسا کفا ر ہ ہے جس کا بیا ن بعد میں ہو گا ۔
(۲۶۰۰)ضر ور ی ہے کہ منت ما ننے و الا با لغ اور عا قل ہو نیز ا پنے ارا د ے اور اختیا ر کے ساتھ منت ما نے لہذا کسی ایسے شخص کا منت ما ننا جسے مجبور کیا جائے یا جو جذ با ت میں آ کر ارادے کے بے اختیا ر منت ما نے تو صحیح نہیں ہے ۔
(۲۶۰۱) کو ئی سفیہ اگر منت ما نے مثلا یہ کہ کو ئی چیز فقیر کو د ے گا تو اس کی منت صحیح نہیں ہے اسی طر ح اگرکو ئی د یوا لیہ شخص منت ما نے کہ ا پنے ما ل میں سے جس میں تصرف کر نے سے اسے رو ک دیاگیا ہو کو ئی چیز فقیر کو د ے گا تو اس کی منت صحیح نہیں ہے۔
۲۶۰۲) شو ہر کی ا جا ز ت کے بغیر عو رت کا ا ن کامو ں میں منت ما ننا جو شو ہر کے حقوق کے منافی ہو ں صحیح نہیں ہے اسطر ح عو رت کا اپنے ما ل میں شو ہر کی ا جا ز ت کے بغیر ما ننا محا ل اشکا ل ہے لیکن ا پنے ما ل میں شو ہر کی ا جا ز ت کے بغیر حج کر نا ز کوٰة صد قہ د ینا اور ما ں با پ سے حسن سلو ک اور رشتہ داروں سے صلہ ر حمی کر نا (صحیح ہے )۔
(۲۶۰۳)اگر شو ہر کی ا جا ز ت سے منت ما نے تو شو ہر اس کی منت ختم نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے منت پرعمل کرنے سے رو ک سکتا ہے ۔
(۲۶۰۴) بیٹے کے منت ما ننے پر با پ کی اجا ز ت شر ط نہیں لیکن اگر با پ یاما ں اسے اس کام سے جس کی اس نے منت ما نی ہو منع کر یں اور ا ن کا منت کا منع کر نا شفقت کی بنا پر ہو جس کی مخا لفت کر نا ان کی ا ذ یت کا سبب ہو تو بیٹے کی منت با طل ہے ۔
(۲۶۰۵) انسا ن کسی ا یسے کا م کی منت ما ن سکتا ہے جس کا ا نجا م د ینا اس کے لئے ممکن ہو لہذا جو شخص مثلا پید ل چل کر کر بلا نہ جا سکتا ہو ا گر وہ منت ما نے کہ و ہا ں تک پید ل جا ئے گا تو اس کی منت صحیح نہیں ہے اگر منت ما نتے و قت قدرت ر کھتا تھا اور بعد میں عا جز ہو جا ئے تو اس کا منت ما ننا با طل ہے اور ا س پر کچھ بھی و اجب نہیں سوا ئے ا ن مو ا قع میں جہا ں رو ز ہ ر کھنے کی منت ما نی ہو اور رو ز ہ نہ ر کھ سکے تو ا حتیا ط وا جب ہے کہ ہر د ن کے رو ز ے کے بعد ۷۵۰گر ا م غذا فقیر کو د ے یا ۵۰ء ۱ کلو اس آ د می کو د ے جو اس کے بد لے رو ز ہ ر کھے گا ۔
(۲۶۰۶) اگر کو ئی شخص منت ما نے کہ کو ئی حرا م اور مکر و ہ کا م ا نجا م د ے گا یا کو ئی وا جب یا مستحب کا م تر ک کر د ے گا تو اس کی منت صحیح نہیں ہے ۔
(۲۶۰۷) اگر کو ئی شخص منت ما نے کہ کسی مبا ح کا م کو ا نجا م د ے گا یا تر ک کر ے گا لہذا اگر اس کا م کا بجا لا نا اور تر ک کر نا ہر لحا ظ سے مسا و ی ہو تومنت صحیح نہیں او ر ا گر اس کا م کا انجا م دینا کسی لحا ظ سے بہتر ہو اور ا نسا ن منت بھی ا سی لحا ظ سے ما نے مثلا منت ما نے کے کو ئی (خاص ) غذا کھا ئے گا تا کہ ا للہ تعا لی کی عبا د ت کے لیے اسے تو ا نا ئی حا صل ہو تو اس کی منت صحیح ہے اگر ا س کا م کا تر ک کر نا کسی لحاظ سے بہتر ہو اور ا نسا ن منت بھی اس لحا ظ سے ما نے کہ اس کا م کو ترک کر د ے گا مثلا چو نکہ تمبا کو مضر صحت ہے اس لئے منت ما نے کہ اسے استعمال نہیں کر ے گا تو اس کی منت صحیح لیکن اگر بعد میں تمبا کو کا استعما ل تر ک کر نا اس کے لئے نقصا ن د ہ ہو تو اس کی منت کا لعد م ہو جا ئے گی ۔
(۲۶۰۸)اگر کو ئی شخص منت ما نے کہ وا جب نما ز یں ایسی جگہ جہا ں نما ز بجا ئے خو د نما ز پڑھنے کا ثوا ب زیا د ہ نہیں مثلاً منت ما نے کہ نما ز کمر ے میں پڑ ھے گا اگر و ہا ں نما ز پڑ ھنا کسی لحا ظ سے بہتر ہو چو نکہ وہا ں خلو ت ہو اس لئے ا نسا ن حضو ر قلب پیدا کرسکتا ہے اگر اس کے منت ما ننے کا مقصد یہی ہو تو منت صحیح ہے ۔
(۲۶۰۹) اگر ایک شخص کو ئی عمل بجا لا نے کی منت ما نے تو ضرور ی ہے کہ وہ عمل اسی طر ح بجا لائے جس طر ح منت ما ننی ہو لہذا منت ما نے کہ مہینے کی پہلے تا ر یخ کو صد قہ د ے گا یا رو ز ہ رکھے گا یا ( مہینے کی پہلی تا ر یخ کو ) ا و ل ما ہ کی نما ز پڑھے گا تو ا گر ا س د ن سے پہلے یا بعد میں اس عمل کو بجا لا ئے تو کا فی نہیں ہے اسی طر ح اگر کو ئی شخص منت ما نے کہ کا مریض صحت یاب ہوجا ئے گا تو وہ صد قہ د ے گا تو ا گر اس مر یض کے صحت یا ب ہو نے سے پہلے صد قہ د ے دے تو کافی نہیں ہے ۔
(۲۶۱۰) اگر کو ئی شخص رو ز ہ ر کھنے کی منت ما نے لیکن رو ز و ں کا و قت اور تعدا د معین نہ کر ے تو ا گر وہ ا یک رو ز ہ ر کھے تو کا فی ہے اگر نماز پڑھنے کی منت مانے اور نمازوں کی مقدار اور خصوصیات معین نہ کرے تو اگر ایک دو ر کعتی نما ز پڑ ھ لے تو کا فی ہے اگر منت ما ننے کا صد قہ د ے گا اور صد قہ کی جنس اور مقدا ر معین نہ کرے تو ا گر ا یسی چیز د ے کہ لو گ کہیں کہ اس نے صد قہ د یا ہے تو پھر اس نے ا پنی منت کے مطا بق عمل کرد یا ہے اگر ما نے کہ کو ئی کا م ا للہ کی خوشنو د ی کے لئے بجا لا ئے گا تو ا گر ا یک دو ر کعتی نما ز پڑ ھ لے یا ا یک رو ز ہ ر کھ لے یا کو ئی چیز صد قہ د ے د ے تو ا س نے ا پنی منت نبھا لی ہے ۔
(۲۶۱۱) اگر کو ئی شخص منت ما نے کہ ا یک خا ص د ن رو ز ہ ر کھے گا تو ضر ور ی ہے کہ اسی د ن رو ز ہ ر کھے تو اگر جا ن بو جھ کر رو زہ نہ ر کھے تو ضرو ر ی ہے کہ ا س د ن کے علا و ہ کفا ر ہ بھی دے اور ا ظہر یہ ہے کہ ا س کا کفا ر ہ قسم تو ڑ نے کا کفا ر ہ ہے جیسا کہ بعد میں بیا ن کیا جا ئے گا لیکن ا س د ن وہ اختیا ر یہ کر سکتا ہے کہ سفر کر ے اور رو ز ہ نہ ر کھے اگر سفر میں ہو تو لا ز م نہیں کہ ٹھہر نے کی نیت کرکے رو ز ہ نہ ر کھے تو اس صو رت میں جبکہ سفر کیو جہ سے یا کسی دو سر ے عذ ر مثلاً بیما ر ی یا حیض کی و جہ سے رو ز ہ و جہ سے رو ز ہ نہ ر کھے تو لا ز م ہے کہ رو ز ے کی قضا کر ے لیکن کفا ر ہ نہیں ہے ۔
(۳۶۱۲) ا گر ا نسا ن حا لت اختیا ر میں ا پنی منت پر عمل نہ کر ے تو کفا ر ہ د ینا ضر ور ی ہے ۔
(۲۶۱۳) اگر کو ئی شخص ا یک معین و قت تک کو ئی عمل کر نے کی منت ما نے تو اس و قت کے گزرنے کے بعد اس عمل کو بجا لا سکتا ہے اور ا گر اس و قت کے گز ر نے سے پہلے بھو ل کر یا مجبو ر ی سے اس عمل کو ا نجا م د ے تو اس پر کچھ وا جب نہیں ہے لیکن پھر بھی لا ز م ہے کہ وہ و قت آ نے تک اس عمل کو ا نجا م نہ د ے اور ا گر اس وقت کے آ نے سے پہلے بغیر عذ ر کے اس عمل کو دو با ر ہ انجا م دے تو ضر ور ی ہے کہ کفا ر ہ د ے ۔
(۲۶۱۴) جس شخص نے کو ئی عمل تر ک کر نے کی منت ما نی ہو اس وقت کے لئے کو ئی و قت معین نہ کیا ہو اگر وہ بھو ل کر یا بہ ا مر مجبو ر ی یا غفلت کی و جہ سے اس عمل کو ا نجا م د ے تو اس پر کفا ر ہ وا جب نہیں ہے لیکن اس کے بعد جب بھی بہ حالت اختیا ر اس عمل کو بجا لا ئے ضر ور ی ہے کہ کفا ر ہ د ے ۔
(۲۶۱۵) اگر کو ئی شخص منت ما نے کہ ہر ہفتے ا یک معین د ن کا مثلا جمعے کا رو ز ہ ر کھے گا تو ا گر ایک جمعے کے د ن عید الفطر یا عید قر با ن پڑ جا ئے یا جمعہ کا د ن اسے کو ئی عذ ر مثلا سفر در پیش ہو یا حیض آ جا ئے تو ضرور ی ہے کہ اس د ن رو ز ہ نہ ر کھے اور اس کی قضا بجا لا ئے ۔
(۲۶۱۶) اگر کو ئی شخص منت ما نے کہ ا یک معین مقد ار میں صد قہ د ے گا تو ا گر وہ صد قہ د ینے سے پہلے مر جا ئے تو و ا ر ث کو اس کے ما ل میں سے ا تنی مقدا ر میں صدقہ د ینا لا ز م نہیں ہے اوربہتر یہ ہے کہ اس کے با لغ و رثا ء میرا ث میں سے ا پنے حصے سے ا تنی مقدا ر میت کی طرف سے صد قہ د ے د یں ۔
(۲۶۱۷) اگر کو ئی شخص منت ما نے کہ ا یک معین فقیر کو صد قہ د ے گا تو وہ کسی دو سر ے فقیر کو نہیں د ے سکتا اور ا گر وہ معین کر دہ فقیر مر جا ئے تو اس کے ورثا کو پہنچا نا لا ز م نہیں ہے ۔
(۲۶۱۸) ا گر کو ئی منت ما نے کہ آ ئمہ علہیم السلا م میں سے کسی کی مثلا حضرت اما م حسین -کی ز یا ر ت سے مشر ف ہو گا تو ا گر وہ کسی دو سر ے امام کی ز یا ر ت کے لیے جا ئے تو یہ کافی نہیں ہے اور ا گر کسی عذ ر کی و جہ سے ا ن امام کی ز یا ر ت نہ کر سکے تو اس پر کچھ بھی وا جب نہیں ہے ۔
(۲۶۱۹) جس شخص نے زیا ر ت کر نے کی منت ما نی ہو لیکن غسل زیا ر ت اور نما ز کی منت نہ مانی ہو تو اس کے لیے انہیں بجا لا نا لا ز م نہیں ہے ۔
(۲۶۲۰) اگر کو ئی شخص کسی ا ما م یا ا مام ز ا د ے کے حر م کے لیے ما ل خر چ کر نے کی منت ما نے اورکو ئی خاص مصر ف معین نہ کر ے تو ضر ور ی ہے کہ اس ما ل کو اس حر م کی تعمیر ( و مر مت ) روشنیو ں اور قا لین و غیرہ پر صر ف کر ے یا ا گر ہو مکمل طور پر بے نیا ز ہو تو اس کے ضر ور ت مند ذا کر ین کی مد د میں خر چ کر ے ۔
(۲۶۲۱)اگر کو ئی شخص پیغمبر اکر م یا ائمہ میں سے کسی ا یک یا کسی ا مام زا د ے یا سا بقہ علما ء میں سے کسی کے لیے کو ئی چیز نذ ر کر ے تو ا گر کسی معین مصر ف کی نیت کی ہو تو ضر ور ی ہے کہ اس چیز کو اسی مصر ف میں لا ئے اور ا گر کسی معین مصر ف کی نیت نہ کی ہو تو ضر و ر ی ہے کہ اسے ایسے مصر ف میں لے آ ئے جو ا ن سے نسبت ر کھتا ہو مثلا اس ا مام کے نادا رزا ئر ین پر خر چ کر ے یا اس امام کے حر م کے مصا ر ف پر خر چ کر ے یا ایسے کا مو ں میں خر چ کر ے جو اما م کا تذ کر ہ عا م کر نے کا سبب ہو ں اگر کو ئی چیز کسی امام زا د ے کے لیے نذ ر کر ے تب بھی یہی حکم ہے ۔
(۲۶۲۲) جس بھیڑ کو صد قے کے لیے یا کسی امام کی نذ ر کیا جا ئے اگر وہ نذ ر کے مصر ف میں لا ئے جا نے سے پہلے دودھ د ے یا بچہ جنے تو ہو د و د ھ یا بچہ ا س کا ما ل ہے جس نے بھیڑ کو نذ ر کیا ہو مگر یہ کہ اس کی نیت عا م ہو (یعنی نذ ر کر نے و ا لے نے اس بھیڑ اس کے بچے و غیر ہ سب چیزو ں کی منت ما نی ہو تو ہو سب نذ ر ہے) البتہ بھیڑ کی ا و ن اور جس مقدا ر میں وہ فر بہ ہو جا ئے نذ ر کا جز و ہے ۔
(۲۶۲۳)جب کو ئی منت ما نے کہ اس کا مر یض تند ر ست ہو جا ئے یا اس کا مسا فر وا پس آ جائے تو وہ فلا ں کا م کر ے گا تو ا گر پتا چلے کہ منت ما ننے سے پہلے مر یض تند ر ست ہو گیا تھا یا مسا فر وا پس آ گیا تھا تو پھر منت پر عمل کر نالا ز م نہیں ۔
(۲۶۲۴) اگر با پ یا ما ں منت ما نیں کہ ا پنے بیٹی کی شا د ی سید زا د ے سے کر یں گے تو با لغ ہو نے کے بعد لڑ کی اس بار ے میں خودمختار ہے اور وا لد ین کی منت کی کو ئی ا ہمیت نہیں ۔
(۲۶۲۵) جب کو ئی شخص اللہ تعا لی سے عہد کر ے کہ جب اس کی کو ئی معین شر عی حا جت پو ر ی ہو جا ئے گی تو فلا ں کا م کرے گا پس اس کی حا جت پو ر ی ہو جا ئے تو ضرو ر ی ہے کہ وہ کا م انجا م د ے نیز ا گر ہو کسی حا جت کا ذ کر کیے بغیر عہد کرے کہ فلا ں کا م انجا م د ے گا تو ہو کا م کر نا اس پر وا جب ہو جا تا ہے ۔
(۲۶۲۶) عہد میں بھی منت کی طر ح صیغہ پڑ ھنا ضر ور ی ہے مثلا یو ں کہہ د ے کہ میں خدا سے عہد کر تا ہو ں کہ میں یہ کا م کر و ں گا یہ ضر ور ی نہیں ہے کہ جس کا م کا عہد کیا جا ئے وہ شرعی طور پر ا چھا ہو بلکہ اس قد ر کا فی ہے کہ شر یعت میں اس کا م سے نہ رو کا گیا ہو اور عقلا کے نز د یک با مقصد قرار پا ئے یا اس شخص کے لیے اس میں کو ئی مصلحت ہو اور ا گر عہد کر نے کے بعد ا یسا ہو جا ئے تو اس کا م کی مصلحت نہ ر ہے یا شر عا تر جیح کے قا بل نہ ر ہے اور مکر و ہ قرار پا یا ہو تو ضر ور ی نہیں کہ اس پر عمل کر ے ۔
(۲۶۲۷) اگر کو ئی شخص اپنے عہد پر عمل نہ کر ے تو ضر ور ی ہے کہ کفا ر ہ د یعنی سا ٹھ فقیر و ں کو پیٹ بھر کر کھا نا کھلا ئے یا دو مہینے مسلسل رو ز ے ر کھے یا ا یک غلا م کو آ زا د کر ے ۔
قسم کھا نے کے احکا م
(۲۶۲۸) جب کو ئی شخص قسم کھا ئے کہ فلا ں کا م ا نجا م د ے گا مثلا قسم کھا ئے کہ رو زہ ر کھے گا یا تمبا کو استعما ل نہیں کرے گا تو ا گر بعدمیں جا ن بو جھ کر اس قسم کے خلا ف عمل کر ے تو ضر ور ی ہے کہ کفا ر ہ د ے یعنی ایک غلا م آ زا د کر ے یا دس فقیر و ں کو پیٹ بھر کر کھا نا کھلا ئے یا ا نہیں پوشا ک پہنا ئے او ر ا گر ا ن اعما ل کو بجا نہ لا سکتا ہو کہ تین د ن مسلسل رو ز ے رکھے ۔
(۲۶۲۹) قسم کی چند شر طیں ہیں :
(۱ ) جو شخص قسم کھا ئے ضر ور ی ہے کہ وہ با لغ اور عا قل ہو نیز ا پنے ا را د ے اور ا ختیا ر سے قسم کھا ئے لہذا بچے یا د یوا نے یا بے حوا س یا اس شخص کا قسم کھا نا جسے مجبو ر کیا گیا ہو در ست نہیں ہے اورا گر شخص جذ با ت میں آ کر بلا ا را د ہ یا نے اختیا ر قسم کھا ئے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے ۔
(۲) (قسم کھا نے وا لا ) جس کا م کے انجا م د ینے کی قسم کھا ئے تو ضر ور ی ہے کہ وہ حرام یا مکر وہ نہ ہو اور جس کا م کے تر ک کر نے کی قسم کھا ئے تو ضر ور ی ہے کہ وہ وا جب یا مستحب نہ ہو اور ا گر کو ئی مبا ح کا م کر نے کی قسم کھا ے تو عقلا کی نظر میں اس کام کو ا نجا م دینا اس کو تر ک کر نے سے بہتر ہو تواس کی قسم صحیح ہے اور اسی طر ح کسی کام کوتر ک کر نے کی قسم کھا ئے تو عقلا کی نظر میں اسے تر ک کر نا اس کو ا نجا م د ینے سے بہتر ہو تو اس کی قسم صحیح ہے بلکہ دو نو ں صو ر تو ں میں ا گر اس کا ا نجا م د ینا یا تر ک کر نا خو د اس شخص کے لیے بہتر ہو تب بھی اس کی قسم صحیح ہے ۔
(۳) (قسم کھا نے والا ) اللہ تعا لی کے نا مو ں میں سے کسی ایسے نا م کی قسم کھا ئے جو اس ذا ت کے سوا کسی اور کے لیے استعما ل نہ ہو تا ہو مثلا خدا اور اللہ ۔ اور ا گر ایسے نا م کی قسم کھا ئے جو اس ذا ت کے سوا کسی اور کے لیے بھی استعما ل ہو تا ہو لیکن ا للہ تعا لیٰ کے لیے ا تنی کثر ت کے لیے استعما ل ہو تا ہو کہ جب بھی وہ نا م لے تو خدا ئے بزرگ وبر تر کی ذا ت ہی ذ ہن میں آ تی ہو مثلا ا گر کو ئی خا لق اور را ز ق کی قسم کھا ئے تو صحیح ہے بلکہ اگر کسی ایسے نا م کی قسم کھا ئے کہ جب اس نا م کو تنہا بو لا جا ئے تو اس سے صر ف ذات با ر ی تعا لیٰ ہی ذ ہن میں نہ آ تی ہو لیکن اس نا م کو قسم کھا نے کے مقا م میں استعمال کیا جا ئے تو ذا ت حق ہی ذ ہن میں آ تی ہو مثلا سمیع اور بصیر ( کی قسم کھا ئے ) تب بھی اس ی قسم صحیح ہے۔
(۴) قسم کھا نے وا لا قسم کے ا لفا ظ ز با ن پر لا ئے لیکن اگر گو نگا شخص اشا ر ے سے قسم کھا ئے تو صحیح ہے اور اسی طر ح وہ شخص جو با ت کر نے پر قا در نہ ہو ا گر قسم کو لکھے اور د ل میں نیت کر لے تو کا فی ہے بلکہ اس کے علا و ہ جو بو ل سکتا ہے وہ بھی لکھے تو ا حتیا ط وا جب کی بنا پر اس پر عمل کیا جا ئے ۔
(۵) (قسم کھا نے وا لے کے لیے) قسم پر عمل کر نا ممکن ہو اگر قسم کھا نے کے و قت اس کے لیے اس پر عمل کر نا ممکن بعد میں عا جز ہو جا ئے اور اس نے اپنے آ پ کو جا ن بوجھ کر عاجز نہ کیا ہو تو جس و قت سے عا جز ہو تو جس وقت سے عا جز ہو گا اس و قت سے اس کی قسم کا لعد م ہو جا ئے گی اگر منت یا قسم یا عہد پر عمل کر نے سے ا تنی مشقت اٹھا نی پڑ ے جو ا س کی بر دا شت سے با ہر ہو تو اس صو رت میں بھی یہی حکم ہے
اگر یہ عجز اس کے اختیا ر سے ہو یا بغیر اختیا ر سے ہو یا بغیر اختیا ر کے اگر تا خیر کے وقت کے اعتبا ر سے اس کا کو ئی عذ ر نہ ہو تو اس نے گنا ہ کیا اس پر کفا ر ہ وا جب ہے ۔
(۲۶۳۰) اگر با پ بیٹے کو یا شو ہر بیو ی کو قسم کھا نے سے رو کے تو ا ن کی قسم صحیح نہیں ہے ۔
(۲۶۳۱) اگر بیٹا با پ کی ا جا ز ت کے بغیر اور بیو ی شو ہرکی ا جا ز ت سے بغیر قسم کھا ئے تو با پ اور شو ہر ا ن کی قسم فسخ کر سکتے ہیں ۔
( ۲۶۳۲) اگر ا نسا ن بھو ل کر یا مجبو ر ی کی و جہ سے غفلت کی بنا پر قسم پر عمل نہ کر ے تو اس پر کفار ہ وا جب نہیں ہے اگر اسے مجبور کیا جا ئے کہ قسم پر عمل کرے تب بھی یہی حکم ہے اگر و ہمی قسم کھا ئے مثلا یہ کہے وا للہ میں ا بھی نما ز میں مشغو ل ہو تا ہو ں اور و ہم کی و جہ سے مشغو ل نہ ہو تو اگر اس کا و ہم ایسا ہو کہ اس کی و جہ سے مجبور ہو کر قسم پر عمل نہ کر ے تو اس پر کفارہ نہیں ہے۔
(۲۶۳۳) اگر کو ئی شخص قسم کھا ئے کہ میں جو کچھ کہہ ر ہا ہو ں سچ کہہ ر ہا ہے تو اس کا قسم کھا نا مکروہ ہے اور اگر جھو ٹ بو ل ر ہا ہے تو حرا م ہے بلکہ مقد ما ت کے فیصلے و قت جھو ٹی قسم کھا نا کبیر ہ گنا ہو ں میں سے ہے لیکن اگر وہ ا پنے آ پ کو یا کسی دو سر ے مسلما ن کو کسی ظا لم سے شر سے نجا ت دلا نے کے لیے جھو ٹی قسم کھا ئے تو اس میں اشکا ل نہیں بلکہ بعض اوقات ایسی قسم کھا نا وا جب ہو جا تا ہے تا ہم اگر تو ریہ کر نا ممکن ہو یعنی قسم کھا تے و قت ظا ہر ی مفہو م کو چھو ڑ کر دو سر ے مطلب کی نیت کرے اور جو مطلب اس نے لیا ہے اس کو ظا ہر نہ کر ے تو ا حتیا ط لا ز م یہ ہے کہ تو ر یہ کر ے مثلا اگر کو ئی ظا لم کسی کو ا ذ یت د ینا چا ہے اور کسی دو سر ے شخص سے پو چھے کہ کیا تم نے فلا ں شخص کو د یکھا ہے ؟ اور اس نے اس شخص کو ایک منٹ قبل د یکھا ہو تو وہ کہے کہ میں نے اسے نہیں د یکھا اورقصد یہ کر ے کہ اس و قت سے پا نچ منٹ پہلے میں نے اسے نہیں دیکھا ۔
وقف کے ا حکا م
(۲۶۳۴) اگر ایک شخص کو ئی چیز و قف کرے تو وہ اس کی ملکیت سے نکل جا تی ہے اور وہ خو د یا دو سر ے لو گ نہ ہی ہو چیز کسی دو سر ے کو بخش سکتے ہیں اور نہ ہی اسے بیچ سکتے ہیں اور نہ کو ئی شخص اس میں سے کچھ بطو ر میرا ث لے سکتا ہے لیکن بعض صو رتو ں میں جن کا ذ کر مسئلہ ۲۰۵۴ میں کیا گیا ہے اسے بیچنے میں ا شکا ل نہیں ۔
(۲۶۳۵) یہ لا ز م نہیں کہ وقف کا صیغہ عر بی میں پڑ ھا جا ئے بلکہ مثا ل کے طو ر پر ا گر کو ئی شخص کہے کہ میں نے یہ کتا ب طا لب علمو ں کے لیے و قف کر دی ہے تو و قف صحیح ہے بلکہ عمل سے بھی و قف ثا بت ہو جا تا ہے مثلا ا گر کو ئی شخص و قف کی نیت سے چٹا ئی مسجد میں ڈا ل د ے یا کسی عما ر ت کو مسجد کی نیت سے اس طر ح بنا ئے جیسے مسا جد بنا ئی جا تی ہیں تو و قف ثا بت ہو جاتا ہے عمو می ا و قا ف مثلا مسجد مد ر سہ یا ایسی چیز یں جو تمام لوگوں کے لئے وقف کی جائیں یا مثلاً فقراء اور سادات کے لئے وقف کی جائیں ان کے وقف کے صحیح ہونے میں کسی کا قبو ل کر نا لا زم نہیں ہے چا ہے و قت عا م یا خاص اسی طر ح اس میں قصد قر بت بھی ضر ور ی نہیں۔
(۲۶۳۶) اگر کو ئی شخص اپنی کسی چیز کو وقف کر نے لے لیے معین کر لے اور و قف کر نے سے قبل پچھتا ئے یا مر جا ئے ،و قف و قو ع پذ یر نہیں ہو تا اسی طر ح اگر و قف خا ص میں مو قو ف علیہ کے قبضے میں لینا سے پہلے مر جا ئے تو بھی و قف وقوع پذ یر نہیں ہو تا ۔
(۲۶۳۷) اگر ا یک شخص کو ئی ما ل و قف کر ے تو ضر ور ی ہے کہ و قف کر نے سے اس ما ل کو ہمیشہ کے لیے و قف کر د ے اور مثا ل کے طو ر پر اگر ہو کہے کہ یہ ما ل میر ے مر نے کے بعد وقف ہو گا تو چو نکہ وہ ما ل صیغہ پڑ ھنے کے وقت سے اس کے مر ے کے و قت تک نہیں ر ہا اس لیے و قف صحیح نہیں ہے نیز اگر کہے کہ یہ ما ل دس سا ل تک و قف ر ہے گا اور پھر و قف نہیں ہو گا یا یہ کہے کہ یہ ما ل دس سا ل کے لیے و قف ہو گا پھر پا نچ سا ل کے لیے وقف نہیں ہو گا اور پھر دو با ر ہ و قف ہو جا ئے گا تو وہ و قف صحیح نہیں ہے لیکن ا گر اس دو را ن ”حبس“ کی نیت کرے تو ”حبس“ وا قع ہو جا تا ہے (۲۶۳۸) خصوصی و قف اس صو ر ت میں صحیح ہے جب و قف کر نے و الا و قف کا ما ل جن لوگوں کے لئے و قف کیا گیا ہے ا ن کے یا ا ن کے و کیل یا سر پر ست کے تصر ف میں د ے دے اور ا ن کا طبقہ ا ول سے ا پنے تصرف میں لے لے لیکن کو ئی چیز اپنے نا با لغ بچو ں کے لئے و قف کر ے اور اس نیت سے کہ و قف کر د ہ چیز ان کی ملکیت ہو جائے اس چیز کی نگہداری کرے تو وقف صحیح ہے۔
(۲۶۳۹)ظاہر یہ ہے کہ عام اوقاف مثلا مد رسوں اور مساجد وغیرہ میں قبضہ معتبر نہیں ہے بلکہ صرف وقف کرنے سے ہی ان کاوقف ہونا ثابت ہو جاتاہے ۔
(۲۶۴۰) ضروری ہے کہ وقف کرنیوالابالغ اور عاقل ہو نیز قصد اور اختیار رکھتاہو اور شرعا اپنے مال میں تصر ف کر سکتا ہو لہذااگرسفیہ یعنی وہ شخص جو اپنامال احمقانہ کاموں خرچ کرتا ہو کوئی چیز وقف کرے تو چونکہ وہ اپنے مال میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا اس لئے (اس کا کیا ہواوقف )صحیح نہیں ۔
(۲۶۴۱)اگر کوئی شخص کسی مال کو ایسے بچے کے لئے وقف کرے جو ماں کے پیٹ میں ہوا ور ابھی پیدا نہ ہواہو تو اس وقف کا صحیح ہونا محل اشکال ہے اور لازم ہے کہ احتیاط ملحوظ رکھی جائے لیکن اگر کوئی مال ایسے لوگوں کے لئے وقف کیا جائے جو ابھی موجودہوں اور ان کے بعد ان لوگوں کے لئے وقف کیا جائے جو بعد میں پیدا ہوں تو اگر چہ وقف کرتے وقت وہ ماں کے پیٹ میں بھی نہ ہوں وہ وقف صحیح ہے مثلا ایک شخص کوئی چیز اپنی اولاد کے لئے وقف کرے کہ ان کے بعد اس کے پوتوں کے لئے وقف ہو گی (اولاد کے )ہر گر وہ کے بعد آنے والا گر وہ اس سے استفادہ کرے گا تو وقف صحیح ہے۔
(۲۶۴۲)اگر کو ئی شخص کسی چیز کو ا پنے آ پ پر و قف کرد ے تا کہ اس کی ا ٓ مد نی اس کے مر نے کے بعد اس مقبر ے پر خرچ کی جا ئے تو یہ و قف صحیح نہیں ہے لیکن مثا ل کے طو ر پر وہ کو ئی ما ل فقرا ء کے لیے و قف کر د ے اور خو د بھی فقیر ہو جائے تو و قف کے منا فع سے استفا د ہ کر سکتا ہے لیکن وہ یو ں و قف کر ے کہ اس مکا ن کا کرا یہ فقرا ء میں تقسیم کر ے گا تو اگر بعد میں خود فقیر ہو جا ئے تو اس ما ل میں سے لینا محل اشکا ل ہے ۔
(۲۶۴۳) جو چیز کسی شخص نے و قف کی ہو اگر اس نے اس کا متو لی بھی معین کیا ہو تو ضر ور ی ہے کہ ہدا یا ت کے مطا بق عمل ہو اور ا گر وا قف نے متو لی معین نہ کیا اور ما ل مخصو ص افرا د پر مثلا اپنی او لا د کے لئے و قف کیا ہو تو وہ ا فرا د اس سے استفا د ہ کر نے میں خو د مختا ر ہیں اورا گر بالغ نہ ہو ں توپھر ا ن کا سر پر ست مختا ر ہے اور و قف سے استفا د ہ کر نے کے لئے حا کم شر ع کی اجا ز ت لا ز م نہیں لیکن ایسے کا م جس میں و قف کی بہتر ی یا آ ئند ہ نسلو ں کی بھلا ئی ہو مثلا وقف کی تعمیر کر نا یا و قف کو کر ائے پر د ینا کہ جس میں بعدوا لے طبقے کے لئے فا ئد ہ ہے تو اس کا مختا ر حا کم شر ع ہے ۔
(۲۶۴۴) اگر مثا ل کے طور پر کو ئی شخص کسی ما ل کو فقرا ء یا سا دا ت کے لیے و قف کر ے یا اس مقصد سے وقف کر ے کہ اس ما ل کا منا فع بطو ر خیر ا ت د یا جا ئے تو اس صو ر ت میں کہ اس نے وقف کے لئے متو لی معین نہ کیا ہو اس کا اختیا ر حا کم شر ع کو ہے ۔
(۲۶۴۵) اگر کو ئی شخص کسی ا ملا ک کو مخصو ص افر اد مثلا ا پنی او لا د کے لیے وقف کر ے تا کہ ایک پشت کے بعد دو سر ی پشت اس سے استفا د ہ کر ے تو ا گر وقف کا متو لی اس ما ل کو کرئے پر د ے د ے اور اس کے بعد مر جا ئے تو ا جا ر ہ با طل نہیں ہو تا لیکن ا گر اس ا ملا ک کا کو ئی متو لی نہ ہو او ر جن لو گو ں کے لئے وہ ا ملا ک وقف ہو ئی ہے ا ن میں س ے ا یک پشت اسے کرا ئے پر د ے د ے اور ا جا ر ے کی مد ت کے دو را ن وہ پشت مر جا ئے اور جو پشت اس کے بعد میں ہو و ہ اس ا جا ر ے کی تصد یق نہ کر ے تو ا جا ر ہ با طل ہو جا ئے گا اور اس صو ر ت میں ا گر کرا یہ دار نے پو ر ی مدت کا کرا یہ ادا کر ر کھا ہو تو مر نے وا لے کی مو ت کے وقت سے ا جا ر ے کی مدت کے خا تمے تک کا کرا یہ اس ( مر نے وا لے کے مال سے لے سکتا ہے ۔
(۲۶۴۶) اگر وقف کر د ہ ا ملا ک بر با د بھی ہو جا ئے تو اس کے و قف کی حیثیت نہیں بد لتی بجز اس صورت کے کہ و قف کی ہو ئی چیز کسی خا ص مقصد کے لیے وقف ہو اور وہ مقصد فو ت ہو جا ئے مثلا کسی شخص نے کو ئی با غ بطو ر با غ وقف کیا ہو تو ا گر وہ با غ خرا ب ہو جا ئے تو و قف باطل ہو جا ئے گا اور وقف کردہ مال واقف کے و ر ثا ء کی ملکیت میں دو با ر ہ ہو جا ئے گا ۔
(۲۶۴۷) اگر کسی املا ک کی کچھ مقدا ر وقف ہو اور کچھ مقدا ر وقف نہ ہو وہ املا ک تقسیم نہ کی گئی ہو تو ہر وہ شخص جسے وقف میں تصر ف کر نے کا اختیا ر ہے جسے حا کم شر ع و قف کا متو لی اور وہ لو گ جن کے لیے و قف کیا گیا ہے با خبر لو گو ں کی رائے کے مطا بق وقف شد ہ حصہ جدا کر سکتے ہیں
(۲۶۴۸) اگر و قف کا متو لی خیا نت کر ے مثلا اس کا منا فع معین مد و ں میں استعما ل نہ کر ے تو حاکم شرع اس کے ساتھ کسی امین شخص کو لگا دے تاکہ وہ متولی کو خیانت سے روکے اور اگر یہ ممکن نہ ہو توحا کم شر ع اس کی جگہ کوئی دیانتدار متولی مقر ر کر سکتا ہے۔
(۲۶۴۹) جو قا لین ( و غیر ہ ) امام با ر گا ہ کے لئے وقف کیا گیا ہو اسے نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں نہیں لے جا یا سکتا خواہ مسجد امام با ر گا ہ سے ملحق ہی کیو ں نہ ہو لیکن یہ ما ل ا مام با ر گا ہ کی ملکیت میں ہو تو متو لی کی ا جا ز ت سے دو سر ی جگہ لے جا سکتے ہیں ۔
(۲۶۵۰) اگر کو ئی ا ملا ک کسی مسجد کی مر مت کے لیے وقف کی جا ئے تو ا گر اس مسجد کو مر مت کی ضر ور ت نہ ہو اور ا س بات کی تو قع بھی نہ ہو کہ آ ئند ہ یا کچھ عر صے بعد اسے مر مت کی ضرور ت ہو گی نیز اس ا ملا ک کی آ مد نی کو جمع کر ے حفاظت کر نا بھی نہ ہو کہ بعد میں اس مسجد کی مر مت میں لگا د ی جا ء تو اس صو رت میں ا حتیا ط لا ز م یہ ہے کہ اس املا ک کی آ مد نی کو اس کا م میں صر ف کر ے جو وقف کر نے و ا لے لے مقصود سے نز د یک تر ہو مثلا اس مسجد کی کو ئی ددسری ضرورت پو ر ی کر د ی جا ئے یا کسی دو سر ی مسجد کی تعمیر میں لگا د ی جا ئے ۔
(۲۶۵۱) اگر کو ئی املا ک وقف کر ے تا کہ اس کی آ مد نی مسجد کی مر مت پر خر چ کی جا ئے اور اما م جما عت کو اور مسجد کے مو ذ ن کو د ی جا ئے تو اس صو رت میں کہ اس شخص نے ہر ایک کے لیے کچھ مقدا ر معین کی ہو تو ضرو ر ی ہے کہ آ مد نی اسی کے مطا بق خر چ کی جا ئے اور ا گر معین نہ ہو تو ضر ور ی ہے کہ پہلے مسجد کی مر مت کر ا ئی جا ئے اور پھر اگر بچے تو متو لی اسے جما عت اور موٴ ذ ن کے در میا ن جس طر ح منا سب سمجھے تقسیم کر د ے لیکن بہتر ہے کہ یہ دو نو ں اشخاص تقسیم کے متعلق ا یک دو سر ے سے مصا لحت کر لیں ۔
وصیت کے ا حکا م
(۲۶۵۲) ”وصیت “ یہ ہے کہ انسا ن تا کید کر ے کہ اس کے مر نے کے بعد اس کے لئے فلاں فلا ں کا م کئے جا ئیں یا یہ کہے کہ اس مر نے کے بعداس کے مال میں سے کوئی چیزفلاں شخص کی ملکیت ہو گی یا اس کے مال میں سے کوئی شخص کی ملکیت میں دے دی جائے یا خیرات کی جائے یا امور خیریہ پر صرف کی جائے یا اپنی اولاد کے لئے اور جو لوگ اس کی کفالت میں ہوں ان کے لئے کسی کو نگراں اور سر پرست مقرر کرے اور جس شخص کو وصیت کی جائے اسے”وصی “ کہتے ہیں ۔
(۲۶۵۳) جو شخص بول نہ سکتا ہواگر وہ اشارے سے اپنا مقصد سمجھادے تو وہ ہر کام کے لئے وصیت کر سکتا ہے بلکہ جو شخص بول سکتا ہوا گر وہ بھی اس طرح اشارے سے وصیت کرے کہ اس کا مقصد سمجھ میں آجائے تو وصیت صحیح ہے ۔
(۲۶۵۴)اگر ایسی تحر یر مل جا ئے جس پر مرنے و ا لے کے دستخط یا مہر ثبت ہو تو اگر اس تحر یر سے اس کا مقصد سمجھ میں آ جا ئے اور پتا چل جا ئے کہ یہ چیز اس نے و صیت کی غر ض سے لکھی ہے تو اس کے مطا بق عمل کر نا چا ہیئے۔
(۲۶۵۵) جو شخص و صیت کر ے ضر ور ی ہے کہ با لغ اور عا قل ہو سفیہ نہ ہواور ا پنے اختیا ر سے و صیت کر ے لہذا نا با لغ بچے کا و صیت کر نا صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ بچہ د س سا ل کا ہو اور اس نے ا پنے رشتے دا رو ں کے لئے و صیت کی ہو ئی عا م خیرات میں خر چ کر نے کی و صیت کی ہو تو ا ن دو نو ں صو رتو ں میں اس کی و صیت صحیح ہے اگر اپنے رشتے دا رو ں کے علا وہ کسی دوسرے کے لیے وصیت کر ے یا سا ت سا لہ بچہ یہ و صیت کر ے کہ اس کے اموا ل میں سے تھو ڑ ی سی چیز کسی شخص کے لیے ہے یا کسی کو د ے د ی جا ئے تو وصیت کا نا فذ ہو نا محل اشکال ہے اور ان دو نو ں صو ر تو ں میں احتیا ط کا خیال ر کھا جا ئے اور ا گر کو ئی شخص سفیہ ہو تو اس کی وصیت اس کے اموا ل میں نا فذ نہیں ہے لیکن اگر اس کی وصیت اموال کے علا و ہ دوسرے امو ر میں ہو مثلا ا ن مخصو ص کا مو ں کے متعلق ہو جو مو ت کے بعد میت کے لیے انجام د یئے جاتے ہیں تو وہ وصیت نا فذ ہے ۔
(۲۶۵۶) جس شخص نے مثا ل کے طور خو دکشی کا ارا د ہ کر کے اپنے آ پ کو ز خمی کر لیا ہو یا ز ہر کھا لیا ہو جس کیو جہ سے اس کے مر نے کا یقین یا گما ن پیدا ہو جا ئے اگر وہ وصیت کر ے کہ اس کے مال کی کچھ مقدا ر کسی مخصو ص مصر ف میں لا ئی جائے اور اس کے بعد وہ مر جا ئے تو اس کی وصیت صحیح نہیں ہے لیکن غیر ما لی امو ر میں اس کی و صیت نا فذ ہو گئی جیسے کہ اس کی تجہیز و تکفین میں ۔
(۲۶۵۷) اگر کو ئی شخص و صیت کر ے کہ اس کی املا ک میں سے کو ئی چیز کسی دو سر ے کاما ل ہو گی تو اس صو رت میں جبکہ وہ دو سرا شخص وصیت کو قبو ل کر لے خوا ہ اس کا قبو ل کر نا و صیت کرنے والے کی ز ند گی میں ہی کیو ں نہ ہو وہ چیز ”موصی“کی مو ت کے بعد اس کی ملکیت ہو جا ئے گی بشر طیکہ وہ چیز اس کے تر کے ۳۔ ۱ سے ز یا د ہ نہ ہو ۔
(۲۶۵۸) جب ا نسا ن اپنے آپ میں مو ت کی نشا نیا ں د یکھ لے تو ضر ور ی ہے کہ اس لوگوں کی اما نتیں فو را ا ن کے ما لکو ں کو وا پس کر د ے یا ا نہیں اطلا ع د ے دے اس تفصیل کے مطا بق جو مسئلہ ۲۳۰۲میں بیا ن ہو چکی ہے اگر وہ لوگو ں کا مقر و ض ہو اور قر ضے کی ا دا ئیگی کا و قت آ گیا ہو اور قر ض خوا ہ ا پنے قر ضے کی ا دا ئیگی کا و قت نہ آ یا ہو یا قرض خوا ہ بھی مطا لبہ نہ کر ر ہا ہو تو ضر ور ی ہے کہ ایسا کا م کر ے جس سے ا طمینا ن ہو جا ئے کہ اس کا قرض ا سکی موت کے بعد قرض خوا ہ کو ادا کر دیا جا ئے گا مثلا اس صو رت میں کہ اس کے قر ضے کا کسی دوسرے کو علم نہ ہو وہ وصیت کر ے اور گو ا ہو ں کے سا منے و صیت کر ے لیکن اگر قر ض کی ادائیگی کر سکتے ہو ں تو فو را ادا کر ے چا ہئے مو ت کے آ ثا ر بھی نہ د یکھے۔
(۲۶۵۹) جو شخص ا پنے آ پ میں مو ت کی نشا نیا ں د یکھ ر ہا ہوا گر ز کو ٰ ة خمس اور مظا لم اس کے ذمے ہو ں اورا نہیں اس و قت ادا نہ کر سکتا ہو لیکن اس کے پا س ما ل ہو یا اس با ت کا احتما ل ہو کہ کو ئی دوسرا شخص یہ چیز یں ادا کر د ے گا تو ضر ور ی ہے کہ و صیت کر ے اور ا گر اس کا بھی یہی حکم ہے لیکن ا گر و ہ شخص اس و قت ا پنے شر عی وا جبا ت ادا کر سکتا ہو تو ضرو ر ی ہے کہ فو را ادا کر ے اگر چہ وہ ا پنے آ پ میں مو ت کی نشا نیا ں نہ د یکھے ۔
(۲۶۶۰) جو شخص اپنے آ پ میں مو ت کی نشا نیا ں د یکھ ر ہا ہو اگر اس کی نما ز یں اور رو ز ے قضا ہو ئے ہو ں تو ضرو ر ی ہے کہ و صیت کر ے کہ اس کے ما ل سے ا ن عبا د ا ت کی ا دا ئیگی کے لیے کسی کو ا جیر بنا یا جا ئے بلکہ ا گر اس کے پا س ما ل نہ ہو لیکن ا س با ت کا احتما ل ہو کہ کو ئی شخص بلا معا و ضہ یہ عباد ات بجا لا ئے گا تب بھی اس پر وا جب ہے کہ و صیت کر ے لیکن اگر اس کا ا پنا کو ئی ہو ۔مثلا بڑا لڑ کا ہو او روہ شخص جا نتا ہو کہ کہ اسے خبر د ی جا ئے تو وہ اس کی قضا نماز یں اور رو ز ے بجا لا ئے گا تو اسے خبر د ینا ہی کا فی ہے وصیت کر نا لا ز م نہیں ۔
(۲۶۶۱) جو شخص ا پنے آ پ میں مو ت کی نشا نیا ں د یکھ ر ہا ہو ا گر اس کا ما ل کسی کے پا س ہو یا ایسی جگہ چھپا ہو ا ہو جس کے ور ثا ء کو علم نہ ہو تو اگر لا علمی کی و جہ سے و ر ثا ء کا حق تلف ہو تا ہو تو ضر ور ی ہے کہ ا نہیں اطلا ع د ے اور یہ لا ز م نہیں کہ وہ ا پنے نا با لغ بچو ں کے لیے نگرا ں اور سر پر ست مقر ر کر ے لیکن اس صو رت میں جبکہ نگرا ں کا نہ ہو نا ما ل کے تلف ہو نے کا سبب ہو یا خو د بچو ں کے لئے نقصا ن دہ ہو تو ضر ور ی ہے کہ ا ن کے لیے ا یک ا مین نگرا ں مقرر کر ے ۔
(۲۶۶۲) و صی کا عا قل ہو نا ضر و ر ی ہے نیز جو ا مو ر موصی سے متعلق ہیں اور اسی طر ح احتیا ط کی بنا پر جو امو ر دو سر و ں سے متعلق ہیں ضر ور ی ہے کہ و صہ ا ن کے با ر ے میں مطمئن ہو اور ضرور ی ہے کہ مسلما ن کا و صی بھی احتیا ط کی بنا پر مسلما ن ہو اگر مو صی فقط نا با لغ بچے کے لئے اس مقصد سے وصیت کر ے تا کہ وہ بچپن میں سر پر ست سے اجا ز ت لئے بغیر تصر ف کرسکے توا حتیا ط کی بنا پر در ست نہیں ہے لیکن اگر مو صی کا مقصد یہ ہو کہ با لغ ہو نے کے بعدیا سرپرست کی اجازت سے تصر ف کر ے تو کو ئی اشکا ل نہیں ہے ۔
(۲۶۶۳) اگر کو ئی کئی لو گو ں کو ا پنا و صی معین کر ے تو ا گر اس نے ا جا ز ت د ی ہو کہ ا ن میں سے ہر ا یک تنہا و صیت پر عمل کر سکتا ہے تو لا زم نہیں کہ و صیت ا نجا م د ینے میں ا یک دوسر ے کی ا جا ز ت لیں او ر ا گر و صیت کر نے وا لے نے ایسی کو ئی ا جا ز ت نہ د ی ہو تو خوا ہ اس نے کہا ہو کہ دو نو ں مل کر و صیت پر عمل کر یں ا نہیں چا ہئے کہ ا یک دو سر ے کی را ئے کے مطا بق و صیت پر عمل کر یں اور ا گر وہ و صیت پر عمل کر نے پر تیا ر نہ ہو ں اور مل کر عمل نہ کر یں نہ کر نے کوئی شر عی عذ ر نہ ہو تو حا کم شر ع ا نہیں ایسا کر نے پر مجبور کر سکتا ہے اور ا گر وہ حا کم شر ع کا حکم نہ ما نیں یا مل کر عمل نہ کر نے کا دو نو ں کے پا س کو ئی شر عی عذ ر ہو ت ہوا ن میں سے کسی ا یک کی ا جگہ کو ئی او ر و صی مقر ر کر سکتا ہے ۔
(۲۶۶۴) اگر کو ئی شخص ا پنی و صیت سے منحر ف ہو جا ئے مثلا پہلے وہ کہے کہ اس کے ما ل کا تیسرا حصہ فلا ں شخص کو د یا جا ئے اور بعد میں کہے کہ اسے نہ د یا جا ئے تو وصیت کا لعد م جا تی ہے او ر اگر کو ئی شخص ا پنی وصیت میں تبد یلی کر د ے مثلا ا یک شخص کو ا پنے بچو ں کا نگرا ن مقر ر کر ے اور بعد میں ا س کی جگہ کسی اور دو سر ے شخص کو نگرا ں مقرر کر د ے تو اس کی پہلی وصیت کا لعد م ہو جا تی ہے اور ضرو ر ی ہے کہ اس کی دو سر ی وصیت پر عمل کیا جا ئے ۔
(۲۶۶۵) اگر ایک شخص کوئی ایسا کام کرے جس سے پتا چلے کہ وہ اپنی وصیت سے منخرف ہو گیا مثلا جس مکان کے بارے میں وصیت کی ہو کہ وہ کسی کو دیا جائے اسے بیچ دے یا…پہلی وصیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے … کسی دوسرے شخص کو اسے بیچنے کیلئے وکیل مقرر کر دے تو وصیت کا لعدم ہو جاتی ہے ۔
(۲۶۶۶)اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ ایک معین چیز کسی شخص کو دی جائے اور بعد میں وصیت کرے کہ اس چیز کا نصف حصہ کسی اور شخص کو دیا جائے تو ضروری ہے کہ اس چیز کے دو حصے کئے جائیں اور ان دونوں اشخاص میں سے ہر ایک کو ایک حصہ دیا جائے ۔
(۲۶۶۷)اگر کوئی شخص ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے وہ مر جائے اپنے مال کی کچھ مقدار کسی شخص کو بخش دے اور وصیت کرے کہ میرے مرنے کہ بعد مال کی کچھ مقدار کسی اور شخص کو بھی دی جائے تو اگر اس کے مال کا تیسرا حصہ دونوں مال کے لئے کافی نہ ہواور ورثاء اس زیادہ مقدار کی اجازت دینے پر تیارنہ ہوں تو ضروری ہے کہ پہلے جو مال اس نے بخشا ہے وہ تیسرے حصے سے دید یں اور اس کے بعد جو مال باقی بچے وہ وصیت کے مطا بق خرچ کریں۔
(۲۶۶۸)اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اس کے ما ل کا تیسر ا حصہ بیچا جا ئے اور اس کی ا ٓ مد نی ایک معین کا م میں خر چ کی جائے تو اس کے کہنے کے مطابق عمل کر نا ضر ور ی ہے ۔
(۲۶۶۹) اگر کو ئی شخص ایسے مر ض کی حا لت میں جس مر ض سے وہ مر جا ئے یہ کہے کہ وہ مقدار میں کسی شخص کا مقر و ض ہے تو ا گر اس پر یہ تہمت ہو کہ اس نے یہ با ت و ر ثا ء کو نقصا ن پہنچا نے کے لیے کی ہے تو جو مقدا ر قر ض کی اس نے معین کی ہے وہ اس کے ما ل کے تیسر ے حصے سے د ی جا ئے گی اور ا گر اس پر یہ تہمت نہ ہو تو اس کا اقرا ر نا فذ ہے اور قر ضہ اس کے اصل ما ل سے ا دا کر نا ضر ور ی ہے ۔
(۲۶۷۰)جس شخص کو ا نسا ن و صی کر ے کہ کو ئی چیز اسے د ی جا ئے یہ ضرو ر ی نہیں کہ و صیت کر نے کے و قت وہ جو و جو د ر کھتا ہو لہذا اگر کو ئی انسا ن و صیت کر ے کہ جو بچہ فلا ں عور ت کے پیٹ میں پیدا ہو اس بچے کو فلا ں چیز د ی جا ئے تو ا گر وہ بچہ و صیت کر نے و الے کی مو ت کے بعد پیدا ہو تو لا ز م ہے کہ وہ چیز اسے دی جا ئے لیکن اگر وہ و صیت کر نے وا لے کی مو ت کے بعد پیدا ہو تولا ز م ہے ہے کہ وہ چیز اسے د ی جا ئے لیکن اگر وہ وصیت کر نے وا لے کی موت کے بعد وہ بچہ پیدا نہ ہو اور و صیت ا یک ز یا د ہ مقا صد کے لیے سمجھی جا ئے تو ضرو ر ی ہے کہ اس ما ل کو کسی ایسے دو سر ے کا م میں صر ف کیا جا ئے جو وصیت کر نے وا لے کے مقصد سے زیا د ہ قریب ہو ور نہ ور ثا ء خو د اسے آ پس میں تقسیم کر سکتے ہیں لیکن اگر وصیت کر نے والے کی مو ت کے مو جو د ہو تو و صیت صحیح ہے ور نہ با ل ہے اور جس چیز کی اس شخص کے لیے وصیت کی گئی ہو ( وصیت با طل ہو نے کی صو ر ت میں ) و ر ثا ء اسے آ پس میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
(۲۶۷۱) اگر ا نسا ن کو پتا چلے کہ کسی نے اس وصی بنا یا ہے تو ا گر و ہ وصیت کر نے وا لے لو اطلاع د ے د ے کہ وہ اس کی وصیت پر عمل کر نے پر آ ما د ہ نہیں ہے تو لا ز م نہیں کہ وہ اس کے مر نے کے بعد اس و صیت پر عمل کر ے لیکن اگر و صیت کنند ہ کے مر نے سے پہلے انسا ن کو یہ پتا نہ چلے کہ اس نے اسے وصی بنا یا ہے یا پتا چل جا ئے لیکن اسے یہ اطلا ع نہ د ے کہ وہ ( یعنی جسے وصی مقر ر کیا گیا ہے ) اس کی ( یعنی مو صی کی ) وصیت پر عمل کر نے پر آ ما د ہ نہیں ہے تو ا گر و صیت پر عمل کر نے میں کو ئی ز حمت نہ ہو تو ضر ور ی ہے کہ اس کی و صیت پر علمدر آ ٓمد کرے نیز اگر مو صی کے مر نے سے پہلے وصی کسی و قت اس امر کی جا نب متو جہ ہو کہ مر ض کی شدت کی و جہ سے یا کسی اور عذ ر کی بنا پر مو صی کسی دو سر ے شخص کو وصیت نہیں کر سکتا تو ا حتیا ط وا جب کی بنا ضرور ی ہے وہ وصی و صیت کو قبو ل کر لے ۔
(۲۶۷۲) جس نے وصیت کی ہوا گر وہ مر جا ئے تو وصی کو یہ ا ختیا ر نہیں کہ وہ کسی دو سر ے کو میت کا و صی معین کر ے اورخو د و صی ہی ا ن کا مو ں کو ا نجا م سے کنا ر ہ کش ہو جا ئے لیکن اگر اسے علم ہو کہ مر نے وا لے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ خو د و صی ہی ا ن کا مو ں کو انجا م د ینے میں شریک ہو بلکہ اس کا مقصد فقط یہ تھا کہ کا م کر د یئے جا ئیں تو وصی کسی دو سر ے شخص کو ان کو کاموں کی ا نجا مد ہی کے لئے ا پنی طر ف سے و کیل مقر ر کر سکتا ہے ۔
(۲۶۷۳) اگر کو ئی شخص دو ا فرا د کو اکٹھے و صی بنا ئے تو ا گر ا ن دو نو ں میں سے ا یک مر جائے یا د یوا نہ یا کافر ہو جا ئے اور و صیت کی عبا ر ت سے یہ سمجھ میں آ ئے کہ ایک فو ت ہو نے پر دو سر ا مستقل و صی ہو گا تو اسی پر عمل کیا جا ئے و رنہ حا کم شر ع اس کی جگہ ا یک اور شخص کو وصی مقر ر کرے گا ا ور ا گر د و نو ں مر جا ئیں یا کا فر یا د یوا نے ہو جا ئیں تو حا کم شر ع دوسرے اشخا ص کو ان کی جگہ معین کر ے گا لیکن ا گر ا یک شخص و صیت پر عمل کر سکتا ہو تو دو اشخاص کا معین کر نا لازم نہیں ۔
(۲۶۷۴)اگر و صی تنہا خوا ہ و کیل مقر ر کر کے یا د و سر ے کو ا جر ت د ے کر متو فی کے کا م انجام نہ د ے سکے تو حا کم شر ع اس کی مد د کے لئے ا یک اور شخص مقر ر کر یگا ۔
(۲۶۷۵) اگر متو لی کے ما ل کی کچھ مقدا ر و صی کے ہا تھ سے تلف ہو جا ئے تو ا گر و صی نے اس کی نگہدا شت میں کو تا ہی یا تعد ی کی ہو مثلا اگر متو لی نے اسے وصیت کی ہو کہ ما ل کی ا تنی مقدا ر فلا ں شہر کے فقیر و ں کو د ے د ے اور وصی ما ل کو دو سر ے شہر لے جا ئے اور وہ را ستے میں تلف ہو جا ئے تو وہ ذ مے دا ر ہے اور ا گر اس نے کو تا ہی یا تعد ی نہ کی ہو تو ذ مہ دار نہیں ہے ۔
(۲۶۷۶)اگر ا نسا ن کسی شخص کو وصی مقر ر کر ے اور کہے کہ ا گر وہ شخص ( یعنی وصی ) مر جا ئے تو پھر فلا ں شخص و صی ہو گا تو جب پہلا وصی مر جا ئے تو دو سر ے وصی کے لیے متو فی کے کا م انجام د ینا ضر ور ی ہے ۔
(۲۶۷۷) جو حج متو فی پر وا جب ہو نیز قر ضہ او ر ما لی وا جبا ت مثلا خمس ز کو ٰة اور مظا لم جن کا ادا کر نا وا جب ہو ا نہیں متوفی کے اصل ما ل سے ادا کر نا ضر ور ی ہے خوا ہ متو فی نے ا ن کے لیے وصیت نہ بھی کی ہو لیکن کفا را ت نذ ورا ت اور نذر کی ہو ئی حج اگر وصیت کی ہے تو ا یک ثلث مال سے ادا کیے جا ئیں ۔
(۲۶۷۸) اگر متو فی کا تر کہ قر ضے سے اور وا جب حج سے اور ا ن شر عی وا جبا ت سے جو اس پر وا جب ہوں مثلا خمس اور ز کو ٰة اور مظا لم سے ز یا دہ ہو تو اگر اس نے وصیت کی ہو کہ اس کے مال کا تیسرا حصہ یا تیسر ے حصے کی مقدا ر ایک معین مصر ف میں لا ئی جا ئے تو اس کی و صیت پر عمل کر نا ضرو ر ی ہے اور ا گر وصیت نہ کی ہو تو جو کچھ بچے وہ و رثا ء کا ما ل ہے
(۲۶۷۹) جو مصرف متوفی نے معین کیا ہو اگر وہ اس کے مال کے تیسرے حصے سے زیادہ کے بارے میں اس کی وصیت اس صورت میں صحیح ہے جب ورثاء کوئی ایسی بات یا ایسا کام کریں جس سے معلوم ہو کہ انہوں نے وصیت کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے اور ان کا صرف راضی ہونا کافی نہیں ہے اور اگر وہ وصی کی رحلت کے کچھ عرصے بعد بھی اجازت دیں تو صحیح ہے اور اگر بعض ورثاء اجازت دے دیں اور بعض وصیت کو رد کر دیں تو جنہوں نے اجازت دی ہو ان کے حصوں کی حد تک وصیت صحیح اور نافذ ہے۔
(۲۶۸۰)جو مصرف متوفی نے معین کیاا ہواگر اس پر اس کے مال کے تیسرے حصے سے زیادہ ہو اور اس کے ورثاء اس مصرف کی اجازت دے دیں (یعنی یہ اجازت دے دیں کہ ان کے حصے سے وصیت کو مکمل کیا جا سکتا ہے )تو اس کے مرنے کے بعد وہ اپنی دی ہوئی اجازت سے منحرف نہیں ہو سکتے اور اگر متوفی کے زندگی میں منع کر چکے ہوں تواس کے مرنے کے بعد اجازت دے سکتے ہیں․ لیکن اگر مرنے کے بعد رد کر چکے ہوں تو بعد کی اجازت موثر نہیں ہو سکتی۔
(۲۶۸۱) اگر مر نے والا وصیت کر ے کہ اس کے ما ل کے تیسر ے حصے سے خمس اور ز کو ٰة یا کوئی اور قر ضہ جو اس کے ذمے ہو دیا جا ئے اور اس کی قضا نما زو ں اور رو ز و ں کے لیے ا جیر مقرر کای جا ئے اور کو ئی مستحب کا م مثلا فقیر و ں کو کھا نا کھلا نا بھی انجا م دیا جا ئے تو ضر ور ی ہے کہ پہلے اس کا قر ضہ ما ل کے تیسر ے حصے سے دیا جا ئے اور اگر کچھ بچ جا ئے تو نما ز و ں اور رو ز و ں کے لیے ا جیر مقر ر کیا جا ئے اور ا گر اس کے ما ل کا تیسرا حصہ صر ف اس کے قر ضے کے برا بر ہو او ر و ر ثا ء بھی تہا ئی ما ل سے ز یا د ہ خر چ کر نے کی ا جا ز ت نہ د یں تو نما ز ، رو ز و ں اور مستحب کا مو ں کے لیے کی گئی وصیت با طل ہے ۔
(۲۶۸۶) اگر کو ئی شخص وصیت کر ے کہ اس کا قر ضہ ادا کیا جا ئے اور اس کی نماز و ں اور روزوں کے لیے ا جیر مقر ر کیا جائے اور کو ئی مستحب کا م بھی انجا م دیا جا ئے تو ا گر اس نے یہ و صیت نہ کی ہو کہ یہ چیز یں ما ل کے تیسر ے حصے سے د ی جا ئیں تو ضر ور ی ہے کہ اس کا قر ضہ اصل ما ل سے دیا جا ئے اور پھر جو کچھ بچ جا ئے اس کا تیسرا حصہ نما ز رو ز و ں ( جیسی عبا د ا ت ) اور ا ن مستحب کا مو ں کے مصر ف میں لایا جا ئے جو اس نے معین کئے ہیں اور ا س صو ر ت میں جبکہ تیسر ا حصہ ( ا ن کا مو ں کے لیے ) کا فی نہ ہو ا اگر و ر ثا ء اجا ز ت د یں تو اس کی و صیت پر عمل کر نا چا ہیئے اور ا گر و ہ ا جا ز ت نہ دیں تو نما ز اور رو ز و ں کی قضا کی ا جرت ما ل کے تیسر ے حصے سے د ینی چا ہئے اور ا گر اس میں سے کچھ بچ جا ئے تو وصیت کر نے وا لے نے جو مستحب کا م معین کیا ہوا اس پر خر چ کر نا چا ہیئے ۔
(۲۶۸۳) اگر کو ئی شخص کہے کہ مر نے وا لے نے وصیت کی تھی کہ ا تنی رقم مجھے د ی جا ئے تو ا گر دو عا د ل مر د اس کے قو ل کی تصد یق کر د یں یا وہ قسم کھا ئے اور ا یک عا د ل شخص اس کے قول کی تصد یق کر دے یا ا یک عا د ل مر د اور دو عا د ل عورتیں یا پھر چا ر عا د ل عو ر تیں اس کے قو ل کی گو اہی د یں تو جتنی مقدا ر وہ بتا ئے اسے د ے د ینی ضر ور ی ہے اور ا یک عادل عو ر ت گو ا ہی د ے د ے تو ضرو ر ی ہے کہ جس چیز کا و ہ مطا لبہ کر ر ہا ہو اس کا چو تھا حصہ اسے د ے دیا جا ئے اور ا گر دو عا د ل عورتیں گو ا ہی د یں تو ا ن کا نصف دیا جا ئے اورا گر تین عا د ل عو رتیں گوا ہی د یں تو اس کا تین چو تھا ئی دیا جا ئے نیز اگر دو کتا بی کا فر مر د جو ا پنے مذ ہب میں عا د ل ہو ں اس کے قو ل کی تصد یق کر یں تو اس صو رت میں جبکہ مر نے و الاوصیت کر نے پر مجبور ہو گیا ہو اور مسلما ن عا د ل مر د اور عو رتیں بھی وصیت کے مو قع پر مو جو د نہ ر ہے ہو ں تو وہ شخص متوفی کے ما ل سے جس چیز کا مطا لبہ کر رہا ہو وہ اسے د ے دینی ضر ور ی ہے ۔
(۲۶۸۴) اگر کو ئی شخص کہے کہ میں متوفی کا وصی ہو ں تا کہ اس کے ما ل کو فلا ں مصر ف میں لے آ و ں یا یہ کہے کہ متو فی نے مجھے اپنے بچوں کا نگرا ں مقر ر کیا تھا تو ا س کا قو ل ا س صو رت میں قبو ل کر نا چا ہئے جبکہ دو عا د ل مر د اس کے قو ل کی تصد یق کر یں یا ور ثا ء اسے قبو ل کر یں یا دو ذ می افرا د جو ا پنے مذ ہب میں عاد ل ہو ں گو ا ہی د یں جبکہ مسلما ن گوا ہی کے لیے مو جو د نہ ہوں۔
(۲۶۸۵) اگر مر نے والا وصیت کر ے کہ اس کے ما ل کی ا تنی مقدا ر فلا ں شخص کی ہو گی اور وہ شخص وصیت کو قبو ل کرنے یا رد کر نے سے پہلے مر جا ئے تو جب تک اس کے ور ثا ء وصیت کو رد نہ کر یں وہ اس چیز کو قبو ل کر سکتے ہیں لیکن یہ حکم اس صو ر ت میں ہے کہ وصیت کر نے والا اپنی وصیت سے منحر ف نہ ہو جا ئے ور نہ وہ ( یعنی وصی یا اس کے ور ثا ء ) اس چیز پر کو ئی حق نہیں ر کھتے ۔
میرا ث کے احکا م
(۲۶۸۶)جو اشخاص متوفی سے رشتے داری کی بناء پر ترکہ پاتے ہیں ان کے تین گروہ ہیں :
(۱)پہلاگروہ
متو فی کا باپ ما ں اور ا و لا د ہیں اور ا ولا د کے نہ ہو نے کی صو رت میں او لا د کی ا ولا د ہے جہا ں تک یہ سلسلہ نیچے چلا جائے ا ن میں سے جو کوئی متو فی سے زیا د ہ قر یب ہو وہ تر کہ پا تا ہے اور جب تک اس گر و ہ میں سے ایک شخص بھی مو جو د ہو د وسرا گر و ہ تر کہ نہیں پا تا ۔
(۲) دو سر ا گر و ہ
دا دا ، دا د ی ، نا نا ، نا نی ، بہن اور بھا ئی ہیں اور بھا ئی اور بہن نہ ہو نے کی صو ر ت میں ان کی ا ولا د ہے ا ن میں سے جو کو ئی متو فی سے جو زیا د ہ قر یب ہو وہ تر کہ پا تا ہے تیسر ا گر و ہ تر کہ نہیں پاتا۔
(۳) تیسرا گر وہ
چچا ، پھو پھی ما مو ں خا لہ اور ا ن کی ا و لا د ہے جب تک متو فی کے چچا و ں پھو پھیو ں ما موو ں اور خا لا و ں میں سے ایک شخص بھی ز ند ہ ہو ا ن کی ا و لا د تر کہ نہیں پا تی لیکن اگر متو فی کا پد ر ی چچا اور ما ں با پ دو نو ں کی طرف سے چچا زا د بھا ئی مو جو د ہو تو ترکہ با پ اور ما ں کی طرف سے چچا زا د بھائیوں کو ملے گا اور پدری چچا کو نہیں ملے گا لیکن اگر چچا یا چچازاد بھا ئی متعد د ہو ں یا متو فی کی بیو ی ز ند ہ ہو تو یہ حکم اشکا ل سے خا لی نہیں ہے ۔
(۲۶۸۷) اگر خو د متو فی کا چچا ، پھو پھی ما مو ں خا لہ اور ا ن کی اولا د کی اولا د یا ان کی اولاد کی اولاد نہ ہو تو اس کے با پ اور ما ں کے چچا پھو پھی ما مو ں اور خا لہ تر کہ پا تے ہیں اور ا گر وہ نہ ہو ں تو ان کی اولا د تر کہ پا تی ہے اور اگر وہ بھی نہ ہو تو متو فی کے دادا،دادی اور نا نا نا نی کے چچا پھو پھی ما مو ں اور خالہ تر کہ پا تے ہیں اور ا گر وہ بھی نہ ہو ں تو ا ن کی او لا د تر کہ پا تی ہے۔
(۲۶۸۸) بیو ی اور شو ہر جیسا کہ بعد میں تفصیل سے بتا یا جا ئے گاایک دو سر ے سے ترکہ پاتے ہیں ۔
پہلے گر وہ کی میرا ث
(۲۶۸۹) اگر پہلے گر وہ میں سے صر ف ا یک شخص متو فی کا وا رث ہو مثلا با پ یا ما ں یا اکلو تا بیٹا یا ا کلو تی بیٹی ہو تو متو فی کا تمام ما ل اسے ملتا ہے اور ا گر بیٹے اور بیٹیا ں و ار ث ہو ں تو ما ل کو یو ں تقسیم کیا جا تا ہے کہ ہر بیٹا بیٹی دے د گنا حصہ پا تا ہے ۔
(۲۶۹۰) اگر متو فی کے و ا رث فقط اس کا با پ اور اس کی ما ں ہو ں تو ما ل کے تین حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے دو حصے با پ اور ا یک حصہ ما ں کو ملتا ہے لیکن اگر متو فی کے دو بھا ئی یا چا ر بہنیں یا ا یک بھا ئی اور دو بہنیں ہو ں جو سب کے سب مسلما ن آ زا د اور ا یک با پ کی اولاد ہو ں خو ا ہ ہو ں خوا ہ ا ن کی ما ں حقیقی ہو یا سو تیلی ہو اور کو ئی بھی ما ں حا ملہ نہ وہ تو اگر چہ وہ متو فی کے با پ اور ما ں کے ہو تے ہو ئے تر کہ نہیں پا تے لیکن ا ن کے ہو نے کی و جہ سے ما ں کو ما ل کا چھٹا حصہ ملتا ہے اور با قی با پ کو ملتا ہے ۔
(۲۶۹۱) جب متو فی کے وا ر ث فقط اس با پ ما ں او ر ا یک بیٹی ہو لہذا اگر اس کے گز شتہ مسئلے میں بیا ن کر دہ شرا ئط رکھنے و الے دو پد ر ی بھا ئی یا چا ر پد ر ی بہنیں یا ایک پد ر ی بھا ئی اور دو پد ر ی بہنیں نہ ہو ں تو ما ل کے پا نچ حصے کئے جاتے ہیں با پ اور ما ں ا ن میں سے ایک ایک حصہ لیتے ہیں اور بیٹی تین حصے لیتی ہے اگر متو فی کے سا بقہ بیا ن کر دہ شرا ئط وا لے پدر ی بھا ئی یا چا ر پد ر ی بہنیں یا ایک پد ر ی بھا ئی اور دو پد ر ی بہنیں بھی ہو ں تو ا یک قول کے مطابق ما ل کے…سا بقہ تر تیب کے مطا بق … پا نچ حصے کئے جا ئیں گے اور ا ن افرا د کے و جود سے کو ئی اثر نہیں پر پڑ تا لیکن ( علماء کے بیچ ) مشہو ر یہ ہے کہ اس صو ر ت میں ما ل چھ حصو ں میں تقسیم ہو گا اس میں سے با پ اور ما ں کو ا یک ایک حصہ اور بیٹی کو تین حصے ملتے ہیں اور جو ایک حصہ با قی بچے گا اس کے پھر چا ر حصے کئے جا ئیں گے جس میں سے ا یک حصہ باپ کو اور تین حصے بیٹی کو ملتے ہیں نتیجے کے طور پر متو فی کے ما ل کے ۲۴ حصے کئے جا تے ہیں جن میں سے ۱۵ حصے بیٹی کو ۵ حصے با پ کو اور ۴ حصے ما ں کو ملتے ہیں چو نکہ یہ حکم اشکا ل سے خا لی نہیں اس لئے ما ں کے حصے میں ۵.۱ اور ۶․۱ میں جو فر ق ہے اس میں احتیا ط وا جب ہے کہ باہم مصالحت کی جا ئے ۔
(۲۶۹۲) اگر متو فی کے و ا رث فقط اس کا با پ ما ں اور ا یک بیٹا ہو تو ما ل کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے با پ اور ما ں کو ا یک ایک حصہ اور بیٹے کو چا ر حصے ملتے ہیں اور ا گر متوفی کے (صر ف) چند بیٹے ہو ں یا صرف چند بیٹیا ں ہوں تو ا ن چا ر حصو ں کو آپس میں مساوی طور پر تقسیم کر لیتے ہیں اور اگر بیٹے بھی ہوں اور بیٹیاں بھی ہوں تو ان چار حصوں کو اس طرح تقسیم کیا جا تا ہے کہ ہر بیٹے کو ایک بیٹی سے د گنا حصہ ملتا ہے ۔
(۲۶۹۳) اگر متوفی کے وارث فقط باپ یا ماں اور ایک یا کئی بیٹے ہوں تو مال کے چھ حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک حصہ باپ یا ماں کو اور پانچ حصے بیٹے کو ملتے ہیں اور اگر کئی بیٹے ہوں تو وہ ان پانچ حصوں کو آپس میں مساوی طور پر تقسیم کر لیتے ہیں۔
(۲۶۹۴) اگر با پ یا ما ں متو فی کے بیٹو ں اور بیٹیو ں کے سا تھ اس کے وا ر ث ہو ں تو ما ل کے چھ حصے کئے جا تے ہیں جن میں س ے ا یک حصہ با پ یا ما ں کو ملتا ہے اور با قی حصو ں کو یو ں تقسیم کیا جا تا ہے کہ ہر بیٹے کو بیٹی سے دگنا حصہ ملتا ہے ۔
(۲۶۹۵) اگر متو فی کے وا ر ث فقط با پ یا ما ں اور ایک بیٹی ہو ں تو ما ل کے چا ر حصے کئے جاتے ہیں جن میں ایک حصہ پا ب یا ما ں کو ا ور با قی تین حصے بیٹی کو ملتے ہیں ۔
(۲۶۹۶) اگر متو فی کے وا ر ث فقط با پ یا ما ں اور چند بیٹیا ں ہو ں تو ما ل کے پا نچ حصے کئے جاتے ہیں ا ن میں سے ا یک حصہ با پ یا ما ں کو ملتا ہے اور چا ر حصے بیٹیا ں آ پس میں مسا و ی طو ر پر تقسیم کر لیتی ہیں ۔
(۲۶۹۷) اگر متو فی کی ا ولاد نہ ہو تو ا س کے بیٹے کی اولا د … خو اہ وہ بیٹی ہی کیو ں نہ ہو۔ متوفی کے بیٹے کا حصہ پاتی ہے اور بیٹی کی اولاد خواہ وہ بیٹا ہی کیوں نہ ہو متوفی کی بیٹی کا حصہ پاتی ہے مثلا اگر متو فی کا ایک نوا سہ ( بیٹی کا بیٹا ) اورا یک پو تی ( بیٹے کی بیٹی ) ہو تو ما ل کے تین حصے کئے جا ئیں گے جن میں سے ا یک حصہ نوا سے کو اور دو حصے پو تی کو ملیں گے ۔
دو سر ے گر وہ کی میرا ث
(۲۶۹۸) جو لو گ رشتہ دا ر ی کی بنا پر میرا ث پا تے ہیں ا ن کا دو سرا گر وہ متو فی کا دا دا ، دا د ی نانا، نا نی بھا ئی بہنیں ہیں اور ا گر اس کے بھا ئی او ر بہنیں نہ ہو ں تو ا ن کی ا ولا د میرا ث پا تی ہے۔
(۲۶۹۹) اگر متو فی کا وا رث فقط ایک بھا ئی یا ا یک بہن ہو تو سا را ما ل اس کو ملتا ہے اور ا گر کئی سگے بھا ئی یا کئی سگی بہنیں ہو ں تو ما ل ا ن میں برا بر تقسیم ہو جا تا ہے اور ا گر سگے بھا ئی بھی ہوں اور بہنیں بھی تو ہر بھا ئی کو بہن سے د گنا حصہ ملتا ہے مثلا اگر متو فی کے دو سگے بھا ئی اور ایک سگی بہن ہو تو ما ل کے پا نچ حصے کئے جا ئیں گے جن میں سے ہر بھا ئی کو دو حصے ملیں گے اور بہن کو ا یک حصہ ملے گا ۔
(۲۷۰۰) اگر متو فی کے سگے بھا ئی مو جو د ہو ں تو پد ر ی بھا ئی اور بہنیں جن کی ما ں متو فی کی سوتیلی ما ں ہو میرا ث نہیں پا تے اور ا گر اس کے سگے بہن بھا ئی نہ ہو ں اور فقط ا یک پد ر ی بھائی ہو یا ا یک پد ر ی بہن ہو تو سا را ما ل اس کو ملتا ہے اور ا گر اس کے کئی پد ر ی بھا ئی یا کئی پدری بہنیں ہو ں تو ما ل ا ن کے در میا ن مساو ی طو ر پر تقسیم ہو جا تا ہے اور ا گر اس کے پد ر ی بھائی بھی ہو ں اور پد ر ی بہنیں بھی ہو تو ہر بھا ئی کو بہن سے د گنا حصہ ملتا ہے ۔
(۲۷۰۱) اگر متو فی کا وا ر ث فقط ا یک ما د ر ی بہن یا بھا ئی ہو جو با پ کی طرف سے متو فی کی سو تیلی بہن یا سو تیلا بھا ئی ہو تو سا را ما ل اسے ملتا ہے اور ا گر چند ما در ی بھا ئی ہو ں یا چند ما د ری بہنیں ہو ں یا چند ما د ر ی بھا ئی یا بہنیں ہو ں تو ما ل ان کے در میا ن مسا و ی طور پر تقسیم ہو جا تا ہے۔
(۲۷۰۲) ا گر متو فی کے سگے بھا ئی بہنیں اور پد ر ی بھا ئی یا ا یک ما د ر ی بہن ہو تو پد ر ی بھا ئی بہنو ں کو تر کہ نہیں ملتا اور مال کے چھ حصے کئے جا تے ہیں جن میں سے ا یک حصہ ما د ر ی بھا ئی یا مادر ی بہن کو ملتا ہے اور با قی حصے سگے بھا ئی بہنوں کو ملتے ہیں اور ہر بھا ئی دو بہنو ں کے برا بر حصہ پا تا ہے ۔
(۲۷۰۳) اگر متو فی کے سگے بھا ئی بہن اور پد ر ی بھا ئی بہنیں اور چند ما د ر ی بھا ئی بہنیں ہو ں تو پد ر ی بھا ئی بہنو ں کو تر کہ نہیں ملتا اور ما ل کے تین حصے کئے جا تے ہیں جن میں سے ا یک حصہ ما در ی بھا ئی بہنیں آ پس میں بر ابر بر ابر تقسیم کرتے ہیں ا ور با قی دو حصے سگے بھا ئی بہنو ں کو اس طر ح د یئے جا تے ہیں کہ ہر بھائی کا حصہ بہن سے دگنا ہو تا ہے ۔
(۲۷۰۴) اگر متو فی کے وا ر ث صر ف پد ر ی بھا ئی بہنیں اور ا یک ما د ر ی بھائی یا ا یک ما د ر ی بہن ہو ں تو ما ل کے چھے حصے کئے جا تے ہیں ا ن میں سے ایک حصہ ما د ر ی بھا ئی یا ما د ر ی بہن کو ملتا ہے اور با قی حصے پد ر ی بہن بھا ئیو ں میں اس طر ح تقسیم کئے جا تے ہیں کہ ہر بھا ئی کو بہن سے د گنا حصہ ملتا ہے ۔
(۲۷۰۵) اگر متو فی کے وا ر ث فقط پد ر ی بھا ئی بہنیں اور چند ما د ر ی بھا ئی بہنیں ہو ں تو ما ل کے تین حصے کئے جا تے ہیں ا ن میں سے ا یک حصہ ما د ر ی بھا ئی بہنیں آ پس میں برا بر برا بر تقسیم کر لیتے ہیں اور با قی دو حصے پد ر ی بہن بھا ئیو ں کو اس طر ح ملتے ہیں کہ ہر بھا ئی کا حصہ بہن سے د گنا ہو تا ہے ۔
(۲۷۰۶) اگر متو فی کے وا ر ث اس کے بھا ئی بہنیں اور بیو ی ہو ں تو بیو ی اپنا تر کہ اس تفصیل کے مطا بق لے گی جو بعد میں بیا ن کی جا ئے گی اور بھا ئی بہن ا پنا تر کہ اس طر ح لیں گے جیسا کہ گز شتہ مسا ئل میں بتا یا گیا ہے نیز اگر کو ئی عو رت مر جا ئے اور اس کے وا ر ث فقط اس کے بھا ئی بہنیں اور شو ہر ہو ں تو نصف ما ل شو ہر کو ملے گا اور بہنیں بھا ئی اس طر ح سے تر کہ پائیں گے جس کا ذ کر گزشتہ مسا ئل میں کیا گیا ہے لیکن بیو ی یا شو ہر کے تر کہ پا نے کی و جہ سے ما د ر ی بھا ئی بہنو ں کے حصے میں کو ئی کمی نہیں ہو گی تا ہم سگے بھا ئی بہنو ں یا پد ری بھا ئی بہنو ں کے حصے میں کمی ہو گی مثلا اگر کسی متوفیہ کے وارث اس کا شوہر اور مادری بہن بھائی اور سگے بہن بھائی ہوں تو نصف مال شوہر کو ملے گا اور اصل مال کے تین حصوں میں سے ایک حصہ مادری بہن بھائیوں کو ملے گا جو کچھ بچے گا وہ سگے بہن بھائیوں کا مال ہو گا۔ پس اگر اس کا کل مال چھ روپے ہو تو تین روپے شوہر کو اور دو روپے مادری بہن بھائیوں کو اور ایک روپیہ سگے بہن بھائیوں کو ملے گا۔
(۲۷۰۷) اگر متو فی کے بھا ئی بہنیں نہ ہوں تو ا ن کے تر کے کا حصہ ا ن کی (یعنی بہنو ں کی ) اولا د کو ملے گا اور ما د ر ی بہن بھا ئیو ں کی ا ولا د کا حصہ ا ن کے ما بین بر ابر تقسیم ہو تا ہے اور جو حصہ پد ر ی بھا ئی بہنو ں کی ا ولا د دیا سگے بھا ئی بہنو ں کی ا ولا د کو ملتا ہے اس کے با ر ے میں مشہو ر ہے کہ ہر لڑ کا دو لڑ کیو ں کے برا بر حصہ پا تا ہے لیکن کچھ بعید نہیں ہے کہ ان کے ما بیں بھی تر کہ بر ابر بر ابر تقسیم ہو اور احو ط یہ ہے کہ وہ مصا لحت کی جا نے ر جو ع کر یں ۔
(۲۷۰۸) اگر متو فی کا وا ر ث فقط دا دا فقط دا د ی یا فقط نا نا یا فقط نا نی ہو تو متو فی کا تمام ما ل اسے ملے گا اور ا گر متو فی کا دا دا یا نا نا مو جو د ہو تو اس کے با پ ( متو فی کے پر دا دا یا پر نا نا ) کو تر کہ نہیں ملتا اور ا گر متو فی کے و ار ث فقط اس کے دا دا اوردا د ی ہو ں تو ما ل کے تیں حصے کئے جا تے ہیں جن میں سے دو حصے دا دا کو اور ا یک حصہ دا د ی کو ملتا ہے اور ا گر وہ نا نا اور نا نی ہو ں تو وہ ما ل کو برا بر برا بر تقسیم کر لیتے ہیں ۔
(۲۷۰۹) اگر متو فی کے وا رث ا یک دا دا یا دا دی اور ا یک نا نا یا نا نی ہو ں تو ما ل کے تین حصے کئے جا ئیں گے جن میں سے دو حصے دا دا یا دا دی کو ملیں گے اور ا یک حصہ نانا یا نا نی کو ملے گا ۔
(۲۷۱۰ ) اگر متو فی کے و ا رث دا دا اور دا د ی اور نا نا اور نا نی ہو ں تو ما ل کے تین حصے کئے جاتے ہیں جن میں سے ا یک حصہ نا نا اور نا نی آ پس میں بر ابر بر ابر تقسیم کر لیتے ہیں اور با قی دو حصے دا د ا اور دا دی کو ملتے ہیں جن میں دا دا کا حصہ دو تہائی ہو تا ہے ۔
(۲۷۱۱) اگرمتو فی کے وا رث فقط اس کی بیو ی اور دا دا م دا د ی اور نا نا ، نا نی ہو ں تو بیو ی ا پنا حصہ اس تفصیل کے مطا بق لیتی ہے جو بعد میں بیا ن ہو گی اور اصل ما ل کے تین حصو ں میں سے ا یک حصہ نا نا اور نا نی کو ملتا ہے جو ا ٓ پس میں برا بربرابر تقسیم کر تے ہیں اور با قی ما ند ہ ( یعنی بیو ی اور نا نا ، نا نی کے بعد جو کچھ بچے ) دا د ا اور دا د ی کو ملتا ہے جس میں دا دا ، دا دی کے مقا بلے میں د گنا لیتا ہے اگر متو فی کے وا ر ث ا س کا شو ہر اور دا دا یا نا نا اور دا دی یا نا نی ہو ں تو شو ہر کو نصف ما ل ملتا ہے اور دا دا نا نا اور دا د ی نا نی ا ن احکا م کے مطا بق تر کہ پا تے ہیں جن کا ذکر گذشتہ مسا ئل میں ہو چکا ہے ۔
(۲۷۱۲) بھا ئی بہن بھا ئیو ں ، بہنو ں کے سا تھ دا دا ، دا د ی یا نا نا ، نا نی اور دا داوں ۔ دا د یو ں یا نا نا و ں نانیو ں کے ا جتما ع کی چند صو ر تیں ہیں ۔
(۱) نا نا یا نا نی اور بھا ئی یا بہن سب ما ں کی طرف سے ہو ں اس صو ر ت میں ما ل ا ن کے در میا ن مساوی طور پر تقسیم ہو جا تا ہے اگر چہ وہ مذکر اور مو نث کی حیثیت سے مختلف ہو ں ۔
(۲) دا د ا یا دا دی کے سا تھ بھا ئی یا بہن با پ کی طرف سے ہو ں اس صو رت میں بھی ان کے ما بین مال مسا و ی طور پر تقسیم ہو تا ہے بشر طیکہ وہ سب مر د ہو ں یا سب عور تیں ہو ں اور ا گر مر داور عورتیں ہو ں تو پھر ہر مر د ہر عو رت کے مقا بلے میں د گنا حصہ لیتا ہے۔
(۳) دا د ا یا دا د ی کے سا تھ بھا ئی یا بہن ما ں اور با پ کی طرف سے ہو ں اس صو ر ت میں بھی و ہی حکم ہے جو گز شتہ صورت میں ہے اور یہ جا ننا چا ہئے کہ ا گر متو فی کے پد ر ی بھا ئی یا بہن سگے بھا ئی یا بہن کے سا تھ جمع ہو جا ئیں تو صر ف پد ر ی بھا ئی یا بہن میراث نہیں پا تے ۔
(۴) د ا د ے ، دا دیا ں اور نا نے ، نا نیا ں ہو ں خو ا ہ وہ سب کے سب مر د ہو ں یا عورتیں ہو ں یا مختلف ہو ں اور اسی طر ح سگے بھا ئی اور بہنیں ہو ں اس صو ر ت میں جو مادر ی رشتے دا ر بھا ئی بہن اور نا نے نا نیا ں ہو ں تر کے میں ا ن کا ا یک تہائی حصہ ہے اور ا ن کے در میان بر ابر تقسیم ہو جا تا ہے خو ا ہ وہ مر د اور عو رت کی حیثیت سے ایک دو سر ے سے مختلف ہو ں اور ا ن میں سے جو پد ر ی رشتہ دا ر ہو ں ا ن کا حصہ دو تہا ئی ہے جس میں سے ہر مر د کو ہر عو رت کے مقا بلے میں د گنا ملتا ہے اور ا گر ا ن میں کو ئی فرق نہ ہو اور سب مر د یا سب عو رتیں ہو ں تو پھر وہ تر کہ ا ن میں بر ابر بر ابر تقسیم ہو جا تا ہے۔
(۵) دا دا یا دا د ی ما ں کی طرف سے بھا ئی بہن کے سا تھ جمع ہو جا ئیں اس صو رت میں ا گر بہن یا بھائی با لفر ض ا یک ہو تو اسے ما ل کا چھٹا حصہ ملتا ہے اور ا گر کئی ہوں تو تیسرا حصہ ا ن کے درمیان بر ا بر بر ابر تقسیم ہو جا تا ہے اور جو با قی بچے وہ دا دا یا دا دی کا ما ل ہے اور ا گر اور دا د ی دو نو ں ہو ں تو دا دی کے مقا بلے میں د گنا حصہ ملتا ہے ۔
(۶) نا نا یا نا نی ، با پ کی طرف سے بھا ئی کے سا تھ جمع ہو جا ئیں اس صو رت میں نا نا یا نا نی کا تیسرا حصہ ہے خوا ہ ا ن میں سے ا یک ہی ہو ا گر دو نو ں ہو ں تو یہی تیسرا حصہ دو نو ں میں برا بر تقسیم کیا جا ئے گا اور دو تہا ئی بھا ئی کا حصہ ہے خوا ہ وہ بھی ا یک ہی ہو اور اگر اس نانا، نانی کے سا تھ با پ کی طر ف سے بہن ہو اور وہ ا یک ہی ہو تو وہ آ د ھا حصہ لیتی ہے اور ا گر کئی بہنیں ہو ں تو دو تہا ئی ہیں اور ہر صو ر ت میں نا نا یانا نی کا حصہ ایک تہا ئی ہی ہے اور ا گر بہن ا یک ہی ہو تو سب کے حصے د ے کر تر کے کا چھٹا حصہ بچ جا تا ہے اور اس با ر ے میں ا حتیا ط وا جب مصا لحت میں ہے ۔
(۷) دا د ا یا دا یا ں ہو ں اور کچھ نا نا ، نا نیا ں ہو ں اور ا ن کے سا تھ پد ری بھا ئی یا بہن ہو خوا ہ وہ ا یک ہی ہو یا کئی ہو ں اس صو رت میں نا نا یا نا نی کا حصہ ا یک تہا ئی ہے اور اگر وہ ز یا د ہ ہو ں تو یہ ا ن کے ما بین مسا و ی طو ر پر تقسیم ہو جا تا ہے خواہ وہ مر د اور عو رت کی حیثیت سے مختلف ہی ہو ں اور با قی ما ند ہ دو تہا ئی دا د ے یا د ا د ی اور پد ر ی بھا ئی یا بہن کا ہے اور ا گر وہ مر د اور عو رت کی حیثیت سے مختلف ہو ں تو فرق کے سا تھ اور ا گر مختلف نہ ہو ں تو بر ا بر ا ن میں تقسیم ہو جا تا ہے اگر ان دا دو ں ، نا نو ں یا د ا دیو ں ، نانیوں کے سا تھ ما د ر ی بھا ئی یا بہن ہو ں تو نا نا یا نا نی کا حصہ ما د ر ی بھا ئی یا بہن کے ساتھ ا یک تہا ئی ہے جو ا ن کے در میا ن بر ابر بر ا بر تقسیم ہو جا تا ہے اگر چہ وہ بہ حیثیت مر د اور عو رت ا یک دو سر ے سے مختلف ہو ں اور دا د ایا دا د ی کا حصہ دو تہا ئی ہے جو ا ن کے ما بین اختلا ف کی صو ر ت میں (یعنی بہ حیثیت مر د اور عو ر ت اختلا ف کی صو ر ت میں ) فر ق کے سا تھ و ر نہ بر ابر بر ابر تقسیم ہو جا تا ہے ۔
(۸) بھا ئی اور بہنیں ہو ں جن میں سے کچھ پد ر ی او ر اور کچھ ما د ر ی ہو ں او ر ان کے سا تھ دا دا یا دا دی ہو ں اس صور ت میں ا گر ما د ر ی بھا ئی یا بہن ا یک ہو تو تر کے میں اس کا چھٹا حصہ ہے اور ا گر ا یک سے زیا د ہ ہو ں تو تیسرا حصہ ہے جو کہ ان کے ما بین برابر برابر تقسیم ہو جاتا ہے اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو تیسرا حصہ ہے جو کہ ا ن کے مابین بر ابر بر ابر تقسیم ہو جا تا ہے اور با قی تر کہ پد ر ی بھا ئی یا بہن اور دا د ا یا د ا ی کا ہے جو ا ن کے بحیثیت مر د اور عو ر ت مختلف نہ ہو نے کی صو رت میں ا ن کے ما بین بر ابر بر ابر تقسیم ہو جا تا ہے او ر مختلف ہو نے کی صو رت میں فر ق سے تقسیم ہو تا ہے اور ا گر ا ن بھا ئیوں یا بہنو ں کے ساتھ نا نا یا نا نی ہو ں تو نا نا یا نا نی اور ماد ر ی بھا ئیو ں اور بہنو ں کا حصہ دو تہا ئی ہو تا ہے اور ا ن کے ما بین بر ابر برا بر تقسیم ہو تا ہے اور پد ر ی بھا ئیو ں یا بہنو ں کا حصہ دو تہا ئی ہو تا ہے جو ا ن میں بہ حیثیت مر د اور عو رت اختلا ف کی صو رت میں فر ق سے اور ا ختلا ف نہ ہو نے کی صو رت میں بر ابر بر ابر تقسیم ہو جا تا ہے ۔
(۲۷۱۳) اگر متو فی کے بھا ئی یا بہنیں ہو ں تو بھا ئیو ں یا بہنو ں کی ا ولا د کو میرا ث نہیں ملتی لیکن اگر بھا ئی کی اولا د اور بہن کی ا ولا د کا میرا ث پا نا بھا ئیو ں او ر بہنو ں کی میراث سے مزا حم نہ ہو تو پھر اس حکم کا اطلا ق نہیں ہو تا مثلا اگر متو فی کا پدر ی بھا ئی کو میر اث کے دو حصے اور نانا کو ایک تہا ئی حصہ ملے گا اور اس صو رت میں اگر متو فی کے ما د ر ی بھا ئی کا بیٹا ہو تو بھا ئی کا بیٹا نا نا کے ساتھ ا یک تہا ئی میں شر یک ہو تا ہے ۔
تیسر ے گر وہ کی میرا ث
(۲۷۱۴) میر ا ث پا نے وا لو ں کے تیسر ے گرو ہ میں چچا پھو پھی ما مو ں اورخا لہ اور ا ن کی اولا د ہیں اور جیسا کہ بیا ن ہو چکا ہے اگر پہلے اور پہلے اور دو سر ے گر و ہ میں سے کو ئی وا ر ث مو جو د نہ ہو تو پھر یہ لو گ وا ر ثت پا ے ہیں ۔
(۲۷۱۵) اگر متو فی کا وا رث فقط ا یک چچا یا ا یک پھو پھی ہو تو خوا ہ وہ سگا ہو یعنی وہ او ر متو فی ایک ما ں با پ کی ا و لا د ہو ں یا پد ر ی ہو یا پد ر ی ہو یا ما د ر ی ہو سا را ما ل اسے ملتا ہے اگر چند چچا پھو پھیا ں ہو ں اور وہ سب سگے یا سب پد ر ی یا سب ما د ر ی ہو ں توا ن کے در میا ن ما ل بر ابر تقسیم ہو گا اگر چچا اور پھو پھی دو نو ں ہو ں اور سب سگے ہو ں یا سب پد ر ی ہو ں تو چچا کو پھو پھی سے دگنا حصہ ملتا ہے ۔
(۲۷۱۶) اگر متو فی کے وا رث چچا او ر پھو پھیو ں ہو ں اور ا ن میں سے کچھ پد ر ی اور کچھ مادری اور کچھ سگے ہو ں تو پد ر ی چچا وں اور پھو پھیو ں و تر کہ نہیں ملتا اور اقوی یہ ہے کہ ا گر متوفی کا ا یک ما د ر ی پھو پھی ہو تو ما ل کے چھ حصے کئے جا تے ہیں جن میں سے ا یک حصہ مادر ی چچا یا پھو پھی کو دیا جا تا ہے اور با قی حصے سگے چچا و ں اور پھو پھیوں کو ملتے ہیں اور بالفرض اگر سگے چچا اور پھو پھیا ں نہ ہو ں تو وہ حصے پد ر ی چچا و ں او ر پھو پھیو ں کو تر کہ ملتا ہے اور ایک حصہ ما د ر ی چچا اور پھو پھی کو ملتا ہے او ر مشہو ر یہ ہے کہ ما د ر ی چچا اور ما د ر ی پھو پھی کا حصہ ا ن کے ما بین بر ابر بر ابر تقسیم ہو گا لیکن بعید نہیں کہ چچا کو پھو پھی سے دگنا حصہ ملے اگر چہ احتیا ط اس میں ہے کہ با ہم تصفیہ کر یں ۔
(۲۷۱۷) اگرمتو فی کے وا رث فقط کچھ ما د ر ی پھو پھیا ں ہو ں تومتو فی کا ما ل ا ن کے ما بین مسا و ی طو ر پر تقسیم ہو گا اور اگر وا رث ما د ر ی پھو پھی ہو تو چچا کو پھو پھی سے دگنا تر کہ ملے گا اگرچہ احتیا ط یہ ہے کہ چچا کو جتنا زیا د ہ حصہ ملا ہے اس پر با ہم تصفیہ کر یں ۔
(۲۷۱۸) اگر میت کے وا ر ث ا یک یا کئی ا یک ما مو ں او رخالہ ہو ں ما موں اور پھو پھی جو سگے ہو ں یا با پ کی طرف سے ہو ں تو ایسی صو ر ت میں با پ کیطرف سے ما مو ں اور پھو پھی کو ورا ثت کا نہ ملنا محل اشکال ہے بہر حا ل ما مو ں یا خالہ میں سے ا یک ہو تو اسے ما ل کا ۶.۱ حصہ ملے گا اگر کئی ایک ہو ں تو ۳ ․۱ ما ل کے حقدا ر ہیں با قی ما ل کو با پ کی طرف سے چچا اور پھو پھی یا ما ں با پ دو نو ں کی طرف سے ہو ں کو دیا جا ئے ہر حا لت میں یہ ا حتما ل ہے کہ ماموں کا حصہ دو خا لا و ں کے بر ابر ہو گا احتیا ط وا جب یہ ہے کہ آ پس میں مصا لحت کر یں ۔
(۲۷۱۹) اگر متو فی کے وا ر ث ا یک یا چند ما مو ں یا ایک یا چند خالا ئیں یا ما مو ں اور خا لا اور ایک یا چند چچا یا ا یک چند پھو پھیا ں یا چند پھوپھیا ں یا چچا اور پھو پھی ہو ں تو ما ل تین حصوں میں تقسیم کیا جا تا ہے ا ن میں سے ا یک حصہ ما مو ں یاخا لہ کو یا دو نو ں کوملتا ہے تو باقی دو حصے چچا یا پھو پھی کو یا دو نو ں کو ملتے ہیں ہر گر و ہ کے درمیا ن تقسیم کا طر یقہ بیا ن ہوچکا ہے ۔
(۲۷۲۰) اگر متو فی کے وا ر ث ما د ر ی ما مو ں یا خا لائیں اور چند سگے ما مو ں اور خا لا ئیں ہو ں یا فقط پد ر ی ما مو ں اور خالائیں اور چچا و پھو پھی ہو ں تو ما ل کے تین حصے کیے جا تے ہیں ا ن میں سے دو حصے اس دستور کے مطا بق جو بیا ن ہو چکا ہے چچا اور پھو پھی آ پس میں تقسیم کر یں گے اور بعید نہیں کہ باقی ما ند ہ تیسرے حصے کی تقسیم میں با قی ورثا ء کے حصے برابر ہو ں ۔
(۲۷۲۱)اگر متوفی کے وارث اس کے باپ کے چچا پھوپھیاں ماموں اورخالائیں اور اس کی ماں کے چچا پھوپھیوں ماموں اور خالائیں ہوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک حصہ متوفی کی ماں کے چچاوئں پھوپھیوں ماموں اور خالاوئں کو بطور میراث ملے گا مشہور قول کی بنا پر مال ان کے درمیان برابر برابرتقسیم کر دیا جائے گا لیکن احتیاط کے طور پر مصالحت کا خیال رکھنا چاہیے باقی دو حصوں کے تین حصے کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک حصے متوقی کے باپ کے ماموں اور خالائیں(یعنی ننھیالی رشتے دار ) اسی کیفیت کے مطابق آپس میں برابر برابر بانٹ لیتے ہیں اور باقی دو حصے بھی اسی کیفیت کے مطابق متوفی کے باپ کے چچاؤں اور پھوپھیوں (یعنی ددھیالی رشتہ داروں)کو ملتے ہیں ۔
بیوی اور شوہر کی میراث
(۲۷۲۲)اگر کوئی عورت بے اولاد مر جائے تو اس کے سارے مال کا نصف حصہ شوہر کو اورباقی ماندہ دوسرے ورثا ء کو ملتا ہے اور اگر کسی عورت کی پہلے شوہر سے اولاد ہو تو سارے مال کا چو تھا ئی حصہ شو ہر کو با قی ما ند ہ دو سر ے و ر ثا ء کو ملتا ہے ۔
(۲۷۲۳) اگر آ د می مر جا ئے اور اس کی کو ئی اولا دنہ ہو تو اس کے ما ل کا چو تھا ئی حصہ اس کی بیوی کو اور با قی دو سر ے ورثاء کو ملتا ہے اگر اس آ د می کی اس بیو ی سے اولا د ہو تو ما ل کا آ ٹھو ا ں حصہ بیو ی کو اور با قی دو سرے ورثا ء کو ملتا ہے گھر کی زمین با غ کھیت اور دو سر ی ز مینو ں میں سے عور ت نہ خو د ز مین بطور میرا ث حاصل کر تی ہے اور نہ ہی اس کی قیمت میں سے کو ئی تر کہ پا تی ہے نیز وہ گھر کی فضا میں قا ئم چیزو ں مثلا عما ر ت او ر در ختو ں سے تر کہ نہیں پا تی لیکن ا ن کی قیمت کی صو رت میں میں ترکہ پا تی ہے اور جو در خت کھیت اور عما ر تیں با غ کی ز مین مزروعہ ز مین اور دوسر ی زمینو ں میں ہو ان کا بھی یہی حکم ہے لیکن شو ہر کی و فا ت کے و قت جو پھل در ختو ں میں تھے اس میں سے و را ثت پا تی ہے ۔
(۲۷۲۴) جن چیز و ں میں سے عو رت تر کہ نہیں پا تی مثلا ر ہا ئشی مکا ن کی ز مین اگر وہ ا ن میں تصرف کر نا چا ہے تو ضروری ہے کہ دوسر ے و ر ثا ء سے ا جا ز ت لے اور و ر ثا ء جب تک عورت کا حصہ نہ دے د یں ان کے لیے جا ئز نہیں ہے کہ اس کی اجا ز ت کے بغیر ا ن چیز و ں میں مثلا عما ر تو ں اور درختو ں میں تصر ف کر یں جن کی قیمت سے وہ تر کہ پا تی ہے ۔
(۲۷۲۵) اگر عما ر ت اور در خت و غیر ہ کی قیمت لگا نا مقصو د ہو تو جیسا کہ قیمت لگا نے والو ں کا معمو ل ہو تا ہے کہ جس ز مین میں وہ ہیں اس کی خو صیا ت کو پیش نظر ر کھے بغیر ا ن کا حسا ب کریں کہ ا ن کی کتنی قیمت ہے نہ کہ ا نہیں ز مین سے ا کھڑ ے ہو ئے فر ض کر کے ا ن کی قیمت لگائیں اور نہ ہی ا ن کی قیمت کا حسا ب اس طر ح کر یں کہ اگر وہ بغیر کر ا ئے کے اس ز مین میں اسی حالت میں با قی ر ہیں تو ا ن کی قیمت کیا ہو گی ۔
(۲۷۲۶) نہر و ں کا پا نی بہنے کی جگہ اور اسی طر ح کی دو سر ی جگہ ز مین کا حکم ر کھتی ہے اور اینٹیں اور دو سر ی چیز یں جو اس میں لگا ئی گئی ہو ں وہ عما ر ت کے حکم میں ہے البتہ خو د پا نی میں وراثت پا تی ہیں ۔
(۲۷۲۷ ) اگر متو فی کی ا یک سے ز یا د ہ بیو یا ں ہو ں لیکن اولا د کو ئی نہ ہو تو ما ل کا چو تھا حصہ اور اگر اولا د ہو تو ما ل کا آٹھواں حصہ اس تفصیل کے مطا بق جس کا بیا ن ہو چکا ہے سب بیو یو ں میں مساوی طو ر پر تقسیم ہو تا ہے خوا ہ شو ہر نے ان سب کے سا تھ یا ا ن میں سے بعض کے ساتھ ہمبستری نہ بھی کی ہو لیکن ا گر اس نے ایک ایسے مر ض کی حا لت میں جس سے اس کی موت وا قع ہو ئی ہے کسی عو رت سے نکا ح کیا ہو اور ا س سے ہمبستر ی نہ کی ہو تو وہ عور ت اس سے تر کہ نہیں پاتی اور وہ مہر کا حق بھی نہیں ر کھتی ۔
(۲۷۲۸) اگر کوئی عور ت مر ض کی حا لت میں کسی مر د سے شا د ی کر ے اور اس مر ض میں مر جائے تو خوا ہ مر د نے اس سے ہمبستر ی نہ بھی کی ہو وہ اس کے تر کے میں حصے دا ر ہے ۔
(۲۷۲۹) اگر عورت کی اس تر تیب سے ر جعی طلا ق د ی جا ئے جس کا ذ کر طلا ق کے احکا م میں کیا جا چکا ہے اور وہ عد ت کے دور ا ن مر جا ئے تو شو ہر اس سے تر کہ پا تا ہے اسی طرح اگر شو ہر عد ت کے دو را ن فو ت ہو جا ئے تو بیو ی اس سے تر کہ پا تی ہے لیکن عد ت گز ر نے کے بعد یا با ئن طلا ق کی عد ت کے دو را ن ا ن میں سے کو ئی ا یک مر جا ئے تو دو سرا اس سے تر کہ نہیں پا تا ۔
(۲۷۳۰) اگر شو ہر مر ض کی حالت میں ا پنی بیو ی طلا ق د ے دے اور با ر ہ قمر ی مہینے گز ر نے سے پہلے مر جا ئے تو عورت تین شر طیں پو ر ی کر نے پر اس کی میرا ث سے ترکہ پا تی ہے ۔
(۱) عور ت نے ا س مد ت میں دوسرا شو ہر نہ کیا ہو اور ا گر دو سر ا شو ہر کیا ہو تو اسے میراث نہیں ملے گی اگر چہ احتیا ط یہ ہے کہ صلح کر لیں ( یعنی متوفی کے ور ثا ء عور ت سے مصا لحت کر لیں )۔
(۲) طلا ق عورت کی درخواست اور مر ضی سے نہ ہو ئی ہو ور نہ اسے میرا ث نہیں ملے گی خوا ہ طلا ق حا صل کر نے کے لیے اس نے ا پنے شوہر کو کو ئی چیز د ی ہو یا نہ د ی ہو ۔
(۳) شو ہر نے جس مر ض میں عو رت کو طلا ق د ی ہو اس مر ض کے دورا ن اس مر ض کیو جہ سے یا کسی اور و جہ سے مر گیا ہو لہذا اگروہ اس مر ض سے شفا یا ب ہو جا ئے اور کسی اور و جہ سے مر جا ئے تو عور ت اس سے میرا ث نہیں پا تی ۔
(۲۷۳۱) جو کپڑ ے مر د نے ا پنی بیو ی کو پہننے کے لیے فر ا ہم کئے ہو ں اگر چہ وہ ا ن کپڑو ں کو پہن چکی ہو پھر بھی شو ہر کے مر نے کے بعد وہ شو ہر کے ما ل کا حصہ ہو ں گے لیکن ا گر کپڑ ے عور ت کی ملکیت میں ہو ں تو یہ اسی کے ہیں عور ت کو یہ حق حا صل ہے کہ شو ہر سے نفقہ کے عنو ا ن سے کپڑ و ں کا مطا لبہ کر ے ۔
میرا ث کے مختلف مسا ئل
(۲۷۳۲) متو فی کا قر آ ن مجید ، ا نگو ٹھی تلوا ر اور جو کپڑ ے وہ پہن چکا ہو وہ بڑ ے بیٹے کا ما ل ہے اور ا گر پہلی تین چیزو ں میں سے متو فی نے کو ئی چیز ا یک سے زیا د ہ چھوڑی ہو ں مثلا اس نے قر ا ٓ ن مجید کے دو نسخے یا ددا نگو ٹھیا ں چھو ڑ ی ہو ں تو احتیا ط وا جب یہ ہے کہ اس کا بڑابیٹا ان کے با ر ے میں دو سر ے و ر ثا ء سے مصا لحت کرے او ر ان چا ر چیز و ں کے سا تھ ر حل بندو ق خنجر کا غلا ف اور ا ن جیسے دو سر ے ہتھیا ر بھی ا نہیں کے تا بع ہیں ۔
(۲۷۳۳) اگر کسی متو فی کے بڑ ے بیٹے ا یک سے زیا د ہ ہو ں مثلا دو بیو یو ں سے دو بیٹے بیک و قت پیدا ہو ں تو جن چیز و ں کا ذ کر کیا جا چکا ہے ا نہیں بر ابر بر ابر آ پس میں تقسیم کر یں یہ حکم بڑ ے بیٹے سے مخصو ص ہے اگر بیٹیا ں بڑ ی ہو ں تو ا ن کے لیے نہیں ہے۔
(۲۷۳۴) اگر متوفی مقروض ہو تو اگر اس کا قرض اس کے مال کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ بڑا بیٹا اس مال سے بھی اس کا قرض ادا کرے جو اس کی ملکیت ہے اور جن کا سابقہ مسئلے میں ذکر کیا گیا ہے یا اس کی قیمت کے برابر اپنے مال سے دے۔ اگر متوفی کا قرض اس کے مال سے کم ہو اور ذکر شدہ چند چیزوں کے علاوہ جو باقی مال اسے میراث میں ملا ہو اگر وہ بھی اس کا قرض ادا کرنے کے لئے کافی نہ ہو تو ضروری ہے کہ بڑا بیٹا ان چیزوں سے یا اپنے مال سے اس کا قرض دے۔ اگر باقی مال قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہو تب بھی احتیاط لازم یہ ہے کہ بڑا بیٹا جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے قرض ادا کرنے میں شرکت کرے۔ مثلاً اگر متوفی کا تمام مال ساٹھ روپے کا ہو اور اس میں بیس روپے کی وہ چیزیں ہوں جو بڑے بیٹے کا مال ہیں اور اس پر تیس روپے قرض ہو تو بڑے بیٹے کا چاہیئے کہ ان چیزوں میں سے دس روپے متوفی کے قرض کے سلسلے میں دے۔
(۲۷۳۵) مسلمان کافر سے ترکہ پاتا ہے لیکن کافر خواہ وہ مسلمان متوفی کا باپ یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو اس سے ترکہ نہیں پاتا۔
(۲۷۳۶)اگر کو ئی شخص اپنے رشتہ دا رو ں میں سے کسی کو جا ن بو جھ کر نا حق قتل کر د ے تو وہ اس سے تر کہ نہیں پا تا لیکن اگر شخص غلطی سے مارا جا ئے مثلا اگر کو ئی شخص (غلیل سے ) ہو ا میں پتھر پھینکے ( یا ہو ا ئی فا ئز کرے ) اور وہ اتفا قا ً ا سکے کسی رشتے دا ر کو لگ جا ئے اور وہ مر جائے تو وہ مر نے وا لے سے تر کہ پا ئے گا لیکن اس کے قتل کی د یت میں سے تر کہ نہیں پا ئے گا ۔
(۲۷۳۷) جب کسی متو فی کے ورثا ء تر کہ تقسیم کر نا چا ہیں تو وہ بچہ جو ا بھی ما ں کے پیٹ میں ہو اور ا گر ز ند ہ پیدا ہو تو میراث کا حق دا ر ہو گا اس صو رت میں جبکہ ایک سے ز یا د ہ بچو ں کے پیدا ہو نے کا احتما ل نہ ہو اور اطمینا ن نہ ہو کہ وہ بچہ لڑ کی ہے تو احتیا ط کی بنا پر ایک لڑ کے کا حصہ علیحد ہ کر د یں اور جو ما ل اس سے زیا د ہ ہو وہ آ پس میں تقسیم کر لیں بلکہ اگر ایک سے زیا د ہ بچے ہو نے کا قو ی احتما ل ہو مثلا عورت کے پیٹ میں دو یا تین بچے ہو نے کا احتما ل ہو تو احتیا ط کی بنا پر ضر ور ی ہے کہ جن بچوں کے پیدا ہو نے کا احتما ل ہو ا ن کے علیحد ہ کر یں مثلا اگر ا یک لڑ کے یا ا یک لڑ کی کی ولا د ت ہو تو زا ئد تر کہ کو ور ثا ء ا ٓ پس میں تقسیم کر لیں ۔
چند فقہی اصطلا حا ت
احتیا ط
وہ طر یقہ عمل جس سے ”عمل “ کے مطا بق وا قعہ ہو نے کا یقین حاصل ہو جا ئے ۔
احتیاطِ لا ز م
احتیا ط وا جب لفظ ”لا ز م “
احتیا طِ مستحب
فتو ے کے علا و ہ احتیا ط ہے اس لئے اس کا لحا ظ ضر ور ی نہیں ہو تا ۔
احتیاطِ وا جب
وہ حکم جو ا حتیا ط کے مطا بق ہو اور فقیہ نے اس کے سا تھ فتو ی نہ دیا ہو ایسے مسا ئل میں مقلد اس مجتہد کی تقلید کر سکتا ہے جو ا علم کے بعد علم میں سب سے بڑ ھ کر ہو ۔
احتیاط تر ک نہیں کر نا چا ہئے
جس مسئلے میں یہ اصطلا ح آ ئے اگر اس میں مجتہد کا فتو ی مذ کو ر نہ ہو تو ا س کا مطلب احتیا ط ووا جب ہو گا اور ا گر مجتہد کا فتو ی بھی مذ کو رہو تو اس سے احتیا ط کی تا کید مقصو د ہوتی ہے ۔
اَحْوَط
احتیا ط کے مطا بق ۔
اشکا ل ہے
اس عمل کی و جہ سے شر عی تکلیف سا قط نہ ہو گی اسے ا نجا م نہ د ینا چا ہئے اس مسئلے میں کسی دو سر ے مجتہد کی طرف ر جو ع کیا جا سکتا ہے بشر طیکہ اس کے سا تھ فتو ی نہ ہو ۔
اظہر
زیا د ہ ظا ہر ، مسئلے سے متعلق دلا ئل سے زیا د ہ نز د یک دلیلو ں کے سا تھ منطبق ہو نے کے لحا ظ سے وا ضح ۔ یہ مجتہد کا فتو ی ہے ۔
اِفضا ء
کھلنا ۔ پیشا ب اور حیض کے مقا م کا ا یک ہو جا نا یا حیض اور پا خا نے کے مقا م کا ایک ہو جا نا تینو ں مقا ما ت کا ا یک ہو جانا ۔
اَقْو یٰ
قو ی نظر یہ …
اولیٰ
بہتر ، زیا د ہ منا سب
ایقا ع
وہ معا ملہ جو یک طرفہ وا قع ہق جا تا ہے اور اسے قبو ل کر نے و ا لے کی ضر ور ت نہیں ہو تی جیسے طلا ق میں صر ف طلا ق د ینا کا فی ہو تا ہے قبو ل کر نے کی ضرو ر ت نہیں ہو تی
بعید ہے
فتویٰ کے مطا بق نہیں ہے
جا ہلِ قا صر
مسئلے سے نا و اقف ایسا شخص جو کسی دو ر افتا د ہ مقا م پر ر ہنے کی و جہ سے حکم مسئلہ تک رسائی حا صل کر نے سے قا صر ہو ۔
جاہلِ مقصر
وہ نا وا قف شخص جس کے لئے مسا ئل کا سیکھنا ممکن ر ہا ہو لیکن اس نے کو تا ہی کی ہو اور جا ن بو جھ کر مسا ئل معلو م نہ کئے ہو ں ۔
حاکمِ شر ع
وہ مجتہد جا مع الشر ا ئط جس کا حکم شر عی قوا نین کی بنیا د پر نا فذ ہو
حدث ِاصغر
ہر وہ چیز جس کی و جہ سے نما ز کیلئے و ضو کر نا پڑ ے ۔ یہ سا ت چیز یں ہیں (۱) پیشا ب (۲) پا خا نہ (۳) ر یا ح (۴) نیند (۵) عقل کو زا ئل کر نے و الی چیز یں مثلا دیوا نگی مستی یا بے ہو شی (۶) استحا ضہ (۷) جن چیزو ں کیو جہ سے غسل وا جب ہو جا تا ہے ۔
حدث ِاکبر
وہ چیز جس کی وجہ سے نما ز کے لیے غسل کر نا پڑ ے جیسے احتلا م ، جما ع ۔
حدِّ تَرَخُّص
مسا فت کی وہ حد جہا ں سے ا ذا ن کی آوا ز سنا ئی نہ د ے اورآ با د ی کی د یو ا ر یں د کھا ئی نہ د یں۔
حرام
ہر وہ عمل جس کا تر ک کر نا شر یعت کی نگا ہو ں میں ضر ور ی ہو۔
در ہم
۱۰․۶، ۱۲ چنو ں کے برا بر سکہ دا ر چا ند ی تقر یبا ۵۰ء ۲۱ گر ا م ۔
کافرِذمی
یہو د ی عیسا ئی اور مجو سی جو اسلا می مملکت میں ر ہتے ہو ں اور اسلا م اجتما عی قوا نین کی پابندی کا و عد ہ کر نے کی و جہ سے اسلا می حکو مت ا ن کی جا ن ما ل اورآ بر و کی حفاظت کرے۔
رجاءِ مطلو بیت
کسی عمل کو مطلو ب پر و رد گا ر ہو نے کی ا مید میں انجا م د ینا ۔
ر جو ع کر نا
پلٹنا اس کا استعما ل دو مقاما ت پر ہو ا ہے ۔
(۱) اعلم جس مسئلے میں احتیا ط وا جب کا حکم د ے اس مسئلے میں کسی دو سر ے مجتہد کی تقلید کر نا ۔
(۲) بیو ی کی طلا ق ر جعی د ینے کے بعد عد ت کے دو را ن ایسا کو ئی عمل انجا م د ینا یا ایسی با ت کہنا جس سے با ت کا پتا کہ اسے دو با ر ہ بیو ی بنا لیا جا ئے ۔
شا خص
ظہر کا وقت معلو م کر نے کے لئے ز مین میں گا ڑ ی جا نے وا لی لکڑ ی ۔
شا ر ع
خدا و ند عا لم ، رسو ل ﷺ ۔
طلا ق
آ ز اد ی ۔ شر یعت کے بتا ئے ہو ئے طر یقے کے مطا بق نکا ح تو ڑ نا ۔
طلاقِ خلع
اس عورت کی طلاق جو شوہر کو ناپسند کرتی ہو اور طلاق لینے کے لئے شوہر کو اپنا مہر یا کوئی مال بخش دے تفصیل طلاق کے باب میں دیکھیں۔
طلا قِ با ئن
وہ طلا ق جس کے بعد مر د کو ر جو ع کر نے کا حق نہیں ہو تا ۔ تفصیلا ت طلا ق کے با ب میں دیکھئے ۔
طلاقِ مبا ر ا ت
وہ طلا ق جس میں میا ں بیو ی دو نو ں ا یک دو سر ے سے متنفر ہو ں اور عو رت طلا ق کے لئے شو ہر کو کچھ ما ل بخش د ے
طوا ف ِنسا ء
حج اور عمر ہ کا آ خر ی طو ا ف جسے انجا م نہ د ینے سے حج یا عمر ہ مفر د ہ کر نے وا لے پر ہمبستر ی حرا م ر ہتی ہے ۔
ظا ہر یہ ہے
فتو ی یہ ہے (سوا ئے اس کے کہ عبا د ت میں اس کے بر خلا ف کو ئی قر ینہ مو جو د ہو ) ۔
ظہر شر عی
ظہر شر عی کا مطلب آ د ھا د ن گز ر تا ہے مثلا ا گر د ن با ر ہ گھنٹے کا ہو تو طلو ع آ فتا ب کے چھ گھنٹے گز ر نے کے بعد اور اگر تیر ہ گھنٹے کا ہو تو ساڑھے چھ گھنٹے گز ر نے کے بعد اور اگر گیا ر ہ گھنٹے کا ہو سا ڑ ھے پا نچ گھنٹے گز ر نے کے بعد ظہر شر عی کا و قت ہے ظہر شر عی کا وقت جو کہ طلو ع آ فتا ب کے بعد آ د ھا د ن گز ر نے سے غر و ب آ فتا ب تک ہے بعض مواقع پر با ر ہ بجے سے چند منٹ پہلے اور کبھی بارہ بجے سے چند منٹ بعد میں ہو تا ہے۔
عدا لت
وہ معنو ی کیفیت جو تقویٰ کی وجہ سے ا نسا ن میں پیدا ہو تی ہے اور جسکی و جہ سے واجبات کو ا نجا م د یتا ہے اور محر ما ت کو ترک کر تا ہے ۔
عقد
معا ہدہ ، نکا ح ۔
فتو یٰ
شر عی مسا ئل میں مجتہد کا نظر یہ ۔
قر آ ن کے سجد ے
قر آن میں پند ر ہ آ یتیں ایسی ہیں جن کے پڑ ھنے یا سننے کے بعد خد ا و ند عالم کی عظمت سے سامنے سجد ہ کر نا چا ہئے ا ن میں سے چا ر مقامات پر سجد ہ وا جب اور گیا ر ہ مقا ما ت پر مستحب (مند و ب ) ہے آ یا ت مند ر جہ ذ یل ہیں
قرآ ن کے وا جب سجد ے :
(۱) پا ر ہ ۲۱ سو ر ہ سجد ہ آیت ۱۵
(۲) پا ر ہ۲۴ سو ر ہ فصلت آ یت ۳۷
(۳)پا ر ہ۲۷ سو ر ہ و النجم آ خر ی آ یت
(۴) پا ر ہ۳۰ سو ر ہ علق آ خر ی آ یت
قرآ ن کے مستحب سجد ے
(۱) پا ر ہ ۹ سو رہ اعرا ف آ خر ی آ یت
(۲)پا ر ہ ۱۳ سو ر ہ ر عد آ یت ۱۵
(۳)پا ر ہ ۱۴ سو ر ہ نحل آ یت ۴۹
(۴)پا ر ہ ۱۵ سو ر ہ بنی ا سرا ئیل آ یت ۱۰۷
(۵)پا ر ہ ۱۶ سو ر ہ مر یم آ یت ۵۸
(۶)پا ر ہ ۱۷ سور ہ حج آ یت ۱۸
(۷)پا ر ہ۱۷ سو ر ہ حج آ یت۷۷
(۸)پا ر ہ ۱۹ سو ر ہ فرقا ن سو ر ہ ۶۰
(۹)پا ر ہ ۱۹ سور ہ نمل آ یت ۲۵
(۱۰)پا ر ہ ۲۳ سور ہ صٓ آ یت ۲۴
(۱۱)پا ر ہ ۳۰ سو ر ہ انشقاق آ یت ۲۱
قصدِ انشا ء
خر ید و فر و خت کے ما نند کسی اعتبا ر ی چیز کو اس سے مر بو ط الفا ظ کے ذ ر یعے عا لم و جو د میں لانے کا ار اد ہ ۔
قصدِ قربت
مر ضی پر و ر د گا ر سے قر یب ہو نے کی نیت ۔
قو ت سے خا لی نہیں ہے
فتویٰ یہ ہے ( سوا ئے اس کے کہ عبا ر ت میں اس کے بر خلا ف کو ئی قر ینہ مو جو د ہو )
کفا ر ہ جمع ( مجمو عا کفا ر ہ )
تینو ں کفا ر ے (۱) سا ٹھ رو ز ے ر کھنا (۲) ساٹھ فقیر و ں کو پیٹ بھر کھا نا کھلا نا (۳) غلا م آ زا د کرنا ۔
لا ز م
وا جب اگر مجتہد کسی ا مر کے وا جب و لا ز م ہو نے کا استفا دہ آ یا ت اور روا یا ت سے اس طر ح کر ے کہ اس کا شا ر ع کی طرف منسو ب کر نا ممکن ہو تو اس کی تعبیر لفظ ”وا جب “کے ذ ر یعے کی جا تی ہے اور ا گر اس کے وا جب ولا ز م ہو نے کو کسی او رذ ر یعے مثلا عقلی دلا ئل سے سمجھا ہو ا س طر ح کہ اس کا شا ر ع کی طرف منسو ب کر نا ممکن نہ ہو ہو تو اس کی تعبیر لفظ ”لا ز م “ سے کی جا تی ہے احتیا ط وا جب اور ا حتیا ط لا ز م میں بھی اسی فرق کو پیش نظر ر کھنا چا ہئے بہر حا ل مقلد کے لیے مقام عمل میں ”وا جب “ اور ”لاز م “کے در میان کو ئی فرق نہیں ہے ۔
مبا ح
وہ عمل جو شر یعت کی نگا ہوں میں نہ قا بل ستا ئش ہو اور نہ قا بل مذ مت (لفظ وا جب ، حرام ، مستحب اور مکر وہ کے مقا بلے میں ہے )۔
نجس
ہر چیز جو ذ ا تی طو ر پر پا ک ہو لیکن کسی نجس چیز سے با لوا سطہ یا برا ہ را ست مل جا نے کی وجہ سے نجس ہو گئی ہو ۔
مجہو ل الما لک
وہ ما ل جس کا ما لک معلو م نہ ہو ۔
مَحْرَم
وہ قر یبی رشتے دا ر جن سے کبھی نکا ح نہیں کیا جا سکتا ۔
مُحْرِم
وہ شخص حج یا عمر ے کے احرا م میں ہو ۔
محل اشکا ل ہے
اس میں ا شکا ل ہے اس عمل کا صحیح اور مکمل ہو نا مشکل ہے ( مقلد اس مسئلے میں کسی دو سر ے مجتہد کی طرف رجو ع کر سکتا ہے بشر طیکہ اس کے سا تھ فتو ی نہ ہو ۔
محلِ تأ مل ہے
احتیا ط کر نا چا ہئے (مقلد اس مسئلے میں دو سر ے مجتہد کی طر ف رجو ع کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کے سا تھ فتو یٰ نہ ہو )۔
مسلّماتِ دین
وہ ضر ور ی اور قطعی امو ر جو د ین اسلا م کا جزو لا ینفک ہیں اور جنہیں سا ر ے مسلما ن دین کا لا ز می جز و ما نتے ہیں جیسے نما ز ، رو ز ے کی فرضیت اور ا ن کا و جو ب ۔ ا ن ا مو ر کو ” ضرو ریا ت د ین “ اور” قطعیا ت د ین “ بھی کہتے ہیں کیو نکہ یہ وہ ا مو ر ہیں جن کا تسلیم کر نا دا ئر ہ اسلا م کے ا ند ر ر ہنے کے لیے از بس ضر ور ی ہے ۔
مستحب ، سنت
پسند ید ہ ، جو چیز شا رع مقد س کو پسند ہو لیکن ا سے و ا جب قرار نہ د ے ہر وہ حکم جس کو کر نے میں ثو ا ب ہو لیکن تر ک کر نے میں گنا ہ نہ ہو ۔
مکر وہ
نا پسند ید ہ ، وہ کا م جس کا ا نجا م د ینا حرا م نہ ہو لیکن انجام نہ د ینا بہتر ہو ۔
نصا ب
معینہ مقد ار یا معینہ حد ۔
وا جب
ہر وہ عمل جس کا انجا م د ینا شر یعت کی نگا ہو ں میں فر ض ہو ۔
و اجب ِتخییر ی
جب وجو ب دو چیز و ں میں کسی ایک سے متعلق ہو تو ا ن میں سے ہر ا یک کو وا جب تخییر ی کہتے ہیں جیسے روز ے کے کفا ر ہ میں تین چیزو ں کے در میا ن اختیا ر ہو تا ہے ( ۱) غلا م آ زا د کر نا (۲) سا ٹھ رو ز ے ر کھنا (۳) سا ٹھ فقیر و ں کو کھا نا کھلا نا ۔
و اجبِ عینی
وہ وا جب جو ہر شخص پر خو د وا جب ہو جیسے نما ز ، رو ز ہ ۔
وا جبِ کفا ئی
ایسا وا جب جیسے اگر کچھ لو گ انجا م د ے د یں تو با قی لوگو ں سے سا قط ہو جا ئے جیسے غسل میت سب پر وا جب ہے لیکن اگر کچھ لو گ اسے انجا م د ے د یں تو با قی لو گو ں سے سا قط ہو جا ئے گا۔
وقف
اصل ما ل کو ذا تی ملکیت سے نکا ل کر اس کی منفعت کو مخصو ص افرا د یا ا مو ر خیر یہ کے ساتھ مخصو ص کر نا ۔
و لی
سر پر ست مثلا با پ دا دا ، شو ہر یا حا کم شر ع ۔
شرعی اوزا ن اور اعشا ر ی اوزا ن
۵نخود ( چنے )
ا یک گرا م
۱۰ ۶ ۱۲ نخود ۔
تقر یبا ۵۰ ء ۳گرا م
۱۸نخو د ( یا ا یک مثقا ل شر عی )
تقر یبا ۵۰ ء ۳گرا م
ایک دینا ر (یا ا یک مثقا ل شر عی )
تقر یبا ۵۰ ء ۳گرا م
ا یک مثقا ل صیر فی (۲۴) نخود
تقر یبا ۵ گر ام
ا یک مد
تقر یبا ۷۵۰گر ا م
ایک صا ع
تقر یبا ۳ کلو گر ام
ا یک کُر ( پا نی )
تقر یبا ۳۷۷ کلو گر ا م
|
|