آیة العظمی سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ
احکا م طہا رت
مطلق اور مضا ف پا نی
(۱۳ ) پا نی یا مطلق ہو تا ہے یا مضا ف ۔ مضاف وہ پا نی ہے جو کسی چیز سے حا صل کیا جائے ۔ مثلا ً تر بو ز کا پا نی ( نا ر یل کا پانی ) گلا ب کا عر ق ( و غیرہ ) اس پا نی کو بھی مضاف کہتے ہیں جو کسی دو سر ی چیز سے بھی آ لو د ہ ہو مثلا ً گدلا پا نی جو اس حد تک مٹیالا ہو کہ پھر اسے پا نی نہ کہا جا سکے ان کے علا وہ جو پا نی ہو اسے آ ب مطلق کہتے ہیں اور اس کی پا نچ قسمیں ہیں۔
(۱ ) کُر پا نی (۲ ) قلیل پا نی (۳ ) جا ر ی پا نی (۴ ) با رش کا پا نی (۵ ) کنو ئیں کا پا نی۔
(۱) کُر پا نی
(۱۴ ) کُر پا نی و ہ ہے جس کے بر تن کی گنجا ئش ۳۶کیوبک با لشت ۱ ہو جو تقر یبا ً ۳۸۴ لیٹر ہوتا ہے۔
(۱۵)اگر کو ئی چیز عین نجس ہو مثلا ً پیشا ب یا خو ن یا وہ چیز جو نجس ہو گئی ہو جیسے کہ نجس لباس ایسے پا نی سے ملے جس کی مقدا ر ایک کُر کے برا بر ہو اور اس کے نتیجے میں نجاست کی بُو ر نگ یا ذا ئقہ پا نی میں سر ا یت کر جا ئے تو پا نی نجس ہو جا ئے گا لیکن اگر ایسی کوئی تبد یلی وا قع نہ ہو تو نجس نہیں ہو گا ۔
(۱۶ ) اگر کُر پا نی کی بُو ، ر نگ یا ذ ائقہ نجا ست کے علا وہ کسی اور چیز سے تبد یل ہو جا ئے تو وہ پانی نجس نہیں ہو گا ۔
(۱۷)اگر کو ئی عین نجا ست مثلا ً خو ن ایسے پا نی میں جا گر ے جس کی مقد ار ایک کُر سے زیادہ ہو اور اس کی بُو رنگ یا ذائقہ تبد یل کر دے تو اس صو رت میں اگر پا نی کہ اس حصے کی مقدار جس میں کو ئی تبدیلی وا قع نہیں ہو ئی ایک کُر سے ایک کم ہو تو سا را پا نی نجس ہو جا ئے گا لیکن اگرا س کی مقدار ایک کُر یا اس سے ز یا دہ ہو تو صرف وہ حصہ نجس متصو ر ہو گا جس کی بُو،رنگ یا ذ ائقہ تبد یل ہوا ہے
(۱۸ ) اگر فو ار ے کا پا نی ایسے پا نی سے متصل ہو جس کی مقدا ر ایک کُر کے برابر ہو تو فوارے کا پا نی نجس پا نی کو پا ک کر دیتا ہے لیکن اگر نجس پا نی فو ارے کا پا نی قطر و ں کی صورت میں گرے تو اسے پا ک نہیں کر تا البتہ اگر فو ار ے کے سا منے کوئی چیز ر کھ دی جائے جس کہ نتیجے میں اس کا پا نی قطر ہ قطرہ ہو نے سے پہلے نجس پا نی سے متصل ہو جائے تو نجس پانی کو پاک کر دیتا ہے اور ضر وری یہ ہے ہے کہ فوارے کا پا نی نجس پا نی سے مخلو ط ہو جا ئے۔
(۱۹ ) اگر کسی نجس چیز کو کُرپا نی سے متصل نل کے نیچے دھو ئیں تو اگر اس چیز سے گر نے والا پانی بھی کُر سے متصل ہو اور اس میں نجا ست کی بُو ، ر نگ یا ذا ئقہ پید ا نہ ہو اور نہ ہی اس میں عین نجا ست کی آ میزش ہو تو وہ پا نی پا ک ہے ۔
(۲۰ ) اگر کُر پا نی کا کچھ حصہ جم کر بر ف بن جا ئے اور کچھ حصہ پا نی کی شکل میں با قی بچے جس کی مقدا ر ایک کُر سے کم ہو تو جو نہی کو ئی نجاست اس پا نی کو چھو ئے گی وہ نجس ہو جا ئے گا اور بر ف پگھلنے پر جو پا نی بنے گا وہ بھی نجس ہو گا ۔
(۲۱) اگر پا نی کی مقدار ایک کُر کے بر ابر ہو اور بعد میں شک ہو کہ آ یا اب یہ کُر سے کم ہو چکا ہے یا نہیں تو اس کی حیثیت ایک کُر ہی پا نی کی ہو گی یعنی وہ نجا ست کو بھی پا ک کرے گا اور نجاست کے اتصال سے نجس بھی نہیں ہو گا اس کے بر عکس جو پا نی ایک کُر سے کم تھا اگر اس کے متعلق شک ہو کہ اب کی مقدار ایک کُر کہ برابر ہو گئی ہے یا نہیں تو اسے ایک کُر سے کم ہی سمجھا جا ئے گا ۔
(۲۲)پا نی کا ایک کُر کے برابر ہونا دو طریقو ں سے ثا بت ہو سکتا ہے (۱ ) انسان کو خود اس بارے میں یقین یا اطمینا ن ہو (۲)دو عا د ل مر د اس کے با رے میں خبر دیں البتہ اگر ایک عادل یا قا بل اعتما د شخص یا وہ شخص جس کے اختیا ر میں پانی ہے اگر پا نی کے کُر ہو نے کی اطلاع دے ، جبکہ اس خبر پر اطمینان نہ آ سکے تو اس پر بھر و سہ کر نا محل اشکال ہے ۔
(۲) قلیل پا نی
(۲۳ ) ایسے پا نی کو قلیل پا نی کہتے ہیں جو ز مین سے نہ ابلے اورجس کی مقدار ایک کُر سے کم ہو۔
( ۲۴) جب قلیل پا نی کسی نجس چیز پر گر ے یا کو ئی نجس چیز اس پر گر ے تو پا نی نجس ہو جائے گا۔ البتہ اگر پا نی نجس چیز پر زور سے گر ے تواس کا جتنا حصہ نجس چیز سے ملے گا نجس ہوجائے گا لیکن با قی پا ک ہو گا ۔
(۲۵)جو قلیل پانی کسی چیز پر عین نجا ست دور کر نے کے لیے ڈا لا جا ئے تو ان مقامات پر جہاں نجس چیز ایک با ر دھونے سے پا ک نہیں ہوتی ، وہ نجا ست سے جدا ہو نے کے بعد نجس ہو جاتا ہے اور اسی طر ح وہ قلیل پا نی جو عین نجاست سے الگ ہو جا نے کے بعد نجس چیز کوپاک کرنے کے لیے اس پر ڈا لا جا ئے اس سے جدا ہو جا نے کے بعد بنا بر احتیاط لازم نجس ہے ۔
(۲۶)جس قلیل پا نی سے پیشا ب یاپا خا نے کے مخا رج دھو ئے جا ئیں وہ اگر کسی چیز کو لگ جائے تو پا نچ شرا ئط کے ساتھ اسے نجس نہیں کرے گا ۔
(۱) پا نی میں نجا ست کی بُو ، رنگ یا ذ ائقہ پیدا نہ ہو ا ہو ۔
(۲) با ہر سے کو ئی نجا ست اس سے نہ آ ملی ہو ۔
( ۳) پیشا ب یا پا خا نہ کے سا تھ کو ئی اور نجاست مثلا ً خو ن خا رج نہ ہو ا ہو ۔
(۴)پا خا نہ کے ذرا ت پا نی میں دکھا ئی نہ دیں ۔
(۵ ) پیشا ب یا پا خا نے کے مخا رج کے اطراف میں معمو ل سے ز یا د ہ نجا ست نہ لگی ہو۔
(۳) جا ر ی پا نی
جا ری پا نی وہ ہو تا ہے :
(۱ ) جس کا ایک قد رتی منبع ہو ۔
( ۲) جو بہہ رہا ہو چا ہے اسے کسی مصنو عی طر یقے سے بہا یا جا رہا ہو ۔
(۳ )اس میں کسی حد تک ہی صحیح تسلسل ہو اور یہ ضروری نہیں کہ وہ پا نی قد رتی ذخیرے سے متصل ہی ہو لہذا اگر قدر تی طر یقے وہ پانی کے ذخیرے سے جدا ہو مثلا ً اگر پا نی اوپر سے قطر و ں کی صورت میں ٹپک رہا ہو تو نیچے گر کر دو با رہ بہنے کی صورت میں اسے جا ری ہی ما نا جا ئے گا ہا ں ! اگر کو ئی چیز پا نی کے ذخیرے سے اتصال میں رکاو ٹ بن جائے مثلاً پانی کے بہاؤ یا اُبال میں رکاوٹ بنے یا ذخیرے سے اتصال ہی تو ڑ دے تو با قی ما ند ہ پانی کو جا ری نہیں مانا جا ئے گا چا ہے وہ پا نی بہہ بھی رہا ہو ۔
( ۲۷)جا ری پا نی اگرچہ کُر سے کم ہی کیو ں نہ ہو نجا ست کے آ ملنے سے تب تک نجس نہیں ہو تا جب تک نجا ست کی و جہ سے اس کی بُو ر نگ یا ذا ئقہ بدل نہ جا ئے ۔
(۲۸) اگر نجا ست جا ری پا نی سے آ ملے تو اس کی اتنی مقدار جس کی بُو ر نگ یا ذا ئقہ نجا ست کی و جہ سے بدل جا ئے نجس ہے البتہ اس پا نی کا وہ حصہ جو چشمے سے متصل ہو پاک ہے خواہ اس کی مقدار کُر سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ ندی کی دوسری طرف پانی کا اگر ایک کُر جتنا ہو یا اس پانی کے ذریعے جس میں (بو، رنگ یا ذائقے کی ) کوئی تبدیلی واقعہ نہیں ہوئی چشمے طر ف کے پا نی سے ملا ہو ا ہو تو پا ک ہے ور نہ نجس ہے
( ۲۹ ) اگر کسی چشمے کا پا نی جا ری نہ ہو لیکن صورت حال یہ ہو کہ جب اس میں سے پانی نکا ل لیں تو دو با رہ اس کا پا نی ابل پڑتا ہو تو وہ پا نی جاری پا نی کا حکم نہیں ر کھتا یعنی اگر نجاست اس سے آ ملے اور اس کی مقدار کُر سے کم ہو تو نجس ہو جا تا ہے۔
( ۳۰ ) ندی یا نہر کے کنا رے کا پا نی جو سا کن ہوا اور جا ری پا نی سے متصل ہو ، جا ری پانی کا حکم نہیں ر کھتا ۔
( ۳۱)اگر ایک ایسا چشمہ ہو جو مثال کے طور پر سر دیو ں میں ابل پڑ تا ہولیکن گر میو ں میں خشک ہو جا تا ہو اسی وقت جا ر ی پانی کے حکم میں آ ئے گا جب اس کا پا نی ابل پڑ تا ہو۔
( ۳۲ )اگر (کسی تر کی اور ایر انی طرز کے ) حمام کے چھو ٹے حو ض کا پا نی ایک کُر سے کم ہو لیکن وہ ایسے مخز ن سے متصل ہو جس کا پا نی حو ض کے پانی سے مل کر ایک کُر بن جا تا ہو تو جب تک نجاست کے مل جا نے سے اس کی بُو ر نگ اور ذا ئقہ تبد یل نہ ہو جائے وہ نجس نہیں ہو تا ۔
( ۳۳) حمام اور بلڈ نگ کے نلکو ں کا پا نی جو ٹو نٹیو ں اور شا ور و ں کے ذ ر یعے بہتا ہے اگر اس مخز ن کے پا نی سے مل کر جو ان نلکو ں سے متصل ہو ایک کُر کے برا بر ہو جا ئے تو نلکو ں کا پا نی بھی کُر پا نی کے حکم میں شا مل ہو گا ۔
(۳۴) جو پا نی ز مین پر بہہ رہا ہو لیکن ز مین سے ابل نہ رہا ہو اگر وہ ایک کُر سے کم ہو اورا س میں نجا ست مل جا ئے تو وہ نجس ہو جا ئے گا لیکن اگر وہ پا نی تیز ی سے بہہ رہا ہو اور مثا ل کے طور پر نجا ست اس کے نچلے حصے کو لگے تو اس کا اوپر والا حصہ نجس نہیں ہو گا۔
(۴) با رش کا پا نی
(۳۵ ) جو چیز نجس ہو اور عین نجا ست اس میں نہ ہو اس پر جہا ں جہا ں ایک با ر با رش کا پانی پہنچ جا ئے پا ک ہو جا تی ہے لیکن اگر بدن اور لبا س پیشا ب سے نجس ہو جا ئے تو بنا بر احتیا ط ان پر دو با رہ با ر ش کا پا نی پہنچنا ضر و ر ی ہے البتہ قا لین اور لبا س و غیرہ کا نچو ڑ نا ضر ور ی نہیں لیکن ہلکی سے بو ند ہ با ندی کا فی نہیں بلکہ اتنی با ر ش لا ز می ہے کہ لو گ کہیں کہ بارش ہو ر ہی ہے ۔
(۳۶)اگر با رش کا پا نی عین نجس پر بر سے اور بر س کر دو سر ی جگہ پہنچ جا ئے لیکن عین نجاست اس میں شا مل نہ ہو اور نجاست کی بُو ر نگ یا ذا ئقہ بھی اس میں پید انہ ہو تو وہ پانی پا ک ہے پس اگر با ر ش پا نی خو ن پر بر سنے کے بعد ر سے اور ان میں خو ن کے ذرات شا مل ہو ں یا خو ن کی بُو، ر نگ اورذ ا ئقہ پید اہو گیا ہو تو وہ پا نی نجس ہو گا ۔
(۳۷)اگر مکان کی اند رو نی یااو پر ی چھت پر عین نجا ست مو جو د ہو تو با رش کے دو را ن جو پانی نجا ست کو چھو کر اندرو نی چھت سے ٹپکے یا پر نا لے سے گر ے وہ پا ک ہے لیکن جب بارش تھم جا ئے اور یہ با ت علم میں آ ئے کہ اب جو پا نی گر رہا ہے وہ کسی نجا ست کو چھوکرآ رہا ہے تو وہ پا نی نجس ہوگا ۔
(۳۸ ) جس نجس زمین پر با ر ش بر س جا ئے وہ پا ک ہو جا تی ہے اور اگر با ر ش کاپا نی زمین پر بہنے لگے اور با ر ش کے دوران ہی چھت کے نیچے کسی نجس مقام تک جا پہنچے تو وہ اسے بھی پا ک کر دے گا ۔
(۳۹ ) نجس مٹی کے تما م اجزا ء تک اگر با ر ش کا پا نی پہنچ جا ئے تو وہ پا ک ہو جا ئے گی بشرطیکہ انسان کو یقین نہ ہو جا ئے کہ مٹی سے ملنے کی وجہ سے با ر ش کا پا نی مضا ف ہو چکا ہے۔
(۴۰ )اگر با رش کا پا نی ایک جگہ جمع ہو جا ئے خو اہ ایک کُر سے کم ہی کیو ں نہ ہو با ر ش برسنے کے و قت اگر کو ئی نجس چیز اس میں دھو ئی جائے اور پا نی نجا ست کی بُو ر نگ یا ذائقہ قبول نہ کرے تو وہ نجس چیز پا ک ہو جا ئے گی ۔
(۴۱)اگرنجس ز مین پر بچھے ہو ئے پا ک قا لین و غیرہ پر با ر ش بر سے اور اس کا پا نی برسنے کے و قت قا لین سے نجس ز مین پر پہنچ جا ئے تو قالین بھی نجس نہیں ہو گااور زمین بھی پا ک ہو جائے گی ۔
(۵) کنو یں کا پا نی
(۴۲) ایک ایسے کنو یں کا پا نی جو ز مین سے ابلتا ہو اگرچہ مقدا ر میں ایک کُر سے کم ہو نجاست پڑ نے سے اس وقت تک نجس نہیں ہو گا جب تک اس نجا ست سے اس کی بُو رنگ یا ذ ائقہ بدل نہ جا ئے ۔
(۴۳) اگرکوئی نجاست کنویں میں گر جائے اور اس کے پانی کی بو، رنگ یا ذائقے کو تبدیل کردے تو جب کنویں کے پانی میں پیدا شدہ یہ تبدیلی ختم ہو جائے تو پانی پاک ہو جائے گا البتہ احتیاط وا جب کی بنا پراس پانی کے پاک ہونے کی شرط یہ ہے کہ پانی کنویں سے ابلنے والے پانی میں مخلوط ہو جائے ۔
پا نی کے احکام
( ۴۴) مضا ف پا نی جس کے معنی مسئلہ نمبر ۱۳ میں بیان ہو چکے ہیں کسی نجس چیز کو پا ک نہیں کرتا ایسے پا نی سے و ضو اور غسل کر نا بھی با طل ہے ۔
( ۴۵ ) مضا ف پا نی کی مقدا ر اگر چہ ایک کُر کے برابر ہو اگر اس میں نجا ست کا ایک ذرہ بھی پڑ جا ئے تو نجس ہو جا تا ہے البتہ اگر ایسا پا نی کسی نجس چیز پر ز ور سے گر ے تو اس کا جتنا حصہ نجس چیز سے متصل ہو گا نجس ہو جا ئے گا اور جو متصل نہیں ہو گا وہ پاک ہو گا مثلا ًاگر عرق گلاب کو گلا ب دان سے نجس ہا تھ پر چھڑ کا جا ئے تو اس کا جتنا حصہ ہا تھ کو لگے گا نجس ہو گا اور جو نہیں لگے گا وہ پاک ہو گا ۔
(۴۶) اگر وہ مضاف پا نی جو نجس ہوایک کُر کے بر ابر پا نی یا جا ری پا نی سے یو ں مل جائے کہ پھر اسے مضا ف پا نی نہ کہا جاسکے تو وہ پا ک ہو جا ئے گا ۔
(۴۷ ) اگر ایک پانی مطلق تھا اور بعد میں اس کے با رے میں یہ معلوم نہ ہو کہ مضا ف ہو جانے کی حد تک پہنچا ہے یا نہیں تو وہ مطلق پا نی متصور ہو گا یعنی نجس چیز کو پاک کرے گا اور اس سے و ضو اور غسل کرنا بھی صحیح ہو گا اور اگر پانی مضاف تھا اور یہ معلو م نہ ہوکہ وہ مطلق ہوا یا نہیں تووہ مضا ف متصو ر ہو گا یعنی کسی نجس چیز کو پا ک نہیں کر ے گا اور اس سے و ضو اور غسل کرنا بھی با طل ہو گا ۔
(۴۸ ) ایسا پا نی جس کے با رے میں یہ معلوم نہ ہو کہ مطلق ہے یا مضا ف اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ پہلے مطلق تھا یا مضا ف نجا ست کو پا ک نہیں کر تا اورااس سے و ضو اور غسل کر نا بھی با طل ہے جو نہی کو ئی نجا ست ایسے پا نی میں پڑ ے گی وہ پا نی نجس ہو جائے گا اور اگر یہ کُر یا اس سے زیا د ہ ہو ا تواحتیا ط لا ز م کی بنا پر نجس ہو جا ئے گا ۔
( ۴۹)ایسا پا نی جس میں خو ن یا پیشا ب جیسی عین نجا ست آ پڑ ے اور اس کے بُو ، رنگ یا ذائقے کو تبد یل کر دے نجس ہو جا تا ہے خو اہ وہ کُر کے برا بر یا جا ری پا نی ہی کیو ں نہ ہو تا ہم اگر اس پا نی کی بُو اس کا ر نگ یا ذا ئقہ کسی ایسی نجا ست سے تبدیل ہو جا ئے جو اس سے با ہر ہے مثلا ً قر یب پڑ ے ہو ئے مر دا ر کی و جہ سے اس کی بُو بدل جا ئے تو احتیاط لا زم کی بنا پر وہ نجس ہو جا ئے گا ۔
(۵۰ ) وہ پا نی جس میں عین نجاست خون یا پیشاب گر جا ئے اوراس کی بُو ر نگ یا ذا ئقہ تبدیل کر دے اگر کُر کے برابر یا جا ری پانی سے متصل ہوجا ئے یا با ر ش کا پا نی ا س پر بر س جا ئے یا ہوا کی وجہ سے با ر ش کاپا نی اس پر گر ے یابا رش کا پانی اس دو را ن جبکہ با ر ش ہو ر ہی ہو پر نا لے سے اس پر گر ے تو ان تمام صو رتو ں میں اس میں وا قع شدہ تبد یلی ز ائل ہو جا نے پر ایسا پا نی پاک ہو جا تا ہے لیکن ضر ور ی ہے کہ با ر ش کا پا نی یا جا ری پا نی اس میں مخلو ط ہو جائے۔
( ۵۱)اگر کسی نجس چیز کو کُر پا نی یاجا ری پا نی میں پاک کیا جا ئے تو جس با ر دھو نے میں وہ چیز پاک ہو نے و الی ہے اس وقت وہ پا نی جو باہر نکا لنے کے بعد اس سے ٹپکے پاک ہو گا ۔
(۵۲)جو پا نی پہلے پا ک ہو ااور یہ علم نہ ہو کہ بعد میں نجس ہوا یا نہیں وہ پا ک ہے اور جو پانی پہلے نجس ہواور معلوم نہ ہو کہ بعد میں پاک ہوا یا نہیں وہ نجس ہے ۔
بیت الخلا ء کے احکام
(۵۳ ) انسان پر وا جب ہے کہ پیشا ب اور پا خا نہ کر تے وقت اور دو سر ے مو ا قع پر اپنی شرمگا ہو ں کو ان لو گو ں سے جو مکلف ہو ں خو اہ وہ ما ں اور بہن کی طر ح اس کے محرم ہی کیو ں نہ ہو ں اور اس طر ح دیو ا نو ں اور ان بچو ں سے جو اچھے برے کی تمیز رکھتے ہو ں چھپا کر رکھے لیکن بیو ی اور شو ہر کے لیے اپنی شرم گا ہو ں کو ایک دو سر ے سے چھپا نا لا زم نہیں ۔
(۵۴) اپنی شر مگا ہو ں کو کسی مخصو ص چیز سے چھپا نا لا ز م نہیں مثلا اگر ہا تھ سے بھی چھپا لے تو کا فی ہے ۔
(۵۵)پیشا ب یا پا خا نہ کر تے و قت احتیا ط لا زم کی بنا پر بد ن کا اگلا حصہ یعنی پیٹ اور سینہ قبلے کی طر ف نہ ہو اور نہ ہی پشت قبلے کی طرف ہو ۔
( ۵۶ )اگر پیشا ب یا پا خا نہ کر تے کسی شخص کے بدن کا اگلا حصہ رو بقبلہ یا پشت بقبلہ ہو وہ اپنی شر مگا ہ کو قبلے کی طر ف سے مو ڑ لے تو یہ کافی نہیں ہے اور احتیا ط و ا جب یہ ہے کہ پیشا ب اور پا خا نہ کر تے و قت شر مگا ہ کو رو بقبلہ یا پشت بقبلہ نہ مو ڑ ے ۔
(۵۷ ) احتیا ط مستحب یہ ہے کہ استبر ا کے مو قع پر ، جس کے احکام بعد میں بیا ن کئے جائیں گے نیز اگلی اور پچھلی شرمگاہو ں کو پا ک کر تے وقت بدن کا اگلا حصہ رو بقبلہ نہ ہو۔
(۵۸)اگر کو ئی شخص اس لیے کہ نا محرم اسے نہ د یکھے رو بقبلہ یا پشت بقبلہ بیٹھنے پر مجبور ہو تو احتیا ط لا ز م کی بنا پر ضر ور ی ہے کہ پشت بقبلہ بیٹھ جا ئے ۔
(۵۹)احتیا ط مستحب یہ ہے کہ بچے کو ر فع حا جت کے لیے رو بقبلہ یا پشت بقبلہ یا پشت بقبلہ نہ بٹھا ئے ۔
(۶۰)چا رجگہو ں پر ر فع حا جت حر ام ہے ۔
(۱) بند گلی میں ر ہنے وا لو ں نے اس کی اجا ز ت نہ دے ر کھی ہو اسی طر ح اگر گرز نے وا لو ں کے لیے ضر ر کا با عث ہو تو عمو می گلی کو چو ں اور را ستو ں پر پر بھی ر فع حاجت کرنا حرا م ہے ۔
(۲ ) اس جگہ میں جو کسی کی نجی ملکیت ہو جبکہ اس نے ر فع حا جت کی اجا زت نہ دے رکھی ہو۔
(۳ ) ان جگہو ں میں جو مخصو ص لو گو ں کے لیے و قف ہو ں مثلا بعض مد ر سے ۔
(۴ ) مو منین کی قبر و ں پر جبکہ اس فعل سے ان کی بے حر متی ہو تی ہو بلکہ اگر بے حرمتی نہ ہو تی ہو ۔ ہا ں ی!اگر ز مین بالاصل مباح ہو تو کو ئی حرج نہیں یہی صورت ہر اس جگہ کی ہے جہا ں ر فع حا جت د ین یا مذ ہب کے مقد سا ت کی توہین کا سبب بنے
(۶۱)تین صو رتو ں میں مقعد ( پا خا نہ خا ر ج ہو نے کا مقا م ) فقط پا نی سے پا ک ہو تا ہے ۔
(۱ ) پا خا نے کے سا تھ کو ئی اور نجا ست مثلا خو ن با ہر آ یا ہو ۔
(۲ ) کو ئی بیر و نی نجا ست مقعد پر لگ گئی ہو سو ائے اس کے کہ خو ا تین میں پیشاب ، پاخا نے کے مخر ج تک پہنچ جا ئے ۔
(۳ ) مقعد کا اطر اف معمول سے ز یا د ہ آ لو دہ ہو گیاہو ۔
ان تین صو رتو ں کے علا وہ مقعد کو یا تو پا نی سے دھو یا جا سکتا ہے اور یا اس طر یقے کے مطا بق جو بیان کیا جا ئے گا، کپڑ ے یا پتھر و غیرہ سے بھی پا ک کیا جا سکتا ہے اگر چہ پا نی سے دھو نابہتر ہے ۔
(۶۲)پیشا ب کا مخرج پا نی کے علا و ہ کسی چیز سے پا ک نہیں ہو تا اور اسے ایک مر تبہ دھو نا کافی ہے البتہ احتیا ط مستحب ہے کہ د و مر تبہ دھوئیں اور بہتر یہ ہے کہ تین مر تبہ دھوئیں ۔
(۶۳) اگر مقعد کو پا نی سے د ھویا جا ئے تو ضر وری ہے کہ پا خا نہ کا کو ئی ذرہ با قی نہ رہے البتہ ر نگ یا بُو با قی رہ جا ئے تو کو ئی حر ج نہیں اور اگرپہلی با ر ہی و ہ مقا م یو ں دھل جائے کہ پا خا نہ کا کو ئی ذرہ با قی نہ ر ہے تو دو با رہ دھو نا لا زم نہیں ۔
ّ(۶۴) پتھر ڈھیلا یا کپڑا یا ان ہی جیسی دو سر ی چیز یں اگر خشک اور پا ک ہو ں تو ان سے مقعد کو پا ک کیا جا سکتاہے اور اگر ان میں معمو لی نمی بھی ہو جو مقعد کو تر نہ کرے تو کو ئی حرج نہیں ۔
(۶۵) اگر مقعد کو پتھر یا ڈ ھیلے یا کپڑے سے ایک مر تبہ با لکل صا ف کر دیا جا ئے تو کافی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ تین مرتبہ صا ف کیا جا ئے بلکہ جس چیز سے صا ف کیا جا ئے اس کے تین ٹکڑے بھی ہو ں اور اگر تین ٹکر و ں سے صا ف نہ ہو تو اتنے مز یدٹکڑوں کا اضا فہ کر نا ضروری ہے کہ مقعد با لکل صا ف ہو جا ئے البتہ اگر اتنے چھو ٹے ذرے باقی رہ جا ئیں جو عام طور پر دھو ئے بغیر نہیں نکلتے تو کو ئی حر ج نہیں ۔
(۶۶)مقعد کو ایسی چیز وں سے پا ک کر نا حر ام ہے جن کا احترا م لا زم ہو مثلا کا پی یا اخبار کا ایسا کا غذ جس پر اللہ سبحا نہ و تعالیٰ اور انبیا ء کے نا م لکھے ہو ں مقعد کے ہڈ ی یا گو بر سے پا ک ہو نے میں کو ئی اشکا ل نہیں ہے ۔
(۶۷) اگر ایک شخص کو شک ہو کہ مقعد پاک کیا ہے یا نہیں تو اس پر لا زم ہے کہ اسے پاک کرے اگر چہ پا خا نہ کرنے کے بعد ہمیشہ متعلقہ مقام کو فو را ًپا ک کر تا ہو ۔
(۶۸ اگر کسی شخص کو نماز کے بعد شک گز رے کہ نما زسے پہلے پیشا ب یا پا خا نے کا مخرج پاک کیا تھا یا نہیں تو اس نے جو نماز ادا کی وہ صحیح ہے لیکن آ ئندہ نما ز و ں کے لیے اسے پا ک کر نا ضرو ر ی ہے ۔
استبرا ء
استبرا ء ایک مستحب عمل ہے جو مر د پیشا ب کر نے کے بعد اس غر ض سے انجا م دیتے ہیں تا کہ اطمینا ن ہو جائے کہ پیشا ب نالی میں نہیں رہا اس کی کئی تر کیبیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ پیشا ب سے فا ر غ ہو نے کے بعد اگر مقعد نجس ہو گیا ہو توا سے پا ک کرے تین مر تبہ با ئیں ہا تھ کی درمیا نی انگلی کے ساتھ مقعد سے لے کر عضو تناسل کی جڑ تک سو نتے او ر اس کے بعد انگو ٹھے کو عضو تنا سل کے اوپر اور انگوٹھے کے سا تھ و ا لی انگلی کو اس کے نیچے رکھے اور تین دفعہ سپا ری تک سو نتے اور تین دفعہ سپا ری کو جھٹکے ۔
(۷۰)وہ ر طو بت جو کبھی کبھی شہو ت ابھر نے پر مرد کے آ لہ تنا سل سے خا رج ہو تی ہے اسے مذی کہتے ہیں وہ پا ک ہے علا و ہ از یں وہ ر طو بت جو کبھی کبھی منی کے بعد خا رج ہوتی ہے اسے وذی کہا جاتا ہے یا ر طو بت جو بعض او قا ت پیشا ب کے بعد نکلتی ہے اور جسے ود ی کہا جاتا ہے اگر پیشا ب اس سے نہ ملا ہو تو پا ک ہے مز ید یہ کہ جب کسی شخص نے پیشا ب کے بعد استبرا ء کیا ہو اور اس کے بعد ر طو بت خا ر ج ہو جس کہ با رے میں شک ہو کہ پیشاب ہے یا مذ کو رہ بالا تین رطوبتوں میں سے کو ئی ایک تو وہ بھی پا ک ہے۔
(۷۱) اگرکسی شخص کو شک ہو کہ استبر ا ء کیا ہے یا نہیں اور اس کے پیشا ب کے مخر ج سے رطوبت خا ر ج ہو جس کہ بارے میں وہ نہ جا نتا ہو کہ پا ک ہے یا نہیں تو وہ نجس ہے نیز اگر وہ وضو کر چکا ہو تو وہ با طل ہو گا لیکن اگراسے اس با رے میں شک ہو کہ استبرا ء اس نے کیا تھا وہ صحیح تھا یا نہیں اوراس دو را ن ر طو بت خا ر ج ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ وہ رطوبت پا ک ہے یا نہیں تو وہ پاک ہو گی اور اس کا و ضو با طل نہ ہوگا ۔
(۷۲)اگر کسی شخص نے استبر اء نہ کیا ہو اور پیشا ب کر نے کے بعد کا فی و قت گز ر جانے کی وجہ سے اسے اطمینان ہو کہ پیشاب با قی نہیں رہا تھا اور اس دو را ن رطو بت خا رج ہو اور اسے شک ہو کہ پا ک ہے یا نہیں تو وہ ر طو بت پا ک ہو گی اورا س سے و ضو بھی با طل نہ ہو گا ۔
(۷۳) اگر کو ئی شخص پیشا ب کے بعد استبراء کر کے و ضو کر لے اور اس کے بعد رطوبت خارج ہو جس کے با رے میں میں اسے یقین ہو کہ پیشاب ہے یا منی تواس پر وا جب ہے کہ احتیا طاً غسل کرے اور و ضو بھی کر ے البتہ اس نے پہلے وضو نہ کیا ہو تو وضو کر لینا کا فی ہے ۔
(۷۴) عور ت کے لیے پیشا ب کے بعد استبرا ء نہیں پس اگر کو ئی ر طو بت خا ر ج ہو اور شک ہو کہ یہ پیشا ب ہے یا نہیں تو وہ ر طو بت پاک ہو گی اوراس کے و ضو او ر غسل با طل نہیں کرے گی ۔
ر فع حا جت کے مستحبا ت اور مکر و ہا ت
(۷۵ ) ہر شخص کے لیے مستحب ہے کہ جب بھی ر فع حا جت کے لیے جا ئے تو ایسی جگہ بیٹھے جہا ں اسے کو ئی نہ د یکھے بیت الخلا میں داخل ہو تے و قت پہلے با یا ں اندر رکھے اورنکلتے وقت دا یا ں پاؤں باہر ر کھے اور یہ بھی مستحب ہے کہ رفع حا جت کے وقت سر ڈھانپ کر رکھے اور بدن کا بو جھ با ئیں پاؤں پر ڈ الے ۔
(۷۶)ر فع حا جت کے و قت سو ر ج اور چاند کی طر ف منہ کر کے بیٹھنا مکر و ہ ہے لیکن اگر اپنی شرمگا ہ کسی طر ح ڈھا نپ لے تو مکر و ہ نہیں ہے علا وہ از یں رفع حا جت کے لیے ہوا کے ر خ کے با لمقا بل نیز گلی کو چوں راستو ں مکان کے دروازوں کے سا منے اور میو ہ دا ر درختو ں کے نیچے بیٹھنا بھی مکر وہ ہے اور اس حا لت میں کو ئی چیز کھا نا یا ز یا د ہ و قت لگا نا یا دا ئیں ہا تھ سے طہا رت کر نا بھی مکر وہ ہے اور یہی صورت با تیں کر نے کی بھی ہے لیکن اگر مجبور ی ہو یا خدا کا ذ کر کرئے تو کو ئی حر ج نہیں ۔
(۷۷) کھڑ ے ہو کر پیشا ب کرنا اور سخت ز مین پر یا جا نو رو ں کے بلو ں میں یا پا نی میں ، بالخصو ص سا کن پا نی میں پیشاب کر نا مکر وہ ہے ۔
(۷۸) پیشا ب اور پا خا نہ رو کنا مکروہ ہے اور اگر بدن کے لیے مکمل طو رپر مضر ہو توحرام ہے۔
(۷۹) نما ز سے پہلے ، سو نے سے پہلے ، مباشرت کر نے سے پہلے اور منی نکلنے کے بعد پیشاب کر نا مستحب ہے ۔
نجا سا ت
(۸۰) دس چیز یں نجس ہیں ۔
(۲۔۱) پیشا ب اور پا خا نہ (۳ ) منی (۴) مردا ر (۵)خو ن (۷۔۶) کتا اورسو ر (۸) کا فر (۹)شراب (۱۰)نجا ست خور حیو ان کا پسینہ۔
۲،۱ ۔پیشا ب اورپا خا نہ
(۸۱) انسا ن اور ہر اس حیو ان کا جس کا گو شت حرام ہے اور جس کا خو ن جہندہ ہے یعنی اگر اس کی ر گ کا ٹی جا ئے تو اس کا خو ن اچھل کر نکلتاہے پیشا ب اور پا خا نہ نجس ہے ہاں ان حیوانو ں کا پا خا نہ پا ک ہے جن کا گو شت حرا م ہے مگر ان کا خو ن اچھل کر نہیں نکلتا مثلا وہ مچھلی جس کا گو شت حر ام ہے اور اسی طر ح گو شت نہ ر کھنے و ا لے چھو ٹے حیو ان مثلا مکھی ، کٹھمل اور پسو کا فضلہ یا آ لا ئش بھی پا ک ہے لیکن حرام گو شت حیو ان کہ جو اچھلنے والا خو ن نہ ر کھتا ہو احتیا ط لازم کی بنا پر اس کے پیشا ب سے بھی پر ہیز کرنا ضر ور ی ہے ۔
(۸۲)جن پر ند و ں کا گو شت حرا م ہے ان کا پیشا ب اور فضلہ پا ک ہے لیکن اس سے پرہیز بہتر ہے ۔
(۸۳) نجا ست خو ر حیو ان کا پیشا ب اور پا خانہ نجس ہے اور اس طر ح اس بھیڑ کے بچے کا پیشا ب اور پا خا نہ جس نے سو رنی کا دو دھ پیا ہونجس ہے جس کی تفصیل کھا نے پینے کے احکام میں ا ٓ ئے گی اسی طر ح اس حیو ان کا پیشا ب اور پاخانہ بھی نجس ہے جس سے کسی انسان نے بد فعلی کی ہو ۔
۳ ۔ منی
( ۸۴) مر د ااور خو ن جہند ہ ر کھنے وا لے ہر نر حر ام گو شت جا نور کی منی نجس ہے وہ رطوبت بھی منی کا حکم ر کھتی ہے جو عورت کے بدن سے اس طر ح شہو ت کے سا تھ نکلے جو اس کی جنا بت کا سبب بنے جس کی تفصیل مسئلہ نمبر ۳۴۵میں آئے گی احتیا ط و ا جب یہ ہے کہ خو ن جہندہ رکھنے والے نر حلال گو شت کی منی سے بھی اجتنا ب کیا جائے ۔
۴۔ مر دار
(۸۵) انسا ن کی اور اچھلنے والا خو ن ر کھنے وا لے ہر جا نور کی لا ش نجس ہے خو اہ وہ( قدرتی طور پر ) خو د مر اہو یا شر عی طریقے کے علا وہ کسی اور طر یقے سے ذ بح کیا گیا ہو ۔
مچھلی چو نکہ اچھلنے وا لا خو ن نہیں ر کھتی اس لیے پا نی میں مر جا ئے تو بھی پا ک ہے ۔
(۸۶)لا ش کے وہ اجزا ء جن میں جان نہیں ہو تی وہ بھی پا ک ہیں مثلا ً اون ، بال ، ہڈیاں اور دا نت ۔
(۸۷) جب کسی انسان یا کسی جہند ہ خو ن و الے حیو ان کے بدن سے اس کی ز ند گی کے گوشت یا کو ئی دو سرا ایسا حصہ جس میں جان ہو جدا کر لیا جا ئے تو و ہ نجس ہے ۔
(۸۸) اگر ہو نٹو ں یا بدن کی کسی اور جگہ سے با ر یک سی تہہ (پپڑی ) اکھیڑ لی جا ئے تو اگر اس میں رو ح نہ ہو اور آ سا نی سے اکھڑ جا ئے تو وہ پا ک ہے ۔
(۸۹) مر د ہ مر غی کے پیٹ سے جو انڈا نکلے وہ پا ک ہے چا ہے او پر کا چھلکا سخت ہو ا ہو لیکن اس کا چھلکا دھو لینا ضر ور ی ہے۔
(۹۰)اگر بھیڑ یا بکر ی کا بچہ (میمنا ) گھا س کھا نے کے قابل ہونے سے پہلے مر جائے تو وہ پنیر ما یہ جو اس کے شیر دا ن میں ہوتا ہے تو پاک ہے لیکن ثا بت نہ ہو سکے کہ یہ عمو ماً مائع ہو تا ہے تو ضروری ہے کہ اس کے ظا ہر کو دھو لیا جا ئے جو مردار کے بدن سے مس ہو چکا ہے ۔
(۹۱) سیا ل دو ا ئیا ں ، عطر رو غن (تیل ، گھی ) جو تو ں کی پا لش اور صا بن جنہیں با ہر سے در آ مد کیا جا تا ہے اگر ان کی نجاست کے با رے میں یقین نہ ہو تو پا ک ہیں۔
(۹۲) گو شت چر بی اور چمڑا جس کے با رے میں احتما ل ہو کہ کسی ایسے جا نو ر کا ہے جسے شر عی طر یقے سے ذ بح کیا گیا ہے پا ک ہے لیکن اگر یہ چیز یں کسی کافر سے لی گی ہوں یا کسی ایسے مسلمان سے لی ہو ں جس نے کا فر سے لی ہو ں اور یہ تحقیق نہ کی ہو کہ آیا کہ یہ کسی ایسے جانو ر کی ہیں جسے شر عی طر یقے سے ذبح کیا گیا ہے یا نہیں تو ایسے گوشت اور چر بی کا کھا نا حرا م ہے البتہ ایسے چمڑے پر نماز جا ئز ہے لیکن یہ چیز یں مسلمانو ں سے با ز ار سے خر یدی جا ئیں اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس سے پہلے یہ کسی کا فر سے خرید ی گئی تھیں یا احتمال اس با ت کا ہو کہ تحقیق کر لی گئی ہے تو خو اہ کا فر سے ہی خریدی جا ئیں اس گو شت اور چر بی کا کھا نا اس شر ط پر جا ئز ہے کہ وہ مسلما ن اس میں کو ئی ایسا تصر ف کر ے جو حلا ل گوشت سے مخصو ص ہے مثلا اسے کھانے کے لیے بیچ دے جا ئز ہے ۔
۵ ۔ خو ن
( ۹۳) انسان کا اور خو ن جہندہ رکھنے وا لے ہر حیو ان کا خو ن نجس ہے پس ایسے جانوروں مثلا مچھلی اور مچھر کا خو ن جو اچھل کر نہیں نکلتا پاک ہے ۔
(۹۴)جن جا نو رو ں کا گو شت حلال ہے اگر انہیں شر عی طر یقے سے ذ بح کیا جا ئے اور ضروری مقدا ر میں اس کا خو ن خا رج ہو جا ئے تو جوخو ن خا ر ج ہو جا ئے تو خو ن بدن میں باقی رہ جا ئے وہ پا ک ہے لیکن اگر (نکلنے و الا ) خو ن جا نور کے سا نس لینے سے یا ا س کا سر بلند جگہ پر ہو نے کی وجہ سے بد ن میں پلٹ جا ئے تو وہ نجس ہو گا ۔
(۹۵)جس انڈ ے کی ز ردی میں خو ن کا ذ رہ مو جو د ہو ، احتیا ط مستحب ہے کہ اس سے پرہیز کیا جا ئے ۔
(۹۶) وہ خو ن جو بعض او قا ت دو دھ دو ہتے ہو ئے نظر آ تا ہے نجس ہے اور دو دھ کو بھی نجس کر دیتا ہے ۔
(۹۷) اگر دا نتو ں کی ر یخوں سے نکلنے والا خو ن لعا ب دہن سے مخلو ط ہو جا نے پر ختم ہو جا ئے تو اس لعا ب سے پر ہیز لا ز م نہیں ہے ۔
(۹۸) جو خو ن چو ٹ لگنے کی و جہ سے نا خن یا کھا ل کے نیچے جم جا ئے اگر اس کی شکل ایسی ہو کہ لو گ اسے خو ن نہ کہیں تو وہ پا ک ہے۔ اوراگر خون کہیں اور وہ ظاہر ہو جا ئے تو نجس ہو گا ایسی صورت میں اگر نا خن یا کھا ل میں سو را خ ہوجا ئے کہ خون بدن کا ظا ہر ی حصہ سمجھا جا رہا ہو او ر خو ن کو نکا ل کر و ضو یا غسل کے لیے اس مقام کا پاک کر نا بہت ز یا دہ تکلیف کا با عث ہو تو ضر وری ہے کہ تیمم کر لے
(۹۹) اگر کسی شخص کو یہ پتہ نہ چلے کہ کھا ل کے نیچے خو ن جم گیا ہے یا چو ٹ لگنے کیو جہ سے گوشت نے ایسی شکل اختیا ر کرلی ہے تو وہ پا ک ہے
(۱۰۰)اگر کھا نا پکا تے ہو ئے خو ن کا ایک ذرہ بھی اس میں گر جا ئے تو سا را کھا نا اور برتن احتیا ط لا ز م کی بنا پر نجس ہو جائے گا اُبال ، حرا رت اور آ گ انہیں پا ک نہیں کر سکتے۔
(۱۰۱)پیپ یعنی وہ زرد مو ا د جو ز خم کی حا لت بہتر پر اس کے چا رو ں طرف پید اہو جا تا ہے اس کے متعلق اگر یہ معلوم نہ ہو کہ اس میں خو ن ملا ہوا ہے تو وہ پا ک ہو گا ۔
۶،۷۔کتا اورسور
(۱۰۲) کتا اور سور نجس ہیں حتیٰ کہ ان کے بال ، ہڈ یا ں ، پنچے ، نا خن اور ر طو بتیں بھی نجس ہیں۔
۸ ۔ کا فر
( ۱۰۳ ) کا فر یعنی وہ شخص جو اللہ تعا لی کے و جود یا اس کی و حدا نیت کا اقرار نہ کر تا ہو نجس ہے اسی طر ح غا لی (یعنی وہ لوگ جو ائمہ ٪ کسی کو خدا کہیں یہ کہ خدا امام میں حلول کر گیا ہے )اور خا ر جی و نا صبی (وہ لو گ جو ائمہ علیہم السلا م سے بیر اور بغض کا اظہا ر کر یں ) بھی نجس ہیں
اسی طر ح وہ شخص جو کسی نبی کی نبو ت یا ضرو رت د ین میں سے کسی کا ایسا انکا ر کرے جو جز و ی طو ر پر ہی سہی ر سول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کا سبب بنے ، نجس ہے البتہ اہل کتا ب یعنی یہو دی ، عیسا ئی اور مجو سی پا ک مانیں جا ئیں گے ۔
(۱۰۴)کا فر کا تمام بد ن حتی کہ اس کہ بال نا خن اور ر طو بتیں بھی نجس ہیں ۔
(۱۰۵) اگر کسی نا با لغ بچے کے با پ دا دا اور دا د ی کا فر ہو ں تو وہ بچہ بھی نجس ہے البتہ اگر وہ سوجھ بو جھ بھی ر کھتا ہو اور اسلام کا اظہا ر کر تا ہو تو وہ پا ک ہے لیکن اگر اپنے والدین سے منہ موڑ کر مسلما نو ں کی طر ف ما ئل ہو یا تحقیق کر رہا ہوتو اس کے نجس ہونے کا حکم لگا نا مشکل ہے ہاں ! اگر اس کے ما ں با پ دا دا دا دی یا ان میں سے کو ئی مسلمان ہو تو مسئلہ نمبر ۲۱۷میں آ نے وا لی تفصیل کے مطا بق وہ بچہ پا ک ہو گا ۔
(۱۰۶) اگر کسی شخص کے متعلق یہ علم نہ ہو کہ مسلمان ہے یا نہیں اور کو ئی علا مت اس کے مسلمان ہو نے کی نہ ہو تو وہ پا ک سمجھا جا ئے گا لیکن اس پر اسلام کے دو سر ے احکام کا اطلاق نہیں ہو گا مثلا نہ ہی وہ مسلمان عو رت سے شا د ی کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے مسلما نو ں کے قبرستان میں د فن کیا جاسکتا ہے ۔
(۱۰۷)جو شخص (خا نو دا ئہ رسا لت کے ) با ر ہ امامو ں میں سے کسی ایک کو بھی د شمنی کی بنا پر گالی دے وہ نجس ہے ۔
۹۔شرا ب
(۱۰۸ ) شرا ب نجس ہے اس کے علا وہ مسلما نو ں کو مست کر د ینے وا لی چیز یں نجس نہیں ہیں ۔
(۱۰۹)صنعتی اور طبعی الکحل کی تمام اقسا م پا ک ہیں ۔
(۱۱۰) اگر انگو ر کے رس کے خو د بخو د یا پکا نے پر ابا ل آ جا ئے تو پا ک ہے لیکن اس کا کھا نا پینا حرام ہے اسی طر ح احتیا ط واجب کی بنا پر ابلاہواانگور حرا م ہے لیکن نجس نہیں ۔
(۱۱۱) کھجو ر ، منقی ، کشمش اور ان کے شیرے میں چا ہے اُبال آ جا ئے تو بھی پا ک ہیں اور ان کا کھانا حلال ہے ۔
(۱۱۲) فقا ع جو عام طو ر پر جو سے تیا ر ہو تی ہے او ر ہلکے نشے کا سبب بنتی ہے حرام ہے اور احتیاط و ا جب کی بنا پر نجس ہے لیکن وہ آ ب جو پاک ہے جوحلا ل ہے جو کسی قسم کے نشے کا سبب نہیں بنتی ۔
۱۰۔نجا ست کھا نے و الے حیو ان کا پسینہ
(۱۱۳) اس او نٹ کا پسینہ جسے انسا نی نجاست کھا نے کی عا د ت ہو نجس ہے اسی طر ح احتیا ط وا جب کی بنا پر اس قسم کے دو سر ے کے دوسرے حیو ا نا ت کا پسینہ حیو ا نا ت کا پسینہ بھی نجس ہے۔
(۱۱۴) جو شخص فعل حرام سے جنب ہوا ہو اس کا پسینہ پا ک ہے اور اس کے سا تھ نماز بھی صحیح ہے۔
نجا ست ثا بت ہو نے کے طر یقے
(۱۱۵) کسی بھی چیز کی نجا ست تین طر یقو ں سے ثا بت ہو تی ہے ۔
(۱) خو د انسان کو یقین یا عقلی طریقے سے اطمینان ہو جا ئے کہ فلا ں چیز نجس ہے اگر کسی چیز سے متعلق محض گمان ہو کہ نجس ہے تو اس سے پر ہیز کر نا لا ز م نہیں لہذا قہو ہ خانو ں اور ہو ٹلو ں میں جہاں لا پر وا لو گ اور ایسے کھا تے پیتے ہیں جو نجاست اور طہارت کا لحاظ نہیں کر تے کھا نا کھا نے کی صو رت یہ ہے کہ جب تک انسان کو اطمینان نہ ہو کہ جو کھانا اس کے لیے لا یا ہے وہ نجس ہے اس کے کھا نے میں کو ئی حر ج نہیں۔
(۲ )کسی کے اختیار میں کوئی چیز ہو اور اس چیز کے با ر ے میں کہے کہ نجس ہے اور وہ شخص غلط بیا نی نہ کر تا ہو مثلا اگر کسی شخص کی بیو ی یا نوکر ملا ز مہ کہے کہ بر تن یا کو ئی دوسری چیز جو اس کے اختیا ر میں ہے تو وہ نجس شما ر ہو گی ۔
( ۳) اگردو عا د ل آ د می کہیں کہ ایک چیز نجس ہے تو وہ نجس شما ر ہو گی بشر طیکہ وہ اس کی نجس ہو نے کی وجہ بیان کر یں مثلا کہیں کہ یہ چیز خو ن یا پیشا ب سے نجس ہوئی ہے ہاں ! اگر ایک عا د ل یا قا بل اطمینان شخص اطلا ع دے لیکن اس کی بات سے اطمینان نہ آ ئے تو احتیا ط و ا جب کی بنا پر اس سے اجتنا ب کر نا ضر و ر ی ہے ۔
(۱۱۶) اگر کو ئی شخص مسئلے سے عد م وا قفیت کی بنا پر یہ نہ جا ن سکے کہ ایک چیز نجس ہے یا پا ک مثلا اسے یہ علم نہ ہو کہ چوہے کی مینگنی پا ک ہے یا نہیں تواسے چا ہیے کہ مسئلہ پو چھ لے لیکن اگر مسئلہ جا نتا ہو اور اس کہ با رے میں اسے شک ہو کہ پاک ہے یا نہیں مثلا اسے شک ہو کہ وہ خو ن ہے یا نہیں یا یہ نہ جا نتا ہو کہ مچھر کا خو ن ہے یا انسا ن کا تو وہ چیز پاک شما ر ہو گی اور اس کے با رے میں چھان بین کر نا پو چھنا لا ز م نہیں ۔
(۱۱۷) اگر کسی نجس چیز کے با ر ے میں کو ئی شک ہو کہ پا ک ہو گئی ہے یا نہیں تو وہ نجس ہے اسی طرح اگر کسی پا ک چیز کے با رے میں شک ہو کہ نجس ہو گئی ہے یا نہیں تو وہ پاک ہے اگر کو ئی شخص ان چیز و ں کے نجس یا پاک ہونے کے متعلق پتا چلا بھی سکتا ہو تو تحقیق ضر ور ی نہیں ہے۔
( ۱۱۸) اگر کو ئی شخص جا نتا ہو کہ دو بر تن یا دو کپڑ ے وہ استعما ل کر تا ہے ان میں سے ایک نجس ہو گیا ہے لیکن اسے یہ علم نہ ہو ا ہو کہ ان میں سے کو نسا ہوا ہے تو دو نو ں سے اجتنا ب کر نا ضروری ہے اور مثا ل کہ طور پر اگر یہ نہ جا نتا ہو خو د اس کا کپڑا نجس ہو ا ہے یا وہ کپڑ ے جو اس کے ز یر استعمال نہیں ہیں اور کسی دو سر ے شخص کی ملکیت ہے تو یہ ضرو ر ی نہیں کہ اپنے کپڑے سے اجتنا ب کرے ۔
پاک چیزنجس کیسے ہو تی ہے؟
(۱۱۹) اگر کو ئی پا ک چیز کسی نجس چیز سے لگ جا ئے اور دو نو ں یا ان میں سے ایک قدر تر ہو کہ ایک کی تر ی دو سر ے تک پہنچ جا ئے تو پا ک چیز نجس ہو جا ئے گی لیکن اگر واسطہ متعد د ہو جائے تو نجس نہیں ہو گی مثلا اگر دا یا ں ہا تھ پیشا ب سے نجس ہواور یہ ہا تھ ایک نئی ر طو بت سے ساتھ با ئیں ہا تھ کو لگے تو وہ با یا ں ہا تھ بھی نجس ہو جا ئے گا اب اگربا یا ں ہا تھ خشک ہونے کہ بعد مثلا تر لبا س سے لگے تو وہ لبا س بھی نجس ہو جا ئے گا لیکن اب اگر وہ لبا س کسی دوسر ی چیز کو لگ جا ئے تووہ چیز نجس نہیں ہو گی ہا ں ! اگر تر ی اتنی کم ہو کہ دو سر ی چیز کو نہ لگے تو پاک چیز نجس نہیں ہو گی خو اہ وہ عین نجس کو ہی کیو ں نہ لگی ہو ۔
(۱۲۰)اگر کوئی پاک چیز کسی نجس چیزکو لگ جا ئے اور ان دو نو ں یا کسی ایک کے تر یو نے کے متعلق شک ہو تو پاک چیز نجس نہیں ہو تی ۔
(۱۲۱) ایسی دو چیز یں جن کے با ر ے میں انسا ن کو علم نہ ہو کہ ان میں سے کو ن سی پا ک ہے اور کو ن سی نجس ،اگر ایک پا ک اور تر چیز ان میں سے کسی ایک چیز کو چھو جا ئے تو اس سے پرہیز کر نا ضرو ر ی نہیں سو ائے بعض صو رتو ں میں جیسے اس صورت میں جن ان دو نو ں مشکو ک نجس چیز و ں کی سا بقہ یقینی حا لت نجا ست کی حا لت ہو یا مثلا اس صو رت میں جب کوئی اور پاک چیز ر طو بت کے سا تھ دو سر ی مشکوک چیز سے لگ جا ئے ۔
(۱۲۲) اگر ز مین کپڑا یا ایسی دو سر ی چیز یں تر ہو ں تو ان کے جس حصے کو نجا ست لگے گی وہ نجس ہو جا ئے گا اور با قی حصہ پاک رہے گا یہی حکم کھیرے اور خر بو ز ے وغیرہ کے بارے میں ہے ۔
(۱۲۳)جب شیر ے ، تیل (گھی ) یا ایسی ہی کسی اور چیز کی صو رت میں ایسی ہو کہ اگر اس کی کچھ مقدا ر نکال کی جا ئے تو اس کی جگہ خا لی نہ رہے تو جو نہی وہ ذ رہ بھر نجس ہو گا تو سا رے کا سارا نجس ہو جا ئے گا لیکن اس کی صورت ایسی ہو کہ نکالنے کے مقام پر جگہ خا لی رہے اگر چہ بعد میں ہی پُر ہو جا ئے تو صرف و ہی حصہ نجس ہو گا جسے نجا ست لگی ہے لہذا اگر چوہے کی مینگنی اس میں گر جا ئے تو جہا ں وہ مینگنی گر ی ہے وہ جگہ نجس اور با قی پا ک ہے ۔
(۱۲۴) اگر مکھی یا ایسا ہی کو ئی جا ندا ر ایک ایسی تر چیز پر بیٹھے جو نجس ہو اور بعد ازا ں ایک تر پاک چیز پر بیٹھ جا ئے اور علم ہو جا ئے کہ اس جاندار کے سا تھ نجا ست تھی تو پا ک چیز نجس ہو جائے گی اور اگر علم نہ ہو تو پاک ر ہے گی ۔
(۱۲۵) اگر بدن کہ کسی حصے پر پسینہ ہو اور وہ حصہ نجس ہو جا ئے اور پھر پسینہ بہہ کر بدن کے دوسر ے حصو ں تک چلا جائے تو جہا ں جہا ں پسینہ بہے گا بد ن کے وہ حصے نجس ہو جا ئیں گے لیکن اگر پسینہ آ گے نہ بہے تو با قی بدن پاک ر ہے گا۔
(۱۲۶) جو بلغم نا ک یا گلے سے خا ر ج ہو اگر اس میں خو ن ہو تو بلغم میں جہا ں خو ن ہو گا نجس اور با قی حصہ پاک ہو گا لہذا اگر یہ بلغم منہ یا ناک کے با ہر لگ جا ئے تو بدن کے جس مقام کے با ر ے میں یقین ہو کہ نجس بلغم اس پر لگا ہے نجس ہے اور جس جگہ کے با رے میں شک ہو کہ و ہا ں بلغم کا نجا ست و الا حصہ پہنچا ہے یا نہیں وہ پاک ہو گا ۔
(۱۲۷) اگر کو ئی ایسا لو ٹا جس کے پیند ے میں سو ر ا خ ہو نجس ز میں پر ر کھ دیا جا ئے اوراس سے بہنے والا پا نی آ گے بہنا بند ہو کر لو ٹے کے نیچے اس طر ح جمع ہو جا ئے کہ لو ٹے کے اند ر وا لے پا نی کے سا تھ اسے ایک ہی پا نی کہا جا سکے تو لوٹے کا پا نی نجس ہو جا ئے گا لیکن اگر لوٹے کاپا نی تیز ی کے سا تھ بہتا ر ہے تو نجس نہیں ہو گا ۔
(۱۲۸)اگر کو ئی چیز بدن میں دا خل ہوکر نجا ست سے جا ملے لیکن بد ن سے با ہر آ نے پر نجاست آ لو د ہ نہ ہو تو وہ چیزپاک ہے چنا نچہ اگر انیما کا سا ما ن یا س کا پا نی مقعد میں دا خل کیا جائے یا سو ئی چا قو یا کو ئی او ایسی چیز بدن میں چبھ جا ئے اور باہر نکلنے پر نجا ست آ لو د ہ نہ ہو تو نجس نہیں ہے اگر تھو ک اور نا ک کا پا نی جسم کے اند ر خو ن سے جا ملے لیکن با ہر نکلنے پر خون آلود ہ نہ ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے ۔
احکام نجا سا ت
(۱۲۹) قر آ ن مجید کی تحر یر اور ور ق جو نجس کر نا جب کہ یہ فعل بے حر متی میں شما ر ہو تا ہو بلا شبہ حرام ہے اور اگر نجس ہو جائے تو فو را پا نی سے دھونا ضر ور ی ہے بلکہ اگر بے حرمتی کا پہلو نہ بھی نکلے تب بھی احتیاط وا جب کی بنا پر کلا م پا ک کو نجس کر نا حر ام اور پا نی سے دھو نا و اجب ہے ۔
(۱۳۰ ) اگر قر ا ٓ ن مجید کی جلد نجس ہو جا ئے اور اس سے قر ا ٓ ن مجید کی بے حر متی ہو تی ہو تو جلد کو پانی سے دھو نا ضر ور ی ہے۔
(۱۳۱) قر آ ن مجید کو کسی عین نجا ست مثلا خو ن یا مر دار پر ر کھنا خو اہ وہ عین نجا ست خشک ہی کیوں نہ ہو اگر قر آ ن مجید کی بے حر متی کا با عث ہو تو حرا م ہے ۔
( ۱۳۲) قر ا ٓ ن مجید کو نجس رو شنا ئی سے لکھناخوا ہ ایک حرف ہی کیو ں نہ ہو اسے نجس کر نے کا حکم ر کھتا ہے اگر لکھا جا چکا ہو تو اسے پا نی سے دھو کر یا چھیل کر یا کسی اور طر یقے سے مٹا د ینا ضروری ہے ۔
(۱۳۳)اگر کا فر کو قر آ ن مجید دینا بے حر متی کا مو جب ہو تو حرام ہے اور اس سے قرآ ن مجید واپس لے لینا و ا جب ہے ۔
(۱۳۴) اگر قر آ ن مجید کا کو ئی ور ق یا کو ئی ایسی چیز جس کا احترام ضر ور ی ہو ، مثلا ایسا کا غذ جس پر اللہ تعا لی کا یا حضر ت رسو ل خدا ﷺ کا یا کسی امام - کا نام لکھا ہو بیت الخلا میں گر جا ئے تو اسے با ہر نکالنا اور اسے دھو نا و ا جب ہے خوا ہ اس پر کچھ ر قم ہی کیو ں نہ خر چ کر نی پڑے اور اگر اس کا با ہر نکالنا ممکن نہ ہو تو ضرو ر ی ہے کہ اس و قت تک بیت الخلا ء کو استعمال نہ کیا جا ئے جب تک یقین ہو کہ وہ گل کر ختم ہو گیا ہے اسی طر ح اگر خا ک شفاء بیت الخلا ء میں گر جا ئے اور اس کا نکالنا ممکن نہ ہو تو جب تک یہ یقین نہ ہو جا ئے کہ وہ با لکل ختم ہو چکی ہے اس بیت الخلا ء کا استعما ل نہیں کر نا چا ہیے ۔
(۱۳۵) نجس چیز کا کھا نا پینا یا کسی دو سر ے کو کھلا نا حرا م ہے لیکن بچے یا دیو ا نے کو کھلا نا پلا نا جائز ہے اور اگر بچہ یا د یو ا نہ نجس غذا کھا ئے پیئے یا نجس ہا تھ سے غذا کو نجس کر کہ کھا ئے تو اسے رو کنا ضر وری نہیں ۔
(۱۳۶) جو نجس چیز پاک کی جا سکتی ہو اسے بیچنے اور اد ھا ر د ینے میں کو ئی حر ج نہیں لیکن اس کے نجس ہو نے میں جب یہ دو شر طیں مو جو د ہو ں تو خر ید نے یا اد ھا ر لینے وا لے کو بتانا ضروری ہے ۔
(۱) جب اند یشہ ہو کہ دو سرا فر یق کسی وا جب حکم کی مخا لفت کامر تکب ہو گا مثلا اس (نجس چیز ) کو کھا نے پینے میں استعمال کرے گا اگر ایسا نہ ہو تو بتانا ضر ور ی نہیں ہے مثلا لبا س کے نجس ہو نے کہ با ر ے میں بتانا ضر ور ی نہیں جسے پہن کر دو سر ا فریق نماز پڑھے گا کیو نکہ لباس کا پا ک ہو نا شر ط وا قعی نہیں ہے۔
(۲) جب بیچنے یا اد ھا ر د ینے وا لے کو تو قع ہو کہ دو سرا فر یق اس با ت پر عمل کرے گا اور اگر جا نتا ہو کہ دو سرا فر یق اس کی با ت پر عمل نہیں کرے گا تو اسے بتانا ضر ور ی نہیں ہے۔
(۱۳۷)اگر کو ئی شخص کسی دو سر ے شخص کو نجس کھا تے یا نجس لباس سے نما ز پڑ ھتے د یکھے تواسے اس با رے میں کہنا ضروری نہیں ۔
(۱۳۸) اگر گھر کا کو ئی حصہ یا قا لین یا (در ی ) نجس ہواور وہ د یکھے کہ اس کے گھر آ نے و الو ں کا بدن ، لبا س یا کو ئی اور چیز تر ی کے سا تھ جگہ سے جا لگی ہے اور صا حب خا نہ اس کا با عث ہو ا ہو تو دو شر طو ں کے سا تھ گز شتہ مسئلے میں بیان ہو ئی ہیں ان لو گو ں کو اس با ر ے میں آگا ہ کر د ینا ضر ور ی ہے ۔
(۱۳۹) اگر میز با ن کو کھانا کھا نے کے دو را ن پتہ چلے کہ غذا نجس ہے تو دو شر طو ں کے مطا بق جو مسئلہ ۱۳۶میں بیان ہوئی ہیں ضر ور ی ہے کہ مہما نو ں کو اس کے متعلق آ گا ہ کر دے لیکن اگر مہما نو ں میں سے کسی کو علم ہو جا ئے تو اس کے لیے دو سر و ں کو بتا نا ضر ور ی نہیں البتہ اگر وہ ان کے سا تھ یو ں گھل مل کر رہتا ہو کہ ان کے نجس ہو نے کی و جہ سے خود بھی نجا ست میں مبتلا ہو کر و اجب احکا م کی مخا لفت کا مر تکب ہو گا تو ان کو بتانا ضر وری ہے ۔
(۱۴۰) اگر کو ئی ادھا ر لی ہو ئی چیز نجس ہو جا ئے تو اس کے ما لک کو دو شر طو ں کے سا تھ جو مسئلہ ۱۳۶ میں بیان ہو ئی ہیں آگا ہ کرے۔
(۱۴۱) اگر بچہ کہے کہ کو ئی چیز نجس ہے یا کہے کہ اس نے کسی چیز کو د ھو لیا ہے تو اس با ت پر اعتبار نہیں کر نا چا ہیے لیکن اگر بچہ ممیز ہو اور نجاست و طہا ر ت کو بخو بی سمجھتا ہو اور وہ کہے کہ اس نے ایک چیز پا نی سے د ھو ئی ہے جبکہ وہ چیز وہ چیز اس کے استعمال میں ہو یا بچے کا قول اعتما د کے قابل ہو تو اس کی با ت قبول کر لینی چا ہیے اور یہی حکم ہے کہ بچے کہے کہ وہ چیز نجس ہے ۔
مطہرا ت
( ۱۴۲) با رہ چیز یں ایسی ہیں جو نجا ست کو پا ک کر تی ہیں اور انہیں مطہرا ت کہا جا تا ہے ۔
(۱)پا نی (۲ ) ز مین (۳ ) سو ر ج (۴ ) استحا لہ (۵ ) انقلا ب (۶) انتقا ل (۷) اسلا م (۸)تبعیت (۹) عین نجا ست کا ز ائل ہو جا نا (۱۰)نجا ست خور حیو ان کا استبرا ء (اا) مسلمان کا غا ئب ہو جا نا (۱۲) ذ بیحہ کے بدن کا نکل جا نا
۱ ۔ پا نی
(۱۴۳) پا نی چا ر شر طو ں کے سا تھ نجس چیز کو پاک کر تا ہے ۔
(۱) پا نی مطلق ہو مضا ف پا نی مثلا عر ق گلا ب یا عر ق بید مشک سے نجس چیز پاک نہیں ہوتی۔
(۲) پا نی پا ک ہو ۔
(۳ ) نجس چیز کو د ھو نے کے دو را ن پا نی مضا ف نہ بن جا ئے جب کسی چیز کو پاک کرنے کے لیے پا نی سے د ھو یا جا ئے اور اس کے بعد مز ید د ھو نا ضر وری نہ ہو تو یہ بھی لا زم ہے کہ اس پا نی میں نجا ست کی بُو ر نگ یا ذ ائقہ مو جو د نہ ہو لیکن اگر دھو نے کی صورت اس سے مختلف ہو ( یعنی وہ آ خر ی دھو نا نہ ہو ) اور پا نی کی بُو ر نگ اور ذائقہ بدل جا ئے تو اس میں کوئی حر ج نہیں مثلا اگر کو ئی چیز کُر پا نی یا قلیل پا نی سے دھو ئی جائے اورا سے دو مر تبہ دھو نا ضر ور ی ہو تو خوا ہ پا نی کی بُو ر نگ اور ذ ا ئقہ پہلی د فعہ دھونے کے و قت بد ل جا ئے لیکن دو سر ی د فعہ استعما ل کیے جا نے وا لے پا نی میں ایسی کو ئی تبد یلی رونما نہ ہو تو وہ چیز پا ک ہو جا ئے گی ۔
(۴) نجس چیز کو پا نی سے د ھو نے کے بعد اس میں عین نجا ست کے ذرا ت با قی نہ ر ہیں ۔
نجس چیز کو قلیل پا نی یعنی ایک کُر سے کم پا نی سے پا ک کر نے کی کچھ اور شرا ئط بھی ہیں جن کا ذ کر کیا جا ر ہا ہے ۔
(۱۴۴) نجس بر تن کے اندرو نی حصے کو قلیل پا نی سے تین دفعہ د ھو نا ضر ور ی ہے اور کُر یا جا ری پانی کا بھی احتیا ط و اجب کی بنا پر یہی حکم ہے لیکن جس بر تن سے کتے نے پا نی یا کو ئی اور ما ئع چیز پی ہوا سے پہلے پاک مٹی سے ما نجھنا چا ہئے پھر اس برتن سے مٹی کو دو ر کر ناچا ہیے اس کے بعد قلیل یا کُر جا ر ی پا نی سے دو د فعہ دھو نا چا ہیے اسی طر ح اگر کتے نے کسی برتن کو چا ٹا ہو اور کوئی چیز اس میں با قی رہ جا ئے تو اسے د ھو نے سے مٹی سے ما نجھا لینا ضر ور ی ہے البتہ اگر کتے کے لعاب کسی بر تن میں گر جا ئے یا اس کے بد ن کا کو ئی حصہ اس بر تن سے لگے تو احتیا ط لازم کی بنا پر اسے مٹی سے ما نجھنے کے بعد تین دفعہ پا نی سے د ھو نا ضر ور ی ہے ۔
(۱۴۵) جس بر تن میں کتے نے منہ ڈا لا ہے اگر اس کا منہ تنگ ہو تو اس میں مٹی ڈا ل کُر خو ب ہلا ئیں تا کہ مٹی برتن کے تمام اطراف میں پہنچ جا ئے اس کے بعد اسے اسی تر تیب کے مطا بق د ھو ئیں جس کا ذکر سا بقہ مسئلے میں ہو چکا ہے۔
(۱۴۶) اگر کسی بر تن کو سو ر چا ٹے یا اس میں اس سے کو ئی سیا ل چیز پی جا ئے یا اس بر تن میں جنگلی چو ہا مر گیا ہو تو اسے قلیل یا کُر پا نی سے جا ر ی پا نی سے سا ت مر تبہ دھو نا ضر ور ی ہے لیکن مٹی سے ما نجھنا ضر و ر ی نہیں ۔
(۱۴۷) جو بر تن شراب سے نجس ہو گیا ہو اسے تین مر تبہ دھونا ضر ور ی ہے اس با رے میں قلیل یا کُر یا جا ری پا نی کا کو ئی فرق نہیں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے سات با ر دھو یا جائے ۔
(۱۴۸) اگر ایک ایسا بر تن کو نجس مٹی سے تیا ر کیا گیا ہو یا جس میں نجس پا نی سرا یت کر گیا ہو کُر یا جا ری پانی میں ڈا ل د یا جائے تو جہا ں جہاں وہ پا نی پہنچے گا بر تن پا ک ہو جا ئے گا اور اگر اس برتن کے اند ر و نی اجزا ء کو بھی پا ک کر نا مقصو دہوتو اسے کُر یا جا ری پانی میں اتنی دیر پڑا ر ہنے دینا چا ہیے کہ پا نی تمام بر تن میں سر ایت کر جا ئے اور اگر بر تن میں کو ئی ایسی نمی ہو جو پا نی کے اندرو نی حصو ں تک پہنچنے میں ما نع ہو تو پہلے اسے خشک کر لیناضرو ر ی ہے اور پھر بر تن کوکُر یا جار ی پا نی میں ڈال لیناچا ہیے ۔
(۱۴۹) نجس بر تن کو قلیل پا نی سے دو طر یقے سے د ھو یا جا سکتا ہے :
پہلا طر یقہ : بر تن کو تین دفعہ بھر ا جا ئے اور ہر د فعہ خا لی کر د یا جا ئے ۔
دوسر اطر یقہ : بر تن میں تین دفعہ منا سب مقدا ر میں پا نی ڈا لیں اور ہر د فعہ پا نی کو یوں گھمائیں کہ وہ تمام نجس مقا ما ت تک پہنچ جا ئے اور پھر اسے گرا د یں ۔
(۱۵۰) اگر بڑا بر تن مثلا د یگ یا مر تبا ن نجس ہو جا ئے نجس ہو جا ئے تو تین د فعہ خا لی کر نے کے بعد پاک ہو جا تا ہے اسی طر ح اگر اس میں تین د فعہ او پر سے اس طر ح پانی انڈیلیں کہ اس کے تمام اطر اف تک پہنچ جا ئے اور ہر د فعہ اس کی تہہ میں جو پا نی جمع ہو جا ئے اس کو نکال د یں تو بر تن پا ک ہو جا ئے گا اگر چہ احتیا ط مستحب یہ ہے کہ دو سر ی اور تیسر ی با ر جس برتن کے ذر یعے پا نی نکا لا جا ئے اسے بھی د ھو یا جا ئے ۔
(۱۵۱) اگر نجس تا بنے و غیرہ کو پگھلا کر پا نی سے دھو یا جائے تو اس کا ظا ہر ی حصہ پا ک ہو جائے گا ۔
(۱۵۲) اگر تنور پیشا ب سے نجس ہو جا ئے اور اس میں او پر سے ایک مر تبہ یو ں پا نی ڈا لا جائے کہ اس کی تما م اطر ا ف تک پہنچ جا ئے تو تنو ر پا ک ہو جا ئے گا اور احتیا ط مستحب یہ ہے کہ یہ عمل دو د فعہ کیا جا ئے اور اگر تنو ر پیشا ب کے علا وہ کسی اور چیز سے نجس ہو اہو تو نجا ست دو ر کر نے کے بعد مذ کو رہ طر یقے کہ مطا بق اس میں ایک د فعہ پا نی ڈا لنا کا فی ہے اور بہتر یہ ہے کہ تنو ر کی تہہ میں ایک گڑھاکھود دیا جا ئے جس میں پا نی جمع ہو سکے پھر اس پا نی کو نکا ل لیا جا ئے اور گڑ ھے کوپا ک مٹی سے پر کر دیا جائے ۔
(۱۵۳) اگر کسی نجس چیز کو کُر یا جا ری پا نی میں ایک د فعہ یو ں ڈبو یا جا ئے کہ پا نی اس کے تمام نجس مقا ما ت تک پہنچ جائے تو وہ چیز پاک ہو جا ئے گی اور قا لین یا دری اور لبا س و غیر ہ کو پاک کر نے کے لیے اسے نچو ڑ نا اور اسی طر ح سے ملنا یا پاؤں سے ر گڑ نا ضر ور ی نہیں ہے اور اگر بدن یا لباس پیشا ب سے نجس ہو گیا ہو تو اسے کرپا نی میں دو د فعہ د ھو نا بھی لا زم ہے البتہ جا ری پا نی میں ایک با ر د ھو نا ہی کا فی ہے ۔
(۱۵۴) اگر کسی ایسی چیز کو جو پیشا ب سے نجس ہو گی ہو قلیل پا نی سے د ھو نا مقصود ہو تو اس پر ایک د فعہ یو ں پا نی بہا د یں کہ پیشا ب اس چیز میں با قی نہ رہے تو وہ چیز پا ک ہو جا ئے گی البتہ لبا س اور بدن پر دو د فعہ پا نی بہا نا ضر ور ی ہے تا کہ وہ پا ک ہو جا ئیں لیکن جہا ں تک لباس قالین در ی اور ان سے ملتی جلتی چیز و ں کا تعلق ہے انہیں ہر د فعہ پا نی ڈا لنے کے بعد نچوڑناچاہیے تا کہ غسا لہ ان میں سے نکل جا ئے (غسا لہ یا د ھو و ن اس پا نی کو کہتے ہیں جو کسی دھو ئی جا نے والی چیز سے دھلنے کے دو را ن یا د ھل جا نے کے بعد خو د بخود یا نچو ڑ نے سے نکلتا ہے )۔
(۱۵۵)جو چیز ایسے شیر خوار لڑکے یا لڑکی کے پیشا ب سے نجس ہو جا ئے جس نے دو دھ کے علا وہ کو ئی غذاکھانا شر و ع نہ کی ہواگرا س پر ایک د فعہ پا نی ڈا لا جا ئے کہ تمام نجس مقا ما ت پر پہنچ جا ئے تو وہ چیز پا ک ہو جا ئے گی لیکن احتیا ط مستحب یہ ہے کہ مز ید ایک با ر اس پر پا نی ڈالا جا ئے لباس قا لین اور در ی و غیر ہ کو نچو ڑنا ضر ور ی نہیں ۔
(۱۵۶) اگر کو ئی چیز پیشا ب کے علا وہ کسی نجا ست سے نجس ہو جا ئے تو وہ نجا سا ت دو ر کر نے کے بعد ایک دفعہ قلیل پا نی اس پر ڈا لا جا ئے جب وہ پا نی بہہ جا ئے تو وہ چیز پا ک ہو جا تی ہے البتہ لبا س اور اس سے ملتی جلتی چیز و ں کو نچو ڑ نا ضروری ہے تا کہ ان کا د ھو و ن نکل جا ئے ۔
(۱۵۷) اگر کسی نجس چٹا ئی کو جو د ھا گو ں سے بنی ہو ئی ہو یا جا ری پا نی میں ڈ بو دیا جا ئے تو عین نجا ست دو ر ہو نے کے بعد وہ پا ک ہو جائے گی لیکن اگر اسے قلیل پا نی سے دھو یا جا ئے تو جس طر ح بھی ممکن ہو اس کا نچو ڑنا ضر ور ی ہے خوا ہ اس میں پاؤں ہی کیو ں نہ چلانے پڑیں تا کہ اس کا د ھو ون الگ ہو جا ئے۔
(۱۵۸) اگر گند م ، چا و ل صا بن و غیرہ کا او پر والا حصہ نجس ہو جا ئے تو وہ کُر یا جا ری پا نی سے دھو نے سے پا ک ہو جا ئے گا انہیں قلیل پا نی سے بھی پاک کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ان کی اندرونی حصہ نجس ہو جا ئے تو کُر یا جا ری پا نی کے ان چیزوں کے اندر تک پہنچنے پر یہ پا ک ہو جا تی ہیں۔
(۱۵۹) اگر صابن کا ظا ہر ی حصہ نجس ہو جا ئے تو اسے پا ک کیا جا سکتا ہے جبکہ اگر اس کا با طنی حصہ نجس ہو جا ئے تو وہ پاک نہیں ہو سکتا ہا ں !اگر کسی شخص کے با ر ے میں شک ہو کہ نجس پا نی صا بن کے اندرو نی حصے تک سرا یت کر گیا ہے یا نہیں تو وہ حصہ پا ک ہو گا۔
(۱۶۰) اگر چاول یا گوشت یا ایسی ہی چیز کا ظاہری حصہ نجس ہو جائے تو کسی پاک پیالے یا اس کے مثل کسی چیز میں رکھ کر ایک دفعہ اس پرپانی ڈ النے اور پھر پھینک د ینے کے بعد وہ چیزپا ک ہو جا تی ہے اور اگر کسی نجس بر تن میں ر کھیں تو یہ کام تین د فعہ انجام د ینا ضر ور ی ہے اور اس صورت میں وہ برتن بھی پا ک ہو جا ئے گا لیکن اگر لبا س یا کسی دو سر ی ایسی چیز کو بر تن میں ڈا ل کر پاک کر نا مقصو د ہوجس کا نچو ڑ نا لا ز م ہے تو جتنی با ر اس پر پا نی ڈا لا جا ئے اسے نچوڑ نا ضروری ہے اوربر تن کو الٹ د ینا چا ہیے تا کہ جو دھو ون اس میں جمع ہو گیا ہو وہ ہہہ جائے۔
(۱۶۱)اگر کسی نجس لباس کو جو نیل یا اس جیسی چیز سے ر نگا گیا ہوکُر یا جا ری پا نی میں ڈبویاجائے اور کپڑ ے کے ر نگ کی وجہ سے پا نی مضا ف ہو نے پر قبل تما م جگہ پہنچ جا ئے تو وہ پاک ہو جا ئے گا اور اگر اسے قلیل پا نی سے دھو یا جا ئے اور نچوڑنے پر اس میں سے مضا ف پانی نہ نکلے تو وہ لبا س پا ک ہو جا تا ہے ۔
(۱۶۲) اگر کپڑ ے کو کُر یا جا ری پا نی میں دھو یا جا ئے اور مثا ل کے طور پر بعد میں کا ئی و غیر ہ کپڑ ے میں نظر آ ئے اور یہ احتما ل نہ ہو کہ یہ کپڑ ے کے اندر پا نی کے پہنچنے میں ما نع ہو ئی ہے تو وہ کپڑا پا ک ہے ۔
( ۱۶۳) اگر لبا س یا اس سے ملتی جلتی چیز و ں کے د ھو نے کے بعد مٹی کا ذ رہ یا صا بن اس میں نظر آ ئے اور احتما ل ہو کہ یہ کپڑ ے کے اند رپا نی کے پہنچنے میں ما نع ہو ا ہے تو وہ پا ک ہے لیکن اگر نجس پا نی مٹی یا صا بن میں سرا یت کر گیا ہو تو مٹی اور صا بن کا او پر والاحصہ پاک اورا س کا اندرو نی حصہ نجس ہو گا ۔
(۱۶۴) جب تک عین نجا ست کسی نجس چیز سے الگ نہ ہو وہ پا ک نہیں ہو گی لیکن اگر بُو یا نجاست کا ر نگ اس میں با قی رہ جا ئے تو کو ئی حر ج نہیں لہذا اگر خون لبا س پر سے ہٹا دیا جائے اور لباس دھو یا جا ئے اور خو ن کا ر نگ لبا س پر با قی بھی رہ جا ئے تو لباس پاک ہو گا ۔
(۱۶۵) اگر کُر یا جا ر ی پانی میں بد ن کی نجا ست دور کر لی جا ئے تو بد ن پاک ہو جا تا ہے لیکن اگر بدن پیشا ب سے نجس ہوا ہو تو اس صو رت میں ایک د فعہ سے پا ک نہیں ہو گا لیکن پا نی سے نکل آ نے کے بعد دو با رہ اس میں د ا خل ہونا ضروری بلکہ اگر پا نی کے اند ر ہی بد ن پر اس طر ح ہا تھ پھیر لے کہ پا نی بدن سے جدا ہو کر دو د فعہ بدن تک پہنچ جا ئے تو کا فی ہے ۔
(۱۶۶) اگر نجس غذا د ا نتو ں کی ر یخو ں میں رہ جا ئے او ر پا نی منہ میں بھر کر یو ں گھما یا جا ئے کہ تمام نجس غذا تک پہنچ جائے تو وہ غذا پاک ہو جا تی ہے ۔
(۱۶۷) اگر سر یا چہر ے کے با لو ں کو قلیل پا نی سے د ھو یا جا ئے اور وہ با ل گھنے نہ ہو ں تو ان سے د ھو و ن جد ا کر نے کے لیے انہیں نچو ڑ نا ضر ور ی نہیں کیو نکہ پا نی معمول کے مطا بق خود جد اہو جا تا ہے ۔
(۱۶۸) اگر بدن یا لبا س کا کو ئی حصہ قلیل پا نی سے د ھو یا جا ئے تو نجس مقام کے پاک ہو نے سے اس مقام سے متصل وہ جگہیں بھی پا ک ہو جا ئیں گی جن تک دھو تے و قت عمو ماً پانی پہنچ جا تا ہے مطلب یہ کہ نجس مقام کے اطراف کو علیحد ہ دھو نا ضر ور ی نہیں بلکہ وہ نجس مقام کو دھو نے کے سا تھ ہی پا ک ہو جا تے ہیں اوراگر ایک پاک چیز ایک نجس چیز کے برابر رکھ د یں اور دونو ں پر پا نی ڈا لیں تو اس کا بھی یہی حکم ہے لہذا اگر ایک نجس انگلی کو پا ک کر نے کے لیے سب انگلیو ں پر پا نی ڈا لیں اور نجس پا نی پا ک پا نی سب انگلیو ں تک پہنچ جائے تو نجس انگلی کے پا ک ہو نے پر تمام انگلیا ں پا ک ہو جائیں گی ۔
(۱۶۹)جو گو شت یا چر بی نجس ہو جا ئے دو سر ی چیز و ں کی طر ح پا نی سے د ھو ئی جا سکتی ہے یہی صور ت اس بد ن یا لبا س کی ہے جس پر تھو ڑ ی بہت چکنا ئی ہو جو پا نی کو بد ن یا لبا س تک پہنچنے سے نہ رو کے ۔
(۱۷۰) اگر بر تن یا بدن نجس ہو جا ئے اور بعد میں اتنا چکنا ہو جا ئے کہ پا نی اس تک نہ پہنچ سکے اور بد ن کو پا ک کرنا مقصود ہو تو پہلے چکنا ئی دور کر نی چا ہیے تا کہ پا نی ان تک ( یعنی بر تن یا بدن تک ) پہنچ سکے ۔
(۱۷۱) جو نل کُر پا نی سے متصل ہو وہ کُر پا نی کا حکم ر کھتا ہے ۔
(۱۷۲) اگر کسی چیز کو د ھو یا جا ئے اور یقین ہو جا ئے کہ پا ک ہو گی ہے لیکن بعد میں شک گزر ے کہ عین نجا ست اس سے دو ر ہو ئی ہے یا نہیں تو ضر ور ی ہے کہ اسے دو با رہ پا نی سے دھو لیا جا ئے تا کہ یقین آ جا ئے کہ عین نجا ست دور ہو گئی ہے ۔
(۱۷۳) وہ ز مین جس میں پا نی جذب ہو جا تا ہو مثلا ایسی ز مین جس کی سطح ر یت یا بجر ی پر مشتمل ہو اگر نجس ہو جا ئے تو قلیل پا نی سے پاک ہو جا تی ہے ۔
(۱۷۴) اگر وہ ز مین جس کا فر ش پتھر یا اینٹو ں کا ہو یا دو سر ی سخت ز مین جس میں پا نی جذ ب نہ ہو تا ہو نجس ہو جا ئے توقلیل پا نی سے پاک ہو سکتی ہے لیکن ضر ور ی ہے کہ اس پر اتنا پا نی ڈا لا جا ئے کہ بہنے لگے جو پا نی او پر ڈا لا جا ئے اگر وہ کسی گٹر و غیر ہ سے با ہر نکل نہ سکے اور کسی جگہ جمع ہو جا ئے تو اس جگہ کو پاک کر نے کا طر یقہ یہ ہے کہ جمع شد ہ پا نی کو کپڑے یا بر تن سے با ہرنکال د یا جا ئے ۔
(۱۷۵) اگر معد نی نمک کا ڈلا یا اس جیسی کو ئی اور چیز او پر سے نجس ہو جا ئے تو قلیل پا نی سے پاک ہو سکتی ہے
(۱۷۶) اگر پگھلی ہو ئی نجس شکر سے قند بنا لیں اور اسے کُر یا جا ری پا نی میں ر کھ دیں تو وہ پا ک نہیں ہو گی ۔
۲۔ ز مین
(۱۷۷) ز مین پاؤں کے تلو ے اور جو تے کے حصے کو چا ر شر طو ں سے پاک کر تی ہے ۔
(۱)یہ کہ ز مین پاک ہو
(۲ ) یہ کہ ز مین خشک ہو
(۳) احتیا ط لا زم کی بنا پر نجا ست ز مین سے لگی ہو
(۴) عین نجا ست مثلا خون اور پیشا ب یا متنجس مٹی جو پاؤں کے تلو ے یا جو تے کے نچلے حصے میں لگی وہ را ستہ چلنے سے یا پاؤں ز مین پر ر گڑ نے سے دو ر ہو جا ئے لیکن اگر عین نجا ست ز مین پر چلنے یا ز مین پر ر گڑ نے سے پہلے ہی دو ر ہو گئی ہو تو احتیاط لا زم کی بنا پر پا ک نہیں ہو ں گے البتہ یہ ضر ور ی ہے کہ ز مین مٹی یا پتھر یا اینٹوں کے فر ش یا ان سے ملتی جلتی چیز پر مشتمل ہو قا لین در ی چٹا ئی گھا س پر چلنے سے پاؤں کا نجس تلوا یا جو تے کا نجس حصہ پا ک نہیں ہو تا ۔
(۱۷۸) پاؤں کا تلو ایا جو تے کا نچلا حصہ نجس ہو تو ڈا مر پر یا لکڑ ی کے بنے ہو ئے فرش پر چلنے سے پاک ہو نا محل اشکال ہے۔
(۱۷۹) پاؤں کے تلو ے یا جو تے کے نچلے حصے کو پا ک کر نے کے لیے بہتر ہے کہ پند ر ہ ذراع یا اس سے زیا د ہ فا صلہ ز مین پر خو ا ہ پندرہ ذر اع ۱ سے کم چلنے یا پا وں ز مین پر گڑرنے سے نجا ست دو ر ہو گی ہو۔
(۱۸۰) پاک ہو نے کے کے لیے پاؤں یا جو تے نجس تلو ے کا تر ہو نا ضر ور ی نہیں بلکہ خشک بھی ہوں تو ز مین پر چلنے سے پا ک ہو جا تے ہیں ۔
(۱۸۱) جب پاؤں یا جو تے کا نجس تلو ا ز مین سے پا ک ہو جا ئے تو اس کی اطراف کے وہ حصے بھی جنہیں عموماًکیچڑ وغیرہ لگ جا ئے پا ک ہو جا تے ہیں ۔
(۱۸۲)اگر کسی ایسے شخص کے ہا تھ کی ہتھیلی یا گھٹنا نجس ہو جا ئیں جو ہا تھو ں اور گھٹنو ں کے بل چلتا ہو تو اس کے را ستے سے اس کی ہتھیلی یا گھٹنے کا پا ک ہو جا نا محل اشکا ل ہے یہی صورت لاٹھی اور مصنو عی ٹا نگ کے نچلے حصے چو پا ئے کے نعل مو ٹر گا ڑ یو ں اور دو سر ی گا ڑ یو ں کے پہیو ں کی ہے ۔
(۱۸۳) اگر ز مین پر چلنے کے بعد نجا ست کی بور نگ یا با ر یک ذرے جو نظر نہ آئیں پاو ں یا جو تے کہ تلو ے سے لگے رہ جا ئیں تو کو ئی حرج نہیں اگر چہ احتیا ط مستحب یہ ہے کہ ز مین پر اس قد ر چلا جا ئے کہ وہ بھی ز ائل ہو جا ئیں ۔
(۱۸۴) جو تے کا اندر و نی حصے ز مین پر چلنے سے پا ک نہیں ہو تا اور زمین پر چلنے سے موزے کے نچلے حصے کا پا ک ہو نا بھی محل اشکا ل ہے لیکن اگر مو ز ے کا نچلا حصہ چمڑ ے یا چمڑے سے ملتی جلتی چیز سے بنا ہو اور اسے پہن کر چلنے کا رو اج بھی ہو تو وہ ز مین پر چلنے سے پاک ہو جا ئے گا ۔
۳ ۔ سو ر ج
(۱۸۵) سو رج ۔ ز مین ، عما رت اور د یو ار کو پا نچ شر طو ں کے سا تھ پاک کیا کرتا ہے۔
(۱ ) نجس چیز اس طر ح تر ہو کہ اگر دو سر ی چیز اس سے لگ تو تر ہو جا ئے ۔ لہذا اگر وہ چیز خشک ہو تواسے کسی طر ح تر کر لینا چا ہیے تا کہ دھوپ سے خشک ہو۔
(۲) اس میں کو ئی عین نجا ست با قی نہ رہ گئی ہو ۔
(۳) کو ئی چیز د ھو پ میں ر وکا و ٹ نہ ڈا لے پس اگر د ھو پ پر د ے با دل یا ایسی ہی چیز کے پیچھے سے نجس چیز پر پڑے اوراسے خشک کر دے تو وہ چیز پاک نہیں ہو گی البتہ با د ل اتنا ہلکا ہو کہ دھو پ کو نہ رو کے تو کو ئی حر ج نہیں ۔
(۴) فقط سو رج نجس چیز کو خشک کرے لہذا مثا ل کے طور پر اگر نجس چیز ہوا اور دھوپ سے خشک ہو تو پا ک نہیں ہو تی ہا ں اگر کیفیت یہ ہو کہ کہا جا سکے کہ یہ نجس چیز دھو پ سے خشک ہو ئی ہے تو پھر کو ئی حر ج نہیں ۔
(۵) عما رت کے جس حصے میں نجا ست سر ایت کر گئی ہے د ھو پ سے ایک ہی مر تبہ خشک ہو جا ئے پس اگر ایک د فعہ دھوپ نجس زمین اور عما رت پر پڑ ے اور اس کا سامنے والا حصہ خشک کرے اور دو سر ی دفعہ نچلے حصے کو خشک کرے تو اس کا سا منے والا حصہ پا ک ہو گا اور نچلا حصہ نجس ر ہے گا ۔
(۱۸۶) سو رج نجس چٹا ئی کو پاک کر دیتا ہے لیکن اگر اس کی بنا وٹ میں دھا گے استعما ل ہوئے ہو ں تو انہیں پاک نہیں کر تا اسی طر ح درخت گھا س اور در وا ز ے سو رج سے پاک ہونے میں اشکال ہیں ۔
(۱۸۷) اگر د ھو پ نجس ز مین پر پڑ ے بعد از اں شک پید اہو کہ د ھو پ پڑ نے کے و قت زمین تر تھی یا نہیں یا تری دھوپ کے ذ ر یعے خشک ہو ئی یا نہیں تو وہ ز میں نجس ہو گی اور اگر شک پیدا ہو کہ د ھو پ پڑ نے سے پہلے عین نجا ست زمین پر سے ہٹا د ی گئی تھی یا نہیں یا یہ کہ کوئی چیز د ھو پ کو ما نع تھی یا نہیں تو پھر ز مین کا پاک ہونا محا ل اشکال ہے ۔
(۱۸۸) اگر د ھو پ نجس دیو ار کی ایک طرف پڑ ے اور اس کے ذریعے دیو ار کی وہ جا نب بھی خشک ہو جا ئے جس پر دھوپ نہیں پڑ ی تو بعید نہیں کہ دیو ار دو نو ں طر ف سے پا ک ہو جا ئے لیکن اگر ایک د ن با طنی حصے کو خشک کرے تو صرف اس کا ظا ہر ی حصہ پاک ہو گا ۔
۴۔استحا لہ
(۱۸۹) اگر کسی نجس چیز کی جنس یو ں بدل جا ئے کہ ایک پاک چیز کی شکل اختیا ر کر لے تو وہ پاک ہو جا تی ہے مثال کے طور پر نجس لکڑ ی جل کر راکھ ہو جا ئے یا کتا نمک کی کان میں گر کر نمک بن جا ئے لیکن اگر اس چیز کی جنس نہ بدلے مثلا نجس گیہو ں کا آ ٹا پیس لیا جا ئے یا (نجس آ ٹے کی ) رو ٹی پکا لی جا ئے تووہ پاک نہیں ہو گی۔
(۱۹۰) مٹی کا کوزہ یا دو سر ی چیز یں جو مٹی سے بنا ئی جا ئیں نجس ہیں لیکن وہ کو ئلہ جو نجس لکڑ ی سے تیا ر کیا جا ئے اگر اس میں لکڑی کی کو ئی خا صیت با قی نہ ر ہے تو وہ کو ئلہ پاک ہے اگر گیلی مٹی کو آ گ میں پکا کر اینٹ یا سفال بنا لیا جا ئے تو احتیاط و ا جب کی بنا پر نجس ہے ۔
(۱۹۱) ایسی نجس چیز جس کے متعلق علم نہ ہو آ یا اس کا استحا لہ ہو ا یا نہیں (یعنی جنس بد لی یا نہیں ) نجس ہے ۔
۵ ۔ انقلا ب
(۱۹۲ ) اگر شر اب خود بخود یا کو ئی چیز ملا نے سے مثلا سر کہ اور نمک ملا نے سے سر کہ بن جائے تو وہ پا ک ہو جا تی ہے ۔
(۱۹۳) وہ شرا ب جو نجس انگو ر یا اس جیسی کسی دو سر ی چیز سے تیا ر کی گئی ہو یا کو ئی نجس چیز شراب میں گر جا ئے تو سرکہ بن جانے سے پاک نہیں ہو تی ۔
(۱۹۴) نجس انگو ر نجس کشمش اور نجس کھجو ر سے جو سر کہ تیا ر کیا جا ئے وہ نجس ہے ۔
(۱۹۵) اگر انگو ر یا کھجو ر کہ ڈ نٹھل بھی ان کے سا تھ ہو ں اور ان سے سر کہ تیا ر کیا جا ئے تو کو ئی حرج نہیں بلکہ اسی بر تن میں کھیر ے اور بینگن و غیرہ ڈا لنے میں کو ئی خر ا بی نہیں خو اہ انگو ر یا کھجو ر یا سر کہ بننے سے پہلے ہی ڈالے جائیں بشرطیکہ سرکہ بننے سے پہلے ان میں نشہ پید انہ ہو ا ہو ۔
(۱۹۶) اگر انگو ر کے رس میں آ گ پر ر کھنے سے خو د بخود اُبال آ جا ئے تو وہ حرام ہو جا تا ہے اور اگروہ اتنا ابل جا ئے کہ دو تہا ئی حصہ کم ہو جائے اور ایک تہائی حصّہ باقی رہ جا ئے تو حلال ہو جا تا ہے جبکہ اگر یہ ثا بت ہو جا ئے کہ یہ کہ نشہ آ ور بن چکا ہے جیسا کہ بعض کا کہنا ہے کہ خودبخود ا با ل آ جا نے پر ایسا ہو جا تا ہے تو پھر اسی صور ت میں پاک ہو سکتا ہے جب سر کہ بن جائے مسئلہ (۱۱۰) میں بتا یا جا چکا ہے کہ انگو ر کا رس اُبال آ نے پر نجس نہیں ہو تا ۔
(۱۹۷)اگر انگو ر کے رس کا دو تہا ئی بغیر جو ش میں آ ئے کم ہو جا ئے اور جو با قی بچے اس میں جوش آ جا ئے تو اگر لو گ اسے انگو ر کا رس کہیں شیرہ نہ کہیں تو احتیا ط لا زم کی بنا پر وہ حرام ہے ۔
(۱۹۸) اگر انگور کے رس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ جو ش میں آ یاہے یا نہیں تو حلا ل ہے لیکن اگر جو ش میں آ جا ئے اور یہ یقین نہ ہو کہ اس کا دو تہا ئی کم ہوا ہے یا نہیں تو وہ حلا ل نہیں ہو گا ۔
(۱۹۹) اگر کچے انگو ر و ں کے خو شے میں کچھ پکے انگو ر بھی ہو ں اور جو رس اس خو شے سے لیا جائے اسے لو گ انگو ر کارس نہ کہیں اور اس میں جو ش آ جا ئے تو اس کا پینا حلال ہے ۔
(۲۰۰ ) اگر انگور کا ایک دا نہ کسی ایسی چیز میں گر جائے جو آ گ پر جو ش کھا ر ہی ہو اور وہ بھی جوش کھا نے لگے لیکن وہ اس چیز میں حل نہ ہو تو احتیاط وا جب کی بنا پر فقط اس دا نے کا کھا نا حرام ہے ۔
(۲۰۱) اگر چند د یگو ں میں شیرہ پکا یا جا ئے تو جو چمچہ جو ش میں آ ئی ہو ئی د یگ میں ڈا لا جا چکا ہو اس کا ایسی دیگ میں ڈا لنا بھی جا ئز ہے جس میں جو ش نہ آ یا ہو ۔
(۲۰۲ ) جس چیز کے با رے میں یہ معلو م نہ ہو کہ وہ کچے انگو ر ہیں یا پکے اگر اس میں جو ش آ جا ئے تو حلا ل ہے ۔
۶ ۔ انتقا ل
(۲۰۳) اگر انسا ن یا اُچھلنے والا خو ن ر کھنے و الے حیو ان کا خو ن کوئی ایسا حیوان چو س لے جس میں عر فا خو ن نہیں ہو تا وہ خو ن اس حیو ان کے بدن کا جز بن کے قا بل ہو مثلا مچھر انسان یا حیو ان کے بدن کے سے خو ن چو سے تو وہ خو ن پاک ہو جا تا ہے اورا سے انتقا ل کہتے ہیں لیکن علاج کی غر ض سے انسان کا خو ن جو نک چو ستی ہے چو نکہ یہ طے نہیں کہ جو نک بدن کا حصہ بن جا ئے گا لہذا نجس ہی ر ہتا ہے ۔
(۲۰۴) اگر کو ئی شخص اپنے بدن پر بیٹھے ہو ئے مچھر کو ما ر د ے اور وہ خو ن جو مچھر نے چو سا ہو اس کے بدن سے نکلے تو وہ خو ن پاک ہے کیو نکہ وہ خو ن اس قا بل تھا کہ مچھر کی غذ ا بن جائے اگر چہ مچھر نے چو سنے اور ما ر نے جا نے کے در میا ن و قفہ بہت کم ہو لیکن احتیا ط مستحب یہ ہے کہ اس خو ن سے اس حا لت میں پر ہیز کرے ۔
۷۔ اسلا م
(۲۰۵) اگر کو ئی کا فر شہا د تین ( لا الہ الا اللہ محمد ر سو ل اللہ ) پڑ ھ لے یعنی کسی بھی ز بان میں اللہ کی و حدا نیت اور خا تم النبیین حضرت محمد بن عبد اللہ ﷺ کی نبو ت کی گو اہی د ے د ے تو مسلما ن ہو جا تا ہے اور اگرچہ وہ مسلمان ہو نے سے پہلے نجس کے حکم میں تھا لیکن مسلما ن ہونے کہ بعد اس کا بدن تھو ک ناک کا پا نی اور پسینہ پا ک ہو جا تا ہے لیکن مسلمان ہو نے کے وقت اس کے بدن پر عین نجا ست ہو تو اسے دو ر کر نا اور اس مقام کو پا نی سے دھو نا ضر ور ی ہے بلکہ اگر مسلما ن ہو نے سے پہلے ہی عین نجا ست دور ہو چکی ہو تب بھی احتیا ط و ا جب یہ ہے کہ اس مقام کو پا نی سے د ھو ڈا لے ۔
(۲۰۶ ) ایک کا فر کے مسلما ن ہو نے سے پہلے اگر اس کا گیلا لبا س اس کے بدن سے چھو گیا ہو تو اس کے مسلما ن ہو نے کے وقت وہ لبا س اس کے بدن پر ہو یا یا نہ ہو احتیا ط و ا جب کی بنا پر اس سے اجتنا ب کر نا ضر ور ی ہے ۔
( ۲۰۷) اگر کا فر شہا د تین پڑ ھ لے اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ د ل سے مسلمان ہوا یا نہیں تو وہ پاک ہے اور اگر یہ علم ہو کہ وہ دل سے مسلمان ہوا لیکن کو ئی با ت اس سے ظا ہر نہ ہو ئی ہو جو توحید اور رسا لت کی شہا د ت کے منا فی ہو تو صو رت وہی ہے ( یعنی وہ پاک ہے ) ۔
۸ ۔ تبعیت
(۲۰۸) تبعیت کا مطلب یہ ہے کہ کو ئی نجس چیز کسی دو سر ی چیز کے پا ک ہونے کی و جہ سے پاک ہو جا ئے ۔
( ۲۰۹) اگر شراب سر کہ ہو جا ئے تو اس کا برتن بھی اس جگہ سے پا ک ہو جا تا ہے جہا ں تک شرا ب جو ش کھا کر پہنچی ہو اور اگر کپڑا یا کو ئی دو سر ی چیز جو عموماًاس (شرا ب کے بر تن ) پر ر کھی جا تی ہے اور اس سے نجس ہو گی تو وہ بھی پاک ہو جا تی ہے لیکن اگر بر تن کی بیر و نی سطح اس شراب سے آ لو د ہ ہوجا ئے تواحتیا ط و اجب یہ ہے کہ شرا ب کے سر کہ ہو جا نے کے بعد اس سطح سے پر ہیز کیا جا ئے ۔
(۲۱۰) کا فر کا بچہ بذ ر یعہ تبعیت دو صو ر تو ں میں پا ک ہو جا تا ہے ۔
(۱) جو کا فر مر د مسلمان ہو جا ئے اس کا بچہ طہا رت میں اس کا تا بع ہے اور اسی طر ح بچے کی ماں یا دا دی یا دا د ا مسلما ن تب بھی یہی حکم ہے لیکن اس صو رت میں بچے کی طہارت کا حکم اس سے مشر و ط ہے کہ بچہ اس نو مسلم کے سا تھ اوراس کے ز یر کفالت ہو نیز بچے کا کو ئی اور ز یا د ہ قر یبی کا فر رشتہ دار اس بچے کے ہمرا ہ نہ ہو ۔
(۲) ایک کا فر بچے کو کسی مسلمان نے قید کر لیا ہو اور اس بچے کے با پ یا دادا پر دادا میں سے کو ئی ایک بھی اس کے ہمراہ نہ ہو ان دو نو ں صو رتو ں میں بچے کی تبعیت کی بنا پر پاک ہو نے کی شر ط یہ ہے کہ وہ جب با شعور ہو جا ئے تو کفر کا اظہا ر نہ کر ے۔
(۲۱۱) وہ تختہ یا سل جس پر میت کو غسل دیا جا تا ہے اور وہ کپڑا جس سے میت کی شرمگا ہ ڈھانپی جا تی ہے نیز غسا ل کے ہاتھ یہ تمام چیز یں کو میت کے سا تھ د ھل جا تی ہیں غسل مکمل ہو نے کہ بعد پا ک ہو جا تی ہیں ۔
( ۲۱۲)اگر کو ئی شخص کسی چیز کو پا نی سے د ھو ئے تواس چیز کے پاک ہونے پر اس شخص کا وہ ہاتھ بھی پا ک ہو جا تا ہے جو اس چیز کے سا تھ دھل گیا ہے ۔
(۲۱۳)اگر لبا س یا اس جیسی کسی چیز کو قلیل پا نی سے دھو یا جا ئے اور اتنا نچو ڑ دیا جا ئے جتنا عا م طور پر نچو ڑا جا تا ہو تا کہ جس پا نی سے دھو یا گیا ہے اس کو دھو و ن نکل جائے تو جو پا نی اس میں رہ جا ئے وہ پا ک ہے ۔
(۱۲۴) جب نجس بر تن کو قلیل پا نی سے دھو یا جا ئے تووہ جو پا نی بر تن کو پاک کر نے کے لیے اس پر ڈا لا جا ئے اس کے بہہ جا نے کے بعد جو معمو لی پا نی اس میں با قی رہ جا ئے وہ پا ک ہے ۔
۹ ۔ عین نجا ست کا دو ر ہو نا
(۲۱۵)اگر کو ئی حیو ان کا بدن عین نجا ست مثلا خون یا نجس شدہ چیز مثلا نجس پا نی سے آ لو د ہ ہو جا ئے تو جب وہ نجا ست دور ہو جا ئے حیو ا ن کا بدن پا ک ہو جا تا ہے یہی صورت انسا نی بدن کے اندور نی حصو ں کی ہے مثلا منہ یا ناک اور کان کہ وہ با ہر سے نجا ست لگنے سے نجس ہو جائیں گے اور جب نجا ست دور ہو جا ئے تو پاک ہو جا ئیں گے لیکن دا خلی نجاست مثلا دانتوں سے ر یخو ں کے نکلنے سے بد ن کا اندرو نی حصہ نجس نہیں ہوتا اور یہی حکم ہے جب کسی خا ر جی چیز کو بدن کے اند رونی حصے میں نجا ست دا خلی لگ جا ئے تو وہ چیز نجس نہیں ہو تی اس بنا پر اگر مصنو عی دا نتو ں مُنہ کے اندر دوسرے دانتوں کے ریخوں سے نکلے ہوئے خون سے آلودہ ہو جائیں تو ان دانتوں کو دھونا لازم نہیں ہے لیکن ان اگر ان مصنوعی دانتوں کو نجس غذا لگ جا ئے تو ان کو د ھو نا لا ز م ہے ۔
(۲۱۶) اگر دا نتو ں کی ر یخو ں میں غذا لگی رہ جا ئے اور پھر منہ کے اند ر خون نکل آ ئے تو وہ غذا خون ملنے سے نجس نہیں ہو گی۔
(۲۱۷) ہو نٹو ں اور آ نکھ کی پلکو ں کے وہ حصے جو بند کر تے و قت ایک دو سر ے سے مل جاتے ہیں وہ اندرو نی حصے کا حکم ر کھتے ہیں اگر اس اند رو نی حصے میں خا رج سے کوئی نجا ست لگ جائے تواس اند رو نی حصے کو د ھو نا ضر رو ی نہیں ہے لیکن وہ مقا ما ت جن کے با رے میں انسا ن کو علم نہ ہو کہ آ یا انہیں اندرو نی حصے سمجھا جا ئے یا بیر و نی اگرخا ر ج سے نجا ست ان مقامات پر لگ جا ئے تو انہیں دھو نا ضرو ر ی ہے۔
(۲۱۸) اگر نجس مٹی یا د ھو ل کپڑ ے یا خشک قا لین در ی یا ایسی ہی کسی اور چیز کو لگ جا ئے اور کپڑ ے و غیرہ کو یو ں جھا ڑ ا جائے کہ نجس مٹی کی یقینی مقدا ر ا س سے الگ ہو جائے تو وہ لبا س اورفر ش پا ک ما نے جا ئیں گے اور انہیں دھو نا بھی ضروری نہیں ۔
۱۰۔ نجا ست خور حیو ان کا استبرا ء
(۲۱۹) جس حیو ان کو انسا نی نجا ست کھانے کی عا د ت پڑ گئی ہو اس کا پیشا ب اور پا خا نہ نجس ہے اور اگر اسے پا ک کرنا مقصو د ہو تو اس کا استبر اء کر نا ضر وری ہے یعنی ایک عر صے تک اسے نجا ست نہ کھا نے د یں اور پا ک غذا د یں حتی کہ اتنی مد ت گز ر جا ئے کہ پھر اسے نجاست کھانے وا لا نہ کہا جا سکے اور احتیا ط مستحب کی بنا پر نجا ست کھا نے و ا لے اونٹ کو چالیس د ن تک گا ئے کو بیس د ن تک بھیڑ کو دس د ن تک ، مر غا بی کوسا ت د ن تک یا پا نچ دن تک اور پا لتو مر غی کو تین دن تک کھا نے سے با ز ر کھا جا ئے اگر چہ مقر رہ مد ت گز رنے سے بھی پہلے بھی انہیں نجا ست کھا نے والے جانو ر نہ کہا جا رہا ہو ۔
۱۱۔ مسلما ن کا غائب ہو جا نا
(۲۲۰) اگر با لغ یا طہا رت و نجا ست کی سمجھ ر کھنے وا لے مسلما ن کا بد ن یا لبا س یا د وسر ی اشیا ء مثلا بر تن در ی و غیر ہ جواس کے استعما ل میں ہو ں نجس ہو جا ئیں اور پھر و ہا ں سے چلا جا ئے اور پھر انسان کو اس با ت کا عقلی احتما ل ہو کہ اس نے یہ چیز یں د ھو لی ہیں تو وہ پاک ہو ں گی۔
(۲۲۱) اگر کسی شخص کو یقین یا اطمینان ہو کہ جو چیز پہلے نجس تھی اب پاک ہو گئی ہے یا دو عا دل اشخا ص اس کے پا ک ہو نے کی گو ا ہی د یں اور گو اہی میں اس سبب کو بیان کر یں جس سے وہ چیز پاک ہو ئی ہو مثلا یہ گو اہی د یں کہ پیشا ب سے نجس شدہ فلا ں لبا س کو دوبارہ د ھو لیا گیا ہے ہے تو وہ پا ک ہے اسی طر ح اگر وہ شخص جس کے پا س کو ئی نجس چیز ہو کہے کہ وہ چیز پا ک ہو گئی ہے اور وہ غلط بیا ں نہ ہو یا کسی مسلما ن نے ایک نجس چیز کو پا ک کر نے کی غر ض سے د ھو یا ہو تو چا ہئے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے اسے ٹھیک طر ح سے د ھو یا ہے یا نہیں تو وہ چیز بھی پا ک ہے ۔
(۲۲۲ ) اگر کسی شخص نے ایک لبا س د ھو نے کی ذ مہ دا ر ی لی ہو اور کہے کہ میں نے اسے د ھو دیا ہے اور اس شخص کو اس کے یہ کہنے سے تسلی ہو جا ئے تو وہ لبا س پاک ہے ۔
(۲۲۳)اگر کسی طہا ر ت و نجا ست کے معا ملے میں ایک شکی مز اج شخص کی یہ حا لت ہو جا ئے کہ اسے کسی نجس چیز کے پا ک ہو نے کا یقین ہی نہ آ ئے اگر وہ اس چیز کو معمو ل کے مطا بق دھو لے تو کا فی ہے ۔
۱۲۔ ذ بیحہ کے بدن سے خو ن کا نکل جا نا
(۲۲۴) جیسا کہ مسئلہ ۹۴ میں بتا یا گیا ہے کہ کسی جا نو ر کو شر عی طر یقے سے ذ بح کر نے کے بعد اس کے بدن سے معمو ل کے مطا بق ( ضر ور ی مقدا ر ) خو ن نکل جا ئے تو جو خون اس کے بدن کے اند ر با قی رہ جا ئے وہ پا ک ہے ۔
(۲۲۵) مذ کو رہ بالا حکم جس کا بیا ن مسئلہ ۲۲۴ میں بیان ہو ا ہے احتیا ط کی بنا پر اس جا نور سے مخصو ص ہے جس کا گو شت حلال ہو جس جا نو ر کا گو شت حرا م ہو اس پر یہ حکم جا ری نہیں ہو سکتا۔
بر تنو ں کے احکام
( ۲۲۶)جو بر تن کتے یا سور یا مردا ر کے چمڑ ے سے بنا یا جا ئے اس میں کسی چیز کا کھانا پینا جبکہ تر ی اس کی نجا ست کا مو جب بنی ہو حرام ہے اور اس بر تن کو و ضو اور غسل اور دو سرے ایسے کا مو ں میں استعما ل نہیں کرنا چا ہیے جنہیں پا ک چیز سے انجا م د ینا ضرو ر ی ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ کتے سور اور مر دار کے چمڑ ے کو خواہ وہ بر تن کی شکل میں نہ بھی ہو استعمال نہ کیا جا ئے ۔
(۲۲۷) سو نے او ر چا ند ی کے بر تنو ں میں کھا نا پینا بلکہ احتیا ط وا جب کی بنا پر ان کو استعما ل کرنا بھی حرا م ہے لیکن ان سے کمرہ و غیرہ سجا نے یا انہیں ا پنے پا س ر کھنے میں کو ئی حر ج نہیں گو ان کا تر ک کر د ینا احو ط ہے اور سجا و ٹ یا قبضے میں ر کھنے کے لیے سو نے اور چا ند ی بنانے اور ان کی خر ید و فر و خت کر نے کا بھی یہی حکم ہے ۔
(۲۲۸) استکا ن (شیشے کا چھو ٹا گلا س جس میں قہو ہ پیتے ہیں ) کا ہو لڈ ر جو سو نے یا چا ندی کا بنا ہو اگر اسے بر تن کہا جا ئے تو وہ سو نے اور چا ند ی کے بر تن کا حکم ر کھتا ہے اور اگر اسے بر تن نہ کہا جا ئے تو اس کے استعما ل میں کو ئی حر ج نہیں ۔
(۲۲۹) ایسے بر تنو ں کے استعما ل میں کو ئی حر ج نہیں جن پر سونے یا چاندی کا پا نی چڑ ھا یا گیا ہو ۔
(۲۳۰) اگر کسی د ھا ت کو چا ند ی یا سو نے میں مخلو ط کر کے بر تن بنا ئے جا ئیں اور وہ د ھا ت اتنی ز یا د ہ مقد ار میں ہو کہ اس بر تن کو سو نے یا چا ند ی کا بر تن نہ کہا جا ئے تو اس کے استعمال میں کو ئی حر ج نہیں ۔
(۲۳۱) اگر غذا سو نے یا چا ند ی کے بر تن میں ر کھی ہو اور کو ئی شخص اسے دو سر ے بر تن میں انڈیل لے تو اگر دو سر ا بر تن عام طور پر پہلے بر تن میں کھا نے کا شما ر نہ ہو تو ایسا کر نے میں کو ئی حر ج نہیں ہے ۔
(۲۳۲)حقے کے سو را خ کے چلم والا ڈھکنا ، تلو ار چھری یا چا قو کا میان اور قرآ ن مجید ر کھنے کا ڈ بہ اگر سو نے چا ند ی سے بنے ہو ں تو کو ئی حر ج نہیں تا ہم احتیا ط مستحب یہ ہے کہ سو نے چا ند ی کی بنی ہو ئی عطر دا نی سر مہ دا نی اورافیم دا نی استعما ل نہ کی جا ئیں ۔
(۲۳۳)مجبو ری کی حا لت میں سو نے اور چا ند ی کے بر تنوں میں اتنا کھا نے پینے میں کو ئی حرج نہیں جس سے مجبو ر ی ختم ہو جا ئے لیکن اس سے ز یا د ہ کھا نا پینا جا ئز نہیں ۔
(۲۳۴)ایسا بر تن استعمال کر نے میں کو ئی حرج نہیں جس کے با ر ے میں معلو م نہ ہو کہ یہ سونے یا چا ند ی کا ہے یا کسی اور چیز سے بنا ہو ا ہے ۔
و ضو
(۲۳۵) و ضو میں وا جب ہے کہ چہر ہ اور دو نو ں ہا تھ دھو ئے جا ئیں اور سر کے اگلے حصے اور دو نو ں پاؤں کے سا منے والے حصے کا مسح کیا جا ئے ۔
(۲۳۶) چہر ے کو لمبا ئی میں پیشا نی کہ او پر اس جگہ سے لے کر جہا ں سر کے بال اگتے ہیں ٹھوڑ ی کے آ خر ی کنا ر ے تک دھو نا ضر ور ی ہے اور چو ڑا ئی میں بیچ کی ا نگلی اور انگو ٹھے کے پھیلا وٴ میں جتنی جگہ آ جائے اسے دھو نا ضر ور ی ہے اگر اس مقدا ر کا زرا سا حصہ بھی چھو ٹ جائے تو وضو با طل ہے اور اگر انسا ن کو یقین نہ ہو کہ ضر ور ی حصہ پو را دھل گیا ہے تویقین کرنے کے لیے تھو ڑا تھو ڑا ادھر ادھر سے بھی دھونا بھی ضر ور ی ہے ۔
(۲۳۷) اگر کسی شخص کے ہا تھ یا چہر ہ عا م لو گو ں کی بہ نسبت بڑ ے یا چھو ٹے ہو ں تواسے دیکھنا چا ہیے کہ عام لو گ کہا ں تک اپنا چہر ہ د ھو تے ہیں اور پھر وہ بھی اتنا ہی د ھو ڈا لے علاو ہ ازیں اس کی پیشا نی پر با ل و غیر ہ اُگے ہو ں یا سر کہ اگلے حصے پر بال نہ ہو ں تو بھی ضر ور ی ہے کہ عا م اندا ز ے کے مطا بق پیشا نی دھو ڈ ا لے ۔
(۲۳۸)اگر اس با ت کا احتما ل ہو کہ کسی شخص کی بھو و ں آ نکھ کے گو شو ں اور ہو نٹوں پر میل یا کوئی دو سر ی چیز ہے جو پا نی کہ ان تک پہنچنے تک رو کا و ٹ ہے اور اس کا یہ احتما ل لو گو ں کی نظرو ں میں در ست ہو تو ضر و ر ی ہے کہ و ضو سے پہلے تحقیق کر لے اور اگر کو ئی ایسی چیز ہو تو اسے دور کر لے ۔
(۲۳۹) اگر چہر ے کی جلد با لو ں کے نیچے سے نظر آ تی ہو تو با لو ں کا د ھو نا کا فی ہے اور ان کے نیچے تک پا نی پہنچا نا ضرور ی نہیں ۔
(۲۴۰) اگر کسی شخص کو ہو کہ آ یا اس کے چہر ے کی جلد با لو ں کے نیچے سے نظر آ تی ہے یا نہیں تو احتیا ط و ا جب کی بنا پر ضرو ر ی ہے کہ با لو ں کو د ھو ئے اور پا نی جلد تک پہنچا ئے ۔
(۲۴۱) نا ک کے اندرو نی حصے اور ہو نٹو ں اور آ نکھو ں کے ان حصو ں کو جو بند کر نے پر نظر نہیں آ تے دھو نا و ا جب نہیں ہے لیکن اگر کسی انسا ن کو یقین نہ ہو کہ جن جگہو ں کا دھو نا ضر ور ی ہے ان میں کو ئی جگہ با قی نہیں ر ہی تو و اجب ہے کہ ان اعضا کا کچھ حصہ بھی د ھو ے تا کہ اسے یقین ہو جا ئے او ر جس شخص کو اس با ت کا علم نہ تھا اگر اس نے جو و ضو کیا ہے اس میں ضرور ی حصے د ھو نے یا نہ د ھو نے کہ با ر ے میں نہ جا نتا ہو تواس وضو سے اس نے جو نما ز پڑھی صحیح ہے اور بعد کی نماز و ں کے لیے و ضو کر نا ضرو ر ی نہیں ہے ۔
(۲۴۲) احتیا ط لا ز م کی بنا پر ضر ور ی ہے کہ ہا تھو ں اور اسی طر ح چہر ے کو او پر سے نیچے کی طرف دھو یا جا ئے اگر نیچے سے اوپر کی طر ف د ھو یا جائے تو و ضو با طل ہو گا ۔
( ۲۴۳)اگر ہتھیلی تر کر کے چہر ے اور ہا تھو ں پر پھیر ی جا ئے اور ہا تھ میں اتنی تر ی ہو کہ اسے پھیر نے سے پو ر ے چہرے اور ہا تھوں پرپا نی پہنچ جا ئے تو کا فی ہے ان پر کا بہنا ضروری نہیں ۔
(۲۴۴)چہر ہ د ھو نے کے بعد پہلے دا یا ں ہا تھ اور پھر با یا ں ہا تھ کہنی سے انگلیو ں سے سر و ں تک د ھو نا ضرو ر ی ہے ۔
(۲۴۵)اگر انسا ن کو یقین نہ ہو کہ کہنی کو پو ری طر ح دھو لیا ہے تو یقین حا صل کر نے کے لیے کہنی سے او پر کا حصہ کچھ حصہ د ھو نا بھی ضرور ی ہے ۔
(۲۶۲) جس شخص نے چہر ہ د ھو نے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو کلا ئی کے جو ڑ تک دھو یا ہو ضروری ہے کہ و ضو کر تے وقت انگلیو ں کے سر و ں تک د ھو ئے اگر وہ صر ف کلا ئی کہ جو ڑ و ں تک د ھو ئے گاتو اس کا و ضو با طل ہو گا۔
(۲۴۷) و ضو میں چہر ہ اور ہا تھو ں کا ایک دفعہ د ھو نا دو سر ی دفعہ دھو نا مستحب اور تیسر ی د فعہ یا اس سے ز یا د ہ با ر د ھو نا حرام ہے ایک د فعہ اس و قت مکمل ہو گا جب و ضو کی نیت سے اتنا پا نی چہرے یا ہا تھ پر ڈا لے کہ وہ پا نی پو رے چہر ے یا ہاتھ پر پہنچ جا ئے اوراحتیا ط کے لیے کو ئی گنجا ئش با قی نہ رہے لہذا اگر پہلی دفعہ د ھو نے کی نیت سے دس با ر بھی چہر ے پر پا نی ڈا لے تا کہ پا نی تمام مقاما ت تک پہنچ جائے تو کو ئی حر ج نہیں ہے اور جب و ضو کر نے یا چہر ہ دھونے کی نیت نہ کر لے پہلی با ر د ھو نا شما ر نہیں ہو گا لہذا اگر چا ہے تو چند با چہرہ د ھو لے اور آخری با ر چہر ہ د ھو تے و قت و ضو کی نیت کر لے لیکن دو سری با ر دھو نے کی نیت کا معتبر ہو نا اشکا ل سے خالی نہیں ہے اور احتیا ط لا ز م یہ ہے کہ ایک مر تبہ چہر ہ یا ہا تھو ں کو د ھو لینے کہ بعد دوسر ی با ر د ھو نے کے لیے ایک با ر سے ز یا د ہ نہ دھو ئے اگر چہ و ضو کی نیت سے نہ بھی ہو ۔
(۲۴۸) دو نو ں ہا تھ د ھو نے کے بعد سر اگلے حصے کا مسح و ضو کے پا نی کی تر ی سے کر نا چا ہئے جو ہا تھو ں کو لگی رہ گئی ہو او ر احتیا ط مستحب یہ ہے کہ مسح دائیں ہا تھ سے کیا جا ئے اور او پر سے نیچے کی طرف ہو ۔
(۲۴۹) سر کے چا ر حصو ں میں پیشا نی سے ملا ہو ایک حصہ او ر مقام ہے جہا ں مسح کر نا چاہیےء اس حصے میں جہا ں بھی اور جس اندا ز ے سے بھی مسح کر یں کا فی ہے اگر چہ احتیا ط مستحب یہ ہے کہ لمبا ئی میں ایک انگلی کی لمبا ئی کے لگ بھگ اور چو ڑا ئی میں تین ملی ہو ئی انگلیوں کے لگ بھگ جگہ پر مسح کیا جا ئے ۔
(۲۵۰) یہ ضرو ر ی نہیں کہ سر کا مسح جلد پر کیا جا ئے بلکہ سر کے اگلے حصے کے با لو ں پر کر نا بھی در ست ہے لیکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے لمبے ہو ں کہ مثلا اگر کنگھا کر یں تو سر پر آ گر یں یا سر کے کسی دو سر ے حصے تک جا پہنچیں تو ضر ور ی ہے کہ وہ با لو ں کی جڑ و ں پر مسح کر ے اور اگر وہ چہر ے پر آ گر نے وا لے یا دو سر ے حصو ں کے با لو ں کو سر کے اگلے حصے میں جمع کر کے ان پر مسح کر ے توایسا مسح با طل ہے ۔
(۲۵۱) سر کے مسح کے بعد و ضو کے پا نی کی اس تر ی سے جو ہا تھو ں میں با قی ہو پاؤں کی کسی انگلی سے لے کر پاؤں کے جو ڑ تک مسح کرناضرو ر ی ہے اور احتیا ط مستحب یہ ہے کہ دائیں پیر کا د ائیں ہا تھ سے اور با ئیں پیر کا با ئیں ہا تھ سے مسح کیا جا ئے ۔
(۲۵۲) پاؤں پر مسح چو ڑا ئی میں جتنا بھی ہو کا فی ہے لیکن بہتر ہے کہ تین ملی ہو ئی انگلیو ں کی چو ڑا ئی کے برا بر ہو او ر اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ پاو ں کے پو رے او پر ی حصے کا مسح پو ر ی ہتھیلی سے کیا جا ئے ۔
( ۲۵۳) ضرو ر ی نہیں ہے کہ پاؤں کا مسح کر تے وقت ہا تھ انگلیو ں کے سر و ں پر ر کھے اور پھر پاؤں کے او پر کھینچے بلکہ یہ بھی کیاجا سکتا ہے کہ پو را ہا تھ پاؤں پر ر کھے اور تھو ڑا سا کھینچے۔
(۲۵۴) سر اور پاؤں کا مسح کر تے و قت ہا تھ ان پر کھینچاضرو ر ی ہے اور اگر ہا تھ کو سا کن رکھے اور سر یاپاؤں کو اس پر چلا ئے تو با طل ہے لیکن ہا تھ کھینچنے کے و قت سر اور پاؤں معمولی حر کت کر یں تو کو ئی حر ج نہیں ۔
(۲۵۵) جس جگہ کا مسح کر نا ہو ضر ور ی ہے کہ وہ خشک ہو اگر وہ اس قد ر تر ہو کہ ہتھیلی کی تر ی اس پر اثر نہ کر ے تو مسح با طل ہے لیکن اس پر نمی ہو یا تر ی اتنی کم ہو کہ وہ ہتھیلی کی تر ی سے ختم ہو جا ئے تو پھر کو ئی حر ج نہیں ۔
( ۲۵۶)اگر مسح کر نے کے لیے ہتھیلی پر تر ی با قی نہ ر ہی ہو تو اسے دو سر ے پا نی سے تر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ایسی صو رت میں ضرو ر ی ہے کہ اپنی دا ڑ ھی کی تر ی لے کر اس سے مسح کر لے داڑھی کے علا وہ اور کسی جگہ سے تر ی کے کر مسح کرنا محل اشکا ل ہے ۔
(۲۵۷) اگر ہتھیلی کی تر ی صر ف سر کے مسح کے لیے ہتھیلی کی تر ی صر ف سر کے مسح کے لیے کافی ہو تو احتیا ط و اجب ہے کہ سر کا مسح اس تر ی سے کر ے اور پاؤں کے مسح کے لیے اپنی داڑھی سے تری حا صل کرے ۔
(۲۵۸) مو ز ے اور جو تے پر مسح کرنا با طل ہے ہا ں اگر سخت سر دی کی وجہ سے چو ر یا درندے و غیرہ کے خو ف سے جوتے یا مو ز ے نہ اتا ر ے جا سکیں تو احتیاط و ا جب یہ ہے کہ موز ے اور جو تے پر مسح کرے اور تیمم بھی کرے تقیہ کی صو رت میں مو ز ے اور جو تے پر مسح کرنا کافی ہے۔
(۲۵۹) اگر پاؤں کے او پر و الا حصہ نجس ہو اور مسح کر نے کے لیے اسے د ھو یا بھی نہ جا سکتا ہو تو تیمم کر نا ضرور ی ہے ۔
ارتماسی وضو
(۲۶۰)ارتماسی وضو یہ ہے کہ انسان چہرے اور ہاتھوں کو وضو کی نیت سے پانی میں ڈبودے۔ بظاہر ارتماسی طریقے سے دھلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ ایسا کرنا خلافِ احتیاط ہے۔
(۲۶۱) ارتماسی وضو میں بھی چہرہ اور ہاتھ اوپر سے نیچے کی طرف دھونے چاہئیں۔ لہٰذا جب کوئی شخص وضو کی نیت سے چہرہ اور ہاتھ پانی میں ڈبوئے تو ضروری ہے کہ چہرہ پیشانی کی طرف سے اور ہاتھ کہنیوں کی طرف سے ڈبوئے۔
(۲۶۲)اگر کوئی شخص بعض اعضاء کا وضو ارتماسی طریقے سے اور بعض کا غیر ارتماسی طریقے سے کرے تو کوئی حرج نہیں۔
وضو کی مستحب دعائیں
(۲۶۳)جو شخص وضو کرنے لگے اس کے لیے مستحب ہے کہ جب اس کی نظر پانی پر پڑے تو یہ دعا پڑے:
بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ الْمَآءَ طَھُوْرًا وَّ لَمْ یَجْعَلْہ نَجَسًا
جب وضو سے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے تو یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ
کلی کرتے وقت یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ لَقِّنِّیْ حُجَّتِیْ یَوْمَ اَلْقَاکَ وَاَطْلِقْ لِسَانِیْ بِذِکْرِکَ
ناک میں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ لَاتُحَرِّمْ عَلَیَّ رِیْحَ الْجَنَّةِ وَاجْعَلْنِیْ مِمَّنْ یَّشُمُّ رِیْحَھَا وَرَوْحَھَا وَطِیْبَھَا
چہرہ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ بَیِّضْ وَجْھِیْ یَوْمَ تَسْوَدُّ الْوُجُوْہُ وَلَا تُسَوِّدْ وَجْھِیْ یَوْمَ تَبْیَضُّ الْوُجُوْہُ
دایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ کِتَابِیْ بِیَمِیْنِیْ وَالْخُلْدَ فِی الْجِنَانِ بِیَسَارِیْ وَحَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا
بایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ لَاتُعْطِنْی کِتَابِیْ بِشِمَالِیْ وَلَا مِنْ وَّرَآءِ ظَھْرِیْ وَلَا تَجْعَلْھَا مَغْلُوْلَةً اِلٰی عُنُقِیْ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ مُّقطَّعَاتِ النِّیْرَانِ
سر کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ غَثِّنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَبَرَکَاتِکَ وَعَفْوِکَ
پاؤں کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ تَبِّتْنِیْ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِیْہِ الْاَقْدَامُ وَاجْعَلْ سَعْیِیْ فِیْ مَایُرْضِیْکَ عَنِّیْ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ
وضو صحیح ہونے کی شرائط
وضو صحیح ہونے کی چند شرائط ہیں:
۱) وضو کا پانی پاک ہو
۔ ایک قول کی بنا پر وضو کا پانی ایسی چیزوں مثلاً حلال گوشت حیوان کے پیشاب، پاک مَردار اور زخم کی ریم سے آلودہ نہ ہو جن سے انسان کو گِھن آتی ہو، اگرچہ شرعی لحاظ سے ایسا پانی پاک ہے اور یہ قول احتیاط کی بنا پر ہے۔
۲) پانی مطلق ہو۔
(۲۶۴) نجس یا مضاف پانی سے وضو کرنا باطل ہے خواہ وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے میں علم نہ رکھتا ہو یا بھول گیا ہو۔ لہٰذا اگر وہ ایسے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھ چکا ہو تو صحیح وضو کر کے دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔
(۲۶۵) اگر ایک شخص کے پاس مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ اور کوئی پانی وضو کے لیے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا کسی طریقے سے اس پانی کو صاف کرے اور وضوکرے۔ ہاں ! مٹی ملا ہوا پانی اسی وقت مضاف بنتا ہے جب اسے پانی نہ کہا جا سکے۔
۳) وضو کا پانی مباح ہو۔
(۲۶۶) ایسے پانی سے وضو کرنا جو غصب کیا گیا ہو یا جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ اس کا مالک اس کے استعمال پر راضی ہے یا نہیں حرام اور باطل ہے۔ علاوہ ازیں اگر چہرے اور ہاتھوں سے وضو کا پانی غصب کی ہوئی جگہ پر گرتا ہو یا وہ فضا جس میں وضو کرنے کے لیے کوئی اور جگہ بھی نہ ہو تو اس شخص کا فریضہ تیمم ہے اور اگر کسی دوسری جگہ وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دوسری جگہ وضو کرے۔ لیکن اگر دونوں صورتوں میں گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے اسی جگہ وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
(۲۶۷)کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ آیا وہ تمام لوگوں کے لیے کیا گیا ہے یاصرف مدرسے کے طلباء کے لیے وقت ہے اور صورت یہ ہو کہ لوگ عموماً اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔
(۲۶۸)اگر کوئی شخص ایک مسجد میں نماز پڑھنا نہ چاہتا اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تمام لوگوں کے لیے وقف ہے یا صرف ان لوگوں کے لیے جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو اس کے لیے اس حوض سے وضو کرنا درست نہیں لیکن اگر عموماً وہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد میں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو تو وہ شخص بھی اس حوض سے وضو کر سکتا ہے۔
(۲۶۹)سرائے، مسافر خانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کا جوان میں مقیم نہ ہوں، وضو کرنا اسی صورت میں درست ہے جب عموماً ایسے لوگ بھی جو وہاں مقیم نہ ہوں اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔
(۲۷۰)ان نہروں سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جن پر عقلاء کا طریقہ یہ ہے کہ تصرف کیا کرتے ہیں، چاہے نہریں بڑی ہوں یا چھوٹی اور چاہے انسان کو مالک کی رضایت کا علم بھی نہ ہو بلکہ اگر مالک وضو کرنے سے روکے یا انسان جانتا ہو کہ مالک راضی نہیں یامالک نابالغ بچہ یا پاگل ہو، پھر بھی ان نہروں میں تصرف جائز ہے۔
(۲۷۱)اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے خود پانی غصب کیا ہو اور بعد میں بھول جائے کہ یہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
(۲۷۲)اگر وضو کا پانی تو اس کا اپنا ہو لیکن غصبی برتن میں ہو اور اس شخص کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن میں انڈیل سکتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے پانی کسی دوسرے برتن میں انڈیل لے اور پھر اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو تو ضروری ہے کہ اس سے وضو کرے اور اگر ان دونوں صورتوں میں وہ صحیح طریقے پرعمل نہ کرتے ہوئے اس پانی سے جو غصبی برتن میں ہے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
(۲۷۳)اگر کسی حوض میں مثال کے طور پر غصب کی ہوئی ایک اینٹ یا ایک پتھر لگا ہو اور عرفِ عام میں اس حوض میں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو (پانی لینے میں) کوئی حرج نہیں لیکن اگر تصرف سمجھا جائے تو پانی کا نکالنا حرام لیکن اس سے وضو کرنا صحیح ہے۔
(۲۷۴)اگر آئمہ طاہرین ٪ یا ان کی اولاد کے مقبرے کے صحن میں جو پہلے قبرستان تھا کوئی حوض یا نہر کھودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمین قبرستان کے لیے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
۴)وضو کے اعضا دھوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں۔ چاہے انہیں وضو کے دوران ہی دھونے یا مسح کرنے سے پہلے پاک کر لے جبکہ اگر کریا اس جیسے پانی سے دھو رہا ہو تو دھونے سے پہلے پاک کرنا بھی ضروری نہیں۔
(۲۷۵)اگر وضو مکمل ہونے سے پہلے وہ مقام نجس ہو جائے جسے دھویا جا چکا ہے یا جس کا مسح کیا جا چکا ہے تو وضو صحیح ہے۔
(۲۷۶)اگر اعضائے وضو کے سوا بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو وضو صحیح ہے لیکن اگر پاخانے یا پیشاب کے مقام کو پاک نہ کیا ہو تو پھر احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے انہیں پاک کرے اور پھر وضو کرے۔
(۲۷۷)اگر وضو کے اعضاء میں سے کوئی نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد شک گزرے کہ آیا وضو کرنے سے پہلے اس عضو کو دھویا تھا یا نہیں تو وضو صحیح ہے لیکن اس نجس مقام کو دھو لینا ضروری ہے۔
(۲۷۸)اگر کسی کے چہرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس سے خون نہ رکتا ہو اور پانی اس کے لیے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کو صحیح سالم اجزاء کو ترتیب واردھونے کے بعد زخم یا خراش والے حصے کو برابر پانی یا جاری پانی میں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون بند ہو جائے اور پانی کے اندر ہی اپنی انگلی زخم یا خراش پر رکھ کر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے تاکہ اس (خراش یا زخم) پر پانی جاری ہو جائے اور پھر اس سے نچلے حصوں کو دھو لے۔ اس طرح اس کا وضو صحیح ہو جائے گا۔
۵) وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لیے وقت کافی ہو۔
(۲۷۹)اگر وقت اتنا کم ہو کہ وضو کرے تو ساری کی ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر تیمم اور وضو کے لیے تقریباً یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرے۔
(۲۸۰)جس شخص کے لیے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تیمم کرنا ضروری ہو اگر وہ قصد قربت کی نیت سے یا کسی مستحب کام مثلاً قرآن مجید پڑھنے کے لیے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے اور اگر اسی نماز کو پڑھنے کے لیے وضو کرے تو بھی یہی حکم ہے سوائے اس کے کہ اسے قصد قربت حاص نہ ہو سکے۔
۶) وضو بقصد قربت سے کرے اور اس کے لیے اتنا کافی ہے کہ حکم الہٰی کی بجا آوری کے قصد سے کیا جائے۔ اگر اپنے آپ کو ٹھنڈک پہنچانے یا کسی اور نیت سے کیا جائے تو وضو باطل ہے۔
(۲۸۱)وضو کی نیت زبان سے یا دل میں کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر ایک شخص وضو کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے بجا لائے تو کافی ہے۔
۷) وضو اس ترتیب سے کیا جائے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے یعنی پہلے چہرہ اور اس کے بعد دایاں اور پھر بایں ہاتھ دھویا جائے اس کے بعد سرکا اور پھر پاؤں کا مسح کیا جائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں پاؤں کا ایک ساتھ مسح نہ کیا جائے بلکہ بائیں پاؤں کا مسح دائیں پاؤں کے بعد کیا جائے۔
۸)وضو کے افعال پے در پے انجام دے۔
(۲۸۲)اگر وضو کے افعال کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عرف عام میں پے در پے دھونا نہ کہلائے تو وضو باطل ہے لیکن اگر کسی شخص کو کوئی عذر پیش آ جائے مثلاً یہ کہ بھول جائے یا پانی ختم ہو جائے تو اس صورت میں بلا فاصلہ دھونے کی شرط معتبر نہیں ہے بلکہ وضو کرنے والا شخص جس وقت کسی عضو کو دھونا یا اس کا مسح کرنا چاہے اور اس وقت تک ان تمام مقامات کی تری خشک ہو چکی ہو جنہیں وہ پہلے دھو چکا ہے یا جن کا مسح کر چکا ہے تو وضو باطل ہو گا۔ اگر جس عضو کو دھونا ہے یا مسح کرنا ہے صرف اس سے پہلے دھوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہو مثلاً بایاں ہاتھ دھوتے وقت دائیں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو لیکن چہرہ تر ہو تو وضو صحیح ہے۔
(۲۸۳)اگر کوئی شخص وضو کے افعال بلافاصلہ انجام دے لیکن گرم ہوا یا بدن کی زیادہ حرارت یا کسی اور ایسی ہی وجہ سے پہلی جگہوں کی تری خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
(۲۸۴)وضو کے دوران چلنے پھرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دھونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر اور پاؤں کا مسح کرے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
۹) انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے اور پھر سر کا اور پاؤں کا مسح کرے۔ اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چہرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاؤں کا مسح کرنے میں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے۔
(۲۸۵)جو شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے، اگرچہ دھونا اور مسح کرنا دونوں کی مشارکت سے ہو اور اگر وہ شخص اجرت مانگے تو اگر اس کی ادائیگی کر سکتا ہو اور ایسا کرنا اس کے لیے مالی طور پر نقصان دہ نہ ہو تو اجرت ادا کرنا ضروری ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ وضو کی نیت خود کرے اور مسح بھی اپنے ہاتھ سے کرے اور اگر خود دوسرے کے ساتھ شرکت نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے جو اسے وضو کروائے اور اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں وضو کی نیت کریں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا نائب اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی مسح کی جگہوں پر پھیرے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نائب اس کے ہاتھ سے تری حاصل کرے اور اس کے سر اورپاؤں پر مسح کرے۔
(۲۸۶)وضو کے جو افعال بھی انسان بذاتِ خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ انہیں انجام دینے کے لیے دوسروں کی مدد نہ لے۔
۱۰) وضو کرنے والے کے لیے پانی کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
(۲۸۷)جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بیمار ہو جائے گا یا اس پانی سے وضو کرے گا تو پیاسا رہ جائے گا اس کا فریضہ وضو نہیں ہے اور اگر اسے علم نہ ہو کہ پانی اس کے لیے مضر ہے اور وہ وضو کر لے جبکہ وضو کرنا اس کے لیے واقعتا نقصان دہ تھا تو اس کا وضو باطل ہے۔
(۲۸۸)اگر چہرے اور ہاتھوں کے اتنے کم پانی سے دھونا جس سے وضو صحیح ہو جاتا ہو ضرررساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرے۔
۱۱) وضو کے اعضاء تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
(۲۸۹)اگر کسی شخص کو معلو م ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء پر کوئی چیز لگی ہوئی لیکن اس بارے میں اسے شک ہو کہ آیا وہ چیز پانی کے ان اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چیز کو ہٹا دے یا پانی اس کے نیچے تک پہنچائے۔
(۲۹۰)اگر ناخن کے نیچے میل ہو تو وضو درست ہے لیکن اگر ناخن کاٹا جائے اور اس میل کی وجہ سے پانی کھال تک نہ پہنچے تو وضو کے لیے اس میل کا دور کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازاں اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھ جائین تو جتنا حصہ معمول سے زیادہ بڑھا ہوا ہو اس کے نیچے سے میل نکالنا ضروری ہے۔
(۲۹۱)اگر کسی شخص کے چہرے، ہاتھوں، سر کے اگلے حصے یا پاؤں کے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے آبلہ پڑ جائے تو اسے دھو لینا اور اس پر مسح کر لینا کافی ہے اور اس میں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نیچے پہنچانا ضروری نہیں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکھڑ جائے تب بھی یہ ضروری نہیں کہ جو حصہ نہیں اکھڑا اس کے نیچے تک پانی پہنچایا جائے لیکن جب اکھڑی ہوئی جلد کبھی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبھی اوپر اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ یا تو اسے کاٹ دے یا اس کے نیچے پانی پہنچائے۔
(۲۹۲)اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چیز چپکی ہوئی ہے یا نہیں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر میں بھی درست ہو مثلاً گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ تحقیق کر لے یا ہاتھ کو اتنا ملے کہ اطمینان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا لگا رہ گیا تھا تو دور ہو گیا ہے یا پانی اس کے نیچے پہنچ گیا ہے۔
(۲۹۳)جس جگہ کو دھونا ہو یا جس کا مسح کرنا ہو اگر اس پر میل ہو لیکن وہ میل پانی کے ساتھ جلد تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر پلستر وغیرہ کا کام کرنے کے بعد سفیدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے نہ روکے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر شک ہو کہ ان چیزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو انہیں دور کرنا ضروری ہے۔
(۲۹۴)اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پہلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چیز موجود ہے جو ان تک پانی پہنچنے میں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرنے کہ وضو کرنے وقت پانی ان اعضاء تک پہنچایا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔
(۲۹۵)اگر وضو کے بعض اعضاء میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نیچے پانی کبھی تو خود بخود چلا جاتا ہو اور کبھی نہ پہنچتا ہو اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نیچے پہنچا ہے یا نہیں جبکہ وہ جانتا ہو کہ کے وقت وہ اس رکاوٹ کے نیچے پانی پہنچنے کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔
(۲۹۶)اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد وضو کے اعضاء پر کوئی ایسی چیز دیکھے جو پانی کے بدن تک پہنچنے میں مانع ہو اور اسے یہ معلوم ہو کہ وضو کے وقت یہ چیز موجود تھی یا بعد میں پیدا ہوئی تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت وہ اس رکاوٹ کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔
(۲۹۷)اگر کسی شخص کو وضو کے بعد شک ہو کہ جو چیز پانی کے پہنچنے میں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔
وضو کے احکام
(۲۹۸)اگر کوئی شخص وضو کے افعال اور شرائط مثلاً پانی کے پاک ہونے یا غصبی نہ ہونے کے بارے میں بہت زیادہ شک کرتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
(۲۹۹)اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہیں تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا وضو باقی ہے لیکن اگر اس نے پیشاب کرنے کے بعد استبراء کیے بغیر وضو کر لیا ہو اور وضو کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ پیشاب ہے یاکوئی اور چیز تو اس کا وضو باطل ہے۔
(۳۰۰)اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس نے وضو کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ وضو کرے۔
(۳۰۱)جس شخص کو معلوم ہو کہ اس نے وضو کیا ہے اور اس سے حدث بھی واقع ہوگیاہے مقعد اس نے پیشاب کیا ہے اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کونسی بات پہلے واقع ہوئی ہے، اگر یہ صورت نماز سے پہلے پیش آئے تو وضو کرنا ضروری ہے اور اگر نماز کے دوران پیش آئے تو نماز توڑ کر وضو کرنا ضروری ہے اور اگر نماز کے بعد پیش آئے تو جو نماز وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے۔ البتہ دوسری نمازوں کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہے۔
(۳۰۲)اگر کسی شخص کو وضو کے بعد یا وضو کے دوران یقین ہو جائے کہ اس نے بعض جگہیں نہیں دھوئیں یا ان کا مسح نہیں کیا اور جن اعضاء کو پہلے دھویا ہو یا ان کا مسح کیا ہو ان کی تری زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے خشک ہو چکی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے لیکن اگر وہ تری خشک نہ ہوئی ہو یا ہوا کی گرمی یا کسی اور ایسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ جن جگہوں کے بارے میں بھول گیا ہو انہیں اور ان کے بعد آنے والی جگہوں کو دھوئے یا ان کا مسح کرے اور اگر وضو کے دوران کسی عضو کے دھونے یا مسح کرنے کے بارے میں شک کرے تو اسی حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔
(۳۰۳)اگر کسی شخص کو نما پڑھنے کے بعد شک ہو کہ اس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن ضروری ہے کہ آئندہ نمازوں کے لیے وضو کرے۔
(۳۰۴)اگر کسی شخص کو نماز کے دوران شک ہو کہ آیا اس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ وہ وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔
(۳۰۵)اگر کسی شخص کو نماز کے بعد پتا چلے کہ اس کا وضو باطل ہو گیا تھا لیکن شک ہو کہ اس کا وضو نماز سے پہلے باطل ہوا تھا یا بعد میں تو جو نماز پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے۔
(۳۰۶)اگر کوئی شخص ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ اسے پیشاب کے قطرے گرتے رہتے ہوں یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو اگر اسے یقین ہو کہ نماز کے اوّل وقت سے لے کر آخر وقت تک اسے اتنا وقفہ مل جائے گا کہ وضو کر کے نماز پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ اس وقفے کے دوران نماز پڑھ لے اور اگر اسے صرف اتنی مہلت ملے جو نماز کے واجبات ادا کرنے کے لیے کافی ہو تو اس دوران صرف نماز کے واجبات انجام دے اور ضروری ہے کہ مستحب افعال مثلاً اذان، اقامت اور قنوت کو ترک کر دے۔
(۳۰۷) اگر کسی شخص کو (بیماری کی وجہ سے) وضو کر کے نماز کا کچھ حصّہ پڑھنے کی مہلت ملتی ہو اور نماز کے دوران ایک دفعہ یہ چند دفعہ اس کا پیشاب یا پاخانہ خارج ہوتا ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اس مہلت کے دوران وضو کر کے نماز پڑھے لیکن نماز کے دوران لازم نہیں ہے کہ پیشاب یا پاخانہ خارج ہونے کی وجہ سے دوبارہ وضو کرے۔
(۳۰۸)اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار یوں آتا ہو کہ اسے وضو کر کے نماز کا کچھ حصہ پڑھنے کی بھی مہلت نہ ملتی ہو تو اس کا ایک وضو چند نمازوں کے لیے بھی کافی ہے۔ ماسوا اس کے کہ کوئی اور ایسی چیز پیش آ جائے جس سے وضو باطل ہو جاتا ہے۔ مثلاً سو جائے یا اس کا پیشاب و پاخانہ طبعی انداز سے معمول کے مطابق خارج ہو۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ ہر نماز کے لیے ایک بار وضو کرے لیکن قضا سجدے، قضا تشہد اور نماز احتیاط کے لیے دوسرا وضو ضروری نہیں ہے۔
(۳۰۹)اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وضو کے بعد فوراً نماز پڑھے اگرچہ بہتر ہے کہ نماز پڑھنے میں جلدی کرے۔
(۳۱۰)اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو تو وضو کرنے کے بعد اگر وہ نماز کی حالت میں نہ ہو تب بھی اس کے لیے قرآن مجید کے الفاظ کو مس کرنا جائز ہے۔
(۳۱۱)جس شخص کو قطرہ قطرہ پیشاب آتا رہتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ نماز کے لیے ایک ایسی تھیلی استعمال کرے جس میں روئی یا کوئی اور چیز رکھی ہو جو پیشاب کو دوسری جگہوں تک پہنچنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ ہر نماز سے پہلے نجس شدہ مقام پیشاب کو دھو لے۔ علاوہ ازیں جو شخص پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو نماز پڑھنے تک پاخانے کو دوسری جگہوں تک پھیلنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر باعث زحمت نہ ہو تو ہر نماز کے لیے مقعد کو دھوئے۔
(۳۱۲)جو شخص پیشاب یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو جہاں تک ممکن ہو نماز میں پیشاب یا پاخانہ روکے اور بہتر یہ ہے کہ اگر اس پر کچھ خرچ کرنا پڑے تو خرچ بھی کرے بلکہ اگر اس کا مرض آسانی سے دور ہو سکتا ہو توبہترہے کہ اپنا علاج کرائے۔
(۳۱۳)جو شخص اپنا پیشاب یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے صحت یاب ہونے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ جو نمازیں اس نے مرض کی حالت میں اپنے فریضے کے مطابق پڑھی ہوں ان کی قضا کرے لیکن اگر اس کا مرض نماز کے وقت کے دوران ہی دور ہو جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ جو نماز اس وقت پڑھی ہو اسے دوبارہ پڑھے۔
(۳۱۴)اگر کسی شخص کو یہ عارضہ لاحق ہو کہ ریاح روکنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ ان لوگوں کے فریضے کے مطابق عمل کرے جو پیشاب اور پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہوں۔
وہ چیزیں جن کیلئے وضو کرنا ضروری ہے
(۳۱۵)چھ چیزوں کے وضو کرنا واجب ہے:
۱) نماز میت کے علاوہ واجب نمازوں کیلئے۔ مستحب نمازوں میں وضو شرط صحت ہے۔
۲) بھولے ہوئے سجدے اور تشہد کو انجام دینے کے لئے جبکہ ان کے اور نماز کے درمیان کوئی حدث اس سے سرزد ہوا ہو مثلاً اس نے پیشاب کیا ہو لیکن سجدہ ٴ سہو کے لیے وضو کرنا واجب نہیں۔
۳) خانہ کعبہ کے واجب طواف کے لیے جو حج اور عمرہ کا جز ہوتا ہے۔
۴) وضو کرنے کی نذر کی ہو (منت مانی ہو) یا عہد کیا ہو یا قسم کھائی ہو۔
۵) جب کسی نے منت مانی ہو کہ مثلاً قرآن مجید کا بوسہ لے گا۔
۶) نجس شدہ قرآن مجید کو دھونے کے لیے یا بیت الخلاء وغیرہ سے نکالنے کیلئے جبکہ متعلقہ شخص مجبور ہو کہ اس مقصد کے لئے اپنا ہاتھ یا بدن کا کوئی اور حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے مس کرے لیکن وضو میں صرف ہونے والا وقت اگر قرآن مجید کو دھونے یا اسے بیت الخلاء سے نکالنے میں اتنی تاخیر کا باعث ہو جس سے کلام اللہ کی بے حرمتی ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ وضو کیے بغیر قرآن مجید کو بیت الخلاء وغیرہ سے نکال لے یا اگر نجس ہو گیا ہو تو اسے دھو ڈالے۔
(۳۱۶)جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لیے قرآن مجید کے الفاظ کو مس کرنا یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے لگانا حرام ہے لیکن اگر قرآن مجید کا فارسی زبان میں یا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا گیا ہو تو اسے مس کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۳۱۷)بچے اور دیوانے کو قرآن مجید کے الفاظ کو مس کرنے سے روکنا واجب نہیں لیکن اگر ان کے ایسا کرنے سے قرآن مجید کی توہین ہوتی ہو تو انہیں روکنا ضروری ہے۔
(۳۱۸)جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ناموں اور ان صفتوں کو مس کرنا جو صرف اسی کے لیے مخصوص ہیں خواہ کسی زبان میں لکھی ہوں احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور بہتر یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ اور آئمہ طاہرین ٪ اور حضرت فاطمہ زہرا کے اسمائے مبارکہ کو بھی مس نہ کرے۔
(۳۱۹)وضو جب بھی کیا جائے، چاہے نماز کا وقت آنے سے کچھ پہلے ، کافی دیر پہلے یا نماز کا وقت آ جانے کے بعد اگر قُرْبَةً اِلَی اللہ ِکی نیت سے کیا جائے تو صحیح ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ واجب یا مستحب ہونے کی نیت کی جائے بلکہ اگر غلطی سے وجوب کی نیت کر لے اور بعد میں معلوم ہو کہ ابھی وضو واجب نہیں ہوا تھا تو بھی صحیح ہے۔
(۳۲۰)اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ (نماز کا) وقت داخل ہو چکا ہے اور واجب وضو کی نیت کرے لیکن وضو کرنے کے بعد اسے پتا چلے کہ ابھی وقت داخل نہیں ہوا تھا تو اس کا وضو صحیح ہے۔
(۳۲۱)مستحب ہے کہ اگر انسان باوضو ہو تب بھی ہر نماز کے لیے دوبارہ وضو کرے۔ بعض فقہاء رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے فرمایا ہے کہ میت کی نماز کے لیے قبرستان جانے کے لیے ، مسجد یا آئمہ ٪کے حرم میں جانے کے لیے، قرآن مجید ساتھ رکھنے، اسے پڑھنے، لکھنے اور اس کا حاشیہ مس کرنے کے لیے اور سونے کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔ لیکن مذکورہ موارد میں وضو کا مستحب ہونا ثابت نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص مستحب ہونے کے احتمال کے ساتھ وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے اور اس وضو کے ساتھ ہر دو کام کر سکتا ہے جو باوضو ہو کر کرنا ضروری ہے۔ مثلاً اس وضو کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے
مبطلاتِ وضو
(۳۲۲)سات چیزیں وضو کو باطل کر دیتی ہیں:
(۱)پیشاب۔ جو مشکوک رطوبت پیشاب کے بعد اور استبراء سے پہلے انسان سے خارج ہوتی ہے وہ بھی پیشاب کا حکم رکھتی ہے۔
(۲)پاخانہ ۔
(۳)ریاح یعنی معدے اور آنتوں کی ہوا جو مقعد سے خارج ہوتی ہے۔
(۴)نیند جس کی وجہ سے نہ آنکھیں دیکھ سکیں نہ کان سن سکیں لیکن اگر آنکھیں نہ دیکھ رہی ہوں مگر کان سُن رہے ہوں تو وضو باطل نہیں ہوتا۔
(۵)ایسی حالت جن میں عقل زائل ہو جاتی ہو مثلاً دیوانگی، مستی یا بے ہوشی ۔
(۶)عورتوں کا استحاضہ جس کا ذکر بعد میں آئے گا (۷)جنابت بلکہ احتیاط مستحب کی بنا پر ہر وہ کام جس کے لیے غسل کرنا ضروری ہے۔
جبیرہ وضو کے احکام
وہ چیز جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی باندھی جاتی ہے اور وہ دوا جو زخم یا ایسی ہی کسی چیز پر لگائی جاتی ہے جبیرہ کہلاتی ہے۔
(۳۲۳)اگر وضو کے اعضاء میں سے کسی پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور پانی اس کے لیے مضر نہ ہو تو اسی طرح وضو کرنا ضروری ہے جیسے عام طور پر کیا جاتا ہے۔
(۳۲۴)اگر کسی شخص کے چہرے اور ہاتھوں پر زخم یا پھوڑا ہو، یا ان میں سے کسی کی (چہرے یا ہاتھوں) ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو، اس کا منہ کھلا اور اس پر پانی ڈالنا نقصان دہ ہو تو اسے زخم یا پھوڑے کے آس پاس کا حصہ اس طرح اوپر سے نیچے کو دھونا چاہئے جیسا وضو میں بتایا گیا ہے اور بہتر یہ ہے کہ اگر اس پر تر ہاتھ کھینچنا نقصان دہ نہ ہو تو تر ہاتھ اس پر کھینچے اور اس کے بعد پاک کپڑا اس پر ڈال دے اور گیلا ہاتھ اس کپڑے پر بھی کھینچے۔ البتہ اگر ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو تو تیمم کرنا لازم ہے۔
(۳۲۵)اگر زخم یا پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کسی شخص کے سر کے اگلے حصے یا پاؤں پر ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور وہ اس پر مسح نہ کر سکتا ہو کیونکہ زخم کی پوری جگہ پر پھیلا ہوا ہو یا مسح کی جگہ کا جو حصہ صحیح و سالم ہو اس پر مسح کرنا بھی اس کی قدرت سے باہر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ تیمم کرے اور احتیاط مستحب کی بنا پر وضو بھی کرے اور پاک کپڑا زخم وغیرہ پر رکھے اور وضو کے پانی کی تری سے جو ہاتھوں پر لگی ہو کپڑے پر مسح کرے۔
(۳۲۶)اگر پھوڑے یا زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کا منہ کسی چیز سے بند ہو اور اس کا کھولنا بغیر تکلیف کے ممکن ہو اور پانی بھی اس کے لیے مضر نہ ہو تو اسے کھول کر وضو کرنا ضروری ہے خواہ زخم وغیرہ چہرے اور ہاتھوں پر ہو یا سر کے اگلے حصے اور پاؤں کے اوپر والے حصے پر ہو۔
(۳۲۷)اگر کسی شخص کا زخم یا پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی جو کسی چیز سے بندھی ہوئی ہو اس کے چہرے یا ہاتھوں پر ہو اور اس کا کھولنا اور اس پر پانی ڈالنا مضر ہو تو ضروری ہے کہ آس پاس کے جتنے حصے کو دھونا ممکن ہو اسے دھوئے اور احتیاط واجب کی بنا پر جبیرہ پر مسح کرے۔
(۳۲۸)اگر زخم کا منہ نہ کھل سکتا ہو اور خود زخم اور جو چیز اس پر لگائی گئی ہو پاک ہو اور زخم تک پانی پہنچانا ممکن ہو اور مضر بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کو زخم کے منہ پر اوپر سے نیچے کی طرف پہنچائے اور زخم یا اس کے اوپر لگائی گئی چیز نجس ہو اور اس کا دھونا اور زخم کے منہ تک پانی پہنچانا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے دھوئے اور وضو کرتے وقت پانی زخم تک پہنچائے اور اگر پانی زخم کے لیے مضر تو نہ ہو لیکن زخم کو دھونا ممکن نہ ہو یا اسے کھیلنا ضرریا مشقت کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔
(۳۲۹)اگر جبیرہ اعضائے وضو میں سے کسی ایک یا پورے حصے پر پھیلا ہوا ہو تو جبیرہ وضو کافی ہے لیکن اگر جبیرہ تمام اعضائے وضو یا زیادہ تر اعضاء پر پھیلا ہوا ہو تو احتیاط کی بنا پر تیمم کرنا ضروری ہے اور جبیرہ وضوبھی کرے۔
(۳۳۰)یہ ضروری نہیں کہ جبیرہ ان چیزوں میں سے ہو جن کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے بلکہ اگر وہ ریشم یا ان حیوانات کے اجزا سے بنی ہو جن کا گوشت کھانا جائز نہیں تو ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے۔
(۳۳۱)جس شخص کی ہتھیلی اور انگلیوں پر جبیرہ ہو اور وضو کرتے وقت اس نے تر ہاتھ اس پر کھینچا ہو تو وہ سر اور پاؤں کا مسح اسی تری سے کرے۔
(۳۳۲)اگر کسی شخص کے پاؤں کے اوپر والے پورے حصے پر جبیرہ ہو لیکن کچھ حصہ انگلیوں کی طرف سے اور کچھ حصہ پاؤں کے اوپر والے حصے کی طرف سے کھلا ہو تو جو جگہیں کھلیں ہیں وہاں پاؤں کے اوپر والے حصے پر اور جن جگہوں پر جبیرہ ہے وہاں جبیرہ پر مسح کرنا ضروری ہے۔
(۳۳۳)اگر چہرے یا ہاتھوں پر کئی جبیرے ہوں تو ان کا درمیان حصہ دھونا ضروری ہے اور سر یا پاؤں کے اوپر والے حصے پر جبیرے ہوں تو ان کے درمیانی حصے کا مسح کرنا ضروری ہے اور جہاں جبیرے ہوں وہاں جبیرے کے بارے میں احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔
(۳۳۴)اگر جبیرہ زخم کے آس پاس کے حصوں کو معمول سے زیادہ گھیرے ہوئے ہو اور اس کو ہٹانا بغیر تکلیف کے ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے بجز اس کے کہ جبیرہ تیمم کی جگہوں پر ہو کیونکہ اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کرے اور دونوں صورتوں میں جبیرہ کا ہٹانا بغیر تکلیف کے ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا دے۔ پس اگر زخم چہرے یا ہاتھوں پر ہو تو اس کے آس پاس کی جگہوں کو دھوئے اور اگر سر یا ؤں کے اوپر والے حصے پر ہو تو اس کے آس پاس کی جگہوں کا مسح کرے اور زخم کی جگہ کے لیے جبیرہ کے احکام پر عمل کرے۔
(۳۳۵)اگر وضو کے اعضاء پر زخم نہ ہو یا ان کی ہڈی ٹوٹی ہوئی نہ ہو لیکن کسی اور وجہ سے پانی ان کے لیے مضر ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔
(۳۳۶)اگر وضو کے اعضاء کی کسی رگ سے فصد کھلوانے کے طریقے سے خون نکالا گیا ہو اور اسے دھونا ممکن نہ ہو تو تیمم کرنا لازم ہے۔ لیکن اگر پانی اس کے لیے مضر ہو تو جبیرہ کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔
(۳۳۷)اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئی ایسی چیز چپک گئی ہو جس کا اتارنا ممکن نہ ہو یا اسے اتارنے کی تکلیف ناقابل برداشت ہو تو متعلقہ شخص کا فریضہ تیمم ہے۔ لیکن اگر چپکی ہوئی چیز تیمم کے مقامات پر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کرے اور اگر چپکی ہوئی چیز دوا ہو تو وہ جبیرہ کے حکم میں آتی ہے۔
(۳۳۸)غسل میت کے علاوہ تمام قسم کے غسلوں میں جبیرہ غسل، جبیرہ وضو کی طرح ہے لیکن احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ غسل کو ترتیبی طریقے سے انجام دیا جائے اور اگر بدن پر زخم یا پھوڑا ہو تو مکلّف کو غسل یا تیمم کا اختیار ہے۔ اگر وہ غسل کو اختیار کرتا ہے اور زخم یا پھوڑے پر جبیرہ نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ زخم یا پھوڑے پر پاک کپڑا رکھے اور اس کپڑے کے اوپر مسح کرے۔ اگر بدن کا کوئی حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور احتیاطاً جبیرہ کے اوپر بھی مسح کرے اور اگر جبیرہ پر مسح کرنا ممکن نہ یا جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے وہ کھلی ہو توتیمم کرنا ضروری ہے۔
(۳۳۹)جس شخص کا فریضہ تیمم ہو اگر اس کی تیمم کی بعض جگہوں پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو تو ضروری ہے کہ وہ جبیرہ وضو کے احکام کے مطابق جبیرہ تیمم کرے۔
(۳۴۰)جس شخص کو جبیرہ وضو یا جبیرہ غسل کر کے نماز پڑھنا ضروری ہو اگر اسے علم ہو کہ نماز کے آخر وقت تک اس کا عذر دور نہیں ہو گا تو وہ اوّل وقت میں نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر اسے امید ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے گا تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ انتظارکرے اور اگر اس کاعذر دور نہ ہو تو آخر وقت میں جبیرہ وضو یا جبیرہ غسل کے ساتھ نماز ادا کرے لیکن اگر اوّل وقت میں نماز پڑھ لے اور آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو یا غسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔
(۳۴۱)اگر کسی شخص نے آنکھ کی سی بیماری کی وجہ سے پلکوں کے بالوں کو چپکا کر رکھا ہو تو ضروری ہے کہ وہ تیمم کرے۔
(۳۴۲)اگر کسی شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آیا اس کا فریضہ تیمم ہے یا جبیرہ وضو، تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے تیمم اور جبیرہ وضو دونوں بجا لانے چاہئیں۔
(۳۴۳)جو نمازیں کسی انسان نے جبیرہ وضو سے پڑھی ہوں وہ صحیح ہیں اور وہ اسی وضو کے ساتھ آئندہ کی نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے۔
واجب غسل
واجب غسل سات ہیں:
(۱) غسل جنابت (۲) غسل حیض (۳) غسل نفاس (۴)غسل استحاضہ(۵) غسل مس میت (۶) غسل میت(۷) وہ غسل جو منت یا قسم وغیرہ کی وجہ سے واجب ہو جائے۔
اور اگر چاند یا سورج کو مکمل گرہن لگا ہو اور مکلّف جان بوجھ کر نماز آیات نہ پڑھے یہاں تک کہ نماز قضا ہو جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کی قضا کے لیے غسل کرے۔
جنابت کے احکام
(۳۴۴)دو چیزوں سے انسان مجنب ہو جاتا ہے ایک جماع اور دوسرے منی کے خارج ہونے سے ، خواہ وہ نیند میں حالت میں نکلے یا جاگتے میں، کم ہو یا زیادہ ، شہوت کے ساتھ نکلے یا بغیر شہوت کے اور اس کا نکلنا اختیار میں ہو یا نہ ہو۔
(۳۴۵)اگر کسی شخص کے بدن سے کوئی رطوبت خارج اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ منی یا پیشاب یا کوئی اور چیز، اگر وہ رطوبت شہوت کے ساتھ اور اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے بعد بدن سست ہو گیا ہو تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن اگر ان تین علامات میں سے ساری کی ساری یا کچھ موجود نہ ہوں تو وہ رطوبت منی کے حکم میں نہیں آئے گی۔ لیکن اگر انسان بیمار ہو تو پھر ضروری ہے نہیں کہ وہ رطوبت اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے وقت بدن سست ہو جائے بلکہ اگر صرف شہوت کے ساتھ نکلے تو وہ رطوبت منی کے حکم میں ہو گی۔ جو رطوبت چھیڑچھاڑ یا شہوت انگیز تصورت کے وقت انسان اپنی شرمگاہ میں محسوس کرتا ہے وہ پاک ، اس سے غسل بھی واجب نہیں ہوتا اور نہ ہی وضو کو باطل کرتی ہے۔ ہاں ! وہ رطوبت جو عورت سے شہوت کے ساتھ خارج ہوتی ہے اگر اس حد تک ہو کہ اسے انزال کہا جا سکے اور لباس کو آلودہ کر دے، جو عام طور پر اس وقت نکلتی ہے جب عورت جنسی شہوت کی انتہا تک پہنچ جائے، تو یہ نجس بھی ہے اور اس سے عورت مجنب بھی ہو جاتی ہے۔
(۳۴۶)اگر کسی ایسے شخص کے مخرج پیشاب سے جو بیمار نہ ہو کوئی ایسا پانی خارج ہو جس میں ان تین علامات میں سے جن کا ذکر اوپر والے مسئلے میں کیا گیا ہے ایک علامت موجود ہو اور اسے یہ علم نہ ہو کہ باقی علامات بھی اس میں موجود ہیں یا نہیں تو اگر اس پانی کے خارج ہونے سے پہلے اس نے وضو کیا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اسی وضو کو کافی سمجھے اور اگر وضو نہیں کیا تھا تو صرف وضو کرنا کافی ہے اور اس پر غسل کرنا لازم نہیں۔
(۳۴۷)منی خارج ہونے کے بعد انسان کے لیے پیشاب کرنا مستحب ہے اور اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔
(۳۴۸)اگر کوئی شخص جماع کرے اور عضو تناسل سپاری کی مقدار تک یا اس سے زیادہ عورت کی فرج میں داخل ہو جائے تو خواہ یہ دخول فرج میں ہو یا دبر میں اور خواہ وہ بالغ ہوں یا نابالغ اورخواہ منی خارج ہو یا نہ ہو دونوں مجنب ہو جاتے ہیں۔
(۳۴۹)اگر کسی کو شک ہو کہ عضو تناسل سپاری کی مقدار تک داخل ہوا ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
(۳۵۰)نعوذ باللہ اگر کوئی شخص کسی حیوان کے ساتھ وطی کرے اور اس کی منی خارج ہو تو صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو اور اس نے وطی کرنے سے پہلے وضو کیا ہوا ہو تب بھی صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر وضو نہ کر رکھا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور وضو بھی کرے اور مرد یا لڑکے سے وطی کرنے کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
(۳۵۱)اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن خارج نہ ہو یا انسان کو شک ہو کہ منی خارج ہوئی ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
(۳۵۲)جو شخص غسل نہ کر سکے لیکن تیمم کر سکتا ہووہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد بھی اپنی بیوی سے جماع کر سکتا ہے۔
(۳۵۳)اگر کوئی شخص اپنے لباس میں منی دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کی اپنی منی ہے اور اس نے اس منی کیلیے غسل نہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور جن نمازوں کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے کے بعد پڑھی تھیں ان کی قضا کرے لیکن ان نمازوں کی قضا ضروری نہیں جن کے بارے میں احتمال ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے سے پہلے پڑھی تھیں۔
مجنب پر پانچ چیزیں حرام ہیں
۱)اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ یا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نام سے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو مس کرنا اور بہتر یہ ہے کہ انبیاء ، آئمہ اور زہرا # کے ناموں سے بھی اپنا بدن مس نہ کرے۔
۲)مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں جانا، خواہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔
۳)مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے علاوہ دوسری مسجدوں میں ٹھہرنا، اور احتیاط واجب کی بنا پر آئنمہ ٪ کے حرم میں ٹھہرنے کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر ان مسجدوں میں سے کسی مسجد کو عبور کرے مثلاً ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے باہر نکل جائے تو کوئی حرج نہیں۔
۴)کسی مسجد میں کوئی چیز رکھنے کے لیے داخل ہونا۔ احتیاط واجب کی بنا پر یہی حکم مسجد سے کوئی چیز اٹھانے کے لیے بھی ہے چاہے مسجد میں داخل نہ بھی ہو۔
۵)ان آیات میں سے کسی آیت کا پڑھنا جن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ وہ آیتیں (۱)سورة سجدہ آیت ۱۵(۲) سورة فُصّلَت آیت ۳۷ (۳)سورة والنجم آیت ۶۲ (۴)سورة علق آیت ۱۹ میں ہیں۔
وہ چیزیں جو مجنب کے لیے مکروہ ہیں
نو چیزیں مجنب شخص کے لیے مکروہ ہیں:
(۱۔۲)کھانا اور پینا۔ لیکن اگر ہاتھ منہ دھولے اور کلی کر لے تو مکروہ نہیں ہے اور اگر صرف ہاتھ دھو لے تو بھی کراہت کم ہو جائے گی۔
(۳)قرآن مجید کی سات سے زیادہ ایسی آیات پڑھنا جن میں سجدہ واجب نہ ہو۔
(۴)اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کی جلد، حاشیہ یا الفاظ کی درمیانی جگہ سے چھونا۔
(۵)قرآن مجید اپنے ساتھ رکھنا۔
(۶)سونا۔ البتہ اگر وضو کر لے یا پانی نہ ہونی کی وجہ سے غسل کے بدلے تیمم کر لے تو پھر سونا مکروہ نہیں ہے۔
(۷)مہندی یا اس سے ملتی جلتی چیز سے خضاب کرنا۔
(۸)بدن پر تیل ملنا۔
(۹)احتلام یعنی سوتے میں منی خارج ہونے کے بعد جما ع کرنا۔
غسلِ جنابت
(۳۵۶)غسلِ جنابت واجب نماز پڑھنے کے لیے اور ایسی دوسری عبادات کے لیے واجب ہو جاتا ہے لیکن نماز میت ، سجدہ سہو، سجدہٴ شکر اور قرآن مجید کے واجب سجدوں کے لیے غسل جنابت ضروری نہیں ہوتی۔
(۳۵۷)یہ ضروری نہیں کہ غسل کے وقت نیت کرے کہ واجب غسل کر رہا ہے بلکہ فقط قُرْبَة ً اِلَی اللّٰہ ِ یعنی بارگاہِ الہٰی میں فروتنی و عاجزی کے ارادے سے غسل کرے تو کافی ہے۔
(۲۵۸)اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور غسل واجب کی نیت کر لے لیکن بعد میں پتا چلے کہ اس نے وقت سے پہلے غسل کر لیا تو اس کا غسل صحیح ہے۔
(۳۵۹)غسل جنابت دو طریقوں سے انجام دیا جا سکتا ہے : ترتیبی اور ارتماسی۔
ترتیبی غسل
(۳۶۰)ترتیبی غسل میں احتیاط لازم ہے کی بنا پر غسل کی نیت کے ساتھ پہلے پورا سر وگردن اور بعد میں بدن دھونا ضروری ہے اور بہتر یہ ہے کہ بدن کو پہلے دائیں طرف سے اور بعد میں بائیں طرف سے دھوئے۔ تینوں اعضاء میں سے ہر ایک کو غسل کی نیت سے پانی کے اندر حرکت دینے سے ترتیبی غسل کا صحیح ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط اس پر اکتفا نہ کرنے میں ہے اور اگر وہ شخص جان بوجھ کر یا بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کا غسل باطل ہے۔
(۳۶۱)اگر کوئی شخص بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کے لیے غسل کا اعادہ کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر بدن کو دوبارہ دھو لے تو اس کا غسل صحیح ہو جائے گا۔
(۳۶۲)اگر کسی شخص کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ اس نے دونوں حصوں سر وگردن اور بدن کو مکمل طور پر دھو لیا ہے تو اس بات کا یقین کرنے کے لیے جس حصے کو دھوئے اس کے ساتھ دوسرے حصے کی کچھ مقدار بھی دھونا ضروری ہے۔
(۳۶۳)اگر کسی شخص کو غسل کے بعد پتا چلے کہ بدن کا کچھ حصہ دھلنے سے رہ گیا ہے لیکن یہ علم نہ ہو کہ وہ کونسا حصہ ہے تو سر کا دوبارہ دھونا ضروری نہیں اور بدن کا صرف وہ حصہ دھونا ضروری ہے جس کے نہ دھوئے جانے کے بارے میں احتمال پیدا ہوا ہے۔
(۲۶۴)اگر کسی کو غسل کے بعد پتا چلے کہ اس نے بدن کا کچھ حصہ نہیں دھویا تو اگر وہ بائیں طرف ہو تو صرف اسی مقدار کا دھو لینا کافی ہے اور اگر دائیں طرف ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد بائیں طرف کو دوبارہ دھوئے اور اگر سر اور گردن دھلنے سے رہ گئی ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد دوبارہ بدن کو دھوئے۔
(۳۶۵)اگر کسی شخص کو غسل مکمل ہونے سے پہلے دائیں بائیں طرف کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک گزرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھوئے اور اگر اسے سر یا گردن کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر سر اور گردن دھونے کے بعد بدن کو دوبارہ دھونا ضروری ہے۔
ارتماسی غسل
ارتماسی غسل دو طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ دفعی اور تدریجی۔
(۳۶۶)غسلِ ارتماسی دفعی میں ضروری ہے کہ ایک لمحے کے لیے پورا بدن پانی میں گھر جائے لیکن غسل کرنے سے پہلے ایک شخص کے سارے بدن کا پانی سے باہر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر بدن کا کچھ حصہ پانی سے باہر ہو اور غسل کی نیت سے پانی میں غوطہ لگائے تو کافی ہے۔
(۳۶۷)غسل ارتماسی تدریجی میں ضروری ہے کہ غسل کی نیت سے عرفی اعتبار سے ایک ہی دفعہ میں بدن کو پانی میں ڈبوئے۔ اس غسل میں ضروری ہے کہ بدن کا پورا حصہ غسل کرنے سے پہلے پانی سے باہر ہو۔
(۳۶۸)اگر کسی شخص کو غسل ارتماسی کے بعد پتا چلے کہ اس کے بدن کے کچھ حصے تک پانی نہیں پہنچا ہے تو خواہ وہ اس مخصوص حصے کے متعلق جانتا ہو یا نہ جانتا ہے ضروری ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔
(۳۶۹)اگر کسی شخص کے پاس غسل ترتیبی کے لیے وقت نہ ہو لیکن ارتماسی کے لیے وقت ہو تو ضروری ہے کہ ارتماسی غسل کرے۔
(۳۷۰)جس شخص نے حج یا عمر کے لیے احرام باندھا ہو وہ ارتماسی غسل نہیں کر سکتا لیکن اگر اس نے بھول کر ارتماسی غسل کر لیا ہو تو اس کا غسل صحیح ہے۔
غسل کے احکام
(۳۷۱)غسل ارتماسی یا غسل ترتیبی میں غسل سے پہلے سارے جسم کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر پانی میں غوطہ لگانے یا غسل کے ارادے سے پانی بدن پر ڈالنے بدن پاک ہو جائے تو غسل صحیح ہو گا۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جس پانی سے غسل کر رہا ہے۔ وہ طہارت کی حالت سے خارج نہ ہو جائے۔ مثلاً کُر پانی سے غسل کر رہا ہو۔
(۳۷۲)اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہو ا ہو اور گرم پانی سے غسل کرلے تو اگرچہ پسینہ بھی آ جائے تب بھی اس کا غسل صحیح ہے۔
(۳۷۳)غسل میں بال برابر بدن بھی اگر اَن دُھلا رہ جائے تو غسل باطل ہے لیکن کان اور ناک کے اندرونی حصوں کا اور ہر اس چیز کا دھونا جو باطن شمار ہوتی ہو واجب نہیں ہے۔
(۳۷۴)اگر کسی شخص کو بدن کے کسی حصے کے بار ے میں شک ہو کہ اس کا شمار بدن کے ظاہر میں ہے یا باطن میں تو ضروری ہے کہ اسے دھو لے۔
(۳۷۵)اگر کان کی بالی کا سوراخ یا اس جیسا کوئی اور سوراخ اس قدر کھلا ہو کہ اس کا اندرونی حصہ بدن کا ظاہر شمار کیا جائے تو اسے دھونا ضروری ہے ورنہ اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
(۳۷۶)جو چیز بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو ضروری ہے کہ انسان اسے ہٹا دے اور اگر اس کے ہٹ جانے کا یقین کرنے سے پہلے غسل کرے تو اس کا غسل باطل ہے۔
(۳۷۷)اگر غسل کے وقت کسی شخص کو شک گزرے کہ کوئی ایسی چیز اس کے بدن پر ہے یا نہیں جو بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو تو ضروری ہے کہ چھان بین کرے حتیٰ کہ مطمئن ہو جائے کہ کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ہے۔
(۳۷۸)غسل میں ان چھوٹے چھوٹے بالوں کو جو بدن کا جزو شمارے ہوتے ہیں دھونا ضروری ہے اور لمبے بالوں کا دھونا واجب نہیں ہے بلکہ اگر پانی کو جلد تک اس طرح پہنچائے کہ لمبے بال تر نہ ہوں تو غسل صحیح ہے لیکن اگر انہیں دھوئے بغیر جلد تک پانی پہنچانا ممکن نہ ہو تو انہیں بھی دھونا ضروری نہیں ہے تاکہ پانی بدن تک پہنچ جائے۔
(۳۷۹)وہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے لیے بتائی جا چکی ہیں مثلاً پانی کا پاک ہونا اور غصبی نہ ہونا وہی شرائط غسل کے صحیح ہونے کے لیے بھی ہیں۔ لیکن غسل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان بدن کو اوپر سے نیچے کی جانب دھوئے۔ علاوہ ازیں غسل ترتیبی میں یہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن دھونے کے بعد فوراً بدن کو دھوئے۔ لہٰذا اگر سر اور گردن دھونے کے بعد توقف کرے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد بدن کو دھوئے تو کوئی حرج نہیں بلکہ ضروری ہے نہیں کہ سر اور گردن یا تمام بدن کو ایک ساتھ دھوئے پس اگر مثال کے طور پر سر دھویا اور کچھ دیر بعد گردن دھوئے تو جائز ہے کہ لیکن جو شخص پیشاب یا پاخانہ کے نکلنے کو نہ روک سکتا ہو تاہم اسے پیشاب اور پاخانہ اندازاً اتنے وقت تک نہ آتا ہو کہ غسل کر کے نماز پڑھ لے تو ضروری ہے کہ فوراً غسل کرے اور غسل کے بعد فوراً نماز پڑھ لے۔
(۳۸۰)اگر کوئی شخص یہ جانے بغیر کہ حمام والا راضی ہے یا نہیں اس کی اجرت ادھار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو خواہ حمام والے کو بعد میں اس بات پر راضی بھی کر لے اس کا غسل باطل ہے۔
(۳۸۱)اگر حمام والا اُدھار پر غسل کی اجازت دینے کے لیے راضی ہو لیکن غسل کرنے والا اس کی اجرت نہ دینے یا حرام مال سے دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کا غسل باطل ہے۔
(۳۸۲)اگر کوئی شخص حمام والے کو ایسی رقم بطور اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو تو اگرچہ وہ حرام کا مرتکب ہو گا لیکن بظاہر اس کا غسل صحیح ہو گا اور مستحقین کو خمس ادا کرنا اس کے ذمہ رہے گا۔
(۳۸۳)اگر کوئی شخص شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ غسل کرے لیکن اگر غسل کے بعد شک کرے کہ غسل صحیح کیا ہے یا نہیں تو دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں ۔
(۳۸۴)اگر غسل کے دوران کسی شخص سے حدث اصغر سرزد ہو جائے مثلاً پیشاب کردے تو اس غسل کو ترک کر کے نئے سرے سے غسل کرنا ضروری نہیں بلکہ وہ اپنے اس غسل کو مکمل کر سکتا ہے۔ اس صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر وضو کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اگر وہ شخص غسل ارتماسی کی طرف یا غسل ارتماسی سے غسل ترتیبی کی طرف پلٹ جائے تو وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔
(۳۸۵)اگر وقت کی تنگی کی وجہ سے مکلّف شخص کا فریضہ تیمم ہو لیکن اس خیال سے کہ غسل اور نماز کے لیے اس کے پاس وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے غسل قصد قربت کیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے۔ اگرچہ اس نے نماز پڑھنے کے لیے غسل کیا ہو۔
(۲۸۶)جو شخص مجنب ہو، اگر وہ نماز پڑھنے کے بعد شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو جو نمازیں وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہیں۔ لیکن بعد کی نمازوں کے لیے غسل کرنا ضروری ہے اور اگر نماز کے بعد اس سے حدث اصغر صادر ہوا ہو تو لازم ہے کہ وضو بھی کرے اور اگر وقت ہو تو احتیاط لازم کی بناپر جو نماز پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ پڑھے۔
(۳۸۷)جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں وہ ان سب کی نیت کر کے ایک غسل کر سکتا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک مخصوص غسل کا قصد کرے تو وہ باقی غسلوں کے لیے بھی کافی ہے۔
(۳۸۸)اگر بدن کے کسی حصے پر قرآن مجید کی آیت یا اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوا ہو تو غسل کو ترتیبی طریقے سے انجام دینے کی صورت میں ضروری ہے کہ پانی اپنے بدن پر اس طرح پہنچائے کہ اس کا ہاتھ ان تحریروں کو نہ لگے۔ وضو کرتے وقت آیاتِ قرآنی بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر اللہ کے ناموں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
(۳۸۹)جس شخص نے غسل جنابت کیا ہو ضروری ہے کہ نماز کے لیے وضو نہ کرے بلکہ دوسرے واجب غسلوں کے بعد بھی سوائے غسل استحاضہ متوسط اور مستحب غسلوں کے جن کا ذکر مسئلہ ۶۳۴میں آئے گا بغیر وضو نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔
استحاضہ
عورتوں کو جو خون آتے رہتے ہیں ان میں سے ایک خون استحاضہ ہے اور عورت کو خون استحاضہ آنے وقت مستحاضہ کہتے ہیں۔
(۳۹۰)خون استحاضہ زیادہ تر زرد رنگ کا اور ٹھنڈا ہوتا ہے اور فشار اور جلن کے بغیر خارج ہوتا ہے اور گاڑھا بھی نہیں ہوتا لیکن ممکن ہے کہ کبھی سیاہ یا سرخ اور گرم اور گاڑھا ہو اور فشار اور جلن کے ساتھ خارج ہو۔
(۳۹۱)استحاضہ تین قسم کا ہوتا ہے
(۱) قلیلہ (۲) متوسط (۳) کثیرہ۔
استحاضہٴ قلیلہ یہ ہے کہ خون صرف اس روئی کے اوپر والے حصے کو آلودہ کرے جو عورت اپنی شرمگاہ میں رکھے اور اس روئی کے اندر تک سرایت نہ کرے۔
استحاضہٴ متوسط یہ ہے خون روئی کے اندر تک چلا جائے۔ اگرچہ اس کے ایک کونے تک ہی ہو لیکن روئی سے اس کپڑے تک نہ پہنچے جو عورتیں عموماً خون روکنے کے لیے باندھتی ہیں۔
استحاضہٴ کثیرہ یہ ہے کہ خون روئی سے تجاوز کر کے کپڑے تک پہنچ جائے۔
استحاضہ کے احکام
(۳۹۲)استحاضہٴ قلیلہ میں ہر نماز کے لیے علیٰحدہ وضو کرنا ضروری ہے اور احتیاط مستحب کی بنا پر روئی کو دھوئے یا اسے تبدیل کر دے اور ضروری ہے کہ شرمگاہ کے ظاہری حصے پر خون لگا ہونے کی صورت میں اسے بھی دھولے۔
(۳۹۳)استحاضہٴ متوسط میں احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ عورت اپنی نمازوں کے لیے روزانہ ایک غسل کرے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ استحاضہٴ قلیلہ کے وہ افعال انجام دے جو سابقہ مسئلے میں بیان ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اگر صبح کی نماز سے پہلے یا نماز کے دوران عورت کو استحاضہ آ جائے تو صبح کی نماز کے لیے غسل کرنا ضروری ہے۔ اگر جان بوجھ کر یا بھول کر صبح کی نماز کے لیے غسل نہ کرے تو ظہر اور عصر کی نماز کے لیے غسل کرنا ضروری ہے اور اگر نماز ظہر اور عصر کے لیے غسل نہ کرے تو نماز مغرب و عشاء سے پہلے غسل کرنا ضروری ہے۔ خواہ خون آ رہا ہو یا بند ہو چکا ہو۔
(۳۹۴)استحاضہٴ کثیر میں احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ عورت ہر نماز کے لیے روئی اور کپڑے کا ٹکڑا تبدیل کرے یا اسے دھوئے اور ایک غسل فجر کی نماز کے لیے اور ایک غسل ظہر و عصر کی اور ایک غسل مغرب و عشاء کی نماز کے لیے کرنا ضرور ی ہے اور ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کے درمیان فاصلہ نہ رکھے اور اگر فاصلہ رکھے تو عصر اور عشاء کی نماز کے لیے دوبارہ غسل کرنا ضروری ہے۔ یہ مذکورہ احکام اس صورت میں ہیں اگر خون باربار رورئی سے پٹی پر پہنچ جائے۔ اگر روئی سے پٹی تک خون پہنچے میں اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عورت اس فاصلے کے اندر ایک نماز یا ایک سے زیادہ نمازیں پڑھ سکتی ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ جب خون روئی سے پٹی تک پہنچ جائے تو روئی اور پٹی کو تبدیل کر لے یا دھو لے اور غسل کرلے۔ اسی بنا پر اگر عورت غسل کرے اور مثلاً ظہر کی نماز پڑھے لیکن عصر کی نماز سے پہلے یا نماز کے دوران دوبارہ خون روئی سے پٹی پر پہنچ جائے تو عصر کی نماز کے لیے بھی غسل کرنا ضروری ہے۔ لیکن اگر فاصلہ اتنا ہو کہ عورت اس دوران دو یا دو سے زیادہ نمازیں پڑھ سکتی ہو، مثلاً مغرب اور عشاء کی نماز خون کے دوبارہ پٹی پر پہنچنے سے پہلے پڑھ سکتی ہو تو ظاہر یہ ہے کہ ان نماز وں کے لیے دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں ہے اور بہر حال استحاضہٴ کثیر میں غسل کرنا وضو کے لیے بھی کافی ہے۔
(۳۹۵)اگر خون استحاضہ نماز کے وقت سے پہلے بھی آئے اور عورت نے اس خون کے لیے وضو یا غسل نہ کیا ہو تو نماز کے وقت وضو یا غسل کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ وہ اس وقت مستحاضہ نہ ہو۔
(۳۹۶)مستحاضہٴ متوسط جس کے لیے وضو کرنا اور احتیاط لازم کی بنا پر غسل کرنا ضروری ہے۔ اسے چاہئے کہ پہلے غسل کرے اور بعد میں وضو کرے لیکن مستحاضہٴ کثیرہ میں اگر وضو کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ وضو غسل سے پہلے کرے۔
(۳۹۷)اگر عورت کا استحاضہٴ قلیلہ صبح کی نماز کے بعد متوسط ہو جائے تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز لیے غسل کرے اور اگر ظہر ار عصر کی نماز کے بعد متوسط ہو تو مغرب اور عشاء کی نماز کے لیے غسل کرنا ضروری ہے۔
(۳۹۸)اگر عورت کا استحاضہٴ قلیلہ یا متوسط صبح کی نماز کے بعد کثیرہ ہو جائے اور وہ عورت اسی حالت پر باقی رہے تو مسئلہ ۳۹۴ میں جو احکام گزر چکے ہیں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء پڑھنے کے لیے ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔
(۳۹۹)مستحاضہٴ کثیرہ کی جس صورت میں نماز اور غسل کے درمیان ضروری ہے کہ فاصلہ نہ ہو جیسا کہ مسئلہ ۳۹۴ میں گزر چکا ہے۔ اگر نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے غسل کرنے کی وجہ سے نمازاور غسل میں فاصلہ ہو جائے تو اس غسل کے ساتھ نماز صحیح نہیں ہے اور یہ مستحاضہ نماز کے لیے دوبارہ غسل کرے اور یہی حکم مستحاضہٴ متوسط کے لیے بھی ہے۔
(۴۰۰)ضروری ہے کہ مستحاضہٴ قلیلہ و متوسط روزانہ کی نمازوں کے علاوہ جن کے بارے میں حکم اوپر بیان ہو چکا ہے ہر نماز کے لیے خواہ وہ واجب ہو یا مستحب ، وضو کرے لیکن اگر وہ چاہے کہ روزانہ کی وہ نمازیں جو وہ پڑھ چکی ہوا حتیاطاً دوبارہ پڑھے یا جو نماز اس نے تنہا پڑھی ہے دوبارہ باجماعت پڑھے تو ضروری ہے کہ وہ تمام افعال بجا لائے جن کا ذکر استحاضہ کے سلسلے میں کیا گیا ہے۔ البتہ اگر وہ نماز احتیاط، بھولے ہوئے سجدے اور بھولے ہوئے تشہد کی بجا آوری نماز کے فوراً بعد کرے اور اسی طرح سجدہٴ سہو کسی بھی صورت میں کرے تو اس کے لیے استحاضہ کے افعال کا انجام دینا ضروری نہیں ہے۔
(۴۰۱)اگر کسی مستحاضہ عورت کا خون رُک جائے تو اس کے بعد جب پہلی نماز پڑھے صرف اس کے لیے استحاضہ کے افعال انجام دینا ضروری ہے۔ لیکن بعد کی نمازوں کے لیے ایسا کرنا ضروری نہیں ۔
(۴۰۲)اگر کسی عورت کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا استحاضہ کونسا ہے تو جب نما زپڑھنا چاہے تو بنابر احتیاط ضروری ہے کہ پہلے تحقیق کرے۔ مثلاً تھوڑی سی روئی شرمگاہ میں رکھے اور کچھ دیر انتظار کرے اور پھر روئی نکال لے اور جب اسے پتا چل جائے کہ اس کا استحاضہ تین اقسام میں سے کونسی قسم کا ہے تو اس قسم کے استحاضہ کے لیے جن افعال کا حکم دیا گیا ہے انہیں انجام دے۔ لیکن اگر وہ جانتی ہو کہ جس وقت تک وہ نماز پڑھنا چاہتی ہے اس کا استحاضہ تبدیل نہیں ہو گا تو نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے بھی وہ اپنے بارے میں تحقیق کر سکتی ہے۔
(۴۰۳)اگر مستحاضہ اپنے بارے میں تحقیق کرنے سے پہلے نماز میں مشغول ہو جائے تو اگر وہ قربت کا قصد رکھتی ہو اور اس نے اپنے وظیفے کے مطابق عمل کیا ہو مثلاً اس کا استحاضہٴ قلیلہ ہو اور اس نے استحاضہٴ قلیلہ کے مطابق عمل کیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر وہ قربت کا قصد نہ رکھتی ہو یا اس کا عمل اس کے وظیفے کے مطابق نہ ہو مثلاً اس کا استحاضہٴ متوسط ہو اور اس نے عمل استحاضہٴ قلیلہ کے مطابق کیا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۴۰۴)اگر مستحاضہ اپنے بارے میں تحقیق نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ جو اس کا یقینی فریضہ ہو اس کے مطابق عمل کرے، مثلاً اگر وہ یہ نہ جانتی ہو کہ اس کا استحاضہٴ قلیلہ ہے یا متوسط تو ضروری ہے کہ استحاضہٴ قلیلہ کے افعال انجام دے اور اگر وہ یہ نہ جانتی ہو کہ اس کا استحاضہ متوسط ہے یا کثیرہ تو ضروری استحاضہ متوسطہ کے افعال انجام دے لیکن اگر وہ جانتی ہو کہ سے پیشتر اسے ان تین اقسام میں سے کون سی قسم کا استحاضہ تھا تو ضروری ہے کہ اسی قسم کے استحاضے کے مطابق اپنا فریضہ انجام دے۔
(۴۰۵)اگر استحاضہ کا خون اپنے ابتدائی مرحلے پر جسم کے اندر ہی ہو اور باہر نہ نکلے تو عورت نے جو وضو یا غسل کیا ہو ا ہو اسے باطل نہیں کرتا اگر باہر آ جائے تو خواہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو وضو اور غسل کو باطل کر دیتا ہے۔
(۴۰۶)مستحاضہ اگر نماز کے بعد اپنے بارے میں تحقیق کرے اور خون نہ دیکھے تو اگرچہ اسے علم ہو کہ دوبارہ خون آئے گا جو وضو کئے ہوئے ہے اسی سے نماز پڑھ سکتی ہے۔
(۴۰۷)مستحاضہ عورت اگر یہ جانتی ہو کہ جس وقت سے وہ وضو یا غسل میں مشغول ہوئی ہے خون اس کے بدن سے باہر نہیں آیا اور نہ ہی شرمگاہ کے اندر ہے تو جب تک اسے پاک رہنے کا یقین ہو نماز پڑھنے میں تاخیر کر سکتی ہے۔
(۴۰۸)اگر مستحاضہ کو یقین ہو کہ نماز کا وقت گزرنے سے پہلے پوری طرح پاک ہو جائے گی یا اندازاً جتنا وقت نماز پڑھنے میں لگتا ہے اس میں خون آنا بند ہو جائے گا تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ انتظار کرے اور اس وقت نماز پڑھے جب پاک ہو۔
(۴۰۹)اگر وضو اور غسل کے بعد خون آنا بظاہر بند ہو جائے اور مستحاضہ کو معلوم ہو کہ اگر نماز پڑھنے میں تاخیر کرے تو اتنی دیر کے لیے مکمل پاک ہو جائے گی جس میں وضو، غسل اور نماز بجا لا سکے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز کو موٴخر کر دے اور جب بالکل پاک ہو جائے تو دوبارہ وضو اور غسل کر کے نماز پڑھے اور اگر خون کے بظاہر بند ہونے کے وقت نماز کا وقت تنگ ہو تو وضو اور غسل دوبارہ کرنا ضروری نہیں بلکہ جو وضو اور غسل اس نے کیے ہوئے ہیں انہی کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔
(۴۱۰)مستحاضہٴ کثیرہ جب خون سے بالکل پاک ہو جائے اگر اسے معلوم ہو کہ جس وقت سے اس نے گذشتہ نماز کے لیے غسل کیا تھا پھر اب تک خون نہیں آیا تو دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں ہے بصورت دیگر غسل کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ اس حکم کا بطور کلی ہونا احتیاط کی بنا پر ہے اور مستحاضةٴ متوسط میں ضروری نہیں ہے کہ خون سے بالکل پاک ہونے پر غسل کرے۔
(۴۱۱)ضروری ہے کہ مستحاضہٴ قلیلہ وضو کے بعد، مستحاضہٴ متوسط غسل اور وضو کے بعد اور مستحاضہٴ کثیرہ غسل کے بعد (ان دو صورتوں کے علاوہ جو مسئلہ ۳۹۴ اور ۴۰۷ میں آئی ہیں) فوراً نماز میں مشغول ہو جائے۔ البتہ نماز سے پہلے اذان اور اقامت کہنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ نماز کے مستحب کام ، مثلاً قنوت وغیرہ بھی پڑھ سکتی ہے۔
(۴۱۲)اگر مستحاضہ جس کا فریضہ یہ ہو کہ وضو یا غسل اور نماز کے درمیان فاصلہ نہ رکھے اگر اس نے اپنے وظیفے کے مطابق عمل نہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو یا غسل کرنے کے بعد فوراً نماز میں مشغول ہو جائے۔
(۴۱۳)اگر عورت کا خون استحاضہ جاری رہے اور بند ہونے میں نہ آئے اور خون کا روکنا اس کے لیے مضر نہ ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ غسل سے پہلے خون کو باہر آنے سے روکے اور اگر ایسا کرنے میں کوتاہی برتے اور خون نکل آئے تو جو نماز پڑھ لی ہو اسے دوبارہ پڑھے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔
(۴۱۴)اگر غسل کرتے وقت خون نہ رُکے تو غسل صحیح ہے لیکن اگر غسل کے دوران استحاضہٴ متوسط استحاضہٴ کثیرہ ہو جائے تو ازسرِ نو غسل کرنا ضروری ہے۔
(۴۱۵)احتیاط مستحب یہ ہے کہ مستحاضہ روزے سے ہو تو سارا دن جہاں تک ممکن ہو خون کو نکلنے سے روکے۔
(۴۱۶)مشہور قول کی بنا پر مستحاضہٴ کثیرہ کا روزہ اس صورت میں صحیح ہو گا کہ جس رات کے بعد کے دن وہ روزہ رکھنا چاہتی ہو اس رات کی مغرب اور عشاء کی نماز کا غسل کرے۔ علاوہ ازیں دن کے وقت وہ غسل انجام دے جو دن کی نمازوں کے لیے واجب ہیں لیکن کچھ بعید نہیں کہ اس کے روزے صحیح ہونے کے لیے غسل کی شرط نہ ہو جیسا کہ بنا بر اقویٰ مستحاضہٴ متوسط میں یہ غسل شرط نہیں ہے۔
(۴۱۷)اگر عورت عصر کی نماز کے بعد مستحاضہ ہو جائے اور غروب آفتاب تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ بلا اشکال صحیح ہے۔
(۴۱۸)اگر کسی عورت کا استحاضہٴ قلیلہ نماز سے پہلے متوسط یا کثیرہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ متوسط یا کثیرہ کے افعا ل جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے انجام دے اور اگر استحاضہٴ متوسط، کثیرہ ہو جائے تو چاہئے کہ استحاضہٴ کثیرہ کے افعال انجام دے۔ چنانچہ اگر وہ استحاضہٴ متوسط کے لیے غسل کر چکی ہو تو اس کا یہ غسل بے فائدہ ہو گا اور اسے استحاضہٴ کثیرہ کے لیے دوبارہ غسل کرنا ضروری ہے۔
(۴۱۹)اگر نماز کے دوران کسی عورت کا استحاضہٴ متوسط ، کثیرہ میں بدل جائے تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور استحاضہٴ کثیرہ کے لیے غسل کرے اور اس کے دوسرے افعا لانجام دے اور پھر اسی نماز کو پڑھے اور احتیاط مستحب کی بنا پر غسل سے پہلے وضو کرے اور اگر اس کے پاس غسل کے لیے وقت نہ تو غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے اور اگر تیمم کے لیے بھی وقت نہ ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر نماز نہ توڑے اور اسی حالت میں ختم کرے لیکن ضروری ہے کہ وقت گزرنے کے بعد اس نماز کی قضا کرے۔ اسی طرح اگر نماز کے دوران اس کا استحاضہٴ قلیلہ، استحاضہٴ متوسط یا کثیرہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز کو توڑ دے اور استحاضہٴ متوسط یا کثیرہ کے افعال انجام دے۔
(۴۲۰)اگر نماز کے دوران خون بند ہو جائے اور مستحاضہ کو معلوم نہ ہو کہ باطن میں بھی خون بند ہوا ہے یا نہیں یا نہ جانتی ہو کہ آیا اتنی دیر پاک رہ سکے گی جس میں طہارت کر کے مکمل نماز یا اس کا کچھ حصہ ادا کر سکے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اپنے وظیفے کے مطابق وضو یا غسل کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔
(۴۲۱)اگر کسی عورت کا استحاضہٴ کثیرہ ، متوسط ہو جائے تو ضروری ہے کہ پہلی نماز کے لیے کثیرہ کا عمل اور بعد کی نمازوں کے لیے متوسط کا عمل بجا لائے۔ مثلاً اگر ظہر کی نماز سے پہلے استحاضہٴ کثیرہ ، متوسط ہو جائے تو ضروری ہے کہ ظہر کی نماز کے لیے غسل کرے اور نماز عصرومغرب و عشاء کے لیے صرف وضو کرے لیکن اگر نماز ظہر کے لیے غسل نہ کرے اور اس کے پاس صرف نماز عصر کے لیے باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز مغرب کے لیے غسل کرے اور اگر اس کے لیے بھی غسل نہ کرے اور اس کے پاس صرف نماز عشاء کے لیے وقت ہو تو نماز عشاء کے لیے غسل کرنا ضروری ہے۔
(۴۲۲)اگر ہر نماز سے پہلے مستحاضہٴ کثیرہ کا خون بند ہو جائے اور دوبار ہ آ جائے تو ہر نماز کے لیے غسل کرنا ضروری ہے۔
(۴۲۳)اگر استحاضہٴ کثیرہ، قلیلہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ عورت پہلی نمازکے لیے کثیرہ والے اور بعد کی نمازوں کے لیے قلیلہ والے افعال بجا لائے اور اگر استحاضہٴ متوسط، قلیلہ ہو جائے تو پہلی نماز کے لیے متوسط والے اور بعد کی نمازوں کے لیے قلیلہ والے افعال بجا لانا ضروری ہے۔
(۴۲۴)مستحاضہ کے لیے جو افعال واجب ہیں اگر وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی ترک کر دے تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۴۲۵)مستحاضہٴ قلیلہ یا متوسط اگر نماز کے علاوہ وہ کام انجام دینا چاہتی ہو جس کے لیے وضو کا ہونا شرط ہے مثلاً اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے مس کرنا چاہتی ہو تو نماز ادا کرنے کے بعد وضو کرنا ضروری ہے اور وہ وضو جو نماز کے لیے کیا تھا کافی نہیں ہے۔
(۴۲۶)جس مستحاضہ نے اپنے واجب غسل کر لیے ہوں اس کا مسجد میں جانا اوروہاں ٹھہرنا اور وہ آیات پڑھنا جن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور اس کے شوہر کا اس کے ساتھ مجامعت کرنا حلال ہے۔ خواہ اس نے وہ افعال جو وہ نماز کے لیے انجام دیتی تھی (مثلاً روئی اور کپڑے کے ٹکڑے کا تبدیل کرنا) انجام نہ دئیے ہوں بلکہ یہ افعال بغیر غسل بھی جائز ہیں سوائے مجامعت کے جو احتیاط واجب کی بنا پر جائز نہیں۔
(۴۲۷)جو عورت استحاضہٴ کثیرہ یا متوسط میں ہو اگر وہ چاہے کہ نماز کے وقت سے پہلے اس آیت کو پڑھے جس کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے یا مسجد میں جائے تو احتیاط مستحب کی بنا پر ضروری ہے کہ غسل کرے اور اگر اس کا شوہر اس سے مجامعت کرنا چاہے تب بھی یہی حکم ہے۔
(۴۲۸)مستحاضہ پر نماز آیات کا پڑھنا واجب ہے اور نماز آیات ادا کرنے کے لئے یومیہ نمازوں کے لیے بیان کیے گئے تمام اعمال انجام دینا ضروری ہیں۔
(۴۲۹)جب بھی یومیہ نماز کے وقت میں نماز آیا ت مستحاضہ پر واجب ہو جائے اور وہ چاہے کہ ان دونوں نمازوں کو یکے بعد دیگر ادا کرے تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر وہ ان دونوں کو ایک وضو اور غسل سے نہیں پڑھ سکتی۔
(۴۳۰)اگر مستحاضہ قضا نماز پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ نماز کے لیے وہ افعال انجام دے جو ادا نماز کے لئے اس پر واجب ہیں اور احتیاط کی بنا پر قضا نماز کے لئے ان افعال پر اکتفا نہیں کر سکتی جو کہ اس نے ادا نماز کے لئے انجام دئیے ہوں۔
(۴۳۱)اگر کوئی عورت جانتی ہو کہ جو خون اسے آ رہا ہے وہ زخم کا خون نہیں ہے لیکن اس خون کے استحاضہ، حیض یا نفاس ہونے کے بارے میں شک کرے اور شرعاً وہ خون حیض ونفاس کا حکم بھی نہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ استحاضہ والے احکام کے مطابق عمل کرے بلکہ اگر اسے شک ہو کہ یہ خون استحاضہ ہے یا کوئی دوسرا اور وہ دوسرے خون کی علامات بھی نہ رکھتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر استحاضہ کے افعال انجام دینا ضروری ہیں۔
حیض
حیض وہ خون ہے جو عموماً ہر مہینے چند دنوں کے لیے عورتوں کے رحم سے خارج ہوتا ہے اور عورت کو جب حیض کا خون آئے تو اسے حائض کہتے ہیں۔
(۴۳۲)حیض کا خون عماماً گاڑھا اور گرم ہوتا ہے اور اس کا رنگ سیاہ یا سرخ ہوتا ہے۔ وہ تیزی سے اور تھوڑی سی جلن کے ساتھ خارج ہوتا ہے۔
(۴۳۳)وہ خون جو عورتوں کو ساٹھ برس پورے کرنے کے بعد آتا ہے حیض کا حکم نہیں رکھتا۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ عورتیں جو غیر قریشی ہیں وہ پچاس سے ساٹھ سا ل کی عمر کے دوران خون اس طرح دیکھیں کہ اگر وہ پچاس سال سے پہلے خون دیکھتیں تو وہ خون یقینا حیض کا حکم رکھتا تو وہ مستحاضہ والے افعال بجا لائیں اور ان کاموں کو ترک کریں جنہیں حائض ترک کرتی ہے۔
(۴۳۴)اگر کسی لڑکی کو نو سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے خون آئے تو وہ حیض نہیں ہے۔
(۴۳۵)حاملہ اور بچّے کو دودھ پلانے والی عورت کو بھی حیض آنا ممکن ہے اور حاملہ اور غیر حاملہ کا حکم ایک ہی ہے۔ ہاں اگر حاملہ عورت اپنی عادت کے ایّام شروع ہونے کے بیس روز بعد حیض کی علامتوں کے ساتھ خون دیکھے تو اس کے لئے احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ ان کاموں کو ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجا لائے۔
(۴۳۶)اگر کسی ایسی لڑکی کو خون آئے جسے اپنی عمر کے نو سال پورے ہونے کا علم نہ ہو اور اس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں تو وہ حیض نہیں ہے اور اگر اس خون میں حیض کی علامات ہوں تو اس پر حیض کا حکم لگانا محل اشکال ہے۔ مگر یہ کہ اطمینان ہو جائے کہ یہ حیض ہے اور اس صورت میں یہ معلوم ہو جائے گا کہ اس کی عمر پورے نو سال ہو گئی ہے۔
(۴۳۷)جس عورت کو شک ہو کہ اس کی عمر ساٹھ سال ہو گئی ہے یا نہیں، اگر وہ خون دیکھے اور یہ نہ جانتی ہو کہ یہ حیض ہے یا نہیں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کی عمر ساٹھ سال نہیں ہوئی ہے۔
(۴۳۸)حیض کی مدت تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہیں ہوتی اور اگر خون آنے کی مدت تین دن سے ذرہ بھی کم ہو تو وہ حیض نہیں ہو گا۔
(۴۳۹)حیض کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تین دن لگاتار آئے۔ لہٰذا اگر مثال کے طور پر کسی عورت کو دو دن خون آئے پھر ایک دن نہ آئے اور پھر ایک دن آجائے تووہ حیض نہیں ہے۔
(۴۴۰)حیض کی ابتداء میں خون کا باہر آنا ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پورے تین دن خون نکلتا رہے بلکہ اگر شرمگاہ میں خون موجود ہو تو کافی ہے اور تین دنوں میں تھوڑے سے وقت کیلئے کوئی عورت پاک ہو بھی جائے جیسا کہ تمام یا بعض عورتوں کے درمیان متعارف ہے تب بھی وہ حیض ہے۔
(۴۴۱)ایک عورت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا خون پہلی رات اور چوتھی رات کو باہر نکلے لیکن یہ ضروری ہے کہ دوسری اور تیسری رات کو منقطع نہ ہو پس اگر پہلے دن صبح سویرے سے تیسرے دن غروب آفتاب تک متواتر خون آتا رہے اور کسی وقت بند نہ ہو تو وہ حیض ہے اور اگر پہلے دن دوپہر سے خون آنا شروع ہو اور چوتھے دن اسی وقت بند ہو تو اس کی صورت بھی یہی ہے (یعنی وہ بھی حیض ہے)۔
(۴۴۲اگر کسی عورت کو تین دن متواتر خون آتا رہے پھر وہ پاک ہو جائے۔ چنانچہ اگر وہ دوبارہ خون دیکھے تو جن دنوں میں وہ خون دیکھے اور جن دنوں میں وہ پاک ہو ان تمام دنوں کو ملا کر اگر دس دن سے زیادہ نہ ہوں تو جن دنوں میں وہ خون دیکھے وہ حیض کے دن ہیں لیکن احتیاط لازم کی بنا پر پاکی کے دنوں میں وہ ان تمام امور کو جو پاک عورت پر واجب ہیں انجام دے اور جو امور حائضہ پر حرام ہیں انہیں ترک کر دے۔
(۴۴۳)اگر کسی عورت کو تین دن سے زیادہ اور دس دن سے کم خون آئے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ خون پھوڑے یا زخم کا ہے یا حیض کا تو اسے چاہئے کہ اس خون کو حیض نہ سمجھے۔
(۴۴۴)اگر کسی عورت کو ایسا خون آئے جس کے بارے میں اسے علم نہ ہو کہ زخم کا خون ہے یا حیض کا تو ضروری ہے کہ اپنی عبادات بجا لاتی رہے۔ لیکن اگر اس کی سابقہ حالت حیض کی رہی ہو تو اس صورت میں اسے حیض قرار دے۔
(۴۴۵)اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے شک ہو کہ یہ خون حیض ہے یا استحاضہ ضروری ہے کہ حیض کی علامات موجود ہونے کی صورت میں اسے حیض قرار دے۔
(۴۴۶)اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ حیض ہے یا بکارت کا خون ہے تو ضروری ہے کہ اپنے بارے میں تحقیق کرے یعنی کچھ روئی شرمگاہ میں رکھے اور تھوڑی دیر انتظار کرے۔ پھر روئی باہر نکالے۔ پس اگر خون روئی کے اطراف میں لگا ہو تو خون بکارت ہے اور اگر ساری کی ساری روئی خون میں تر ہو جائے تو حیض ہے۔
(۴۴۷)اگر کسی عورت کو تین دن سے کم مدت تک خون آئے اور پھر بند ہو جائے اور پھر تین دن تک خون آئے تو دوسراخون حیض ہے اور پہلا خون خواہ وہ اس کی عادت کے دنوں ہی میں آیا ہو حیض نہیں ہے۔
حائض کے احکام
(۴۴۸)چند چیزیں حائض پر حرام ہیں:
۱)نماز اور اس جیسی دیگر عبادتیں جنہیں وضو، غسل یا تیمم کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر اس نیت سے انجام دے کہ صحیح عمل انجام دے رہی ہوں، جائز نہیں ہے۔ لیکن ان عبادتوں کے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں جن کے لئے وضو، غسل یا تیمم کرنا ضروری نہیں جیسے نماز میّت۔
۲) وہ تمام چیزیں جو مجنب پر حرام ہیں جن کا ذکر جنابت کے احکام میں آ چکا ہے۔
۳)عورت کی فرج میں جماع کرنا جو مرد اور عورت دونوں کے لئے حرام ہے خواہ دخول صرف سپاری کی حد تک ہی ہو اور منی بھی خارج نہ ہو بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ سپاری سے کم مقدار میں دخول نہ کیا جائے۔ البتہ یہ حکم عورت سے دبر میں مجامعت کے لئے نہیں لیکن دبر میں مجامعت، عورت کے راضی نہ ہونے کی صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر جائز نہیں ہے چاہے وہ حائض ہو یا نہ ہو۔
(۴۴۹)ان دنوں میں بھی جماع کرنا حرام ہے جن میں عورت کا حیض یقینی نہ ہو لیکن شرعاً اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو حائض قرار دے۔ پس جس عورت کو دس دن سے زیادہ خون آیا ہو اور اس کے لئے ضروری ہو کہ اس حکم کے مطابق جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا اپنے آپ کو اتنے دن کے لئے حائض قرار دے جتنے دن کی اس کے کنبے کی عورتوں کو عادت ہو تو اس کا شوہر ان دنوں میں مجامعت نہیں کر سکتا۔
(۴۵۰)اگر مرد اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں مجامعت کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ استغفار کرے اور کفارہ بھی دینا واجب نہیں ہے۔ اگرچہ بہتر ہے کہ کفارہ بھی دے۔
(۴۵۱)حائض سے مجامعت کے علاوہ دوسری لطف اندوزیوں مثلاً بوس وکنار کی ممانعت نہیں ہے۔
(۴۵۲)جیسا کہ طلاق کے حکام میں بتایا جائے گا عورت کو حیض کی حالت میں طلاق دینا باطل ہے۔
(۴۵۳)اگر عورت کہے کہ میں حائض ہوں یا یہ کہے کہ میں حیض سے پاک ہوں اور وہ غلط بیانی نہ کرتی ہو تو اس کی بات قبول کی جائے لیکن اگر غلط بیاں ہو تو اس کی بات قبول کرنے میں اشکال ہے۔
(۴۵۴)اگر کوئی عورت نماز کے دوران حائض ہو جائے تو بنا بر احتیاط واجب اس کی نماز باطل ہے چاہے یہ حیض آخری سجدے کے بعد اور سلام کے آخری حرف سے پہلے ہی آیا ہو۔
(۴۵۵)اگر عورت نماز کے دوران شک کرے کہ حائض ہوئی ہے یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر نماز کے بعد اسے پتا چلے کہ نماز کے دوران حائض ہو گئی تھی تو جیسا کہ پچھلے مسئلے میں بتایا گیا جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ باطل ہے۔
(۴۵۶)عورت کے حیض سے پاک ہو جانے کے بعد اس پر واجب ہے کہ نماز اور دوسری عبادات کے لئے جو وضو، غسل یا تیمم کر کے بجا لانا چاہئیں غسل کرے اور اس کا طریقہ غسل جناب کی طرح ہے۔ یہ غسل وضو کی جگہ کافی ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ غسل سے پہلے وضو بھی کرے۔
(۴۵۷)عورت کے حیض سے پاک ہو جانے کے بعد اگرچہ اس نے غسل نہ کیا ہو اسے طلاق دینا صحیح ہے اور اس کا شوہر اس سے جماع بھی کر سکتا ہے لیکن احتیاط لازم یہ ہے کہ جماع شرمگاہ دھونے کے بعد کیا جائے ۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے غسل کرنے سے پہلے مرد اس سے جماع نہ کرے۔ البتہ اس کے علاوہ دوسرے کا جو طہارت کی شرط کی وجہ سے اس پر حرام تھے جیسے قرآن کے حروف کو مس کرنا، جب تک غسل نہ کر لے اس پر حلال نہیں ہوتے بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر وہ کام بھی حلال ہوتے بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر وہ کام بھی حلال نہیں ہوتے جن کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ طہارت کی شرط کی وجہ سے حرام تھے جیسے مسجد میں ٹھہرنا۔
(۴۵۸)اگر پانی وضو اور غسل کے لئے کافی نہ ہو اور تقریباً اتنا ہو کہ اس سے غسل کر سکے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور بہتر یہ ہے کہ وضو کے بدلے تیمم کرے اور اگر پانی صرف وضو کے لئے کافی ہو اور اتنا نہ ہو کہ اس سے غسل کیا جا سکتے تو بہتر یہ ہے کہ وضو کرے اور غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے اور اگر دونوں میں سے کسی کے لئے بھی پانی نہ ہو تو غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے اور بہتر یہ ہے کہ وضو کے بدلے بھی تیمم کرے۔
(۴۵۹)جو نمازیں عورت نے حیض کی حالت میں نہ پڑھی ہوں ان کی قضا نہیں لیکن رمضان کے وہ روزے جو حیض کی حالت میں نہ رکھے ہوں ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے اور اسی طرح احتیاط لازم کی بنا پر جو روزے منت کی وجہ سے معین دنوں میں واجب ہوئے ہوں اور اس نے حیض کی حالت میں وہ روزے نہ رکھے ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے۔
(۴۶۰)جب نماز کا وقت آ جائے اور عورت کو معلوم ہو کہ اگر وہ نماز پڑھنے میں دیر کرے گی تو حائض ہو جائے گی تو ضروری ہے کہ فوراً نماز پڑھے اور اگر اسے فقط احتمال ہو کہ نماز میں تاخیر کرنے سے وہ حائض ہو جائے گی تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔
(۴۶۱)اگر عورت نماز پڑھنے میں تاخیر کرے اور اول وقت میں سے اتنا وقت گزر جائے جس میں ایک نماز تمام مقدمات جیسے کہ پاک لباس کا انتظام اور وضو، کے ساتھ انجام دی جا سکے اور پھر اسے حیض آ جائے تو اس نماز کی قضا اس عورت پر واجب ہے بلکہ اگر وقت آنے کے بعد اتنا وقت گزرا ہو کہ ایک نماز وضو یا غسل بلکہ تیمم کر کے پڑھ سکتی تھی اور نہ پڑھی ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے، چاہے وہ وقت اتنا کم تھا کہ جس میں دوسری شرائط حاصل نہیں کی جا سکتی تھیں۔ لیکن جلدی پڑھنے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور دوسری باتوں کے بارے میں ضروری ہے کہ اپنی کیفیت کے مطابق نماز پڑھے۔ مثلاً اگر ایک عورت جو سفر میں نہیں ہے اول وقت میں نماز ظہر نہ پڑھے تو اس کی قضا اس پر اس صورت میں واجب ہو گی جبکہ حدث سے طہارت حاصل کرنے کے بعد چار رکعت نماز پڑھنے کے برابر وقت اوّل ظہر سے گزر جائے اور وہ حائض ہو جائے اور اس عورت کے لئے جو سفر میں طہارت حاصل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کے برابر وقت گزر جانا بھی کافی ہے۔
(۴۶۲)اگر ایک عورت نماز کے آخر وقت میں خون سے پاک ہو جائے اور اس کے پاس اندازاً اتنا وقت ہو کہ غسل کر کے ایک یا ایک سے زائد رکعت پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے۔
(۴۶۳)اگر ایک حائض کے پاس (حیض سے پاک ہونے کے بعد) غسل کے لئے وقت نہ ہو لیکن تیمم کر کے نماز وقت کے اندر پڑھ سکتی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ نماز تیمم کے ساتھ پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو قضا کرے۔ لیکن اگر وقت کی تنگی سے قطع نظر کسی اور وجہ سے اس کا فریضہ ہی تیمم کرنا ہو۔ مثلاً اگر پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کر کے وہ نما پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے۔
(۴۶۴)اگر کسی عورت کو حیض سے پاک ہو جانے کے بعد شک ہو کہ نماز کے لئے وقت باقی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ نماز پڑھ لے۔
(۴۶۵)اگر کوئی عورت اس خیال سے نماز نہ پڑھے کہ حدث سے پاک ہونے کے بعد ایک رکعت نماز پڑھنے کے لئے بھی اس کے پاس وقت نہیں ہے لیکن بعد میں اسے پتا چلے کہ وقت تھا تو اس نماز کی قضا بجا لانا ضروری ہے۔
(۴۶۶)حائض کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے وقت اپنے آپ کو خون سے پاک کرے اور روئی اور کپڑے کا ٹکڑا بدلے اور وضو کرے اور اگر وضو نہ کر سکے تو تیمم کرے اور نماز کی جگہ پر رو بقبلہ بیٹھ کر ذکر ، دعا اور صلوٰت میں مشغول ہو جائے۔
(۴۶۷)حائض کے لئے قرآن مجید کا پڑھنا اور اسے اپنے ساتھ رکھنا اور اپنے بدن کا کوئی حصہ اس کے الفاظ کے درمیانی حصے سے مس کرنا نیز مہندی یا اس جیسی کسی اور چیز سے خضاب کرن بعض فقہاء کے قول کے مطابق مکروہ ہے۔
حائض کی قسمیں
(۴۶۸)حائض کی چھ قسمیں ہیں:
۱)وقت اور عدد کی عادت رکھنے والی عورت: یہ وہ عورت ہے جسے یکے بعد دیگر دو مہینوں میں ایک معین وقت پر حیض آئے اور اس کے حیض کے دنوں کی تعداد بھی دونوں مہینوں میں ایک جیسی ہو۔ مثلاً اسے یکے بعد دیگر دو مہینوں میں مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک خون آئے۔
۲)وقت کی عادت رکھنے والی عورت: یہ وہ عورت ہے جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر حیض آئے لیکن اس کے حیض کے دنوں کی تعداد دونوں مہینوں، میں ایک جیسی نہ ہو۔مثلاً یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں اسے مہینے کی پہلی تاریخ سے خون آنا شروع ہو لیکن وہ پہلے مہینے میں ساتویں دن اور دوسرے مہینے میں آٹھویں دن خون سے پاک ہو۔
۳)عدد کی عادت رکھنے والی عورت: یہ وہ عورت ہے جس کے حیض کے دنوں کی تعداد یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں ایک جیسی ہو لیکن ہو مہینے خون آنے کا وقت یکساں نہ ہو۔ مثلاً پہلے مہینے میں اسے پانچویں سے دسویں تاریخ تک اور دوسرے مہینے میں بارہویں سے سترہویں تاریخ تک خون آئے۔
۴)مضطربہ: یہ وہ عورت ہے جسے چند مہینے خون آیا ہو لیکن اس کی عادت معین نہ ہوئی ہو یا اس کی سابقہ عادت بگڑ گئی ہو اور نئی عادت نہ بنی ہو۔
۵)مبتدیہٴ: یہ وہ عورت ہے جسے پہلی دفعہ خون آیا ہو۔
۶)ناسیہ: یہ وہ عورت ہے جو اپنی عادت بھول چکی ہو۔
ان میں سے ہر قسم کی عورت کے لئے علیٰحدہ علیٰحدہ احکام ہیں جن کا ذکر آئندہ مسائل میں کیا جائے گا۔
۱۔وقت اور عدد کی عادت رکھنے والی عورت
(۴۶۹)جو عورتیں وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں:
۱)وہ عورت جسے یکے بعد دیگر دو مہینوں میں ایک معین وقت پر خون آئے اور وہ ایک معین وقت پر ہی پاک بھی ہو جائے مثلاً یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں اسے مہینے کی پہلی تاریخ کو خون آئے اور وہ ساتویں روز پاک ہو جائے تو اس عورت کی حیض کی عادت مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک ہے۔
۲)وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر خون آئے اور جب تین یا زیادہ دن خون آ چکے تو وہ ایک یا زیادہ دنوں کے لئے پاک ہو جائے اور پھر اسے دوبارہ خون آ جائے اور ان تمام دنوں کی تعداد جن میں اسے خون آیا ہے، بشمول ان درمیانی دنوں کے جن میں وہ پاک رہی ہے دس سے زیادہ نہ ہو اور دونوں مہینوں میں تمام دن اسے خون آیا اور بیچ کے وہ دن جن میں پاک رہی ہو ایک جتنے ہوں تو اس کی عادت ان تمام دنوں کے مطابق قرار پائے گی جن میں اسے خون آیا لیکن ان دنوں کو شامل نہیں کر سکتی جن کے درمیان پاک رہی ہو ۔پس لازم ہے کہ جن دنوں میں اسے خون آیا ہو اور جن دنوں میں وہ پاک رہی ہو دونوں مہینوں میں ان دنوں کی تعداد ایک جتنی ہو مثلاً اگر پہلے مہینے میں اور اسی طرح دوسرے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے تیسری تاریخ تک خون آئے اور پھر تین دن پاک رہے اور پھر تین دن دوبارہ خون آئے تو اس عورت کی عادت چھ متفرق دن کی ہو جائے گی اور درمیان کی طہارت والے تین دنوں میں احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ حائض پر جو کام حرام ہیں انہیں ترک کر دے اور مستحاضہ کے اعمال کو انجام دے۔ ہاں اگر اسے دوسرے مہینے میں آنے والے خون کے دنوں کی تعداد اس سے کم یا زیادہ ہو تو یہ عورت وقت کی عادت رکھتی ہے عدد کی نہیں۔
(۴۷۰)جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہو خواہ عدد کی عادت رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو اگر اسے عادت کے وقت یا اس سے ایک دو دن یا اس سے بھی کچھ دن پہلے خون آ جائے جبکہ یہ کہا جائے کہ اس کی عادت وقت سے قبل ہو گئی ہے اگر اس خون میں حیض کی علامات نہ بھی ہوں تب بھی ضروری ہے کہ ان احکام پر عمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ اور اگر بعد میں اسے پتا چلے کہ وہ حیض کا خون نہیں تھا مثلاً وہ تین دن سے پہلے پاک ہو جائے تو ضروری ہے کہ جو عبادات اس نے انجام نہ دی ہوں ان کی قضا کرے۔
(۴۷۱)جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے عادت کے تمام دنوں میں اور عادت سے چند دن پہلے اور عادت کے چند دن بعد خون آئے اور وہ کل ملا کر دس دن سے زیادہ نہ ہوں تو وہ سارے کا سارا حیض ہے اور اگر یہ مدت دس دن سے بڑھ جائے تو جو خون اسے عادت کے دنو ں میں آیا ہے وہ حیض ہے اور جو عادت سے پہلے یا بعد میں آیا ہے وہ استحاضہ ہے اور جو عبادات وہ عادت سے پہلے اور بعد کے دنوں میں بجا نہیں لائی ان کی قضا کرنا ضروری ہے اور اگر عادت کے تمام دنوں میں اور ساتھ ہی عادت سے کچھ دن پہلے اسے خون آئے اور ان سب دنوں کو ملا کر ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو تو سارا حیض ہے اور اگر دنوں کی تعداد دس سے زیادہ ہو جائے تو صرف عادت کے دنوں میں آنے والا خون حیض ہے اگرچہ اس میں حیض کی علامات نہ ہوں اور اس سے پہلے آنے والا خون حیض کی علامات کے ساتھ ہو اور جو خون اس سے پہلے آئے وہ استحاضہ ہے اور اگر ان دنوں میں عبادت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور اگر عادت کے تمام دنوں میں اور ساتھ ہی عادت کے چند دنوں بعد خون آئے اور کل دنوں کی تعدادملا کر دس سے زیادہ نہ ہو تو سارے کا سارا حیض ہے اور اگر یہ تعداد دس سے بڑھ جائے تو صرف عادت کے دنوں میں آنے والا خون حیض ہے اور باقی استحاضہ ہے۔
(۴۷۲)جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو، اگر اسے عادت کے کچھ دن اور کچھ عادت سے پہلے خون آئے اور ان تمام دنوں کو ملا کر ان کی تعداد دس سے زیادہ ہو تو وہ سارے کا سارا حیض ہے اور اگر ان دنوں کی تعداد دس سے بڑھ جائے تو جن دنوں میں اسے حسبِ عادت خون آیا ہے اور پہلے کے چند دن شامل کر کے عادت کے دنوں کی تعداد پوری ہونے تک حیض اور شروع کے دنوں کو استحاضہ قرار دے اور اگر عادت کے کچھ دنوں کے ساتھ ساتھ عادت کے بعد کچھ دنوں میں خون آئے اور ان سب دنوں کو ملا کر ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو تو سارے کا سارا حیض ہے اور دس سے بڑھ جائے تو اسے چاہئے کہ جن دنوں میں عادت کے مطابق خون آیا ہے اس میں بعد کے چند دن ملا کر جن دنوں کی مجموعی تعداد اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہو جائے انہیں حیض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔
(۴۷۳)جو عورت عادت رکھتی ہو اگر اس کا خون تین یا زیادہ دن تک آنے کے رُک جائے اور پھر دوبارہ خون آئے اور ان دنوں خون کا درمیانی فاصلہ دس دن سے کم ہو اور ان سب دنوں کی تعداد جن میں خون آیا ہے بشمول ان درمیانی دنوں کے جن میں پاک رہی ہو دس سے زیادہ سے ہو۔ مثلاً پانچ دن خون آیا ہو پھر پانچ دن رُک گیا ہو اور پھر پانچ دن دوبارہ آیا ہو تو اس کی چند صورتیں ہیں:
۱)وہ تمام خون یا اس کی کچھ مقدار جو پہلی بار دیکھے عادت کے دنوں میں ہو اور دوسرا خون جو پاک ہونے کے بعد آیا ہے عادت کے دنوں میں نہ ہو۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے تمام خون کو حیض اور دوسرے خون کو استحاضہ قرار دے سوائے اس کے کہ دوسرے خون میں حیض کی علامات موجود ہوں کہ اس صورت میں دوسرے خون کی اتنی مقدار جو پہلے خون اور درمیان کی پاکی کے ایّام سے مل کر دس دن سے زیادہ نہ ہوتی ہو، حیض اور باقی سب استحاضہ ہے۔ مثلاً اگر تین دن خون دیکھے، خون کے تین دن اور دوسرے خون کے ابتدائی چار دن حیض ہیں اور درمیان کے طہارت کے ایام کے لئے احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ حائض کے محرمات سے بچے اور غیر حائض کے واجبات پر عمل کرے۔
۲)پہلا خون عادت کے دنوں میں نہ آئے اور دوسرا تمام خون یا اس کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے تو ضروری ہے کہ دوسرے تمام خون کو حیض اور پہلے کو استحاضہ قرار دے۔
۳)پہلے اور دوسرے خون کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے اور ایّام عادت میں آنے والا پہلا خون تین دن سے کم نہ ہو اس صورت میں وہ مدّت بمع درمیان میں پاک رہنے کی مدت اور عادت کے دنوں میں میں آنے والے دوسر ے خون کی مدت دس دن سے زیادہ نہ ہو تو دونوں خون حیض ہیں اور احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ پاکی کی مدت میں پاک عورت کے کام بھی انجام دے اور وہ کام جو حائض پر حرام ہیں ترک کرے۔ دوسرے خون کی وہ مقدار جو عادت کے دنوں کے بعد آئے استحاضہ ہے۔ خون اول کی وہ مقدار جو ایام عادت سے پہلے آئی ہو اور عرفاً کہا جائے کہ اس کی عادت وقت سے قبل ہو گئی ہے تو وہ خون، حیض کا حکم رکھتا ہے۔ لیکن اگر اس خون پر حیض کا حکم لگانے سے دوسرے خون کی بھی کچھ مقدار جو عادت کے دنوں میں تھی یا سارے کا سارا خون، حیض کے دس دن سے زیادہ ہو جائے تو اس صورت میں وہ خون، خون استحاضہ کا حکم رکھتا ہے۔ مثلاً اگر عورت کی عادت مہینے کی تیسری سے دسویں تاریخ تک ہو اور اسے کسی مہینے کی پہلی سے چھٹی تاریخ تک خون آئے اور پھر وہ دو دن کے لئے بند ہو جائے اور پھر پندرہویں تاریخ تک آنے والا خون استحاضہ ہے۔
۴)پہلے اور دوسرے خون کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے لیکن پہلے خون میں ایّام عادت میں آنے والے خون کی مقدار تین دن سے کم ہو۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے خون کے آخری تین دن ،درمیان میں پاکی کے دن اور دوسرے خون کے اتنے دنوں کو حیض قرار دے جو سب مل کر دس دن بنتے ہوں اور اس کے بعد والے سارے خون کو استحاضہ قرار دے۔ لہٰذا اگر پاکی کے ایّام سات دن ہوں تو دوسرا خون سارا کا سارا استحاضہ ہو گا۔ البتہ دو شرائط کے ساتھ ضروری ہے کہ پہلے آنے والے پورے خون کو حیض قرار دے:
(i) اسے اپنی عادت سے کچھ دن پہلے خون آیا ہو کہ اس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس کی عادت تبدیل ہو کر وقت سے پہلے ہو گئی ہے۔
(ii) وہ اسے حیض قرار دے تو یہ لازم نہ آئے کہ اس کے دوسرے خون کی کچھ مقدار جو کہ عادت کے دنوں میں آیا ہو حیض کے دس دن سے باہر ہو جائے۔ مثلاً اگر عورت کی عادت مہینے کی چوتھی تاریخ سے دس تاریخ تک تھی اور اسے مہینے کے پہلے دن سے چوتھے دن کے آخری وقت تک خون آئے اور دو دن کے لئے پاک ہو اور پھر دوبارہ اسے پندرہ تاریخ تک خون آئے تو اس صورت میں پہلا پورے کا پورا خون حیض ہے اور اسی طرح دوسرا وہ خون بھی جو دسویں دن کے آخری وقت تک آئے حیض کا خون ہے۔
(۴۷۴)جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے عادت کے وقت خون نہ آئے بلکہ اس کے علاوہ کسی اور وقت حیض کے دنوں کی تعداد میں خون آئے تو ضروری ہے کہ اسی کوحیض قرار دے خواہ وہ عادت کے وقت سے پہلے آئے یا بعد میں آئے۔
(۴۷۵)جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اور اسے عادت کے وقت تین یا تین سے زیادہ دن تک خون آئے لیکن اس کے دنوں کی تعداد اس کی عادت کے دنوں سے کم یا زیادہ ہو اور پاک ہونے کے بعد اسے دوبارہ اتنے دنوں کے لئے خون آئے جتنی اس کی عادت ہو تو اس کی چند صورتیں ہیں:
۱)دونوں خون کے دنوں اور ان کے درمیان پاک رہنے کے دنوں کو ملا کر دس دن سے زیادہ نہ ہوں تو اس صورت میں دونوں خون ایک حیض شمار ہوں گے۔
۲)دونوں خون کے درمیان پاک رہنے کی مدت دس دن یا دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں دونوں خون میں سے ہر ایک مستقل حیض قرار دیا جائے گا۔
۳)ان دونوں خون کے درمیان پاک رہنے کی مدت دس دن سے کم ہو جب کہ یہ دونوں خون اور درمیان میں پاک رہنے کی ساری مدت مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے آنے والے خون کو حیض اور دوسرے خون کو استحاضہ قرار دے۔
(۴۷۶)جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے دس سے زیادہ دن تک خون آئے تو جو خون اسے عادت کے دنوں میں آئے خواہ وہ حیض کی علامات نہ بھی رکھتا ہو تب بھی حیض اور جو خون عادت کے دنوں کے بعد آئے خواہ وہ حیض کی علامات بھی رکھتا ہو استحاضہ ہے۔ مثلاً اگر ایک ایسی عورت جس کی حیض کی عادت مہینے کی پہلی سے ساتویں تاریخ تک ہو اسے پہلی سے ساتویں تاریخ تک ہواسے پہلی سے بارہویں تک خون آئے تو پہلے سات دن حیض اور بقیہ پانچ دن استحاضہ کے ہوں گے۔
۲۔ وقت کی عادت رکھنے والی عورت
(۴۷۷)جو عورتیں وقت کی عادت رکھتی ہیں اور ان کی عادت کی پہلی تاریخ معین ہو ان کی دو قسمیں ہیں:
۱)وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر خون آئے اور چند دنوں بعد بند ہو جائے لیکن دونوں مہینوں میں خون آنے کے دنوں کی تعداد مختلف ہو۔ مثلاً اسے یکے بعد دیگر دو مہینوں کی پہلی تاریخ کو خون آئے لیکن پہلے مہینے میں ساتویں دن اور دوسرے میں آٹھویں دن بند ہو۔ ایسی عورت کو چاہئے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کو اپنی عادت قرار دے۔
۲)وہ عورت جسے یکے بعد دیگر دو مہینوں میں معین وقت پر تین یا زیادہ دن تک خون آئے اور پھر کچھ دن پاک ہونے کے بعد دوبارہ خون آئے اور ان تمام دنوں کی تعداد جن میں خون آیا ہے مع ان درمیانی دنوں کے جن میں خون بند رہا ہے دس سے زیادہ نہ ہو لیکن دوسرے مہینے میں دنوں کی تعداد پہلے سے کم یا زیادہ ہو مثلاً پہلے مہینے میں آٹھ دن اور دوسرے مہینے میں نو دن بنتے ہوں جبکہ دونوں مہینوں میں پہلی تاریخ سے ہی خون شروع ہوا ہو تو اس عورت کو بھی چاہئے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کو اپنی حیض کی عادت کا پہلا دن قرار دے۔
(۴۷۸)وہ عورت جو وقت کی عادرت رکھتی ہے اگر اس کو عادت کے دنوں میں یا عادت سے دو تین دن پہلے خون آئے تو ضروری ہے کہ و ہ عورت ان احکام پر عمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں اور اس صورت کی تفصیل مسئلہ ۴۷۰ میں گزر چکی ہے۔ لیکن ان دو صورتوں کے علاوہ مثلاً یہ کہ عادت سے اس قدر پہلے خون آئے کہ یہ نہ کہا جا سکے کہ عادت وقت سے قبل ہو گئی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ عادت کے ایام سے ہٹ کر خون آیا ہے یا یہ کہا جائے کہ عادت کے بعد خون آیا ہے۔ چنانچہ وہ خون حیض کی علامات کے ساتھ آئے تو ضروری ہے کہ ان احکام پر عمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ اسی طرح اگر اس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں لیکن وہ عورت یہ جانتی ہو کہ خون تین دن تک جاری رہے گا تب بھی یہی حکم ہے۔ اگر یہ نہ جانتی ہو کہ خون تین دن تک جاری رہے گا یا نہیں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ کام جو مستحاضہ پر واجب ہیں انجام دے اور وہ کام جو حائض پر حرام ہیں ترک کرے۔
(۴۷۹)جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہے اگر اسے عادت کے دنوں میں خون آئے اور اس خون کی مدت دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں کہ چند دنوں تک خون میں علامات حیض ہوں اور چند دن نہ ہوں اور علامات والے دنوں کی تعداد تین دن سے زیادہ اور دس دن سے کم ہو تو اس تعداد کو حیض اور باقی کو استحاضہ کی علامات قرار دے۔ اگر علامتوں والا خون دو مرتبہ آئے مثلاً پہلے چار دن حیض کی علامات والا خون، پھر چار دن استحاضہ کی علامات والا اور پھر چار دن حیض کی علامات والا خون آئے تو صرف پہلے خون کو حیض اور باقی سب کو استحاضہ قرار دے۔ اگر حیض کی علامات والا خون تین دن سے کم ہو تو اتنی تعداد کو حیض قرار دے کر حیض کے دنوں کی تعداد بعد میں آنے والے دو میں سے ایک طریقے (نزدیکی خواتین سے رجوع یا عدد کا انتخاب) سے معین کرے جبکہ اگر حیض کی علامات والا خون دس دن سے زیادہ ہو تو انہیں دو طریقوں میں سے کسی ایک کے ذریعے حیض کے دنوں کو معین کر لے۔ اگر اس کے لئے علامات حیض کے ذریعے مدت معین کرنا ممکن نہ ہو یعنی اس کا سار ا خون ایک جیسا ہو یا علامات والا کون تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ ہو تو اسے چائے کہ اپنے رشتہ داروں میں سے بعض عورتوں کی عادت کے مطابق حیض قرار دے۔ چاہے وہ رشتہ ماں کی طرف سے ہو یا باپ کی طرف سے زندہ ہو یا مُردہ لیکن اس کی دو شرطیں ہیں:
۱)اسے اپنے حیض کی مقدار اور اس رشتہ دار عورت کی عادت کی مقدار میں فرق کا علم نہ ہو مثلاً یہ کہ وہ خود نوجوان ہو اور طاقت کے لئے سے قوی اور دوسری عورت عمر کے لحاظ سے یائسہ ہونے کے نزدیک ہو جبکہ معمولاً عادت کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ خود عمر کے لحاظ سے یائسہ کے نزدیک ہو اور رشتہ دار عورت نوجوان ہو یا ایسی عورت ہو جو ناقص عادت والی ہو جس کے معنی اور احکام مسئلہ ۴۸۹ میں بیان کئے جائیں گے۔
۲)اسے اس عورت کی عادت کی مقدار میں اور اس کی دوسری رشتہ دار عورتوں کی عادت کی مقدار میں کہ جن میں پہلی شرط موجود ہے اختلافات کا علم نہ ہولیکن اگر اختلاف اتنا کم ہو کہ اسے اختلاف شمار نہ کیا جاتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اس عورت کے لئے بھی یہی حکم ہے جو وقت کی عادت رکھتی ہے اور عادت کے دنوں میں خون ہی نہ آئے لیکن عادت کے وقت کے علاوہ کوئی خون آئے جو دس دن سے زیادہ ہو اور حیض کی مقدار کو نشانیوں کے ذریعے معین نہ کر سکے۔
(۴۸۰)وقت کی عادت رکھنے والی عورت اپنی عادت کے علاوہ وقت میں آنے والے خون کو حیض قرار نہیں دے سکتی، لہٰذا اگر اسے عادت کا ابتدائی وقت معلوم ہو مثلاً ہر مہینے کی پہلی کو خون آتا ہو اور کبھی پانچویں اور کبھی چھٹی کو خون سے پاک ہوتی ہو چنانچہ اسے کسی ایک مہینے میں بارہ دن خون آئے اور وہ حیض کی نشانیوں کے ذریعے اس کی مدت معین نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ مہینے کی پہلی کو حیض کی پہلی تاریخ قرار دے اور اس کی تعداد کے بارے میں جو کچھ پچھلے مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے اس پر عمل کرے۔ اگر اس کی عادت کی درمیانی یا آخری تاریخ میں سے ایک اس کی عادت کے دنوں کے مطابق ہو۔
(۴۸۱)جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہو اور اسے دس دن سے زیادہ خون آئے اور اس خون کو مسئلہ ۴۷۹ میں بتائے گئے طریقے سے معین نہ کر سکے تو اسے اختیار ہے کہ تین دن سے دس دن تک جتنے دن حیض کی مقدار کے مناسب سمجھے حیض قرار دے۔ بہتر یہ ہے کہ سات دنوں کو حیض قرار دے۔ لیکن ضروری ہے کہ جن دنوں کو وہ حیض قرار دے وہ دن اس کی عادت کے وقت کے مطابق جیسا کہ پچھلے مسئلے میں بیان کیا جا چکا ہے۔
۳۔ عدد کی عادت رکھنے والی عورت
(۴۸۲)جو عورتیں عدد کی عادت رکھتی ہیں کی دو قسمیں ہیں:
۱)وہ عورت جس کے حیض کے دنوں کی تعداد یکے بعد دیگر دو مہینوں میں یکساں ہو لیکن اس کے خون آنے کا وقت ایک نہ ہو اس صورت میں جتنے دن اُسے خون آئے وہی اس کی عادت ہو گی۔ مثلاً اگر پہلے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے پانچویں تاریخ تک اور دوسرے مہینے میں گیارہویں سے پندرہویں تاریخ تک خون آئے تو اس کی عادت پانچ دن ہو گی۔
۲)وہ عورت جسے یکے بعد دیگر دو مہینوں میں سے ہر ایک تین یا تین سے زیادہ دنوں تک خون آئے اور ایک یا اس سے زائد دنوں کے لئے بند ہو جائے اور پھر دوبارہ خون آئے اور خون آنے کا وقت پہلے مہینے میں مختلف ہو اس صورت میں اگر ان تمام دنوں کی تعداد جن میں خون آیا ہے بمعہ ان درمیانی دنوں کے جن میں خون بند رہا ہے دس سے زیادہ نہ ہو اور دونوں مہینوں میں سے ہر ایک میں ان کی تعداد بھی یکساں ہو تو وہ تمام دن جن میں خون آیا ہے اس کے حیض کی عادت کے دن شمار کئے جائیں گے اور ان درمیانی دنوں میں جن میں خون نہیں آیا ہے اس کے حیض کی عادت کے دن شمار کئے جائیں گے اور ان درمیانی دنوں میں جن میں خون نہیں آیا ضروری ہے کہ احتیاط کرتے ہوئے جو کام پاک عورت پر واجب ہیں انجام دے اور جو کام حائض پر حرام ہیں ترک کرے۔ مثلاً اگر پہلے مہینے میں اسے پہلی تایخ سے تیسری تاریخ تک خون آئے اور دو دن کیلئے بند ہو جائے اور پھر دوبارہ تین دن خون آئے اور دوسرے مہینے میں گیارہویں تاریخ سے تیرہویں تک بند ہو جائے اور پھر دوبارہ تین دن خون آئے اور دوسر ے مہینے میں گیارہویں تاریخ سے تیرہویں تک خون آئے اور دو دن کے لئے بند ہو جائے اور پھر دوبارہ تین دن خون آئے تو اس عورت کی عادت چھ دن کی ہو گی۔ اگر پہلے مہینے میں سے آٹھ دن خون آئے اور دوسرے مہینے میں چار دن خون آئے اور پھر بند ہو جائے اور پھر دوبارہ آئے اور خون کے دنوں اور درمیان میں خون بند ہو جانے والیے دنوں کی مجموعی تعداد آٹھ دن ہو تو یہ عورت عدد کی عادت نہیں رکھتی بلکہ مضطربہ شمار ہو گی جس کا حکم بعد میں بیان کیا جائے گا۔
(۴۸۳)جو عورت عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے اپنی عادت کی تعداد سے کم یا زیادہ خون آئے اور ان دنوں کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو تو ان تمام دنوں کو حیض قرار دے۔ اگر اس کی عادت سے زیادہ خون آئے اور دس دن سے تجاوز کر جائے تو اگر تمام خون ایک جیسا ہو تو خون آنے کی ابتداء سے لے کر اس کی عادت کے دنوں تک حیض اور باقی خون کا استحاضہ کی علامات کے ساتھ ہو پس اگر حیض کی علامات کے ساتھ آنے والے خون کے دنوں کی تعداد اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ ان دنون کو حیض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر ان دنوں کی تعداد جن میں خون حیض کی علامات کے ساتھ آیا ہو عادت کے دنوں سے زیادہ ہو تو صرف عادت کے دن حیض اور باقی دن استحاضہ ہے اور اگر حیض کی علامات کے ساتھ آنے والے خون کے دنوں کی تعداد عادت کے دنوں سے کم ہو تو ضروری ہے کہ ان دنوں کے ساتھ چند اور دنو ں کو ملا کر عادت کی مدت پوری کرے اور ان کو حیض اور باقی دنون کو استحاضہ قرار دے۔
۴۔ مضطربہ
(۴۸۴)مضطربہ یعنی وہ عورت جسے دو ماہ خون آئے لیکن وقت اور عدد دونوں کے لحاظ سے اس کی عادت معین نہ ہوئی ہو اگر اسے دس دن سے زیادہ خون آئے اور سارا خون ایک جیسا ہو مثلاً تمام خون یا حیض کی نشانیوں کے ساتھ یا استحاضہ کی نشانیوں کے ساتھ آیا ہو تو اس کا حکم وقت کی عادت رکھنے والی عورت کا حکم ہے جسے اپنی عادت کے علاوہ وقت میں خون آئے اور علامات کے ذریعے حیض کو استحاضہ سے تمیز نہ دے سکتی ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ داری عورتوں میں سے بعض عورتوں کی عادت کے مطابق حیض قرار دے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو تین سے دس دن میں سے کسی ایک عدد کو اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ ۴۷۹ اور ۴۸۱ کی ابتداء میں بیان کی گئی ہے اپنے حیض کی عادت قرار دے۔
(۴۸۵) اگر مضطربہ کو دس دن سے زیادہ خون آئے جس میں چند دنوں کے خون میں حیض کی علامات اور چند دوسرے دنوں کے خون میں استحاضہ کی علامات ہوں تو ضروری ہے کہ مسئلہ ۴۷۹ کی ابتداء میں بیان کیے گئے حکم کے مطابق عمل کرے۔
۵۔ مبتدیہ ٴ
(۴۸۶)مبتدیہٴ یعنی اس عورت کو جسے پہلی بار خون آیا ہو اگر دس دن سے زیادہ خون آئے اور وہ تمام خون ایک جیسا ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے کنبے والیوں کی عادت کی مقدار کو حیض اور باقی کو ان دو شرطوں کے ساتھ استحاضہ قرار دے جو مسئلہ ۴۷۹ میں بیان ہوئی ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ مسئلہ ۴۸۱ میں دی گئی تفصیل کے مطابق تین سے دس دن میں سے کسی ایک عدد کو اپنے حیض کے دن قرار دے ۔
(۴۸۷) اگر مبتدیہ کو دس دن سے زیادہ دن تک خون آئے جبکہ چند دن آنے والے خون میں حیض کی علامات اور چند دن آنے والے خون میں استحاضہ کی علامات ہوں تو جس خون میں حیض کی علامات ہوں اگر وہ تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ ن ہو سارا حیض ہے۔ لیکن جس خون میں حیض کی علامات تھیں اس کے بعد دس دن گزرنے سے پہلے دوبارہ خون آئے اور اس میں بھی حیض کی علامات ہوں مثلاً پانچ دن سیاہ خون اور نو دن زرد خون اور پھر دوبارہ پانچ دن سیاہ خون آئے تو اسے چاہئے کہ پہلے آنے والے خون کو حیض اور بعدمیں آنے والے دونوں خون کو استحاضہ قرار دے جیسا کہ مضطربہ کے متعلق بتایا گیا ہے۔
(۴۸۸)اگر مبتدیہٴ کو دس سے زیادہ دنوں تک خون آئے جو چند دن حیض کی علامات کے ساتھ اور چند دن استحاضہ کی علامت کے ساتھ ہو لیکن جس خون میں حیض کی علامات ہوں وہ تین دن سے کم یا دس دنوں سے زیادہ مدت تک آیا ہو تو ضروری ہے کہ مسئلہ ۴۷۹ کی ابتداء میں بتائے گئے طریقے کے مطابق عمل کرے۔
۶۔ ناسیہ
(۴۸۹)ناسیہ یعنی وہ عورت جو اپنی عادت کی مقدار، ایام یا دونوں کو بھول چکی ہو۔ ایسی عورت اگر خون دیکھے جس کی مدت تین دن سے کم اور دس دنوں سے زیادہ نہ ہو تو سارا حیض ہے ، لیکن اگر اس خون کی مقدار دس دنوں سے زیادہ ہو تو اس کی چند قسمیں ہیں:
۱)اس کی عادت عدد، وقت یا دونوں کی تھی اور اپنی عادت کو اس طرح بھول چکی ہو کہ اجمالی طور پر بھی اسے وقت یا عدد یا د نہ رہا ہو ایسی عورت مبتدیہٴ کا حکم رکھتی ہے جس کا تذکرہ ہو چکا ہے۔
۲)اس کی عادت وقت کی تو تھی تو ہی ، اب چاہے عدد کی عادت تھی یا نہ تھی لیکن، اپنی وقت کی عادت سے اسے اجمالی طور پر وقت یاد ہے۔ مثلاً اسے اتنا یاد ہے کہ فلاں دن اس کی عادت کا دن تھا یا یہ کہ اس کی عادت مہینے کے ابتدائی پندرہ دنوں میں ہوتی تھی، یہ عورت بھی مبتدیہٴ کا حکم رکھتی ہے لیکن وہ ان ایام کو حیض کے ایام قرار نہیں دے سکتی جو یقینا اُس کی عادت کے ایام کے برخلاف ہیں۔ مثلاً اگر اسے معلوم ہو کہ مہینے کا سترہواں دن اس کی عادت کا ہوتا تھا یا یہ معلوم ہو کہ اس کی عادت کے ایام مہینے کے دوسرے پندرہ دنوں میں ہوتے تھے اور وہ عورت مہینے کی پہلی تاریخ سے بیس تاریخ تک خون دیکھے تو چاہے ابتدائی دس دنوں میں حیض کی علامات ہوں اور دوسرے دس دنوں میں استحاضہ کی علامات ہوں ، وہ پہلے دن دنوں کو ایام حیض قرار نہیں دے سکتی۔
۳)اس کی عادت عدد کی عادت تھی اور اب اسے بھول چکی ہے۔ یہ عورت بھی مبتدیہٴ کا حکم رکھتی ہے لیکن ضروری ہے کہ جس مقدار کے بارے میں اسے یقین ہے کہ اس کی عادت کے ایام اس سے کم نہیں تھے اس سے کم دنوں کو اپنے حیض کے ایام قرار نہ دے۔ اسی طرح ان ایام سے زیادہ مقدار کو بھی حیض قرار نہیں دے سکتی جن کے بارے میں اسے یقین ہے کہ اس کی عادت کے ایام اس مقدار سے زیادہ نہیں تھے۔
اسی طرح کا کا حکم اس عورت کے لئے بھی ہے جو ناقص عدد کی عادت رکھتی ہے یعنی ایسی عورت جو ہر مہینے دو میں سے ایک مقدار میں خون دیکھتی ہے جو بہرحال تین دنوں سے زیادہ اور دس دنوں سے کم ہے۔ مثلاً ایسی عورت ہے جو ہر مہینے یا چھ دن خون دیکھتی ہے یا سات دن، تو وہ حیض کی علامات یا اپنے خاندان کی بعض خواتین کی عادت کے مطابق یا دس دنوں سے زیادہ خون آجانے کی صورت میں کسی عدد کو اختیار کرتے ہوئے چھ دن سے کم یا سات دنوں سے زیادہ کو حیض قرار نہیں دے سکتی۔
نفاس
(۴۹۸)بچّے کا پہلا جزو ماں کے پیٹ سے باہر آنے کے وقت سے دس دن تک جو خون عورت کو آئے وہ خون نفاس ہے اور نفاس کی حالت میں عورت کو نفساء کہتے ہیں۔
(۴۹۹)جو خون عورت کو بچے کا پہلا جزو باہر آنے سے پہلے آئے وہ نفاس نہیں ہے۔
(۵۰۰)یہ ضروری نہیں ہے کہ بچے کی خلفت مکمل ہو بلکہ اگر اس کی خلقت نامکمل ہو لیکن علقہ یعنی خون کا لوتھڑا یا مضفہ یعنی گوشت کا ٹکڑا ہونے کی حالت سے گزر چکا ہو اور پھر گِر جائے تو بھی جو خون دس دن تک آئے خون نفاس ہے۔
(۵۰۱)یہ ہو سکتا ہے کہ خون نفاس ایک لحظہ سے زیادہ نہ آئے لیکن دس دنوں کے بعد آنے والے خون کو نفا س نہیں کہتے۔
(۵۰۲)اگر کسی عورت کو شک ہو کہ اسقاط ہوا ہے یا نہیں یا جو اسقاط ہوا وہ بچہ تھا یا نہیں تو اس کے لئے تحقیق کرنا ضروری نہیں اور جو خون اسے آئے وہ شرعاً نفاس نہیں ہے۔
(۵۰۳)جو کچھ حائض پر واجب ہے وہ نفساء پر بھی واجب ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر مسجد میں ٹھہرنا یا مسجد میں داخل ہونا جبکہ عبور نہ کرنا ہو یا مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں داخل ہونا چاہئے عبور کرنے کے لئے ہو، قرآن کی واجب سجدے والی آیات کی تلاوت کرنا اور قرآن کے الفاظ یا خدا کے نام سے بدن کا کوئی حصہ مَس کرنا نفساء پر حرام ہے۔
(۵۰۴)جو عورت نفاس کی حالت میں ہو اسے طلاق دینا اور اس سے جماع کرنا حرام ہے لیکن اس پر کوئی کفارہ نہیں ۔
(۵۰۵)جو عوررت کی عدد کی عادت نہ رکھتی ہو اگر اسے دس دن سے زیادہ خون نہ آئے تو سارا نفاس ہے لہٰذا اگر وہ دس دن سے پہلے پاک ہو جائے تو اسے چاہئے کہ غسل کرے اور اپنی عبادات بجا لائے اور اگر بعد میں ایک یا ایک بار سے زیادہ خون آئے تو خون آنے والے دنوں کو پاک رہنے والے دنوں سے ملا کر اگر دس دن یا اس سے کم ہو تو سارے کا سارا خون نفاس ہے۔ اور ضروری ہے کہ درمیان میں پاک رہنے کے دنوں میں احتیاط کرتے ہوئے جو کام پاک عورت پر واجب ہیں وہ انجام دے اور جو کام نفساء پر حرام ہیں انہیں ترک کرے لہٰذا اگر ان دنوں میں کوئی روزہ رکھا ہو تو ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے۔ اگر بعد میں آنے ولا خون دس دن سے تجاوز کر جائے تو خون کی وہ مقدار جو دس دن کے اندر آئی ہے اسے نفاس اور دس دن کے بعد آنے والے خون کو استحاضہ قرار دے۔
(۵۰۶)جو عورت عدد کی عادت رکھتی ہے اگر اسے اپنی عادت سے زیادہ خون آئے تو چاہئے یہ خون دس دن سے تجاوز نہ کرے ، احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے۔ کہ عادت کا عدد پورا ہو جانے کے بعد نفساء کے محرمات کو ترک کر دے اور مستحاضہ کے واجبات پر عمل پیرا ہو اور اگر ایک سے زیادہ بار خون آئے جبکہ درمیان میں پاک بھی ہو جائے تو عادت کے عدد کے برابر ایام کو نفاس اور درمیان کی پاکی کے ایام اور عادت کے بعد خون والے ایام میں احتیاط کرتے ہوئے نفساء پر حرام امور کو ترک کر دے اور مستحاضہ کے واجبات پر عمل کرے۔
(۵۰۷)اگر عورت خون نفاس سے پا ک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اس کے باطن میں خون نفاس ہے تو ضروری ہے کہ یا احتیاط کرتے ہوئے غسل بجا لائے اور عبادات کو انجام دے یا استبراء کرے۔ بغیر استبراء کئے عبادات کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ استبراء کا طریقہ مسئلہ ۴۹۶ میں بیان ہو چکا ہے اور اگر اپنی عادت بھول چکی ہو تو ضروری ہے کہ سب سے زیادہ جس عدد کا احتمال ہو اسے اپنی عادت فرض کر لے۔
(۵۰۸)اگر عورت کو نفاس کا خون دس دن سے زیادہ آئے اور وہ حیض میں عدد کی عادت رکھتی ہو تو عادت کے برابر دنوں کی مدت نفاس اور باقی استحاضہ ہے۔ اگر عادت نہ رکھتی ہو تو دس دن تک نفاس اور باقی استحاضہ ہے۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ جو عورت عادت رکھتی ہو وہ عادت کے بعد کے دن سے اور جو عورت عادت نہ رکھتی ہو وہ دسویں دن کے بعد سے بچے کی پیدائش کے اٹھارہویں دن تک استحاضہ کے افعال بجا لائے اور وہ کام جو نفساء پر حرام ہیں انہیں ترک کرے۔
(۵۰۹)جو عورت حیض میں عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے بچّہ جننے کے بعد ایک مہینے تک یا ایک مہینے سے زیادہ مدت تک لگاتار خون آتا رہے تو اس کی عادت کے دنوں کی تعداد کے برابر خون نفاس ہے اور جو خون، نفاس کے بعد دس دن تک آئے خواہ وہ وقت کی عادت بھی رکھتی ہو اور وہ خون اس کی ماہانہ عادت کے دنوں میں آیا ہو استحاضہ ہے۔ مثلاً ایسی عورت جس کے حیض کی عادت ہر مہینے کی بیس تاریخ سے ستائیس تاریخ تک ہو اگر وہ مہینے کی دس تاریخ کو بچہ جنے اور ایک مہینے یا اس سے زیادہ مدت تک اسے متواتر خون آئے تو سترہویں تاریخ تک نفاس اور سترہویں تاریخ سے دس دن تک کا خون حتیٰ کہ وہ خون بھی جو بیس تاریخ سے ستائیس تاریخ تک اس کی عادت کے دنوں میں آیا ہے استحاضہ ہو گا اور دس دن گزرنے کے بعد جو خون اسے آئے اگر وہ وقت کی عادت رکھتی ہو اور خون اس کی عادت کے دنوں میں نہ آیا ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنی عادت کے دنوں کا انتظارکرے اگرچہ اس کے انتظار کی مدت ایک مہینہ یا ایک مہینے سے زیادہ ہو جائے اور خواہ اس مدت میں جو خون آئے اس میں حیض کی علامات ہوں۔ اگر وہ وقت کی عادت والی عورت نہ ہو اور اس کے لئے ممکن ہو تو ضروری ہے کہ وہ اپنے حیض کو علامات کے ذریعے معین کرے جس کا طریقہ مسئلہ ۴۷۹ میں بیان کیا جا چکا ہے اور اگر ممکن نہ ہو جیسا کہ نفاس کے بعد دس دن جو خون آئے وہ سارا ایک جیسا ہو اور ایک مہینے یا چند مہینے انہی علامات کے ساتھ آتا رہے تو ضروری ہے کہ ہر مہینے میں اپنے کنبے کی بعض عورتوں کے حیض کی جو صورت ہو مسئلہ ۴۷۹ میں بیان شدہ تفصیل کے مطابق وہی اپنے لئے قرار دے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو جو عدد اپنے لئے مناسب سمجھتی ہے اختیار کرے جس کی تفصیل مسئلہ ۴۸۱ میں بیان کی گئی ہے۔
(۵۱۰)جو عورت حیض میں عدد کے لحاظ سے عادت نہ رکھتی ہو اگر اسے بچّہ جننے کے بعد ایک مہینے تک یا ایک مہینے سے زیادہ مدت تک خون آئے تو اس کے پہلے دس دن نفاس اور اگلے دس دن استحاضہ کے ہوں گے اور جو خون اسے اس کے بعد آئے ممکن ہے وہ حیض ہو اور ممکن ہے استحاضہ ہو اور حیض قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس حکم کے مطابق عمل کرے جس کا ذکر سابقہ مسئلے میں گزر چکا ہے۔
غسل مَسِ میّت
(۵۱۱)اگر کوئی شخص کسی ایسے مُردہ انسان کے بدن کو مَس کرے جو ٹھنڈا ہو چکا ہو اور جسے غسل نہ دیا گیا ہو یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ اس سے لگائے تو ضروری ہے کہ غسل مَس میّت کرے خواہ اس نے نیند کی حالت میں مُردے کا بدن مَس کیا ہو یا بیداری کے عالم میں اور خواہ ارادی طور پر مَس کیا ہو یا غیر ارادی طور پر، حتیٰ کہ اگر اس کا ناخن یا ہڈی مُردے کے ناخن یا ہڈی سے مَس ہو جائے تب بھی غسل کرنا ضروری ہے لیکن اگر مُردہ حیوان کو مَس کرے تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
(۵۱۲)جس مُردے کا تمام بدن ٹھنڈا نہ ہوا ہو اسے مَس کرنے سے غسل واجب نہیں ہوتا خواہ اس کے بدن کا جو حصہ مَس کیا ہو وہ ٹھنڈا ہو چکا ہو۔
(۵۱۳)اگر کوئی شخص اپنے بال مُردے کے بدن سے لگائے یا اپنا بدن مُردے کے بالوں سے لگائے یا اپنے بال مُردے کے بالوں سے لگائے تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
(۵۱۴)اگر بچہ مُردہ پیدا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کی ماں غسل کرے اور اگر ماں مر گئی ہو تو بچّے کے لئے ضروری ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے احتیاط واجب کی بنا پر غسل کرے۔
(۵۱۵)اگر کوئی شخص ایک ایسی میت کو مَس کرے جسے تین غسل مکمل طور پر دئیے جا چکے ہوں تو اس پر غسل واجب نہیں ہوتا لیکن اگر وہ تیسرا غسل مکمل ہونے سے پہلے اس کے دن کے کسی حصّے کو مَس کرے تو ضروری ہے کہ غسل مَس میت کرے، چاہے اس حصے کا غسل مکمل ہو چکا ہو تو خواہ اس حصے کو تیسرا غسل دیا جا چکا ہو اس شخص کے لئے غسل مَس میت کرنا ضروری ہے۔
(۵۱۶)اگر کوئی دیوانہ یا نابالغ بچّہ میت کو مَس کرے تو دیوانے پر عاقل ہونے اور بچے پر بالغ ہونے کے بعد غسل مَس میت کرنا ضرور ی ہے اور اگر وہ ممیّزہ ہو تو اس کا غسل صحیح ہے۔
(۵۱۷)اگر کسی زندہ شخص کے بدن سے یا کسی ایسے مُردے کے بدن سے جسے غسل نہ دیا گیا ایک حصہ جُدا ہو جائے اور اس سے پہلے جدا ہونے والے حصے کو غسل دیا جائے کوئی شخص اسے مَس کر لے تو اگرچہ اس حصے میں ہڈی ہو غسل مَس میت کرنا ضروری نہیں۔ ہاں اگر میت ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہو اور کوئی شخص ان تمام یا زیادہ تر حصوں کو مَس کرے تو اس پر غسل واجب ہے۔
(۵۱۸)ایک ایسی ہڈی کے مَس کرنے سے جسے غسل نہ دیا گیا ہو خواہ مُردے کے بدن سے جُداہوئی ہو یا زندہ شخص کے بدن سے، غسل واجب نہیں ہے۔ اور دانت خواہ وہ مُردے کے بدن سے جدا ہوئے ہوں یا زندہ شخص کے بدن سے ان کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
(۵۱۹)غسل مَس میت ، غسل جنات کی طرح ہے اور اس کے بعد وضو کی بھی ضرورت نہیں۔
(۵۲۰)اگر کوئی شخص کسی میتوں کو مَس کرے ایک میت کو کئی بار مَس کرے تو ایک غسل کافی ہے۔
(۵۲۱)جس شخص نے میت کو مَس کرنے کے بعد غسل نہ کیا ہو اُس کے لئے مسجد میں ٹھہرنا، بیوی سے جما ع کرنا اور ان آیات کا پڑھنا جن میں سجدوہ واجب ہے، ممنوع نہیں لیکن نماز اور اس جیسی عبادات کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔
محتضر کے احکام
(۵۲۲)جو مسلمان محتضر ہو یعنی جان کنی کی حالت میں ہو خواہ مَرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، اسے احتیاط کی بنا پر بصورت امکان پشت کے بل یوں لٹانا چاہئے کہ اس کے پاؤں کے تلوے قبلہ رُخ ہوں۔
(۵۲۳)بہتر یہ ہے کہ جب تک میّت کا غسل مکمل نہ ہو اسے بھی مذکورہ طریقے کے مطابق رو بقبلہ لٹائیں لیکن جب اس کا غسل مکمل ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے اس حالت میں لٹائیں جس طرح اسے نماز جنازہ پڑھتے وقت لٹاتے ہیں۔
(۵۲۴)جو شخص جان کنی کی حالت میں ہو اسے روبقبلہ لٹانا احتیاط کی بنا پر ہر مسلمان پر واجب ہے۔ لہٰذا وہ شخص جو جان کنی کی حالت میں ہے راضی ہو اور قاصر بھی نہ ہو (یعنی بالغ اور عاقل ہو) تو اس کام کے لئے اس کے ولی کی اجازت لینا ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کسی صورت میں اس کے ولی سے اجازت لینا احتیاط کی بنا پر ضروری ہے۔
(۵۲۵)مستحب ہے کہ جو شخص جان کنی کی حالت میں ہو اس کے سامنے شہادتین، بارہ اماموں کے نام اور دوسرے دینی عقائد اس طرح دہرائے جائیں کہ وہ سمجھ لے۔ اس کی موت کے وقت تک ان چیزوں کی تکرار کرنا بھی مستحب ہے۔
(۵۲۶)مستحب ہے کہ جو شخص جان کنی کی حالت میں ہو اسے مندرجہ ذیل دعا اس طرح سنائی جائے کہ سمجھ لے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرَلِیَ الْکَثِیْرَ مِنْ مَّعَاصِیْکَ وَاقْبَلْ مِنِّی الْیَسِیْرَ مِنْ طَاعَتِکَ یَامَنْ یَّقْبَلُ الْیَسِیْرَ وَیَعْفُوْ عَنِ الْکَثِیْرِ اقْبَلْ مِنِّی الْیَسِیْرَ وَاعْفُ عَنِّی الْکَثِیْرَ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَفُوُّ الْغَفُوْرُ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ فَاِنَّکَ رَحِیْمٌ
(۵۲۷)جس شخص کی جان سختی سے نکل رہی ہو، اگر اسے تکلیف نہ ہو تو اسے اس جگہ لے جانا جہاں وہ نماز پڑھا کرتا تھا مستحب ہے۔
(۵۲۸)جو شخص جان کنی کے عالم میں ہو اس کی آسانی کے لئے (یعنی اس مقصد سے کہ اس کی جان آسانی سے نکل جائے) اس کے سرہانے سورہٴ یٰس ٓ، سورہٴ صافات سورہٴ احزاب، آیة الکرسی ، سورہٴ اعراف کی ۵۴ ویں آیت اور سورہٴ بقرہ کی آخری تین آیات پڑھنا مستحب ہے بلکہ قرآن مجید جتنا بھی پڑھا جا سکے پڑھا جائے۔
(۵۲۹)جو شخص جان کنی کے عالم میں ہو اسے تنہا چھوڑنا، کوئی بھاری چیز اس کے پیٹ پر رکھنا، مجنب اور حائض کا اس کے قریب ہونا، اسی طرح اس کے پاس زیادہ باتیں کرنا، رونا اور صرف عورتوں کو چھوڑنا مکروہ ہے۔
مرنے کے بعد کے احکام
(۵۳۰)مستحب ہے کہ مرنے کے بعد میت کی آنکھیں اور ہونٹ بند کر دئیے جائیں، اس کی ٹھوڑی کو باند دیا جائے، نیز اس کے ہاتھ اور پاؤں سیدھے کر دئیے جائیں اور اس کے اوپر کپڑا ڈال دیا جائے۔ اگر موت رات کو واقع ہو تو جہاں موت واقع ہوئی ہو وہاں چراغ جلائیں (روشنی کر دیں) اور جنازے میں شرکت کے لئے مومنین کو اطلاع دیں اور میت کو دفن کرنے میں جلدی کریں لیکن اگر اس شخص کے مرنے کا یقین نہ ہو تو انتظار کریں تاکہ صورت حال واضح ہو جائے۔علاوہ ازیں اگر میت حاملہ ہو اور بچہ اس کے پیٹ میں زندہ ہو تو ضروری ہے کہ دفن کرنے میں اتنا توقف کریں کہ اس کا پہلو چاک کر کے بچہ باہر نکال لیں اور پھر اس پہلو کو سِی دیں۔
غسل، کفن، نماز میّت اور دفن کا وجوب
(۵۳۱)مسلمان کا غسل، حنوط ، کفن، نماز میت اور دفن خواہ وہ اثنا عشری شیعہ نہ بھی ہو اس کے ولی پر واجب ہے۔ ضروری ہے کہ ولی خود ان کاموں کو انجام دے یا کسی دوسرے کو ان کاموں کے لئے معین کرے اور اگر کوئی شخص ان کاموں کو ولی کی اجازت سے انجام دے تو ولی پر سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے بلکہ اگر دفن اور اس کی مانند دوسرے امور کو کوئی شخص ولی کی اجازت کے بغیر انجام دے تب بھی ولی سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور ان امور کو دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں اور اگر میت کا کوئی ولی نہ ہو یا ولی ان کاموں کو انجام دینے سے منع کرے تب بھی باقی مکلّف لوگوں پو واجب کفائی ہے کہ کہ میت کے ان کاموں کو انجام دیں اور اگر بعض مکلّف لوگوں نے انجام دیا تو دوسروں پر سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو تمام مکلّف لوگوں نے انجام دیا تو دوسرے پر سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو تمام مکلّف لوگ گناہگار ہوں گے اور ولی کے منع کرنے کی صورت میں اس سے اجازت لینے کی شرط ختم ہو جاتی ہے۔
(۵۳۲)اگر کوئی شخص تجہیز وتکفین کے کاموں میں مشغول ہو جائے تو دوسروں کے لئے اس بارے میں کوئی اقدام کرنا واجب نہیں اگر وہ ان کاموں کو ادھورا چھوڑ دے تو ضروری ہے کہ دوسرے انہیں پایہٴ ٴتکمیل تک پہنچائیں۔
(۵۳۳)اگر کسی شخص کو اطمینان ہو کہ کوئی دوسرا میت کے کاموں میں مشغول ہے تو اس پر واجب نہیں ہے کہ میت کے کاموں کے بارے میں اقدام کرے لیکن اگر اسے اس بار ے میں محض شک یا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اقدام کرے۔
(۵۳۴)اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ میت کا غسل یا کفن یا نماز یا دفن غلط طریقے سے ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ان کاموں کو دوبارہ انجام دے لیکن اگر اسے باطل ہونے کا گمان ہو یا شک ہو کہ درست تھا یا نہیں تو پھر اس بارے میں کوئی اقدام کرنا ضروری نہیں۔
(۵۳۵)عورت کا ولی اس کا شوہرہے اور عورت کے علاوہ وہ اشخاص کہ جن کو میت سے میراث ملتی ہے اسی ترتیب سے جس کا ذکر میراث کے مختلف طبقوں میں آئے گا دوسروں پر مقدم ہیں۔ میت کا باپ میت کے بیٹے پر میت کا دادا اس کے بھائی پر، میت کا پدری و مادری بھائی اس کے صرف پدری بھائی یا مادری بھائی پر، اس کا پدری بھائی اس کے مادری بھائی پر اور اس کے چچا کے اس ماموں پر مقدم ہونے میں اشکال ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں احتیاط کے (تمام) تقاضوں کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ ہاں اگر ولی ایک سے زیادہ ہوں تو ان میں سے کسی ایک کی اجازت کافی ہے۔
(۵۳۶)نابالغ بچّہ اور دیوانہ میت کے کاموں کو انجام دینے کے لئے ولی نہیں بن سکتے۔ اسی طرح وہ شخص بھی جو اس طرح غیر حاضر ہو کہ خود یا کسی شخص کو مامور کر کے میت سے متعلق امور کو انجام نہ دے سکتا ہو تو وہ بھی ولی نہیں بن سکتا۔
(۵۳۷)اگر کوئی شخص کہے کہ میں میت کا ولی ہوں یا میت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ میت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کہے کہ میں میت کے دفن سے متعلق کاموں میں میت کا وصی ہوں اور اس کے کہنے سے اطمینان حاصل ہو جائے یا میت اس کے تصرف میں ہو یا دو عادل شخص گواہی دیں تو اس کا قول قبول کر لینا ضروری ہے۔
(۵۳۸)اگر مرنے والا اپنے غسل، کفن، دفن اور نماز کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو مقرر کرے تو ان امور کی ولایت اسی شخص کے ہاتھ میں ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ جس شخص کو میت نے وصیت کی ہو وہ خود ان کاموں کو انجام دینے کا ذمہ دار بنے اور اس وصیت کو قبول کرے لیکن اگر قبول کر لے تو ضروری ہے کہ اس پر عمل کرے۔
غسلِ میت کی کیفیت
(۵۳۹)میت کو ترتیب سے تین غسل دینے واجب ہیں: پہلا ایسے پانی سے جس میں بیری کے پتّے مِلے ہوئے ہوں، دوسرا ایسے پانی سے جس میں کافور ملا ہو اور تیسرا خالص پانی سے۔
(۵۴۰)ضروری ہے کہ بیری اور کافور نہ اس قدر زیادہ ہوں کہ پانی مضاف ہو جائے اور نہ اس قدر کم ہوں کہ یہ کہا جا سکے کہ بیری اور کافور اس پانی میں نہیں ملائے گئے ہیں۔
(۵۴۱)اگر بیری اور کافور اتنی مقدار میں نہ مل سکیں جتنی کہ ضروری ہے تو احتیاط مستحب کی بنا پر جتنی مقدار میّسر آئے پانی میں ڈال دی جائے۔
(۵۴۲)اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں مَر جائے تو اسے کافور کے پانی سے غسل نہیں دینا چاہئے بلکہ اس کے بجائے خالص پانی سے غسل دینا چاہئے لیکن اگر وہ حج تمتع کا احرام ہو اور وہ طواف، نمازِ طواف اور سعی کو مکمل کر چکا ہو یا حج قران یا افراد کے احرام میں ہو اور سر منڈا چکا ہو تو ان دو صورتوں میں اس کو کافور کے پانی سے غسل دینا ضروری ہے۔
(۵۴۳)اگر بیری اور کافور یا ان میں سے کوئی ایک نہ مِل سکے یا اس کا استعمال جائز نہ ہو مثلاً یہ کہ غصبی ہو تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ اسے ایک تیمم کرایا جائے اور ان میں سے ہر اس چیز کے بجائے جس کا ملنا ممکن نہ ہو میت کو خالص پانی سے غسل دیا جائے۔
(۵۴۴)جو شخص میت کو غسل دے ضروری ہے کہ وہ عقل مند اور مسلمان ہو اور احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ اثنا عشری ہو۔ نیز ضروری ہے کہ غسل کے مسائل سے بھی واقف ہو۔ ممیّز بچّہ اگر غسل کو صحیح طریقے سے انجام دے سکتا ہو تو اس کا غسل دینا بھی کافی ہے۔ چنانچہ اگر غیر اثنا عشری مسلمان کی میت کو اس کا ہم مذہب اپنے مذہب کے مطابق غسل دے تو مومن اثنا عشری سے ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ اثنا عشری شخص میت کا ولی ہو تو اس صورت میں اس سے ذمہ داری ساقط نہیں ہوتی ۔
(۵۴۵)جو شخص غسل دے ضروری ہے کہ وہ قربت کی نیت رکھتا ہو اور یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری کی نیّت سے غسل دے۔
(۵۴۶)مسلمان کے بچّے کو خواہ وہ ولدالزنا ہی کیوں نہ ہو غسل دینا واجب ہے اور کافر اور اس کی اولاد کا غس، کفن اور دفن واجب نہیں ہے۔ کافر کا بچّہ اگر ممیز ہو اور اسلام کا اظہار کرتا ہو تو وہ مسلمان ہے اور جو شخص بچپن سے دیوانہ ہو اور دیوانگی کی حالت میں ہی بالغ ہو جائے اور اگر اس کاباپ یا ماں مسلمان ہو تو ضروری ہے کہ اسے غسل دیں۔
(۵۴۷)اگر ایک بچہ چار مہینے یا اس سے زیادہ کا ہو کر ساقط ہو جائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے بلکہ اگر چار مہینے سے بھی کم ہو لیکن اس کا پورا بدن بن چکا ہو تو احتیاط کی بنا پر اس کو غسل دینا ضروری ہے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ احتیاط کی بنا پر اسے کپڑے میں لپیٹ کر بغیر غسل دئیے دفن کر دینا چاہئے۔
(۵۴۸)مرد،نامحرم عورت کو غسل نہیں دے سکتا اسی طرح عورت، نامحرم مرد کو غسل نہیں دے سکتی۔ لیکن بیوی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے اور شوہر بھی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔
(۵۴۹)مرد اتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتا ہے جو ممیز نہ ہو اور عورت بھی اتنے چھوٹے لڑکے کو غسل دے سکتی ہے جو ممیز نہ ہو۔
(۵۵۰)محرم افراد ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں، چاہے نسبی محرم ہوں جیسے ماں اور بہن یا رضاعی یعنی دودھ پینے کی وجہ سے ایک دوسرے کے محرم بن گئے ہوں۔ شرمگاہ کے علاوہ باقی بدن میں لباس کے نیچے سے غسل دینا ضروری نہیں ہے اگرچہ بہتر ہے ۔ لیکن احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ مرد اپنی محرم عورت کو صرف اسی صورت میں غسل دے جب غسل دینے کے لئے کوئی عورت نہ مل سکے۔ یہی حکم عورت کے لئے محرم مرد کو غسل دینے کے بارے میں ہے۔
(۵۵۱)اگر میت اور غسال دونوں مرد ہوں یا دونوں عورت ہوں تو جائز ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ میت کا باقی بدن برہنہ ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ لباس کے نیچے سے غسل دیا جائے۔
(۵۵۲)میاں بیوی کے علاوہ میت کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے اور جو شخص اسے غسل دے رہا ہو اگر وہ اس پر نظر ڈالے تو گناہگار ہے لیکن اس سے غسل باطل نہیں ہوتا۔
(۵۵۳)اگر میت کے بدن کے کسی حصے پر عین نجاست ہو تو ضروری ہے کہ اس حصے کو غسل دینے سے پہلے عین نجاست دُور کرے اور اولیٰ یہ ہے کہ غسل شروع کرنے سے پہلے میت کا تمام بدن پاک کر لیا جائے۔
(۵۵۴)غسل میت غسل جنابت کی طرح ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک میت کو غسل ترتیبی دینا ممکن ہو غسل ارتماسی نہ دیا جائے اور غسل ترتیبی میں بھی ضروری ہے کہ داہنی طرف کو بائیں طرف سے پہلے دھویا جائے۔
(۵۵۵)جو شخص حیض یا جنابت کی حالت میں مر جائے اسے غسل حیض یا غسل جنابت دینا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف غسل میت اس کے لئے کافی ہے۔
(۵۵۶)میت کو غسل دینے کی اجرت لینا احتیاط کی بنا پر حرام ہے اور اگر کوئی شخص اُجرت لینے کے لئے میت کو اس طرح غسل دے کہ یہ غسل دینا قصد قربت کے منافی ہو تو غسل باطل ہے لیکن غسل کے ابتدائی کاموں کی اجرت لینا حرام نہیں ہے۔
(۵۵۷)میت کے غسل میں جبیرہ غسل جائز نہیں ہے اور اگر پانی میّسر نہ ہو یا اس کے استعمال میں کوئی رکاوٹ ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے میت کو ایک تیمم کرائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تین تیمم کرائے جائیں۔
(۵۵۸)جو شخص میت کو تیمم کرا رہا ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور میت کے چہرے اور ہاتھوں کی پشت پر پھیرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو میت کو اس کے اپنے ہاتھوں سے بھی تیمم کرائے۔
کفن کے احکام
(۵۵۹)مسلمان میت کو تین کپڑوں کا کفن دینا ضروری ہے جنہیں لنگ، کرتہ اور چادر کہا جاتا ہے۔
(۵۶۰)احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ لنگ ایسی ہو جو ناف سے گھٹنوں تک بدن کی اطراف کو ڈھانپ لے اور بہتر یہ ہے کہ سینے سے پاؤں تک پہنچے اور کُرتہ احتیاط واجب کی بنا پر ایسا ہو کہ کندھوں کے سروں سے آدھی پنڈلیوں تک تمام بدن کو ڈھانپے اور بہتر یہ ہے کہ پاؤں تک پہنچے اور چادر کی لمبائی اتنی ہونی چاہئے کہ پورے بدن کو ڈھانپ دے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ چادر کی لمبائی اتنی ہو کہ میت کے پاؤں اور سر کی طرف سے گرہ دے سکیں اور اس کی چوڑائی اتنی ہو کہ اس کا ایک کنارہ دوسرے کنارے کے اوپر آ سکے۔
(۵۶۱)واجب مقدار کی حد تک کفن جس کا ذکر سابقہ مسئلہ میں ہو چکا ہے میت کے اصل مال سے لیا جائے بلکہ کفن کی مستحب مقدار کو بھی میت کی شان اور عرف عام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے میت کے اصل مال سے لیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ واجب مقدار سے زائد کفن ان وارثوں کے حصے سے نہ لیا جائے جو ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں۔
(۵۶۲)اگر کسی شخص نے وصیت کی ہو کہ مستحب کفن کی مقدار اس کے ایک تہائی مال سے لی جائے یا یہ وصیّت کی ہو کہ اس کا تہائی مال خود اس پر خرچ کیا جائے لیکن اس کے مصرّف کا تعین نہ کیا ہو یا صرف اس کے کچھ حصے کے مصرف کا تعین کیا ہو تو مستحب کفن کی مقدار جو چاہے عرف عام سے بڑھ کر ہو اس کے تہائی مال سے لی جا سکتی ہے۔
(۵۶۳)اگر مرنے والے نے یہ وصیت نہ کی ہو کہ کفن اس کے تہائی مال سے لیا جائے اور متعلقہ اشخاص چاہیں کہ اس کے اصل مال سے لیں تو جو بیان مسئلہ ۵۶۱ میں گزر چکا ہے اس سے زیادہ نہ لیں۔ مثلاً وہ مستحب کام جو کہ معمولاً انجام نہ دئیے جاتے ہوں اور جو میت کی شان کے مطابق بھی نہ ہوں تو ان کی ادائیگی کے لئے ہر گز اصل مال سے نہ لیں اور بالکل اسی طرح اگر کفن کی قیمت معمول سے زیادہ ہو تو اضافی رقم کو میت کے اصل مال سے نہیں لیا جا سکتا لیکن جو ورثاء بالغ ہیں تو ان کے حصے سے ان کی اجازت سے لیا جا سکتا ہے۔
(۵۶۴)عورت کے کفن کی ذمہ داری شوہر پر ہے خواہ عورت اپنا مال بھی رکھتی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کو اس تفصیل کے مطابق جو طلاق کے احکام میں آئے گی طلاق رجعی دی گئی ہو اور وہ عدت ختم ہونے سے پہلے مَر جائے تو شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اسے کفن دے۔ اگر شوہر بالغ نہ ہو یا دیوانہ ہو تو شوہر کے ولی کو چاہئے کہ اس کے مال سے عورت کو کفن دے۔
(۵۶۵)میت کو کفن دینا اس کے قرابتداروں پر واجب نہیں، گوا اس کی زندگی میں اخراجات کی کفالت ان پر واجب رہی ہو۔
(۵۶۶)اگر میت کے پاس کفن کا انتظام کرنے کے لئے کوئی مال نہ ہو تو اسے برہنہ دفن کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بنا بر احتیاط مسلمانوں پر واجب ہے کہ اسے کفن پہنائیں۔ یہ جائز ہے کہ اس کے اخراجات کو زکات کی بابت میں حساب کر لیا جائے۔
(۵۶۷)احتیاط یہ ہے کہ کفن کے تینوں کپڑوں میں سے ہر کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ میت کا بدن اس کے نیچے سے نظر آئے لیکن اگر اس طرح ہو کہ تینوں کپڑوں کو ملا کر میت کا بدن اس کے نیچے سے نظر نہ آئے تو کافی ہے۔
(۵۶۸)غصب کی ہوئی چیز کا کفن دینا خواہ کوئی دوسری چیز میّسر نہ ہو تب بھی جائز نہیں ہے۔ پس اگر میت کا کفن غصبی ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو تو وہ کفن اس کے بدن سے اُتار لینا چاہئے خواہ اس کو دفن بھی کیا جا چکا ہو لیکن بعض صورتوں میں (اس کے بدن سے کفن اُتارنا جائز نہیں) جس کی تفصیل کی گنجائش اس مقام پر نہیں ہے۔
(۵۶۹)میت کو نجس چیز یا خالص ریشمی کپڑے کا کفن دینا اور احتیاط کی بنا پر سونے کے پانی سے کام کئے ہوئے کپڑے کا کفن دینا جائز نہیں لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۵۷۰)میت کو نجس مُردار کی کھال کا کفن دینا اختیاری حالت میں جائز نہیں ہے بلکہ پاک مُردار کی کھال کا کفن دینا بھی جائز نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر کسی ایسے کپڑے کا کفن دینا جو حرام گوشت جانور کے اون یا بالوں سے تیار کیا گیا ہو اختیاری حالت میں جائز نہیں ہے لیکن اگر کفن حلال گوشت جانور کے بال یا اون کا ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کا بھی کفن نہ دیا جائے۔
(۵۷۱)اگر میت کا کفن اس کی اپنی نجاست یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے اور اگر ایسا کرنے سے کفن ضائع نہ ہوتا ہو تو جتنا حصہ نجس ہوا سے دھونا یا کاٹنا ضروری ہے خواہ میت کو قبر میں ہی کیوں نہ اُتارا جا چکا ہو۔ اگر اس کا دھونا یا کاٹنا ممکن نہ ہو لیکن بدل لینا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ بدل دیں۔
(۵۷۲)اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس نے حج یا عمرے کا احرام باندھ رکھا ہو تو اسے دوسروں کی طرح کفن پہنانا ضروری ہے اور اس کا سر اور چہرہ ڈھانپ دینے میں کوئی حرج نہیں ۔
(۵۷۳)انسان کے لئے اپنی زندگی میں کفن، بیری اور کافور کا تیار رکھنا مستحب ہے۔
حنوط کے احکام
(۵۷۴)غسل دینے کے بعد واجب ہے کہ میت کو حنوط کیا جائے یعنی اس کی پیشانی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے انگوٹھوں پر کافور اس طرح لگائیں کہ کچھ کافور اس پر باقی رہے چاہے اسے ملایا نہ بھی گیا ہو اور مستحب یہ ہے کہ میت کی ناک پر بھی کافور ملایا جائے۔ ضروری ہے کہ کافور پسا ہوا، تازہ، پاک اور مباح (غیر غصبی)ہو اور اگر پرانا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشبو زائل ہو گئی ہو تو کافی نہیں۔
(۵۷۵)احتیاط مستحب یہ ہے کہ کافور پہلے میت کی پیشانی پر ملا جائے لیکن دوسرے مقامات پر ملنے میں ترتیب ضروری نہیں ہے۔
(۵۷۶)بہتر یہ ہے کہ میت کو کفن پہنانے سے پہلے حنوط کیا جائے۔ اگرچہ کفن پہنانے کے دوران یا اس کے بعد بھی حنوط کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۵۷۷)اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس نے حج یا عمرے کے لئے احرام باندھ رکھا ہو تو اسے حنوط کرنا جائز نہیں ہے مگر ان دو صورتوں میں جن کا ذکر مسئلہ ۵۴۲ میں گزر چکا ہے۔
(۵۷۸)اعتکاف میں بیٹھے ہوئے شخص اور ایسی عورت جس کا شوہر مَر گیا ہو اور ابھی اس کی عدّت باقی ہو اگرچہ خوشبو لگانا اس کے لئے حرام ہے لیکن اگر ان میں سے کوئی مَر جائے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے۔
(۵۷۹)احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت کو مشک، عنبر، عود اور دوسری خوشبوئیں نہ لگائیں اور انہیں کافور کے ساتھ بھی نہ ملایا جائے۔
(۵۸۰)مستحب ہے کہ سیّد الشہداء امام حسین - کی قبر مبارک کی مٹی کی کچھ مقدار کافور میں ملالی جائے لیکن اس کافور کو ایسے مقامات پر نہیں لگانا چاہیے جہاں لگانے سے خاکِ شفا کی بے حرمتی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ خاکِ شفا اتنی زیادہ نہ ہو کہ جب وہ کافور کے ساتھ مل جائے تو اسے کافور نہ کہا جا سکے۔
(۵۸۱)اگر کافور نہ مل سکے یا فقط غسل کے لئے کافی ہو تو حنوط کرنا ضروری نہیں اور اگر غسل کی ضرورت سے زیادہ ہو لیکن تمام سات اعضاء کے لئے کافی نہ ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر چاہئے کہ پہلے پیشانی پر اور اگر بچ جائے تو دوسرے مقامات پر مَلا جائے۔
(۵۸۲)مستحب ہے کہ دو تروتازہ ٹہنیاں میت کے ساتھ قبر میں رکھی جائیں۔
نمازِ میّت کے احکام
(۵۸۳)ہر مسلمان کی میت پر اور ایسے بچّے کی میت پر جو اسلام کے حکم میں ہو اور پورے چھ سال کا ہو چکا ہو نماز پڑھنا واجب ہے۔
(۵۸۴)ایک ایسے بچے کی میت پر جو چھ سال کا نہ ہوا ہو لیکن نماز کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر نماز پڑھنا ضروری ہے اور اگر نماز کو نہ جانتا ہو تو رجاء کی نیّت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ بچّہ جو مُردہ پیدا ہوا ہو اس کی میت پر نماز پڑھنا مستحب نہیں ہے۔
(۵۸۵)ضروری ہے کہ میّت کی نماز اسے غسل دینے ، حنوط کرنے اور کفن پہنانے کے بعد پڑھی جائے اور اگر ان امور سے پہلے یا ان کے دوران پڑھی جائے تو ایسا کرنا خواہ بھول چوک یا مسئلے سے لا عِلمی کی بنا پر ہی کیوں نہ ہو کافی نہیں ہے۔
(۵۸۶)جو شخص میّت کی نماز پڑھنا چاہے اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ اس نے وضو، غسل یا تیمم کیا ہو اور اس کا بدن اور لباس پاک ہوں اور اگر اس کا لباس غصبی ہو تب بھی کوئی حرج نہیں۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کا لحاظ رکھے جو دوسری نمازوں میں لازمی ہیں۔
(۵۸۷)جو شخص نماز ِمیّت پڑھ رہا ہو ضروری ہے کہ رو بقبلہ ہو اور یہ بھی واجب ہے کہ میّت کو نماز پڑھنے والے کے سامنے پشت کے بل یوں لٹایا جائے کہ میّت کا سر نماز پڑھنے والے کے دائیں طرف ہو اور پاؤں بائیں طرف ہوں۔
(۵۸۸)ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ میّت کے مقام سے اونچی یا نیچی نہ ہو لیکن معمولی پستی یا بلندی میں کوئی حرج نہیں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز میّت پڑھنے کی جگہ غصبی نہ ہو۔
(۵۸۹)ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والا میّت سے دُور نہ ہو لیکن جو شخص نماز میت باجماعت پڑھ رہا ہو اگر وہ میّت سے دُور ہو جبکہ صفیں باہم متصل ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
(۵۹۰)ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والا میّت کے سامنے کھڑا ہو لیکن جماعت کی صورت میں ان لوگوں کی نماز میں جو میّت کے سامنے نہ ہوں کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۵۹۱)ضروری ہے کہ میّت اور نماز پڑھنے والے کے درمیان پردہ، دیوار یا کوئی اور ایسی چیز حائل نہ ہو لیکن اگر میّت تابوت میں یا ایسی ہی کسی چیز میں رکھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔
(۵۹۲)نماز پڑھتے وقت ضروری ہے کہ میّت کی شرمگاہ ڈھکی ہوئی ہو اور اگر اسے کفن پہنانا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی شرمگاہ کو خواہ لکڑی یا اینٹ یا ایسی ہی کسی اور چیز سے ہی ڈھانپ دیں۔
(۵۹۳)ضروری ہے کہ نماز میّت کھڑے ہو کر اور قربت کی نیّت سے پڑھی جائے اور نیّت کرتے وقت میّت کو معین کر لیا جائے مثلاً نیت کر لی جائے کہ میں اس میت پر قُرْبَةً اِلَی اللہ نماز پڑھ رہا ہوں۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ یومیہ نمازوں میں حالت قیام میں جو استقرار ضروری ہے اس کا خیال رکھا جائے۔
(۵۹۴)اگر کھڑے ہو کر نمازِ میّت پڑھنے والا کوئی شخص نہ ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
(۵۹۵)اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ کوئی مخصوص شخص اس کی نماز پڑھائے تو اس کے لئے ولی سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے اگرچہ بہتر ہے۔
(۵۹۶)بعض فقہاء کے نزدیک میّت پر کئی دفعہ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے اور اگر میّت کسی صاحب عِلم و تقویٰ کی ہو تو بغیر کسی اشکال کے مکروہ نہیں ہے۔
(۵۹۷)اگر میّت کو جان بوجھ کر یا بھول چوک کی وجہ سے یا کسی عذر کی بنا پر بغیر نماز پڑھے دفن کر دیا جائے یا دفن کر دینے کے بعد پتا چلے کہ جو نماز اس پر پڑھی جا چکی ہے وہ باطل ہے تو میّت پر نماز پڑھنے کے لئے اس کی قبر کھولنا جائز نہیں لیکن جب تک اس کا بدن پاش پاش نہ ہو جائے اور جن شرائط کا نمازِ میّت کے سلسلے میں ذکر آ چکا ہے ان کے ساتھ رجاء کی نیّت سے اس کی قبر پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نمازِ میّت کا طریقہ
(۵۹۸)میّت کی نماز میں پانچ تکبیریں ہیں اور اگر نماز پڑھنے والا شخص مندرجہ ذیل ترتیب کے ساتھ پانچ تکبیریں کہے تو کافی ہے۔
نیّت کرنے اور پہلی تکبیر کے بعد کہے:
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ
دوسری تکبیر کے بعد کہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ
تیسری تکبیر کے بعد کہے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُوٴْمِنَاتِ
چوتھی تکبیر کے بعد اگر میّت مَرد ہو تو کہے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِھٰذَا الْمَیِّتِ
اور اگر میت عورت ہو تو کہے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِھٰذِہِ الْمَیِّتِة
اور اس کے بعد پانچویں تکبیریں کہے۔
بہتر یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد کہے:
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ اَرْسَلَہ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًام بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ
اور دوسری تکبیر کے بعد کہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ عَلٰی مُحَمّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّارْحَمْ مُحَمَّدًا وَّاٰلَ مُحَمَّدٍ کَاَفْضَلِ مَا صَلَّیْت َوَبَارَکْتَ وَتَرَحَّمْتَ عَلٰٓی اِبْرَھِیْمَ وَاٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ وَّصَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَجَمِیْعِ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ
اور تیسری تکبیر کے بعد کہے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُوٴْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْاَحْیَآءِ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ تَابِعْ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ بِالْخَیْرَاتِ اِنَّکَ مُجِیْبُ الدَّعْوَتِ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْیٴٍ قَدِیْرٌ
اور اگر میّت مرد ہو تو چوتھی تکبیر کے بعد کہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذَا عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ نَزَلَ بِکَ وَاَنْتَ خَیْرٌ مَنْزُوْلٍم بِہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا لَا نَعْلَمُ مِنْہُ اِلَّا خَیْرًا وَّاَنْتَ اَعْلَمُ بِہ مِنَّا اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ مُحْسِنًا فَزِدً فِیْٓ اِحْسَانِہ وَاِنْ کَانَ مُسِیْٓئًا فَتَجَاوَزْ عَنْہُ وَاغْفِرْلَہ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ عِنْدَکَ فِیْٓ اَعْلٰی عِلِّیِّیْنَ وَاخْلُفْ عَلٰی اَھْلِہ فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْہُ بِرَحْمَتِکَ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
اور اس کے بعد پانچویں تکبیر کہے۔ لیکن اگر میّت عورت ہو تو چوتھی تکبیر کے بعد کہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذِہ اَمَتُکَ وَابْنَةُ عَبْدِکَ وَابْنَةُ اَمَتِکَ نَزَلَتْ بِکَ وَاَنْتَ خَیْرُ مَنْزُوْلٍم بِہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا لَا نَعْلَمُ مِنْھَا اِلَّا خَیْرًا وَّاَنْتَ اَعْلَمُ بِھَا مِنَّا اَللّٰھُمُّ اِنْ کَانَتْ مُحْسِنَة فَزِدْ فِیْٓ اِحْسَانِھَا وَاِنْ کَانَتْ مُسِیْٓئًة فَتَجَاوَزْ عَنْھُا وَاغْفِرْ لَھَا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا عِنْدَکَ فِیْ اَعْلٰی عِلِّیِّیْنَ وَاخْلُفْ عَلٰی اَھْلِھَا فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْھَا بِرَحْمَتِکَ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
(۵۹۹)ضروری ہے کہ تکبیریں اور دعائیں تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے اس طرح پڑھی جائیں کہ نماز اپنی شکل نہ کھو دے۔
(۶۶۰)جو شخص میت کی نماز باجماعت پڑھ رہا ہو خواہ وہ مقتدی ہو ضروری ہے کہ اس کی تکبیریں اور دعائیں بھی پڑھے۔
نمازِ میّت کے مستحبات
(۶۰۱)چند چیزیں نماز میّت میں مستحب ہیں:
۱)نمازِ میّت پڑھنے والے نے وضو، غسل یا تیمم کیا ہوا ہو اور احتیاط اس میں ہے کہ تیمم اس وقت کرے جب وضو اور غسل کرنا ممکن نہ ہو یا اسے خدشہ ہو کہ اگر وضو یا غسل کرے گا تو نماز میت میں شریک نہ ہو سکے گا۔
۲)اگر میّت مَرد ہو یا امام یا جو شخص اکیلا میت پر نماز پڑھ رہا ہو میّت کے بدن کے درمیانی حصّے کے سامنے کھڑا ہو اور اگر میت عورت ہو تو اس کے سینے کے سامنے کھڑا ہو۔
۳)نماز ننگے پاؤں پڑھی جائے۔
۴)ہر تکبیر میں ہاتھوں کو بلند کیا جائے۔
۵)نمازی اور میت کے درمیان اتنا کم فاصلہ ہو کہ اگر ہوا نماز ی کے لباس کو حرکت دے تو وہ جنازے کو جا چھوئے۔
۶)نمازِ میت جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔
۷)امام تکبیریں اور دعائیں بلند آواز سے پڑھے اور مقتدی آہستہ پڑھیں۔
۸)نماز باجماعت میں مقتدی خواہ ایک شخص ہی کیوں نہ ہو امام کے پیچھے کھڑا ہو۔
۹)نماز پڑھنے والا میت اور مومنین کے لئے کثرت سے دعا کرے۔
۱۰)باجماعت نماز سے پہلے تین مرتبہ”الصلوٰة“ کہے۔
۱۱)نماز ایسی جگہ پڑھی جائے جہاں نمازِ میت کے لئے لوگ زیادہ تر جاتے ہیں۔
۱۲)اگر حائض نماز میت جماعت کے ساتھ پڑھے تو اکیلی کھڑی ہو اور نمازیوں کی صف میں نہ کھڑی ہو۔
(۶۰۲)نماز میت مسجدوں میں پڑھنا مکروہ ہے لیکن مسجد الحرام میں پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔
دفن کے احکام
(۶۰۳)میت کو اس طرح زمین میں دفن کرنا واجب ہے کہ اس کی بُو باہر نہ آئے اور درندے بھی اس کا بدن باہر نہ نکال سکیں اور اگر اس بات کو خوف ہو کہ درندے اس کا بدن باہر نکال لیں گے تو ضروری ہے کہ قبر کو اینٹوں وغیرہ سے پختہ کر دیا جائے۔
(۶۰۴)اگرمیت کو زمین میں دفن کرنا ممکن نہ ہو تو دفن کرنے کے بجائے اسے کمرے یا تابوت میں رکھا جا سکتا ہے۔
(۶۰۵)میت کو قبر میں دائیں پہلو اس طرح لٹانا ضروری ہے کہ اس کے بدن کا سامنے کا حصہ رو بقبلہ ہو۔
(۶۰۶)اگر کوئی شخص کشتی میں مر جائے اور اس کی میت کے خراب ہونے کا امکان نہ ہو اور اسے کشتی میں رکھنے میں بھی کوئی امر مانع نہ ہو تو ضروری ہے کہ انتظار کریں تاکہ خشکی تک پہنچ جائیں اور اسے زمین میں دفن کردیں ورنہ اسے کشتی میں ہی غسل دے کر حنوط کریں اور کفن پہنائیں اور نمازِ میت پڑھنے کے بعد اسے مرتبان میں رکھ کر اس کا منہ بند کر دیں اور سمندر میں ڈال دیں یا کوئی بھاری چیز اس کے پاؤں میں باندھ کر سمندر میں ڈال دیں اور جہاں تک ممکن ہو اسے ایسی جگہ گرائیں جہاں جانور اسے فوراً لقمہ نہ بنا لیں۔
(۶۰۷)اگر اس بات کا خوف ہو کہ دشمن قبر کو کھود کر میّت کا جسم باہر نکال لے گا اور اس کے کان یا ناک یا دوسرے اعضاء کاٹ لے گا تو اگر ممکن ہو تو ضروری ہے کہ سابقہ مسئلے میں بیان کئے گئے طریقے کے مطابق اسے سمندر میں ڈال دیا جائے۔
(۶۰۸)اگر میت کو سمندر میں ڈالنا یا اس کی قبر کو پختہ کرنا ضروری ہو تو اس کے اخراجات میت کے اصل مال میں سے لے سکتے ہیں۔
(۶۰۹)اگر کوئی کافر عورت مَر جائے اور اس کے پیٹ میں مُردہ بچہ ہو اور اس بچے کا باپ مسلمان ہو اس عورت کو قبر میں بائیں پہلو قبلے کی طرف پیٹھ کر کے لٹانا چاہئے تاکہ بچے کا منہ قبلے کی طرف ہو اور اگر پیٹ میں موجود بچے کے بدن میں ابھی جان نہ پڑی ہو تب احتیاط مستحب کی بنا پر یہی حکم ہے۔
(۶۱۰)مسلمان کو کافروں کے قبرستان میں دفن کرنا اور کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں ہے۔
(۶۱۱)مسلمان کو ایسی جگہ جہاں اس کی بے حرمتی ہوتی ہو، مثلاً جہاں کوڑا کرکٹ گندگی پھینکی جاتی ہو دفن کرنا جائز نہیں ہے۔
(۶۱۲)میت کو غصبی زمین میں یا ایسی زمین میں جو دفن کے علاوہ کسی دوسرے مقصد، مثلاً مسجد کے لئے وقف ہو دفن کرنا اگر وقف کے لئے نقصان دہ ہو یا وقف کے مقصد سے مزاحمت کا باعث ہو تو دفن کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی حکم احتیاط واجب کی بنا پر اس وقت بھی ہے جب نقصان دہ یا مزاحم نہ ہو۔
(۶۱۳)کسی میت کی قبر کو اس لیے کھودنا کہ اس میں کسی دوسرے مُردے کو دفنایا جا سکے جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر قبر پُرانی ہو گئی ہو اور پہلی میّت کا نشان باقی نہ رہا ہو تو دفن کر سکتے ہیں۔
(۶۱۴)جو چیز میّت سے جُدا ہو جائے خواہ وہ اس کے بال، ناخن یا دانت ہی ہوں اسے اس کے ساتھ ہی دفن کر دینا ضروری ہے اور اگر جُدا ہونے والی چیزیں اگرچہ وہ دانت، ناخن یا بال ہی کیوں نہ ہوں میت کو دفنانے کے بعد ملیں تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ انہیں کسی دوسری جگہ دفن کر دیا جائے ۔ جو ناخن اور دانت انسان کی زندگی میں ہی اس سے جدا ہو جائیں انہیں دفن کرنا مستحب ہے۔
(۶۱۵)اگر کوئی شخص کنویں میں مر جائے اور اسے باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ کنویں کا منہ بند کر دیں اور اس کنویں کو ہی اس کی قبر قرار دیں۔
(۶۱۶)اگر کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں مر جائے اور اس کا پیٹ میں رہنا ماں کی زندگی کے لیے خطرناک ہو تو ضروری ہے کہ اسے آسان ترین طریقے سے باہر نکالیں۔ چنانچہ اگر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر بھی مجبور ہوں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ضروری ہے کہ اگر اس عورت کا شوہر اہلِ فن ہو تو بچے کو اس کے ذریعے باہر نکالیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کوئی اہل فن عورت فن عورت اسے باہر نکالے۔ عورت کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس سلسلے میں کسی ایسے فرد سے رجوع کرے اور جو کام کو بہتر طریقے سے انجام دے سکے اور اس کی حالت کے اعتبار سے زیادہ مناسب ہو، چاہے نامحرم ہی کیوں نہ ہو۔
(۶۱۷)اگرماں مر جائے اور بچہ اس کے پیٹ میں زندہ ہو اور چاہے مختصر مدت کے لئے ہی سہی، اس بچے کے زندہ رہنے کی امید ہو تو ضروری ہے کہ جو جگہ بھی بچے کی سلامتی کے لئے بہتر ہے اسے چاک کریں اور بچے کو باہر نکالیں اور پھر اس جگہ کو ٹانکے لگا دیں۔ لیکن اگر یقین یا اطمینان ہو کہ ایسا کرنے سے بچہ مر جائے گا تو پھر جائز نہیں ہے۔
دفن کے مستحبات
(۶۱۸)مستحب ہے کہ قبر کو ایک متوسط انسان کے قد کے لگ بھگ کھودیں اور میت کو نزدیک ترین قبرستان میں دفن کریں ماسوا اس کے کہ جو قبرستان دو ر ہو وہ کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً وہاں نیک لوگ دفن کئے گئے ہوں یا زیادہ لوگ وہاں فاتحہ پڑھنے جاتے ہوں۔ یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ قبر سے چند گز دُور زمین پر رکھ دیں اور تین دفعہ تھوڑا تھوڑا کر کے قبر کے نزدیک لے جائیں اور ہر دفعہ زمین پر رکھیں اور چوتھی دفعہ قبر میں اُتار دیں اور اگر میت مر د ہو تو تیسری دفعہ زمین پر اس طرح رکھیں کہ اس کا سر قبر کی نچلی طرف ہو اور چوتھی دفعہ سر کی طرف سے قبر میں داخل کریں اور اگر میّت عورت ہو تو تیسری دفعہ اسے قبر کے قبلے کی طرف رکھیں اور پہلو کی طرف سے قبر میں اُتار دیں اور قبر میں اُتارتے وقت ایک کپڑا قبر کے اوپر تان لیں۔ یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ بڑے آرام کے ساتھ تابوت سے نکالیں اور قبر میں داخل کریں اور وہ دعائیں جنہیں پڑھنے کے کہا گیا دفن کرنے سے پہلے اور دفن کرتے وقت پڑھیں اور میت کو قبر میں رکھنے کے بعد اس کے کفن کی گرہیں کھول دیں اور اس کا رخسار زمین پر رکھ دیں اور اس کے سر کے نیچے مٹی کا تکیہ بنا دیں اور اس کی پیٹھ کے پیچھے کچی اینٹیں یا ڈھیلے رکھ دیں تاکہ میت چت نہ ہو ہو جائے اور اس سے پیشتر کہ قبر بند کریں دایاں ہاتھ میت کے دائیں کندھے پر ماریں اور بایاں ہاتھ زور سے میت کے بائیں کندھے پر رکھیں اور منہ اس کے کان کے قریب لے جائیں اور اسے زور سے حرکت دیں اور تین دفعہ کہیں : اسمع افھم یا فلاں ابن فلاں۔ اور فلاں ابن فلاں کی جگہ میت کا اور اس کے باپ کا نام لیں۔ مثلاً اگر اس کا اپنا نام موسیٰ اور اس کے باپ کا نام عمران ہو تو تین دفعہ کہیں: اِسْمَعْ اِفْھَمْ یَا مُوْسَی بْنَ عِمْرَانَ ۔ اس کے بعد کہیں:
ھَلْ اَنْتَ عَلَی الْعَھْدِ الَّذِیْ فَارَقْتَنَا عَلَیْہِ مِنْ شَھَادَةِاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَاَنَّ مُحَمَّدًا صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ وَسَیِّدُ النَّبِیِّیْنَ وَخَاتَمُ الْمُرْسَلِیْنَ وَاَنَّ عَلِیًّا اَمِیْرُالْمُوٴْ مِنِیْنَ وَسَیِّدُ الْوَصِیِّیْنَ وَاِمَامُ افْتَرَضَن اللّٰہُ طَاعَتَہ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ وَاَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ وَعَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ وَمُحَمَّدَبْنَ عَلِیٍّ وَّ جَعْفَرَبْنَ مُحَمَّدٍ وَّمُوْسَی بْنَ جَعْفَرٍ وَّعَلِیَّ بْنَ مُوْسٰی وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ عَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ وَّالْقَآئِمَ الْحُجَّةَ الْمَھْدِیَّ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ اَئِمَّةُ الْمُوٴْمِنِیْنَ وَحُجَجُ اللّٰہِ عَلَی الْخَلْقِ اَجْمَعِیْنَ وَاَئِمَّتَکَ اَئِمَّةُ ھُدًی اَبْرَارٌ یَا فُلَانَ ابْنَ فُلَانٍ
اور فُلَانَ ابْنَ فُلَانٍ کی بجائے میت کا اور اس کے باپ کا نام لے اور پھر کہے:
اِذَا اَرَاکَ الْمَلَکَانِ الْمُقَرَّبَانِ رَسُوْلَیْنِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَسَاَلَاکَ عَنْ رَّبِّکَ وَعنْ نَّبِیّکَ وَعَنْ دِیْنِکَ وَعَنْ کِتَابِکَ وَعَنْ قِبْلَتِکَ وَعَنْ اَنِمَّتِکَ فَلَاتَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ وَقُلْ فِیْ جَوَابِھِمَا اَللّٰہُ رَبِّیْ وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ نَبِیِّیْ وَالْاِسْلَامُ دِیِنِیْ وَالْقُرْاٰنُ کِتَابِیْ وَالْکَعْبَةُ قِبْلَتِیْ وَاَمِیْرُ الْمُوٴْمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اِمَامِیْ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ الْمُجْتَبٰی اِمَامِیْ وَالْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیِّ الشَّھِیْدُ بِکَرْبَلَآءَ اِمَامِیْ وَعَلِیٌّ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ اِمَامِیْ وَمُحَمَّدُنِ الْبَاقِرُ اَمَامِیْ وَجَعْفَرُنِ الصَّادِقُ اِمَامِیْ اِمَامِیْ وَمُوْسَی الْکَاظِمُ اِمَامِیْ وَعَلِیُّنِ الرِّضَا اِمَامیْ وَمُحَمَّدُنِ الْجَوَادُ اِمَامِیْ وَعَلِیُّنِ الْھَادِیْ اِمَامِیْ وَالْحَسَنُ الْعَسْکَرِیُّ اِمَامِیْ وَالْحُجَّةُ الْمُنْتَظَرُ اِمَامِیْ ھٰٓوٴُ لَآءِ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ اَجْمَعَیِْنَ اَئِمَّتِیْ وَسَادَتِیْ وَ قَادَتِیْ وَشُفَعَآئِیْ بِھِمْ اَتَوَلّٰی وَمِنْ اَعْدَآئِھِمْ اَتَبَرَّ اُفِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ ثُمَّ اَعْلَمْ یَا فُلَانَ ابْنَ فُلَانٍ
فُلَان َابْنَ فُلَانٍ کی بجائے میت کااور اس کے باپ کا نام لے اور پھر کہے:
اَنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نِعْمَ الرَّبُّ وَاَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ نِعْمَ الرَّسُوْلُ وَاَنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ وَاَوْلَادَہُ الْمُعْصُوْمِیْنَ الْاَئِمَّةَ الْاِثْنِیْ عَشَرَنِعْمَ الْاَئِمَّةُ وَاَنَّ مَاجَآءَ بِہ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ حَقٌّ وَّاَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَّسُوٴَالَ مُنْکَرٍ وَّ نَکِیْْرٍ فِی الْقَبْرِ حَقٌّ وَّالْبَعْثَ حَقٌّ وَّالنُّشُوْرَ حَقٌّ وَّ الصِّراطَ حَقٌّ وَالمِیْزَانَ حَقّ وَّتَطَایُرَ الْکُتُبِ حَقٌّ وَّاَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَّالنَّارَ حَقٌّ وَّاَنّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَارَیْبَ فِیْھَا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ
پھر کہے”اَفَھِمْتَ یَا فُلَانُ“ اور فُلَانُ کی بجائے میت کا نام لے اور اس کے بعد کہے:
ثَبَّتَکَ اللّٰہُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ وَھَدَاکَ اللّٰہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ عَرَّفَ اللّٰہُ بَیْنَکَ وَبَیْنَ اَوْلِیَائِکَ فِی مُسْتَقَرٍّ مّنْ رَّحْمَتِہ
اس کے بعد کہے:
اَللّٰھُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَیْہِ وَاَصْعِدْ بِرُوْحِہ اِلَیْکَ وَلَقِّہ مِنْکَ بُرْھَانًا اَللّٰھُمَّ عَفْوَکَ عَفْوَکَ عَفْوَکَ
(۶۱۹)مستحب ہے کہ جو شخص میت کو قبر میں اُتارے وہ باطہارت، برہنہ سر اور برہنہ پا ہو اور میت کی پائنتی کی طرف سے قبر سے باہر نکلے اور میت سے باہر نکلے اور میت کے عزیز واقرباء کے علاوہ جو لوگ موجود ہوں وہ ہاتھ کی پشت سے قبر پر مٹی ڈالیں اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھیں۔اگر میت عورت ہو تو اس کا محرم اسے قبر میں اُتارے اور اگر محرم نہ ہو تو اس کے عزیز واقرباء اسے قبر میں اُتاریں۔
(۶۲۰)مستحب ہے کہ قبر چار کونوں والی بنائی جائے اور زمین سے تقریباً چار انگل بلند ہو اور اس پر کوئی نشانی لگا دی جائے تا کہ پہچاننے میں غلطی نہ ہو اور قبر پر پانی چھڑکا جائے اور پانی چھڑکنے کے بعد جو لوگ موجود ہوں وہ اپنے ہاتھ قبر پر رکھیں اور اپنی انگلیاں کھول کر قبر کی مٹی میں گاڑ کر سات دفعہ سورہٴ قدر پڑھیں اور میت کے لیے مغفرت طلب کریں اور یہ دعا پڑھیں:
اَللّٰھُمَّ جَافِ الْارْضَ عَنْ جَنْبَیْہِ وَاَصْعِدْ اِلَیْکَ رُوْحَہ وَلََقَّہ مِنْکَ رِضْوَانًا وَّاسْکِنْ قَبْرَہ مِن ْرَّحْمَتِکَ مَا تُغْنِیْہِ بِہ عَنْ رَّحْمَةِ مَنْ سَوَاکَ
(۶۲۱)مستحب ہے کہ جو لوگ جنازے کی مشایعت کے لئے آئے ہوں ان کے چلے جانے کے بعد میت کا ولی یا وہ شخص جسے ولی اجازت دے میت کو ان دعاؤں کی تلقین کرے جو بتائی گئی ہیں۔
(۶۲۲)دفن کے بعد مستحب ہے کہ میت کے پسماندگان کو پُرسا دیا جائے لیکن اگر اتنی مُدت گزر چکی ہو کہ پُسا دینے سے ان کا دکھ تازہ ہو جائے تو پُرسہ نہ دینا بہتر ہے۔ یہ بھی مستحب ہے کہ میت کے اہل خانہ کے لئے تین دن تک کھانا بھیجا جائے۔ ان کے پاس بیٹھ کر اور ان کے گھر میں کھانا کھانا مکروہ ہے۔
(۶۲۳)مستحب ہے کہ انسان عزیز واقرباء کی موت پر خصوصاً بیٹے کی موت پر صبر کرے اور جب بھی میت کی یاد آئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھے اور میت کے لئے قرآن خوانی کرے اور ماں باپ کی قبروں پر جا کر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجتیں طلب کرے اور قبر کو پختہ کر دے تاکہ جلدی ٹوٹ پھوٹ نہ جائے۔
(۶۲۴)کسی کی موت پر بھی انسان کے لئے جائز نہیں کہ اپنا چہرہ اور بدن زخمی کرے اور اپنے بال نوچے لیکن سر اور چہرے کا پیٹنا جائز ہے۔
(۶۲۵)احتیاط واجب کی بنا پر باپ اور بھائی کے علاوہ کسی کی موت پر بھی گریبان چاک کرنا جائز نہیں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان کی موت پر بھی گریبان چاک نہ کیا جائے۔
(۶۲۶)اگر عورت میت کے سوگ میں اپنا چہرہ زخمی کرے کے خون آلود کر لے یا بال نوچے تو احتیاط مستحب کی بنا پر وہ ایک غلام کو آزاد کرے یا دس فقیروں کو کھانا کھلائے یا انہیں کپڑے پہنائے اور اگر مرد اپنی بیوی یا فرزند کی موت پر اپنا گریبان یا لباس پھاڑے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
(۶۲۷)احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت پر روتے وقت آواز بہت بلند نہ کی جائے۔
نمازِ وحشت
(۶۲۸)سزاوار ہے کہ میت کے دفن کی پہلی رات کو اس کے لئے دو رکعت نماز وحشت پڑھی جائے اور اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورہٴ الحمد کے بعد ایک دفعہ آیةالکرسی اور دوسر ی رکعت میں سورہٴ الحمد کے بعد دس دفعہ سورہٴ قدر پڑھا جائے اور سلام نماز کے بعد کہا جائے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّابْعَثْ ثَوَابَھَا اِلٰی قَبْرِ فُلَاںٍ
اور لفظ فلاں کی بجائے میت کا نام لیا جائے۔
(۶۲۹)نمازِ وحشت میت کے دفن کے بعد پہلی رات کو کسی وقت بھی پڑھی جا سکتی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اول شب میں نمازِ عشاء کے بعد پڑھی جائے۔
(۶۳۰)اگر میت کو کسی دور کے شہر میں لے جانا مقصود ہو یا کسی اور وجہ سے اس کے دفن میں تاخیر ہو جائے تو نمازِ وحشت کو اس کے دفن کی پہلی رات تک ملتوی کر دینا چاہئے۔
قبر کشائی
(۶۳۱)کسی مسلمان کی قبر کا کھولنا خواہ وہ بچہ یا دیوانہ ہی کیوں نہ ہو حرام ہے۔ ہاں اگر اس کا بدن مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہو چکا ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔
(۶۳۲)امام زادوں، شہیدوں، عالموں اور صالح لوگوں کی قبروں کو اُجاڑنا خواہ انہیں فوت ہوئے سالہا سال گزر چکے ہوں اور ان کے بدن پیوندِ زمیں ہو گئے ہوں، اگر ان کی بے حرمتی ہوتی ہو تو حرام ہے۔
(۶۳۳)چند صورتیں ایسی ہیں جن میں قبر کشائی حرام نہیں:
۱)جب میت کو غصبی زمین میں دفن کیا گیا ہو اور زمین کا مالک اس کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہو اور قبر کھولنا بھی حرج کا باعث نہ ہو ، ورنہ قبر کھولنا کسی کے لئے ضروری نہ ہو گا سوائے غاصب کے۔ اگر قبر کھولنے کے مقابلے میں کوئی اور اہم چیز ٹکرا رہی ہو مثلاً میت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا پڑ رہا ہو تو قبر کھولنا نہ فقط ضروری نہیں بلکہ جائز نہیں ہے اور اگر قبر کھولنا بے حرمتی کا سبب ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر جائز ہی نہیں ہے سوائے اس کے کہ میت نے اس زمین کو غصب کیا ہو۔
۲)جب کفن یا کوئی اور چیز جو میت کے ساتھ دفن کی گئی ہو غصبی ہو اور اس کا مالک اس بات پر رضا مند نہ ہو کہ وہ قبر میں رہے اور اگر خود میت کے مال میں سے کوئی چیز جو اس کے وارثوں کو ملی ہو اس کے ساتھ دفن ہو گئی ہو اور اس کے وارث اس بات پر راضی نہ ہوں کہ وہ چیز قبر میں رہے تو ا س کی بھی یہی صورت ہے۔ البتہ اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ دعایا قرآن مجید یا انگوٹھی اس کے ساتھ دفن کی جائے اور اس کی وصیت پر عمل کرنا ضروری ہو تو ان چیزوں کو نکالنے کے لئے قبر کو نہیں کھولا جا سکتا۔ اس مقام پر بھی وہ استثناء جاری ہے جس کا ذکر پہلے موارد میں کیا گیا ہے۔
۳)جب قبر کا کھولنا میت کی بے حرمتی کا موجب نہ ہو اور میت کو بغیر غسل دئیے یا بغیر کفن پہنائے دفن کیا گیا ہو یا پتا چلے کہ میت کا غسل باطل تھا یا اسے شرعی احکام کے مطابق کفن نہیں دیا گیا تھا یا قبر میں قبلے کے رُخ پر نہیں لٹایا گیا تھا۔
۴)جب کوئی ایسا حق ثابت کرنے کے لئے جو قبر کشائی سے زیادہ اہم ہو میت کا بدن دیکھنا ضروری ہو۔
۵)جب میت کو ایسی جگہ دفن کیا گیا ہو جہاں اس کی بے حرمتی ہوتی ہو مثلاً اسے کافروں کے قبرستان میں یا اس جگہ دفن کیا گیا ہو جہاں غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہو۔
۶)جب کسی ایسے شرعی مقصد کے لئے قبر کھولی جائے جس کی اہمیت قبر کھولنے سے زیاد ہ ہو۔ مثلاً کسی زندہ بچے کو ایسی حاملہ عورت کے پیٹ سے نکالنا مطلوب ہو جسے دفن کر دیا گیا ہو۔
۷)جب یہ خوف ہو کہ درندہ میت کو چیر پھاڑ ڈالے گا یا سیلاب اسے بہا لے جائے گا یا دشمن اسے نکال لے گا۔
۸)میت نے وصیت کی ہو کہ اسے دفن کرنے سے پہلے مقدس مقامات کی طرف منتقل کیا جائے اور ان مقامات کی طرف منتقل کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو لیکن جان بوجھ کر، لاعِلمی یا بھولے سے کسی دوسری جگہ دفنا دیا گیا ہو تو اگر بے حرمتی نہ ہوتی ہو اور کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو تو اس صورت میں قبر کھول کر اسے مقدس مقامات کی طرف لے جا سکتے ہیں ، بلکہ مذکورہ صورت میں تو قبر کو کھولنا اور میت کو منتقل کرنا واجب ہے۔
مستحب غسل
(۶۳۴)اسلامی شریعت میں بہت سے غسل مستحب ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
۱)غسل جمعہ: اس کا وقت صبح کی اذان کے بعد سورج غروب ہونے تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ ظہر کے قریب بجا لایا جائے اور اگر کوئی شخص اسے ظہر تک انجام نہ دے تو بہتر ہے کہ ادا اور قضا کی نیت کیے بغیر غروب آفتاب تک بجا لائے اور اگر جمعہ کے دن غسل نہ کرے تو مستحب ہے کہ ہفتے کے دن صبح سے غروب آفتاب تک اس کی قضا بجا لائے۔ جو شخص جانتا ہو کہ اسے جمعہ کے دن پانی میسر نہ ہو گا تو وہ رجاء کی نیت سے جمعرات کے دن یا شب جمعہ میں غسل انجام دے سکتا ہے اور مستحب ہے کہ انسان غسلِ جمعہ کرتے وقت یہ دعا پڑھے:
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ الْمُتَطَھِّرِیْنَ
(۲تا ۷) رمضان کی پہلی ، سترہویں ، انیسویں ، اکیسویں، تئییسویں اور چوبیسویں رات کا غسل ۔
(۸۔۹) عیدالفطر اور عید قربان کے دن کا غسل۔ اس کا وقت صبح کی اذان سے سورج غروب ہونے تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ عید کی نماز سے پہلے کر لیا جائے۔
(۱۰۔ ۱۱)ذی الحج کے آٹھویں اور نویں دن کا غسل اور بہتر یہ ہے کہ نویں دن کا غسل ظہر کے نزدیک کیا جائے۔
۱۲)اس شخص کا غسل جس نے اپنے بدن کا کوئی حصہ ایسے میت کے بدن سے مس کیا ہو جسے غسل دے دیا گیا ہو۔
۱۳)احرام کا غسل
۱۴)حرم مکہ میں داخل ہونے کا غسل
۱۵)مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا غسل
۱۶)خانہٴ کعبہ کی زیارت کا غسل
۱۷)کعبہ میں داخل ہونے کا غسل
۱۸)ذبح اور نحر کے لئے غسل
۱۹)بال مونڈنے کے لئے غسل
۲۰)حرم مدینہ میں داخل ہونے کا غسل
۲۱)مدینہ منورہ میں داخل ہونے کا غسل
۲۲)مسجد نبوی میں داخل ہونے کا غسل
۲۳)رسول اکرم ﷺ کی قبر مطہر سے ودا ع ہونے کا غسل
۲۴)دشمن کے ساتھ مباہلہ کرنے کا غسل
۲۵)نوزائدہ بچے کو غسل دینا
۲۶)استخارہ کرنے کا غسل
۲۷)طلب باراں کا غسل۔
(۶۳۵)فقہاء نے مستحب غسلوں کے باب میں بہت سے غسلوں کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے چند یہ ہیں:
۱)رمضان کی تمام طاق راتوں کا غسل اور اس کی آخری دہائی کی تمام راتوں کا غسل اور اس کی تئیسیویں رات کے آخری حصے میں دوسرا غسل۔
۲)ذی الحج کے چوبیسیویں دن کا غسل۔
۳)عیدِ نوروز کے دن اور پندرہویں شعبان اور نویں اور سترہویں ربیع الاول اور ذی العقدہ کے پچیسویں دن کا غسل۔
۴)اس عورت کا غسل جس نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لئے خوشبو استعمال کی ہو۔
۵)اس شخص کا غسل جو مستی کی حالت میں سو گیا ہو۔
۶)اس شخص کا غسل جو کسی سولی چڑھے ہوئے انسان کو دیکھنے گیا ہو اور اسے دیکھا بھی ہو لیکن اگر اتفاقاً یا مجبوری کی حالت میں نظر پڑ گئی ہو یا مثال کے طور پر اگر شہادت دینے گیا ہو تو غسل مستحب نہیں ہے۔
۷)دور یا نزدیک سے معصوم - کی زیارت کے لئے غسل۔ ان میں سے کسی غسل کا مستحب ہونا ثابت نہیں اور جو شخص بھی ان میں سے کوئی غسل انجام دینا چاہے ضروری ہے کہ رجاء کی نیت سے انجام دے۔
(۶۳۶) انسان ان تمام غسلوں کے ساتھ جن کا مستحب ہونا شرعاً ثابت ہو گیا ہے، مثلاً وہ غسل جن کا تذکرہ مسئلہ ۶۳۴ میں کیا گیا ہے، ایسے کام مثلاً نماز انجام دے سکتا ہے جن کے لئے وضو لازم ہے (یعنی وضو کرنا ضروری نہیں) ۔ لیکن جو غسل بطور رجاء کئے جائیں وہ غسل جن کا تذکرہ مسئلہ ۶۳۵ میں کیا گیا ، وضو کے لئے کفایت نہیں کرتے( یعنی ساتھ ساتھ وضو کرنا بھی ضروری ہے)۔
(۶۳۷)اگر کئی مستحب غسل کسی شخص کے ذمے ہوں اور وہ سب کی نیت کر کے ایک غسل کر لے تو کافی ہے۔ ہاں اگر غسل مکلّف کے کسی عمل کی وجہ سے مستحب ہوا ہو ، مثلاً ایسے شخص کا غسل جس نے اپنے بدن کا کوئی حصہ کسی ایسی میت سے مس کیا ہو جس کو غسل دیا جا چکا ہو، تو ایسی صورت میں چند وجوہات کی بنا پر مستحب ہونے والے غسلوں کے لئے ایک غسل پر اکتفا کرنا محل اشکال ہے۔
تیمّم
سات صورتوں میں وضو اور غسل کے بجائے تیمم کرنا ضروری ہے:
تیمم کی پہلی صورت
(۶۳۸) اگر انسان آبادی میں ہو تو ضروری ہے کہ وضواور غسل کیلئے پانی مہیا کرنے کیلئے اتنی جستجو کرے کہ بالآ خر اس کے ملنے سے ناامید ہو جائے۔ یہی حکم بیابانوں میں دینے والے افراد مثلاً خانہ بدوشوں کیلئے ہے۔ اور اگر انسان سفر کے عالم میں ہواور بیابان میں ہو تو ضروری ہے کہ راستوں میں یا اپنے ٹھہرنے کی جگہ کے آس پاس والی جگہوں میں پانی تلاش کرے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ وہاں کی زمین ناہموار ہو یا درختوں کی کثرت کی وجہ سے راہ چلنا دشوار ہوتو چاروں اطراف میں سے ہر طرف پرانے زمانے میں کمان کے چلے پر چڑھا کر پھینکے جانے والے تیرکی پرواز ۱# کے فاصلے کے برابر پانی کی تلاش میں جائے۔ جب کہ ہموار زمین میں ہر طرف اندازاً دو بار پھینکے جانے والے تیرکے فاصلے کے برابر جستجو کرے۔
(۶۳۹) اگر چار اطراف میں سے بعض ہموار اور بعض ناہموار ہوں تو جو طرف ہموار ہو اس میں دو تیروں کی پرواز کے برابر اور جو طرف ناہموار ہو اس میں ایک تیر کی پرواز کے برابر پانی تلاش کرے۔
(۶۴۰) جس طرف پانی کے نہ ہونے کایقین ہو اس طرف تلاش کرنا ضروری نہیں۔
(۶۴۱) اگر کسی شخص کی نماز کا وقت تنگ نہ ہو اور پانی حاصل کرنے کیلئے اس کے پاس وقت ہواور اسے یقین یا اطمینان ہو کہ جس فاصلے تک اس کے لیے پانی تلاش کرنا ضروری ہے اس سے دور پانی موجود ہو تو ضروری ہے کہ پانی حاصل کرنے کیلئے وہاں جائے لیکن اگر پانی بہت زیادہ دور ہوکہ لوگ یہ کہیں کہ ان کے پاس پانی نہیں ہے تو وہاں جانا لازم نہیں ہے اور اگر پانی موجود ہونے کا گمان ہو تو پھر بھی وہاں جانا ضروری نہیں ہے۔
(۶۴۲) یہ ضروری نہیں کہ انسان خود پانی کی تلاش میں جائے بلکہ وہ کسی اور ایسے شخص کی بات پر بھی اکتفا کر سکتا ہے جس نے جستجو کرلی ہو اور جس کی بات پر اسے اطمینان ہو۔
(۶۴۳) اگر اس بات کا احتمال ہو کہ اپنے سفر کے سامان میں پڑاؤ ڈالنے کی جگہ پر یا قافلے میں پانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ اس قدر جستجو کرے کہ اسے پانی کے نہ ہونے کا اطمینان ہو جائے یا اس کے حصول سے ناامید ہوجائے۔ سوائے اس کے کہ پہلے کسی مورد میں پانی نہ تھا اور اب احتمال ہوکہ شاید پانی آچکا ہو کہ اس صورت میں جستجو ضروری نہیں۔
(۶۴۴) اگر ایک شخص نماز کے وقت سے پہلے پانی تلاش کرے اور حاصل نہ کرپائے اور نماز کے وقت تک وہیں رہے تو اگر پانی ملنے کا احتمال ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ پانی کی تلاش میں جائے۔
(۶۴۵) اگر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد تلاش کرے اور پانی حاصل نہ کرپائے اور بعد والی نماز کے وقت تک اسی جگہ رہے تو اگر پانی ملنے کا احتمال ہوتو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ پانی کی تلاش میں جائے۔
(۶۴۶) اگر کسی شخص کی نماز کا وقت تنگ ہو یا اسے چورڈاکو اور درندے کا خوف ہو یا پانی کی تلاش اتنی کٹھن ہو کہ اس جیسے افراد عام طور پر اتنی تکلیف برداشت نہیں کرے تو تلاش ضروری نہیں۔
(۶۴۷) اگر کوئی شخص پانی تلاش نہ کرے حتیٰ کہ نماز کا وقت تنگ ہوجائے اور پانی تلاش کرنے کی صورت میں پانی مل سکتا تھا تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا لیکن تیمم کے ساتھ اس کی نماز صحیح ہے۔
(۶۴۸) اگر کوئی شخص اس یقین کی بنا پر کہ اسے پانی نہیں مل سکتا پانی کی تلاش میں نہ جائے اور تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور بعد میں اسے پتا چلے کہ اگر تلاش کرتا تو پانی مل سکتا تھا تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ وضو کر کے نماز دوبارہ پڑھے۔
(۶۴۹) اگر کسی شخص کو تلاش کرنے پر پانی نہ ملے اور ملنے سے مایوس ہو کر تیمم کے ساتھ نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے پتا چلے کہ جہاں اس نے تلاش کیا تھا وہاں پانی موجود تھا تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۶۵۰) جس شخص کو یقین ہو کہ نماز کا وقت تنگ ہے اگر وہ پانی تلاش کئے بغیر تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور نماز پڑھنے کے بعد اور وقت گزرنے سے پہلے اسے پتا چلے کہ پانی تلاش کرنے کیلئے اس کے پاس وقت تھا تو احتیاط واجب یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔
(۶۵۱) اگر ایک شخص باوضو ہواور اسے معلوم ہو کہ اگر اس نے اپنا وضو باطل کردیا تو دوبارہ وضو کیلئے پانی نہیں ملے گا یا وہ وضو نہیں کرپائے گا تو اس صورت میں اگر وہ اپنا وضو برقرار رکھ سکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے چاہئے کہ وضو باطل نہ کرے چاہے ابھی نماز کا وقت داخل ہوا ہو یا نہ ہو اہو ، لیکن ایسا شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ غسل نہ کرپائے گا اپنی بیوی سے جماع کرسکتا ہے۔
(۶۵۲) جب کسی کے پاس فقط وضو یا غسل کیلئے پانی ہو اور وہ جانتا ہو کہ اسے گرادینے کی صورت میں مزید پانی نہیں مل سکے گا تو اگر نماز کا وقت داخل ہوگیا ہو تو اس پانی کا گرانا حرام ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پہلے بھی نہ گرائے۔
(۶۵۳) اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ اسے پانی نہ مل سکے گا، اپنا وضو باطل کردے یا جو پانی اس کے پاس ہوا سے گرادے تو اگرچہ اس نے (حکم مسئلہ کے) برعکس کا م کیاہے ، تیمم کے ساتھ اس کی نماز صحیح ہوگی لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔
تیمم کی دوسری صورت
پانی تک رسائی نہ ہونا۔
(۶۵۴) اگر کوئی شخص بڑھاپے یا کمزوری کی وجہ سے یا چورڈاکو اور جانور وغیرہ کے خوف سے یا کنویں سے پانی نکالنے کے وسائل میسر نہ ہونے کی وجہ سے پانی حاصل نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔
(۶۵۵) اگر کنویں سے پانی نکالنے کیلئے ڈول اور رسی وغیرہ ضروری ہوں اور انسان مجبور ہو کہ انہیں خریدے یا کرائے پر حاصل کرے تو خواہ ان کی قیمت عام بھاؤ سے کئی گنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو ضروری ہے کہ انہیں حاصل کرے۔ اگر پانی اپنی اصلی قیمت سے مہنگا بیچا جارہا ہو تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر ان چیزوں کے حصول پر اتنا خرچ اٹھتا ہو جو اس کے مال کے اعتبار سے ضرر کا باعث ہو تو پھر ان چیزوں کا مہیا کرنا واجب نہیں ہے۔
(۶۵۶) اگر کوئی شخص مجبور ہو کہ پانی مہیا کرنے کیلئے قرض لے تو قرض لینا ضروری ہے لیکن جس شخص کو علم ہو یا گمان ہو کہ وہ اپنے قرضے کی ادائیگی نہیں کرسکتااس کے لیے قرض لینا واجب نہیں ہے۔
(۶۵۷) اگر کنواں کھودنے میں کوئی مشقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی مہیا کرنے کیلئے کنواں کھودے ۔
(۶۵۸) اگر کوئی شخص بغیر احسان رکھے کچھ پانی دے تو اسے قبول کرلینا ضروری ہے۔
تیمم کی تیسری صورت
پانی کے استعمال میں خوف ہو۔
(۶۵۹) اگر پانی کا استعمال کسی شخص کیلئے جان لیوا ہو یا اس کے بدن میں کسی عیب یا مرض کے پیدا ہونے یا موجودہ مرض کے طولانی یا شدید ہو جانے یا علاج معالجہ میں دشواری پیدا ہونے کا سبب ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ تیمم کرے ۔ لیکن اگر پانی کی ضرر کو کسی طریقے سے دور کرسکتا ہو مثلاً یہ کہ پانی کو گرم کرنے سے ضرر دور ہوسکتا ہو تو پانی گرم کرکے وضو کرے اور اگر غسل کرنا ضروری ہو تو غسل کرے۔
(۶۶۰) ضروری نہیں کہ کسی شخص کو یقین ہو کہ پانی اس کیلئے مضر ہے بلکہ اگر ضرر کا احتمال ہو اور یہ احتمال عام لوگوں کی نظروں میں معقول ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔
(۶۶۱) اگر کوئی شخص ضرر کے یقین یا احتمال کی وجہ سے تیمم کرے اور اسے نماز سے پہلے اس بات کا پتا چل جائے کہ پانی اس کیلئے نہیں تو اس کا تیمم باطل ہے اور اگر اس بات کا پتا نماز کے بعد چلے تو وضو یا غسل کرکے دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے ۔ سوائے اس کے کہ ضرر کے یقین یا احتمال کے باوجود وضو یا غسل کرنا ایسی ذہنی بے چینی کا باعث ہو جسے برداشت کرنا مشکل ہے۔
(۶۶۲) اگر کسی شخص کو یقین ہوکہ پانی اس کیلئے مضر نہیں ہے اور غسل یا وضو کرلے ، بعد میں اُسے پتا چلے کہ پانی اس کیلئے مضر تھا تو اس کا وضو اور غسل دونوں باطل ہیں۔
تیمم کی چوتھی صورت
حرج اور مشقت۔
(۶۶۳) اگر کسی شخص کیلے پانی مہیا کرنا یا اسے استعمال کرنا ایسے حرج و مشقت کا باعث ہو جسے عام طور پر برداشت نہیں کیا جاتا تو وہ تیمم کرسکتا ہے لیکن اگر وہ مشقت برداشت کرتے ہوئے وضو یا غسل کرلے تو اس کے وضو وغسل صحیح ہوں گے۔
تیمم کی پانچوں صورت
پانی پیاس بجھانے کیلئے ضروری ہو۔
(۶۶۴) اگر کسی شخص کو پیاس بجھانے کیلئے پانی کی ضرورت ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور اس وجہ سے تیمم کے جائز ہونے کی دو صورتیں ہیں۔
(۱) اگر پانی وضو یا غسل کرنے میں صرف کردے تو وہ خود فوری طور پر یا بعدمیں ایسی پیاس میں مبتلا ہوگا جو اس کی ہلاکت یا علالت کا موجب ہوگی یا جس کا برداشت کرنااس کیلئے سخت تکلیف کا باعث ہوگا۔
(۲) اپنے علاوہ خود سے وابستہ دوسرے افراد کی خاطر ڈرتا ہو چاہے وہ دوسرے نفوس محترم بھی نہ رکھتے ہوں جب کہ ان کی زندگی کے امور اس کیلئے اہمیت کے حامل ہوں ، چاہے اس لیے کہ وہ ان سے شدید محبت رکھتا ہو یا اس اعتبار سے کہ ان کا تلف ہو جانا اس کیلئے مالی نقصان کا باعث ہے یا اس لیے کہ ان کا خیال کرنا عرفا ًاس کے لیے ضروری ہے جیسے دوست اور ہمسائے ۔
ان دونوں صورتوں کے علاوہ بھی ممکن ہے کہ پیاس ، تیمم کے جواز کا سبب بنے لیکن اس وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ جان کی حفاظت واجب ہے یا اس لیے کہ پیاسے کی موت یا بے چینی مطمعناً اس کے لیے حرج کا سبب بنے گی۔
(۶۶۵) اگر کسی شخص کے پاس اس پاک پانی کے علاوہ جو وضو یا غسل کیلئے ہواتنا نجس پانی بھی ہو جتنا اسے پینے کیلئے درکار ہے تو ضروری ہے کہ پاک پانی پینے کیلئے رکھ لے اور تیمم کرکے نماز پڑھے لیکن اگر پانی اس کے ساتھیوں کے پینے کیلئے درکار ہو تو وہ پاک پانی سے وضو یا غسل کرسکتا ہے ۔ خواہ اس کے ساتھ پیاس بجھانے کیلئے نجس پانی پینے پر ہی مجبور کیوں نہ ہوں بلکہ اگر وہ لوگ اس پانی کے نجس ہونے کے بارے میں نہ جانتے ہوں یا یہ کہ نجاست سے پرہیز نہ کرتے ہوں تو لازم ہے کہ پاک پانی کو وضو یا غسل کے لیے صرف کرے اور اسی طرح پانی اپنے کسی جانور یا نابالغ بچے کو پلانا چاہے تب بھی ضروری ہے کہ انہیں وہ نجس پانی پلائے اور پاک پانی سے وضو یا غسل کرے۔
تیمم کی چھٹی صورت
وضو یا غسل کا ٹکراؤ ایسی شرعی تکلیف سے ہورہا ہو جو ان سے زیادہ اہم ہو یا مساوی ہو۔
(۶۶۶) اگر کسی شخص کا بدن یا لباس نجس ہو اور اُس کے پاس اتنی مقدار میں پانی ہو کہ اس سے وضو یا غسل کرلے تو بدن یا لباس دھونے کیلئے پانی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ بدن یا لباس دھوئے اور تیمم کرکے نماز پڑھے۔لیکن اگر اس کے پاس ایسی کوئی چیز نہ ہو جس پر تیمم کرے تو ضروری ہے کہ پانی وضو یا غسل کیلئے استعمال کرے اور نجس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھے۔
(۶۶۷) اگر کسی شخص کے پاس سوائے ایسے پانی یا برتن کے جس کا استعمال کرنا حرام ہے کوئی اور پانی یا برتن نہ ہو مثلاً جو پانی یا برتن اس کے پاس ہو وہ غصبی ہو اور اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی پانی یا برتن نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضو اور غسل کے بجائے تیمم کرے۔
تیمم کی ساتویں صورت
وقت کا تنگ ہونا۔
(۶۶۸) جب وقت اتنا تنگ ہو کہ اگر ایک شخص وضو یا غسل کرے تو ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھا جاسکے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔
(۶۶۹) اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ وضو یا غسل کا وقت باقی نہ رہے تو وہ گناہ کا مرتکب ہوگا لیکن تیمم کے ساتھ اس کی نماز صحیح ہے ۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔
(۶۷۰) اگر کسی کو شک ہو کہ وہ وضو یا غسل کرے تو نماز کا وقت باقی رہے گا یا نہیں تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔
(۶۷۱) اگرکسی شخص نے وقت کی تنگی کی وجہ سے تیمم کیا ہواور نماز کے بعد وضو کرسکنے کے باوجود نہ کیا ہو حتیٰ کہ جو پانی اس کے پاس تھا وہ ضائع ہوگیا ہو تو اس صورت میں کہ اس کا فریضہ تیمم ہوضروری ہے کہ آئندہ نمازوں کیلئے دوبارہ تیمم کرے خواہ وہ تیمم جو اس نے کیا تھا نہ ٹوٹا ہو۔
(۶۷۲) اگر کسی شخص کے پاس پانی ہو لیکن وقت کی تنگی کے باعث تیمم کرکے نماز پڑھنے لگے اور نماز کے دوران جو پانی اس کے پاس تھا وہ ضائع ہوجائے ۔ اب اگر اس کا فریضہ تیمم ہو تو بعد کی نمازوں کیلئے دوبارہ تیمم کرنا ضروری نہیں ہے اگرچہ بہتر ہے۔
(۶۷۳) اگر کسی شخص کے پاس اتنا وقت ہو کہ وضو یا غسل کرسکے اور نماز کو اس کے مستحب افعال مثلاً اقامت اور قنوت کے بغیر پڑھ لے تو ضروری ہے کہ غسل یا وضو کرلے اور اس کے مستحب افعال کے بغیر نماز پڑھے بلکہ اگر سورہ پڑھنے جتنا وقت بھی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ غسل یا وضو کرے اور بغیر سورہ کے نماز پڑھے۔
وہ چیزیں جن پر تیمم کرنا صحیح ہے
(۶۷۴) مٹی ، ریت ، ڈھیلے اور پتھر پر تیمم کرنا صحیح ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر مٹی میسر ہوتو کسی دوسری چیز پر تیمم نہ کیا جائے۔ اگر مٹی نہ ہو تو انتہائی باریک بجری پر جسے مٹی کہا جاسکے ، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ڈھیلے پر ، اگر ڈھیلا بھی نہ ہو تو پھر ریت پر اور اگر ریت اور ڈھیلا بھی نہ ہو تو پھر پتھر پر تیمم کیا جائے۔
(۶۷۵) جپسم اور چونے کے پتھر پر تیمم کرنا صحیح ہے نیز اس گرد وغبار پر جو قالین ، کپڑے اور ان جیسی دوسری چیزوں پر جمع ہو جاتا ہے اگر عرف عام میں اسے نرم مٹی شمار کیا جاتا ہو تو اس پر تیمم صحیح ہے ۔ اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں اس پر تیمم نہ کرے اسی طرح احتیاط مستحب کی بنا پر اختیار کی حالت میں پکے جپسم اور چونے پر اور پکی اینٹ اور دوسرے معدنی پتھر مثلا عقیق وغیرہ پر تیمم نہ کرے۔
(۶۷۶) اگر کسی شخص کو مٹی ، ریت ، ڈھیلے یا پتھر نہ مل سکیں تو ضروری ہے کہ تر مٹی پر تیمم کرے اور اگر ترمٹی نہ ملے تو ضروری ہے کہ قالین ، دری یا لباس اور ان جیسی دوسری چیزوں کے اندر یا اوپر موجود اس مختصر سے گردوغبار سے جو عرف میں مٹی شمار نہ ہوتا ہو تیمم کرے اور اگر ان میں سے کوئی چیز بھی دستیاب نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم کے بغیر نماز پڑھے لیکن واجب ہے کہ بعد میں اس نماز کی قضا پڑھے۔
(۶۷۷) اگر کوئی شخص قالین ، دری اور ان جیسی دوسری چیزوں کو جھاڑ کر مٹی مہیا کرسکتا ہے تو اس کا گرد آلود چیز پر تیمم کرنا باطل ہے اور اسی طرح اگر تر مٹی کو خشک کرکے اس سے سوکھی مٹی حاصل کرسکتا ہو تو تر مٹی پر تیمم کرنا باطل ہے۔
(۶۷۸) جس شخص کے پاس پانی نہ ہو لیکن برف ہواور اسے پگھلا سکتا ہو تواسے پگھلا بنا نا اور اس سے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز بھی نہ ہو جس پر تیمم کرنا صحیح ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وقت گزرنے کے بعد نمازکو قضا کرے اور بہتر یہ ہے کہ برف سے وضو یا غسل کے اعضا کو تر کرے اور وضو میں ہاتھ کی رطوبت سے سراور پیروں کا مسح کرے اور اگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ ہو تو برف پر تیمم کرلے اور وقت پر بھی نماز پڑھے ، البتہ دونوں صورتوں میں قضا ضروری ہے۔
(۶۷۹) اگر مٹی اور ریت کے ساتھ سوکھی گھاس کی طرح کی کوئی چیز ملی ہوئی ہو جس پر تیمم کرنا باطل ہو تو اس پر تیمم نہیں کرسکتا ۔ لیکن اگر وہ چیز اتنی کم ہو کہ اسے مٹی یا ریت میں نہ ہونے کے برابر سمجھا جاسکے تو اس مٹی اور ریت پر تیمم صحیح ہے۔
(۶۸۰) اگر ایک شخص کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس پر تیمم کیا جاسکے اور اس کا خریدنا یا کسی اور طرح حاصل کرنا ممکن ہو توضروری ہے کہ اس طرح مہیا کرلے۔
(۶۸۱) مٹی کی دیوار پر تیم کرنا صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ خشک زمین یا خشک مٹی کے ہوتے ہوئے ترزمین یا ترمٹی پر تیمم نہ کیا جائے۔
(۶۸۲) جس چیز پر انسان تیمم کرے اس کا شرعاً پاک ہونا ضروری ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ عرفاً بھی پاکیزہ ہو یعنی اس میں کوئی ایسی چیز ملی ہوئی نہ ہو جس سے انسانی طبیعت کو گھن آتی ہو اگر اس کے پاس کوئی ایسی پاک چیز نہ ہو جس پر تیمم کرنا صحیح ہو تو اس پر نماز واجب نہیں لیکن ضروری ہے کہ اس کی قضابجالائے اور بہتر یہ ہے کہ وقت میں بھی نماز پڑھے ۔ ہاں اگر بات گرد آلود قالین وغیرہ تک آچکی ہو اور وہ نجس ہو ، احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس سے تیمم کرکے نماز پڑھے اور پھر بعد میں اس کی قضا بھی کرے۔
(۶۸۳) اگر کسی کو یقین ہو کہ ایک چیز پر تیمم کرنا صحیح ہے اور اس پر تیمم کرلے بعد ازاں اسے پتا چلے کہ اس چیز پر تیمم کرنا باطل تھا تو ضروری ہے کہ جو نمازیں اس تیمم کے ساتھ پڑھی ہیں وہ دوبارہ پڑھے۔
(۶۸۴) جس چیز پر کوئی شخص تیمم کرے ضروری ہے کہ وہ غصبی نہ ہو پس اگر وہ غصبی مٹی پر تیمم کرے تو اس کا تیمم باطل ہے۔
(۶۸۵) غصب کی ہوئی فضا میں تیمم کرنا باطل نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی زمین میں اپنے ہاتھ مٹی پر مارے اور پھر بلااجازت دوسرے کی زمین میں داخل ہوجائے اور ہاتھوں کو پیشانی پر پھیرے تو اس کا تیمم صحیح ہوگا اگرچہ وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔
(۶۸۶) اگر کوئی شخص بھولے سے یا غفلت سے غضبی چیز پر تیمم کرلے تو تیمم صحیح ہے لیکن اگر وہ خود کوئی چیز غصب کرے اور پھر بھول جائے کہ غصب کی ہے تو اس چیز پر تیمم کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
(۶۸۷) اگر کوئی شخص غصبی جگہ میں قید کردیا گیا ہو اور اس جگہ کا پانی اور مٹی دونوں غصبی ہوں تو ضروری ہے کہ تیمم کرکے نماز پڑھے۔
(۶۸۸) جس چیز پر تیمم کیا جائے احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ اس پر کچھ گرد و غبار موجود ہو جو کہ ہاتھوں پر لگ جائے اور اس پر ہاتھ مارنے کے بعد ضروری ہے کہ اتنے زور سے ہاتھوں کو نہ جھاڑے کہ ساری گرد گر جائے۔
(۶۸۹) گڑھے والی زمین ، راستے کی مٹی اور ایسی شورزمین پر جس پر نمک کی تہہ نہ جمی ہو تیمم کرنا مکروہ ہے اور اگر اس پر نمک کی تہہ جم گئی ہو تو تیمم باطل ہے۔
وضو یا غسل کے بدلے تیمم کرنے کا طریقہ
(۶۹۰) وضو یا غسل کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں تین چیزیں واجب ہیں۔
(۱) دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ ایسی چیز پر مارنا یا رکھنا جس پر تیمم کرنا صحیح ہوا۔ احتیاط لازم کی بنا پر دونوں ہاتھ ایک ساتھ زمین پر مارنے یارکھنے چاہئیں۔
(۲) دونوں ہتھیلیوں کو پوری پیشانی پر سر کے بال اگنے جگہ سے ابرواور ناک کے بالائی پھیرنا۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ہاتھ ابرو کے اوپر بھی پھیرے جائیں۔
(۳) بائیں ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی تمام پشت پر اور اس کے بعد دائیں ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی تمام پشت پر پھیرنا۔
ضروری ہے کہ تیمم ، قربة الی اللہ کی نیت سے انجام دے جیسا کہ وضو کے مسائل میں بتایا جاچکا ہے۔
(۶۹۱) احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم خواہ وضو کے بدلے ہو یا غسل کے بدلے اسے ترتیب سے کیا جائے یعنی یہ کہ ایک دفعہ ہاتھ زمین پر مارے جائیں اور پیشانی اور ہاتھوں کی پیشت پر پھیرے جائیں اور پھر ایک دفعہ زمین پر مارے جائیں اور ہاتھوں کی پشت کا مسح کیا جائے۔
تیمم کے احکام
(۶۹۲) اگر ایک شخص پیشانی یا ہاتھوں کی پشت کے ذراسے حصے کا بھی مسح نہ کرے تو اس کا تیمم باطل ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے عمداً مسح نہ کیا ہو یا مسئلہ نہ جانتا ہو یا مسئلہ بھول گیا ہو لیکن زیادہ باریک بینی کا خیال رکھنا بھی ضروری نہیں۔ اگر یہ کہا جاسکے کہ تمام پیشانی اور ہاتھوں کا مسح ہوگیا ہے تو اتنا ہی کافی ہے۔
(۶۹۳) اگر کسی شخص کو یقین نہ ہو کہ ہاتھ کی پشت پر مسح کرلیا ہے تو یقین حاصل کرنے کیلے ضروری ہے کہ کلائی سے کچھ اوپر والے حصے کا بھی مسح کرے لیکن انگلیوں کے درمیان مسح کرنا ضروری نہیں ہے۔
(۶۹۴) تیمم کرنے والے کو پیشانی اور ہاتھوں کی پشت کا مسح احتیاط کی بنا پر اوپر سے نیچے کی جانب کرنا ضروری ہے اور یہ افعال ایک دوسرے سے متصل ہونے چاہئیں اور اگر ان افعال کے درمیان اتنا فاصلہ دے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ تیمم کررہا ہے تو تیمم باطل ہے۔
(۶۹۵) نیت کرتے وقت لازم نہیں کہ اس بات کا تعین کرے کہ اس کا تیمم غسل کے بدلے ہے یا وضو کے بدلے لیکن جہاں دو تیمم انجام دینا ضروری ہوں تو ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو کسی بھی اعتبار سے معین کرے اور اگر اس پر ایک تیمم واجب ہو اور نیت کرے کہ میں اس وقت اپنا فریضہ انجام دے رہا ہوں تو اگرچہ وہ معین کرنے میں غلطی کرے اس کا تیمم صحیح ہے۔
(۶۹۶) تیمم میں پیشانی ، ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور ہاتھوں کی پشت ضروری نہیں ہے کہ پاک ہوں ، اگرچہ بہتر ہے کہ پاک ہوں۔
(۶۹۷) ضروری ہے کہ ہاتھ پر مسح کرتے وقت انگھوٹھی اُتاردے اور اگر پیشانی یا ہاتھوں کی پشت یا ہتھیلیوں پر کوئی رکاوٹ ہو مثلا ان پر کوئی چیز چپکی ہوئی ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا دے۔
(۶۹۸) اگر کسی شخص کی پیشانی یا ہاتھوں کی پشت پر زخم ہو اور اس پر کپڑا یا پٹی وغیرہ بندھی ہو جس کو کھولانہ جاسکتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کے اوپر ہاتھ پھیرے۔ اگر ہتھیلی زخمی ہو اور اس پر کپڑا یا پٹی وغیرہ بندھی ہو جسے کھولانہ جاسکتا ہو تو ضروری ہے کہ کپڑے یا پٹی وغیرہ سمیت ہاتھ اس چیز پر مارے جس پر تیمم کرنا صحیح ہو اور پھر پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پھیرے ، لیکن اگر ہتھیلی کا کچھ حصہ بھی کھلا ہو اہو تو اسی کو زمین پر مار کر اسی سے مسح کر لینا کافی ہے۔
(۶۹۹) اگر کسی شخص کی پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر معمول کے مطابق بال ہوں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر سر کے بال پیشانی پر آگرے ہوں تو ضروری ہے کہ انہیں پیچھے ہٹا دے۔
(۷۰۰) اگر احتمال ہو کہ پیشانی اور ہتھیلیوں یا ہاتھوں کی پشت پر کوئی رکاوٹ ہے اور یہ احتمال لوگوں کو نظروں میں معقول ہو تو ضروری ہے کہ چھان بین کرے تاکہ اسے یقین یا اطمینان ہوجائے کہ رکاوٹ موجود نہیں ہے ۔
(۷۰۱) اگر کسی شخص کا فریضہ تیمم ہو اور وہ خود تیمم نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے تاکہ وہ مددگار متعلقہ شخص کے ہاتھوں کو اس چیز پر مارے جس پر تیمم کرنا صحیح ہو اور پھر متعلقہ شخص کے ہاتھوں کو اس کی پیشانی اور دونوں ہاتھوں کی پشت پر رکھ دے تاکہ امکان کی صورت میں وہ خود اپنی دونوں ہتھیلیوں کو پیشانی اور دونوں ہاتھوں کی پشت پر پھیرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو نائب کیلئے ضروری ہے کہ متعلقہ شخص کو خود اس کے ہاتھوں سے تیمم کرائے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو نائب کیلئے ضروری ہے کہ اپنے ہاتھوں کو اس چیز پر مارے جس پر تیمم کرنا صحیح ہو اور پھر متعلقہ شخص کی پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پرپھیرے۔ ان دونوں صورتوں میں احتیاط لازم کی بنا پر دونوں شخص تیمم کی نیت کریں لیکن پہلی صورت میں خود مکلف کی نیت کافی ہے۔
(۷۰۲) اگر کوئی شخص تیمم کے دوران شک کرے کہ وہ اس کا کوئی حصہ بھول گیا ہے یا نہیں اور اس حصے کا موقع گزر گیا ہو تو وہ اپنے شک کی پروانہ کرے اور اگر موقع نہ گزار ہو تو ضروری ہے کہ اس حصے کا تیمم کرے۔
(۷۰۳) اگر کسی شخص کو بائیں ہاتھ کا مسح کرنے کے بعد شک ہو کہ آیا اس نے تیمم درست کیا ہے یا نہیں تو اس کا تیمم صحیح ہے اور اگر اس کا شک بائیں ہاتھ کے مسح کے بارے میں ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ اس کا مسح کرے سوائے اس کے کہ لوگ یہ کہیں کہ تیمم سے فارغ ہوچکا ہے مثلا اس شخص نے کوئی ایسا کام کیا ہو جس کیلئے طہارت شرط ہے یا تسلسل ختم ہوگیا ہو۔
(۷۰۴) جس شخص کا فریضہ تیمم ہوا گروہ نماز کے پورے وقت میں عذر کے ختم ہونے سے مایوس ہو یا اسے اس بات کا احتمال ہو کہ اگر تیمم میں تاخیر کرے گا تو وقت داخل ہونے کے بعد تیمم نہ کرسکے گا تو ایسا شخص وقت داخل ہونے سے پہلے بھی تیمم میں تاخیر کرے گا تو وقت داخل ہونے کے بعد تیمم نہ کرسکے گا تو ایسا شخص وقت داخل ہونے سے پہلے بھی تیمم کرسکتا ہے اور اگر اس نے کسی دوسرے واجب یا مستحب کام کیلئے تیمم کیا ہو اور نماز کے وقت تک اس کا عذر باقی ہو تو اسی تیمم کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔
(۷۰۵) جس شخص کا فریضہ تیمم ہو ا گر اسے علم ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر باقی رہے گا یا وہ عذر کے ختم ہو نے سے مایوس ہو تو وقت کے وسیع ہوتے ہوئے وہ تیمم کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر دور ہوجائے گا تو ضروری ہے کہ انتظار کرے اور وضو یا غسل کرکے نماز پڑھے ۔ بلکہ اگر وہ آخر وقت تک عذر کے ختم ہونے سے مایوس نہ ہو تو مایوس ہونے سے پہلے تیمم کرکے نماز نہیں پڑھ سکتا ۔ سوائے اس کے کہ یہ احتمال ہو کہ اگر تیمم کرکے جلدی نماز نہ پڑھی تو پھر وقت ختم ہونے تک حتی کہ تیمم کرکے بھی نماز نہ پڑھ پائے گا۔
(۷۰۶) اگر کوئی شخص وضو یا غسل نہ کرسکتا ہو اور وہ عذر کے برطرف ہونے سے مایوس ہو تو وہ اپنی قضا نمازیں تیمم کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اگر بعد میں عذر ختم ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ نمازیں وضو یا غسل کرکے دوبارہ پڑھے اور اگر اسے عذر دور ہونے سے مایوسی نہ ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر قضا نمازوں کے لئے تیمم نہیں کرسکتا۔
(۷۰۷) جو شخص وضو یا غسل نہ کرسکتا ہواس کے لیے جائز ہے کہ ان مستحب نمازوں کو جن کا وقت معین ہے جیسے دن رات کے نوافل ، تیمم کرکے پڑھے لیکن اگر مایوس نہ ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے گا تو احتیاط لازم یہ ہے کہ وہ نمازیں ان کے اول وقت میں نہ پڑھے اور جن مستحب نمازوں کا وقت معین نہیں ہے انہیں مطلقاً تیمم کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔
(۷۰۸) جس شخص نے احتیاطاً جبیرہ غسل اور تیمم کیاہوا گروہ غسل اور تیمم کے بعد نماز پڑھے اور نماز کے بعد اس سے حدث اصغر صادر ہو مثلاً اگر وہ پیشاب کرے تو بعد کی نمازوں کیلئے ضروری ہے کہ وضو کرے اور اگر حدث نماز سے پہلے صادر ہوتو ضروری ہے کہ اس نماز کیلئے بھی وضو کرے۔
(۷۰۹) اگر کوئی شخص پانی نہ ملنے کی وجہ سے یا کسی اور عذر کی بنا پر تیمم کرے تو عذر کے ختم ہو جانے کے بعد اس کا تیمم باطل ہو جاتا ہے۔
(۷۱۰) جو چیزیں وضو کو باطل کرتی ہیں وہ وضو کے بدلے کیے ہوئے تیمم کو بھی باطل کرتی ہیں اور جو چیزیں غسل کو باطل کرتی ہیں وہ غسل کے بدلے کئے ہوئے تیمم کو بھی باطل کرتی ہیں۔
(۷۱۱) اگر کوئی شخص غسل نہ کرسکتا ہو اور چند غسل اس پر واجب ہوں تو اس کیلئے جائز ہے کہ ان تمام غسلوں کے بدلے ایک تیمم کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان غسلوں میں سے ہر ایک کے بدلے ایک تیمم کرے۔
(۷۱۲) جو شخص غسل نہ کرسکتا ہو اگر وہ کوئی ایسا کام انجام دینا چاہے جس کیلئے غسل واجب ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تیمم کرے اور جو شخص وضو نہ کرسکتا ہو اگر وہ کوئی ایسا کام انجام دینا چاہے جس کیلئے وضو واجب ہو تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے تیمم کرے۔
(۷۱۳) اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تیمم کرے تو نماز کیلئے وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی اور غسل کے بدلے تیمم کرے تو بھی یہی حکم ہے لیکن اس صورت میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے اور اگر وہ وضو نہ کرسکے تو وضو کے بدلے ایک اور تیمم کرے۔
(۷۱۴) اگر کوئی شخص غسل کے بدلے تیمم کرے لیکن بعد میں اسے کسی ایسی صورت سے دو چار ہونا پڑے جو وضو کو باطل کردیتی ہو اور بعد کی نمازوں کیلئے غسل بھی نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم بھی کرے۔ اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے تیمم کرے۔
(۷۱۵) جس شخص کا فریضہ تیمم ہو اگر وہ کسی کام کیلئے تیمم کرے تو جب تک اس کا تیمم اور عذر باقی ہے وہ ان کاموں کو کرسکتا ہے جو وضو یا غسل کرکے کرنے چاہئیں لیکن اگر اس کا عذر وقت کی تنگی ہو یا اس نے پانی ہوتے ہوئے نماز میت یا سونے کیلئے تیمم کیا ہو تو وہ فقط ان کاموں کو انجام دے سکتا ہے جن کیلئے اس نے تیمم کیا ہو۔
(۷۱۶) چند صورتوں میں بہتر ہے کہ جو نمازیں انسان نے تیمم کے ساتھ پڑھی ہوں ان کی قضا کرے۔
(۱) پانی کے استعمال سے ڈرتا ہو اور اس نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو جنب کرلیا ہو اور تیمم کرکے نماز پڑھی ہو۔
(۲ ) یہ جانتے ہو ئے یا گمان کرتے ہوئے کہ اسے پانی نہ مل سکے گا عمداً اپنے آپ کو جنب کرلیا ہو اور تیمم کرکے نماز پڑھی ہو۔
(۳) آخر وقت تک پانی کی تلاش میں نہ جائے اور تیمم کرکے نماز پڑھے اور بعد میں اسے پتا چلے کہ اگر تلاش کرتا تو اسے پانی مل جاتا۔
(۴) جان بوجھ کر نماز پڑھنے میں تاخیر کی ہو اور آخر وقت میں تیمم کرکے نماز پڑھی ہو۔
(۵) یہ جانتے ہوئے یا گمان کرتے ہوئے کہ پانی نہیں ملے گا جو پانی اس کے پاس تھا اسے گرادیا ہو اور تیمم کرکے نماز پڑھی ہو۔
|