مناسک حج
 
مصدود کے احکام
(۴۳۸)مصدود وہ شخص ہے کہ جسے دشمن یا کوئی اور احرام باندھنے کے بعد حج کے اعمال کی بجا آوری کے لیے مقدس مقامات پرجانے سے رو کے ۔
(۴۳۹)ج سشخ صکو عمرہ مفردہ سے روکا جائے اگر وہ قرنای جککو سارو لایئا ہو تو اسک ے لیے قربانی کے ذبح یا نحر کرنے کے ذریعے احرم کو اسی جگہ پر کھولانا جائنب ہے جہاں ساسے روکا گیا ہو ۔ اگر قربیانی کا جانور ساتھ نہ لایئا ہو اور احرم کھولنا چاہتاہو تو ضروری ہے کہ قربانی کا جانور حاصل کرے اور اسے زبح یا نحر کرکیحرم کھولے ،بنابر احتیاط قربانی کیے بغیر احرم بہ کھولے حتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں ذبح یا بہر کے ستھ حلق یا تقصیر بھی انجام دے ۔وہ شخص جسے عمرہ تمتع کے ساتھ ساتھ حج سے بھی روکا جائے تو اسکا وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہو اہے ۔ لیکن اگر اسکو دونوں وقوف کے بعد کعبہ جانے سے روکا جائیے تو بعید نہیں ہے کہ اس کا فریضہ ،،حج افراد ،، میں تبدیل ہوجائے گا۔
(۴۴۰)وہ شخص جسے حج تمتع سے روکا جائے تگ اگر دونوں وقوف یا صرف ایک وقف مشعر سے روکاتو احتیاط یہ ہے کہ طواف کرتتے سعی ،حلق اور ذبح کرکے احرام کھول دے ۔اگر صرف طواف اور سعی کرنے سے روکا جاے اور نایب بنانا ممکن نہ ہو تو چنانچہ ار احرم کھولنا چاہتاہہو تو احوط یہ ہے کہ قربانی کرے اور حلق یق تقصیر انجام دے ۔ لیکن اگر نایب بنانا ممکن ہو ت وبعید نہیں ہے جہنائب بنا کافی ہو لہذ ااپنے طواف افر سعی کے لیے نایب بنائے اور نیاب کے طو اف کرنے کے بع دنماز طواف خو د پڑھے ۔ اگر اعمال بجالانے کے لیے منی میں پہنچنے سے روکا جائے تواگرنائب بنانان ممکن ہو تو رمی اور قرنبانی کے لیے نیائب بنائے اور پھر حلق یا تقصیر انجام دے ، اگر ممکن ہو تو اپنے بال منی میں بھیج دے پھر باقی اعمال انجام دے ۔ لیکن اگر نایب بنانان ممکن نہ ہوتو قربانی کرنا واجب نہیں ہو گا ہے ۔لہذا قربانی کے بدلے روزے رکھے ۔ اسی طرح رمی واجب نہیں رہے گی ۔ تاہم احتیاط یہ ہے کہ رمی اگلے سال خود یانائب کے ذریعے انجام دے ۔اب باقی تمام اعمال مثلاحلق یا تقصیر و اعمال کو مکہ میں انجام دے اور ان اعمال سے فارغ ہونے کے بعد رتمام مہرمات اس پر حلال ہو جائیں گے ہتی کہ زوجہ بھی حلال ہو جائے گی اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔
(۴۴۱)جسے حج یا عمرہ سے روکا جائے اور قربانی کرنے کی وجہ سے وہ احرم کھول دے تو یہ حج و عمرہ کافی نیں یج بلکہ اگر اوہ حج اسلام انجام دینا جہتاہو اور اسے روکا جائیاور وہج قربان یکی وجہ سے ہرام کھول دے تو اس پر واجب ہے اگر استعطاعت باقی ہو یا حج اسکے ذمے ثابت ہو تو آئندہ سال حج پر جائے ۔
(۴۴۲)اگر منی میں رات گزارنے اور رمی جمرات کرنے سے روک جائے تو اس سے حج متاثر نہیں ہوگا چنانچہ اس شخص پر مصدود کا حکم جاری نہیں ہو گا ۔ لیکن اگ گراسی سا رمی کے لیے نائب بنانا ممکن ہو تو کسی کو نائب بنائے ورنہ اہوط اولی یہ ہے کہ آئبندہ سال خو د یا نائب کے ذریعے اس کی قضا کرے۔
(۴۴۳)مصدود شخص جو قربانی کرے اس میں اس سے فرق نہیں پڑتاہکہ قربانی کا جانور اونٹ ،گائے یابکری ہو ۔ اگر قربانی کرنا ممکن نہ ہو تو احوط یہ ہے کہ اسکے بدلے ۱۰دن روزے رکھے ۔
(۴۴۴)اگر حج کے لیے حرم امپہننے ولا وقوف معشر سے پہلے اپنی بیوی سے مجامعت کرے تو واجب ہے کہ اپنے حج کو پور کرے اور دوبارہ بھی بجالائے ۔ جیسا کہ محرمات حرام میں بیان ہو ہے ۔ پھر اگر اسکو حج تمام کرنے سے روکا جائے تو اس پر مصدود کے ہاکام جاری ہوں گے ۔لکین احرام کھونے کے لیے قربانی دینے کے علاوہ اس پرجماع کاکفارہ بھی واجب ہو گا۔

محصور کے احکام
(۴۴۵)محصوور وہ شخص ہے کہ جو احرام باندھنے کے بعد اعمال حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لیے مریض یا کسی اور وجہ سے مقدس مقامات تک پہنچ نہ سکے
(۴۴۶)اگر کوئی شخص عمرہ مفردہ یا عمرہ تمتع میں محصور ہوجائے اور احرام کھولنا چاہیے تو اس کا فریضہ ہے کہ قربانی یااسکی قیمت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھیجے اور ان سے وعدہ لے کہ قربانی کو وقت معین میں مکہ میں انجا م دیں گے اور پھر جب وقت معین آجائے تویہ شخص جہاں وہیں پر ہے یا تقصیر کرے اوراحرام کھول دے ۔ لیکن اگر ساتھی نہ ہونے کی وجہ سے قربانی یا اس کی قیمت بھیجنا ممکن نہ ہو تو اس کی لیے جائز ہے کہ جہاں ہو وہیں پر قربانی کرے اور احرام کھول دے ۔ اگر حج میں محصور ہو جائے
تواس کا حکم وہی ہے جو اوپر بیان ہو اہے مگر قربانی کو منیٰ میں عید کے دن کرنے کو کہے ۔
مذکورہ موارد میں محصور پر بیوی کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہوجائیں گی اور بیوی اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک حج یا عمرہ میں طواف اور صفا و مروہ کے درمیاں سعی انجام نہ دے ۔
(۴۴۷)اگر کوئی عمرہ کے احرام کے بعد بیمارہوجائے اور قربانی کو مکہ بھجوا دے اور پھر اس قدر تندرست ہوجائے کہ خود سفر کرنا اور قربانی سے پہلے مکہ میں پہنچنا ممکن ہو تواسے چاہیے کہ خود مکہ میں پہنچے اور اگر اس کا فریضہ عمرہ مفردہ ہو تو عرفہ کے دن زوال آفتاب سے پہلَے اعمال کو مکمل کر سکتا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ ظاہر یہ ہے کہ ا س کا حج افراد میں تبدیل ہو جائے گا ۔ دونوں صورتوں میں اگر قربانی نہ بھیجے اور صبر کرے یہاں تک کہ اس کی بیماری کم ہوجائے اور یہ خود سفر کرنے پر قادر ہوجائے تب بھی یہی حکم ہے ۔
(۴۴۸)اگر حج کے احکام کے بعد حاجی بیمار ہوجائے اور قربانی بھیجنے کے بعد بیماری کم ہوجائے اور گمان ہوکہ حج ہوجائے گا تو اعمال حج میں شامل ہونا واجب ہے چنانچہ اگردنوں وقوف یا صرف وقوف مشعر حاصل ہو توجیسے کہ بیان ہو ااس کا حج ہو گیا لہذا اعمال حج اور قربانی انجا م دے ۔ لیکن اگر کوئی بھی وقوف حاصل نہ کر سکے تاہم اس کے پہنچنے سے پہلے اس جانب سے قربانی اد ا نہ کی گئی ہوتو اس کا حج عمرہ مفردہ میں تبدیل ہو جائے گا اوراگر اسکی جانب سے قربانی اد اکر دی گئی ہو تو یہ تقصیر یا حلق انجام دے اور بیوی کے علاوہ باقی تمام چیزیں اس پر حلا ل ہوجائیں گی ۔ بیوی اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک حج اور عمرہ میں طواف اور سعی بجا نہ لائے لہذا اگر انہیں انجام دے گا تو عورت بھی حلال ہوجائے گی ۔
(۴۴۹)اگر حاجی بیماری یا کسی اور وجہ سے طواف و سعی کے لیے نہیں پہنچ سکتا ہو تو اس کے لیے نائب بنانا جائز ہے ۔ اور نائب کے لیے طواف کے بعد نمازطواف خود انجام دے ۔ اگر منیٰ میں جاکر وہاں کے اعمال انجام دینے سے محصور ہو تو رمی اور ذبح کے لیے نائب بنائے اور حلق یا تقصیر انجام دے ممکن ہو تو اپنے بال منیٰ بھیجے ۔ اس کے بعد باقی تمام اعمال انجام دے اور اس کا حج پورا ہو جائے گا ۔
(۴۵۰)اگر کوئی محصور ہوجائے اور اپنی قربانی بھجوا دے اور اس سے پہلے کہ قربانی اپنی جگہ پہنچے اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کیلیے سر مونڈنا جائز ہے ۔ لہذا اگر سر مونڈے تو واجب ہے کہ جس جگہ ہو وہیں ایک بکری ذبح کرے یاتین دین روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ہر مسکین کو دو مد ہر مد تقریبا ۷۵۰ گرام کھانا دے ۔
(!۲۵)حج یا عمرہ میں محصور ہونے ولا اگر قربانی بھجواکر احرام کھول دے تو اسکا حج یا عمرہ ساقط نہیں ہوا لہذا حج اسلام انجام دینے والا اگر محصور ہو جائے اور قربانی بھیج کر احرام کھول دے تو اس پر واجب ہے کہ اگر استطاعت باقی ہو تو یا حج اس کے ذمہ ثابت ہو چکا ہو تو اگلے سال حج اسلام بجا لائے ۔
(۴۵۲)اگر محصور کے پاس قربانی یا اس کے پیسے نہ ہوں تو وہ اس کے بدلے دس روزے رکھے ۔
(۴۵۳)اگر محرم کے لیے حج یا عمرہ کے اعمال کی ادائیگی کے لیے مقدس مقامات تک خود جانا محصورو مصدود ہونے کے علاوہ کسی اور وجہ سے ممکن نہ ہو توا گر عمرہ مفردہ کے لیے احرام باندھنا ہو تو اسکے َیے جائزہے کہ وہ جس جگہ ہو وہیں قربانی کرے اور بنا پر احتیاط اس کیسا تھ حلق یا تقصیر انجام دے کر احرام کھول دے ۔ اسی طرح جب عمرہ تمتع کا احرام ہو اور حج کو حاصل کرنا بھی ممکن نہ ہو تو یہی حکم ہے ورنہ ظاہریہ ہے کہ ا س کا فریضہ حج افراد میں تبدیل ہوجائے گا ۔ اگر طواف و سعی کے مقام تک پہنچنا یامنی کے اعمال بجا لانے کیلیے منی جانان ممکنن ہہ ہو تو اس ک اوہی ہخم ہے جو مسئلہ ۴۴۹ میں بیان ہو اہے ۔
(۴۵۴)فقہاء کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ حج یا عمرہ کرنے ولاجب قربانی ساتھ نہ لائے اور اس نے خد ا سے شرط کی ہو کہ اگر اعمال حج مکمل کرنے سے معذور ہو گیا تو احرام کھول دونگا ۔ اور پھر کوئی عذر پیش آجا ئے مثلا بیماری دشمن یا کسی اور وجہ سے کعبہ یاوقوف کی جگہوں پر نہ پہنچ کسی تو اس شرط کے نتیجہ میں عذر پیش آنے پر حرام کھول سکتا ہے ۔ اور تمام چیزیں اس پر حلال ہوجا ئیں گی اور حران کھولنے کے لیے قاربابی دینا وار حلق و تقصیر کرنا ضروری ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی محصور ہوجائے تو بیوی کے حلال ہونے کے لیے طواف و سعی واجب نہیں ہیں یہ قول اگرچہ وجہسے خالی نہیں ہے مگر احتیاط واجب یہ ہے کہ جب محصور یامصدود ہوجائے تو جو حکام حرام کھولنے کے لیے بتائے گئے ہیں ان کی رعایت کریاور شرط کے نتیجہ محل ہونے پر مذکورہ آثار مرتب نہ کرے ۔
یہاں تک واجبات حج کو بیان کیا گیا اب ہم حج کے آداب بیان کریں گے ۔ فقہا ء نے حج کے لیے بہت زیادہ آداب ذکر کئے ہیں جن کی گنجائیش اس مختصر سی کتاب میں نہیں ہے لہذا ہم چند آداب بیان کرنے پر اکتفا کریں گے ۔
یہ جان لینا چاہیے کہ مذکورہ آداب میں سے بعض مستحب ہونا قاعدہ تسامح فی ادلتہ السنن پر مبنی ہے چنانچہ ضروری ہے کہ انہیں رجا مطلوبیت کی نیت سے ناجم دیاجائے نہ کہ اس نیت سیہ یہ شارع مقدس سے وارد ہوئے ہیں یہی حکم مکروہات میں بھی ہے جو آگے بیان کئے جائیں گئے ۔