۔ عورتوں کے لیے چہرے کا چھپانا۔
(۲۶۶)حالت اہرام میں عورتوں کے لیے برقعہ ،نقاب یا چہرے سے چپکنے والی چیز سے چہرہ چھپانا حرام چنانچہ احوط یہ ہے کہاپنے چہرے یا چہرے کے کچھ حصے کوبھی کسی چیز سے نہ چھپائے تاہم سوتے وقت اور نامز میں سر چھپاتے وقت مقدمہ کے طور پر جب سر پر موجود چادر کو لٹکانے سے نہ چھپ سکتاجوتو چہرے کا کچھ حصہ ڈانپنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
(۲۶۷) حالت احرام میں عورت اپنی چادر کو لٹکاکر ،نامحرم پردہ کر سکتی ہے یعنی سر پر موجود چادر کو اپنی ناک بلکہ گردن کے مقابل تک کھینچ لے۔اور اظہر یہ ہے کہ چادر کے اس حصے کوہاتھ وغیرہ سے چہرے سے دور رکھنا واجب نہیں ہے ۔ اگرچہ احوط ہے ۔
(۲۶۸)احوط اولیٰ یہ ہے کہ چہرہ ڈھانپنے کاکفارہ ایک بکری ہے ۔
۔مردوں کا سائے میں رہنا
(۲۶۹)سائے میں ہونا دو طرح سے تصور کیا جاسکتا ہے :
۱۔ متحرک اشیاء مثلا چھتری، محمل کی چھت ، گاڑی یا ہوائی جہاز کی چھت ، وغیرہ کے زیر سایہ چلنا ، جب کہ سایہ دار چیز مذکورہ مثالوں کی طرح اس کے سر کے اوپرہوں تومحرم مرد پر حرام ہے خواہ وہ سوار ہو یا پیدل تاہم بدل کے نیچے کھڑاہونا جائز ہے ۔ لیکن اگر سائیہ دار چیز اسکی سیک طرف مثلا سامنے یا پیچھے ہو تو ظاہریہ ہی کہ پیدل شخَص کے لیے ایسا سایہ جائز ہے لہذا محمل یا گاڑی کے سائے میں چلنا محرم مرد کے لے جائز ہے اور سوار کے لیے احتیاط یہ ہے کہ وہ اس سے پرہیز کرے سوائے اسک یکہ عام سورج سے بچنے کا نہ ہو یعنی وہ چیزکھلی ہوئی گاڑی کی دیوار میں محرم مرد کسی ایک طرف ہوں اوراتنی چھوٹی ہو محرم کا سر اور سینہ اس سی نہ چھپتاہو ۔
۲۔ ثابت اور غیر متحرک اشیاء مثلادیواریں ،درخت و پہاڑ یا انہیں جیسی کسی اور چیز کے سائے میں ہو نا محرم مرد کے لیے بنا بر احوط جائز ہے خواہ سوار ہو یا پیدل ۔ اسی طرح محرم کا اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو بچاناسورج کی تپش سے بچانا جائز ہے اگرچہ ہواط اس کو ترک کرنے میں ہے ۔
(۲۷۰)سائے میں ہونے سے مراد اپنے اآپ کو سورج سے بچاناہے اوراحوط یہ ہے کہ اس حکم میں سورج کے ساتھ بارش کو بھی شامل کیاجائے لیکن اظہریہ ہے ہ ہو ا،سردی ،گرمی ،یاان جسیی دوسری چیزوں سیاپنے آپ کو بچانا جائز ہے لیکن احتیاط اسمیں بھی ترک کرنے میں ہے ۔ چنانچہ بنابر احوط جب بارش نہ ہو رہی ہو تو محرم کے لیے چھت والی گاڑی یا کسی اور چیز میں سوار ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگرچہ یہ سواری محرم شخص کو ہو اسے بچا رہی ہو ۔
(۲۷۱)زةر سایہ چنے کی چو حرم ت بیان ہو ئے ہے وہ حالت سفر میں مخصوص ہے ۔ لہذااگر محرم کسی جگہ پہنچے او راس جگہ کو رہنے کے لیے منتخب کرے یا نہ کرے مثلا دوران سفر آرام کرنے یا دوستوں سے ملاقات کرنے یا کسی اور وجہ سے رکے تو اس وقت سائے میں رہنے میں اشکا ل نہیں ہے ۔ لیکن اس صورت میں کہ جب یہ کسیجگہ پہنچنے اور رہنے ے لیے قرار دے مگر چاہتاہو کہ اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے ادھر ادھر جائے مثلا مکہ میں پہنچے اورچاہتاہو کہ طواف سعی کرنے کے بعد مسجد الحرام جائے یا مثلا منی پہنچے اورقربان یا رمی جمرات کے لیے جانا چاہتاہوتو اس صورعت میں اسکے لیے چھت والی گاڑی میں یا چھتری سے سر پر سائہ کرن اجائز ہے یا نہیں ۔ اس کے جواز کا حکم دینا کافی مشکل ہے ۔چنانچہ احتیاط کو ترک نہیں کرناچاہیے ۔
(۲۷۲)اگر محرم اپنے آپ کو سورج سے بجائے تو اس پر کفارہ واجب ہے ۔اورظاہر یہ ہے کہ کفارہ واجب ہونے میں اختیاری حالت اور مجبوری کی حالت ہونے میں فرق نہیں ہے ۔ لہذ ااگر کوئی باربار سائے میں چلے تو ااظہر یہ ہے کہ ہر احرام کے لیے ایک کفارہ دے ۔ اگرچہ ہر دن کے لیے ایک کفارہ بنابر احوط کافی ہے اوراکفارہ میں ایک بکری کافی ہے ۔
۔ جسم سے خون نکالنا۔
احوط یہ ہے کح محرم کے لیے اپنے چسن سے کون نکالنا جائزنہیں ہے ۔سوائے کسی مجبوری ے یاضرورت کے گرچہ فصد کھولنے ،حجامت ،دانت نکلوانے ،جسم کو کھجانے یا کسی اوروجہ سے ۔ لیکن اظہر یہ ہے کہ مسواک کرنا جائزہے چاہے اسکی وجہ سے خون نکلے احوط اولی یہ حی کہ بغیر ضرورت کے خون نکالنے کا کفارہ ایک بکری ہے ۔
۔ ناخن کاٹنا۔
محرم کے لیے ناخن کاٹناجائز نہیں ہے ۔ اگرچہ کچھ مقدار میں کاٹے ،سوائے کسی مجبوری وضرورت مثلاناخن باقی رکھنے میں اذیت وتکلیف ہوتی ہو ۔ یعنی اگرناخن کاکچھ حصہ ٹوٹ ۔گیاہو اورباقی حصہ میں دردہورہاہو توباقی ناخن کو کاٹنا بھی جائز ہے ۔
(۲۷۴)ہاتھ یا پاؤں کا ایک ناخن کاٹنیکا کفارہ ایک مدیعنی تقریبا۷۵۰گرام کھاناہے ۔چنانچہ اگردوناخن کاٹے تو کفارہ دو مد طعام اوراسی طرح نوناخنوں تک (ناخن کاٹنے کے لحاظ سے کفارہ ہو گا)۔ لیکن اگرہاتھ اور پاؤں کے پورے ناخن متعدد نشتوں میں کاٹے تو کفارہ دو بکریاں (ایک ہاتھ اوردوسری پاؤں کے ناخنوں کے لیے )ہوگا ۔ اوراگر ایک ہی نشت میں کاٹے تو پھر ایک بکری کفارہ واجب ہو گا ۔
(۲۷۵)اگر محرم ایسے شخص کے فتوی پر عمل کرنتے ہوئے ناخن کاٹے جس نے ناخن کاٹنے کے جائز ہونے کا فتوی غلطی سے دیا ہو اورکاٹتے ہوئے خون نکل آئے تو احوط یہ ہے کہ کفارہ فتوی دینے والے پر واجب ہے ۔
۔ دانت نکلوانا ۔
(۲۷۶)بعَض فقہاء نے محرم کے لیے دانت نکلوانا حرام قرار دیا ہے چاہے خوان نہ بھی نکلے اوراس کا ایک دنبہ کفارہ واجب ہے ۔لیکن اس حکم کی دلیل میں تامل ہے ۔ بلکہ بعید نہیں ہے کہ یہ کا م جائز ہو ۔
۔ اسلحہ رکھنا۔
(۲۷۷)محرم کے لیے اسلحہ پہننا بلکہ بن ابر احوط اس طرح ساتھ رکھنا کہ مسلح شمار ہو جائز نہیں ہے ۔ اسلحہ سے مراد ہر وہ چیز جو عموما اسلحہ کہلاتی ہے مثلا۔تلوار،بندوق،تیروغیرہ تاہم زرہ سپر وغیرہ حفاظتی آلات ہیں نہ کہ اسلحہ ۔
(۲۷۸)محرم کے پا ساسلحہ ہونے میں جبکہ اس نے پہنا ہو ان ہ ہو کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسی طرح اسلحہ ساتھ رکھنا جبکہ عرفا مسلح شمار نہ ہو تاہو کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی ترک کرنا احوط ہے ۔
(۲۹۷)حالت اختیاری میں اسلہح رکھناحرام ہے ۔ لیکن وقت ضرورت مثلادشمن ی اجوری کا خوف ہو تو جائز ہے ۔
(۲۸۰)بغیر ضرورت کے اسلحہ ساتھ رکھنے کا کفارہ ایک دنبہ ہے ۔ ابتک محرم پر حرام ہونے والی چیزی ں بیان ہوئی ہیں ۔ذیل میں ہرم میں حرم ہونے والے امور بیان کیے جارہی ہیں ۔
|