مناسک حج
 
میقات کے احکام
(۱۶۴) میقات سے پہلے حرام باندھنا جائز نہیں ہے ۔ لہذا حالت احرام میں میقات سے گزر جانا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے خود میقات سے احرام باندھ اجائے ،سوائے مندرجہ ذیل صورتوں کے ۔
۱۔ میقات سے پہلے احرام کی نذر کرے ۔ لہذ انذر کی وجہ سے میقات سے پہلے احرام باندھنا صحیح ہو گا ۔اور میقات سے دوبارہ احرام باندھنا یاگزرنا ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ ایسے راستے سے مکہ جانا بھی جائز ہے جس میں میقات نہ ائیں اور واجب حج یا مستحب حج یا عمرہ مفردہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا لیکن اگر احرام حج یا عمرہ مفردہ کے لیے ہو تواس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ احرام حج کے مہینوں سے پہلے نہ جیساکہ پہلے بیان ہو چکا ہے ۔
۲۔ جب رجب میں عمرہ مفردہ کا قصد کرے اور خوف ہو کہ اگر احرم باندھنے میں تاخیر کرے گ ایا میقات تک پہنچنے کا انتظار کر ے گا تو رجب میں عمرہ اد نہیں کر سکے گا تو اسکے لے میقات سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے ۔ار عمرہ ماہ رجب کا ہی شمار ہوگا ۔ چاہے باقی اعمال شعبان میں انجام دے اور اس حکم میں واجب یا مستحب عمرہ میں فرق نہیں ہے ۔
(۱۶۵) مکلف کو جب میقات پر پہنچنے کا یقین ہوجائے یادلیل موجودہو تو واجب ہے کہ احرام باندھے ۔اگر اس کو میقات پر پہنچنے کا شک ہو تو احرام باندھنا جائز نہیں ہے ۔
(۱۶۶)اگر کوئی میقات سے پہلے احرام باندھنے کے نذر کرے اورپھر نذر کی مخالفت کرتے ہوئے میقات سے احرام باندھے تو اسک احرام باطل نہیں ہوگا ۔ تاہم اگراس نے جان بوجھ کر مخالفت کی ہو تو نذرتوڑنے کا کفارہ اس پر واجب ہو جائے گا۔
(۱۶۷)قبل از میقات کی طرح بعد از میقات بھی احرام باندھنا جائز نہیں ہے ۔لہذ اجو شخص حج یا عمرہ کرنا یا مکہ یا حرم میں داخل ہونا چاہے تواس کے لیے اختیاری حالت میں بغیر احرام میقات سے گزرنا جائز نہیں ہے ۔چاہے اگے دوسرامیقات موجودہو ۔ چنانچہ اگر کسی میقات سے گزر جائے تو ممکنہ صورت میں واپس لوٹنا واجب ہے ۔ تاہم اس حکم سے وہ مستثنی ہے جو ذوالحلیفہ سے بلا عذر احرام کے بغیر گزر کر حجفہ پہنچ جائے لہذا اظہر یہ ہے کہ اس شخص کے لیے حجفہ سے حرام باندھنا کافی ہے ۔ لکین گنہگار ہوگا ۔ احوط یہ ہے کہ مکلف متوازی و مقابل میقات سے بھی بغیر احرام کے نہ گزرے اگرچہ بعید نہیں کہ آگے کوئی اور میقات موجود ہو تو متوزی میقات سے بغیر احرام کے گزرنا جائز ہو ۔ ایسا مسافر جس کا حج ،عمرہ ،حرم میں داخل ہونے یامکہ میں داخل ہونے کاارداہ نہ ہو ۔ بلکہ حرم سے باہر ہی کام (پیشہ وارانہ ) ہو ۔ اگر میقات سے گزرنے کے بعد حرم میں داخل ہونے کا ارادہ کرے تو اس کے لیے عمرہ مفردہ کے لیے ادنی حل (حرم سے باہر نزدیک ترین مقام )سے حرام باندھنا جائز ہے ۔
(۱۶۸) مذکورہ بالا صورت کے علاوہ اگر مکلف جان بوجھ کر میقات سی بغیراہرام کے گھرے تو دو صورتیں بنیں گی ۔
۔میقات تک واپسی کی ممکنہ صورت میں واپس جاکر میقات سے احرام باندھنا واجب ہے چاہے حرم کے اند رسے واپس جایاجائے یاباہرسے لہذا ایس اکرنے سی بغیر اشکال کے عمل صحیح ہوگا۔
۔ میقات تک ممکنہ صورت نہ ہوتو چاہے حرم کے اندر ہو یا باہر اور اندر ہونے کے صورت میں باہر آسکتا ہو یانہیں تو اظہر یہ ہے کہ حج باطل ہے ۔ اور میقات کے علاوہ کسی اورجگہ سے احرام کافی نہیں ہو گا اور مستطیع ہونے کے صورت میں آئندہ سال حج کی ادائیگی واجب ہوگی ۔
۱۔اگر میقات واپس جانا ممکن ہو تو واجب ہے کہ میقات واپس جاکر میقات سے ہرام باندھے ۔
۲۔حرم میں جاچکا ہو اور میقات تک جاناممکن نہ ہو لیکن حرم سے باہر جانا ممکن ہو تو لازم ہے کہ حرمسے باہر جائے ور وہاں سے احرام باندھے اور اولی یہ ہے کہ حرم سے جتنا دورہونا ممکن ہو اتنا دور جاکر ہرام باندھے ۔
۳۔ حرم میں داخل ہو جکا ہو اور حرم سے باہر جانا ممکن نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ جہاں پر ہو وہاں سے اہرام باندھے چاہے مکہ میں داخل ہو چکا ہو ۔
۴۔ حرم سے باہر ہواور میقتات تک واپس ناجا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں جتنا ممکن ہو اتنا واپس جائے اور پھر احرام باندھے ۔
مذکورہ چار صورتوں میں اگر مکلف نے بیان شدہ وظائف پر عمل کی اتو اس عمل صحیح ہو گا۔ احرم کو میقات سے پہلے یا بعد میں باندھنے والا شخص خواہ لاعلمی یابھول کی وجہ سے ایسا کرے تارک احرام کا حکم رکھتا ہے ۔
(۱۷۰)اگر حائضہ مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے میقات سے احرام نہ باندھے اور ہرم میں داخل ہوجاے تو احوط یہ ہے کہ اگر میقات تک واپس نہیں جا سکتی تو حرم سے باہر جائے اوروہاں سے احرام باندھے بلکہ اس صورت میں احوط یہ ہے کہ جتنا ممکن ہو اتنا حرمسے دور جاکر احرام باندھے بشرطیکہ اسکا یہ عمل حج کے چھوٹ جانے کا سبب نہ بنے اور اگر یہ اس کے لیے ممکن نہ ہوتو وہ اسکے لیے دوسروں کے ساتھ برابر ہے اور اسکا حکم وہی ہے جو مسئلہ ۱۶۹ میں بیان ہوچکا ہے ۔
(۱۷۱)اگر کسی کا عمرہ باطل ہو جائے خواہ اسکی وجہ احرام کا باطل ہونا ہو تو ممکنہ صورت میں اسکی قضا کرنا واجب ہے اور اگر دوبارہ انجام نہ دے خواہ اسکی وجہ تنگی وقت ہو تو اسکا حج باطل ہوجائے گاتو ضروری ہے کہ آئندہ سال دوبارہ حج کرے ۔
(۱۷۲) فقہاء کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ افر مکلف بھول جائے یا لاعملی کی وجہ سے بغیر احرام کے عمرہ کرے تو اسکا عمرہ صحیح ہے ۔ لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں ہے اوراس صورت میں احوط یہ ہی کہ اگرممکن ہو تو قبل ازیں مذکورہ شدہ طریقے کے مطابق دوبارہ عمرہ کرے ۔
(۱۷۳)سابقہ مسئلوں میں بیان ہوچکاہے کہ اگر کسی کا گھر مکہ سے دور ہو اوروہ شخص حج کرنا چاہے تو پہلطے پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک سے عمرہ کاا حرام باندھنا واجب ہے ۔لہذا اگر اسکا راستہ میقاتوں سے گزرتاہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اگر اسکا راستہ کسی میقات سی گزرتاہو تو جیساکہ آجکے زمانے میں بیشتر حجاج جدہ ایرپورٹ پر اترتے ہیں ،ان میں سے بعض ہاجی مدینہ منورہ جانے پر اعمال حج وعمرہ کو ترجیح دیتے ہیں ۔جب کہ معلوم ہے کہ جدہ میقات نہیں ہے ۔ بلکہ متوازی میقات ہونا بھی نہ ثابت ہے اور نہ ہی اطمئنان ہے لہذا اس صورت میں حجاج ذیل تین صورتوں میں سے کسی ایک انتخاب کریں ۔
۱۔نذر کا احرام اپنے وطن یا بعض مواقیت کے گزرنے سے پہلے باندھ لیں ۔اس میں کوئی اشکال نہیں ہے جب سورج سائے میں ہونا لازم نہ آتاہو مثلاسفر رات کاہواسی طرح بارش سے بچنا مقصود نہ ہو ۔
۲۔ جدہ سے کسی میقات یا متوازی میقات پر جائے یا ایسی جگہ جائے جو میقات کے پیچھے ہو اور وہاں سے نذر کرکے احرم باندھے مثلارابغ جوحجفہ کے پیچھے ہے ۔ اور مشہور شہر ہے جو عام راستے سے جدہ سے ملاہواہے ۔اورحجفہ کی نسبت یہاں تک پہنچناآسان ہے ۔
۳۔جدہ میں ہی نذرکرکے احرام باندھ لے بشرطیکہ معلوم ہو خواہ سرسی طور پرہی سہی کہ حرم اور جدہ کے درمیان ایک متقات متوازی حصہ موجود ہو جیسالہ وہ حصہ حجفہ سے متوازی و مقابل ہونا بعید نہیں ہے ۔ البتہ اگر اس بات کا صرف احتمال ہواورعلم نہ ہو تو ایسے شخص کے لیے جدہ نیں نذر کر کے احرام بندھنا جائز نہیں ہے ۔ لیکن اگر حاجی جدہ آئے اورمیقات یا میقات کا حکم رکھنے والی جگہ پر جانے ارادہ رکھتاہو اور بعدمیں نہ جاسکے تو اس صوت میں جدہ سے نذر کر کے احرام باندھنا جائز ہے اوراظہر یہ ہے کہ اس صورت میں حرم میں داخل ہونے سے پہَیحرام کی تجدید کرنالازم نہیں ہے ۔
(۱۷۴)جیساکہ پہلے بیان کیاجاچکاہے کہ حج تمتع کرنے والے پر واجب ہے کہ حج تمتع کا احرام مکہ سے بدھے لہذا اگرجان بوجھ کر حج تمتع کا احرام کسی اور جگہ سے باندھے توااسکا احرم صحیح نہیں ہوگا۔ چاہے مکہ منیں احرام باندھ کرداخل ہو ۔لہذا اگرممکن ہو تو پھر سے مکہ سے احرام باندھے ورنہ حج باطل ہوگا۔
(۱۷۵)اگر حج تمتع کرنے والا مکہ سے احرام بھل جائے تو ممکنہ صورت میں مکہ جانا واجب ہے ۔ ورنہ جس جگہ ہو وہیں سے احرام باندھ لے چاہے عرفات میں ہی ہواوراس کا حج صحیح ہو گا ۔ یہی حکم اس شخص کا ہے جسے مسئلہ معلوم نہ ہو ۔
(۱۷۶) اگرکوئی حج کے احرام کوبھول جائے اوراعمال حج کرنے کے بعد یاد آئے تو اسکا حج صحیح ہوگا اورجو شخص مسئلہ نہ ناتاہواس کابھی یہی حکم ہے ۔