|
احرا م کے میقات ۔
اسلامی شریعت مقدسہ نے احرام باندھنے کے لیے چند جگہیں مقر ر کیں ہیں جہاں سی احرام باندھنا واجب ہے اور اسی جگہ کو میقات کہتے ہیں ۔جن کی تعداد نو ہے ۔
۔ذوالحلفیہ ۔
یہ مدینہ کے نزدیک واقع ہے یہ مدینہ میں رہنے ولوں کے اور ہر اس شخض کے لیے جو مدینہ کے راستے حج کے لیے جانا چاہیں ۔ احوط یہ ہے کہ احرام مسجد شجرہ سے نباندھا جائے کیونکہ مسجد سے باہر باندھا ہو ا احرام کافی نہیں ہے ۔چاہے وہ مسجد کے مقابل ،دائیں ،بائیں کھڑے ہو کرباندھا جائے سوائے اس عورت کے جو حالت حیض میں ہو یا حائضہ کا حک م رکھتی ہو ۔
(۱۶۲) بلاکسی عذر یا بیماری یا کمزوری کے ذوالحلفیہ (مسجد شجرہ )سے حجفہ تک احرام باندھنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے ۔
۔ وادی عقیق ۔
یہ اہل عراق ،نجد اور ہر اس شخض کے لیے جو اس کے راستے حج کے لیے جائے ۔ اسکے تین حصے ہیں ۔
پہلے حصے کو مسلخ دوسرے کو غمرہ ،تیسرے کوذات عرق کہتے ہیں ۔ احوط اولی یہ ہے کہ تقیہ ،بیماری یاکوئی ارو روکاوٹ نہ ہو تو حاجی کو ذات عرق پہنچنے سے پہلے احرام باندھ لینا چاہے ۔
(۱۶۳) کہا گیا ہے کہ تقیہ کی حالت میں ذات عرق سے پہلے لباس اتارے بغیر چھپ کر احرم باندھنا جائز ہے اور جب ۔ذات عرق پہنچ جائے تو اپنے کپڑے اتارکر احرام باندھ لے اور اس پر کفارہ بھی واجب نہیں ہو مگر یہ قول اشکال سے خالی نہیں ہے ۔
۔حجفہ ۔
یہ اہل شام ،مصر اور مغرب والوں بلکہ ہر اس شخض کا میقات جو اس راستے سے گزرے حتی کہ بنابر اظہر اس شخص کا بھی جو ذوالحلیفہ سے گزر کر آیاہولیکن کسی وجہ سے یا بغیر کسی وجہ کے احرم نہ باندھ سکا ہو ۔
۔یلملم ۔
یہ اہل یمن اور ہر شخص کامیقات ہے جو اس راستے سے آئے یلملم ایک پہاڑی کا نام ہے ۔
۔قرن منازل
یہ طائف اور اس راستے آنی والوں کا میقات ہے گزشتہ چار میقاتوں میں احرام وہاں موجود مسجد سے باندھنا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر اسجگہ سے جس پر میقات کا نام صادق آئے احرام باندھا جاسکتاہے ۔ اور اگر اسے یقین نہ ہو سکے تو اس سے پہلے نذر کرکے احرام باندھ سکتاہے کیونکہ یہ حالت اختیاری میں بھی جائز ہے ۔
۶۔مذکورہ میقاتوں میں سے کسی ایک کا متوازی ۔
یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ان راستو ں سے آرہے ہوں جہاں سے مذکورہ بلامواقیت نہ آتے ہو ں ۔چنانچہ اس وقت ان میقاتوں کے متوازی سے احرام باندھا جاسکتاہے ۔متوازی میقات سے وہ جگہ مرادہے کہ اگر انسان قبلہ رخ ہو کر کھڑا ہو تو مذکورہ بالا میقاتوں میں س ے کوئی اسکے سیدھے یا الٹے ہاتھ میں اس طرح پڑے کہ اگر متوازی میقات سے گزر جائے تو مذکورہ میقات اسکی پشت میں آئیگی ۔
متوازی میقات کی پہچان کے لیے عرفا تصدیق کافی ہے ۔عقلی طور تحقیق اور غور فکر ضروی نہیں ہے ۔ اگر حاجی اپں ے راتسے مے ایسی دو جگہوں سے گزرے جن میں سے ہر ایک میقات کے متوازی ہو تو احوط اورلی یہ ہے کہ پہلی جگہ سے احرام باندھے۔
۔مکہ
جس طرح یہ تمتع میقا ت ہے اسی طرح مکہ اور اطراف مکہ میں رہنے والوں کے لیے یہ افراد و قران کا میقات بھی ہے چاہے ان کا فریضہ اہل مکہ کے فریضے کی طرف منتقل ہو ا ہو یا نہیں لہذاان کے لیے جائز ہے کہ حج افراد و قران کے لیے مکہ سے اہرام باندھنا ضروری نہیں ہے ۔ اگرچہ عورت کے علاوہ فرادکے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ کسی میقات مثلا جعرانہ پر جا کر احرام باندھیں احواط اولی یہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں جو مکہ تھا وہاں سے احرام باندھا جائے تاہم اظہر یہ ہے کہ نئے محلوں سے بھی احرام باندھا اجاسکتاہے سوائے ان حصوں کے جو احرام سے باہر ہیں ۔
۔ محل رہائش
یہ ان کا میقات ہے جن کی رہائش گاہ میقات کی نسبت مکہ سے زیدہ قریب ہو انکیلیے اپنے گھرسے احرام باندھنا جائز ہے ۔اور میقات جانا ضروری نہیں ہے ۔
۹۔ ادنی حل (مثلاحدیبیہ ،جعرانہ ،اورتنعیم )
یہ عمرہ مفردہ کے لیے میقات ہے ان لوگوں کے لیے جو حج قرن و افراد سے فارغ ہونے کے بعد عمرہ مفردہ کرناچاہتے ہوں ۔ بلکہ ہر اس شخص کے لے جو مکہ میں ہو ار عمرہ مفردہ کرنا چاہتاہو ۔سوائے اس صورت میں جو مسئلہ ۱۴۰ میں گزر چکی ہے ۔
|
|