|
حج کی وصیت
جوشخص مرنے کے قریب ہو اسکے ذمہ حج الاسلام ہو تو اگر اسکے پاس ااتنی مقدار میں مال ہو ہو حک ے خراجات کے للیے کافی ہو تو اس پرلازم ہے کہ ایس اانتظام کرے کہ اسے اطمیں ان ہوجائے کہ اسکی مرنے کے بعد اسی جانب سے حج اداکیاجائے گاہاہے گواہوں کے موجودگی میں وصیت کرے ۔لیکن اگر اسکے کے پاس مال موجود نہ ہواور حتمال ہو کہ اسکے مرنے کے بعد کوئی شخص بلا معاوضہ اسکی طرف سے حج کرے تب بھی وصیت کرنا واجب ہے کسی کے ذمہ حج واجب ہو اور وہ مرجائے تو واجب ہے کہ حج کی قضا اسکی اصل ترکہ میں سے کرائی جائے چاہے اسنے وصیت نہ کی ہو اور اسی طرح اگر اسنے وصیت تو کی ہو مگر حجکے خراجات کو ثلث مال (ایک تہائی )س مخصوص نہ کی اہو رتو اس صورت میں بھی حج کے خراجات کو اصل ترکہ سے لیا جائے گا ۔اور اگر حج کی وصیت بھی کی ہو اور اسکے اخرجات کو مال کے ایک تہائی حصے سے لینے کی شرط بھی کی ہوتو اگرتہائی مال حج کے خراجات کیلیے کافی ہو تواواجب ہے کہ حج کو ثلث مال سے کرایا جائے اور باقی وصیتوں پر حج مقدم ہو گا اور ثلثمال حک ے خراجات کے کافی نہ ہو تو کمی کواصل ترکہ سے پوراکیا جائے گا ۔
(۷۴)اگر کوئی شخص جس پر حج واجب ہو مرجائے ر اسل اکچھ مال کسی اور کے پاس امانت کے طور رکھا ہو تو اکہاگیا ہے کہ امیں شخص کو احتمال ہو کہ اگر ورثا ء کوواپس کردے گاتو ورثا مرحومکی جانب سے حج انجام نہیں دیں گے تو امیں خی لے جائز ہے بلکہ واجب ہے کہ کہ وہ خود یا کسی کو نائب بناکر مرحوم کی جانبسے حج انجام دے اوراگرمال حج کے خرجات سے زیادہ ہو تو اباقی مال ورثاء کو واپس کردے ۔لیکن یہ حکم اشکال سے خالی نہیں ہے ۔
(۷۵)اگر کوئی شخص جسکے ذمہ حج الاسلام ہو مرجائے اور اس پر خمسواجب ہو ی ازکواة اورترکہ (وہ مال جو مرنے والا چھوڑ کا مرتاہے )کم ہو جس مال پر خمس یا زکواة واجب ہواس مال سے خمس یازکواة نکالاجائے گا اور افگر خمس وزکواة اسکے ذمہ ہوں مگر وہ مال موجود نحہو جس پر خمس و زکواة واجب تھاتو پھر حج مقدم ہوگااور اگر اسکے ذمہ کوئی قرض ہو تو بعید نہیں ہے کہ قرض حج پر مقدم ہوجائے ۔
(۷۶)اگر کوئی مر جائے اور اسکے ذمہ میں حج الاسلام واجب ہو جب تک حج مرنے والے باقی ہو ۔اسکے ورثاکو ترکہ میں ایسا تصرف جائز نہیں ہو نیت کی قض احج کے منافی ہو ارو اس سے فرق نہیں پڑتاکہ حج خی خراجات ترکہ سے کم ہوں تو زائد رقم کا تصرف کرنے میں کو ئی حرج نہیں ہے چاہے اس تصرف کی وجہ سے زائد مقدار ضائع ہوجائے ۔
(۷۷)اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام ہو اور اس کا ترکہ حج کے خراجات کے لیے کافی نہ ہو تو اگر اسکے ذمہ کوئی قرض یا خمس و زکواة ہو تو واجب ہے کہ اسک اترکہ اسکی ادائیگی پر خرچ کیالیکن اگرکوئی قرضہ وغیرہ نہ ہو تو اسک اترکہ اسکے ورثا کے لے ہوگا اور ورثا پر اواجب نہیں کہ حج کی ادائیگی کے لیے خراجات حج کو اپنے مال سے پوراکرین ۔
(۷۸)اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام وجب ہو تو اسکے مرنے کے بعد اسکا نائب بنانا اس کے وطن سے ضروری نہیں ہے ۔بلکہ میقات حتیکہ مکہ کے قریب ترین میقات سے نائب بنانا بھی کافی ہے اگرچہ حوط یہ ہے ہ اسکے اپنے والن ساے نائب بنانا چاہیے اگر مرنے والی کا ترکہ حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو تو کسی بھی میقات سے نائب بنایاجاسکتاہے بلکہ جسمیقات سے اجرت وا چرچہ کم ہو اس میقات سے نائب بنیاجائی ۔اگرچہ حتیاط مستحب یہ ہے کہ کہ اگر مال کافی ہوتو اسکے شہر سے نائب بنایا جائے اس صورت میں زائد اجرت اس کے بالغ ورثاکی رصامندی سے ان کے مال سے دی جائے گی نہ کہ نا بالغ ورثا کے حصہ سے ۔
(۷۹)اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام اور اسک اترکہ حج کے اخراجات کے کے لیے کافی ہو تو حتیاط واجب یہ ہی کہ حج اداکرنے میں جلدی کرنی چاہے اسکے مال سے کسی کو اجرت پر حج کے لیے بھیجنا پڑے ۔اگر پہلے سال میقات سے اجیر نہ ملے تو احتیاط واجب یہ ہی خہ اسکے وطن سے نائب واجیر مقرر کریں او ر اگلے سال تک تاخیر نہکریں چاہے معلوم ہو کہ اگلے سال میقات سے اجیر مل جائے گا۔اور اس صورت میں (جب نائب کو وطنسے مقرر کریں )میقات سے زائدخرچہ نابالغ ورثا کے حصہ سے نہیں لیا جا سکتا۔
(۸۰)اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام اور اسک اترکہ حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو اور حج (بدل کے لیے )نائب معمول سے زیادہ قیمت پر ہی ملنا ممکن ہو تو احیتاط واجب یہ ہے کہ زیادہ قیمت دے کرنائب بنایاجائے اورورثا مراث کا حصہ زیادہ کرنے کے لیے آئندہ سال تک تاخیر نہیں کرسکتے لیکن اس صور ت میں معمول سے زیادہ قیمت کو نابالغ ورثاکے حصہ سے نہیں لیا جاسکتا ۔
(۸۱)اگر مرنے کے بعض ورثا اقرارکریں کہ اس پر حج اسلام واجب تھ ااورباقی ورثااسکا انکا ر کریں تو صرف اقرار کرنے والوں پواجب ہے کہ مال وراثت کی نسبت سے اپنے مال میں سے حج کے لیے خرچہ دیں (مثلااگر اقرار کرنے والوں کے حصے نصف ارث آیا ہو توح کے لیے اخراجات کا نصف خرچہ دیں )لہذا مقدار ہج کے خراجات کے لیے کافی ہو چاہے کسی اور کے ملانے کی وجہ سے پورے ہو رہیں ہوں ی اکسی اور طرحسے حج کے خراجات کے لیے کافی ہو تونائب بنانا واجب ہوگا ورنہ نہیں اور اقرارکرنے والوں پر اپنے حصے سے یا اپنے دوسرے مال سے کمی کو پورا کرناواجب نہیں ہے ۔
(۸۲) اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام ہو اور کوئی بلا معاوضہ اس کی جانب سے حج انجام دے تو کافی ہے اور ورثاء کے لئے مرنے والے کے مال سے نائب بنانا واجب نہیں ہے اسی طرح اگر مرنے والا ایک تہائی مال سے حج کی وصیت کرکے مرے اور کوئی شخص بلا معاوضہ اس کی جانب سے حج کو انجام دیدے تو کافی ہے اور ایک تہائی مال سے نائب بنانا واجب نہیں ہے لیکن حج کے اخراجات کے برابرمال کو ایک تہائی مال میں سے ورثہ نہیں دیا جائے گا بلکہ مرنے والے کی نظر میں جو نیکی کا کام ہو اس میں صرف کیا جائے گا
(۸۳)اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام ہواور اسنے اپنے شہر سے نائب بنانے کی وصیت کی ہو تو اس کے شہر سے نائب بنانا واجب ہے لیکن میقات کی نسبت زائد اخراجات کو ایک تہائی مال سے ادا کیا جائے گا اور اگر حج کی وصیتکرے لیکن جگہ کا معین نہ کرے تو میقات سے نائب بنانا کافی ہے مگر یہ کہ کو ئی ایسی علامت یا قرینہ ہو جس سے ظا ہر ہو کے مرنے والے کا ارادہ اپنے شہر سے نائب بنانے کا تھا مثلا مرنے والا حج کے لئے اتنی مقدار معین کرے جو اس کے شہر کیلئے کافی ہو(تو اس کے ارادے کے مطابق عمل کیا جائے )
(۸۴)اگر مرنے والا اپنے شہر سے حج کرنے کی وصیت کرے لیکن وصی یا وارث میقات سے نائب بنائیں تو اگر مرنے والے کے مال سے نائب کو خرچہ دیا ہو تو اجارہ باطل ہوگا لیکن اجیر کے حج انجام دینے پر مرنے والا بری الذمہ ہو جائے گا
(۸۵)اگر مرنے والا کسی دوسرے شہر سے حج کی وصیت کرے مثلا وصیت کرے کہ نجف سے کسی کو نائب بنایا جائے تو ا س وصیت پر عمل کرنا واجب ہے او رمیقات سے زائد اخراجات کوتہائی مال سے لیا جائے گا
(۸۶)اگر مرنے والا وصیت کرے کہ اس کی جانب سے حج الاسلام انجام دیا جائے او راسکے لئے اجرت معین کرے تو اس پر عمل کرنا واجب ہے لہذا اگر اجرت معمول کے مطابق ہو تو مرنے والے کے اصل مال سے ادا کی جائے گی ، ورنہ معمول سے زائد مقدار کو تہائی مال سے ادا کیا جائے
(۸۷)اگر مرنے والا کسی ایسے مال معین سے حج کی وصیت کرے جس کے بارے میں وصی کو معلوم ہو کہ اس مال پر خمس او رزکواةواجب ہے تو وصی پر واجب ہے کہ پہلے خمس نکالے اورپھر باقی مال حج پ رخرچ کرے اور اگر باقی مال حج کیاخراجات کیلئے کافی نہ ہو تو ضروری ہے اصل مال سے کمی کو پورا کرے بشرطیکہ وصیت حج الاسلام کی ہو لیکن اگر وصیت تعدّدمطلوب کی بناء پر ہو یعنی وصیت کرنے والے کی نظر میں دو چیزیں ہو ں ایک یہ کہ کوئی کار خیر انجام پائے اور دوسری یہ کہ وہ کار خیر حج ہو تو مرنے والے کی نظر میں جو بھی کار خیر ہو مال اس پر خرچ کیا جائے او راگر وصیت تعدّد مطلوب کی بناء پر نہ ہو تو مال معین سے بچنے والی مقدارورثاء میں تقسیم ہو گی
(۸۸)اگر مرنے والے کی طرف سے حج کے لیے نائب بنانا واجب ہو جائے چاہے وصیت کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ،اور وہ شخص (مثلاوصی یا وارث)جس پر نائب بنانا واجب تھا غفلت کرے یامال ضائع ہوجائے تو یہ شخص ضامن ہو گااوراس پر اپنی مال سے نائب بناناواجب ہے ۔
(۸۹)اگر یہ معلوم ہوجائے ہ میت کے ذمہ حج واجب ہے اور یہ پتہ نہ چلے کہ اس نے انجام دیا تھا یانہیں تو قضاکرانا واجب ہے اور اسکے اخراجات اصل مال سے لیے جائیں گے ۔
(۹۰)حج کے لیے صرف مرنے والانائب بنانے سے برالذمہ نہیں ہو تالہذااگر پتہ چلے کہ نائب نے حج نہیں کیا تو چاہے کسی عذرکی وجہ سے یا بغیر کسی عذر کے تو دوسرانائب بناناواجب ہے اور اسکے اخرجات اصل مال سے ادا کیے جا
ئیں گے ۔اگر پہلی اجرت مرنے والے کے مال سے دی ہو اور اسکو واپس لینا اگر ممکن ہو تو واپس لیا جائے ۔
(۹۱)اگر اجیر متعددہوں تو اظہر یہ ہیکہ ایسے شخص کواجیر بنایاجائے کہ جس کانئب بننا مرنے والے کی شان و حیثیت کے منافی نہ ہو چاہے دوسرا کم قیمت پرجانے پر راضی ہو اور نائب ایک تہائی مال سے بنایا جارہاہو اورچاہے ورثا کے حصے میں کمی ہو رہی ہو اور وہ راضی نہ ہوں لیکن یہ حکم اس صورت میں مشکل ہے جب درج بالاطریقے سے اجیر بنانادوسرے مالی واجبات مثلاقرض و زکواة جو مرنے والے کے ذمہ ہوں یاةغیر مالی واجبات جن کی مرنے والینے وصیت کی ہو ،سے متصادم ہو ۔
(۹۲)نائب مرنے والے کے شہر سے یامیقات سے نائب بنانا واجب ہے اوراس میں وارث کی تقلید یا اجتہاد کو مدنظر رکھاجائے نہ کہ مرنے والے کی لہذااگر مرنے والاے کا اعتقاد یہ ہو کہ اپنے شہر سے حج واجب ہے جبکہ وارثاعتقاد یہ ہو کہ میقات سے بھی نائب بنانا جائز ہے تو وارث پر واجب نہیں ہے کہ وہ مرنے والے کے شہر سے نائب بنائے ۔
(۹۳)اگر مرنے والے ذمہ حج الاسلام ہو مگر اسکی میراث و ترکہ نہ ہوتو وارث پر نائب بنانا واجب نہیں لیکن مستحب ہے خصوصا مرنے والے کے اقرباکیلیے مستحب ہے کہ وہ مرنے والے کو بری الذمہ کرائیں ۔
(۹۴)اگر مرنے والا حج کی وصیت کرے اور معلوم ہوکہ یہ حج الاسلام ہے تو اگر ایک تہائی مال سے حج کرانے کی وصیت نہ کی ہو تو پھر حج کے اخراجات کو اصل مال سے لیا جائے گا اور اگر معلوم ہو کہ جس حج کی وصیت کی ہے وہ حج االاسلام نہیں ہے یا حج االاسلام ہونے میں شک ہو تو پھر حج کے اخراجات ایک تہائی ما ل سے لیے جائے گے ۔
(۹۵)اگر مرنے والا حج کی وصیت کرے اور کسی خا ص شخص کو اسکے لیے معین کرے تو وصیت پر عمل کرنا واجب ہے اور اگر یہ خاص شخص معمول سے زیادہ اجرت طلب کررہاہو اور حج ،حج الاسلام ہو تو پھر معمول سے زیادہ اجرت ترکہ کے ثلث (تہائی)مال سے ادا کی جائے گای اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اگر ولیت تعدد مطلوب کی بنا پر ہو (یعنی ین وصیت سے مرنے والے کی غرض یہ ہو کہ حج انجام پائے اوراسی خاص شخص کے توسط سے انجام پائے یعنی دونوں چیزیں ہوں )یا حج الاسلام کی وصیت کی گئی ہو تو پھر کسی ایسے شخص کو نائب بناناچاہیے جو معمول کے مطابق اجرت لے رہاہو ۔
(۹۶)اگر مرنے والاحج کی وصیت کرے اور اسکے لیے مال بھی معین کرے مگر کوئی اس قیمت پرجانے کے لیے راضی نہ ہو تو اگر حج ،حج الاسلام ہو اصل مال سے کمی کو پوراجائے گا۔اور اگر حج ،حج الاسلام کے علاوہ ہو اور وصیت تعددکی مطلوب کی بناپر ہو یعنی وصیت سے میت کی غرض دو چیزیں ہوں ایک یہ کہ کوئی کارخیر انجام پائے اور دوسری یہ کہ کارخیر حج ہو ۔تو اس مال معین کو میت کی نظر میں جو کار خیر تھے اس پر خرچ کیا جائے گا ۔ورنہ وصیت باطل ہے اور یہ مال معین میراث ک حصہ شمار ہو گا ۔
(۹۷)اگر کوئی اپنا گھر اس شرط پر بیچے خریدار اس قیمت کو اسکے مرنے کے بعد حج پر خرچ کرے تو گھر کی قمیمت میراث کا حصہ شمار ہوگی اور گر حج ،حج الاسلام ہو تو شرط لازم ہوجائے گی اور تو اس واجب ہے کہ گھر کیقیمت کو حج کی اجرت میں صرف کرے لیکن اجرت معمول کے مطابق ہو ورنہ زیادہ مقدار کو ثلث مال سے لیا جائے گا ۔اور اگر حج ،حج الاسلام کے علاوہ ہو تب بھی شرط لازم ہے اورحج کی پوری اجر ت کو ایک تہائے مال سے لیاجائے گا اوراگر ایک تہائے مال حج کے اخراجات کے لیے جافی نہ ہو تو زائد مقدارمیں شرط لازم نہیں ہو گی ۔
(۹۸)اگر کوئی اپنا گھر کسی کو اس شرط پردے دے کہ وہ اسکے مرنے کے بعد اسکی طرف سے حج کرائے گا تو یہ معاہدہ صحیح اور لازم ہے (یعنی اس پر عمل کرناضروری ہے )اور یہ گھر مالک کی ملکیت سے خارج ہو جائے گا اور اس گھر کو میراث میں شمار نہیں کیا جائے چاہے حج مستحب بھی ہو اور وصیت کا حکم اس گھر پر جاری نہیں ہوگا یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کوائی اپناگھر کسی اور کی ملکیت میں اس شرط پر دے کہ وہ اسکے مرنے کے بعدوہ اس کو بیچ کر گھر کی قیمت سے اس کی جانب سے حج کرائے گا یہ صورتیں صحیح اور لازم ہیں چاہے وہ جس چیز کو بیچ کر شرط کیا ہے ۔مستحب عمل ہی ہو اور وارثوں کا گھر پر کوئی حق نہیں ہو گا ۔اگر وہ شخص جس پر شرط کی تھی شرط کی مخالفت کرے تو ورثاء معاملہ ختم کرنے کا حق نہیں رکھتے لیکن مرنے والے کا سر پرست چاہے وہ وصی ہو حاکم شرع معاملہ ختم کر سکتا ہے اور اگر مرنے والے کا سرپرست معاملہ ختم کردے تو مال مرنے والے کی ملکیت میں لوٹ ,آئے گا اور میراث کا حصہ بن جا ئے گا ۔
(۹۹)اگر وصی (وہ شخص جسکے نام وصیت کی گئی ہو )مرجائے اور پتہ نہ چلے کہ وصی نے مرنے سے پہلے کسی کو نائب مقرر کیاہے یا نہیں تو اصل مال سے نائب بنانا واجب ہے بشرطیکہ حج ،حج الاسلام ہو لیکن اگر حج الاسلام کے علاوہ کوئی اور حج ہو تو پھر ثلث مال سے نائب بنایا جائے گا ۔اوراگر ولی نے حج کی مقدار کے مطابق مال لیا ہو اور وہ مال موجود بھی ہو تو اسکو واپس لیا جائے گا۔ چاہے یہ احتمال ہو کہ وصی نے اپنے مال سے نائب بنا دیاہوگا ۔اور بعد میں ةاپنے مال کے بدلے مرنے والے کے مال سے لیے ہوں گے ۔اور اگر مال موجود نہ ہو تو وصی ضامن نہیں ہو گا اس لیے کہ احتمال ہے کہ بغیر کوتاہی کے مال ضائع ہو گیاہو ۔
(۱۰۰)اگر وصی سے لاپرواہی کے بغیر مال ضائع ہو جائے تو ہوجائے تو وہ ضامن نہیں ہو گا ۔اور اگرحج ،حج الاسلام ہو تو واجب ہے کہ باقی ترکہ سے نائب بنایا جائے ۔حج الاسلام کے علاوہ حج ہو تو باقی ثلث مال سے نائب بنایا جائے اگرباقی مال ورثا میں تقسیم ہو چکا ہو تو ان کے حصے کی نسبت اجرت کے لیے واپس لیاجائے گا ۔یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب کوئی حج کے لیے نایب بنے اور حج ادا کرنے سے پہلے مر جاے اور اسکا ترکہ نہ ہو اور اگر ہو اس سے واپس لینا ممکن نہ ہو ۔
(۱۰۱)اگر وصی سے نائب مقرر کرنے سے پہلے مال ضائع ہوجائے اور پتہ نہ چلے کہ ولی سے لاپرواہی ہوئی ہے یانہیں تو وصی سے اس مال کے بدلے مال لینا جائز نہیں ہے ۔
(۱۰۲)اگرمرنے والا حج الاسلام کے علاوہ کسی حج کیلیے مال معین کی وصیت کرے اور اہتمال ہو کہ یہ مال معین ایک تہائی مال سے زیادہ ہے ۔تو اس مقدار مال کو ورثاء کی اجازتکے بغیر صرف کرنا جائز نہیں ہے ۔
|
|