|
بحث کا خلاصہ
وہ تمام روایات جن سے نماز میں ہاتھ باندھنے کااستفادہ ہوتا ہے دلالت یا سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے اشکال سے خالی نہیں ہیں۔
پہلی روایت : اسے بخاری نے نقل کیا ہے اور اس کی دلالت میں مشکل کے علاوہ اس کے مرسل ہونے کا شبھہ بھی موجود ہے اور پھر اس کا پیغمبر ۖ کی طرف منسوب ہونا(جیسا کہ عینی اور شوکانی نے
اس کی وضاحت کی ہے) بھی ثابت نہیں ہے ۔
دوسری روایت:اسے صحیح مسلم میں نقل کیا گیا ہے جس کی سند میں علقمہ بن وائل موجود ہے جو اپنے باپ سے نقل کررہا ہے لہذایہ روایت بھی مرسل ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی مر چکا تھا ۔
تیسری روایت:اسے مالک بن انس نے نقل کیا ہے اس کی سند میں ابن ابی المخارق ہے جو ضعیف ہے ۔
چوتھی روایت :اسے ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کے راویوں میں سے ایک علاء بن صالح ہے جس کی روایت پرتوجہ نہیں دی جاتی ؛(یعنی قابل قبول نہیں ہے )جیسا کہ بخاری نے بھی اس کی تصریح کردی ہے اور پھر یہ روایت ابن زبیر والی روایت سے متعارض بھی ہے ۔
پانچویں روایت:اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں ہشیم موجود ہے جوروایات میں ملاوٹ اور تصرّف کیا کرتا ،نیز اواخر میں ہوش وحواس کھو بیٹھا تھا ۔اسی طرح اس روایت کا ایک راوی حجاج ہے جو ضعیف ہے ۔
چھٹی روایت:اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں زیادبن زید ہے جو مجہول ہے اور پھر اس سند میں عبدالرحمن بن اسحاق بھی ہے جس کے ضعیف ہونے پر علماء کا اتفاق ہے ۔
ساتویں روایت:اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں طالوت ہے اس کی احادیث ضعیف ہیں ۔اسی طرح ضبّی بھی اس سند میں موجود ہے جو مجہول اور ناشناختہ راوی ہے ۔
آٹھویں روایت :یہ روایت بھی ابوداؤد نے نقل کی ہے جس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق ہے جو ضعیف ہے ۔
نویں روایت : اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں ہشیم ہے جو ضعیف ہے اس کے علاوہ یہ روایت مرسل بھی ہے چونکہ طاؤس تابعی ہے جس نے پیغمبر ۖ کو نہ تو دیکھاہے اور نہ ہی ان سے روایت نقل کی ہے ۔
دسویں روایت :یہ روایت ترمذی نے نقل کی ہے جس کی سند میں قبیصہ ہے جو مجہول ہے ۔
گیارہویں روایت:اسے ابن ماجہ نے نقل کیا ہے جبکہ سنن ابن ماجہ کی روایات سات کے علاوہ سب ضعیف ہیں اس کے علاوہ اس کا راوی عاصم بن کلیب بھی ضعیف ہے ۔
بارہویںروایت: اسے دارمی نے نقل کیا ہے جس کی سند میں عبدالجبار ہے جو اپنے باپ سے نقل کر رہا ہے لہذایہ روایت مرسل ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی مر چکا تھا پس اس نے اپنے باپ سے روایت نہیں سنی ۔
تیرہویں روایت:یہ دار قطنی کی روایت ہے جس میں مندل ہے جو ضعیف ہے ۔
چودہویں روایت :اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے اس میں محمد بن ابان انصاری ہے جس کا حضرت عائشہ سے روایت نقل کرنا درست نہیں ہے پس یہ روایت مرسل ہے نیز اس روایت کی سند میں ہشیم ہے جو ضعیف ہے۔
پندرہویں روایت:اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے جس میں نضر بن اسماعیل ہے جو ضعیف ہے ۔
سولہویں روایت:اس کی سند میں طلحہ ہے جسے سب علماء نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
سترہویں روایت:اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے جس میں وکیع موجود ہے یہ وہ شخص ہے جس نے پاچ سو حدیث میں خطا کی ہے ۔
اٹھارہویں اور انیسویں روایت:اسے دار قطنی نے نقل کیا ہے ان دونوں روایات کی سند میں حجاج بن ابی زینب ہے جو ضعیف ہے ۔
بیسویں روایت: اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے اس کی سند میں ابوخالد احمد ہے جس کے بارے بہت کچھ کہا گیا ہے اور اس کی حدیث بھی حجت نہیں ہے ۔
اور پھر دلالت کے اعتبار سے بھی یہ روایت واضح نہیں ہے کہ اس سے مراد نماز میں ہاتھ باندھنا ہو۔
اکیسویں روایت : یہ وہی اٹھارہویں روایت ہے جسے دارقطنی نے تکرار کے ساتھ نقل کیا ہے اور پھر اس کی سند مین ابو یوسف حجاج ہے جسے ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔
اس بنا پر وہ دلائل جن پر اعتماد کرتے ہوئے نما ز میں ہاتھ باندھنے کی نسبت پیغمبر ۖ کی طرف دی جا سکتی ہے ان کا کوئی وجود نہیں رہ جاتا۔اور پھر تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بخاری اور مسلم نے بھی ان روایات پر توجہ نہ دیتے ہوئے انہیں اپنی اپنی کتب میں ذکر کرنے سے اجتناب کیا ہے اور یہ خود ان روایات کے غیر معتبر ہونے کی دلیل یا تائید ہے خاص طور پر ان افراد کے لئے جو کسی روایت کے بخاری یا مسلم میں ذکر نہ ہونے کو اس کے ضعیف ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ بعض صحابہ کرام اور آئمہ مذاہب جیسے ابن زبیر ،امام مالک ،ابن سیرین ، حسن بصری اور نخعی و...اسے درست نہ سمجھتے اور نماز میں ہاتھ کھولنے کے معتقد تھے ۔اسی طرح مذہب اہل بیت علیہم السّلام میں بھی جیسا کہ روایات وفتاوٰی سے واضح ہے نماز میں ہاتھ باندھنے کو ناجائز اور شریعت کے مخالف سمجھا گیا ہے۔
پس یہ کہنا درست ہو گا کہ نماز میں ہاتھ باندھنا سنّت کی نسبت بدعت سے نزدیک تر ہے ۔
والسّلام علی من اتّبع الھدٰی
ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ کے اہداف
١۔ تعلیمات محمد وآل محمد کی نشر واشاعت
٢۔ مبلّغین کی تربیت
٣۔دین اسلام و مذہب حقہ پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات
٤۔ فن ترجمہ و تحقیق سے آشنائی
٥۔ غریب مؤمنین کی مدد
ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ کے تحقیقی آثار
١۔ الصواعق الالھیة فی الردّ علی الوھابیة
٢۔وہابیت عقل وشریعت کی نگاہ میں
٣۔ وہابی افکار کا ردّ ( تیرہ موضوعات پر مشتمل لا جواب کتاب )
٤۔ نظریہ عدالت صحابہ ( قرآن و سنت کی روشنی میں )
٥۔ آگ اور خانہ زہراء سلام اللہ علیھا
٦۔ شیعیان علی کا مقام
٧۔ ندائے ولایت (شھدنّ علیّا ولی اللہ )
٨۔ نماز تراویح
٩۔ نماز میں ہاتھ کھولنا یا باندھنا ؟
١٠۔ مذہب شیعہ پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات
١١۔ گنہگار عورتیں
١٢۔ اعمال ماہ رمضان المبارک ( مکمل ترجمہ کے ساتھ )
١٣۔ شرح چہل حدیث امام مہدی علیہ السلام
١٤۔ القول الأظھر فی مناقب الصدیق الأکبر
١٥۔عقد ام کلثوم
١٦۔ہدیہ مبلّغین
١٧۔ ولادت امام مہدی اورعصرغیبت میں وجود امام کے فوائد
|
|