نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟
 
بارہویں روایت :
دارمی نے ابونعیم سے،اس نے زہیر سے ،اس نے ابواسحاق سے ،اس نے عبدالجبار بن وائل سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:
((رأیت رسول اللہ ۖ یضع یدہ الیُمنٰی علی الیسرٰی قریبا من الرّسغ ))
میں نے رسو ل خدا ۖ کو دیکھا کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے قریب رکھے ہوئے تھے ۔(١)
یہاں پہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ عبدالجبار بن وائل نے اپنے باپ سے روایت نہیں سنی ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی مر چکا تھا ۔
ابن حبان الثّقات میں لکھتے ہیں :جو شخص یہ گمان کرے کہ ابن وائل نے اپنے باپ سے روایت سنی ہے تو یہ وہم کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنی ماں کے شکم میں تھا جب اس کے باپ کی وفات ہوئی۔
نیز بخاری کہتے ہیں:یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے مر چکا تھا ۔
ابن سعد کہتے ہیں: ...اس کے بارے میں ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی اور دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا !
ابو حاتم ،ابن جریر طبری ، جریری ، یعقوب بن سفیان ، یعقوب بن شیبہ ،دار قطنی ، حاکم اور ان سے پہلے ابن مدینی وغیرہ نے اسی سے ملتے جلتے مطالب نقل کئے ہیں۔(٢)
-------------
١۔سیرأعلام النبلاء ١٣:٢٧٩.
٢۔ تہذیب التہذیب ٦:٩٦.
تیرہویں روایت :
دار قطنی میں ابو محمد صاعد نے علی بن مسلم سے ،اس نے اسماعیل بن ابان ورّاق سے ، اس نے مند ل ،اس نے ابن ابی لیلٰی ،اس نے قاسم بن عبدالرحمن ،اس نے اپنے باپ اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے:
((انّ النّبی کان یأخذ شمالہ بیمینہ فی الصلاة ))
پیغمبر ۖ نماز میں اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ کر رکھتے۔(١)
اس حدیث کی سند میں مندل یعنی ابن علی عنزی ہے جو اہل سنّت کے ہاں ضعیف شمار کیا گیا ہے نیز بخاری نے بھی اسے ضعفاء میں سے شمار کیا ہے .نسائی کہتے ہیں : وہ ضعیف ہے ۔ابن سعد کہتے ہیں : اس میں ضعف پایا جاتا ہے ۔جوزجانی کہتے ہیں: اس کی روایات سست ہیں اس لئے کہ وہ منکرا ور غریب روایات کو نقل کرتا ہے ۔ابن قانع اور دار قطنی کا کہناہے : وہ ضعیف ہے ۔ابن حبان کہتے ہیں: وہ حافظہ کی کمی وجہ سے مرسل کو مرفوع اورموقوف کو مسند شمار کیا کرتا ،لہذا حق یہ ہے کہ اس کی روایت کو ترک کیا جائے ۔
نیز طحاوی کہتے ہیں : وہ کسی طرح روایت کے نقل کرنے میں مضبوط نہیں ہے اور اس کی روایت سے استدلال کرنا ممکن نہیں ہے۔(٢)

چودہویں حدیث :
دارقطنی میں عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز نے شجاع بن مخلد ،اس نے منصور ،اس نے محمد بن ابان انصاری ،اس نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتی ہیں:
-------------
١۔دار قطنی ١:٢٨٣،ح١.
٢۔تہذیب التہذیب ١:٢٦٦.
((ثلاثة من النبوّة ...ووضع الید الیُمنٰی علی الیسرٰی فی الصّلاة ))
نبوّت کی خصوصیات میں سے تین چیزیںہیں:
....حالت نماز میں دائیں ہاتھ کا بائیں پر رکھنا ۔(١)
اس حدیث کی سند میں محمد بن ابان انصاری ہے جس کا حضرت عائشہ سے نقل کرنا ممکن نہیں ہے لہذا یہ روایت مرسل ہے ۔(٢)
ذہبی نے بخاری سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہوہ کہتے ہیں:((لایعرف لہ سماع منھا ))معلوم نہیں ہے کہ اس نے حضرت عائشہ سے روایت سنی ہو ۔(٣)
اسی طرح ہشیم (ابن منصور ) جو اس روایت کی سند میں موجود ہے اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں پہلے بیان کر چکے ہیں۔(٤)

پندرہویں روایت:
دار قطنی نے ابن صاعد ،اس نے زیاد بن ایوب ،اس نے نصر بن اسماعیل ،اس نے ابن ابی لیلٰی ،اس نے عطا ،اس نے ابوہریرہ اور اس نے رسول اکرم ۖ سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا :
((أُمرنا معاشرالأنبیاء ...ونضرب بأیمانناعلی شمائلنا فی الصلاة ))
ہم انبیاء کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھیں۔(٥)
-------------
١۔دار قطنی ١:٢٨٤،ح٢.
٢۔دار قطنی ١:٢٨٤.
٣۔میزان الاعتدال ٣:٤٥٤.
٤۔ تہذیب التہذیب ١١:٥٦.
٥۔سنن دار قطنی ١:٢٨٤،ح٣.
اس حدیث کی سند میں نضر بن اسماعیل یعنی ابو مغٰرہ ہے ،احمد ،نسائی اور ابو زرعہ نے اس کے متعلق کہا ہے: وہ قوی نہیں ہے اسی ایک قول کے مطابق ابن معین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
ابن حبّان کہتے ہیں: اس کے اشتباہات واضح اور اس کے وہم وخیالات بہت زیادہ ہیںلہذااسے ترک کرنا ہی حق ہے ۔
حاکم نیشاپوری کہتے ہیں: وہ ان (اہل سنّت)کے ہاں قوی نہیں ہے ۔ساجی کا کہنا ہے : اس کی روایات غریب ہیں ۔(١)

سولہویں روایت :

دارقطنی نے ابن سکین سے ، اس نے عبدالحمید بن محمد،اس نے مخلدبن یزید ، اس نے عطا،اس نے ابن عباس اور اس نے پیغمبر ۖ سے نقل کیا ہے کہ آپۖ نے فرمایا:
((انّامعاشر الانبیا ءمرنا...أن نمسک بأیماننا علی شمائلنا فی الصلاة ))
ہم انبیاء کی جماعت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ...نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیںپر رکھیں ۔(٢)
اس حدیث کی سند میں طلحہ (بن عمر و بن عثمان حضرمی کوفی )ہے جسے تمام علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
احمد کہتے ہیں : اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اوراس کی روایات متروک ہیں ۔
ابن معین کا کہناہے: اس کا کوئی مقام نہیں اور وہ ضعیف ہے ۔نیز جوزجانی کہتے ہیں: اس کی روایات سے کوئی بھی راضی نہیں ہے ۔
ابوحاتم کہتے ہیں:وہ قوی نہیں ہے اور اہل سنّت کے ہاں اسے ضعیف قراردیا گیا ہے ۔ابوداؤد کہتے
-------------
١۔تہذیب التہذیب ١٠:٣٨٨.
٢۔سنن دار قطنی ١:٢٨٤،ح٣.
ہیں: وہ ضعیف ہے ۔نسائی کا کہناہے:اس کی احادیث متروک ہیں ،بخاری کہتے ہیں: اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے،یحیٰی بن معین بھی اس کے بارے میں منفی نگاہ رکھتا تھا ، ابن سعد کہتے ہیں : ا سکی احادیث بہت ضعیف ہیں۔
ابن مدینی کہتے ہیں وہ ضعیف ہے اور اس کا کوئی مقام نہیں ہے ،ابوزرعہ ، عجلی اور دار قطنی کہتے ہیں: وہ ضعیف ہے ،فسوی نے اسے ان افراد میں ذکر کیا ہے جن کی روایت پر توجہ نہیں دی جاتی ۔
ابن حبّان کہتے ہیں: اس نے ثقہ افراد سے کچھ نقل نہیں کیا مگر یہ کہ ایسی چیزیں جن کا لکھنا جائز نہیں تھا اور اس سے ایسی روایات کو تعجب کے طور پر نقل کیا گیا ہے ۔(١)

سترہویں روایت:
دار قطنی نے محمد بن مخلد سے ،اس نے محمد بن اسماعیل حسانی ، اس نے وکیع ،اس نے یزید بن زیاد بن ابی جحد،اس نے عاصم جحدری ،اس نے عقبہ بن ظہیر ،اس نے حضرت علی علیہ السّلام سے نقل کیا ہے آپ نے (فصلّ لربّک وانحر ) کے بارے میں فرمایا : وضع الیمین علی الشمال فی الصلاة .اس سے مراد نماز میں دائیں ہاتھ کا بائیں پررکھنا ہے .(٢)
اس روایت کی سند مین وکیع ہے جس کے بارے میںیہ کہا گیا ہے کہ اس نے پانچ سو روایات میںخطا کی ہے ۔(٣)
نیز مروزی نے کہا ہے : وہ اپنی عمر کے آخری ایام میں زبانی احادیث نقل کیا کرتا اور الفاظ میں تبدیلی کربیٹھتا ،گویا وہ احادیث کے مفہوم کونقل کیا کرتا اوراسے عربی زبان پر بھی آشنائی نہیں تھی۔( ٤)
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٥:٢١.
٢۔دار قطنی ١:٢٨٥.
٣۔تہذیب التہذیب ١١:١١٤.
٤۔تہذیب التہذیب ١١:١١٤.