نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟
 
روایات اہل سنّت
پہلی روایت :
البخاری :((...عنبی حازم،عن سھل:قال:کان النّاس یؤمرونن یضع الرّجل الید الیُمنٰی علی ذراعہ الیسرٰی فی الصّلاة .
قالبوحازم: لاأعلمہ الاّأن یُنمٰی ذلک النبّی ۖ قال اسماعیل: یُنمٰی ذلک ،ولم یقل ینمٰی)).(١)
صحیح بخاری:...ابو حازم نے سھل بن سعد سے نقل کیا ہے :لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھیں .ابوحازم کہتا ہے:میرا گمان نہیں ہے کہ یہ فعل پیغمبر ۖ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب ہو۔
اسماعیل کہتے ہیں:نسبت تودی گئی ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ کس نے یہ نسبت دی ہے۔

روایت کے معنٰی میں غور
یہ معلوم نہیں ہے کہ کس نے لوگوں کو نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اس حدیث کے راوی (ابو حازم)کو بھی یقین نہیں ہے کہ پیغمبر ۖ نے اس کا حکم دیا ہو اسی تو اس نے یہ کہا : مجھے نہیں معلوم مگر یہ کہ پیغمبر ۖ نے اس کا حکم دیا ہو ۔
پس یہ حدیث مرسل ہے اور اس کی دلالت بھی تنہا واضح ہی نہیں بلکہ اس میں ابہام بھی پایا جارہا ہے جیسا کہ عینی ،شوکانی اور اس حدیث کی شرح بیان کرنے والے دوسرے شارحین کے بیانات سے
-------------
١۔صحیح بخاری ١:١٣٥؛موطّ امام مالک ١:١٥٨.
یہی سمجھا جا رہا ہے۔
الف )عینی : اس حدیث میں لفظ ((یُنمٰی )) یا ء کے ضمہ اور میم کے فتح کے ساتھ مجہول کا صیغہ ہے جبکہ اسے یاء کے فتحہ کے ساتھ معلوم کا صیغہ نہیں پڑھا گیا ۔اس بنا پر یہ حدیث مرسل ہے چونکہ ابوحازم نے معیّن نہیں کیا کہ کس نے نسبت دی ہے اور اگر معلوم کاصیغہ ہو تو حدیث متصل ہے۔(١)
لہذاایسی حدیث جس کے اندر متعدد احتمالات پائے جارہے ہوں اس سے کسی عمل کے سنّت ہونے کو ثابت نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس عمل کو یقین واطمینان کے ساتھ پیغمبر ۖ کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے ۔
ب)سیوطی:اسماعیل کہتے ہیں : یُنمٰی (شروع میں ضمہ اور میم پر فتح کے ساتھ) مجہول کا صیغہ ہے اوریہ نہیں کہا :لفظ ینمٰی معلوم کا صیغہ ہے اور اسماعیل وہی ابن ابی انس ہیں .(٢)
ج)شوکانی:بعض نے اس حدیث کو معیوب قراردیا ہے چونکہ خود ابو حازم کو بھی اس میں گمان تھا ...اور اگر یہ حدیث مرفوع یعنی صحیح ہوتی اور پیغمبر ۖ سے صادر ہوئی ہوتی تو پھر ابو حازم کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ (لاأعلمہ) میں نہیں جانتا!

دوسری روایت:
روایت صحیح مسلم : ((زھیر بن حرب ،حدّثنا عفان ،حدّثنا ھمام ،حدّثنا محمد بن جحادة ،حدّثنی عبدالجبار بن وائل ومولٰی لھم ،انّھما حدثا ہ عنبیہ وائل بن حجر ،أنّہ رأی النبّی ۖ رفع یدیہ حین دخل فی الصلاة ،کبّر وصفّ
-------------
١۔عمدة القاری ٥:٢٧٨.
٢۔التوشیح علی الجامع الصحیح البخاری ١:٤٦٣.
ھمام حیالذنیہ ،ثمّ التحف بثوبہ ،ثمّ وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی.))
صحیح مسلم ...زہیر بن حرب نے عفّان سے ، اس نے ہمام سے ، اس نے محمد بن جحادہ سے ، اس نے عبدالجبار بن وائل سے ، اس نے علقمہ بن وائل سے ، اور ان کے غلام نے وائل بن حجر سے روایت کی ہے کہ میں نے رسو ل خدا ۖ کو دیکھا جب نماز پڑھنے لگے تو اپنے ہاتھوں کوکانوں کے برابر بلند کیا ،تکبیر کہی اسکے بعد ہاتھوں کو چھپا لیا اور پھر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا ...۔ (١)

دلالت کے متعلق بحث :
یہ کہنا ضروری ہوگا کہ اس حدیث کی دلالت روشن نہیں ہے اس لئے کہ اس میں پیغمبر ۖ کی موجودہ سنّت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے جس سے یہ تشخیص نہیں دیا جا سکتا کہ یہ عمل واجب یا مستحب یا مباح ہونے ،یا اختیار یا مجبوری کی حالت میں بجا لایا گیا ہے .اور یہ کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ کیا اسے ایک شرعی عمل سمجھ کر بجا لایا گیا یا یہ کہ عبا کو شانوں سے گرنے سے بچانے کی خاطر ایسا کیا گیا ؟یا اس کا سبب سردی اور تھکاوٹ تھا ؟

سند کے متعلق بحث :
یہ روایت سند کے اعتبار سے مرسل ہے چونکہ اس کا راوی علقمہ بن وائل ہے جس نے اپنے باپ سے یہ روایت نقل کی ہے جبکہ اس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکا تھا ۔لہذاممکن نہیں ہے کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی ہو ۔
ابن حجر کہتے ہیں : عسکری نے ابن معین سے حکایت کی ہے کہ اس نے کہا : علقمہ کی اپنے باپ سے
-------------
١۔ صحیح مسلم ١:١٥٠؛دارقطنی ١: ٢٨٦،ح٨اور١١.
روایات مرسل ہیں .(١).
نیز بعض کا کہنا ہے کہ وہ بہت چھوٹا تھا لہذا ممکن نہیں ہے کہ اپنے باپ کی نماز کو درک کیا ہو ۔(٢)
بہر حال دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے اس لئے کہ جو اپنے باپ کی نماز کو درک نہیں کر سکتا وہ اس سے حدیث کو کیسے درک کر پائے گا ! اس کے علاوہ لفظ ((مولٰی لھم یعنی ان کا غلام )سندروایت میں موجود ہے جس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ غلام کون ہے؟(٣)

٣۔تیسری روایت :
الموطّأ :((حدّثنی یحیٰی بن مالک ،عن عبدالکریم بنبی المخارق البصریّنّہ قال: من کلام النبوّة (( اذا لم تستحیی فافعل ماشئت ووضع الید ین احداھما علی الأخرٰی فی الصّلاة (یضع الیمنٰی علی الیسرٰی )وتعجیل الفطر...)).
موطّأ امام مالک میں مالک بن انس نے عبدالکریم بنبی المخارق بصری سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :نبوّت کے حکمت آمیز کلمات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر شرم وحیا نہیں ہے تو جو چاہو کرو اور نماز میں ہاتھ باندھنا ہے ...۔
ابن عبداللہ کہتا ہے :((یضع الیُمنٰی علی الیُسرٰی ،دائیں ہاتھ کا بائیں پر رکھنا ))یہ مالک
بن انس کا کلام ہے نہ کہ حدیث کا حصّہ ہے۔(٤)
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٧:٢٤٧؛ تہذیب الکمال ١٣: ١٩٣(حاشیہ پر).
٢۔تہذیب التہذیب ٨:٣١٤.
٣۔شاید یہاں پہ مولٰی سے مراد ولاء ضمان جریرہ ہو یا کوئی دوسرا معنی مراد ہو.
٤۔موطّأ امام مالک ١: ١٥٨؛ صحیح بخاری ٢:٢٦٣،کتاب الأنبیائ.
اس روایت کی سند کے متعلق :
١۔ اس روایت کی سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق ہے جس کے بارے میں معمر نے ایوب سے نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ نہیں ہے اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے اسے پر ہیز گار نہ ہونے سے متّہم کیا ہے .نیز احمد بن احمد اور ابن معین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ابن حبان نے اسے کثر الوہم ،کثیر الخطا اور ناقابل احتجاج شمار کیا ہے ...اور ابن عبد البرّ کا کہنا ہے کہ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع موجود ہے یہی وجہ ہے کہ مالک نے احکام پر مشتمل روایات کو اس سے نہیں لیا اور جو کچھ اس سے نقل کیا ہے وہ فقط مستحبّات میں ہے۔(١)

چوتھی روایت :
نصر بن علی نے ابواحمد سے ،اس نے علاء بن زرعہ بن عبدالرّحمٰن سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن زبیر سے سنا ہے کہ وہ کہا کرتا :(( صفّ القدمیں ووضع الیدعلی الید من السّنة ))نماز میں پاؤں کو برابررکھنا اور ایک ہاتھ کا دوسرے ہاتھ پر سنّت ہے۔(٢)

چند نکات
اوّل : یہ روایت ابن زبیر کی نماز والی اس روایت سے متعارض ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نماز میں اپنے ہاتھ کھلے رکھتا ۔
دوم:اس روایت کی نسبت پیغمبر ۖ کی طرف نہیں دی گئی ۔
سوم: اس روایت کی سند میں علاء بن صالح تمیمی اسدی کوفی ہے جس کے بارے میں بخاری کہتے ہیں: لایتابع ،اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔
-------------
١۔تہذیب الکمال ١٢:١١؛ التہذیب التہذیب ١٦: ٣٢٦.
٢۔سننبی داؤد ١:٢٠١.
ابن المدینی کہتے ہیں:وہ منکر روایات کو نقل کرتا ہے...۔(١)

پانچویں روایت :
محمد بن بکار بن ریّان نے ہشیم بن بشیر اس نے حجّاج بن ابی زینب ،اس نے ابو عثمان نہدی اورا س نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے :
((أنّہ کان یصلّی فوضع یدہ الیسرٰی علی الیُمنٰی ،فرآہ النبّی ۖ فوضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی .)) (٢)
وہ نما ز پڑھتے وقت اپنا بایاں ہاتھ دائیں پر رکھا کرتا ،پیغمبر ۖ نے دیکھا تو اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کے بائیں ہاتھ پر رکھ دیا۔
اس حدیث کی سند میں ہشیم بن قاسم ہے جو احادیث میں ملاوٹ اور ان میں کمی بیشی کرنے میں بدنام ہے اوراپنی عمر کے آخری ایام ہوش وحواس بھی کھو بیٹھا تھا ۔
یحییٰ بن معین نے اس کے بارے میں کہا ہے : علم تو اس کے پاس تھا نہیں .سر سے کیا نکلتا تھا یعنی زبان پرکیا جاری کرتاہے ۔(٣)
اس بنا پر اس کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور اس کی روایت بھی قابل قبول نہیں ہے ۔
اسی طرح اس روایت کی سند میں حجاج بن ابی زینب سلمی (ابو یوسف صیقل واسطی ) ہے جسے اہل سنّت کے ہاں ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔
نیز احمد بن حنبل کا کہنا ہے : مجھے اس کی روایات کے ضعیف ہونے کا خوف ہے۔
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٨:١٦٤؛سننبی داؤد ١:٢٠١.
٢۔ سنن ابو داؤد ١:٢٠٠؛سنن ابن ماجہ ١:٢٦٦.
٣۔تہذیب التہذیب ١١:٥٦.
نسائی کہتے ہیں: وہ قوی نہیں ہے اور دارقطنی کا کہنا ہے: وہ حافظ وقوی نہیں ہے ۔(١)

چھٹی روایت :
محمد بن محبوب نے حفص بن غیاث ،اس نے عبدالرّحمٰن اسحٰق سے ، اس نے زیاد بن زید ،اس نے ابی جحیفہ ،اس نے حضرت علی علیہ السّلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :(( السنّة وضع الکفّ علی الکفّ فی الصلاة تحت السّرة ))
نماز میں ایک ہاتھ کی ہتھیلی کا دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھنا سنّت ہے .(٢)
اس حدیث کی سند میں زیاد بن زید ہے جو مجہول ہے جیسا کہ عسقلانی کے بقول ابو حاتم نے اس کی وضاحت کر دی ہے .نیز تہذیب التہذیب میں بھی بیان ہوا ہے :زیاد بن زید سوائی اعسم کوفی کے بارے میں ابو حاتم نے کہا ہے: وہ مجہول شخص ہے ۔ابوداؤد نے بھی اس سے حضرت علی علیہ السّلام کی ایک ہی روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : نماز میں زیر ناف ہاتھ کا ہاتھ پر رکھنا سنّت ہے ۔(٣)
بخاری کہتے ہیں:اس میں غور کی ضرورت ہے ۔نیز اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق ہے جس کے ضعیف ہونے کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے ۔(٤)

ساتویں روایت:
محمد بن قدامہ (ابن اعین )نے ابی طالوت عبدالسلام سے ،اس نے ابو جریر ضبی سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے :
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٣:٣١٨.
٢۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛دارقطنی ١:٢٨٦؛ سنن کبرٰی ٢:٤٣.
٣۔ تہذیب التہذیب ٣:٣١٨.
٤۔تہذیب الکمال ١١:٩٩.
((رأیت علیا یمسک بیمینہ علی الراسغ فوق السّرة ))
میں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا وہ اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ سے زیر ناف پکڑے ہوئے تھے ۔
اس روایت کی سند میں ابوطالوت یعنی عبدالسلام نھدی ہے جس کے بارے مین ابن سعد کا کہنا ہے : وہ روایت کے نقل کرنے میں ضعیف ہے ۔ (١)
نیز اس روایت کی سند میں ابن جریر ضبی ہے جس کے بارے میں ابن حجر کہتا ہے:میں نے میزان الاعتدال میں ذہبی کے ہاتھ سے لکھا دیکھا ہے کہ یہ شخص ناشناختہ یعنی مجہول ہے ۔(٢)

آٹھویں روایت :
مسدّد ...نے عبدالرحمن بن اسحاق کوفی سے ،اس نے سیار ابی حکم سے ،اس نے ابووائل سے ، اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:
((أخذ الأکف علی الأکف فی الصلاة من السّنة ))
نماز میں ایک ہتھیلی کا دوسری پر رکھنا سنّت ہے ۔(٣)
اسی طرح دار قطنی نے تھوڑے سے اختلاف کے سا تھ لکھا ہے :نماز میں ہاتھ کی ہتھیلی کا دوسرے ہاتھ پر رکھنا سنّت ہے ۔(٤)
یہاں پہ یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ اس روایت کی سند میں عبد الرحمن بن اسحاق کوفی ہے جو علمائے
-------------
١۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛ نیل الأوطار ٢:١٨٨.
٢۔تہذیب التہذیب ٢:٦٧.
٣۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛نیلوطار ٢:١٨٨.
٤۔سنن دار قطنی ١:٨٤.
رجال کے نزدیک ضعیف ہے ۔
ابن معین کہتے ہیں: وہ ضعیف ،ناچیز اور بے ارزش انسان ہے ۔ابن سعد ،یعقوب بن سفیان ، ابوداؤد ،نسائی اورابن حبان نے اسے ضعیف شمار کیا ہے اور بخاری نے کہا ہے : اس میں غور کی ضرورت ہے۔(١)
اس کے علاوہ ابوہریرہ نے اس عمل کی نسبت پیغمبر ۖ کی طرف نہیںدی ہے ۔اس طرح کے مشابہ موارد موجود ہیں جن کے بارے میں تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس نے انہیں پیغمبر ۖ سے نہیں سنا بلکہ کسی نے اس سے نقل کئے ہیںاور ابوہریرہ نے بھی اس شخص کا نام نہیں لیا .مثال کے طور پر یہ حدیث :((منصبح جنبا فلا صیام لہ))جوشخص جنابت کی حالت میں اٹھے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔فانّہ لمّا حوقق علیہ قال:خبرنیہ مخبر ولمسمعہ من رسول اللہ.
ۖ.جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم نے خود یہ حدیث پیغمبر ۖ سے سنی ہے تو کہا :نہیں ،مجھ سے کسی نے نقل کی ہے ۔( ٢)

نویں روایت :
ابو توبہ نے ہیثم (ابن حمید ) سے ،اس نے ثور سے ،اس نے سلیمان بن موسٰی اوراس نے طاؤس سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:((کان رسول اللہ ۖ یضع یدہ الیُمنٰی علی یدہ الیسرٰی ،ثمّ یشدّ بینھما علی صدرہ ،وھو فی الصّلاة )).
رسول خد ا ۖ نماز پڑھتے وقت اپنے سینے پر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا کرتے۔(٣)
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٦:١٢٤.
٢۔تاریخ دمشق ١٩:١٢٢؛البدایة والنھایة ٨:١٠٩؛سیرأعلام النبلاء ٢:٦٠٨.
٣۔سنن ابو داؤد ١:٢٠١.
چند اشکال
پہلا اشکال:
اس روایت کا راوی طاؤس تابعی ہے جس نے پیغمبر ۖ کو نہیں دیکھا اس اعتبار سے یہ روایت مرسل ہے .

دوسرا اشکال :
اس روایت کی سند میں ہیثم بن حمید ہے جسے ابو داؤد اور ابو مسہّر (١ ) نے ضعیف قراردیا ہے ۔ابومسہّر کہتے ہیں: وہ (علم وحدیث ) میں ماہر اور حافظ نہیں تھا میں اس سے حدیث نقل کرنے میں اجتناب کرتا ہوں اور اسے ضعیف سمجھتا ہوں.(٢)

دسویں روایت :
ترمذی نے ابوالأحوص ،اس نے سماک بن حرب ،اس نے قبیصة بن ہلب اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:
((کا ن رسو ل اللہ ۖ یؤمّنا فیأخذ شمالہ بیمینہ ))
پیغمبر ۖ نے ہمیں با جماعت نماز پڑھائی جبکہ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑا ہو اتھا(٣)
اس روایت کی سند میں قبیصہ بن ہلب یعنی قبیصہ بن یزید طائی ہے اور ابن مدینی و نسائی کے بقول وہ مجہول ہے۔(٤)

گیارہویں روایت :
ابن ماجہ نے علی بن محمد سے ،اس نے عبداللہ بن ادریس ،اس نے بشر بن
-------------
١۔اس کا نام عبدالاعلی بن مسہّر غسّانیدمشقی ہے وہ ١٤٠ھ سے ٢١٨ھ میں تھا.
٢۔تہذیب التہذیب ١١:٨٢.
٣۔جامع ترمذی ٢:٣٢.
٤۔تہذیب التہذیب ٧:٢٤٧؛تہذیب الکمال ١٥:٢٢١.
معاذ ضریر ،اس نے بشر بن مفضل ،اس نے عاصم بن کلیب ،اس نے اپنے باپ سے ،اس نے وائل بن حجر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:
((میں نے پیغمبر ۖ کو نماز کی حالت میں دیکھا وہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو تھامے ہوئے تھے ۔(١)
یہاں پہ یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ سنن ابن ماجہ کی بہت سی روایات ضعیف ہیں. ابن حجر کہتے ہیں: اس کی کتاب سنن میں جامع اور ابواب وغرائب میں اچھی ہے لیکن اس کی بہت زیادہ روایات ضعیف ہیں یہاں تک کہ میں نے سنا ہے سرّی نے کہا : جب بھی اس کتاب میں کوئی منفرد روایت بیان ہو تو وہ کئی ایک اعتبار سے ضعیف ہے ۔
ابو زرعہ کہتے ہیں:(( لیس فیہ الاّ نحو سبعةحادیث ))اس (کتاب) میں فقط سات احادیث صحیح ہیں... ۔(٢)
ذہبی کہتے ہیں: سنن ابن ماجہ کے اندر ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو حجیت نہیں رکھتیں اور شاید ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچتی ہو۔(٣)
اس کے علاوہ ابو داؤد نے عاصم بن کلیب کی اپنے باپ اور دادا سے نقل کی جانے والی روایات کو بے اعتبار جانا ہے ۔(٤).
-------------
١۔سنن ابن ماجہ ١:٢٦٦.
٢۔تہذیب التہذیب ٩:٤٦٨.
٣۔سیرعلام النبلاء ١٣:٢٧٩.
٤۔تہذیب الکمال ١٥:٤١٢؛((عاصم بن کلیب عنبیہ عن جدّہ لیس بشیء )).