فقہا ئے اہل سنّت کے اقوال
١۔مدونة الکبرٰی (ابن قاسم کے بقول امام مالک کا نظریہ ):
امام مالک نماز میں دائیں ہاتھ کے بائیں پر رکھنے کے بارے میں کہتے ہیںمیرے نزدیک واجب جائز نہیںہے۔
مالک اسے مکروہ سمجھتے لیکن مستحب نمازوں میں رکوع کے طولانی ہوجانے کی بنا پر اسے جائز قرار دیتے تھے ۔( ١)
٢۔ قرطبی : وہ کہتے ہیں کہ نماز میں ایک ہاتھ کے دوسرے پر رکھنے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے. مالک اسے واجب نماز میں مکروہ سمجھتے ہیں لیکن مستحب نماز میں جائز قرار دیتے ہیں ہیں.بعض کا خیال ہے کہ یہ نماز کے مستحبات میں سے ہے اور وہ جمہور اہل سنّت ہیں ۔ان کے اس اختلاف کی وجہ وہ پیغمبر ۖ کی نماز کے متعلق وہ ثابت شدہ آثار ہیں جن میں سے کسی ایک میں بھی اس (آنحضرت ۖ کے نماز میں ہاتھ باندھنے کے) بارے میں اشارہ نہیں ہوا .دوسری جانب لوگوں کو اس کا حکم دیا گیا ہے روایت ابو حمید میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر ۖ یہ عمل بجا لایا کرتے تھے .
اس بنا پر بعض لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ جن روایا ت وآثار میں نماز میں ہاتھ باندھنا ثابت ہے ان میں ان روایات کی نسبت ایک زائد چیز کاتقاضا کیا گیا ہے جن میں ہاتھ باندھنا ثابت نہیں ہے پس واجب ہے کہ اس اضافہ کو بھی انجام دیا جائے ۔
اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ ان آثار پر عمل کیا جائے جن اضافہ نہیں ہے چونکہ ان روایات کی
-------------
١۔مدونة الکبرٰی ١:٧٦.
تعداد زیادہ ہے اس بنا پر نماز میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے اور یہ خدا وند متعال سے مدد طلب کرنے کے باب سے ہے اسور مالک بھی اسی وجہ سے اسے مستحب نماز میں جائز قرار دیتے جبکہ واجب میں اس کی اجازت نہ دیتے ...(١)
٣۔ کتاب بیان وتفصیل :اس کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں اپنے استاد سے پوچھا :کیاواجب یا مستحب نماز کے قیام میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھناصحیح ہے؟
محمد بن رشد کہتے ہیں: مالک کا یہ قول ((میں اس میں اشکال نہیں دیکھتا ))بغیر تفصیل کے واجب ومستحب نمازوں میں ہاتھ باندھنے کے جواز کو بیان کر رہا ہے ۔اور مدوّنة الکبرٰی میں ابن قاسم والی روایت میں یوں بیہان ہوا ہے کہ نماز میں اس کا ترک کرنا بہتر ہے چونکہ اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ میں اسے واجب نماز میں جائز نہیں سمجھتا اورمالک اسے مکروہ سمجھتے مگر یہ کہ مستحب نماز میں قیام کے طولانی ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو تو اس کا انجام دینا جائز ہے اور بعض روایات میں یہ جملہ (اسے مکروہ سمجھتے) موجود نہیں ہے ا س جملے کو محذوف سمجھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مالک کے مذہب کے مطابق ہاتھ باندھنے کو ترک کرنا افضل ہے چونکہ ان کے اس قول((لعرف ذلک فی الفریضة ))کا معنٰی یہ ہے کہ میںاسے واجب نماز کے مستحبات یا سنّت ہونے میںسے جائز نہیں سمجھتا .
اور جہاں پہ یہ کہا ہے کہ اگر مستحب نماز میں قیام کے طولانی ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو تو ایسی صورت میں تھکاوٹ دور کرنے کی خاطر ہاتھ باندھنے میں کوئی عیب نہیں ہے لیکن اگر واجب نماز میں قیام طولانی ہوجائے پھر بھی جائز نہیں ہے ،اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر مستحب نماز میں قیام طولانی
-------------
١۔بدایة المجتھد ١:١٣٦،ابن رشد قرطبی متوفٰی ٥٩٥ ہجری .
نہ ہوتو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے ۔اور اگر یہ جملہ ((کان یکرہ))موجود ہو تو اس کی دلالت تو بالکل واضح ہے ؛اس لئے کہ مکروہ کا معنٰی یہ ہے کہ اس کا ترک کرنا ثواب رکھتا ہے اور اس کے انجام دینے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔(١)
٤۔ نووی :ہم نے بیان کردیاہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہمارے مذہب میں سنّت ہے ... ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ،حسن بصری اور نخعی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ۖ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے اور ایک کو دوسرے پر نہ رکھتے ۔قاضی ابو طیّب نے بھی ابن سیرین سے حکایت کی ہے اور لیث بن سعد نے بھی کہا ہے: کہ وہ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے لیکن اگر قیام طولانی ہوجاتا تو آرام حاصل کرنے خاطر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لیا کرتے۔جبکہ ابن قاسم نے مالک سے (ہاتھ کھولنے کو)نقل کیا ہے اور مشہور بھی یہی ہے اور تمام اہل مغرب اصحاب ہوں یا جمہور عوام سب کا یہی نظریہ ہے اور وہ نمازمسیئ(بھول جانے والے شخص کی نماز ) سے استناد کرتے ہیں .جس میں پیغمبر ۖ نے اسے نماز سکھائی لیکن اس میں ہاتھ باندھنے کے متعلق کچھ بیان نہیں کیا ...۔(٢)
اس بنا پر اس مسئلے میں تین اقوال موجود ہیں:
اوّل۔واجب اور مستحب نماز میں جائز ہے یعنی نہ تو ا سکا انجام دینا مکروہ ہے اور نہ ہی ترک کرنا مستحب ہے.یہ نظریہ اس روایت(نماز مسیئ)سے استفادہ ہوتا ہے۔
دوم۔ مکروہ ہے .اس کا واجب اور مستحب نماز میں ترک کرنا مستحب ہے مگر یہ کہ مستحب نماز میں قیام طولانی ہوجائے تو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز ہے نہ مکروہ ہے اور نہ ہی مستحب اور یہ قول مالک کا
-------------
١۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤؛مرقاة المفاتیح قاری ٢:٥٠٨.
٢۔المجموع ٣:٣١٣.
ہے جسے مدوّنة الکبرٰی میںذکر کیا گیا ہے۔
سوم۔واجب اور نافلہ نماز میں اس کا انجام دینا مستحب ہے اور ترک کرنا مکروہ ہے ۔اور یہ قول مالک کا ہے جسے مطرف بن ماجشون (١)کی روایت میں نقل کیا گیا ہے۔(٢)
٥۔عینی: ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ، حسن بصری اور ابن سیرین سے نقل کیا ہے کہ وہ (نماز میں)ہاتھ کھلے رکھتے.اور اسی طرح مالک کے بارے میں بھی یہی معروف ہے اور اگر قیام طولانی ہو جاتا تو دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لیا کرتے۔
نیزلیث بن سعد کہتے ہیں : اوزاعی ہاتھ کھولنے اور باندھنے میں اختیا ر کے قائل تھے۔(٣)
٦۔شوکانی: وہ دار قطنی سے نقل کرتے ہیں کہ ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ، حسن بصری اور نخعی کے بارے میںنقل کیا ہے کہ وہ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے اور دائیں ہاتھ کوبائیں پر نہ رکھتے۔نووی نے لیث بن سعد ، مھدی نے کتاب البحر میں قاسمیہ وناصریہ اور باقر سے اور ابن قاسم نے مالک سے اسی طرح نقل کیا ہے ۔( ٤)
-------------
١۔وہ مفتی مدینہ اور مالک بن انس کے شاگرد تھے .غنا کو بہت پسند کرتے اور علم حدیث سے بے بہرہ تھے ۔سیرعلام النبلائ١٠: ٣٦٠.
٢۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤؛ مرقاة الأصول قاری ٢:٥٠٨.
٣۔عمدة القاری فی شرح صحیح بخاری ٥: ٢٧٨؛المغنی ١: ٤٧٢.
٤۔نیل الأوطار ٢:١٨٦؛المجموع ٣:٣١١؛المغنی ١:٥٤٩؛ شرح کبیر ١: ٥٤٩؛ المبسوط سرخسی ١:٢٣؛الفقہ علی المذاہب االأربعة١:١٥١.
٧۔ زحیلی : وہ کہتے ہیں:مالکی مذہب کے علاوہ جمہور علماء کہتے ہیں: نماز پڑھنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ تکبیر کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر رکھے...۔
٨۔ مالک : مالکی مذہب کا یہ کہنا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ نماز میںوقار کی خاطر ہاتھ کھلے رکھے جائیں .اور مستحب نماز میں بغیر ضرورت آرام کی خاطر ہاتھ باندھنا مکروہ ہے .
اور مذہب مالک کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: مالکی مذہب میں نماز میں ہاتھ باندھنے کے مکروہ ہونے فتوٰی دینے کی وجہ اس فاسد عقیدے اوراس عمل سے جو (پیغمبر ۖ)کی طرف منسوب نہیں ہے یا اس عوام کے نماز میں ہاتھ باندھنے کے واجب سمجھنے والے عقیدے سے جنگ کرنا ہے ...۔(١)
-------------
١۔الفقہ الاسلامی وأدلّتہ ٢:٨٧٤.
|