نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟
 
شیعہ فقہاء کا نظریہ
١۔ شیخ مفید : (نماز میں ) ہاتھ کھلے رکھنے کے بارے میں شیعوں میں اتفاق نظر پایا جاتا ہے.اور اہل کتاب کے مانند تکفیر یعنی ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھنے کو جائز نہیں سمجھتے. اور یہ کہ جو بھی ایسا عمل انجام دے اس نے بدعت کا ارتکاب کیا اور سنّت رسول ۖاورآئمہ طاہرین علیہم السّلام کی مخالفت کی ہے ۔(١)
٢۔سید مرتضٰی:وہ امور جن کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ شیعوں کے ساتھ مختص ہیں ان میں سے ایک نماز میں ہاتھ باندھنے کا ممنوع ہونا ہے چونکہ امامیہ کے علاوہ باقی فرقوں کاعقیدہ یہ ہے کہ یہ مکروہ ہے .طحاوی نے فقہاء کے اختلاف کو نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے مالک کے نزدیک اگر مستحب نماز میں رکوع طولانی ہو جائے تو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز ہے اور میرے نزدیک اسے ترک کرنا بہتر ہے۔(٢)
٣۔شیخ طوسی: نماز میںدائیں ہاتھ کابائیں پر یا بائیں کادائیں پر رکھنا جائز نہیں ہے اور مالک سے دو روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک شافعی کے قول کے مطابق ہے جس مٰن نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھناجائز قرار دیا گیا ہے اور ابن القاسم والی روایت میں ہاتھ کھولنے کو مناسب تر بیان کیا گیاہے۔
-------------
١۔الاعلام :٢٢،تالیفات شیخ مفید کے ضمن میں یہ کتاب چھپ چکی ہے،ج٩؛کتاب التذکرة ٣:٢٥٣.
٢۔الانتصار :٢٢.
اور اس (مالک )سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا :مستحب نمازوں میں جب قیام طولانی ہو جائے تو ہاتھ باندھنا جائز ہے اوراگر طولانی نہ ہو تو جائز نہیں ہے جبکہ واجب نمازوں میں یہ جائز نہیں ہے ۔نیز لیث بن سعد کا بھی کہنا ہے :اگر تھکاوٹ محسوس ہو تو ہاتھ باندھ سکتے ہیں لیکن اگر تھکاوٹ نہ ہو اسے انجام نہ دیا جائے اور مالک کا بھی یہی قول ہے ۔
ہماری دلیل فرقہ امامیہ کا اجماع ہے اور نمازمیں ہاتھ باندھنے کے مبطل نمازہونے میں ان کے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا ۔نیز نماز میں کسی جزو کے ثابت ہونے کے لئے دلیل شرعی کی ضرورت ہوتی ہے جو شریعت مقدّسہ میں موجود نہیں ہے اور احتیاط کا تقاضابھی یہی ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے سے پرہیز کیا جائے چونکہ اس میں شک نہیں ہے کہ ایسی نماز جس میں ہاتھ نہ باندھے گئے ہوں وہ یقینا صحیح ہے اور دوسری جانب نماز کے صحیح ہونے کا یقین حاصل کرنا واجب ہے۔(١)
٤۔ شیخ بہائی: تکفیر یعنی دائیں ہاتھ کا بائیںپر قرار دینا جسے اہل سنّت بجالاتے ہیں اور اکثر فقہاء نے اس کے بارے میں کے پائے جانے کی وجہ سے اسے حرام قراردیا ہے، کیا یہ مبطل نماز ہے؟اکثر علماء اسے( مبطل نماز)سمجھتے ہیںبلکہ شیخ طوسیاور سید مرتضٰی نے تو اس اجماع ہونے کا دعوٰی کیا ہے۔(٢)
-------------
١۔الخلاف ١:١٠٩.
٢۔الحبل المتین :٤ ١ ٢؛ملاذالأخیار ٣:٥٥٣.
نماز میں ہاتھ باندھنے کا آغاز
کہا گیا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا بھی خلیفہ دوم کی بدعات میں سے ہے جو اس نے عجمی قیدیوں سے لی۔
محقّق نجفی لکھتے ہیں :
((حکی عن عمر لمّا جیء بأسارٰی العجم کفّرومامہ ،فسأل عن ذلک ،فأجابوہ : بأنّا نستعملہ خضوعا وتواضعا لملوکنا ،فاستحسن ھو فعلہ مع اللہ تعالی فی الصلاة ،و غفل عن قبح التشبّہ بالمجوس فی الشرع)) (١)
بیان کیا گیا ہے کہ جب خلیفہ دوم کے پاس عجمی قیدیوں کو لایا گیا تو انہوں نے اس کے سامنے اپنے ہاتھوں کوہاتھوں پر رکھا ۔
خلیفہ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو بتایا گیا کہ ہم اپنے بادشاہوں کے سامنے خضوع وخشوع کا اظہار کرنے کے لئے اس کرتے ہیں خلیفہ کو ان کا یہ عمل پسند آیا اور اس نے نماز میں خدا کے سامنے ایسا ہی کیا جبکہ وہ اس بات سے غافل رہا کہ شریعت میں مجوسیوں سے مشابہت جائز نہیں ہے!
البتہ ہمیں کتب تاریخ میں اس سلسلے میں کوئی دلیل نہیں ملی۔
-------------
١۔جواہر الکلام ١١:١٩؛مصباح الفقیہ ،کتاب الصلاة :٤٠٢.