|
ہاتھ کھولنا یا باندھنا ؟
ایساسوال جو ہمیشہ بہت سے لوگوں کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا نماز میں ہاتھ باندھنا جائز ہے یا نہیں ؟
شیعوں کے نزدیک یہ عمل جائز نہیں ہے ؟ (١)جیسا کہ خلاف (٢)، غنیة (٣)اور دروس( ٤)جیسی کتب میں ذکر ہوا ہے ۔
سید مرتضٰی نے اپنی کتاب الانتصار( ٥)میں اس کے جائز نہ ہونے پر اجماع ہونے کا دعوٰی کیا ہے.اسی طرح اہل بیت علیہم السلام سے بھی اس بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔
نیز اہل سنّت میں بھی امام مالک اور بعض فقھائے سلف اسے مکروہ سمجھتے ہیں اسی تابعین بلکہ بعض صحابہ کرام سے نقل ہوا ہے کہ وہ نماز میں ہاتھ کھولنے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔(٦ )
اہل سنّت کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف کا باعث پیغمبر ۖ کی نماز کے متعلق وہ صحیح جن
------------
١۔ خلاف١: ١٠٩.
٢۔ خلاف ١: ١٠٩.
٣۔ غنیة النزوع : ٨١.
٤۔الدروس الشرعیة : ١٨٥.
٥۔الانتصار : ٤١.
٦۔ بدایة المجتھد ١:١٣٦؛ذہبی اس کتاب کے مؤلف قرطبی کے بارے میں کہتے ہیں : وہ فقہ میں علّامہ تھے...فقہ میں برتری پائی ...وہ اندلس میں علم وفضل اور کمال میںبے نظیر تھے ...جیسا کہ فقہ میں لوگوں کی پناہ گاہ تھے اسی طرح حکمت میںبھی لوگ انہیں کی طرف رجو ع کیا کرتے ...سیر اعلام النبلاء ٢١: ٣٠٨.
میں یہ ذکر ہوا ہے کہ آنحضرتۖ حالت نماز میں ہاتھ نہیں باندھتے تھے .جیسا کہ ابن رشد نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
ابراہیم نخعی (١)جنہوں نے اہل سنّت کے آئمہ اربعہ میں سے بعض سے پہلے وفات پائی و ہ بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے ۔
اسی طرح حسن بصری(٢) تابعی جسے اہل سنّت علم وعمل میں اہل زمانہ کا سردار مانتے ہیں وہ بھی نماز میں ہاتھ کھول کر پڑھا کرتے تھے ۔
-------------
١۔وہ پہلی صدی کے بزرگوں میں سے ہیںجنہوں نے بعض صحابہ کرام کو بھی درک کیا اور ٩٦ھ میں وفات پائی .
ذہبی کہتے ہیں: وہ امام ، حافظ ، فقیہ عراق اور بزرگ شخصیت تھے اور ایک جماعت نے ان سے روایات نقل کی ہیں اسی طرح انہوں نے حکم بن عتیبہ ، سلیمان بن مہران اور ان کے علاوہ کئی ایک افراد سے روایات نقل کی ہیں. وہ معتقد تھے کہ ابوہریرہ کی بہت سی روایات منسوخ ہیں ۔
عجلی کہتے ہیں : وہ مفتی کوفہ ...فقیہ اور پرہیز گار انسان تھے ...احمد بن حنبل سے بھی نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں: ابراہیم ذہین ، حافظ اور صاحب سنّت تھے ۔سیر اعلام النبلاء ٤: ٥٢٠.
٢۔حسن بصری حضرت عمر کی خلافت کے پورے ہونے سے دو سال پہلے پیدا ہوئے اور حضرت عثمان کی اقتداء میں نماز جمعہ میں شریک ہوا کرتے... کہاجاتا ہے کہ علم وعمل میں وہ اپنے زمانے کے سردار تھے .
ابن سعد لکھتے ہیں: وہ جامع ، عالم ، رفیع، فقیہ ، ثقہ، حجّت ، قابل اعتماد ، عابد ، ناسک اور کثیر العلم تھے ۔سیراعلام النبلاء ٤: ٥٧١.
جبکہ ہمارے(شیعوں)ہاں اس کی مذمّت میں روایات ذکر ہوئی ہیں۔
ابن سیرین (١)اور لیث بن سعد ( ٢) اور عبداللہ بن زبیر جو صحابی ہے اور مالک کے مذہب میں بھی مشہور نظریہ یہی ہے، اسی طرح اہل مغرب بھی اسی نظریے (نماز میں ہاتھ کھولنے )پر عقیدہ رکھتے اور اسی پر
عمل کیا کرتے تھے ۔
-------------
١۔ محمد بن سیرین خلیفہ دوم کی خلافت کے اواخر میں پیدا ہوئے اور ١١٠ ھ میں وفات پائی .اس نے تیس صحابہ کرام کودرک کیا ۔ عجلی کہتے ہیں: پرہیزگاروں میں اس سے بڑھکر فقیہ اور فقہاء میں اس سے بڑھکر کسی کو پرہیز گار نہیں دیکھا ۔ طبری کہتے ہیں: ابن سیرین فقیہ ، عالم، متّقی ، کثیر الحدیث اور سچے انسان تھے ، اہل علم وفضل نے بھی اسکی گواہی دی ہے جو حجّت ہے سیر اعلام النبلاء ٤: ٦٠٦.وہ بھی نماز میں ہاتھ کھولنے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔
اگرچہ ہمارے سابقہ علماء نے اس کے متعلق کوئی اشارہ نہیں کیا لیکن حجاج بن یوسف کی مدح میں اس کچھ مطالب نقل ہوئے ہیں۔
تستری کہتے ہیں: اگر اس کے متعلق بیان کئے جانے والے مطالب صحیح ہوں تو یہی اس کی نادانی اور جہالت کے لئے کافی ہیں۔ قاموس الرّجال ٩: ٣٢٢؛ تنقیح المقال ٣: ١٣٠.
٢۔لیث بن سعد کے بارے میں کہا گیا ہے : وہ امام ،حافظ ، شیخ الاسلام اور عالم دیارمصر تھے جو ٩٤ھ میںپیدا ہوئے اور ١٧٥ھ میں وفات پائی ۔احمد بن حنبل کہتے ہیں : لیث کثیر العلم ، صحیح الحدیث ،...ثقہ اور قابل اعتماد تھے ...مصریوں میں ان سے بڑھکر کوئی صحیح الحدیث نہیں ہے۔
ابن سعد کہتے ہیں: لیث فتوٰی میں مستقل اور ثقہ تھے اس نے بہت سی احادیث نقل کی ہیں ۔عجلی اور نسائی اسکے بارے میں کہتے ہیں : لیث ثقہ ہے.ابن خراش کہتے ہیں: وہ سچا انسان ہے اور اسکی احادیث بھی صحیح ہیں ۔ شافعی کہتے ہیں: لیث ،مالک سے بھی بڑھکر فقیہ تھا لیکن اصحاب نے اسے ترجیح نہ دی ؟ سیر اعلام النبلاء ٨: ١٣٦۔وہ بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے ۔
ہم شیعوں کے مطابق اس نے امام صادق علیہ السلام کو درک کیا ان عظمت و منقبت بھی بیان کی لیکن یہ اس کی ہدایت کا باعث نہ بن سکی ۔
خطیب (بغدادی )سے نقل ہوا ہے : اہل مصرعثمان کو برا بھلا کہتے تھے یہاں تک کہ لیث ان میںظاہر ہوا اور عثمان
کے فضائل بیان کئے جس سے ان لوگوں نے چھوڑ دیا ۔تستری اس کے بعد لکھتے ہیں: ( خدا جانتا ہے ) اس شخص کے بارے میں برائیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا اور وہ لوگوں کو ان احادیث پر عمل کا کہتا جو معاویہ نے گھڑوا رکھی تھیں اور اہل مصر بھی کتنے نادان تھے کہ عثمان کے متعلق جو کچھ آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اس سے چشم پوشی کر بیٹھے اور جو جھوٹ بیان کیا گیا اس سے فریب کھا بیٹھے ۔قاموس الرّجال ٨: ٦٣٢؛ تنقیح المقال ٢:٦٤.
|
|