|
تشہد
( اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انّ محمدا عبدہ و رسولہ اللھم صل علی محمد و آل محمد )
تشہد واجبات نماز میں سے ہے ۔ یہ دوسری رکعت اور نماز کے آخر میں پڑھا جاتا ہے ۔ تشہد میں ہم خدا وند عالم کی وحدانیت اور حضرت پیغمبر ۖ کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں ۔ اگرچہ اذان و اقامت میں بارہا اسی چیز کی گواہی دے چکے ہیں لیکن وہ گواہی نماز میں داخل ہونے کے وقت تھی اور یہ گواہی نماز کے اختتام پر ہے ۔
اتنی زیادہ تکرار اس حکمت کی بنا پر ہے کہ انسان غفلت میں جلد ہی مبتلا ہو جاتا ہے اور نعمت عطا کرنے والے کو بھلا دیتا ہے اور یہ جملے اس رسی کی طرح ہیں جو انسان کو حوادث کی موجوں سے نجات دیتی ہے ۔
توحید کا نعرہ
'' لا الہ الا اللہ '' ، تمام انبیاء کا سب سے پہلا نعرہ ہے ۔
'' لا الہ الا اللہ '' وہ گواہی ہے جس کا صاحبانِ علم ، فرشتوں کے ساتھ اقرار کرتے ہیں (شھد اللہ انہ لا الہ الا ہو و الملائکة و اولوا العلم ) (١)
………………………………
١۔ آل عمران ١٨ .
'' لا الہ الا اللہ '' ایسا کلمہ ہے کہ ہر مسلمان اسے پیدائش کے وقت سنتا ہے اور مرنے کے بعد ، اس کے ذریعہ اس کی تشییع اور قبر میںسب سے پہلے اسی کی تلقین کی جاتی ہے ۔
'' لا الہ الا اللہ '' خدائے تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب ترین کلمہ اور میزان میں سب سے وزنی عمل ہے ۔ (١)
'' لا الہ الا اللہ '' اللہ کا سب سے مضبوط قلعہ ہے جو بھی اس میں داخل ہوگیاوہ عذاب خدا سے امان میں ہے '' کلمة لا الہ الا اللہ حصن فمن دخل حصنی امن من عذاب''(٢)
'' لا الہ الا اللہ '' ،کفر اور اسلام کی حد فاصل ہے ۔ کافر اس کو کہنے سے اسلام کی امان میں آجاتا ہے ۔ پیغمبر ۖ اکرم نے ایک ایسے مسلمان پر تنقید کی جس نے دشمن سپاہی کے کلمۂ '' لا الہ الا اللہ '' کہنے پر توجہ نہیں دی تھی اور اس کو قتل کر دیا تھا اور فرمایا اس کلمہ کاا ظہار کرنے کے بعدہر شخص امان میں ہے اگرچہ یہ معلوم نہ ہو کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا ۔ (٣)
'' لا الہ الا اللہ '' قیامت کے روز صراط سے گزرنے کے وقت مسلمانوں کا نعرہ ہے۔ (٤ )
ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ ابو جہل نے پیغمبر اکرم ۖ سے کہا : کیا ہم ٣٦٠ بتوں کو چھوڑ دیں اور ایک خدا کو مان لیں ؟؟ !! ہم حاضر ہیں کہ ١٠ کلمے کہیں لیکن یہ ایک کلمہ نہ کہیں ۔ لیکن پیغمبر ۖ نے فرمایا کہ : یہی ایک جملہ تم کو عزت اور قدرت بخشے گا اور تم کو تمام امتوں پر فضیلت دے گا ۔ (٥)
امام حسین ـ کی دعائے عرفہ اور امام سجاد ـ کے شام والے خطبہ کو دیکھنے سے یہ حقیقت
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٩٣ باب التھلیل و فضلہ .
٢۔ بحار الانوار جلد ٣ صفحہ ١٣ .
٣۔ آیۂ و لا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا '' کی طرف اشارہ ہے سورئہ نساء ٩٤.
٤۔ جامع احادیث جلد ١ صفحہ ١٨٨ .
٥۔ فرازہای از تاریخ اسلام صفحہ ١١١ .
واضح ہو جاتی ہے کہ اولیائے خدا نے اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کلمہ کی شہادت دی ہے حتی کہ یہ حضرات زمین اور زمان کو اپنی اس شہادت پر گواہ بناتے تھے ۔
ہم تشہد میں صرف جملہ '' لا الہ الا اللہ '' پر اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں ''وحدہ لا شریک لہ '' یعنی کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے ۔ نہ خلقت میں ، نہ اس کو چلانے میں اور نہ قانون بنانے میں ( و لم یکن لہ شریک ف الملک ) (١) اللہ کی بندگی اولیائے خدا کا سب سے بڑا افتخار ہے ( کفیٰ بی عزا ان اکون لک عبدا ) (٢)
خدا وند عالم کی بندگی تمام قیود ، وابستگیوں اور دلچسپیوں سے انسان کی آزادی کے برابر ہے۔ یہ انسان کو ایسی قدرت دیتی ہے کہ انسان کسی بڑی طاقت سے بھی نہیں ڈرتا ہے۔
فرعون کی بیوی صرف اس لئے کہ خدا کی کنیز تھی ،ایسی غیر متزلزل اورٹھوس شخصیت میں تبدیل ہوگئی کہ فرعون کے سکّوں اور زور و زر کااس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اگر چہ فرعون نے سب کو اپنا بندہ بنا رکھا تھا لیکن وہ صرف بندئہ خدا تھی ۔جس کا نتیجہ یہ ہواکہ وہ تاریخ کے تمام مؤمن مرد وںاور عورتوں کے لئے نمونہ بن گئی ( ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرأة فرعون)(٣)
بہر حال پیغمبر ۖ کی عبودیت کی گواہی ان کی رسالت کی گواہی پر مقدم ہے اور خود اس میں متعدددرس اور پیغام ہیں '' اشھد انّ محمدا عبدہ و رسولہ ''
رسالت کی گواہی کے معنیٰ تمام بشری مکاتب فکر کا انکار ہے ۔ اس کے معنیٰ آخری پیغمبر ۖ کی رسالت کو عالمی اور ہمیشہ رہنے والی رسالت کے طور پر ماننا ہے ،اس کے معنیٰ تمام طاغوتی قوتوں اور سرکشوں کا انکار ہے۔
………………………………
١۔ اسراء ١١١ .
٢۔ بحار الانوار جلد ٧٧ صفحہ ٤٠٢.
٣۔ تحریم ١١ .
حضرت محمد ۖ کی رسالت کی شہادت اورگواہی ایک ایسا عہد ہے جو خدا وند متعال نے تمام پیغمبروں سے لیا ہے ۔ اگر وہ حضرات آپ کی رسالت کو قبول نہ کرتے تو انہیںنبوت نہ ملتی (١) پس اس بنا پر صرف ہم اکیلے ہی '' اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ ''نہیں کہتے بلکہ سارے انبیاء اس کا اقرار کرتے تھے۔
حقیقی توحید
آج کل خدا کو ماننے والے اکثر لو گوں کو جس چیز نے جکڑرکھا ہے وہ یہ ہے کہ وہ زبان سے تو '' لا الہ الا اللہ '' کہتے ہیں لیکن عملا اغیار کے پاس جاتے ہیں اور عزت و قدرت کو دوسری جگہ تلاش کرتے ہیں ۔ غیر خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور اغیار سے محبت کرتے ہیں ۔
حقیقت میں شرک ، اپنے اوپر ایک بڑا ظلم اور اس ذات مقدس کی شان میں بے ادبی ہے (ان الشرک لظلم عظیم ) (٢) اس لئے کہ شریک کا و جوداس کے کاموں میں اس کے ضعف و عاجزی اور اس کی ناتوانی کی علامت اور اس کی شبیہ و مثل کا وجود ہے ۔ اور خدا وند عالم کے بارے میں یہ چیزیں معنیٰ نہیں رکھتیں ہیں ۔
رسالت کی گواہی
'' اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ '' '' ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد ۖ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ ''
انبیاء کا سب سے بلند مقام،مقام بندگی ہے بلکہ یہ مقام رسالت و نبوت کا پیش خیمہ ہے
………………………………
١۔ آل عمران ٨١ ۔
٢۔ لقمان ١٣ ۔
''عبدہ و رسولہ '' ۔ عبودیت ہی رسول اکرم ۖکو معراج پر لے جاتی ہے : ( سبحان الذ اسریٰ بعبدہ) (١) اور آسمانی وحی کو آپ ۖ پر نازل کرتی ہے : ( نزلنا علیٰ عبدنا ) (٢)
خدائے تعالیٰ بھی اپنے پیغمبروں کی بندگی کی تعریف کرتا ہے ، حضرت نوح ـ کے بارے میں فرماتا ہے ( انہ کان عبدا شکورا ) (٣) اور حضرت داؤد ـ کے بارے میں ارشاد ہو رہا ہے ( نعم العبد ) (٤)
انبیاء اور نابغہ و خلّاق انسانوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ ان لوگوں نے اپنی یہ استعداد اور خلّاقیت اپنی تیز ہوشی، اور مسلسل مطالعہ اور مشق کی بنا پر حاصل کی ہے ۔ لیکن انبیاء نے اپنے معجزات کو خداوند عالم کی بندگی کے نتیجے اور لطفِ خدا کے سائے میں حاصل کیا ہے ۔ تمام انبیاء کے بلند مقامات کا سرچشمہ بندگی ہی ہے ۔
پیغمبروں کی عبودیت کا اقرار ، اولیائے خدا کے بارے میں ہم کو ہر قسم کے غلو ، افراط ا ور زیادہ روی سے روکتا ہے تاکہ ہم یہ جان لیںکہ پیغمبر جو سب سے بلند فرد ہیں ، وہ بھی خدا کے بندے ہیں ۔
یہ بات واضح رہے کہ یہ شہادت اور گواہی صداقت اور حقیقت کی بنا پر ہو ورنہ منافقین بھی رسول اکرم ۖ کی رسالت کی گواہی دیتے تھے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے : خدا شہادت دیتا ہے اے رسول ۖ ! تم اس کے رسول ہو لیکن منافقین جھوٹ کہتے ہیں ، اس لئے کہ ان کی گواہی سچی نہیں ہے ۔ (٥)
………………………………
١۔ اسرائ١ .
٢۔ بقرہ ٢٣ .
٣۔اسراء ٣ .
٤۔ ص ٣٠ .
٥۔ منافقون ١.
| |