نماز کی تفسیر
 

آٹھواں باب

قنوت

لغت میں قنوت کے معنیٰ ایسی اطاعت کے ہیں جو خضوع کے ساتھ ہو ۔
جیسا کہ خدا وند عالم حضرت مریم ٭ سے خطاب فرماتا ہے ( یا مریم اقنت لربک) (١) لیکن نماز میں قنوت سے مراد وہی دعا ہے جسے ہم ہر نماز کی دوسری رکعت میں پڑھتے ہیں۔
حضرت امام صادق ـ اس آیت ( تبتل الیہ تبتیلا ) (٢) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ( تبتل ) یعنی ہاتھوں کو نماز میں دعا کے لئے بلند کریں ۔ (٣)
لغت میں '' تبتل '' کے معنیٰ غیر خدا سے قطع امیدکرنا ہے ۔ (٤)
قرآن کریم تاکید فرماتا ہے ( ادعوا ربکم تضرعا و خفیة ) (٥) تم اپنے رب کو گڑگڑا کر اور خاموشی سے پکارو ۔پروردگار عالم کی بارگاہ میں ہاتھوں کو بلند کر کے دعا کرنا تضرع و زاری کی نشانی ہے (٦) فقیر انسان اپنے ہاتھ کو بے نیاز مطلق کی طرف پھیلاتا ہے ۔ فقط اسی سے مانگتا ہے اس کے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتا ۔
اگرچہ نماز میں قنوت مستحب ہے لیکن اس کے اوپر اتنی توجہ دی گئی ہے کہ امام رضا ـ مأمون کو خط میں لکھتے ہیں کہ قنوت رات دن کی ہر نماز میں ایک واجب سنت ہے (٧)
………………………………
١۔ آل عمران٤٣ .
٢۔ مزمل ٨ ۔٨٢ صفحہ١٩٧ .
٣۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩١٢ .
٤۔ مفردات راغب .
٥۔ اعراف ٥٥ .
٦۔ معانی صدوق صفحہ ٣٦٩.
٧ ۔ بحار الانوار جلد ٨٢۔صفحہ١٩٧.
البتہ اس سے امام کی مراد قنوت کی اہمیت کی و ضا حت ہے ۔ چنانچہ اگر انسان رکوع سے پہلے اس کو بھول جائے تو مستحب ہے کہ رکوع کے بعد اس کی قضا کرے اور اگر سجدہ میں یاد آئے تو سلام کے بعد اس کی قضا کرے ۔
قنوت کے آداب میں آیا ہے کہ ہاتھوں کو چہرے کے برابر تک بلند کریں ۔ ہاتھوں کی ہتھیلی چہرے کے بالکل سامنے اور آسمان کی طرف ہو ۔ دونوں ہاتھوں کو برابر ملائیں اور انگوٹھے کے علاوہ ساری انگلیاں آپس میں چپکی ہوں۔ دعا پڑھتے وقت نظر ہتھیلی پر ہو دعا بلند آواز میں پڑھیں لیکن آواز اتنی بلندنہ ہو کہ امام جماعت کو سنا ئی دے۔ (١)
قنوت کی کوئی مخصوص دعا نہیں ہے انسان ہر دعا پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ دعا عربی میں ہو اپنی زبان میں بھی اپنی حاجت کہی جاسکتی ہے ۔ البتہ یہ واضح رہے کہ قرآن کریم کی دعائیں یا وہ دعائیں جو ائمہ معصومین ٪ اپنے قنوت میں پڑھتے تھے ان کی اپنی فضیلت اور اولویت ہے ۔

مختلف نمازوں کے قنوت
نمازوں میں قنوت کی تعداد ایک جیسی نہیں ہے ۔ پنجگانہ نمازوں میں صرف ہر نماز میں ایک قنوت دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے ہے ۔ لیکن نماز جمعہ دو رکعت ہے اور اس میں دو قنوت ہیں ۔ ایک رکعت اوّل میں رکوع سے پہلے دوسرا دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ہے ۔
نماز عید فطر و عید قربان میں دو رکعت میں ٩ قنوت پڑھے جا تے ہیں ۔پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے ٥ قنوت پے در پے ، اسی طرح دوسری رکعت میں ٤ قنوت ۔
………………………………
١۔ توضیح المسائل : قنوت کے مسائل .
البتہ ان قنوت کے لئے ایک خاص دعا وارد ہوئی ہیں ۔ حتی نماز آیات جودو رکعت ہے اور اس کی ہررکعت میں ٥ رکوع ہیں ۔ اس میں مستحب ہے کہ دوسرے ، چوتھے ، چھٹے ، آٹھویں اور دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھا جائے اگر چہ صرف دسویں رکوع سے پہلے ایک قنوت بھی کافی ہے ۔
نماز وتر جو ایک رکعت ہے اورنماز شب کے بعد پڑھی جاتی ہے اس کا قنوت طویل ہے اس قنوت میں کافی دعائیں ہیں جن میں ٧٠ مرتبہ استغفار ،٣٠٠ مرتبہ العفو اور چالیس مؤمنوں کے لئے دعا ہے ۔
نماز استسقاء میں بھی نمازعید کی طرح ہے پہلی رکعت میں ٥ قنوت اور دوسری رکعت میں ٤ قنوت ہیں ۔ بہرحال قنوت کو لمبا پڑھنا مستحب ہے جناب ابوذر نے پیغمبر اکرم ۖ سے سوال کیا کہ کون سی نماز اچھی ہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا ایسی نماز جس کا قنوت طویل ہو اور جو لمبے قنوت پڑھتا ہے اس کے لئے قیامت میں آسانی ہے ۔(١)

معصومین کے قنوت
ابن مسعود اپنے مسلمان ہونے کی وجہ تین شخصیات : پیغمبر اکرم ۖ ، حضرت علی ـ اور حضرت خدیجہ ٭ کی نماز اور ان کے طولانی قنوت کو سمجھتے ہیں ۔(٢)
زیارت آل یٰس میں حضرت مہدی ( عج)کو سلام کرتے ہو ئے ہم یہ کہتے ہیں:
'' السلام علیک حین تصل و تقنت ''
آپ پر سلام ہو جب آپ نماز اور قنوت کے وقت کھڑے ہوتے ہیں ۔
ہر معصوم سے قنوت کی بڑی بڑی دعائیں نقل ہوئی ہیں ، جن کے لکھنے کایہاں امکان نہیں
………………………………
(١)بحار ج٨٢صفحہ ٢٠٠.
(٢)بحار ج ٣٨ صفحہ ٢٨٠.
ہے اور اس بات پر تعجب ہے کہ قنوت ، جس کی اتنی برکتیں ہیںوہ اہل سنت کے یہاں سے کیوں ختم ہوگیا ۔ کیا حضرت علی ـ اور خلفاء راشدین نماز میں قنوت نہیں پڑھتے تھے ؟
قنوت میں صرف اپنی اور اپنی حاجت کی فکر میں نہ رہنا چا ہیئے بلکہ حضرت زہرا ٭ سے سبق لینا چا ہئے آپۖ نے فرمایا : '' الجار ثم الدار ''(١) پہلے پڑوسی کی فکر کرو پھر اپنے گھر والوں کی ۔ '' اس لئے کہ خدا وند متعال نے وعدہ کیا ہے کہ جو دوسروں کے لئے دعا کرے گا خدا اس کی بھی حاجت پوری کرے گا ۔
قنوت میں دشمنان ِ دین کے لئے بد دعا کریں اور اسلام و مسلمین کے لئے دعا کریں۔
رسول اکرم ۖ اپنے قنوت میں کچھ لو گوں پر ان کے نام اور ان کی خصوصیات کے ساتھ لعنت کرتے تھے ۔
بہرحال تولّااور تبرّا دین کا جز ہی نہیں بلکہ ہمارے دین کی بنیاد ہے۔
'' ھل الدین لّا الحبّ و البغض''(٢) ………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ٨١ ۔
٢۔ بحار الانوار جلد ٦٨ صفحہ ٦٣ ۔