عملی تسبیح
امام صادق ـ نے فرمایا کہ سخت ترین اور اہم ترین کاموں میں سے ایک کام جس کو خدا نے مخلوقات کے اوپر ضروری کیا ہے وہ ذکر کثیر ہے ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ : ذکر سے مراد ( سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ) نہیں ہے گرچہ یہ بھی اس کا جز ہے لیکن ذکر سے مراد ( ذکر اللہ عند ما احل و حرم ) یعنی کو ئی بھی کام کرتے وقت خدا کو یاد رکھنا ہے ،یعنی اگر خدا کی اطاعت ہے تو اسے انجام دے اور اگر اس کی معصیت ہے تو اس کو انجام نہ دے ۔ (1)
………………………………
1 ۔ کافی جلد ٢ صفحہ ٨٠ .
تسبیح کی تکرار
ایک شخص امام صادق ـ کے گھر میں داخل ہوا آپ کو رکوع کی حالت میں دیکھا کہ آپ خدا کی تسبیح میں مشغول ہیں اور آپ نے رکوع میں ٦٠ مرتبہ تسبیح کی تکرار کی اور سجدہ میں ٥٠٠ مرتبہ(١)
تسبیح کی تکرار فقط نماز ہی میں نہیں بلکہ اعمال ِ حج میں بھی ہے ۔ حجر اسود پر نگاہ کرتے وقت ، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے وقت اور دوسری جگہوں پر تسبیح کی تکرار کی تاکید کی گئی ہے ۔
جس طرح نماز میں رکوع و سجود کے علاوہ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کی تکرار ہے اورشیعہ سنی روایتوں کے مطابق ، سورئہ کہف آیت نمبر ٤٦ میں باقیات الصالحات سے مراد یہی تسبیحات اربعہ ہیں ۔ (٢)
حضرت علی ـ کے ارشاد کے مطابق خانہ کعبہ بناتے وقت حضرت ابراہیم ـ کا ذکر (سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ) تھا (٣)
ہمارے اسلاف کے تمدّن میں خدا وند عالم کا ذکر
اب یہاں تک بات پہنچ گئی ہے تو بہتر ہے کہ اسلامی تمدن میں ہمارے بزرگوں کے درمیان ذکر خدا کا کیا مقام رہا ہے ، اس پربھی ایک نظر ڈال لیں اور اس کی اہمیت کا پتہ لگائیں ۔
ہمارے مومن ماں باپ تعجب کے وقت کہتے ہیں '' ماشاء اللہ '' '' سبحان اللہ '' گھر کے اندر داخل ہوتے وقت کہتے ہیں '' یا اللہ '' ایک دوسرے سے رخصت ہوتے وقت '' خدا حافظ '' اٹھتے وقت
………………………………
١۔ وافی جلد ٢ صفحہ ١٠٧ .
٢۔ تفسیر المیزان جلد ١٣ صفحہ ٥٤٠ .
٣۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ١٢٠٧ .
'' یا علی '' کام کی تھکن دور کرنے کے لئے '' خدا قوت '' خیریت پوچھنے کے جوا ب میں '' الحمد للہ '' کھانا کھانے کے لئے '' بسم اللہ '' اور کھانا کھانے کے بعد دستر خوان کی دعا اور شکر ِ خدا ۔
دادی ، نانی قصہ کہانی کو یہاں سے شروع کرتی تھیں کہ '' کوئی تھا کوئی نہ تھا خدا کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا ۔ ''
ظاہر ہے کہ ایسے ماحول اور ایسی آغوش میں تربیت سے ! ہمیشہ اور ہر وقت دلوں میں خدا کی یاد اور زبانوں پر اس کا نام جاری ہو تا رہتاہے ۔ لیکن ہمارے اوپر ایک تاریک دورایسا بھی گزرا ہے کہ جب خدا کے نام کو بھلا دیئے جا نے کے ساتھ ساتھ شہر کے در و دیوار حتی کپڑوں پر اور ہر جگہ مغربی تمدن اور ان کے فلمی ستاروں کی تصویریں تھیں ۔
لیکن انقلاب کے سایہ میں شہروں کے در و دیوار ، سڑکوں اور بورڈوں پر دوبارہ ذکر کی تصویر ابھر کر سا منے آئی ہے ۔
موجودات کی تسبیح
ساری موجودات ، ساتوں آسمان و زمین اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے سب اس کی تسبیح کرنے والے ہیں (١) چاہے جاندار جیسے پرندے ہوں اور چاہے بے جان ہوں جیسے پہاڑ (٢) نیزبجلی اور چمک (٣) وہ بھی ایسی تسبیح جو شعور اور آگاہی کے سا تھ ہو ( کل قد علم صلاتہ و تسبیحہ )(٤)
فرشتوں کی تسبیح اتنی زیادہ ہے کہ پیغمبراکرم ۖ نے فرمایا آسمانوں پر ایک بالشت جگہ ایسی نہیں ہے جہاں پر فرشتے نماز و تسبیح میں مشغول نہ ہوں ۔ (٥)
………………………………
١۔ جمعہ ١ .
٢۔ انبیاء ٧٩.
٣۔ رعد ١٣ .
٤۔ نور ٤١ .
٥۔ تفسیر قرطبی جلد ٨ صفحہ ٥٥٨١.
امام صادق ـ فرماتے ہیں : جس وقت حضرت داؤد ـ زبور پڑھتے تھے تو کوئی پہاڑ ، پتھر اور پرندہ ایسا نہیں تھا جو ان کی آواز سے آواز نہ ملاتا ہو ۔ (١)
روایتوں میں ہمیں تاکید کی گئی ہے کہ جانوروں کے منہ پر نہ مارو اس لئے کہ وہ تسبیح پڑھنے میں مشغول رہتے ہیں ۔ (٢)
گر تو را از غیب چشمی باز شد
با تو ذرّات جھان ھمراز شد
نطق آب و نطق خاک و نطق گل
ھست محسوس حواس اھل دل
جملۂ ذرّات عالم در نھان
باتو می گویند روزان و شبان
ما سمیعیم و بصیریم و ھوشیم
با شما نا محرمان ما خاموشیم
ترجمہ : اگر تیری آنکھ عالم غیب کا مشاہدہ کرلے تو اس عالم کے ذرات بھی تیرے ہم راز ہو جائیں گے۔ پانی کی گفتگو ، خاک کی ہم کلامی اور پھولوں کی نطق بیانی اہل دل کے لئے سب کچھ محسوس و روشن ہے ۔ اس کائنات کے ذرے خا مو شی کے سا تھ تجھ سے ہر روز اور ہر شب کہتے ہیں : ہم تو سنتے بھی ہیں ، دیکھتے بھی ہیں اور ہمارے ہوش و حواس قائم ہیں لیکن تم نا محرموں کے سامنے ہم خاموش اورساکت ہیں ۔
چڑیوں کا ایک جھنڈ، امام سجاد ـ کے سامنے سے چیں چیں کرتا ہوا گزرا ۔ آپ اپنے
………………………………
١۔ تفسیر نور الثقلین جلد ٣ صفحہ ٤٤٤ .
٢۔ تفسیر نور الثقلین جلد ٣ ١٦٨.
ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : پرندے ہر صبح خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور اپنے دن کی روزی کے لئے خدا سے دعا کرتے ہیں ۔ (١) رسول خدا ۖ نے فرمایا حیوانات کی موت اس وقت ہوتی ہے جب وہ تسبیح خدا کو فراموش کر دیتے ہیں ۔ (٢)
بعض لو گوں کا کہنا ہے کہ موجودات کی تسبیح اور سجدے مجازی ہیں نہ حقیقی جس طرح ایک اچھی تصویر ، اس تصویر کے بنانے والے کے بھرپور ذوق اورسلیقہ یاا شعارکا دیوان شاعر کی خوش طبعی کی گواہی دیتا ہے اسی طرح موجودات کی اسرار آمیز خلقت خدا کے علم ، قدرت ، حکمت اور اس کی باریک بینی کی گواہی دیتی ہے اور اس کو ہر عیب اور برائی سے دور قرار دیتی ہے اور یہی موجودات کی تسبیح کے معنی ہیں ۔
جبکہ اول تو اس دعو ے کی کوئی دلیل و شاہد نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ تاویل یاتحلیل وہاں پر ہوتی ہے جہاںظاہری معنیٰ محال اورمشکل ہوں جیسے یہ آیت (ید اللہ فوق ایدیھم ) (٣) ہم بخو بی جانتے ہیں کہ خدا وند متعال کا ہاتھ ہونا محال ہے لہذا کہیں گے ( ید اللہ )سے مراد قدرت الٰہی ہے۔ لیکن صرف اس و جہ سے کہ معانی سمجھ میں نہیں آ تے ہمیں اس کی تاویل کا حق حاصل نہیں ہے ، ہم کیسے تاویل کریں گے ؟جبکہ قرآن کریم خود کہہ رہا ہے :
( و ان من شئٍ الا یسبّح بحمدہ و لکن لا تفقھون تسبیحھم ) (٤) اور
کوئی شئے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو۔
ہم کیسے تاویل کر سکتے ہیں ؟ جبکہ قرآن فرماتا ہے( و ما اوتیتم من العلم الا قلیلا) (٥) اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے ۔
………………………………
١۔ تفسیر المیزان جلد ١٣ صفحہ ٢٠٦ .
٢ ۔ تفسیر المیزان جلد ١٣ صفحہ ٢٠٣ .
٣۔ فتح ١٠ .
٤۔ اسرائ٤٤ .
٥۔ اسرائ٨٥ .
آنحضرت ۖ کا علم اگرچہ لا محدود علم کے سر چشمہ سے وابستہ ہے اس کے باوجود قرآن حکیم میں آپ کا یہ قول نقل ہو ا ہے(ان ادری ) (١) یعنی میں نہیں جانتا ،تو اگر ہم بھی کہہ دیں کہ ہم نہیں جانتے اور ہم نہیں سمجھتے تو کیا ہو جائے گا ؟
مزے کی بات یہ ہے کہ خدا وند عالم نے ہمارے جہل اورنادانی کا صریحا ً اعلان بھی کردیا (ولکن لا تفقھون تسبیحھم ) لیکن مغرور بشراس بات کے لئے حاضر نہیں ہے کہ عالم ہستی کے وہ اسرار جن میں موجودات کی تسبیح بھی ہے ان کے بارے میں یہ اقرار کرلے کہ ہم نہیں سمجھتے ۔
کیا قرآن مجید واضح طور سے نہیں کہہ رہا ہے کہ ہدہد جب قوم سبا کی خورشید پرستی سے آگاہ ہوا تو اس نے اس کی خبر حضرت سلیمان ـ کو دی اور کہا ملک سبا میں ایک عورت ہے جو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہے اور اس کی رعیت سورج کی پوجا کرتی ہے ۔ (٢)
کہاں ہدہداور کہاں علاقہ کا نام ، عورت کو مرد سے ، شاہ کو رعیت سے ، توحید کو شرک سے جدا کرنا اور انھیں پہچان لینا؟! یہ سب موجودات کے شعور کی نشانیاں ہیں ۔
کیا قرآن مجید نہیں کہتا ہے ایک چیونٹی نے ساری چیونٹیوں سے کہا : '' اپنے اپنے بلوں میں چلی جاؤ ادھر سے حضرت سلیمان ـ کا لشکر گزرنے والا ہے اور ایسا نہ ہو کہ وہ نا سمجھی میں تمہیں روندھ ڈالیں ۔ ''
ان آیتوں میں انسانوں کی حرکت کی پہچان ، ان کا نام ( سلیمان ) ، ان کا پیشہ ( فوجی ) ، ان کا اپنے پیروں کے نیچے توجہ نہ ہونا اور اس چیونٹی کی دوسری چیونٹیوں کے لئے ہمدردی ، یہ ایسے مسائل ہیں جو ہمارے لئے موجودات اور عالم ہستی کے اندر پائے جانے والے شعور اور ان کے سمجھنے
کی طاقت کو بیان کرتے ہیں ۔
اب اگر ہم ان کے شعور کو قبول کرلیں اور نص قرآن کے مطابق اسے قبول کرناضروری ہے تو اس کے بعد موجودات کی تسبیح کے سلسلے میں کسی توجیہ اور تا ویل کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔
………………………………
١۔ قرآن میں اس جملہ کی چار مرتبہ تکرار ہوئی ان میں سے ایک سورہء انبیاء آیت ١٠٩بھی ہے.
٢۔ نمل ٢٢ ، ٢٧.
|