|
سبحان اللہ
نماز پڑھنے والا رکوع اور سجود میں خداوند متعال کی تسبیح کرتا ہے ۔ جس وقت آیت (فسبح باسم ربک العظیم ) (١) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا : اس حکم کو اپنے رکوع میں قرار دو اور کہو '' سبحان رب العظیم و بحمدہ '' میرا عظیم پروردگار کہ میں نے جس کی تعریف میں لب ہلائے وہ ہر عیب و برائی سے پاک ہے '' اور جب یہ آیت ( سبح اسم ربک الاعلی ) (٢) نازل ہوئی تو فرمایا اس کو اپنے سجدہ میں قرار دو اور کہو '' سبحان رب الاعلی و بحمدہ '' '' ہم ہمیشہ اپنے پروردگار کی تسبیح و تعریف کرتے ہیں جو سب سے بڑا اور بزرگ و برتر ہے ۔ ''
تسبیح کا مرتبہ
خدا کی تسبیح و تنزیہ ،اسلام کے سارے صحیح عقائد و افکار کی جڑ ہے ۔
توحید : یعنی خدا کو شرک سے پاک سمجھنا ( سبحان اللہ عما یشرکون)(٣)
عدل : یعنی خدا کو ظلم سے پاک سمجھنا ( سبحان اللہ انا کنا ظالمین ) (٤)
نبوت و امامت : یعنی خدا کو بے مقصد ،غیر منظم اور لوگوں کو دریائے ہوس میں چھوڑ دینے سے پاک سمجھنا ( و ما قدروا اللہ حق قدرہ اذ قالوا ما انزل اللہ علی
………………………………
١۔ واقعہ ٧٤ .
٢۔ اعلیٰ ١ .
٣۔ طور ٤٣.
٤۔ قلم ٢٩.
بشرٍ من شیئٍ ) (١)
وہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا در حالیکہ خدا کو اچھی طرح نہیں پہچانتے ہیں۔
معاد : یعنی خدا کو اس سے پاک سمجھنا کہ اس نے دنیا کو عبث اور باطل خلق کیا ہے اور دنیا کے سر انجام کو نابودی قرار دیا ہے ( ربّنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک)(٢)
( افحسبتم انما خلقنا کم عبثا و انّکم الینا لا ترجعون ) (٣) کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے ؟ جی ہاں خداوند عالم اس عبث اور بیہودہ امر سے پاک و منزہ ہے ۔
تسبیح خدا : تسبیح خدا فقط عقائد اسلامی کا سرچشمہ نہیں ہے بلکہ بہت سے روحی و معنوی کمالات ِ کا ذریعہ ہے ۔
سبحان اللہ : رضائے الہی کا سرچشمہ ہے ۔ اگرہم اس کو ہر عیب سے پاک سمجھیں تو اس کے مقدّر ات پر راضی ہوں گے اور اس کی حکیمانہ مشیت کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے ۔
سبحان اللہ : توکل کا سرچشمہ ہے ۔ جو ذات ہرمحتاجی سے دور اور ہر ضعف اور عاجزی سے پاک ہو ، اس پر کیسے انحصار اور توکل نہ کریں ؟ ( سبحانہ ھو الغن )(٤)
سبحان اللہ :خدا سے عشق کی نبیاد ہے جو ہر عیب اور نقص سے پا ک ہے وہ انسانوں کا محبوب ہے اور انسان اسی سے والہٰانہ محبت کر تا ہے ۔
سبحان اللہ : خدا کی حمد و ثنا کی ابتداء ہے ۔ ایسی ذات کی ثنا جس تک کوئی بھی برائی
………………………………
١۔ انعام ٩١ .
٢۔ آل عمران ١٩١.
٣۔ مؤمنون ١١٥.
٤ ١۔ یونس ٦٨ .
اورناپسندیدہ چیز نہ پہنچے ۔ اسی لئے تسبیحات اربعہ میں '' سبحان اللہ '' ' الحمد للہ '' سے پہلے آیا ہے ۔
سبحان اللہ : تمام بشری خرافات و توہمات اوربد عتوں سے نجات کی کنجی ہے (فسبحان اللہ ربّ العرش عمّا یصفون ) (١)
شاید یہی وجوہات ہیں کہ قرآن مجید میں تسبیح الہی کا حکم دوسرے اذکار سے زیادہ آیا ہے ۔ تسبیح کا حکم ١٦ مرتبہ ، استغفار کا حکم ٨ مرتبہ ، ذکر خدا کا حکم ٥ مرتبہ اور تکبیر کا حکم ٢ مرتبہ آیا ہے ۔ وہ بھی ہر حال اور ہر وقت تسبیح کا حکم ہے تاکہ انسان ہمیشہ خدا کی طرف متوجہ رہے اور ہمیشہ اس کو ہر عیب اور برائی سے پاک سمجھے ۔
( و سبّح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل غروبھا و من آناء اللیل فسبّح و اطراف النھار ) (٢)
خوشی اور کامیابی کے موقع پر خدا کی تسبیح کرو ( اذا جاء نصر اللہ و الفتح … فسبح بحمد ربک ) (٣)
سختی و مشکلات اور پریشانی میں بھی تسبیح کرو اس لئے کہ تسبیح نجات کا ذریعہ ہے (فلولا انّہ کان من المسبحین للبث ف بطنہ الی یوم یبعثون ) (٤) پھر اگر وہ ( حضرت یونس ) تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی (مچھلی)کے شکم میں رہ جاتے ۔
ہاں انسان اپنی فراواں حد بند یوں کی بنا پر خدا وند متعال کو ہرگز نہیں پہچان سکتا ۔ لہذا بہتریہی ہے کہ وہ اپنے ضعف کا اقرار کرے اور کہے کہ تو فکر و خیال کی رسائی سے پاک ہے اور جو دوسرے لوگ تیری تعریف کرتے ہیں اس سے بلند و بالاتر ہے ( سبحانہ و تعالیٰ عمّا
………………………………
١۔ انبیاء ٢٢ .
٢۔ طہٰ ١٣٠.
٣۔ سورہء نصر .
٤۔ صافات ١٤٣، ١٤٤.
یقولون علواکبیرا ) (١)
صرف اللہ کے مخلص بندے ہیں جو اللہ کی مدد اور رہنمائی کے ذریعہ خدا کو پہچنوا سکتے ہیں (سبحان اللہ عمّا یصفون الا عباد اللہ المخلصین ) (٢)
تسبیح کا ثواب
امام صادق ـ رسول خدا ۖ سے نقل کرتے ہیں کہ جس وقت کو ئی بندہ (سبحان اللہ)کہتا ہے تو جو چیز بھی عرش الٰہی کے نیچے ہے وہ اس کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور اس لفظ کے کہنے والے کو دس گناجزا ملتی ہے اور جس وقت (الحمد للہ) کہتا ہے توخدا اسے دنیا کی نعمتیں عطا فرماتاہے تاکہ اسی حالت میںخدا سے ملاقات کرے اور آخرت کی نعمتوںمیں داخل ہو جائے۔(٣ )
………………………………
١۔اسراء ٤٣ . ٢۔ صافات ١٥٩، ١٦٠.
٣۔ وسائل جلد ٧ صفحہ ١٨٧.
| |