نماز کی تفسیر
 

سجدے

سجدہ کی تاریخ
حضرت آدم ـ کی خلقت کے بعد خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں ۔ (1) ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا ۔ خدا وند متعال نے اس کو اسی نافرمانی کی بنا پر اپنی بارگاہ سے نکال دیا ۔
قرآن مجید نے اس واقعہ کی بار بار تکرار کی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ قرآن کریم کی تکرار
………………………………
1۔ البتہ سجدہ خدا سے مخصوص ہے انسان صرف فرشتوں کا قبلہ قرار پایا .
بلا و جہ نہیں ہے گویا کہنا یہ چاہتا ہے کہ اے انسان ! تمام فرشتے تمہاری وجہ سے سجدہ میں گرے ۔ کیوں تم خداوندِ خالق کے سامنے سجدہ نہیں کرتے ؟ اے انسان ! ابلیس تمہارے سجدہ کے انکار کی وجہ سے نکالا گیا تو اب تم خدا کے سجدہ سے انکار کرنے کی صورت میں کیا امید رکھتے ہو ؟ ۔
ابلیس نے تمہارا سجدہ نہیں کیا اور وہ یہ کہتا تھا کہ میں انسان سے افضل ہوں ۔ کیا تم یہ کہہ سکتے ہو ؟ کہ ہم خدا سے افضل ہیں ؟ تم ایک وقت کچھ بھی نہیں تھے اور جب دنیا میں آئے تو تمہارا پورا بدن ضعیف و ناتوان اورعاجز تھا اور آخر میں اسی عاجزی کے ساتھ دنیا سے جاؤ گے ۔ خالق ہستی کے سامنے کس لئے تکبر کرتے ہو ؟!
بہرحال بشر کی خلقت کے بعد سب سے پہلا حکم الٰہی سجدہ کا حکم تھا ۔

سجدہ کی اہمیت
سجدہ : خدا کے سامنے انسان کی بہترین حالت ہے ۔
سجدہ : خدا سے تقرب کا بہترین راستہ ہے ( و اسجد و اقترب ) (١)
پیغمبر اکرم ۖ کے وفادار ساتھیوں کی نشانی یہ ہے کہ ان کے چہروں پرسجدہ کے اثرات دکھائی دیں ( سیما ھم ف وجوھھم من اثر السجود ) (٢)
سجدہ : انسان کو عالم ہستی کے ہم رکاب اور اس سے ہم آہنگ بنا دیتا ہے اس لئے کہ آسمان و زمین کی تمام موجودات ، ستاروں سے لے کر سبزے تک سب خدا کی بارگاہ میں ساجد و خاضع ہیں (و للہ یسجد ما ف السمٰوات و ما ف الارض ) (٣) ( و النجم و الشجر یسجدان)(٤)
………………………………
١۔ یہ سورئہ علق کی آخری آیت ہے یہ ان چار آیتوں میں سے ہے جن کو پڑھنے کی و جہ سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے .
٢۔ فتح ٢٩.
٣۔ نحل ٤٩.
٤۔ رحمن ٦ .
سجدہ : فرشتوں کے ساتھ ہم آہنگی ہے ۔ حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں : آسمان کے طبقوں کا کوئی طبقہ ایسا نہیں ہے جس پر فرشتوں کا ایک گروہ سجدے کی حالت میں نہ ہو ۔ (١)
سجدہ : عبودیت و بندگی کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے اس لئے کہ انسان اپنا سب سے بلند مقام یعنی پیشانی کو خاک پر رگڑتا ہے اور خدائے عزیز و قادر کے سامنے ذلت و عاجزی کا اظہار کرتا ہے ۔
سجدہ : دنیا کے بلند مرتبہ مردوں اور عورتوں کا سب سے بڑا مقام و مرتبہ ہے ۔ خدا اپنے پیغمبر ۖ کو سجدے کا حکم دیتا ہے وہ صرف دن میں ہی نہیں بلکہ رات میں بھی۔
( و من اللیل فاسجد لہ و سبحہ لیلا طویلا ) (٢) پاک اور عابدہ خاتون حضرت مریم سے خطاب ہوا (یا مریم اقنت لربک و اسجد ) (٣)
جو سجدہ رکوع کے بعد ہو وہ اس سے کامل تر و بالا تر مرحلہ ہے اور نماز پڑھنے والے کو خضوع کی آخری بلندی تک پہنچاتا ہے ۔
اسی لئے قرآن کریم میں یہ دونوںمعمولاً ایک دوسرے کے ساتھ ذکر ہو ئے ہیں (یاایھا الذین آمنوا ارکعواواسجدوا)(٤)
( تریٰھم رکعاًسجداً)( ٥)
سجدہ : خدا وند عالم کی نشانیوں پر ایمان کی علامت ہے۔
( انما یومن بآیاتنا الذین اذا ذکروا بھاخروا سجداً) (٦)
رات کے سجدے : خدا کے صالح بندوں کی نشانی ہیں ( عباد الرحمن ۔۔۔۔ و الذین یبیتون لربھم سجدا ً و قیاماً ) (٦)
………………………………
١۔ نہج البلاغہ خطبہ ٩١ .
٢۔نسان ٢٦.
٣۔ آل عمران ٤٣.
٤۔ حج ٧٧ .

٥۔ فتح ٢٩ .
٦۔ سجدہ ١٥ .
٧۔ فرقان ٦٤.
سجدہ : نماز کی زینت ہے لہذا اس کو اچھی طرح بجالائیں ۔
امام صادق ـ فرماتے ہیں :
نماز پڑھتے وقت اس کے رکوع و سجود کو اچھی طرح انجام دیاکرو کیو نکہ خدا وند عالم اس کی جزا سات سو گنابلکہ اس سے بھی زیادہ عطا فرماتا ہے ۔
سجدہ : کی وجہ سے خدا فرشتوں پر افتخارکرتاہے لہذا خدا کی عنایت اس کے ساتھ ہے ۔ یہاں تک کہ ہر سجدہ میں ایک گناہ ختم اور عظیم جزا ( سجدہ کرنے والے کے نام ) لکھی جاتی ہے ۔ (١)
حضرت علی ـ نے فرمایا : اگر انسان یہ جان لے کہ سجدہ کے وقت کتنی رحمتوں نے ا سے ڈھانپ رکھا ہے تو وہ کبھی بھی سجدہ سے سر نہ اٹھائے گا ۔ (٢)
سجدہ: خود خواہی اور غرور کو ختم کر دیتا ہے اور انسان کو تکبر سے نجات دیتا ہے ۔ (٣)
پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا : ہم اپنے امتیوں کو قیامت کے روز ان کی پیشانی پر مو جو د سجدہ کے اثرات سے پہچانیں گے ۔ (٤) اور وہ زمین جس پر سجدہ ہوا ہے وہ انسان کی عبادت کی گواہی دے گی (٥) اور دنیا میں بھی اس جگہ سے آسمان کی طرف ایک نور جاتا ہے (٦) رکوع کی طرح طولانی سجدے بھی انسان کی نعمت کی بقا اور عمر کے طولانی ہونے کا سبب ہیں ۔ (٧)
سجدہ اتنا اہم ہے کہ پروردگار ،حضرت ابراہیم ـ جیسے عظیم الشان پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ مسجد الحرام کو ، طواف ، قیام ، رکوع اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک کرو ۔ (٨)
………………………………
١۔ جامع احادیث جلد ٥ صفحہ ٤٦٦.
٢۔ جامع الاحادیث ج ٥ ص ٤٨٢ .
٣۔ جامع الاحادیث ج ٥ ص ٤٥٣ .
٤۔ مسند احمد حنبل جلد ٤ صفحہ ١٨٩ .
٥۔ جامع الاحادیث جلد ٥ صفحہ ١٨٩.
٦۔ مستدرک الوسائل جلد ٤ صفحہ ٤٨٥ .
٧۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٢٨ .
٨۔ بقرہ ١٢٥ .

سجدہ کی حکمتیں
لوگوں نے امیر المومنین حضرت علی ـ سے سجدہ کی حکمتوں کے بارے میں سوال کیا حضرت نے فرمایا : پہلا سجدہ ، یعنی شروع میں خاک تھا اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے ہو یعنی خاک سے دنیا میں آئے ہو۔ دوسرا سجدہ یعنی دوبارہ خاک میں پلٹ کر جاؤ گے اور اس سے سر اٹھانا یعنی قیامت کے دن قبر سے اٹھو گے اور محشور ہو گے ۔ (١)
امام صادق ـ فرماتے ہیں : '' چونکہ سجدہ خدا کے لئے ہے لہذا کھانے اور پینے والی چیزوں پر جو دنیا والوں کی توجہ کی چیز ہے سجدہ نہیں کرنا چاہیئے ۔ سجدہ انسان کو خدا کی طرف متوجہ کرے نہ کہ پیٹ اور لباس یا مادّی چیزوں کی طرف (٢)
ہم حدیث میں پڑھتے ہیںہر کمی و زیادتی یا بے جا کلام یاقیام اور قعود کی بنا پر اس لئے سجد ٔہ سہو کیا جاتا ہے کہ ابلیس نے تمہاری توجہ کو ہٹا دیا اور تمہاری نماز میں خلل ڈال دیا پس نماز کے بعد تم دو سجدئہ سہو بجا لاؤ تاکہ اس کی ناک مٹی میں رگڑ جائے اور وہ جان لے کہ وہ تمہارے اندر جو بھی لغزش پیداکرے گا تم دوبارہ خدا کے سا منے سجدہ کر لوگے (٣)
حضرت علی ـ فرماتے ہیں کہ : سجدہ کا ظاہر ، اخلاص و خشوع کے ساتھ پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے لیکن اس کا باطن ، تمام فنا ہونے والی چیزوں سے رشتہ توڑلینا اور عالم آخرت و بقا سے لو لگانا ہے ۔ اسی طرح یہ تکبر ، تعصّب اور دنیا سے ہر قسم کی وابستگی سے رہائی ہے۔
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٨٥ صفحہ ١٣٩ .
٢۔ الفقیہ جلد ١ صفحہ ٢٧٢.
٣۔ وافی جلد ٨ صفحہ ٩٩٢ .

آداب سجدہ
روایتوں میں جو آداب سجدہ آئے ہیں ان میں سے بعض کی طرف ہم یہاں اشارہ کر رہے ہیں ۔
رکوع کے بعدسجدہ میں جانے کے لئے زانو وںسے پہلے ہاتھوں کو زمین پر رکھیںاور سجدہ کرتے وقت ہاتھ کانوں کے برابر ہوں ۔ مردوں کی کہنیاں زمین پر نہ چپکیں اور دونوں کہنیاں پروں کی طرح کھلی ہوں ۔ فقط پیشانی ہی نہیں بلکہ ناک بھی زمین پر رکھی جائے ۔ جس وقت نماز پڑھنے والا دو سجدوں کے درمیان بیٹھے تو داہنے پیر کے اوپری حصّہ کو بائیں پیر کے تلوے پر رکھے، اس طرح سے کہ بدن کا وزن بائیں پیر پر ہو اس لئے کہ بایاں باطل کی علامت ہے اور داہنا حق کی علا مت ہے ۔
سجدہ میں واجب ذکر کے علاوہ صلوات پڑھے ، دعا کرے اور خوف خدا سے آنسو بہائے ۔ سجدہ سے اٹھتے وقت تکبیر کہے اور تکبیر کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کرے ۔ (١)

خاک کربلا
اگرچہ ہر پاک مٹی پر بلکہ ہر پاک پتھر اور لکڑی پر سجدہ جائز اور صحیح ہے لیکن تربت امام حسین (خاک شفا) فضیلت رکھتی ہے ۔ امام صادق ـ خاک کربلا کے علاوہ کسی چیز پر سجدہ نہیں کرتے تھے ۔
خاک کربلا پر سجدہ ؛ ساتوں حجاب پارہ کرتا ہے ، نماز کو بلند کرتا ہے اور اسے قبولیت تک پہنچاتاہے اور نماز پڑھنے والے کو بھی مادّیات کے گڑھے سے باہر نکال کر اسے جہاد اور خون و شہادت سے روشناس کراتا ہے ۔
………………………………
١۔ مستدرک الوسائل ج ٤ ص ٤٨٤ .
خاک حسین ـ پر سجدہ : یعنی امامت و ولایت کے ساتھ نماز ۔
خاک حسین ـ پر سجدہ : یعنی شہادت کے ساتھ نماز ۔
خاک حسین ـ پر سجدہ : یعنی ان لوگوں کی یاد کو عظیم سمجھنا جن لوگوں نے نماز کے لئے اور نماز کی راہ میں خون دیا ۔
خاک حسین ـ پر سجدہ : یعنی ہر روز عاشورہ ہے اور ہر زمین کربلا ہے ۔
خاک حسین ـ پر سجدہ : یعنی ظلم سے مقابلہ کرنے کے لئے سر اور جان دیدولیکن خود کو ذلت کے حوالے نہ کرو ۔
جی ہاں ! مزار حسین ـ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ اور جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے ۔ حضرت کے گنبد کے نیچے دعا مستجاب اور اس جگہ پر نماز محبوب و مقبول ہے ۔
اس خاک سے جو تسبیح بنے اگر وہ ہاتھ میں صرف گھومتی رہے تو اس کے لئے '' سبحان اللہ '' کی تسبیح کا ثواب رکھتی ہے چا ہے زبان سے کچھ نہ کہا جائے اور اگر اللہ کے ذکر کے ساتھ تسبیح گھمائی جائے تو ہر ذکر پر ستّر گناثواب ملتا ہے ۔
واضح رہے کہ خاک کربلا کی جواہمیت نقل ہوئی ہے وہ امام حسین ـ کی قبر کے چار میل کے دائرے تک شامل ہے ۔ (١)
………………………………
١۔ اس بحث کے مطالب ، کتاب کامل الزیارات میں باب نمبر ٨٩ کے بعد آئے ہیں .