نماز کی تفسیر
 

چھٹا باب

رکوع اور سجدے


رکوع
ارکان نماز میں سے ایک رکن ، رکوع ہے بھولے سے یا جان بوجھ کر اگر رکن میں کمی یا زیادتی ہوجائے تو نماز باطل ہے لفظ '' رکعت '' جو نماز کے حصوں کی گنتی کے لئے بولا جاتا ہے وہ اسی لفظِ رکوع سے بنا ہے ۔قبیلہ ٔبنی ثقیف نے رسول اکرم ۖ سے درخواست کی کہ نماز میں رکوع و سجود نہ ہوں اور وہ یہ کہتے تھے کہ جھکنا ہمارے لئے ننگ و عارہے ۔ تو آیت نازل ہوئی :
( و اذا قیل لھم ارکعوا لا یرکعون ) (١)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تورکو ع نہیں کرتے ہیں (٢)
دوسرے لوگ اپنی طرح کے انسانوں کے سامنے جھکتے ہیں اور ان کی تعظیم کرتے ہیں لیکن آپ صرف اپنے خالق کے سامنے خم ہوں اور اسی کی تعظیم کریں ۔ جیسا کہ جب یہ آیت ( فسبّح باسم ربک العظیم ) (٣) نازل ہوئی توپیغمبر ۖ نے حکم دیا کہ رکوع میں خدا کی تعظیم کرو اور رکوع میں اس ذکر '' سبحان رب العظیم و بحمدہ '' (٤) کو کہو ۔
ہم روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ رکوع خدا کے سا منے ادب کی علا مت اور پہچان ہے اور سجود قرب خدا کی پہچان ۔لہٰذا جب تک ہم اچھی طرح اس کا ادب اور احترام نہ کریں اس کی قربت کے
………………………………
١۔ مرسلات ٤٨.
٢۔ بحار الانوار جلد ٨٥ صفحہ ١١٠ .
٣۔ واقعہ ٤٧.
٤۔ جامع الاحادیث جلد ٢ صفحہ ٩٢٢.
لا ئق نہیں ہو سکتے ۔ (١)
رکوع، خدا سے توبہ و استغفار اور معذرت خواہی کا راستہ ہے ( فاستغفر ربّہ و خرّ راکعاً و اناب ) (٢)

رکوع کے اثرات
امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں : '' جو شخص اپنے رکوع کو اچھی طرح انجام دے وہ قبر کی وحشت سے امان میں ہے ۔ '' (٣)
ہم خدا کے حضور جتنی دیر تک خم ہوں گے شیطان اور شیطان صفت لو گوں سے مقابلہ کرنے کی اتنی ہی زیادہ قدرت رکھیں گے ۔
امام صادق ـ فرماتے ہیں : '' طویل رکوع اور سجود سے ابلیس غصہ میں آکر کہتا ہے مجھ پر وائے ہو ! یہ لوگ ، ایسی بندگی کی وجہ سے میری اطاعت نہیں کرتے ۔ !! (٤) پروردگار متعال فرشتوں سے کہتا ہے دیکھو ہمارے بندے کس طرح سے ہماری تعظیم کرتے ہیں اور ہمارے سامنے رکوع کرتے ہیں ۔ میں بھی ان لوگوں کو بزرگ کروں گا اور ان لوگوں کو عزت و عظمت بخشوں گا ۔ (٥)
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :
طولانی رکوع اور سجود عمر کے طولانی ہونے میں مؤثر ہیں '' (٦)
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٨٥ صفحہ ١٠٨.
٢۔ ص ٢٤ .
٣۔ وسائل جلد صفحہ ٩٢٨.
٤۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٢٨.
٥۔ جامع احادیث جلد ٥ صفحہ ٢٠٣ .
٦۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٢٨ .

آداب رکوع
ہم روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خدا ۖ رکوع میں اپنی کمر کو ایسے کھینچتے تھے اور اسے اس طرح سیدھا رکھتے تھے کہ اگر پانی کا قطرہ کمر پر ڈالا جاتا تو کمر کے بیچ میں ٹھہر جاتا اور کسی طرف نہ بہتا۔(١)
تاکید ہوئی ہے کہ رکوع میں اپنی گردن سید ھی رکھو تاکہ یہ معلوم ہو کہ ہم ایمان لائے ہیں چاہے ہماری گردن اس کی راہ میں چلی جائے ۔ (٢)
رکوع کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ مرد اپنی کہنیوں کو پرندوں کے پروں کی طرح پھیلائیں نہ یہ کہ اپنی بغل میں چپکائیں ۔ ہاتھ کی ہتھیلی کو زانو پر رکھیں اور ہاتھ کی انگلیوں کو کھولیں ۔ دونوں پیر برابر ہوں یعنی آگے یا پیچھے نہ ہوں اور دونوں پیروں کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ ہو ۔
رکوع کرتے وقت نظر دونوں پیروں کے درمیان ہو اور ذکر رکوع کے بعد رکوع ہی کی حالت میں محمد ۖو آل محمد علیہم السلام پر صلوات پڑھیں ۔ البتہ ذکر رکوع کے بارے میں تاکید ہے کہ کم از کم تین بار پڑھا جائے ۔ (٣)

اولیائے خدا کا رکوع
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :
حضرت علی ـ اپنے رکو ع کو اتنا طول دیتے تھے کہ آپ کی پنڈلی سے پسینہ بہنے لگتا
………………………………
١۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٤٢ .
٢۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٤٢.
٣۔ یہ تمام آداب رکوع ،وسائل جلد چہارم میںصفحہ ٩٢٠ سے ٩٤٣ تک آئے ہیں ۔.
تھا۔ '' (١)
خود حضرت علی ـ نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
خدا کے ایسے فرشتے ہیں جوہمیشہ رکوع کی حالت میں رہتے ہیں اورکبھی کھڑے نہیں ہوتے۔
البتہ فرشتوں کے یہاں تھکن اور بھوک نہیں پائی جاتی اسی لئے عارف و عاشق لوگ جب ایسے طولانی رکوع کرتے ہیں تو فرشتے ان کی تعریف و تمجید کرنے لگتے ہیں ۔ یہ اولیائے خدا کی حالت ہے لیکن ہماری حالت کیسی ہے ؟ حضرت رسول اکرم ۖ مسجد میں تشریف فرما تھے ، ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور نماز کے لئے کھڑا ہوا لیکن رکوع اور سجود کو ادھورا اور جلدی بجا لایا ۔ پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا : اس نے کوّے کی طرح چونچ ماری اور چلا گیا ۔ اگر وہ اس نماز کے ساتھ دنیا سے چلا جائے تو میرے دین پر نہیں مرے گا ۔ (٢)
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٨٥ صفحہ ١١٠.
٢۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٢٢ .