نماز کی تفسیر
 

پانچواں باب

سورئہ توحید

سورئہ توحید کی فضیلت
نماز میں سورئہ حمد کے بعد قرآن مجید کا کوئی دوسرا سورہ پڑھنا ضروری ہے ،البتہ نماز پڑھنے والے کو اختیار ہے کہ کوئی بھی سورہ پڑھے ، مگر ان چار سوروں کے علاوہ جن میں سجدہ واجب ہے ۔ لیکن تمام سوروں کے درمیان سورئہ توحید کو فوقیت حاصل ہے ،لہذا روایتوں میں تاکید ہوئی ہے کہ رات دن کی نمازوں میںکم از کم کسی ایک رکعت میں اس سورہ کو پڑھو تاکہ واقعی نماز پڑھنے والوں میں قرار پاؤ۔ (١)
یہ سورہ ایک تہائی قرآن بلکہ ایک تہائی توریت و زبور اور انجیل کے برابر اہمیت رکھتا ہے ، نہ صرف نماز میں بلکہ اگر اسے نماز کے بعد بھی تعقیبات نماز کے عنوان سے پڑھا جائے تو خداوند عالم انسان کو دنیا و آخرت کی خیر مرحمت فرماتا ہے ۔اگرچہ یہ سورہ چھوٹاہے لیکن اس کے معنی اور اس مضمون بہت بلندہے ۔ جیسا کہ امام سجاد نے فرمایا ہے چونکہ خدا جانتا تھا کہ آئندہ زمانوں میں دقیق اورعمیق لوگ پیدا ہوں گے لہذا اس نے اس سورہ کو اور سورئہ حدید کی ابتدائی آیتوں کو نازل کیا ہے ۔
صرف نماز ہی میں اس سورہ کی تلاوت کرنے کی تاکید نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کی بار بار تلاوت کرنے سے ظالموں کا شر کم ہوتا ہے اور حوادث و خطرات سے انسان کا گھر محفوظ رہتا ہے ۔
سعد بن معاذ ، رسول اللہ ۖ کے اصحاب اورآپ ۖکے لشکر کے سرداروں میں سے
………………………………
١۔ اس سورہ کی اہمیت و فضیلت کی روایتیں تفسیر برہان میں ذکر ہوئی ہیں ۔ ہم یہاں پر صرف ان روایتوں کے چند گوشوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں .
تھے جو مدینہ کے قبرستان بقیع میں دفن ہیں ۔ ان کی تشییع جنازہ میں رسول اللہ ۖ نے پا برہنہ شرکت کی اور فرمایا : نوے ہزار فرشتے آسمان سے سعد کی تشییع جنازہ کے لئے آئے ہیں۔ پیغمبر ۖنے حضرت جبرئیل ـ سے پوچھا تم اور اتنے فرشتے سعد بن معاذ کی تشییع جنازہ کے لئے کیوں نازل ہوئے ہیں ، اس کی وجہ کیا ہے ؟ جناب جبرئیل ـ نے کہا وہ اٹھتے ، بیٹھے ، سوار اور پیدل ہر حال میں سورئہ (قل ہو اللہ احد )کی تلاوت کرتے تھے ۔
اس کی شان نزول یہ ہے کہ یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکوں نے رسول اللہ ۖ سے خدا کے بارے میں یہ مطالبہ کیا کہ آ پ اپنے خدا کو پہچنوائیے۔ پیغمبر اکرم ۖ نے ان کے جواب میں اس سورہ کی تلاوت کی، یہ سورہ گویا خدائے تعالیٰ کا شناختی کارڈ ہے ۔

قل ہو اللہ احد
'' اے رسول ! کہہ دیجئے کہ خدا ایک ہے ''۔
توحید تمام آسمانی ادیان کی بنیادا ور اصل ہے اور انبیاء اس لئے آئے ہیںتاکہ شرک اور کفر و بت پرستی کے اثرات کو درمیان سے ہٹا دیں اور لوگوں کو ایک خدا کی طرف دعوت دیں ۔
توحید : انبیاء کی تعلیمات کی روح و جان ہے ۔ نہ صرف عقائد بلکہ احکام و اخلاق بھی توحید کے محور پر قائم ہیں ۔
توحید : ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے ۔ بغیر توحید کے ایمان کے قلعہ میں داخل ہونا ممکن نہیں '' قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا '' (١) اور '' لا الہ الا اللہ حصن فمن
دخل حصن امن من عذاب '' (٢)
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ١٨ صفحہ ٢٠٢ .
٢۔ بحار الانوار جلد ٣ صفحہ ١٣.
اس سورہ میں خالص ترین توحیدی عقائد ہیں ۔ اسی لئے اس کو سورئہ اخلاص بھی کہتے ہیں ۔ یہ سورہ عیسائیوں کے عقیدئہ تثلیث ( تین خداؤں ) کو ردّ کرتا ہے ۔ یہودیوں کے شرک اور جاہل عربوں کے عقیدہ کو بھی ردّ کرتا ہے جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاںکہتے تھے ۔
توحید : یعنی خدا کے لئے ساتھی اور شریک قرار دینے سے اپنے عمل اور فکر کو خالص کرنا تاکہ فکر میں شرک اور عمل میں دکھاوانہ آئے بلکہ ارادہ اور مقصد صرف خدا کے لئے ہو اور خود عمل بھی الہی و خدائی ہو ۔
( قل ہو اللہ احد ) وہ یکتا ہے جس کا دوسرا کوئی نہیں ، کوئی اس کی طرح اور اس جیسا نہیں ۔ اس کا جز اور عضو نہیں ۔
( قل ہو اللہ احد ) وہ ایسا معبود ہے جو ہر لحاظ سے منفرد ہے لہٰذا بشر اس کی ذات کو سمجھنے سے عاجز ہے ۔
اس کی یکتائی اور وحدانیت کی دلیل یہ ہے کہ اگر دوسرا خدا ہوتا تو وہ بھی پیغمبروں کو بھیجتا تاکہ اس کو بھی لوگ پہچانیں اور اس کی اطاعت کریں ۔
اس کی وحدانیت کی دلیل یہ ہے کہ تمام انسان خطرے کے وقت صرف ایک مرکز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ صرف ایک مرکز ہے جو مشکلات میں انسان کو امید دیتا ہے ۔
اس کی یکتائی کی دلیل زمین و آسمان ، عالم ہستی اور انسان کے درمیان ہم آہنگی کا ہونا ہے اور یہ کہ تمام مخلوقات کے درمیان گہرا اور منظم رابطہ ہے ۔
اگر آپ ایک تصویر بنانے کے لئے کچھ مصوروں سے کہیں مثلاً ایک سے کہیں کہ مرغ کا سر بنائے دوسرا اس کا بدن اور تیسرا اس کی دم اور اس کے پیر بنائے جس وقت ان تینوں تصویروں کو ایک ساتھ جمع کریں گے تو اس کے سر اور دھڑ کے درمیان تناسب نہیں ہوگا۔ ایک چیز بڑی دوسری چھوٹی ، ایک خوبصورت اور ایک بد صورت ۔
جی ہاں ! سورج ، چاند ، زمین ، پانی ، ہوا ، مٹی ، پہاڑ ، صحرا ، دریا ان سب کا انسان کی ضرورت کے مطابق ہم آہنگ ہونا خداکی یکتائی و وحدانیت کی دلیل ہے ۔ انسان آکسیجن لیتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتا ہے ۔ درخت کاربن ڈائی آکسائڈ لیتے ہیں اور آکسیجن چھوڑتے ہیں تاکہ انسان اور دوسری زندہ مخلوق کی ضرورت پوری ہو اور یہ ہم آہنگی انسان اور درخت کی زندگی کا راز ہے ۔
وہ ( خدا ) نو مولو د بچے کی ضروریات کو والدین کی محبت سے پوری کرتا ہے ۔ دن کی تھکاوٹ کو رات کی نیند سے دور کرتا ہے ۔ آنکھوں کے پانی کو کھارا اور منہ کے پانی کو میٹھا خلق کیا تاکہ ایک سفید رگوں سے بنی آنکھ کو نمک کے پانی سے دھوئے اور ایک کھانے کو چبانے اور ہضم کرنے کے لئے آمادہ کرے ۔ نو مولود کو پھونکنے کے بجائے چوسنا سکھایا اور اس کے پیدا ہونے سے پہلے ماں کے سینے میں دودھ پیدا کیا ۔ بعض پرند وںکی غذا مگرمچھ کے دانتوں کے درمیان قرار دی اور تمام جانوروں کارزق اچھی طرح فراہم کیا ۔
ایک بدو عرب نے جنگ جمل میں حضرت علی ـ سے توحید کے معنی پوچھے ۔ دوسرے فوجیوں نے اس پر اعتراض کیا کہ اس سوال کے پوچھنے کا یہ وقت نہیں ہے !لیکن حضرت نے اس جنگ کے ہنگامہ میں اس کو توحید کے معنی اوراس کی تفسیر بتائی اور فرمایا: ہم اسی معنی کی وجہ سے مخالفین سے جنگ کر رہے ہیں ۔ (١) جی ہاں پوری تاریخ میں پیروان حق کی جنگ اسی توحید کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے تھی ۔
………………………………
١۔ تفسیر نور الثقلین جلد ٥ صفحہ ٧٠٩.


اللہ الصمد
'' اللہ بے نیاز ہے ''۔
'' صمد '' : یعنی جس میں کوئی نفوذ نہ کر سکے ۔ جس میں خلل واقع نہ ہو جو متغیر نہ ہو ۔
وہ صمد ہے :پس مادہ نہیں ہے اور نہ ہی مادہ سے ہے ۔ اس لئے کہ ہر مادی چیز میں زمانہ گزرنے کے ساتھ خلل اور تغیر پیدا ہوتا ہے لہذا وہ نہ تو جسم رکھتا ہے جسے آنکھوں سے دیکھا جاسکے اور نہ ہی قوت جاذبہ کی طرح ہے کہ جو دکھائی نہیں دیتی لیکن مادی خاصیت رکھتی ہے ۔
وہ صمد ہے : جسکی قدرت میں کوئی نفوذ نہیں کر سکتا مگراس کا ارادہ ہر چیز میں نافذ و جاری ہے۔
وہ صمد ہے : اس کی عزت میں خلل واقع نہیں ہوتا اور تمام عزتیں اسی سے ہیں ۔ جو بھی عزت و قدرت رکھتا ہے وہ اسی کی دی ہوئی ہے اور وہ کسی شخص یا کسی چیز کا محتاج نہیں لیکن ساری چیزیں اس کی محتاج ہیں ۔
وہ صمد ہے : اس کی ہستی کامل و اکمل ہے بلکہ مکمل کمال ہے ۔ اس میں تمام کمالات ،کمال کی آخری بلندی کے ساتھ موجود ہیں ۔ تمام موجودات، کمال تک پہنچنے کے لئے اس کی نظرِ لطف و کرم کے محتاج ہیں لیکن وہ کسی موجود کا محتاج نہیں وہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا ۔ اس کا حکم تمام حکموں کے اوپر اس کا ارادہ تمام ارادوں پر حاکم ہے ۔ اس کو نہ سونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کام کے انجام دینے میں کسی مدد یا مددگار کا محتاج ہے ۔
وہ صمد ہے : ایک جملہ میں : سب اس کے نیاز مند ہیں ۔

لم یلد و لم یولد
'' اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد ''۔
وہ موجودات کا خالق ہے نہ کہ ان کو جنم دینے والا ۔ اس کا کام جننا نہیں ہے کہ وہ اپنے جیسے کووجود میں لائے بلکہ وہ عدم سے وجود میں لانے والا ہے ، ماں جس بچہ کو پیدا کرتی ہے وہ بچہ اسی کی جنس سے اوراسی کی طرح یعنی انسان ہوتا ہے لیکن خدا کے لئے مثل و شبیہ کا امکان نہیں کہ خدا اسکو پیدا کرے یا خودکسی سے پیدا ہو (لیس کمثلہ شیئٍ) (١)
یہ جملہ عیسائیوں کے عقیدہ کے مقابلہ میں ہے جو حضرت عیسیٰ ـ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور انکے لئے خدا کی طرح خدائی کے قائل ہیں ۔ اسی طرح یہ آیت مشرکوں کے عقیدہ کے مقابلہ میں بھی ہے کہ وہ لوگ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاںکہتے تھے اور آیت یہ بتاتی ہے کہ خدا نے کسی بچہ کو جنم ہی نہیں دیا جو لڑکا ہوتا یا لڑکی ہوتی۔
وہ کسی سے پیدا نہیں ہو ا ہے کہ اس کو پیدا کرنے والا اس سے پہلے یا اس سے برتر ہو ۔
اس کا وجود پھول سے پھل اوربیج سے درخت کے نکلنے کی طرح نہیں ہے یا بادل سے پانی یا لکڑی سے آگ نکلنے کی طرح نہیں ہے ۔ یا منہ سے بات اور یا قلم سے تحریر کے نکلنے کی طرح نہیں ہے ۔ یا پھول سے خوشبو یا کھانے سے مزہ نکلنے کی طرح نہیں ہے ۔ یا عقل سے فکر یا دل سے سمجھ یا آگ سے گرمی یا برف سے سردی کے نکلنے کی طرح نہیں ہے ۔ وہ ہے لیکن کسی چیز اور کسی شخص سے مشابہ نہیں ہے ۔ نہ وہ کسی چیز میں ہے اور نہ اس میں کوئی چیز ۔ چیزوں سے اس کا رابطہ باپ اور بیٹے کی طرح نہیں ہے بلکہ خالق اور مخلوق کا رابطہ ہے ۔
………………………………
١۔ شوریٰ ١١.

و لم یکن لہ کفواً احد
'' اور نہ اس کا کوئی کفو اور نہ کوئی ہمسرہے ''۔
وجود ، کمال اور افعال میں کوئی اس کے جیسا نہیں ۔ وہ احد ہے اور کوئی اس کے ہم پلہ نہیں ۔ وہ اکیلا ہے بیوی اور بچے نہیں رکھتا ۔ وہ اپنا مثل نہیں رکھتا کہ جو اس کا شریک اور اس کا معاون و مددگار ہو ۔
پھرانسان یہ کیسے ہمت کرتا ہے کہ اس کی مخلوق کو اس کا شریک جانے اور اس کے حق میں اتنے بڑے ظلم کا مرتکب ہو ( ان الشرک لظلم عظیم ) (١)
اے نماز پڑھنے والو ! نہ اس نعمت میں جو خدا کی طرف سے تم کو ملتی ہے ، کسی کو اس کا شریک سمجھو اور نہ اس کام میں جس کو تم انجام دے رہے ہو ، خدا کے علاوہ کسی کو مد نظر رکھو ۔ کیوں کسی ایسے کی نظر کرم کی فکر میں ہو جو تمہارے جیسا ضعیف و محتاج ہے؟! ۔
خدا کی توجہ اور عنایت کو حاصل کرنے کی کوشش میں رہو ۔ کوئی اس کی طرح نہیں ہے نہ وہ ضعیف ہے اور نہ محتاج ۔
سورہ کے آخر میں ہم اسکے بلند مفا ہیم کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔
( قل ہو اللہ احد ) وہ تن تنہا ہے ۔ ذات میں بھی اور صفات میں بھی ۔ پس معبود ہونے کی لیاقت رکھنے میں بھی وہ یکتا و یگانہ ہے ۔
( اللہ الصمد ) صرف وہ بے نیاز ہے اور بقیہ سب اس کے نیاز مند ہیں اور وہ اپنی بے نیازی میں بھی یکتا ہے ۔
………………………………
١۔ لقمان ١٣ .
( لم یلد ) اس نے کسی کو جنم نہیں دیا کہ شبیہ و نظیر رکھتا ہو ۔
( ولم یولد ) وہ ازلی و ابدی ہے ، حادث نہیں ہے کہ کسی چیز سے پیدا ہوا ہو ۔
( ولم یکن لہ کفواً احد ) اور اس کا کوئی کفو اور نظیر نہیں ہے اور نہ شبیہ ہے نہ شریک۔
یہ سورہ ؛ خدا کی ذات اقدس سے شرک ، خرافات ، اوہام ، منحرف عقائد کی تمام جڑوں اور بنیاد وں کی نفی کرتا ہے اور ہمارے لئے خالص اور پاک توحید پیش کرتا ہے ۔
روایتوں کے مطابق اس سورہ کی تمام آیتیں ایک دوسرے کی تفسیر ہیں ۔ (١)

پہلا مرحلہ : ( قل ہو ) کہو وہ ہمارا خدا ہے ۔ وہ جو بشر کی عقل اور فکر سے بالا اور آنکھوں سے غائب و پوشیدہ ہے ۔ اس مرحلہ میں تمام توجہ اس کی ذات پرہے نہ کہ اس کی صفات پر ۔ خود اس کی ذات محبوب اور معبود ہونے کے لئے کافی ہے ۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں ''و کمال الاخلاص نف الصفات عنہ ''(٢) اخلاص کامل یہ ہے کہ اس کی صفتوں پر توجہ کئے بغیر اس کی ذات کو دیکھو ۔ خدا کی عبادت ،خدا کے لئے کرو ، نہ اس لئے کہ اس نے تم کو فراواں نعمتیں دی ہیں ۔

دوسرا مرحلہ : ( قل ہو )وہ اللہ ہے ، ایسا معبود ہے جس میں تمام کمالات پائے جاتے ہیں ۔
اس مرحلے میں ذات و صفات ایک ساتھ آئے ہیں ۔ '' اللہ '' ایسی ذات ہے جس میں تمام نیک صفات پائی جاتی ہیں ، اسی لئے وہ عبادت کی شائستگی رکھتا ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے :
………………………………
١۔ تفسیر نور الثقلین جلد ٥ صفحہ ٧١٤ .
٢۔ نہج البلاغہ خطبہ توحید .
( و للّٰہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بھا ) (١)
تمام اچھے نام اور اچھی صفتیں اس کے لئے ہیں پس اس کو انہیں ناموں سے یاد کرو ۔
خدا کو اس کے صفات کے ذریعہ سے پہچاننا دوسرے مرحلہ میں ہے '' اللّٰہ '' ان تمام صفتوں کا مجموعہ ہے ۔
صفات کے ذریعہ سے خدا کی طرف توجہ ایسا راستہ ہے جو دعاؤں میں ، خصوصا دعائے جوشن کبیر میں جلوہ گر ہے ۔ ہم اس میں خدا وند متعال کو ہزار صفتوں سے یاد کرتے ہیں ۔

تیسرا مرحلہ : ( احد ) وہ یکتا ہے اور یکتائی میں یگانہ وبے مثال ہے ۔
اس مرحلہ میں توحید ِ ذات و صفات پیش ہو رہی ہے ۔ اس کی ذات بھی یگانہ و بے مثل ہے اور اس کی صفتیں بھی بے مثل و بے نظیر ہیں ۔ اس کی ذات و صفات ایک ہیں نہ یہ کہ اس کی صفتیں اس کی ذات سے الگ ہوں ۔
وہ ایسا واحد ہے جس کا دوسرا و تیسرا نہیں ، '' واحد '' اور '' احد '' میں فرق ہے ۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ''کو ئی ایک بھی نہیں آیا''یعنی کو ئی نہیں آیا '' لیکن اگر کہیں کہ ''ایک نہیں آیا''یعنی ہو سکتا ہے کہ دویا اس سے زیادہ لو گ آگئے ہوں۔ قرآن حکیم فرماتا ہے کہ وہ '' احد '' ہے نہ کہ '' واحد '' ۔ وہ یکتا ہے نہ کہ ایک جس کا دوسرا اور تیسرا بھی ممکن ہے ۔

چوتھا مرحلہ : ( اللّٰہ الصمد ) خدا بے نیاز ہے ۔
اس مرحلہ میں بے نیازی جو خدا کی ذات و صفات کا محور ہے جو خدا کی سب سے اہم صفت کے عنوان سے بیان ہو رہی ہے وہ بھی خبر کی صورت میں نہیں جو فرمائے : (اللّٰہ صمد )
………………………………
١۔ اعراف ١٨٠۔
بلکہ اللہ کے لئے مستقل اور دائمی صفت کی صورت میں ہے ۔ لہذا لفظ اللہ کی تکرار ہوئی (اللہ الصمد)
وہ یکتا ہے لیکن بے نیاز ۔ اس کے علاوہ بہت ہیں لیکن سراسر نیاز مند اور تمام نیاز مندوں کی
نظریں صرف اسی بے نیاز کی طرف ہیں ۔

پانچواں مرحلہ : ( لم یلد و لم یولد و لم یکن لہ کفواً احد )
روایتوں کے مطابق یہ مرحلہ ( اللہ الصمد ) کی تفسیر ہے ۔ وہ بے نیاز ہے نہ اولاد کی ضرورت رکھتا ہے کہ اس کو پیدا کرے ۔ نہ ماں باپ کا محتاج ہے جو اسے پیدا کریں نہ اسے بیوی اور نظیر و معاون کی ضرورت ہے جو اس کے کاموں میں اس کی مدد کرے ۔
اگر وہ پیدا ہو تو ازلی نہیں ہے اور اگر پیدا کرے تو ابدی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ کمی و ضعف کی طرف جائے گا اور اگر اپنی طرح اور اپنے جیسا کوئی مثل رکھتا ہو تو بے مقابل اور بغیر رقیب کے نہیں اور خدا ان تمام امور سے پاک و منزہ ہے ( سبحان اللہ عما یشرکون)(١) ………………………………
١۔ طور ٤٣۔