نماز کی تفسیر
 

اھدنا الصراط المستقیم
خداوندا !ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت فرما ۔ کاروان ہستی خداوند عالم کی طرف رواں دواں ہے ۔ (الیہ المصیر ) (١) اور انسان بھی کوشش اور حرکت میں ہے ( انک کادح الی ربک ) (٢) اور ہر حرکت میں صرف ایک راستہ سیدھا ہوتا ہے باقی راستے منحرف کرنے والے ہوتے ہیں، اسلام نے اس حرکت کے لئے راستہ بھی معین کیا اور راستہ دکھانے والا بھی ، جہاں جانا
………………………………
١۔ مائدہ ١٨.
٢۔ انشقاق ٦ .

ہے اس کو بھی مشخص کیا اور آگے بڑھنے کا وسیلہ بھی انسان کے اختیار میں دیدیاالبتہ یہ ہم خودطے کریں کہ ہمیں کس راستہ پر جانا ہے۔
پروردگار عالم نے انسان کی فطرت میں ترقی و کمال اور حق طلبی کی چاہت کو راسخ کر دیا ہے اگر یہ چاہت و کشش انبیاء کی تعلیمات کے سائے میں پروان چڑھے تو خداوند عالم کی خاص عنایت کا باعث ہوگی ( و الذین اھتدوا زادھم ھدیً ) (١) اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کر لی خدا نے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا اور ان کو مزید تقویٰ عنایت فرما دیا ۔ ''
قرآن کریم دو طرح کی ہدایت بیان کرتا ہے ایک ہدایت ِ تکوینی جیسے شہد کی مکھی کی ہدایت کہ پھولوں سے کیسے رس چوسے اور شہد بنائے اور دوسری ہدایت تشریعی ہے جو انسانوں سے مخصوص ہے ۔ یہی ہدایت انبیاء الٰہی کی رہنمائی ہے ۔

صراط مستقیم کونسا راستہ ہے ؟
لفظ صراط، قرآن مجید میں ٤٠ بار سے زیادہ آیا ہے ۔ اس کے معنی : ہموار ، وسیع ، روشن اور چوڑے راستہ کے ہیں ۔ انسان کی زندگی میں متعددراستے موجود ہیں، جن میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ضروری ہے۔
اپنی ہوس کا راستہ ، لوگوں کی ہوس کا راستہ ، طاغوت کا راستہ ، قومی اور نسلی تعصبات کی وجہ سے اپنے اسلاف کا راستہ ، شیطانی وسوسوں کا راستہ ، غیر مجرّب راستہ اور بالآخر خدا اور اولیائے خدا کا راستہ۔
فطری بات ہے کہ خداوند متعال پر اعتقاد رکھنے والا انسان اتنے راستوں میں سے صرف خدا اور اولیائے خدا کے راستہ کا انتخاب کرتا ہے ۔ اس لئے کہ اس راستہ میںایسی خصوصیتیں مو جود
………………………………
١۔ محمد ١٧.

ہیں جو دوسرے راستوں میں نہیں پائی جاتی ہیں۔
٭ یہ سیدھا راستہ ہے جودو نقطوں کے درمیان سب سے چھوٹا راستہ ہے ۔ لہذا مقصد تک پہنچنے کے لئے یہی راستہ سب سے نزدیک راستہ ہے ۔
٭ اللہ کا راستہ ثابت ہے ۔ دوسرے راستے، اپنی یا دوسروں کی ہویٰ و ہوس کی خاطر بدلتے رہتے ہیں ۔
٭ سیدھا راستہ ایک سے زیادہ نہیں ہے اس لئے کہ دو نقطوں کے درمیان صرف ایک سیدھی لکیر ہوتی ہے ۔ لیکن دوسرے راستے زیادہ ہیں ۔
٭ دوسرے راستوں کے بر خلاف مطمئن او ربے خطر راستہ ہے کیو نکہ ان میں انسان ہمیشہ پھسلنے کے خطرے سے دوچار ہتاہے ۔
٭ ایسا راستہ ہے جو انسان کو مقصد یعنی رضائے خدا تک پہنچاتا ہے اس میں شکست اور نا کامی کا وجود نہیں پایا جاتا ۔
٭ سیدھا راستہ ، خدا کا راستہ ہے ( انّ رب علی صراط مستقیم ) (١)
٭ سید ھا راستہ انبیاء کا راستہ ہے( انک لمن المرسلین علی صراط مستقیم) (٢ )
٭ سید ھا راستہ ، خدا کی بندگی کا راستہ ہے ( و ان اعبدون ھذا صراط مستقیم) (٣)
٭ سید ھا راستہ ، خدا پر توکل و انحصار ہے ( و مَن یعتصم باللہ فقد ھُد الی صراط مستقیم ) (٤)
انسان کو چاہیئے کہ راستہ کے انتخاب میں بھی خدا سے مدد مانگے اور اس پر چلنے اور باقی
………………………………
١۔ ہود ٥٦.
٢۔ یٰس ٣، ٤ .
٣۔ یٰس ٦١.
٤۔ آل عمران ١٠١ .

رہنے میں بھی ۔ جیسے بلب کو جلنے کے لئے ہر وقت ٹرانسفارمر سے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لہذا صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ خاصان خدا کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہر نماز میں صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی دعا خدا سے کریں ۔ نہ صرف نماز کی حالت میں بلکہ ہر حال میں اور ہر کام میں ، چاہے کسی کام کا انتخاب ہو یا کسی دوست کا انتخاب ، شادی کا مسئلہ ہو یا حصول علم کا ، ہمیشہ خدا سے چاہیں کہ ہم کو صراط مستقیم پر قرار دے ۔
اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ عقا ئد میں تو انسان کی فکر صحیح ہولیکن عمل میں لغزش پیدا ہو جائے یا اس کے برعکس ۔
٭ صراط مستقیم اعتدال اور میانہ روی کا راستہ ہے ۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں :
'الیمین و الشمال مضلة و الطریق الوسطیٰ ھی الجادة '' (١)
یعنی دائیں بائیں انحراف ہے اور سعادت کا راستہ درمیانی ہے ۔
٭ صراط مستقیم یعنی ہر قسم کی افراط و تفریط سے دوری ، نہ تو حق سے انکار اور نہ حق میں غلو ، نہ جبر اور نہ تفویض، نہ فرد اصل ہے اور نہ سماج سب کچھ ہے ، نہ فقط عقل اور ذہن و خیال اور نہ فقط عمل ، نہ دنیا پرستی اور نہ آخرت سے دوری ، نہ حق سے غفلت اور نہ خلق سے غفلت ، نہ فقط عقل اور نہ فقط جذبات ، نہ پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار دینا اور نہ شہوتوں میں غرق رہنا، نہ کنجوسی اور نہ اسراف ، نہ حسد اور نہ ہی چاپلوسی ، اور نہ ڈرا ور نہ ہی با لکل بے باکی وغیرہ وغیرہ ۔
بلکہ عقیدہ ہو یا فکر وعمل ہو اور یا کردار ، ہر جگہ میانہ روی کا راستہ منتخب کریں ۔
سیدھے راستہ پر چلنے کے لئے ہمیشہ خدا سے مدد مانگیں اس لئے کہ یہ راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے اور ہر وقت گرنے کا خطرہ لاحق ہے ۔ جو شخص یہ چاہتا ہے
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٨٧ صفحہ ٣.

کہ صراط قیامت کو پار کرلے وہ پہلے دنیا میں اللہ کے سید ھے راستہ سے منحرف نہ ہو ۔ چاہے وہ انحراف فکری ہو یا عملی اور یا اخلاقی انحراف ہو۔
کو ئی جبر کا قائل ہو جاتا ہے اور سارے کاموں کو خدا کی طرف منسوب کرتا ہے گویا انسان بے ارادہ اور بے اختیار ہے اور وہ اپنی عاقبت میں کوئی اثر نہیں رکھتا اور دوسرا اپنے ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے ۔ جو دل چاہے وہ کرتا ہے خدا کے ہاتھ میں کچھ نہیں جانتا ۔ ایک آسمانی رہبروں کو عام لوگوں کی طرح سمجھتا ہے اور دوسرا ان کوخدا کے برابر بلند کرتا ہے اور حضرت مسیح ـ کو خدا کا بیٹا بلکہ خدا ہی سمجھتا ہے۔
ایک اولیائے خدا کی زیارت اور ان سے توسل کو شرک جانتا ہے دوسرا حتی درخت اور دیوار سے بھی متوسل ہوتا ہے ۔ ایک بے جا غیرت کی بنا پر اجازت نہیں دیتا کہ اس کی بیوی گھر سے باہر نکلے ۔ دوسرا بے غیرتی کی بنا پر اپنی بیوی کو بے پردہ کوچہ و بازار میں بھیجتا ہے ۔ یہ سب خدا کے سیدھے راستہ سے انحراف ہے ۔ خدا ارشاد فرماتا ہے : آپ کہہ دیجیئے کہ میرے پروردگار نے مجھے سیدھے راستہ کی ہدایت دی ہے جو ایک مضبوط دین ہے ( قل انن ھدیٰن رب الی صراط مستقیم دینا قیما ) (١)
دوسری جگہ پر ارشاد فرماتا ہے کہ : ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تا کہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو ( جعلنا کم امة وسطا لتکونوا شھداء علی الناس ) (٢)
روایتوں میں آیا ہے کہ ائمہ معصومین ٪ فرماتے ہیں کہ مستقیم راستہ ہم ہیں ۔یعنی صراط مستقیم کے حقیقی اور عملی نمونے اور اس راستہ پر چلنے کیلئے آسمانی رہبرہمارے لئے نمو نہ ٔ عمل ہیں۔
………………………………
١۔ انعام ١٦١.
٢۔ بقرہ ١٤٣.

انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے تمام مسائل جیسے کام کاج ،تفریح ،تعلیم، تنقید، انفاق ، محبت ، غصہ اور صلح کے مواقع پرہم کو اعتدال اور میانہ روی کی تاکید فرمائی ہے ۔ اصول کافی کے باب ''الاقتصاد ف العبادات '' میں یہ احکام و تاکیدات آئی ہیں ۔
ہم یہاں پر ان آیات اور روایات کے کچھ نمونے جن میںاعتدال کی تاکید اور افراط و تفریط سے منع کیا گیا ہے ،پیش کر رہے ہیں :
( کلوا و اشربوا و لا تسرفوا ) (١) کھاؤ اور پیولیکن اسراف نہ کرو ۔
( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطھا کل البسط)(٢) اور خبردار ! اپنے ہاتھوں کو گردنوں سے بندھا ہوا قرار نہ دو اور نہ بالکل پھیلا دو ۔ یعنی انفاق میں نہ تو ہاتھ بند رکھو اور نہ ہی اتنا خرچ کروکہ خود بھی محتاج ہو جاؤ ۔
( الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما )(٣) اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اوسط درجہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔
( لا تجھر بصلوتک و لا تخافت بھا و ابتغ بین ذلک سبیلا)(٤) اور اپنی نمازوں کو نہ چلّا کر پڑھو اور نہ بہت آہستہ آہستہ بلکہ دونوں کا درمیانی راستہ نکالو ۔
( و الذین معہ اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم ) (٥) اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں ۔
………………………………
١۔ اسراء ٢٩ .
٢۔ فرقان ٦٧.
٣۔ اسراء ١١٠ .
٤۔ فتح ٢٩ .
٥۔ اعراف ٣١.

( اقیموا الصلاة و آتوا الزکاة ) (١) نماز قائم کرو اور زکات ادا کرو ۔ یعنی اللہ سے بھی رابطہ رکھو اور مخلوق سے بھی مربوط رہو ۔
( الذین آمنوا و عملوا الصالحات ) (٢) اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ۔ یعنی ایمان اورقلبی یقین کے ساتھ ساتھ عمل صالح بھی ہو ۔
اگرچہ قرآن فرماتا ہے ( و بالوالدین احسانا ) (٣) اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو لیکن دوسری جگہ پر ارشاد فرماتا ہے : '' اگر تم کو خدا کے راستہ سے روکیں تو انکی اطاعت کرنا جائز نہیں '' ( فلا تطعھما) (٤)
حق بیانی سے نہ تمہاری دوستیاں تم کو روکیں ( شھداء للہ ولو علی انفسکم) (٥) اور نہ تمہاری دشمنیاں تم کو عدالت سے دور کریں ( و لا یجر منکم شنئان قوم علی ان لا تعدلوا ) (٦)
امام حسین ـ شبِ عاشور خدا سے مناجات بھی کر رہے تھے اور شمشیر بھی تیز کر رہے تھے ۔
حاجی حضرات روز عرفہ اورشبِ عید قربان دعا پڑھتے ہیں اور عید قربان کے روز ضروری ہے کہ قربان گاہ میں جاکر قربانی اور خون دینے کے مزہ سے آگاہ ہوں ۔
مختصر یہ کہ دین اسلام کا صرف ایک ہی رخ نہیں ہے کہ کسی ایک پہلو پر توجہ کی جائے اور دوسرے پہلو کو فراموش کردیا جائے بلکہ اس نے انسانی وجودکے تمام پہلووںپر اعتدال ا ور میانہ روی کے ساتھ توجہ کی ہے ۔
………………………………
١۔ بقرہ ٤٣.
٢۔ بقرہ ٨٢
٣۔ بقرہ ٨٣.
٤۔ عنکبوت ٨ .
٥۔نساء ١٣٥.
٦۔ مائدہ ٨.


صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و لاالضآلین
''جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کیں ہیں ،ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں ''۔
نماز پڑھنے والا صراط مستقیم کی درخواست کے ساتھ خدا سے چاہتا ہے کہ اس کو اسی راستہ کی ہدایت کرے جو اللہ کی نعمت پانے والوں کا راستہ ہے ۔
قرآن کریم سورۂ نساء کی ٦٩ ویں آیت اور سورۂ مریم کی ٥٨ ویں آیت میں ایسے لوگوں کا تعارف کراتا ہے ۔
یہاں پر ہم سورۂ نساء کی ٦٩ ویں آیت کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں (و من یطع اللہ و الرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین و الصدیقین و الشھداء و الصالحین و حسن اولئک رفیقاً ) اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کیں ہیں ۔ یہ لوگ انبیاء ،صدیقین ، شہدا، اور صالحین ہیں اور یہی بہترین رفقاء ہیں ۔
پس اسی بناء پر نماز پڑھنے والا خدا سے یہ چاہتا ہے کہ اس کو انبیاء و شہداء اور صالحین کے راستہ پر قرار دے ۔ ان نیک او رپاک لوگوں کے راستہ پر چلنے کی آرزو انسان کو کجروی او ربے راہ روی کے خطرہ سے محفوظ رکھتی ہے ،اور اس سے ان لوگوں کی یاد نماز پڑھنے والوں کے ذہن میں مستقل زندہ رہتی ہے ۔

گمراہ اور جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا وہ کون لوگ ہیں ؟
قرآن مجید میں فرعون ، قارون ، ابولہب اور عاد و ثمود اور بنی اسرائیل جیسی اقوام کو ان لوگوںکے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے جن پر قہر الٰہی نازل ہو ا ہے ۔ ہم ہر نماز میں خداوند متعال سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے عقیدہ اور اخلاق و عمل میں ان لوگوں اور ان قوموں کی طرح نہ ہوں جن پر اللہ کا قہر نازل ہوا ہے ۔
بنی اسرائیل ، جن کی داستان اور حالات و رسومات کو قرآن مجید میں زیادہ بیان کیا گیا ہے ، یہ لو گ ایک وقت اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت رکھتے تھے ۔ خدا وند عالم ان لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے ( فضلتکم علی العالمین ) (١) ہم نے تم کو عالمین پر فضیلت دی ۔ لیکن اتنی فضیلت و برتری کے بعد بھی ان کے غلط کردار و عمل کی وجہ سے خدا وند عالم نے ان پر اپناغضب نازل کردیا ۔ قرآن اس بارے میں فرماتا ہے : (وبائ و بغضب من اللہ ) (٢) ان کی اس عاقبت و انجام کی تبدیلی ان کے عمل و کردار کی تبدیلی کی وجہ سے تھی۔
یہودی علماء نے توریت کے آسمانی احکام میں تحریف کر دی( یحرفون الکلم ) (٣) ان کے تاجروں اور ثروت مندوں نے سود خوری اور حرام خوری شروع کردی( و اخذھم الربائ)(٤) اور پوری قوم نے ڈر اور جان بچانے کی خاطر جہاد اور لڑائی سے منہ موڑ لیا اور حضرت موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا خدا جنگ کرنے کے لئے جاؤ ہم یہیں بیٹھے ہیں ( فاذھب انت و ربک فقاتلا انا ھیٰھنا قاعدون ) (٥)
یہی فکری و عملی انحراف باعث بنا کہ خدا نے ان کو عزت کی بلندی سے ذلّت کی کھائی میں پھینک دیا اور ہمیشہ کے لئے شرمندگی سے ان کی گردنوں کو جھکا دیا ۔ پس ہر نماز میں خدا سے یہی دعا کریں کہ آسمانی کتاب کی تحریف کرنے والوں میں سے نہ ہوں اور نہ ہی سود کھانے والوں اور نہ
………………………………
١۔بقرہ ٤٧.
٢۔ بقرہ ٦١.
٣۔ مائدہ ١٣.
٤۔ نساء ١٦١.
٥۔ مائدہ ٢٤.

جنگ و جہاد سے بھاگنے والوں میں سے ہوں اور نہ گمراہوں میں سے ہوں اور نہ ان لوگوں میں سے جو راستہ بھٹکنے والے کی طرح پریشان حال اور سرگردانی میں مبتلا ہیں اور ہر وقت کسی مقصد کے بغیر کسی بھی طرف چل دیتے ہیں ۔ یہ لوگ حالات کے ساتھ بد لتے رہتے ہیں اورخود اپنے اوپر اختیار نہیں رکھتے ہیں ۔
( ضآلین ) نہ تو ( انعمت علیھم ) کی طرح ہیں جو انبیاء اور نیک لوگوں کے راستہ پر ہوں اور نہ ہی ( المغضوب علیھم ) کی طرح ہیں جو دین خدا کے مقابلہ میں سینہ تان کر جنگ کرتے ہیں بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو لا پر واہ ، بے درد او رآرام طلب ہیں اور جانوروں کی طرح صرف پیٹ اور شہوت کی فکر میں ہیں ۔ حق و باطل سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ۔ ان کے لئے کچھ فرق نہیں کہ پیغمبران پر حاکم ہوں یا طاغوت اور سرکش ۔ اہم یہ ہے کہ ان کے لئے دنیاوی عیش و آرام ہو ، چاہے جو بھی حکومت کرے ۔ ایسے لوگ گمراہ ہیں اس لئے کہ انہوں نے اپنا راستہ معین نہیں کیا ۔

یہ آیت مکمل طور سے تولّا اور تبرّا کی مصداق ہے ۔
نماز پڑھنے والا سورہ کے آخر میں شہداء اور صالح لوگوں سے اپنے عشق و محبت اور تولّا کا اظہار کرتا ہے اور تاریخ کے گمراہوں اور جن پرغضب ِ خدا نازل ہواہے ان سے برائت اور دوری اختیار کرتا ہے ۔ گمراہوں اور قہر کا نشانہ بننے والوں سے ہر نماز میں اظہار نفرت ہی اسلامی معاشرے کو ایسے لوگوں کی حکومت کے مقابلہ میں مضبوط اور پائدار بناتا ہے۔ قرآن مجید تاکید فرماتا ہے : (لا تتولوا قوما غضب اللہ علیھم ) (١) خبر دار اس قوم سے ہرگز دوستی نہ کرنا جس پر خدا نے غضب نازل کیا ہے ۔ ''
………………………………
١۔ ممتحنہ ١٣.