نماز کی تفسیر
 

الحمد للہ
حمد ، مدح ، شکر کے کلمات ولو ظاہراً ایک ہی معنیٰ میں ہیں لیکن ہر ایک کا استعمال خاص جگہ پر ہوتا ہے ۔ جیسے لفظ مدح کے معنیٰ تعریف کے ہیں چاہے سچی تعریف ہو اور چاہے ناحق اور چاپلوسی کی وجہ سے تعریف ہو ۔ یہ تعریف چاہے کسی کے کمالات کی خاطر ہو یا ڈر اور لالچ کی بنا پر سامنے والے کو دھوکہ دینے کی وجہ سے یا چرب زبانی کی وجہ سے ہو۔
لفظ شکر کے معنیٰ اس خیر و نیکی کے مقابلہ میں شکریہ ادا کرنا ہے جو دوسروں سے انسان تک پہنچی ہے ۔ لیکن لفظ '' حمد '' میں تعریف و شکر کے علاوہ دوسرے معانی بھی پوشیدہ ہیں اور وہ معانی عبادت ا ور پرستش کے ہیں ۔یعنی ایسا شکرا ور تعریف جو عبادت کی حد تک پہنچے وہ حمد ہے پس مد ح و شکر دوسروں کے لئے جائز ہے لیکن حمد فقط خدا سے مخصوص ہے اس لئے کہ عبادت فقط خدا سے مخصوص ہے ۔
اگر چہ ( الحمد للہ ) کے بعد خدا کی چار صفتیں آئی ہیں ۔ رب العالمین ، الرحمن ، الرحیم ، مالک یوم الدین۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ انسان خدا کی عظمت و الطاف کی خاطر ہمیشہ اس کی حمد کرے ۔ لیکن ان سب سے پہلے '' للہ '' آیا ہے یعنی حمد صرف خدا کے لئے ہے ۔ اگر فرض کریں کہ خدا کی یہ صفتیں حمد کے ساتھ نہ بھی آئی ہوتیں تو بھی حمد، اللہ ہی کے لئے ہے کیونکہ وہی عبادت کے لائق ہے ۔

ربّ العالمین
خدا ہر چیز کا پروردگار ہے ۔ جو چیزیں بھی زمین و آسمان کے درمیان ہیں خدا ان سب کا پروردگار ہے۔
( ربّ السمٰوات و الارض و ما بینھما )(١)و ( ھو ربّ کل شیٔ)(٢)
حضرت علی ـ عالمین کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
'' من الجمادات و الحیوانات '' یعنی وہ جمادات و حیوانات ، جاندار و بے جان سب کا پروردگار ہے ۔
اگرچہ کبھی قرآن میں ( عالمین )سے انسان مراد ہیں ۔ لیکن بیشتر جگہوں پر عالم یعنی مخلوقات اور عالمین کے معنیٰ تمام مخلوقات ہیں ۔ اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ تمام عالم ہستی
………………………………
١۔ مریم ٦٥.
٢۔ انعام ١٦٤.

کا پروردگار ہے ۔ لہٰذازمانہ ٔ جاہلیت یا دوسری قوموں میں جویہ عقیدہ رائج تھا کہ ہر موجود کے لئے ایک الگ خدا ''ربّ النوع'' ہے یہ ایک باطل فکر ہے ۔ خدا وند عالم نے ہر موجود کی خلقت کے بعد اسکی ترقی و تکامل کا راستہ معین کر دیا ہے اور الہی تربیت ہی اس کی ہدایت کا راستہ ہے ۔ ( ربّنا الذ اعطیٰ کل شیئٍ خلقہ ثم ھدیٰ ) (١) ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کے مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے ۔
اللہ وہ ہے جس نے شہد کی مکھی کویہ سکھایا کہ پھول سے کیسے شہد نکالے ، چیونٹی کو سکھایا کہ سردی کے لئے میں کیسے اپنی غذا ذخیرہ کرے اور انسان کے بدن کو ایسا بنایا کہ خود بخود خون بنائے ۔ ہاں ایسا خدا شکر و ستائش کے لائق ہے انسان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جمال و کمال کی تعریف اور نعمت و احسان کا شکریہ ادا کرتا ہے۔خداوند عالم اپنے کمال و جمال کی وجہ سے تعریف کے لائق اور نعمت و احسان کی وجہ سے شکر کا حقدارہے ۔
البتہ خدا کے شکر کے ساتھ مخلوق کا شکر ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر شرط یہ ہے کہ خدا کے حکم سے ہو اور اس کے راستے سے ہٹ کر نہ ہو ۔ اگرچہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو شخص بھی جس زبان میں بھی جس طریقے سے بھی دوسروں کی تعریف کرتا ہے وہ در حقیقت اس کے خالق اور سرچشمہ کی حمد کرتا ہے ۔
(ربّ العالمین) یعنی خدا اور مخلوقات کے درمیان کا رابطہ مضبوط اور دائمی رابطہ ہے ۔
( ربّ العالمین ) یعنی ترقی و تربیت کا امکان سب کے لئے موجود ہے ۔ فقط اچھے لوگ ہی نہیں بلکہ برے لوگ بھی خدا کی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہیں: ( کُلَّا نمد ھولاء و
ھولاء ) (٢)
………………………………
١۔ طہٰ ٥٠.
٢۔ اسراء ٢٠.

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے : کہ ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ہر ایک کے لئے میدان فراہم ہے تاکہ وہ اپنے مقصد تک پہنچ سکے ۔
لیکن چونکہ دنیا رکاوٹوں ا ور مزاحمت کی جگہ ہے لہٰذا طبیعی ہے کہ ہر شخص اپنی تمام آرزؤں تک نہیں پہنچ سکتا ۔
( ربّ العالمین )یعنی خداوند ہر چیز کا مالک بھی ہے اور ان کا پا لنے والا بھی ۔ لفظ ''ربّ '' کی اصل یا '' ربی '' ہے جس کے معنیٰ رُشد و تربیت ہیں۔ یا یہ لفظ '' ربّ'' سے لیا گیا ہے جس کے معنیٰ صاحب کے ہیں ۔ یعنیٰ خدا وند متعال دنیا کا صاحب بھی ہے اور اس کی تربیت کرنے اور اسے پالنے والا بھی۔( لہ الخلق و الامر تبارک اللہ ربّ العالمین ) (١)
اسی کے لئے خلق بھی ہے اور امر بھی وہ نہایت ہی صاحب برکت اللہ ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے ۔
روایتوں کے مطابق کلمہ ( الحمد للہ ربّ العالمین ) خدا کی نعمتوں کا بہترین شکریہ ہے لہٰذا تاکید کی گئی ہے کہ ہر دعا سے پہلے خدا وند متعال کی حمد کرو ،ورنہ دعا ادھوری ہے ۔
نہ صرف دعا و مناجات سے پہلے بلکہ اہل بہشت ہر کام کے آخر میں بھی اسی ذکرکی تکرار کرتے ہیں : ( و آخر دعواھم انِ الحمد للہ ربّ العالمین ) (٢)

الرحمن الرحیم
ان دو کلموں کا ترجمہ ''بخشنے والا مہربان ''،کامل اورجامع ترجمہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ علامہ شہید مطہری کے بقول بخشنے والا مہربان ؛ جواد و رؤف کا ترجمہ ہے نہ کہ رحمن و رحیم کا ۔ حقیقت یہ ہے
………………………………
١۔اعراف ٥٤.
٢۔ یونس ١٠.

کہ فارسی حتی اردومیں ان دونوں لفظوں کا ترجمہ یا اس کا ہم معنی لفظ موجود نہیں ہے ۔
گرچہ '' رحمن '' و ''رحیم '' یہ دونوں لفظ '' رحمة '' سے ماخوذ ہیں ، لیکن رحمن ، اللہ کی اس وسیع رحمت کو کہا جاتا ہے جو ابتدائی رحمت ہے اور جو تمام انسانوں کے لئے ہے ۔ لیکن رحیم ایسی رحمت ہے جو نیک لوگوں کے اچھے اعمال کے نتیجہ و جزا میں صرف انھیںپر نازل ہوتی ہے ۔ لہذا امام جعفر صادق ـ کے ارشاد کے مطابق خدا وند عالم تمام مخلو قات کے لئے ''رحمن ''ہے لیکن صرف مو منین کے لئے ''رحیم ''ہے ( کتب علی نفسہ الرحمة )(١)اس کی کتاب؟اورپیغمبر ۖ دونوں ہی عالم ہستی کے لئے رحمت ہیں : ( رحمة للعالمین)(٢)
اس کا نظام تعلیم تربیت رحمت کی بنیاد پر استوار ہے اس کی سزا و عذاب معلم کی چھڑی کی طرح تربیت کے لئے لازمی اور ضروری ہے ۔ گناہوں کی بخشش،اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنا اور ان کے عیوب کو چھپانا ،پچھلی کمیو ں کی تلافی کے لئے فرصت دینا اس کی وسیع رحمت کے جلوے ہیں ۔
در حقیقت عالم ہستی اس کی رحمت کا جلوہ ہے ۔ اس کی طرف سے ہر موجود کو جو بھی پہنچتا ہے اس کا لطف و رحمت ہے ۔ لہذا قرآن کریم کی ساری سورتیں( بسم اللہ الرحمن الرحیم) سے شروع ہوتی ہیں ۔
رب العالمین کے سا تھ الر حمن الر حیم یعنی تر بیت الٰہی کی بنیاد رحمت و کرم ہے جس طرح اس کی تعلیم بھی رحم و کرم پر استوار ہے ۔
( الرحمن علم القرآن ) (٣) یعنی مہربان خدا نے انسان کو قرآن کی تعلیم دی ہے ۔
یہ ہم انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ استاد اور تربیت دینے والا ہمیشہ مہربان و رحیم ہوناچاہئے ۔
………………………………
١۔ انعام ١٢.
٢۔ انبیاء ١٠٧ .
٣۔ الرحمن ٢.


مالک یوم الدین
وہ روز جزا ( قیامت ) کا مالک ہے ۔ خدا مالک بھی ہے اور مَلِک بھی۔ عالم ہستی؛ اس کی مالکیت کے تحت مِلک ہے اور مُلک اس کی حکومت و سلطنت کے تحت ہے ۔ اس کی مالکیت بہت وسیع ہے جس میں ساری چیزیں شامل ہیں حتی حکومت بھی اس کی مالکیت کے تحت ہے:
( قل اللّٰھم مالک الملک ) (١)
جیسا کہ انسان بھی اپنے اعضائے بدن کا مالک بھی ہے اور ان کا حاکم و فرمانروا بھی ۔
خداوند عالم کی مالکیت حقیقی ہے نہ کہ اعتباری ، فرضی اور بنا ئو ٹی ۔ خدا دنیا کا بھی مالک ہے اور آخرت کا بھی ۔ لیکن چونکہ انسان دنیا میں خود کو اشیاء اورامور کا مالک سمجھتا ہے لہٰذا ان کے اصل مالک ( خدا ) سے غافل ہو جاتا ہے ۔ البتہ اس روز جب تمام اسباب منقطع اور نسبتیں مفقود ہو جائیں گی اور زبانوں پر مہر لگ جائے گی اس وقت خدا کی مالکیت کا اچھی طرح احساس کرے گا اور اس کی سمجھ میں آجائے گاایسے شخص سے خطاب ہوگا ( لمن الملک الیوم )آج حکومت کس کی ہے؟ اور جب اس کی آنکھیں کھلیں گی تووہ کہے گا ( للہ الواحد القھار ) (٢)
نمازی ہر نماز میں جویہ کہتا ہے خدا ( مالک یوم الدین )ہے اس سے ہمیشہ معاد و قیامت یاد رہتی ہے اور وہ ہرکام کرنے سے پہلے حساب و کتاب اور روز جزا کی فکر کرتا ہے ۔
………………………………
١۔ آل عمران ٢٦.
٢۔ مؤمن ١٦.


لفظ دین
کلمۂ دین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے :
١) شریعت و قانون الہی : جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :
( انّ الدین عند اللہ الاسلام ) (١)
دین ؛ اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے ۔
٢) عمل و اطاعت : جیسا کہ قرآن فرماتا ہے ( للہ الدین الخالص )(٢) دین خالص ( عمل خالص ) خدا کے لئے ہے ۔
٣) حساب و جزا : جیسا کہ آیۂ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے ( مالک یوم الدین) قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ( یوم الدین )ہے ۔ یعنی جزا و سزا کا دن ۔ چنانچہ قرآن مجید قیامت کا انکار کرنے والوں کی بات نقل کر رہا ہے کہ ( یسئلون ایان یوم الدین )(٣) یہ پوچھتے ہیں کہ آخر قیامت کا دن کب آئے گا؟
دوسری جگہ پر اسی دن کے تعارف میں فرماتا ہے : ( ثم ما ادریٰک ما یوم الدین یوم لا تملک نفس لنفس شیئا و الامر یومئذ للہ )(٤)
پھر تمہیں کیا معلوم کہ جزا (قیامت)کا دن کیسا ہے ؟ ! اس دن کوئی کسی کے بارے میں کسی قسم کا اختیار نہ رکھتا ہوگا اور سارا اختیار اللہ کے ہاتھوں میں ہوگا ۔
( مالک یوم الدین )ایک طرح کی دھمکی ہے کہ اے نماز پڑھنے والو ابھی سے کل کی فکر میں رہو ۔ کل کا دن ( لا ینفع مال و لا بنون )ہے(٥) جس دن مال اور اولاد کوئی کام نہ آئے گا ۔
………………………………
١۔ آل عمران ١٩.
٢۔ زمر ٣.
٣۔ ذاریات ١٢.
٤۔ انفطار ١٩.
٥۔شعراء ٨٨ .

ایسا کل کہ ( لن تنفعکم ارحامکم ) (١) یقینا تمہارے قرابت دار اور تمہاری اولاد روزِ قیامت کام آنے والی نہیں ہے ۔ وہ ایسا کل ہے کہ جس میں نہ زبان کو عذر پیش کرنے کی اجازت ملے گی اور نہ فکر کو تدبیر کرنے کی ، صرف ایک چیز کارساز و چارہ ساز ہوگی اور وہ ہے لطف خدا ۔
( الرحمن الرحیم ) کو ( مالک یوم الدین )کے ہمراہ قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ڈر اور امید ایک ساتھ ہوں ۔ تشویق و تنبیہ ایک ساتھ ہو ۔
جب کہ قرآن کر یم ایک دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے
( نبیٔ عباد انّ انَا الغفور الرحیم و انّ عذاب ھو العذاب الالیم )(٢)
میرے بندوں کو خبر کر دو کہ میں بہت بخشنے والا اور مہربان ہوں اور میرا عذاب بھی بڑا درد ناک ہے ۔
دوسری آیت میں قرآن مجید خدا کو اس طرح سے پہچنوا رہا ہے
( قابل التوب شدید العقاب ) (٣)
یعنی خداوند عالم توبہ کا قبول کرنے والا بھی ہے شدید عذاب کرنے والا بھی ہے ۔
بہر حال ( الرحمن الرحیم ) امید دینے والا ہے اور ( مالک یوم الدین ) ڈرانے والا جملہ ہے ۔ مسلمان کو چاہیئے کہ ڈر اور امید کے درمیان رہے تاکہ نہ تو غرور پیدا ہو اور نہ ہی رحمت الہی سے مایوسی ۔
………………………………
١۔ ممتحنہ ٣.
٢۔ حجر ٤٩ ، ٥٠.
٣۔ غافر ٣.


ایاک نعبد و ایاک نستعین
پروردگار! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ (ایاک
نعبد ) یعنی صرف تیرے بندے ہیں ، دوسروں کے بندے نہیں ۔ اس جملہ کے دو رخ ہیں ۔ ایک اس کی بندگی کا اقرار ، دوسرے غیروں کی بندگی سے انکار ۔
جی ہاں ! کامل مکتب ؛ خدا کے ایمان کے ساتھ طاغوت سے بھی انکار کرتا ہے اور جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں لیکن طاغوت کی حکمرانی بھی قبول کرتے ہیں وہ لوگ آدھے مسلمان ہیں اور شاید مسلمان ہی نہیں ہیں ۔ خداوند عالم پر ایمان اور اس کے ساتھ طاغوت سے انکار یعنی ایک مسلمان قیدی شرک کے، بھنور میں پھنسنے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے یگانگت و قدرت کے مرکز میں پناہ حاصل کرے ۔
لہٰذا نماز پڑھنے والا نماز میں صرف اپنے کو نہیں دیکھتاکہ اپنی فکر میں رہے بلکہ تمام توحید پرستوں کی نمائندگی میں بات کرتا ہے کہ : خدایا ! میں تنہا اس قابل نہیں کہ تیری عبادت کی لیاقت رکھتا اسی لئے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ آیا ہوں اور ہم سب تیری ہی عبادت کریں گے نہ فقط میں ،بلکہ ہم سب لوگ تجھ سے مدد چاہتے ہیں ۔اسی بنا پر اصل میں نماز کوجماعت سے پڑھنا چاہیئے اور فرادیٰ نماز ،توجماعت قائم نہ ہونے پر ہے ۔
اس سے پہلی والی آیتوں نے ہم کو توحید نظری اور خدا کی صحیح شناخت کرائی اور یہ آیت توحید عبادی و عملی کوبیان کر رہی ہے یعنی نہ صرف یہ کہ خدا کو ایک جانو بلکہ عمل میں بھی صرف ایک کی عبادت کرو اور یگانہ پرست رہو ۔
تم کیوں رحمن و رحیم ، ربّ اور مالک خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی غلامی اختیار کرتے ہو؟! صرف خدا کے بندے رہو نہ مشرق و مغرب کے اور نہ مال و طاقت کے بندے اور نہ ہی طاغوت کے۔ حتی صالح و نیک لوگوں کی اطاعت و بندگی کا بھی تمہیں حق حاصل نہیں ، مگریہ کہ جب خدا اجازت یا حکم دے ۔ چنانچہ اپنے پیغمبر ۖ کے بارے میں فرماتا ہے (مَن یطع الرسول فقد اطاع اللہ ) (١) '' جس نے رسول ۖ کی پیروی کی اس نے خدا کی پیروی کی '' ۔ چنانچہ اگر والدین کی اطاعت کریں اس لئے کہ اس نے حکم دیا ہے تو یہ حقیقت میں خدا کی اطاعت ہے ۔
انسان کو چاہیئے کہ اپنی عقل کی بنا پر فقط خدا کی بندگی قبول کرے ، اس لئے کہ ہم انسان ؛ کمال کے عاشق ہیں اور ترقی و تربیت کے محتاج ،اور خداوند عالم میں تو تمام کمالات پائے جاتے ہیں اور وہ تمام مخلوقات کا ربّ ہے ۔
اگر ہم مہر و محبت کے ضرورت مند ہیں تو وہ رحمن و رحیم ہے ۔
اگر آئندہ کے بارے میں فکر مند ہوں تو وہ صاحب اختیار ہے اور اس دن کا مالک ہے پھر کیوں دوسروں کی طرف جائیں اور ان سے مدد چاہیں ؟ !۔
( ایاک نعبد ) یعنی لوگوں کے ساتھ ہیں لیکن تیرے علاوہ کسی اور کو نہیں چاہتے اور نہ مسلمانوں کے سماج اور معاشرے سے الگ ہوئے ہیںکہ تیری مخلوق کو بھول جائیں اور نہ ہی معاشرے میں ڈوب گئے کہ تجھ خالق کو چھوڑ دیں بلکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا کی طرف جانے والا راستہ مخلوق کے درمیان سے گزرتا ہے ۔
( ایاک نستعین ) یعنی اگرچہ وہ اسباب اور وسائل جو تو نے دنیا میں قرار دیئے ہیں ، ہم ان کواستعمال کرتے ہیں لیکن یہ جانتے ہیںکہ ہر وسیلہ کا اثر اور سبب کا مؤثرہونا تیرے ہاتھ میں ہے ۔ تو سب کو با اثر یا بے اثر کرنے والا ہے ۔ تو ہر چیز کو سبب بنانے والا ہے اور تو ہی اس کے اثر کو ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ تیرا ارادہ تمام قوانین پر حاکم ہے اور کا ئنات تیرے ارادے کے سامنے محکوم و مجبور ہے ۔
( ایاک نعبد ) یعنی صرف تو عبادت کے لائق ہے اور ہم ڈر اور لالچ کی وجہ سے نہیں
………………………………
١۔ نساء ٨٠.

بلکہ عشق و محبت کی وجہ سے تیری عبادت کرتے ہیں کون سا محبوب تیرے علاوہ ہم سے نزدیک تر اور مہربان تر ہے ؟
( ایاک نعبد و ایاک نستعین )یعنی نہ تو جبر اور نہ ہی تفویض ۔ کیونکہ ہم '' نعبد '' کہتے ہیں پس اختیار کے مالک ہیں اور چونکہ '' نستعین '' کہتے ہیں پس محتاج ہیں اور تمام امور ہمارے اختیار میں نہیںہیں۔
( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) یعنی نماز کو جماعت سے پڑھتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ ایک صف میں بھائی چارگی اور انسانیت کے ساتھ متحد ہیں ۔
( ایاک نعبد ) یعنی خدایا تجھ کو ہم اپنے اوپر حاضر و ناظر سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے کہتے ہیں ( ایاک ) اور وہ بندے جو تجھے حاضر و ناظر سمجھتے ہیں وہ جلدی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
ہم سورۂ حمد کے شروع میں خدا سے غائبانہ باتیں کر رہے تھے لیکن یہاں پر اس کے سامنے اور براہ راست منزل خطاب میں پہنچتے ہیں ۔ پہلے خدا کی صفات سے آگاہ ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ خود اس تک پہنچتے ہیں اور وہ بھی صرف ایک مرتبہ نہیں چونکہ محبوب سے گفتگو شیریں ہوتی ہے اس لئے لفظ (ایاک) کی تکرار کرتے ہیں ۔
خدایا ! اگر چہ عبادت ہم کررہے ہیںلیکن عبادت کرنے میں بھی تیری مدد کے حاجتمند ہیں :
(و ما کنا لنھتد لولا انْ ھدٰنا اللہ ) (١)
اور اگر اس ( خدا ) کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم یہاں تک آنے کا راستہ نہیں پا سکتے تھے۔
اگرچہ ہم صرف اسی سے مدد چاہتے ہیں لیکن دوسروں سے مدد حاصل کرنا اگر اس کی مرضی سے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ بالکل اس طرح جیسے انسان اپنی استعداد ، طاقت اور فکر سے مدد لیتا
ہے یہ وحدانیت کے خلاف نہیں ہے خدائے تعالیٰ نے خود ہم کو حکم دیا ہے ( تعاونوا) اس لئے کہ زندگی مدد کے بغیرممکن نہیں ہے۔
حضرت علی ـ نے ایک شخص سے (جو یہ دعا کر رہا تھا کہ خدایا ہم کو لوگوں کا محتاج نہ کر نا) فرمایا : یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ یہ کہو خدایا ہم کو برے لوگوں کا محتاج نہ کر نا، اس لئے کہ زندگی بغیر مدد اور تعاون کے ممکن نہیںہے ۔
سچے دل سے ( ایاک نعبد )کہنے والے میںتکبر و غرور اور خود پسندی نہیں رہتی اور وہ خدا کے حکم کے آگے خاضع اور اس کی اطاعت کرنے والا ہے ۔ وہ یہ جانتا ہے کہ خدا وند متعال نے کیو نکہ بہت زیادہ اس پر لطف کیا ہے لہٰذا آخری حد تک اپنے کو حقیر بنا کے اس کی بارگاہ میں پیش کرے جیسے مجسم غلام اپنے مطلق آقا کے سامنے کھڑا ہو اور نہایت خضوع کے ساتھ کہے کہ : ہم تیرے بندے ہیں اور تو ہمارا مولا و آقا ۔ تیرے علاوہ ہمارا کوئی نہیں لیکن تیرے لئے ہمارے علاوہ بہت ہیں ۔ تجھ کو ہماری عبادت کی ضرورت نہیں بلکہ ہم سراپا تیرے لطف و کرم کے محتاج ہیں لہٰذاضروری ہے کہ ہم تجھ ہی سے مدد مانگیں ۔

………………………………
١۔اعراف ٤٣.