نماز کی تفسیر
 

چوتھا باب

سورئہ حمد

تکبیرة الاحرام کہنے کے بعد سورئہ حمد پڑھنا ضروری ہے اور اگر نماز میں یہ سورہ نہ پڑھا جائے تو نماز باطل ہے '' لا صلاة الا بفاتحة الکتاب '' (١)
اس سورہ کا دوسرا نام فاتحة الکتاب ہے اس لئے کہ قرآن کریم اسی سورہ سے شروع ہوتا ہے۔ اس سورہ میں سات آیتیں ہیں ۔ (٢) جابر بن عبد اللہ انصاری کی روایت کے مطابق رسول اکرم ۖ نے فرمایا ہے: قرآن کے سوروں میں سب سے بہترین سورہ ،سورۂ حمد ہے۔(٣)
صرف سورئہ حمد ایک ایسا سورہ ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ہر روز کم از کم دس مرتبہ اپنی پنجگانہ نمازوں میں اس کو پڑھے ۔ اس سورہ کی اہمیت میں اتنا کافی ہے کہ روایتوں میں آیا ہے اگر سترّ مرتبہ اس کو مردہ پر پڑھو اور وہ زندہ ہو جائے تو تعجب نہ کرنا ۔ (٤)
اس سورہ کا نام فاتحة الکتاب رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم ۖ کے زمانے میں تمام آیتوں کو جمع کر کے کتاب کی شکل دی گئی ہے اور آپ ۖ کے حکم سے اس سورہ کو کتاب کے شروع میں رکھا گیا ہے ۔ سورۂ مبارکۂ حمد کی آیتیں ، خدا اور اس کے صفات ، قیامت ، راہ حق پر چلنے کی درخواست ؛ خدا وند عالم کی حاکمیت و ربوبیت کے قبول کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ اسی طرح ہم اس سورہ میں اولیائے خدا کے راستے پر چلنے کا شوق ، اور گمراہوں نیز جن پر غضب الٰہی
………………………………
١۔ مستدرک الوسائل حدیث ٤٣٦٥. ٢۔ سات کا عدد : آسمان سات ہیں ، ہفتہ کے دن سات ہیں ، اسی طرح طواف، صفا اور مروہ کے درمیان سعی (کے چکر)،نیز شیطان کو جو کنکریاں ماری جاتی ہیں ان سب کی تعدادسات ہے۔
٣۔ تفسیر کنز الدقائق .
٤۔ بحار الانوار جلد ٩٢ صفحہ ٢٥٧.

نازل ہوا ان سب سے نفرت و بیزاری کو ظاہر کرتے ہیں ۔
سورئہ حمد شفاء کا ذریعہ ہے ، جسمانی درد کی بھی شفاء اور روحانی بیماریوں کی بھی شفائ۔ مرحوم علامہ امینی نے اس موضوع پراپنی کتاب '' تفسیر فاتحة الکتاب '' میں کافی روایتیں نقل کی ہیں ۔

سورئہ حمد میں تربیت کے سبق
١) انسان سورئہ حمد میں ( بسم اللہ ) کہنے کے بعد غیر خدا سے امید ختم کر دیتا ہے ۔
٢) ( ربّ العالمین)و (مالک یوم الدین)کہنے والا ،خداکا بندہ اور مملوک و مربوب ہونے کا احساس کرتا ہے ۔
٣) انسان کلمۂ ( ربّ العالمین ) سے اپنے اور عالم ہستی کے درمیان رابطہ قائم کرتا ہے ۔
٤) ( الرحمن الرحیم ) سے اپنے کو اس کے وسیع لطف کے سایہ میں دیکھتا ہے ۔
٥) ( مالک یوم الدین ) سے قیامت سے غافل نہیں رہتا ہے ۔
٦) ( ایاک نعبد ) سے خود خواہی و شہرت طلبی سے دور ہو جاتا ہے ۔
٧) ( ایاک نستعین ) سے خدا کے علاوہ دوسروں سے مدد حاصل کرنے کی فکرمیں نہیں پڑتا ۔
٨) ( انعمت علیھم ) کے بعد یہ سمجھ جاتا ہے کہ نعمتوں کی تقسیم اس کے ہاتھ میں ہے لہذا حسد سے الگ رہناچاہیئے کہ حسد کرنے والا خدا کی روزی کی تقسیم پر راضی نہیں ہے ۔
٩) انسان ( اھدنا الصراط المستقیم ) کہہ کر راہِ حق پر چلنے کی درخواست کرتا ہے۔
١٠) انسان ( صراط الذین انعمت علیھم ) کے ذریعہ خدا کے پیروکاروں سے دلبستگی اور ہم دلی کا اعلان کرتا ہے ۔
١١ ) اور آخر میں ( غیر المغضوب علیھم و لا الضآلین ) سے باطل او راہل باطل سے نفرت و بیزاری کرتا ہے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مختلف قوموں اور لوگوں کے درمیان یہ رسم ہے کہ لوگ اپنے اہم کاموں کو اپنے ان بزرگوں کے نام سے شروع کرتے ہیں ، جن کا وہ احترام کرتے ہیں اور ان سے رغبت رکھتے ہیں ، تاکہ وہ کام مبارک و با برکت ہو جائے اور بخوبی انجام تک پہنچے ۔
البتہ ہر شخص اپنے صحیح یا غلط عقیدہ کے تحت عمل کرتا ہے ۔ بعض لوگ بت یا طاغوت کے نام سے اور بعض لوگ خدا کے نام سے اور اولیائے خدا کے ہاتھوں سے اپنے کام کو شروع کرتے ہیں ۔ جیسا کہ آج کل رسم ہوگئی ہے کہ اہم عمارت کی بنیاد کے لئے پہلا پھاؤڑا کوئی اہم شخص مارتا ہے()۔ جنگ خندق میں خندق کو کھودنے کے لئے سب سے پہلا پھاؤڑا رسول اکرم ۖ نے زمین پر مارا تھا ۔
بسم اللہ :سے اللہ کی کتاب کا آغاز ہوتا ہے ۔
بسم اللہ : صرف قرآن کریم کے شروع میں ہی نہیں بلکہ تمام آسمانی کتابوں کے شروع میں تھا۔
بسم اللہ : تمام انبیاء کے اعمال کی شروعات ہے ۔ جس وقت جناب نوح ـ کی کشتی طوفان کی موجوں کے درمیان چلی تو حضرت نوح نے اپنے ساتھیوں سے کہا سوار ہو جاؤ ( بسم اللہ مجریٰھا و مرسیٰھا ) (٢) کشتی کا چلنا اور رکنا خدا کے نام سے ہے ۔
………………………………
١۔ یہ ایران کی رسم ہے جبکہ ہمارے یہاں اس کے بجائے عمارت کا سنگ بنیاد رکھوایا جاتا ہے.(مترجم)
٢۔ ہود٤١.

حضرت سلیمان ـ نے جب ملکہ ٔسبا کو خدا کی طرف دعوت دی تو اپنے خط کو (بسم اللہ الرحمن الرحیم ) کے جملہ سے شروع کیا ۔
حضرت علی ـ نے فرمایا کہ ( بسم اللہ ) برکت کی بنیاد ہے ۔ اگر اس کو نہ کہا جائے تو کام کی عاقبت بخیر نہیں ہوتی ۔ (١)
اسی طرح ایک شخص ( بسم اللہ ) لکھ رہا تھا آپ نے فرمایا '' جودّھا '' اس کو خوبصورت طریقہ سے لکھو ۔ (٢)
ہر کام شروع کرنے سے پہلے ( بسم اللہ ) کہنے کی تاکید کی گئی ہے ۔جیسے کھانا، سونا ، سواری پر سوار ہونا ، نکاح و ہمبستری اور اس کے علاوہ دوسرے تمام کام حتی اگر جانور کو بغیر ( بسم اللہ) کے ذبح کیا جائے تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے ۔ یہ اس بات کا راز ہے کہ توحید پرست انسان کی خوراک الٰہی مقصد رکھتی ہو ۔

کیوں ہر کام کو ( بسم اللہ ) سے شروع کریں ؟
جس طرح سے ایک کارخانہ کی بنی ہوئی چیزوں پر اس کی ایک مخصوص علامت '' ٹریڈ مارک'' ہوتی ہے مثلاً چینی کے برتن بنانے والا کارخانہ تمام برتنوں پر اپنا نشان لگاتا ہے ،چاہے چھوٹے برتن ہوں یا بڑے یا ہر ملک اپنا مخصوص جھنڈا رکھتا ہے جو گورنمنٹ کی عمارتوں، پولیس اسٹیشنوں اور فوجی مراکز پر لہراتا ہے ۔ یہ جھنڈا پانی کے جہاز پر بھی ہوتا ہے اور سرکاری میزوں پر بھی۔
اسی طرح خدا کا نام اور اس کی یاد بھی ہر مسلمان کی علامت ہے اور جملہ ٔ( بسم اللہ )
………………………………
١۔ بحار جلد ٧٦ صفحہ ٣٨٥.
٢۔ کنز العمال حدیث ٢٩٥٥٨.

مسلمان کی علامت اور پہچان ہے اور ہر کام چاہے وہ چھوٹاہویا بڑا، ہر جگہ چاہے وہ مسجد ہو یا فیکٹری ، ہر وقت چا ہے صبح ہو یا شام یہ مبارک کلام ہر مسلمان کی زبان پر جاری ہے ۔
اسی لئے ہم حدیث میں پڑھتے ہیں کہ ( بسم اللہ ) کو فراموش نہ کرو حتی ایک شعر لکھنے میں بھی اور جو شخص پہلی بار بچہ کو ( بسم اللہ ) سکھا تا ہے اس کے ثواب کے سلسلے میں بھی کافی حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔ (١)
کیا( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) سورئہ حمد کا جز اور ایک مستقل آیت ہے ؟ اگر چہ بعض لوگوں نے ( بسم اللہ ) کو سورہ کا جز نہیں سمجھا یا نماز میں اس کو ترک کیا ہے لیکن مسلمانوں نے ان پر اعتراض کیا جیسا کہ ایک روز معاویہ نے نماز میں ( بسم اللہ )کو نہیں پڑھا تو لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور کہا '' اسرقت ام نسیت؟ '' تم نے آیت کی چوری کی ہے یا بھول گئے ہو؟ (٢)
فخر رازی نے اپنی تفسیر میں ١٦ دلیلیں پیش کی ہیں کہ ( بسم اللہ ) سورئہ حمد کا جز ہے ۔ آلوسی بھی اپنی تفسیر میں یہی نظر یہ رکھتے ہیں ۔ امام احمد بن حنبل اپنی مستدرک میں لکھتے ہیں کہ (بسم اللہ) سورئہ حمد کا جز ہے ۔
اہل بیت رسول اللہ جنکا دور اہل سنت کے فقہی اماموںسے سو سال پہلے شروع ہوا ہے، جو راہِ خدا میں شہید ہوگئے اور قرآن میں ان کی عصمت و طہارت کی تصریح ہوئی ہے ان کا نظریہ ،یہ ہے کہ جملہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم ) ایک مستقل آیت اور سورہ کا جز ہے ۔
ائمہ معصومین ٪ ہمیشہ یہ اصرار کرتے تھے کہ نماز میں ( بسم اللہ ) بلند آواز میں کہی جائے۔ امام محمد باقر ـ نے ان لوگوں کے بارے میں جو نماز میں ( بسم اللہ ) نہیں پڑھتے
………………………………
١۔ تفسیر برہان جلد ١ صفحہ ٤٣.
٢۔ مستدرک حاکم جلد ٣ صفحہ ٢٣٣.

تھے یا اسے سورہ کا جز نہیں سمجھتے تھے ارشاد فرمایا '' سرقوا اکرم آیة '' (١) انہوں نے قرآن کریم کی بہترین آیت کی چوری کی ہے۔
علامہ شہید مطہری نے سورئہ حمد کی تفسیر میں ابن عباس ، عاصم ، کسائی ، ابن عمر، ابن زبیر ، عطاء ، طاؤوس، فخر رازی اور سیوطی کے نام ان لوگوں کی فہرست میںذکرکئے ہیں جو ( بسم اللہ ) کو سورہ کا جز سمجھتے ہیں ۔ البتہ سورۂ برائت ( سورۂ توبہ ) کی ابتدا میں (بسم اللہ ) نہیں آئی ہے ۔
حضرت علی ـ کے ارشاد کے مطابق اس لئے نہیں آئی کہ (بسم اللہ ) امان و رحمت کا کلمہ ہے جومشرکین سے اعلان برائت میں مناسب نہیں ہے۔
بسم اللہ : رنگ الہی کی پہچان ہے اور ہمارے توحیدی انداز کا بیان ہے ۔
بسم اللہ :توحید کی علامت ہے اور دوسروں کا نا م کفر کی علامت ہے اور خدا کے نام کے ساتھ کسی اورکا نام بھی ہو تو یہ شرک کی علامت ہے ۔ نہ تو خدا کے نام کے ساتھ دوسرے کا نام پکارو اور نہ ہی خدا کے نام کے بجائے کسی دوسرے کا نام لو ۔ ( سبح اسم ربک ) کے یہی معنی ہیں کہ حتی خدا کا نام بھی ہر شرک سے پاک رہے ۔
بسم اللہ :بقاء و دوام کی علامت ہے جس میں خدا کا نام نہ پایا جائے وہ فنا ہونے والا ہے۔(٢)
بسم اللہ :خدا سے عشق اور اس پر توکل کا راز ہے ۔
بسم اللہ :تکبر سے دوری کی علامت ہے اور خدا کی بارگاہ میں عاجزی کا اظہار ہے ۔
بسم اللہ : اپنے کاموں کو خدا کے نام کے ذریعے محفوظ کرلینے کا راز ہے ۔
………………………………
١۔ مسند احمد جلد ٣ صفحہ ١٧٧ ، و جلد ٤ صفحہ ٨٥.
٢۔ (کلّ شیئٍ ھالک الاَّ وجھہ ) قصص ٨٨.

بسم اللہ :اپنے کاموں کو تقدس بخشنے کا راز ہے ۔
بسم اللہ :خدا کا ذکر اور اس کو ہمیشہ یاد کرنے کا راز ہے کہ خدایا ! ہم تجھے کسی بھی حال میں فراموش نہیں کریں گے ۔
بسم اللہ :انسان کے ہدف و مقصد کو بیان کرنے والی آیت ہے کہ پروردگارا ! تو ہی میرا مقصود ہے، میرا مقصد نہ لوگ ہیں ، نہ دنیا اور نہ ہوس ہے ۔
بسم اللہ :یعنی صرف اور صرف اسی سے مدد چاہتے ہیں نہ دوسروں سے ۔
بسم اللہ :یہ بیان کرتی ہے کہ سورہ کے مطالب و مفاہیم بارگاہ حق تعالیٰ ا ور مظہر رحمت سے نازل ہوئے ہیں ۔

لفظ اللہ
بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ اللہ '' الہٰ '' سے نکلا ہے اس کے معنی '' عبد '' ہیں اور اللہ یعنی وہ معبود واقعی اور وہ ہستیجو تمام کمالات کی حامل ہو لیکن بعض نے کہا ہے کہ لفظ اللہ '' وَلَہ '' سے نکلا ہے یعنی دل دے بیٹھنا ، عشق ، حیرت ۔ پس اس لحاظ سے اللہ! یعنی ایسی مقدسذات کہ جس کی جاذبیت نے سب کو متحیر اور اپنا فریفتہ کر لیا ہو ۔
اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ کلمہ '' خدا '' یا '' خداوند'' اللہ کا کامل ترجمہ نہیں ہے اس لئے کہ خدا اصل میں '' خود آی '' تھا جس کا استعمال فلسفہ میں واجب الوجود کی بحث میں کیا جاتا ہے اور کلمہ ''خداوند '' کے معنی'' صاحب ''ہے ۔ جیسا کہ ادبیاتِ فارسی میں کہتے ہیں '' خداوند خانہ '' یعنی صاحب خانہ۔
یہ بات واضح ہے کہ صاحب یا واجب الوجود '' اللہ '' کے کامل معنیٰ نہیں ہیں بلکہ '' اللہ '' یعنی ایک ایسی ذات جو عشق و عبادت کے لائق ہو اس لئے کہ اس میں سارے کمالات پائے جاتے ہیں۔
قرآن مجید میں خدا کے تقریبا ً سو نام آئے ہیں ان میں سے '' اللہ '' سب سے جامع ہے ۔ اصولی طور پر خدا کے سارے نام اس کی ایک صفت کی طرف اشارہ کرتے ہیں نہ یہ کہ وہ خدا کے لئے کوئی پہچان یاعلامت ہوں ۔
جبکہ انسانوں کے نام مختلف قسم کے ہو تے ہیں بعض نام صرف پہچان کے طور پر ہیں جن میں اس لفظ کے معنیٰ پر نظر نہیں ہوتی اور نہ ہی نام کے معنیٰ اور اس شخص کے صفات میں کوئی مطابقت پائی جاتی ہے بلکہ کبھی نام ،صاحب نام کی صفات سے بالکل مختلف ہوتا ہے ، جیسے زیادہ جھوٹ بولنے والے شخص کا نام صادق ہو۔
لیکن اس کے برعکس کبھی نام اس فرد کی صفت بھی ہو تا ہے جو اس کے صفات و کمالات کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسے سچے انسان کا نام صادق ہو۔
مثال کے طور پرکچھ نام صرف گھڑی کے الارم کی طرح ہیں جو وقت کے آنے کی پہچان ہیں۔ لیکن بعض نام مؤذن کی آواز کی طرح ہیں جو پہچان بھی ہے اور معنی دار بھی ۔
قرآن ارشاد فرماتا ہے :
( و للہ الاسماء الحسنیٰ )
اور اللہ ہی کے لئے بہترین نام ہیں ۔(١)
روایتوں میں خدا کے٩٩ نام آئے ہیں جن کو اسمائے حسنیٰ کہا جاتا ہے ۔روایتوں میں ہے کہ جو شخص بھی خدا کو ان ناموں سے پکارے گااس کی دعا قبول ہوگی ۔ (٢) دعائے جوشن کبیر میں ہم خدا
کو ایک ہزار اوصاف کے ساتھ پکارتے ہیں ۔
………………………………
١۔ اعراف ١٨٠.
٢۔ تفسیر نمونہ جلد ٧ آیہ ٢٧.

اللہ کے بعد دو کلموں ( رحمن) اور ( رحیم ) کا آنا اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنے کام کو لطف و رحمت الہی سے شروع کرے اور یہ جان لے کہ تمام امیدوں اور رحمت کا سرچشمہ خدائے تعالیٰ ہے ۔
اپنے کام کو رحمت کے الفاظ سے شروع کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کی سنت لطف اور رحمت ہے اور مناسب یہی ہے کہ انسان اس کی رحمت کے سرچشمہ سے مدد حاصل کرے ۔
رحمن ؛ خدا کا مخصوص نام ہے اس لئے کہ صرف اس کی رحمت وسیع و عریض او رہمیشہ رہنے والی ہے۔ دوسروں کے یہاں یا تو رحمت نہیں ہے یا اس میں وسعت نہیں ہے ۔اس کے علاوہ اگر کوئی کسی کو کوئی چیز دیتا ہے تو اس کے عوض دنیاوی یا اخروی جزا کا امیدوار ہوتا ہے ۔ جیسے ہم گا ئے کو اسی لئے گھاس دیتے ہیں تاکہ اس کا دودھ دوہیں ۔
لفظ '' الرحمن '' اور '' الرحیم '' کے سلسلہ میں (الرحمن الرحیم ) کی آیت کے ذیل میں مزیدگفتگو کریں گے ۔