اللہ اکبر
حجاج کرام کے اوپر سب سے پہلا واجب '' لبیک'' کہنا ہے ۔ اس کلمہ کو اپنی زبان سے ادا کرکے وہ اعمال حج میں داخل ہوتے ہیں اور کچھ چیزیں ان پر حرام ہو جاتی ہیں ۔
نماز بھی '' اللہ اکبر '' کہنے سے شروع ہوتی ہے اور نماز پڑھنے والے پر بھی کچھ چیزیں تکبیر کہتے ہی حرام ہو جاتی ہیں ۔ جیسے کھانا ، پینا ، گفتگو کرنا ، اسی لئے نماز کی پہلی تکبیر کو تکبیرة الاحرام کہتے ہیں ۔حاجی حضرات پورے راستہ ہر بلندی یا پستی پر پہونچتے وقت اورہر نشیب و فراز پر '' لبیک '' کی تکرار کرتے ہیں اور یہ تکرار مستحب ہے۔ نماز پڑھنے والے کے لئے بھی اٹھتے بیٹھتے یا جھکتے وقت مستحب ہے کہ ''اللہ اکبر '' کی تکرار کرے ۔ اللہ اکبر صبح کا سب سے پہلا واجب کلمہ ہے ۔
تکبیر سب سے پہلا کلمہ ہے جس کو ہر مسلمان بچہ پیدا ہوتے ہی اذان و اقامت کے عنوان سے سنتا ہے اور یہ آخری کلمہ ہے جو مسلمان کی میت پر نماز میت میں پڑھا جاتا ہے ۔ اس کے بعد اسے قبر میں لٹایا جاتا ہے ۔
صرف یہ ایک ایسا ذکر ہے جو نماز میں واجب بھی ہے اور نماز کا رکن بھی ہے ۔
یہ مسلمانوں کے ترانے یعنی اذان کا سب سے پہلا جملہ ہے ۔
یہ ایک ایسا ذکر ہے جو نماز سے پہلے اور نماز کے دوران اور تعقیبات میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے ۔ اس طرح کہ ایک مسلمان ایک دن میں صرف پانچ وقت کی ( واجب ) نمازوں میں تقریبا ً ٣٦٠ مرتبہ اس کی تکرار کرتا ہے ۔
جس کی تفصیل یہ ہے :
١) پانچ وقت کی نمازوں کے لئے پانچ مرتبہ اذان کہے اور ہر اذان میں ٦ مرتبہ '' اللہ اکبر '' کہے ( کل ٣٠ مرتبہ )
٢) پانچ وقت کی نمازوں کو اقامت سے شروع کرے اور ہر اقامت میں ٤ مرتبہ '' اللہ اکبر '' کہا جاتا ہے ( کل ٢٠ مرتبہ )
٣ )پانچ وقت کی ہر نماز میں تکبیرة الاحرام سے پہلے چھ تکبیریں مستحب ہیں اور ساتویں تکبیر وہی تکبیرة الاحرام ہے جو واجب ہے ( کل ٣٠ مرتبہ )
٤) نماز کے شروع میں تکبیرة الاحرام کے طور پر پانچ نمازوں کی٥ تکبیریں ۔
٥) ١٧ رکعتوں میں ہر رکوع سے پہلے ایک تکبیر ( کل ١٧ تکبیریں )
٦) ١٧ رکعتوںمیں ہر رکعت میں دو سجدہ ہیں ہر سجدے میں دو تکبیریں ہیں ۔ ایک سجدہ سے پہلے اور ایک سجدہ کے بعد (کل ٦٨ تکبیریں )
٧) ہر نماز میں ایک قنوت ہے ہر قنوت سے پہلے ایک تکبیر مستحب ہے ( کل ٥ تکبیریں)
٨) ہر نماز پنجگانہ کے آخر میں ٣ تکبیریں مستحب ہیں ۔ ( کل ١٥ تکبیریں )
٩) ہر نماز کے بعد تسبیح حضرت زہرا کے عنوان سے ٣٤ مرتبہ تکبیر کہتے ہیں ۔ (کل ١٧٠ تکبیریں )
لیکن افسوس ہے کہ ہم نے پوری زندگی میں ایک بار بھی توجہ کے ساتھ '' اللہ اکبر '' نہیں کہا۔
اگر انسان مکمل ایمان اور پوری توجہ کے ساتھ ہر روز ٣٦٠ مرتبہ سے زیادہ کہے کہ : اللہ سب سے بڑا ہے ۔تو پھر اس کے بعد دنیا کی کسی قدرت ، سپر پاور اور سازش سے نہیں ڈرے گا۔
دوسری نمازوں میں تکبیر
عید فطر و عید قربان کی صرف نماز ہی میں نہیںبلکہ ان نمازوں سے پہلے اور نمازوں کے بعد بھی تمام دعاؤںمیں تکبیریں ہیں ۔
نماز آیات میں ٥ رکوع ہیں اور ہر رکوع کے لئے تکبیر وارد ہوئی ہے ۔ نماز میت میںتو ٥ تکبیریں رکن نماز ہیں ۔
نماز میں کس طرح سے تکبیر کہیں ؟
اسلام نے ہر کام کے لئے کچھ آداب اور اصول بیان کئے ہیں ۔ '' اللہ اکبر'' کہتے وقت بھی کچھ آداب کی رعایت ہونی چاہئے ۔ ان میں سے بعض یہ ہیں :
١) نماز میں تکبیر کہتے وقت دونوں ہاتھ کان تک بلند کریں ، اس طرح سے کہ ہاتھ جب کان تک پہنچیں تو تکبیر ختم ہو جانی چاہئے ۔ امام رضا ـ نے فرمایا : ہاتھوں کی حرکت؛ حضور قلب اور خدا کی طرف توجہ میں اثر انداز ہوتی ہے ۔ (١)
٢ ) ہاتھ کی انگلیاں تکبیر کے وقت آپس میں چپکی ہوئی ہوں اور اوپر کی طرف اٹھیں ۔
٣) ہاتھوں کی ہتھیلیاں قبلہ کی طرف ہوں ۔
روایتوں میں تکبیر کے وقت ہاتھوں کو بلند کرنے کو نماز کی زینت کہا گیا ہے ۔ (٢)
تکبیر کے معانی
اللہ اکبر : یعنی خدا تمام حسی ، ذہنی ، ملکی اور ملکوتی موجودات سے بڑا ہے ۔
اللہ اکبر : یعنی خدا اس سے بزرگ وبرتر ہے کہ کوئی اسکی تعریف کرسکے ۔
………………………………
١۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٧٢٧.
٢۔ بحار جلد ٨٤ صفحہ٣٥١.
ای برتر از خیال و قیاس و گمان و وھم
و زھر چہ گفتہ ایم و شنیدیم و خواندہ ایم
مجلس تمام گشت و بہ پایان رسید عمر
ما ھمچنان در اول وصف تو ماندہ ایم
یعنی خدا ہر خیال و قیاس اور گمان سے بڑا ہے ۔نیز ہم نے جو بھی کہا ، سنا اور پڑھا ،وہ ان سب سے بھی بڑا ہے،مجلس ختم ہوگئی اور عمر بھی آخر کو پہنچی لیکن خدا کی تعریف کی ابھی شروعات ہی ہے۔
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ جس وقت تکبیر کہو ،تو خدا کے علاوہ تمام چیزیں تمہاری نظر میں چھوٹی ہوجانی چاہئیں ۔ (١) ایسا نہ ہو کہ انسان منہ سے تکبیر کہے اور دل کسی اور سے لگا ہو۔ ایسا کرنے والا جھوٹا اور بہانے باز ہے اسی وجہ سے خدا اپنے ذکر کی لذت اس سے چھین لیتا ہے ۔
تکبیر ، اسلامی تمدن میں
نہ فقط نماز بلکہ بہت سارے حساس مقامات پر اللہ اکبر کہنا وارد ہوا ہے ۔ لہذا صدر اسلام میں مسلمان ہر سختی اور خوشی کے موقعہ پر تکبیر کہتے تھے ۔ ہم ان میں سے چند واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
١) جنگ خندق میں ، خندق کھودتے وقت مسلمانوں کے سامنے ایک مضبوط پتھر آیا جس کدال ( گینتی) سے پتھر توڑ رہے تھے وہ خود ٹوٹ گیا لیکن پتھر نہیں ٹوٹا، رسول اکرم ۖ تشریف لائے۔ آپ نے ایک ہی مرتبہ میں پتھر کو توڑ دیا ۔ مسلمانوں نے ایک ساتھ تکبیر کہی اور اس جگہ پر رسول ۖ اسلام نے فرمایا کہ : میں نے اس پتھر سے اٹھنے والی چنگاریوں میں روم و ایران کے قلعوں کو
………………………………
١۔ سر الصلاة صفحہ ٢٨.
گرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (١)
٢) جنگ صفین میں حضرت علی ـ جب کسی کو قتل کرتے تھے تو تکبیر کہتے تھے ۔ مسلمان آپ کی تکبیروں کوگن کر پتہ لگاتے تھے کہ آپ نے کتنے دشمنوں کو قتل کیا ہے ۔ (٢)
٣) جس رات حضرت فاطمہ زہرا کو حضرت علی بن ابی طالب ـ کے گھر لے جا رہے تھے تو تکبیر کہتے ہوئے ستر ہزارفرشتے زمین پر نازل ہوئے ۔ (٣)
٤) پیغمبر اسلام ۖ نے جناب فاطمہ بنت اسد کے جنازے پر چالیس تکبیریں (٤) اور اپنے چچا حضرت حمزہ کے جنازے پر ستر تکبیریں کہیں۔ (٥)
٥) حج کے اعمال میں مستحب ہے کہ شیطان کو کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری پھینکتے ہوئے تکبیر کہی جائے ۔ (٦)
٦) حضرت زہرا کی تسبیح میں ، جس کا ثواب ہزار رکعت مستحبی نماز وںکے برابر ہے ، ٣٤ مرتبہ تکبیر آئی ہے ۔ (٧)
٧) رسول اکرم ۖ جب پیدا ہوئے تو سب سے پہلا کلمہ جو آپ ۖ کی زبان مبارک پر آیا وہ اللہ اکبر تھا ۔ (٨)
٨) جس روز مسلمانوں کے ہاتھوں مکہ فتح ہوا ، رسول اسلام ۖ مسجد الحرام میں داخل ہوئے ، حجر اسود کی طرف اشارہ کیا اور تکبیر کہی ،آپ کے ہمراہ مسلمانوں نے بھی بلند آواز میں ایسی تکبیر کہی کہ مشرکین کے دل دہل گئے ۔ (٩)
………………………………
١۔ بحار جلد ٢٠ صفحہ ١٩.
٢۔ بحار جلد ٣٢ صفحہ ٦٠.
٣۔ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ١٠٤.
٤۔ بحار جلد ٣٥ صفحہ ٧٠.
٥۔ بحار الانوار جلد ٢٠ صفحہ ٦٣.
٦۔ بحار الانوار جلد ١١ صفحہ ١٦٨.
٧۔ بحار الانوار جلد ١٥ صفحہ ٢٦٨.
٨۔ بحار الانوار جلد ١٥ صفحہ ٢٧٣.
٩۔ تفسیر نمونہ جلد ٢٧ صفحہ ٤٠٧ .
٩) روایتوں میں ہے کہ جس وقت کوئی تعجب آور چیز دکھائی دے تو تکبیر کہو (١)
١٠ ) جنگ اُحد میں کفار کی فوج کے ایک پہلوان نے اپنا مدّ مقابل چاہا ۔ حضرت علی ـ آگے بڑھے اوراسے ایسی ضربت ماری کہ پیغمبر اسلام ۖ اور تمام مسلمانوں نے بلند آواز میں تکبیر کہی۔ (٢)
١١) پیغمبر اکرم ۖ نے حضرت علی ـ سے فرمایا : ہر وقت چاند یا آئینہ دیکھو یا کوئی مشکل پیش آئے تو تین مرتبہ تکبیر کہو ۔ (٣)
١٢) امام سجاد ـ کے بیٹے جناب زید نے بنی امیہ کی حکومت کے خلاف قیام کیا تو ان کا نعرہ ہی اللہ اکبر تھا ۔ (٤)
١٣) جنگ بدر میں رسول اسلام ۖ دشمن کے سرداروں میں سے نوفل نام کے ایک سردار کی ہلاکت کے انتظار میں تھے، اتنے میں خبر پہنچی کہ حضرت علی ـ نے اس کو قتل کر دیا ۔ رسول اسلام ۖ نے تکبیر کہی ۔ (٥)
١٤) جس وقت حضرت علی ـ حضرت زہرا سے شادی کے سلسلے میں تشریف لائے تو رسول اکرم ۖ نے فرمایا : ٹھہرو ہم اپنی بیٹی فاطمہ کے سامنے اس مسئلہ کو رکھیں۔ لیکن حضرت زہرا خاموش رہیںاور آپۖنے کچھ نہ کہا ۔تو پیغمبر گرامی ۖ نے فرمایا ''اللہ اکبر سکوتھا اقرارھا '' (٦)
١٥) خوارج سے جنگ میں جب ان کا سپہ سالار ہلاک ہوا تو حضرت علی ـ نے تکبیر کہی
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٩٢ صفحہ ١٢٧.
٢۔ بحار الانوار جلد ٢٠ صفحہ ١٢٦.
٣۔ بحار الانوار جلد ٩٢ صفحہ ١٢٧.
٤۔ کتاب زید بن علی ـ صفحہ ١٨٦.
٥۔ بحار الانوار جلد ١٩ صفحہ ٢٨١.
٦۔ بحار جلد ٤٣ صفحہ ٩٣.
اور سجدہ کیا اور تمام لوگوں نے تکبیر کہی ۔ (١)
١٦) یہودیوں کا ایک گروہ مسلمان ہوا ۔ ان لوگوں نے پیغمبر ۖ سے کہا کہ سابقہ انبیائ کے جانشین تھے آپ کا وصی کون ہے ؟ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی '' ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں '' ۔(٢)
رسول اسلام ۖ نے فرمایا کہ مسجد کی طرف چلیں ۔ جس وقت آپ مسجد میں داخل ہوئے ، توآپ ۖ نے دیکھا کہ ایک فقیر ہے جو خوشحال ہے اور حضرت علی ـ نے رکوع کی حالت میں اس کو انگوٹھی دی ہے ۔ اس وقت رسول اللہ ۖ نے تکبیر کہی ۔ (٣)
١٧) ائمہ ٪ کے روضہ میں داخل ہوتے وقت تکبیر کہنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ چنانچہ ہم زیارت جامعہ پڑھنے سے پہلے تین مرحلوں میں ١٠٠ مرتبہ تکبیر پڑھتے ہیں ۔ مرحوم مجلسی کے بقول ان تکبیروں کے پڑھنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ائمہ ٪ کے سلسلے میں زیارت جامعہ کے جملوں سے تم غلو میں نہ پڑ جاؤ ۔ (٤)
١٨) حضرت علی ـ اپنے فیصلوں میں جب مجرم کا پتہ لگا لیتے تھے تو تکبیر کہتے تھے ۔ (٥)
١٩) میثم تمار جو حضرت علی ـ کی محبت میں ابن زیاد کے حکم سے سولی پر چڑھائے گئے اور نیزے سے ان پر حملہ کیا گیا، شہادت کے وقت جناب میثم کے منہ سے خون نکل رہا تھا اوروہ تکبیر کہہ رہے تھے ۔ (٦)
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٤١ صفحہ ٣٤١.
٢۔ مائدہ ٥٥.
٣۔ بحار الانوار جلد ٣٥ صفحہ ١٨٣.
٤ بحار الانوار جلد ١٦ صفحہ ٩٩ .
٥۔ بحار الانوار جلد ٤٠ صفحہ ٢٦٠ .
٦۔ بحار الانوار جلد ٤٢ صفحہ ١٢٥.
٢٠) شب ِ معراج پیغمبر اکرم ۖ ہر آسمان سے گزرتے وقت تکبیر کہہ رہے تھے۔(١)
٢١) حضرت جبرئیل رسول اکرم ۖ کے پاس تھے ، حضرت علی ـ داخل ہوئے۔ جبرئیل نے کہا : اے محمد ! اس خدا کی قسم جس نے آپ کو پیغمبری کے لئے منتخب کیا ، علی ـ کو آسمانوں کے لوگ زمین کے لوگوں سے زیادہ پہچانتے ہیں ۔ جس وقت علی ـ جنگوں میں تکبیر کہتے ہیں ہم فرشتے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہتے ہیں ۔ (٢)
٢٢) جنگ خیبر میں جس وقت مسلمان قلعہ کے اندر داخل ہوئے ،تو وہ ایسی تکبیر یںکہہ رہے تھے کہ یہودی بھاگ کھڑے ہوئے ۔ (٣)
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٨٦ صفحہ ٢٠٧.
٢۔ بحار الانوار جلد ٣٩ صفحہ ٩٨.
٣۔ پیامبری و حکومت صفحہ ١٤٦.
|