نماز کی تفسیر
 

سرگزشت
ایک روز میں امام رضا ـ کے روضہ میں دعا و زیارت میں مشغول تھا ۔اور اس وقت میرے اوپر ایک خاص حالت طاری تھی ۔ ایک زائر بھی میرے پہلو میں آکر بیٹھ گیا ۔ چونکہ ٹیلی ویژن پر شب جمعہ میرا پروگرام آتا ہے ، اس کی وجہ سے وہ مجھے پہچان گیا ۔ اس نے کچھ رقم مجھے دینا چاہی اور کہا کہ قرائتی صاحب ! یہ کسی فقیر کو دے دیجئے گا ۔ میں نے کہا کہ میں بھی تمہاری طرح زائر ہوں۔ میں مشہد میں فقیر وںکو نہیں پہچانتا ۔ تم خود ہی کسی فقیر کو دے دو ۔
تھوڑی دیر گزری ، اس نے پھر اپنی اسی بات کی تکرار کی ۔ میں نے دوبارہ وہی جواب دیا اور دعا پڑھنے میں مشغول ہوگیا ۔ تیسری بار پھر اس نے اپنی بات کی تکرار کی ۔ میں ناراض ہوگیا اور کہا کہ تم ٢٠ تومان کی وجہ سے میری توجہ تین بار دعاسے ہٹا چکے ہو۔ مہربانی کر کے خلل اندازی نہ کرو اورجاؤ تم خود ہی یہ رقم کسی فقیر کو دے دو ۔ اس نے کہا کہ قرائتی صاحب ! یہ ٢٠ تومان نہیں بلکہ ١٠٠٠ تومان ہیں ۔
میں جو ابھی تک یہ سوچ رہا تھا کہ وہ شخص فقیر کے لئے ایک ٢٠ تومان کا نوٹ دے رہا ہے ۔ میں نے تھوڑی دیر فکر کی تو میرا غصہ کافور ہوگیا ۔ میں نے کہا کہ یہاں پر ایک ادارہ ہے جو یتیم بچوں کی مدد کرتا ہے ۔ اس نے کہا کہ آپ خود اختیار رکھتے ہیں ، جہاں مصلحت سمجھیں وہاں خرچ کردیں ۔ اس نے یہ کہہ کر رقم میرے حوالے کی اور چلا گیا ۔
میں نے دعا کی کتاب کو ایک طرف رکھا اور گہری فکر میں ڈوب گیا کہ اگر یہ خدا کے لئے ہے تو ٢٠ تومان اور ١٠٠٠ میں فرق کیا ہے ؟ پھر میںمتوجہ ہوا کہ یہ واقعہ میری آزمائش کے لئے تھا تاکہ مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ قصد قربت ابھی میرے اندر پیدانہیں ہوا ہے ۔
اخلاص کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ انسان کسی کام کی مقدار ، افراد ، جگہ ، کام کی نوعیت و شرائط ، لوگ جانیں یا نہ جانیں ، حمایت کریں یا نہ کریں ، اس میں آمدنی ہو یا نہ ہو ، جیسی چیز وں کے در میان کو ئی فرق نہ کریں بلکہ فقط رضائے الہی ان کے مدنظر ہو ۔
البتہ انسان دوستی اور کسی کام کو لوگوں کے لئے انجام دینا خود پرستی سے بہتر ہے لیکن اس کا مقصد رضائے الٰہی نہ ہو تو خدا کے نزدیک اس کی کو ئی اہمیت نہیں ہے ۔
بقول شہید مطہری قصد قربت ذاتی اوراصلی شرط ہے نہ قراردادی و اعتباری ، یہ شرط تخلیقی ہے نہ تشریفی ۔ (١) اگر مکہ جانے کی شرط مکہ کے راستے کو طے کرنا ہے تو یہ شرط طبیعی و ذاتی ہے نہ کہ قراردادی۔قرب الہٰی تک پہنچنے کی شرط قصد قربت ہے۔ یہ شرط بھی ذاتی اوراصلی ہے ۔

پاک نیت کے اثرات و برکات
آیات و روایات کی روشنی میں پاک نیت کے اثرات اور برکتیں کافی ہیں جن کو خلاصہ کے طور پر پیش کرتے ہیں :
١) جس کی نیت اچھی ہو اس کے رزق میں فراوانی ہوتی ہے ۔ (٢)
غالبا اس حدیث کا مطلب یہ ہو کہ اچھی نیت کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ اس کا کردار اور
سلوک اچھا ہوگا ۔ لہذا لوگ اس کی طرف زیادہ جذب ہونگے اور وہ جو بھی کام کرے گا وہ رونق پائے گا اس طرح اس کی آمدنی بھی زیادہ ہوگی ۔
٢ ) حسن نیت سے انسان کی توفیقات میں اضافہ ہوتا ہے ، زندگی پاک و خوشگوار ہوتی ہے اور انسان کے دوست زیادہ ہوتے ہیں (٣)
………………………………
١۔ ولاہا و ولایت ہا٢٩٠ سے ٢٩٣ تک .
٢۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٣٩ .
٣۔ غرر الحکم .

٣) حسن نیت سے انسان کی عمر طولانی ہوتی ہے ۔ روایتوں میں آیا ہے جس نے حج تمام کر لیا اوروہ اپنے وطن جاتے وقت یہ نیت کر لے کہ اگلے سال بھی آ کر حج کرے گا ، پروردگار اس ارادہ کی بناپر اس کی عمر طولانی کر دیتا ہے ۔ (١)
٤) اچھی نیت انسان کی پچھلی کمیوں کو پورا کردیتی ہے ۔ حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں : اگر گنہگار حسن نیت سے توبہ کرے تو خداوند عالم نے جو بھی اس کے گناہ کی سزا کے بدلے میں اس سے لیا تھا اسے واپس کر دیتا ہے اور اس کے کاموں میں جو بھی مشکل در پیش ہو اس کی اصلاح کر دیتا ہے۔
٥) پروردگار کار خیر کی نیت پر ، کار خیر کی جزا عنایت کرتا ہے چا ہے انسان اس کام کے انجام دینے میں کامیاب نہ ہو پائے ۔ نیت اگر سچی ہو تو کام انجام نہ پانے کی صورت میں بھی وہ عمل شمارہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ روایت میں بھی موجود ہے کہ اگر مومن یہ کہے کہ اگرخداوسائل فراہم کرتا تو ہم یہ کرتے وہ کرتے اور یہ سچی آرزو ہو تو جن نیک کاموں کی اس نے نیت کی ہے پروردگار اسے ان کی جزا دے گا (٢) یہاں تک کہ اگر کوئی مخلصانہ طور پر شہادت کی نیت کرے اور خدا سے شہادت کی دعا کرے توخدا اس کو شہیدوں کے درجات عنایت فرمائے گا چاہے وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ دنیا سے جائے ۔ (٣)
خدا کا یہی لطف کیا کم ہے کہ وہ صرف نیت پر اس کام کی جزاا ور ثواب دیدیتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر کوئی گناہ کی نیت کرے تو جب تک گناہ انجام نہ دے اس وقت تک اس کی سزا نہیں ملتی۔(٤)
………………………………
١۔ وسائل جلد ٨ صفحہ ١٠٧ .
٢۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٤٠.
٣۔ بحار الانوار جلد ٧٠ صفحہ ٢٠١.
٤۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٤٠.

٦) پاک نیت سے انسان کی زندگی کے مادّی ترین کام اس کے لئے قربت خدا کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اسی طرح معنوی ترین کام جیسے سجدہ و گریہ اگر ریا کاری کے سا تھ ہوں تو خدا سے دوری کا سبب بنتے ہیں ۔
روایتوں میں آیا ہے کہ جس طرح جسم ،روح کی وجہ سے پائیدار ہے اسی طرح دین سچی نیت
سبب استوار ہے (١) پاک دل ا و رحسن نیت خدا کے بہترین خزانوں میں سے ہے اور نیت جتنی اچھی ہوتی ہے اس خزانہ کی قدر و قیمت اتنی ہی زیادہ ہو جاتی ہے (٢) نیت اور مصمم قصد و ارادہ انسان کی جسمانی قوت کو کئی گنا کر دیتے ہیں۔
امام جعفر صادق ـ نے فرمایا :
پروردگار، روز قیامت لوگوں کو ان کی نیتوں کی بنیاد پر محشور کرے گا (٣) جس کا مقصد صرف فریضہ کی ادا ئیگی ہو اس کے لئے کام کی نوعیت اور اس کا نتیجہ اہم نہیں ہے ۔
جیسا کہ قرآن مجید ارشاد فرما رہا ہے :
( و مَن یقاتل ف سبیل اللہ فیُقتل او یغلب فسوف نؤتیہ اجرا عظیما)(٤)
اور جو بھی راہ خدا میں جہاد کرے گا وہ قتل ہو جائے یا غالب آجائے دونوں صورتوں میں ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے ۔
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٧٨ صفحہ ٣١٢ .
٢۔ غرر الحکم .
٣۔ قصار الجمل .
٤۔ نساء ٧٤.

جو چیز اہم ہے وہ خدا کی راہ میں جہاد ہے لیکن اس کا نتیجہ ہار ہو یا جیت اس سے خدا کے اجر و ثواب پر اثر نہیں پڑتا ، دوسری جگہ پر قرآن مجید فرماتا ہے :
( و مَن یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللہ و رسولہ ثم یدرکہ الموت فقد وقع اجرہ علی اللہ )(١)
اور جو اپنے گھر سے خدا و رسول ۖ کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکلے گا اس کے بعد اسے موت بھی آجائے گی تو اس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے ۔
اس آیت سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ اگر انسان خدا کی خاطر گھر سے نکلے تو چا ہے اپنے مقصد تک نہ پہنچ پائے لیکن وہ اجر رکھتا ہے ۔ کیو نکہ اہم چیز عمل کی نیت ہے نہ خود عمل۔ اہم خدا کی راہ میں قدم بڑھانا ہے نہ کہ مقصد تک پہنچنا ۔
رسول خدا ۖ نے ابوذر غفاری سے فرمایا :
کار خیر کا ارادہ کیا کرو چا ہے اس کے بجا لانے کی توفیق حاصل نہ ہو کیونکہ یہ نیک کام کا ارادہ ہی تمہیںغافل لوگوں کے زمرے سے باہر نکالتا ہے (٢)
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے :
جو کام نیت الٰہی کے ساتھ ہو وہ کام بڑا ہے اگرچہ سادہ ا ور چھوٹا ہی کیوں نہ ہو ۔ (٣)
جس طرح کوئی اہم کام اگر صحیح نیت کے ساتھ نہ ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ پیغمبر گرامی ۖ ارشاد فرماتے ہیں کہ : میری امت کے اکثر شہید اپنے بستر پر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور کتنے زیادہ ہیں وہ لوگ جو محاذ جنگ میں قتل ہوتے ہیں لیکن خدا ان کی نیت سے آگاہ ہے ۔ (٤)
………………………………
١۔ نساء ١٠٠.
٢۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٨٧۔
٣۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٣٩. ٤۔ محجة البیضاء جلد ٨ صفحہ ١٠٣.

رسول اسلام ۖ نے جنگ تبوک کے موقع پر فرمایا :
جو لوگ مدینہ میں ہیں اورہمارے ساتھ جنگ میں شرکت کی آرزو رکھتے ہیں وہ اپنی اس نیت کی بنا پر اس جنگ کے ثواب میں ہمارے ساتھ ہیں ۔ (١)
ایک دوسری روایت میں پڑھتے ہیں : جو شخص نماز شب کے لئے بیدار ہو نے کی نیت سے اپنے بستر پر لیٹے اگر نماز شب کے لئے بیدار نہ ہو پائے توخداوند عالم اس کے سونے کو صدقہ اور اس کی سانسوں کو تسبیح ( کے برابر ) قرار دیتا ہے اور نماز شب کا ثواب اس کے لئے لکھا جاتا ہے ۔ (٢)
بلا وجہ ہمیں یہ تاکیدنہیں کی گئی ہے حتی سونے اور کھانے پینے میں بھی نیک مقصد پر نگاہ رکھیں۔(٣) اگر کسی شخص کو خدا کی خاطر چاہو اور یہ خیال کرو کہ اچھا انسان ہے اگرچہ وہ دوزخی ہو لیکن تم کو اس کا اجر ملے گا ۔ (٤)

عمل پر نیت کی برتری
کسی بھی کام کی نیت اس کام کے او پرجو برتری رکھتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے کام کے انجام دینے میں ریا کاری یا خود نمائی داخل ہو جائے لیکن نیت چونکہ قلب سے تعلق رکھتی ہے اس کا کوئی ظاہری اثر نہیں ہوتا لہذا نیت میں ریا کاری اور دکھاوے کی گنجائش نہیں ہے ۔
عمل پرنیت کی دوسری برتری یہ ہے کہ نیت ہمیشہ اور ہر مقام پر ممکن ہے نیز اس کے لئے کسی خاص شرط کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن کسی کام کو انجام دینے کے لئے متعدد ضروریات اور بہت سے وسائل کی ضرورت پڑتی ہے ۔
………………………………
١۔ محجة البیضاء جلد ٨ صفحہ ١٠٤۔
٢۔ بحار الانوار جلد ٧٠ صفحہ ٢٠٦.
٣۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٣٥.
٤۔ محجة البیضاء جلد ٤ صفحہ ٣٧٤.

علم حدیث میں کچھ روایتیں ''روایات مَن بلغ ۔۔۔ '' کے نام سے مشہورہیں ۔ اس قسم کی روایتیں کہتی ہیں کہ اگر کسی نے یہ روایت سنی کہ فلاں کام میں ثواب ہے اور اس شخص نے اس کام کو انجام دیا تو پروردگار اس کو اس کام کا اجر دے گا چاہے وہ روایت صحیح نہ ہو ، اس لئے کہ اس نے اس حدیث پرجو عمل کیا ہے اسے اس نے حسن نیت سے انجام دیا ہے۔

نیت کے درجات
١) کبھی خدا کے غضب کا ڈر اور کبھی اس کے لطف و کرم کی لالچ انسان کو عمل کرنے کے لئے آگے بڑھاتی ہے ، جیسا کہ اس بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے :
( اُدعوہ خوفا ً و طمعا ً ) (١)
خدا کو ہر حال میں یاد کرو چاہے وہ ڈر کا موقع ہو اور چاہے امید کا اور دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہے :
( یدعوننا رغبا و رھبا ) (٢)
ہم کو امید یا خوف کی حالت میں یاد کرتے ہیں ۔
٢) اس سے بالاتر مرحلہ وہ ہے کہ انسان اسکے الطاف کا شکریہ ادا کرنے کے لئے کام کرے چاہے اللہ کی طرف سے اس کام میں ثواب یا عذاب نہ ہو ۔ جیسے حضرت علی فرماتے ہیں :
'' لو لم یتوعد اللہ علی معصیتہ لکان یجب الا یعصیٰ شکرا لنعمتہ '' (٣)
اگر پروردگار نے گناہوں پر عذاب کی دھمکی نہ دی ہوتی تب بھی انسان پر ضروری تھا کہ اس کی نعمتوں کے شکر کی وجہ سے اس کی نافرمانی نہ کرے ۔
………………………………
١۔ اعراف ٥٦.
٢۔ انبیاء ٩٠.
٣۔ نہج البلاغہ حکمت ٢٩٠.

٣) ان سب سے بلند مرحلہ، خدا کی قربت ہے کہ انسان جنت کی امید اور دوزخ کے ڈر کے بغیر خدا کی عبادت کرے ۔ اس لئے کہ صرف خدا کو عبادت و بندگی کے لائق سمجھتا ہے ۔
٤) اس سے بڑا مرحلہ یہ ہے کہ خدا کا عشق انسان کو ہر کام پر آمادہ کردے ۔ جیسے حضرت علی لقائے الٰہی اور موت سے اپنے عشق کو ایک شیر خوار بچے کی اپنی ماں کے پستان سے رغبت سے زیادہ سمجھتے ہیں ۔ (١)
حضرت قاسم بن امام حسن مجتبیٰ ـ کربلا میں فرماتے ہیں :
''میرے لئے خدا کی راہ میں موت شہد سے زیادہ شیرین ہے ۔ ''

سزا کے مسائل میں نیت کا اثر
اسلام نے سزا کے مسئلوں میں بھی قصد و نیت کا حساب و کتاب الگ رکھا ہے ۔ اس سلسلے میں دو مثالوں کی طرف اشارہ کریں گے :
١) مسئلہ قتل : اگر کوئی شخص عمداً و قصداً کسی کو قتل کر دے اس کا حساب اس شخص سے جدا ہے جو بغیر قصد کے کسی قتل کا سبب بنے ۔اور ان دونوں کا حکم بھی ایک دوسرے سے الگ ہے ۔ (٢)
٢) قرآن مجید قسم کے بارے میں فرماتا ہے :
( لا یؤاخذکم اللہ با للغو ف ایمانکم ) (٣)
خدا تمہاری لغو اور غیر ارادی قَسموں کا مواخذہ نہیں کرتا ۔
لہٰذا اگر کوئی قسم کھائے اوراس نے اس کا قصد و ارادہ نہ کیا تو ایسی قسم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
………………………………
١۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ٥.
٢۔ نساء ٩٢.
٣۔ بقرہ ٢٢٥.


معرفت ؛ قصد قربت کا پیش خیمہ ہے
قصدِ قربت اور پاک نیت تک پہنچنے کا بہترین راستہ معرفت اور پہچان ہے ۔
اگرہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگوں کے نزدیک محبوبیت حاصل کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ (١)
اگرہمیں یہ معلوم ہوکہ عزت و قدرت صرف اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ (٢)
اگرہمیں یہ معلوم ہو کہ ہمارا فائدہ و نقصان کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ (٣)
اگر ہمیں معلوم ہو کہ خدا کے لئے عمل بجا لانے سے کبھی دو گنا ، کبھی دس گنااور کبھی ستّر گنا اجر و ثواب ملتا ہے تو اس کے غیر کے لئے کوئی کام نہ کریں گے ۔
اگرہمیں یہ معلوم ہو کہ معاشرے میں اونچے مقام پر پہونچ جانے میں کوئی عظمت نہیں ، اس لئے کہ کالا دھواں بھی اونچائی کی طرف جاتا ہے ۔
اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگوں کی نظرا ور توجہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ، اس لئے کہ ایک ہاتھی سڑک پر چلتا ہے تو اس کو بھی سب دیکھتے ہیں ۔
اگر ریاکاری کے خطرات ا ور رسوائی پر توجہ رکھیں ۔
اگرہمیں یہ معلوم ہو کہ ایک ایسا بھی دن آئے گا جب کوئی ایک دوسرے کی فریاد کو نہیں پہنچے گا صرف وہ لوگ نجات پائیں گے جو قلب سلیم رکھتے ہوں گے ۔ (٤)
اگر ہمیںیہ معلوم ہوکہ ہم اپنی غلط نیت سے کتنے قیمتی اقدار اور امور کو کھو بیٹھتے ہیں تو اپنے آپ کو قصد قربت اور خالص نیت کے ساتھ عمل کرنے پر آمادہ کریں گے ۔
………………………………
١۔ ابراہیم ٣٧. ٢۔ بقرہ١٦٥.
٣۔ مناجات شعبانیہ .
٤۔ شعراء ٨٩ .


غلط نیت کے اثرات
نیت کی بحث کے خاتمہ پر اس کی آفتوں کے بارے میں بھی اشارہ کرتے چلیں جیسا کہ سالم نیت کی برکتوں کے بارے میں بھی اشارہ کر چکے ہیں ۔
١) دعا کا قبول نہ ہونا : امام سجاد ـ فرماتے ہیں : بری نیت دعا قبول نہ ہونے کا سبب ہے۔(١)
اگرنیت خدا کے لئے نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ وہ اس کام کو الٰہی رنگ و عبادت سے دور کرتی ہے بلکہ اگر نیت خراب ہو تو وہ انسان کو خطروں سے بھی دو چار کرتی ہے ۔ امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص قرض لے اور اس کا مقصد یہ ہو کہ اس کو ادا نہیں کرے گاتو وہ چور کے برابر ہے۔(٢)
اسی طرح اگر کوئی شادی کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ مہر نہ دے گاتو خدا کے نزدیک وہ زنا کرنے والے کے برابر ہے ۔(٣)
٢) رزق سے محرومیت : امام صادق ـ ارشاد فرماتے ہیں : اگر مومن گناہ کی نیت کرے توپروردگار اس کو رزق سے محروم کردیتا ہے ۔
اس حدیث کی حقیقی مثال ایک باغ کا قصہ ہے جو قرآن میں آیا ہے ۔ قرآن میں سورہ قلم آیت ١٦ سے ٣٠ تک کچھ لوگوں کا واقعہ ہے جن لوگوں کے پاس ایک باغ تھا انہوں نے ارادہ کیا کہ اس کے پھل چننے کے لئے رات میں جائیں تاکہ فقیروں کو خبر نہ ہو اور ان کو کچھ نہ دینا پڑے ۔ سحر کے
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٧٠ صفحہ ٣٧٥۔
٢۔ وسائل جلد ١٢ صفحہ ٨٦۔
٣۔ وسائل جلد ١٥ صفحہ ٢٢۔
وقت جب وہ باغ میں پہنچے تو دیکھا کہ وہ جل کر راکھ ہوچکا ہے ۔ پہلے ان لوگوں نے یہ خیال کیا کہ شاید وہ راستہ بھٹک گئے ہیں ۔ لیکن ان میں سے ایک شخص جو دوسروں کی نسبت زیادہ عقل مند تھا اس نے کہا : کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ ایسی نیت نہ کرو ۔ تم لوگوں نے فقیروں کو اس سے محروم کرنے کی نیت کی تو خدا نے تم کو ہی اس سے محروم کر دیا ۔ قرآن کریم کے اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھی خدا ،نیت کی بنیاد پر ہم لوگوں کو سزا دیتا ہے (١)
اگرچہ یہ بات ایک کلی قاعدہ نہیں ہے ۔
٣) بری نیت شقاوت کا سبب بنتی ہے ۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں :
'' مِن الشقاء فساد النیة '' (٢)
بری نیت سنگدلی کی علامت ہے ۔
٤) زندگی میں برکت ختم ہو جاتی ہے ۔ حضرت علی ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :
'' عند فساد النیة ترتفع البرکة '' (٣)
جس کی نیت سالم نہیں ہوتی خدا اس سے برکت چھین لیتا ہے اور وہ خدا کی نعمتوں سے اچھی طرح فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔
کہا جاتا ہے کہ کسی سے کہا گیا کہ تمہارے فلاں اچھے کام کی بنا پر تمہاری تین دعائیں قبول ہوں گی ۔ وہ شخص خوش ہوگیا اس نے کہا خدایا ہماری بیوی کو دنیا کی خوبصورت ترین عورت بنادے ۔ اس کی بیوی حَسین ہوگئی ۔ لیکن اس سے اس کی زندگی تلخ ہوگئی ۔ اس لئے کہ اس نے دیکھا کہ سارے لوگ اس کی بیوی پرفریفتہ ہوگئے ہیں ۔ اس نے اپنی دوسری دعا سے فائدہ اٹھایا اور کہا کہ خدایا میری بیوی کو بدصورت ترین عورت کر دے ۔ اس کی دعا قبول ہوگئی ۔ لیکن ایسی عورت کے ساتھ زندگی گذارنا مشکل تھا ۔ لہٰذا اس نے اپنی تیسری دعا سے کام چلایا اور کہا خدایا میری بیوی کو پہلے کی طرح کر دے۔ دعا قبول ہوگئی ۔ اس کی بیوی اپنی پہلی حالت پر پلٹ گئی ۔ اس نے اپنی تینوں دعاؤں کو استعمال کر ڈالا لیکن نتیجہ میں کچھ ہاتھ نہ لگا ۔ یہ ہے برکت کے اٹھ جانے کا مطلب کہ انسان وسائل ہوتے ہوئے بھی ان سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔ ………………………………
١۔ ایک شخص نے مجھ سے کہا ، میں نے ایک جنگی مجروح کو دیکھا جو ویل چئر wheel chair پر بیٹھا ہوا تھا ۔میں اسکے نزدیک گیا ۔ اسکا ماتھا چوما ۔ وہ میرے عطر کی خوشبو کو سمجھ گیا اور مجھ سے کہا '' عطر کی شیشی ہم کو دیدو '' میں نے کہا : '' میں تمہارے لئے عطر خرید کر لاؤں گا یہ شیشی میرے لئے رہنے دو ۔ بہرحال عطر کی شیشی اس کو نہیں دی ۔ اس سے رخصت ہوا ۔ تھوڑی دیر بعد استنجاء کرنے گیا ۔ وہ عطر کی شیشی لیٹرین کے اندر گر گئی ۔ یکبارگی متوجہ ہوا کہ یہ سزا اس کنجوسی کی وجہ سے ملی ہے اسی جگہ پر اپنے اوپر رونے لگا ۔جی ہاں قیامت کے دن یہ پشیمانی و حسرت ہوگی کہ خدا کے لئے کیوں نہ کوئی کام انجام دیا !
٢۔ غرر الحکم حدیث نمبر ١٦١٠.
٣۔ غرر الحکم حدیث نمبر ١٦١٥.