خدا کو خدا کے لئے یاد کریں
کہتے ہیں کہ محمود غزنوی اپنے درباریوں کی وفاداری کو آزمانے کے لئے ایک قافلہ لیکر چلا ۔ قافلہ کے ساتھ جواہرات سے بھرا ایک صندوق اونٹ پر لادا گیا ۔ اس صندو ق میں تالا نہیں لگایا گیا تھا ۔ راستے میں جب ایک درّہ پر پہنچے تو اس نے صندوق سے لدے اونٹ کو بھڑکا دیا تو صندوق پہاڑ کے درّے میں جا گرا اور سارے جواہرات بکھر گئے ۔ سلطان نے کہا جوموتی جس کے ہاتھ لگ جائے وہ اسی کا ہے ۔ سارے درباریوں نے سلطان کو چھوڑ دیا اور جواہرات کے چکر میں دوڑ پڑے اسی وقت دیکھا کہ اَیاز جواہرات کو چھوڑ کر سلطان کے پاس آیا ۔ سلطان نے کہا تم کیوں جواہرات کو چھوڑ کر ہمارے پاس چلے آئے ہو؟
اَیاز نے جواب دیا :
منم در قفای تو می تاختم ز خدمت بہ نعمت نپرداختم
ہم تمہارے پیچھے دیکھ رہے تھے لوگوں نے تمہارا ساتھ چھوڑا مگر ہم نے نعمت کے بدلے خدمت انجام دی ۔
مولاناروم اس واقعہ کے نتیجہ کو اس طرح پیش کرتے ہیں :
اگر از دوست چشمت بہ احسان اوست
تو در بند خویشی نہ در بند دوست
خلاف طریقت بود کاولیائ
تمنّا کنند از خدا جز خدا
یعنی اگر تمہاری نگاہیں اپنے دوست کے کرم اور احسان پر ہوں تو تم اپنی (ہوس)کی قید میں ہو نہ کہ دوست کی محبت کی قید میں،یہ راہ طریقت کے سراسر خلاف ہے کہ اولیائے خدا اس سے اس کی ذات کے علاوہ کسی اور چیز کی تمناکریں۔
جو لوگ خدا کو اپنے لئے یاد کرتے ہیںیا صرف مشکلات میں اس کی طرف رخ کرتے ہیں اس کے علاوہ خدا کو فراموش کر دیتے ہیں حتی بعض اوقات خدا کا انکار بھی کردیتے ہیں ؛ قرآن مجید نے ایسے افراد کی شدت سے مذمت کی ہے ۔ارشاد ہوتا ہے :
( فاذا رکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین لہ الدین فلما نجّا ھم الی البر اذا ھم یشرکون ) (١)
جس وقت کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور کشتی غرق ہونے لگتی ہے تو بڑے خلوص سے خدا کو پکارتے ہیں لیکن جیسے ہی خشکی میں قدم رکھتے ہیں تومشرک ہو جاتے ہیں ۔
بہرحال جو کام بھی اپنے لئے کیا جائے وہ نفس پرستی ہے ۔ اگر لوگوں کے لئے کیا جائے وہ بت پرستی ہے ۔ اگر خدا اور مخلوق کے لئے ہو وہ دوگانہ پرستی ہے ۔اور اپنا اور مخلوق کا کام خدا کے لئے انجام دینا یہ خدا پرستی ہے ۔ ہم حضرت علی کی مناجات میں پڑھتے ہیں: '' الہ ما عبدتک خوفا من نارک و لا طمعا فی جنتک بل وجدتک اھلا للعبادة فعبدتک ''(٢)
خداوندا ! میری عبادت نہ دوزخ کے ڈر سے اور نہ جنت کی لالچ سے ہے بلکہ میری عبادت اس لئے ہے کہ میںنے تجھ کو عبادت و بندگی کے لائق سمجھا لہٰذا میں تیری عبادت کرتا ہوں ۔
ہاں ! یہ تاجر ہیںجو فائدہ کی وجہ سے کام کرتے ہیں اور یہ غلام ہیں جو ڈر کی بنا پرکام کرتے ہیں ،مگر آزاد لوگ خدا کے شکر کے لئے اور اس کی نعمتوں کی وجہ سے اس کی عبادت کرتے ہیں جیسا کہ معصومین کے کلمات میں آیا ہے :
………………………………
١۔ عنکبوت ٦٥.
٢۔ بحار الانوار جلد ٧ صفحہ ١٨٦.
'' انّ قوما عبدوا اللہ رغبة فتلک عبادة التجار و انّ قوما عبدوا اللہ رھبة فتلک عبادة العبید و انّ قوما عبدوا اللہ شکرا فتلک عبادة الاحرار '' (١)
بقول حافظ :
در ضمیر ما نمی گنجد بغیر از دوست کس
ھر دو عالم را بہ دشمن دِہ کہ ما را دوست بس
''ہمارا ضمیر دوست کے علاوہ کسی اور کو قبول نہیں کرتا ۔ دونوں جہاں دشمن کو دے دو ہم کو تو صرف اس کی دوستی ہی کافی ہے ''۔ دنیاوی اور مادّی عشق میں انسان معشوق کو اپنے لئے چاہتا ہے اور معنوی عشق میں انسان اپنے کو معشوق کے لئے چاہتا ہے ۔ حضرت علی ـ دعائے کمیل میں فرماتے ہیں : '' و اجعل قلب بحبک متیما '' پروردگارا میرے قلب کو اپنی محبت سے بھر دے ۔ ''
تقرب الٰہی کے حصول کا راستہ
تقرب الٰہی کے حصول اور قصد قربت کے دو راستے ہیں : ١) پروردگار کی عظمت و مقام کو پہچاننا۔ ٢) خداوند متعال کے علاوہ ہرچیز کی بے اعتباری اور کھوکھلے پن کو جاننا۔
قرآن مجید ہمیشہ خدا کے الطاف اور اس کی نعمتوں کو بیان کرتا ہے تاکہ انسان کو اس کا محب بنائے ۔ اس کی صفتوں کا ذکر ، اس کی خلقت ، اس کی مادّی اور معنوی امداد ، اس کے علاوہ بہت سی چھوٹی اور بڑی نعمتوں کاتذکرہ یہ سب اس لئے ہیں کہ خدا سے ہمارے عشق ومحبت کو زیادہ کریں ۔
دوسری طرف کافی آیتوں میں خدا کے علاوہ بقیہ تمام چیزوں کے ضعف اوران کی بے مائیگی کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے '' خدا کے علاوہ نہ کوئی عزت رکھتا ہے اور نہ قدرت ، اگر سارے
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٤١ صفحہ ١٤.
لوگ جمع ہوجائیں اور چاہیں کہ ایک مکھی خلق کریں تو نہیں کر سکتے'' ! ۔ خدا کے علاوہ کون ایسا ہے جو پریشان و درماندہ لوگوں کی فریاد کا جواب دے ؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ہم کسی دوسرے کو خدا کے ساتھ لا کر کھڑا کردیں اور اس کو خدا کا ہم پلّہ اور برابر قرار دیدیں ؟
ایک واقعہ
عالم تشیع کے ایک مرجع تقلید ، حضرت آیة اللہ العظمیٰ آقا ئے بروجردی تھے ۔ آپ محرم کے زمانے میں اپنے گھر پر مجلس عزا کراتے تھے ۔ ابھی ایام عزا ہی تھے کہ بیمار ہوگئے لہذا اپنے خصوصی کمرے میں لیٹے لیٹے مجلس کی آواز سن رہے تھے۔ مجلس میں شرکت کرنے والوں میں سے ایک نے بلند آواز میں کہا کہ : امام زمانہ ـ اور آیة اللہ بروجردی کی سلامتی کے لئے صلوات پڑھیں ''
اتنے میں لوگوں نے دیکھا کہ آیة اللہ العظمیٰ بروجردی اپنے عصا سے دروازے کو پیٹ رہے ہیں ان کے قریب والے لوگ فوراً اندر گئے اور پوچھا۔ کیا کوئی حکم ہے ؟ مرجع بزرگوار نے فرمایا : کیوں ہمارے نام کو امام زمانہ ـ کے ساتھ لیا ؟ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ہمارے نام کو امام ـ کے نام کے ساتھ لو اور دونوں کے لئے صلوات پڑھو۔ (١)
یہ دینی مرجع جو نائب امام زمانہ ـ ہیں راضی نہیں ہوئے کہ ان کا نام معصومین کے نام کے ساتھ لیا جائے لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں جواتنی کج فہمی اور بد تہذیبی کا شکار ہیں کہ ضعیف اور حقیر مخلوق جو سراپا محتاج و نیاز مند ہے ،اس کو خدائے قادر مطلق کے ساتھ لا کھڑا کرتے ہیں گویا وہ لوگ دونوں کو ایک جیسا سمجھتے ہیں ۔
………………………………
١۔ اس واقعہ کو آیة اللہ صافی مد ظلہ نے نقل فرمایا ہے .
کیفیت یا مقدار؟
اسلام نے کام کی کیفیت پر زیادہ زور دیا ہے کہ کام کیسا ہے اس کا مقصد و ارادہ کیسا ہے ۔
قرآن اچھے عمل کی تعریف کرتا ہے نہ کہ زیادہ عمل کی ، ارشاد ہوتا ہے :
( لیبلوکم ایکم احسن عملاً ) (١)
خدا تم کو امتحان میں مبتلا کرتا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ تم میں سے کون ہے جو بہترین عمل بجا لاتا ہے ؟
حضرت علی ـ نے نماز کی حالت میں فقیر کو انگوٹھی دی ۔ آپ کے اس اچھے عمل پر قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی ۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیت اس وجہ سے نازل ہوئی تھی کہ وہ انگوٹھی بہت قیمتی تھی یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس انگوٹھی کی قیمت شامات اور سوریہ کے ٹیکس کے برابر تھی ، جب کہ اتنی قیمتی انگوٹھی علی علیہ السلام کے زہد سے اور حضرت علی ـ کی عدالت سے بھی سازگار نہیں ہے کہ آپ اتنی قیمتی انگوٹھی اپنے ہاتھ میں رکھیں جب کہ کتنے ہی فقیروں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت ( انّما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزکاة و ھم راکعون ) (٢)
کا نزول عمل کی کیفیت کی بنا پر ہے ، اس کی مقدار اور قیمتی ہونے کی بناپر نہیں۔ آپ کے عمل میں نیک قصد اور اخلاص تھا، نہ اس لئے کہ انگوٹھی کا وزن زیادہ تھا یا اس کی قیمت زیادہ تھی ۔
………………………………
١۔ ہود ٧.
٢۔ مائدہ ٥٥.
یادگار واقعہ
بہلول نے دیکھا کہ کچھ لوگ مسجد بنا رہے ہیں اور ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد خدا کی ہے ۔ بہلول نے ایک پتھر پر لکھا کہ '' اس مسجد کے بانی بہلول ہیں '' ۔ پھر اس پتھر کو رات میں صدر دروازے پر لے جاکر نصب کر دیا ۔ دوسرے روز صبح جب مزدور کام کرنے آئے اور اس پتھر کو جس پر بہلول کا نام لکھا تھا دیکھا تو ہارون رشید سے جا کر ماجرا بیان کیا ۔ ہارون رشید نے بہلول کو بلوایا اور پوچھا کہ : '' مسجد ہم بنا رہے ہیں تم نے اسے اپنے نام کیوں کر لیا ؟ ''
بہلول نے کہا کہ اگر تم خدا کے لئے مسجد بنا رہے ہو تو اس پر میرا نام رہنے دو اس لئے کہ خدا جانتا ہے کہ اس کا بنوانے والا کون ہے ؟۔ خدا اجر و ثواب دینے میں دھوکہ نہیں کھاتا ۔ اگر یہ مسجد خدا کے لئے ہے تو چاہے ہمارا نام ہو یا تمہارا نام ہو یہ کوئی اہم بات نہیں ہے ۔
بہلول نے اپنے اس کام سے اس کو سمجھا دیا کہ اس کی نیت قربت کی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد شہرت اور نام و نمود ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن مجید کفار کے اعمال کو سراب سے تشبیہ دیتا ہے کہ جودیکھنے میں پانی ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے ۔
(و الذین کفروا اعمالھم کسراب بقیعة یحسبہ الظمآن مائً ) (١)
'' جن لوگوں نے کفر اختیار کر لیا ان کے اعمال اس ریت کی مانند ہیں جو چٹیل میدان میں ہو اور پیاسا اسے دیکھ کراسے پانی تصور کرے ۔ ''
اصولاً اسلام اس عمل کو صالح سمجھتا ہے کہ جس کے چاروں عناصر ترکیبی نیک اور صحیح ہوں ۔ یعنی عمل ، جذبۂ محرکہ ، وسیلہ اور روش ۔
………………………………
١۔ نور ٣٩ .
قصد قربت ، کام کے آغاز میں ہی ضروری نہیں ہے بلکہ کام کے آخر تک قصد قربت باقی رہناضروری ہے ورنہ عمل باطل ہے ۔ اگر ہوائی جہاز کا انجن ایک منٹ کے لئے بھی خراب ہو جائے تو اس کا گرنا حتمی ہے ۔ اسی طرح نیت میں شرک و ریا حتی اگر ایک لحظہ کے لئے بھی ہو ں پورے عمل کو نابود کر دیتے ہیں ۔
ایک واقعہ
ایک ہوائی جہاز کے اڑنے کا وقت نزدیک تھامگر اس کے سب مسافروںکو اتار دیا گیا۔ گھنٹوں اس کی اڑان میں دیر ہوگئی ۔ ہم نے اس کی تاخیر کی وجہ دریافت کی ۔ لوگوں نے بتایا کہ جہاز میں ایک چوہا چلا گیا ہے ۔ ہم نے کہا کہ اتنی تاخیر ایک چوہے کی وجہ سے ! کہا، ہاں اس لئے کہ ممکن ہے یہی چوہا کسی تار کو کاٹ دے اور جہاز کا کنٹرول سسٹم خراب ہوجائے اور کوئی حادثہ پیش آجائے۔
بہت سے نیک کام جو خدا کی طرف انسان کی پرواز کا سبب بنتے ہیں ۔ ممکن ہے کسی ایک روحی مرض کی بناء پر انسان کو نہ صرف بلندیوں پر جانے سے روک دیں بلکہ ممکن ہے کہ انسان کے سقوط کا سبب بن جائیں۔
نیت ؛کام کو اہمیت دیتی ہے
فرض کریں ایک شخص نے دوسرے انسان کو ظلم وتجاوز کی نیت سے قتل کر ڈالا بعد میں معلوم ہوا کہ قتل ہونے والا انسان بھی ظالم و جابر تھا اس کو پھانسی دینا ضروری تھا ۔ یہاں پر اگر چہ قتل کرنے والے کا کام مفید اور اچھا تھا لیکن پھر بھی لوگ اس قاتل کی تعریف نہیں کریں گے کیونکہ قتل کرنے والے کی نیت ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنا تھی اور وہ ''مفسد فی الارض '' (فسادی انسان)کو قتل کرنے کی نیت نہیں رکھتا تھا ۔
پس ایک کام کامفید ہونا اس بات کے لئے کافی نہیں کہ وہ عمل صالح بھی ہو بلکہ اس کے لئے عمل کے ساتھ ساتھ پاک نیت اور پاک قصد کی بھی ضرورت ہے ۔
قرآن مجید ہر جگہ پر ہر کام میں قصد قربت پر زور دیتا ہے ، چاہے خمس و زکات و خیرات مالی ہو اور چاہے دشمن سے جنگ و جہاد ہو ، قرآن کریم ہمیشہ ان کلمات : ( ف سبیل اللہ ) (١) (لوجہ اللہ ) (٢) ( ابتغاء مرضات اللہ ) (٣) پر انحصار کرتا ہے ۔ یہ قصد قربت کی اہمیت کی علامت ہے ۔
جو لوگ مدرسہ ، اسپتال ، راستہ یا ہاسٹل تعمیر کرتے ہیں یا اس کے علاوہ دوسرے مفید کام کرتے ہیں اگر قصد الٰہی نہ ہو تو انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ، اس لئے کہ ایسے کاموں سے انھیںخود کوئی فائدہ نہیں ہوتا اگرچہ دوسرے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
قرآن مجید ہمیشہ عمل صالح کوجو ایمان کے ساتھ لاتا ہے ۔جیسا ارشاد ہے :
( الذین آمنوا و عملوا الصالحات )
یا دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :
( مَن عمل صالحاً من ذکر او انثیٰ و ہو مؤمن ) (٤)
اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں صرف فعل کا اچھا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ فعل انجام دینے والے کی نیت کا اچھا ہونا بھی ضروری ہے ۔
………………………………
١۔ بقرہ ١٩٠.
٢۔ انسان ٩.
٣۔ بقرہ ٢٠٧.
٤۔ نحل ٩٧.
دو واقعات
١) بلال پیغمبر ۖ اسلام کے مؤذن تھے یہ '' اشہد ان لا الہ لاَّ اللہ '' میں '' شین '' کے بجائے '' سین '' کہتے تھے اس لئے کہ ان کی زبان لکنت کرتی تھی ۔ لوگ اس کو عیب سمجھتے تھے ۔ لیکن رسول اکرم ۖ نے فرمایا کہ : بلال کی سین خدا کے نزدیک شین ہے ۔ (١) اگرچہ ظاہری طور پر یہ عمل ناقص ہے لیکن قصد قربت اور حسن نیت کی بنا پر اجر کا حامل ہے۔
٢) عبد اللہ بن مکتوم نابینا تھے اور رسول اکرم ۖ کے بہت مخلص اورآپ کے چاہنے والے اصحاب میں تھے ۔ ایک دن رسول اکرم ۖ کچھ لوگوں سے گفتگو میں مشغول تھے ۔ اسی اثناء میں عبد اللہ بن مکتوم وہاںآئے ۔ عبد اللہ چونکہ نابینا تھے یہ لوگوں کو دیکھ نہیں سکتے تھے لہذا بلند آواز میں بات کرنے لگے ۔ انہیں لوگوں میں سے ایک شخص نے انھیں نفرت بھری نگاہ سے دیکھا اورناراض ہوگیا ۔ اس اظہار نفرت اور ہنسنے سے عبد اللہ پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا کیونکہ وہ نابینا تھے ۔ لیکن اس نفرت کرنے کی وجہ سے قرآن مجید کا ایک پورا سورہ نازل ہوا اور دس آیتوں میںاس مذاق اڑانے والے کو ڈانٹا (عبس و تولی ان جائَ ہ الاعمیٰ و ما یدریک لعلہ یزکیٰ )(٢)
پس کسی عمل کا مفید یا مضر ہونا معیار نہیں ہے کہ دوسروں سے اس کو تولا جائے اور کہا جائے کہ یہ عمل دوسروں کے لئے فائدہ مند ہے یا مضر ہے اور یہ کہ اگر یہ عمل دوسروں کو فائدہ دینے والا ہے تو وہ عمل صالح ہے اور اگر مضر ہے تو عمل غیر صالح ہے ۔ بلکہ عمل اوراس عمل کو انجام دینے والے کے درمیان یہ رابطہ دیکھا جائے کہ اس نے اس کو کس مقصد کے تحت انجام دیا ہے ؟یعنی خود عمل ،
………………………………
١۔ مستدرک الوسائل حدیث ٤٦٩٦.
٢۔ سورہء عبس آیت ١ سے ١٠ تک.
چاہے دوسروں کے لئے مفیدیا مضر نہ ہو، مگر اس عمل کی نوعیت کیا ہے ؟یہ دیکھا جائے گا۔
جی ہاں ! انبیاء کے مکتب میں اخلاق کی ذاتی اہمیت ہے نہ کہ عرضی ، جیسے کوئی گاہک کو اپنی طرف کھینچنے ، پیداوار کو زیادہ کرنے اور لوگوں کو اپنے قریب جمع کرنے والا کرتا ہے ۔
سورئہ '' عبس'' میں اس پر بات تنقید ہوئی کہ کیوں نابینا سے نفرت کی اوراس کا مذاق اڑایا ؟ چاہے کہ نابینا تم کو نہیں دیکھتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی مؤمن کا مذاق اڑانا ( چاہے وہ نہ دیکھے )یہ ذاتا ایک بُری اور قبیح چیزہے۔
بہرحال قصد قربت یعنی تمام کاموں کو الہی معیار پر انجام دینا اورعمل میں سیاسی و سماجی رد عمل اور دوسروں کی خوشامد کا پہلو نہ ہو ۔
قصد قربت : یعنی عمل کو خدا کے لئے انجام دو لوگوں کی قیل و قال سے نہ ڈرو۔
قرآن مجید حقیقی مومنین کے لئے فرماتا ہے :
( یجاھدون ف سبیل اللہ و لا یخافون لومة لائمٍ)(١)
خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور لوگوں کی ملامت سے نہیں ڈرتے ۔
قصد قربت : یعنی حق کہو خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرو ۔جیسا قرآن مجید الٰہی اور دینی تبلیغ کرنے والوں کی یوںتعریف کرتا ہے :
( الذین یبلغون رسالات اللہ و یخشونہ و لا یخشون احداً الا اللہ ) (٢)
''وہ لوگ اللہ کے پیغام کو پہونچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ''۔
………………………………
١۔ مائدہ ٥٤.
٢۔ احزاب ٣٩.
|