|
نیت: نماز کا سب سے پہلا رکن ہے ۔
نیت: یعنی ہم یہ جان لیں کہ کیا کر رہے ہیں ، کیا کہہ رہے ہیں ، کس کے لئے کر رہے ہیں اور کیا کام انجام دے رہے ہیں ۔
ہر کام کی اہمیت اس کی نیت اور قصد کی وجہ سے ہے نہ کہ صرف عمل ۔ لہٰذا اگر کوئی نظم و ضبط کی حفاظت کے خیال اور قانون کے احترام کی خاطر چوراہے کی لال لائٹ ( Red light) پر ٹھہرے اور کوئی پولیس اور جرمانہ کے ڈر سے رکے ، تو ان دونوں میں بیحد فرق ہے ۔ تمام عبادتوں میں خصوصاً نماز میں نیت کا ایک خاص مقام ہے ۔ اصولی طورپر وہ چیز جو کسی کام کو عبادت بناتی ہے ، نیت الٰہی ہے، کہ اگر وہ نیت نہ ہو تو وہ کام ظاہراً چاہے جتنا بھی اچھا ہو لیکن عبادت کہے جانے کے لائق نہیں ہے ۔
پیغمبر ۖ اسلام اس بارے میں فرماتے ہیں : '' انّما الاعمال بالنیات '' (١) تمام کام قصد و نیت کی وجہ سے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور نیت پر تولے جاتے ہیں ۔
جی ہاں ! کسی کام کے مادّی یا معنوی ہونے کا انحصار نیت اور مقصد کے تفاوت پر ہے ۔
خالص نیت
خالص نیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان فقط خدا کے لئے کام کرے اور اس کے دل و جان کی گہرائی میں خدا کی خوشنودی ہو ، خدا ہی اس کے مدّ نظر ہو اور وہ لوگوں سے اس کے صلہ اور شکریہ کا منتظر نہ ہو ۔(٢)
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٧٠ صفحہ ٢١٠ .
٢۔ سورۂ انسان ٩ .
رسول خدا ۖ کے اہل بیت نے تین روز لگا تار یتیم و اسیر اور فقیر کو جو روٹیاں دیں ، مادّی لحاظ سے ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن چونکہ نیت خالصانہ تھی لہذاخدائے تعالیٰ نے اس کے عوض میں ایک سورہ نازل فرما دیا (١)
اس سلسلے میں عطار نیشاپوری کہتے ہیں
گذشتہ زین جھان ، وصف سنانش گذشتہ ز آن جھان ، وصف سہ نانش
ہم تاریخ میں پڑھتے رہتے ہیں کہ ایک شخص جو محاذ جنگ میں قتل ہوگیاتھا لوگ اس کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ شہید ہوگیا ہے لیکن حضرت نے فرمایا کہ وہ '' قتیل الحمار ''' ہے ۔ یعنی گدھے کی راہ میں قتل ہوا ۔ لوگوں نے تعجب کیا۔ تو آنحضرت ۖ نے فرمایا : جنگ میں اس کے آنے کا مقصد خدا نہیں تھا بلکہ اس نے دیکھا کہ دشمن کافی اچھے گدھے پر سوار ہے اوراس نے اپنے آپ سے کہا کہ چلتے ہیں اس کو قتل کر دیں گے اور اس کا گدھا مال غنیمت میں لے جائیں گے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا بلکہ اس کافر نے ہی اس مسلمان کو قتل کر دیا لہٰذایہ '' قتیل الحمار '' گدھے کی راہ میں قتل ہواہے ۔(٢)
نیت کا خالص کرنا بہت نازک اور مشکل کام ہے ۔ کبھی خدا کے علاوہ دوسری فکریں انسان کے دماغ میں اس طرح نفوذ کرتی ہیں کہ وہ خودبھی ان سے بے خبر رہتا ہے ۔ لہذا روایت میں آیا ہے کہ ریا و شرک رات کے اندھیرے میں کالے پتھر پر کالی چیونٹی کی حرکت سے زیادہ دقیق و آہستہ ہے(٣) بہت سے لوگ اپنے خیال میں تو قربت خدا کا قصد کرتے ہیں لیکن حالات کے نشیب و فراز کے وقت پتہ چلتا ہے کہ ان کی نیت سو فیصد خالص نہیں ہے ۔
………………………………
١۔ سورئہ دہر.
٢۔ محجة البیضاء جلد ٨ صفحہ ١٠٤.
٣۔ بحار الانوار جلد ٧٢ صفحہ ٩٣.
علامہ شہید مطہری کے بقول : نیت یعنی خود شناسی ۔ عبادت کی قدر و قیمت معرفت و آگاہی سے ہے ۔حتی کہ روایتوں میں وارد ہوا ہے :
'' نیة المؤمن خیر من عملہ '' (١)
مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے ۔
جس طرح سے جسم و روح کے موازنہ میںروح، جسم سے زیادہ اہم ہے اور انسان کی انسانیت اس کی روح کی وجہ سے ہے ، نیت و عمل کے موازنہ میں بھی، نیت، عمل سے اہم ہے اس لئے کہ نیت روحِ عمل ہے ۔ نیت اتنی اہم ہے کہ اگر انسان عمل خیر کو انجام نہ دے سکے لیکن کار خیر کی نیت رکھتا ہو کہ مثلاً فلاں کام کو کرے گا تو بھی خدا اس کو اجر دے گا ۔ (٢)
قصد قربت
قصد قربت یعنی بارگاہ پروردگار سے قرب ۔ مثلاً جب لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص حکومت کے فلاں بڑے عہدہ دار سے بہت نزدیک ہے تو سورج کی روشنی کی طرح واضح ہے کہ اس کا مطلب مکانی اور جسمانی قربت نہیں ہوتی ورنہ اس کے نوکر اور خدمت کرنے والے سب سے زیادہ اس کے نزدیک ہوتے ہیں ۔لہٰذا اس سے مکانی اور جسمانی قربت مراد نہیں ہے بلکہ معنوی ، مقام ومرتبہ اور اُنس کی قربت مراد لی جاتی ہے ۔
پروردگار عالم کی خوشنودی کے لئے کسی کام کو انجام دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا وند عالم کے اوپر ہمارے کاموں کا اثر پڑتا ہے اور ان کاموں کی وجہ سے اس کی حالت بدل جائے، اس صورت وہ محل حوادث (جس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے)ہو جائے گا بلکہ خدائے تعالیٰ سے قربت کا مطلب یعنی وجود کے زینہ سے روح کا بلندی پر جانا ہے جس کے نتیجے میں انسان عالم ہستی
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٧٠ صفحہ ٢١٠.
٢۔ محجة البیضاء جلد ٨ صفحہ ١٠٤.
میں تسلط اور نفوذ حاصل کرتا ہے یعنی سرچشمہ ہستی سے نزدیک ہوتا ہے اور اس کو اپنے دل کے اندر محسوس کرتاہے۔
جس طرح سے وجود کے مراتب ؛ جمادات ، نباتات، حیوانات اور انسانوں میں مختلف ہیں۔ اسی طرح انسانوں کے درمیان قرب خداوند کے مراتب بھی مختلف ہیں ۔ انسان میںاتنی صلاحیت و استعداد ہے کہ وہ خدا سے اتنا قرب حاصل کر لے کہ اس کی بارگاہ کے مقرب ترین لوگوں میں قرار پاجائے اور زمین پر اس کا خلیفہ بن جائے ۔
قربت کے قصد سے انجام پانے والی عبادت ، انسان کو نورانی اور کامل تر بنا دیتی ہے اور اس کے وجود کی ظرفیت بڑھ جاتی ہے ۔ اس سلسلہ میں ساری عبادتیں خصوصاً مستحبی نمازیں زیادہ مؤثر ہوتی ہیں ۔ حدیث شریف میں آیا ہے :
'' لا یزال العبد یتقرب الّ بالنوافل '' (١)
انسان مستحبی نمازوں کے ذریعہ خدا وند عالم سے قریب ہوتا ہے ۔ واجب نمازیں ممکن ہیں دوزخ کے ڈر سے یا خدا کے خوف سے پڑھی جائیں لیکن نافلہ نمازیں عشق کی نشانی اور معبود سے انس و محبت کی پہچان ہیں ۔
تقرب الٰہی کے درجات
قرآن مجید میں لفظ '' درجات'' متعدد بار ذکر ہوا ہے اور مختلف تعبیروں کے ساتھ استعمال ہوا ہے ۔اور اس میں کافی لطیف نکتے پائے جاتے ہیں ۔ بعض کے لئے فرماتا ہے:
( لھم درجات) (٢)
ان کے لئے درجات ہیں ۔
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٧٥ صفحہ ١٥٥.
٢۔ انفال ٤.
بعض کے لئے ارشاد ہوتا ہے:
( ھم درجات ) (١)
وہ لوگ خود درجات ہیں ۔ ان کی مثال ایسی ہے کہ اگر کسی مجلس میں بزرگ شخصیات پیچھے بیٹھیں تو وہ جگہ صدر مجلس سے زیادہ بلند ہو جاتی ہے ۔ یعنی درجہ و مقام انکو بلند نہیں کرتا بلکہ وہ لوگ خود اس درجہ کومقام بخشنے والے ہیں ۔
یہ معنوی درجہ بندی صرف انسانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ مراتب کا سلسلہ فرشتوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ جیسے جناب جبرئیل کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے :
( مطاعٍ ثم امین ) (٢)
یعنی دوسرے فرشتے ان کی اطاعت کرتے ہیں ۔
بہرحال خدا وند عالم کی اطاعت کے اعتبار سے تمام انسانوں کے مراتب فرق رکھتے ہیں ۔
١) کبھی انسان صرف مطیع ہے لیکن خدا کی رضا کے لئے نہیں ۔
٢) کبھی انسان اطاعت کے علاوہ خدا کا محب ہے یعنی خدائے تعالیٰ سے عشق و محبت کی بنیاد پر اطاعت کرتا ہے ۔
٣) کبھی انسان اطاعت و محبت سے بالا تر کامل معرفت کے ساتھ اطاعت کرتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے فقط خدا کو دیکھتا ہے ۔ حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں :
ما رأیت شیئا الا و رأیت اللہ قبلہ و بعدہ و معہ '' (١)
………………………………
١۔ آل عمران ١٦٣. 1۔ تکویر ٢١ .
2۔ تماشاگہ راز صفحہ ١١٤.
| |