|
تصویر عبادت
٭ عبادت و بندگی نے رسول خدا ۖ کو معراج پر پہنچایا :
( سبحان الذ أسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ ) (١)
پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ۔
٭ عبادت فرشتوں کے نزول کا پیش خیمہ ہے
( نزّلنٰا علی عبدنا ) (٢)
ہم نے اپنے بندے پر ( فرشتوں کے ذریعہ ) وحی نازل کی ۔
٭ عبادت انسان کی دعا مستجاب کرتی ہے اس لئے کہ نماز خدا سے عہد و پیمان ہے (٣) اور جو بھی پیمان خدا کو وفا کرے گاتوخدائے تعالیٰ بھی اس کے پیمان پر وفادار ہے۔
( أوفوا بعھد اوف بعھدکم ) (٤)
………………………………
١۔ اسرائ١.
٢۔ بقرہ ٢٣ .
٣۔ ا لم ا عھد الیکم یا بن آدم انْ لا تعبدوا الشیطان انّہ لکم عدو مبین ۔ و انْ اعبدون ھٰذا صراط مستقیم '' یس ٦٠ ، ٦١ . ٤۔ بقرہ٤٠ .
عبادت کے بغیر انسان جمادات اور پتھر سے بھی بدتر ہے اس لئے کہ قرآن مجید فرماتا ہے :
( و انّ من الحجارة لما یھبط من خشیة اللہ ) (١)
اللہ کے خوف سے بعض پتھر زمین پر گر جاتے ہیں لیکن بعض انسان خالق دنیا و آخرت کے سامنے اپنی گردن تک نہیں جھکاتے ۔
عبادت انسان کے ارادہ ا ور اسکی شخصیت کی پہچان ہے چونکہ انسان چاہتوںاور تمایلات کے درمیان ہے لہٰذا اگر وہ خواہشات اور جذبات سے منہ موڑ لے اور خداکی طرف چلا جائے تو اہمیت رکھتا ہے ۔ ورنہ فرشتے شہوت و غضب نہیں رکھتے اورہمیشہ عبادت میں مشغول رہتے ہیں ۔
٭ عبادت زمین کے گمنام لوگوں کو آسمان کے مشہور ترین لوگ بنا دیتی ہے ۔
٭ عبادت انسان کے وجود کے چھوٹے سے جزیرے کو عالم ہستی کے سرچشمہ سے ملا دیتی ہے۔
٭ عبادت ، یعنی پوری کائنات پر اوپر سے ایک نظر ۔
٭ عبادت یعنی انسان کے اندر چھپی ہوئی عرفانی اورروحانی استعدادوں کی نشو و نما ۔
٭ عبادت ایسی قدر ہے جس کو انسان اپنے ارادہ و اختیار سے حاصل کرتا ہے بر خلاف خاندانی اقدار یا اندرونی استعداد کے ،جو اختیاری و اکتسابی نہیں ہیں ۔
٭ عبادت خدا سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو تازہ کرنا اورروحانی زندگی کو زندہ رکھنا ہے ۔
٭ عبادت ، گناہ کے لئے رکاوٹ اور اس کے اثرات کو ختم کر دیتی ہے ۔ وہ خدا کی یاد اور اس کا ذکر ہے جو گناہ سے روکتا ہے نہ فقط گناہ کا علم۔
٭ عبادت ، روح کے خالی ظرف کو یاد خدا سے پرُ کرنا ہے۔ اگر یہ ظرف غیر خدا سے پر ہو تو گوہر انسانیت پر ظلم ہے ۔
………………………………
١۔ بقرہ ٧٤.
٭ عبادت ، اس خاکِ زمین کو اتنی اہمیت دیتی ہے کہ اس زمین میں طہارت کے بغیر داخلہ ممکن نہیں جیسے مسجد ، کعبہ اور بیت المقدس ۔
٭ عبادت و بندگی ٔخدا، خود ایک قدر ہے اگرچہ ہماری دعا و حاجات پوری نہ بھی ہوں ۔
٭ عبادت خوشی میں بھی ہے اور غمی میں بھی ۔ جہاں پر خدا ؛ رسول اکرم ۖ کو کوثر عطا کر رہا ہے وہاں نماز کی بھی تاکید کر رہا ہے :
( انّا اعطیناک الکوثر فصلِّ لرِبک ) (١)
ہم نے تم کوخیر کثیر عطا کیا پس خدا کی عبادت (نماز) بجا لاؤ ۔
اسی طرح مشکلات میں بھی نماز کی تاکید کی گئی ہے :
( و استعینوا بالصبر و الصلاة ) (٢)
مشکل کشا نمازیں
اسلام تاکید کرتا ہے کہ جس وقت کوئی حاجت یا مشکل پیش آئے تو مخصوص نمازوں کو پڑھ کر اپنی مشکلوں کو حل کرو ۔ یہاں پر مناسب ہے کہ ان مخصوص نمازوں میں سے ایک نمونہ آپ کے سامنے پیش کردیں :
نماز جعفر طیّار
جناب جعفر طیار حضرت علی ـ کے بھائی ہیں ۔جنھوں نے حبشہ میں اپنی ہجرت کے دوران اپنے مناسب استدلال و کردار سے نجاشی اور ایک کثیر تعداد کے دلوں کو اسلام کی طرف
………………………………
١۔کوثر١.
٢۔ بقرہ٤٥.
جذب کیا اور براعظم افریقہ میں اسلام کے بانی بنے ۔اور جنگ موتہ میں اپنے دونوں ہاتھ راہ خدا میں دے دیئے ۔ خداوند عالم نے ان دونوں ہاتھوں کی جگہ آپ کو جنت میں دو پر عطا کئے اسی وجہ سے آپ جعفر طیّار کے نام سے مشہور ہوگئے ( طیّار یعنی اڑنے والا ) ۔
جس وقت جعفر حبشہ سے واپس آئے تو رسول اکرم ۖ نے ان سے فرمایا :کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک قیمتی ہدیہ دیدوں ؟ لوگوں نے خیال کیا کہ رسول اسلام ۖ ان کو سونا یا چاندی یا کوئی دوسری قیمتی چیز عطا کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی خیال سے سب لوگ آنحضرت ۖ کے گرد جمع ہوگئے تاکہ پیغمبرۖ کا ہدیہ دیکھیں ۔ لیکن آپ ۖ نے ارشاد فرمایا: کہ ہم تم کوایک نماز ہدیہ کر رہے ہیں اگر ہر روز اس کو پڑھو گے تو دنیا اور دنیا میں موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے اور اگر ہر روز یا ہر جمعہ یا ہر ماہ یا ہر سال بجا لاؤ تو پر وردگار دو نمازوں کے بیچ کے سارے گناہ ( ولو دو نمازوں میں ایک سال کا فاصلہ ہو ) بخش دے گا۔ (١)
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ جس وقت بھی کوئی مشکل یا حاجت پیش آئے تو نماز جعفر طیّار پڑھنے کے بعد دعا کرو انشاء اللہ دعا مستجاب ہوگی ۔
یہ نماز شیعہ اور سنی دونوں کے یہاں معتبر سندوں سے نقل ہوئی ہے اور اس کا نام '' اکثیر اعظم'' و '' کبریت احمر'' پڑ گیا (٢)
اس نماز کے پڑھنے کا طریقہ مفاتیح الجنان کے شروع میں روز جمعہ کے اعمال میں ائمہ معصومین کی نمازوں کے بعد موجود ہے ۔ البتہ یہ ان دسیوں نمازوں میں سے ایک ہے جو مشکلات کو دورکرنے کے لئے وارد ہوئی ہیں ۔ حال ہی میں ایک کتاب ، مستحبی نمازوں کے عنوان سے نشر ہوئی ہے۔
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ١٨ صفحہ ٤٢١.
٢۔ بحار الانوار جلد ٩١ باب فضل صلاة جعفر .
جس میں تقریباً ٣٥٠ مستحبی نمازوں کو ان کے نام اوران کے پڑھنے کے طریقہ کے ساتھ جمع کیا گیا ہے ۔ اتنی قسم کی نمازیں اور ہر مناسبت سے متعلق ایک نماز یہ خود نماز کی ایک اہمیت ہے ۔
نماز کا تقدس
نماز کا تقدس اتنا زیادہ ہے کہ بعض دینی مراسم کے وقت جیسے قسم یا گواہی دینے سے پہلے نماز پڑھی جائے اس کے بعد قسم کھائی جائے یا گواہی دی جائے ۔
قرآن مجید سورئہ مائدہ آیت ١٠٦ میں فرماتا ہے :
جس وقت کوئی سفر میں بیمار ہو جائے اور موت کے قریب پہنچ جائے تو دو مسلمان یا غیر مسلم افراد کو اپنی وصیت پر گواہ بناؤ اور یہ گواہی نماز کے بعد انجام پائے یعنی یہ دو لوگ نماز پڑھنے کے بعد قسم کھا کر کہیں کہ فلاں مسلمان نے سفر میں یہ وصیت کی ہے ۔
آج کل رواج ہے کہ قسم کھانے کی رسم قرآن مجید کو سامنے اور اس پر ہاتھ رکھ کر انجام پاتی ہے لیکن خود قرآن کریم اس بارے میں فرماتاہے کہ شرعی قسم کے مراسم نماز کے بعد انجام دیئے جائیں ۔
جامعیّت ِ نماز
پروردگار عالم نے کائنات کی خلقت اوراپنی شریعت کے احکام بنانے میں عالی ترین اور کامل ترین امور کو استعمال کیا ہے جیسے ماں کا دودھ ایسا بنایا ہے کہ بچہ کو جتنے وٹامنز کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب ماں کے دودھ میں جمع کر دیئے ہیں ۔
اسی طرح انسان کی خلقت کو اگر دیکھیں تو جو بھی کائنات میں موجود ہے انسان کے اندر ان ساری چیزوں کو جمع کیا ہے ۔
اگر کائنات میں بجلی کی کڑک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو انسان میں چیخ و پکار ہے ۔
اگر کائنات میں گھاس پھوس اور درخت ہیں ۔۔۔۔۔۔ تو انسان میں بالوں کی نمو ہے ۔
اگر کائنات میں دریا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو انسان کے اندر موٹی اور باریک رگیں ہیں ۔
اگر کائنات میں میٹھا و کھارا پانی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو انسان میں کھارے آنسو اور میٹھا لعاب دہن ہے ۔
اگر کائنات میں دھاتیں کثرت سے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو انسان میں کثرت سے صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔
اس شعر میں جس کی نسبت حضرت علی ـ کی طرف دی جاتی ہے ، آپ فرماتے ہیں :
اتزعم أنّک جرم صغیر ۔۔۔۔۔۔۔ و فیک انطویٰ العالم الاکبر
'' اے انسان تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا وجود ہے جب کہ اتنی بڑی دنیا تیرے اندر چھپی ہوئی ہے ۔ ''
نماز بھی خدا کی ہنر نمائی کا کرشمہ ہے کہ پروردگار نے تمام اقدار و کمالات کو اس کے اندر جمع کردیا ہے ۔ کون سا ایسا کمال ہے جو کمال توہو مگر وہ نماز میں نہ پایا جاتا ہو ؟ !
خدا کی یاد ایک بیش قیمت شے ہے اور فقط اسی کے ذریعہ دلوں کو سکون و آرام حاصل ہوتا ہے اور نماز یاد خدا ہے ( اللہ اکبر ! )
یاد قیامت ایک بیش قیمت شے ہے جو گناہ و فساد سے روکتی ہے اور نماز ''یوم الدین ''کو یاد دلانے والی ہے ۔
انبیاء و شہداء و صالحین کا راستہ ایک بیش قیمت شے ہے اور ہم نماز میں خدا سے کہتے ہیں کہ ہمیں ''صراط الذین انعمت علیھم '' پر قرار دے ۔
ظالم اور گمراہوں سے نفرت و برائت کا اعلان اس جملہ '' غیر المغضوب علیھم و لا الضآلین '' کے ذریعہ کرتے ہیں ۔
عدالت جو تمام اقدار سے بالاتر ہے امام جماعت کی شرطوں میں سے ہے ۔ نماز میں امام جماعت کی پیروی ایک قابل قدر معاشرتی قانون ہے ۔ یعنی ہمیں خود سری اور خود روی کے بجائے ایک عادل رہبر کا تابع ہونا چاہئے ۔
امام جماعت کا انتخاب ہمیشہ تمام اقدار پر توجہ کے ساتھ ہو :جیسے سب سے زیادہ عادل ہو ، سب سے زیادہ فقیہ ہو ، سب سے زیادہ فصیح ہو وغیرہ ۔
قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہونا بہت سی اقدار کی یاد آوری ہے ، مکہ ؛ حضرت بلال کی شکنجہ گاہ ، حضرت اسماعیل ـ کی قربان گاہ ، حضرت علی بن ابیطالب ـ کی جائے ولادت ، قیام مہدی کا مرکز ، حضرت ابرہیم ـ کی امتحان گاہ اور تمام انبیاء و اولیاء کی عبادت گاہ ہے ۔
نماز میں جو کچھ بھی ہے تحرک ہے ہر صبح و شام ، رکوع و سجود اور قیام میں ، مسجد و جامع مسجد کی طرف جانے میں ہر جگہ حرکت ہی حرکت ہے ، پس خاموش اور گوشہ نشین نہ بنو بلکہ ہمیشہ متحرک رہو اور کوشش میں لگے رہو لیکن یہ تمام حرکتیں خدا کے لئے اور اسی کی طرف ہوں ۔
نماز میں انسان کی روح و جان کی دھول صاف ہوتی ہے ۔ نماز غرور و تکبر کی دھول کو صاف کر دیتی ہے ، اس لئے کہ انسان رات دن میں دسیوں مرتبہ اپنے بدن کے سب سے اعلیٰ مقام (پیشانی) کو زمین پر رگڑتا ہے ۔ خاک پر سجدہ پتھر پرسجدہ کرنے سے بہتر ہے اس لئے کہ پیشانی کو خاک پر رگڑنے میں اظہار ذلت زیادہ ہے ۔
زمین ،یا جو چیززمین پر اگتی ہے اس پر سجدہ کرو اس شرط کے ساتھ کہ وہ چیز کھائی نہ جاتی ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ پیٹ کی فکر میں ان پر گر پڑو۔
پاک زمین پر سجدہ کرو اس لئے کہ ناپاکی کے ذریعہ پاکیزگی کے سرچشمہ تک نہیں پہنچ سکتے۔
خوف خدا سے رونا ایک قیمتی چیزہے اور قرآن مجید نے گریہ و زاری کے ساتھ کئے جانے والے سجدہ کی تعریف کی ہے :
( سُجّداً و بُکیاً ) (١)
نماز وہ الٰہی راستہ ہے جو پیدائش سے لیکر موت تک ہمارے لئے بنایا گیا ہے ۔
جب بچہ پیدا ہو تو اس کے داہنے اور بائیں کان میں اذان و اقامت کہو جو نماز کی تاکید ہے '' حّ علی الصلاة '' اور جب مرجائے تو نماز میت پڑھ کر دفن کرو ( یعنی پیدائش کے وقت اذان و اقامت اور مرنے پر نماز ) نیز ساری زندگی عبادت و پرستش خدا میں گزارو '' و اعبد ربّک حتی یأتیک الیقین '' (٢)
نماز ، انسان اورکائنات کا پیوند ہے ۔ نماز کا وقت جاننے کے لئے خصوصاً صبح اور ظہر میں ضروری ہے کہ سورج کو دیکھو ۔ ( جس سے نماز کا وقت پتہ چلے ) قبلہ معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ستاروں کو دیکھو ۔ مہینہ کے متبرک ایام کی مستحبی نمازوں کو پڑھنے کے لئے چاند کی حرکت پر دھیان رکھو۔ وضو و غسل کے لئے پانی اور تیمم کے لئے خاک کی طرف متوجہ ہو۔
نماز اور چاند ، سورج ، ستارے ،پانی اور مٹی کے درمیان موجود یہ رابطہ کس کی منصوبہ بندی اور کس صانع حکیم کی حکمت ہے ؟
اسی طرح دین کے دوسرے واجبات بھی کسی نہ کسی طرح نماز میں موجود ہیں ۔
نماز پڑھنے والا روزہ دار کی طرح کھانے پینے اور تسکین شہوت کا حق نہیں رکھتا ۔
………………………………
١۔ مریم ٥٨.
٢۔ حجر ٩٩ .
نماز پڑھنے والے کے لئے ، حج کرنے والے کی طرح کعبہ اور قبلہ محور ہے ۔
نماز پڑھنے والا جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ لیکن جہاد اکبر جو جہاد بالنفس ہے۔
خود نماز سب سے بڑا امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے ۔
ہجر ت ،دین میں سب سے بڑی اقدار میں سے ہے اور حضرت ابراہیم ـ نے نماز کے لئے ہجرت کی، اپنی بیوی اوربچہ کو کعبہ کے پاس چھوڑ دیا اور کہا :
( ربّنا ان اسکنت من ذریت بوادٍ غیر ذی زرع ربّنا لیقیموا الصلاة)(١)
پروردگار میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے تاکہ نماز قائم کریں ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ـ یہ نہیں کہتے کہ میں نے حج کے لئے ہجرت کی بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ نماز قائم کرنے کے لئے ہجرت کی ہے ۔
بہرحال پروردگار نے تمام اقدار اور کمالات کو نماز میں ، نماز کے ساتھ اور نماز کے لئے قرار دیا ہے ۔
اگر زینت و صفائی اچھی چیز ہے تو اسلام نماز کے لئے اس کی تاکید کرتا ہے :
( خذوا زینتکم عند کل مسجد ) (٢)
مسجدوں میں جانے کے لئے اپنے کو مزین کرو ،صاف ستھرے اورپاک و پاکیزہ کپڑے پہن کر ، عطر لگا کر مسجد میں جاؤ ۔
عورتوںکے لئے حکم ہواکہ نمازمیںاپنے زیور پہنے رہیںاوراپنے زیورسے اپنی
………………………………
١۔ ابراہیم ٣٧.
2۔ اعراف ٣١ .
زینت کریں ۔ (١)
حتی مسواک پر بھی توجہ دی گئی ہے ۔ روایتوں میں آیا ہے مسواک کرکے پڑھی جانے والی نماز بغیر مسواک کی ٧٠ نمازوں کے برابر ہے (٢) اور فرمایا پیاز و لہسن کھا کر مسجد میں نہ جاؤ (٣) تاکہ تمہارے منہ کی بد بو دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائے اور لوگ مسجد سے نہ بھاگیں ۔
بہرحال یہ اسلام کی نماز ہے اور یہ ہماری نماز ہے ۔ یا تو پڑھتے ہی نہیں اور یا بے توجہی سے اور غلط پڑھتے ہیں ۔ یا بغیر جماعت کے پڑھتے ہیں یا آخر ی وقت میں پڑھتے ہیں ۔
وہ مسجدیں جن کے خادم کسی وقت ابراہیم ـ و زکریا ـ تھے حضرت مریم کی ماں نے یہ نذر کی تھی کہ ہمارا بچہ مسجد کا خادم ہوگا، لیکن آج کل مسجدوں کے خادم زیادہ تر وہ ہوتے ہیںجو کوئی کام نہ کر سکتے ہوں یعنی بوڑھے ، مریض ، فقیر ، جاہل اور کبھی بد اخلاق ہوتے ہیں۔ کیوں امام رضا ـ کے روضہ کی گرد و خاک صاف کرنا باعث فخر ہے ؟ کیا خدا کے گھر کی صفائی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ؟
کیوں ہماری مسجدیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو بھی اس میں داخل ہو غم و اندوہ و سستی اس کو جکڑ لے ؟ ! کیا مسجد عزا خانہ ہے ؟! یا مسجد ہمیشہ مجلس اور فاتحہ خوانی کے لئے ہے جو مسجد کے دروازے پر ہمیشہ کالا کپڑا لگا رہتا ہے ؟
البتہ الحمد للہ چند سال سے مسجدوں کے سلسلے میں بیداری پیدا ہوئی ہے ۔ کافی ایسی مسجدیں ہیں جن میں کتابخانہ ، صندوق قرض الحسنہ اور دوسرے رفاہی امور پائے جاتے ہیں۔
کتنی اچھی ہے وہ حدیث جس میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن تین چیزیں لوگوں کی
شکایت کریں گی۔
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٨٠ صفحہ ١٨٨.
٢۔ بحار الانوار جلد ٧٣ صفحہ ١٣٣.
٣۔ رسالہء امام خمینی مسئلہ ٩١٥.
پہلے :وہ عالم کہ جس کی طرف لوگ رجوع نہیں کرتے ہیں ۔
دوسرے:وہ قرآن کریم جو گھر میں ہو اور اس کی تلاوت نہ ہو ۔
تیسرے : وہ مسجد جس کی طرف سے لوگ بے توجہ ہوں۔ (١)
مسجد کے بارے میںاہم باتیں تو بہت ہیں بلکہ ابھی حال ہی میں ایک کتاب '' سیمای مسجد'' کے نام سے دو جلدوں میں چھپی ہے جو اسلامی معاشرے میں مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو روشن کرتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ مسجد ، صدر اسلام میں فیصلوں اور مشورے کے لئے مسلمانوں کے جمع ہونے کی جگہ تھی ، علم و دانش حاصل کرنے کی جگہ تھی ، مجاہدین کی چھاؤنی تھی ، فقراء اور بیماروں کی مشکلات کے حل کا مرکز تھی ، ظالم حکومتوں کے خلاف قیام کرنے اور ان کے اوپر اعتراض آمیز خطبوں کا مرکز تھی ۔
مسجد کا یہی وہ اعلیٰ مقام تھا جس کی بنا پر پوری تاریخ میں مسلمانوں نے اس کے لئے بہترین فن معماری سے کام لیا اور مسجد کے اخراجات کے لئے کافی اموال وقف کئے تاکہ مسجد ہمیشہ آباد اور خود مختار رہے۔
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٢ صفحہ ٤١.
| |