نماز کی تفسیر
 

عالم ہستی پر اختیار
نماز کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ بھی ہے کہ انسان آہستہ آہستہ ، قدم با قدم عالم ہستی پر تسلط پیدا کر لیتا ہے ۔
پہلا قدم: قرآن فرماتا ہے کہ تقویٰ انسان کو نورانیت و بصیرت دیتا ہے یعنی انسان کو ایسی روشنی عطا کرتا ہے کہ وہ حق و باطل کو پہچان سکے ( انْ تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا ) (١)
………………………………
١۔ انفال ٢٩.
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے ( یجعل لکم نورا ) (١) پس تقویٰ جس میں سب سے اہم چیز خدا کی بندگی و نماز ہے یہ نورانیت و بصیرت کے حصول کی طرف ایک قدم ہے ۔
دوسرا قدم : جن لوگوں نے اللہ کی ہدایت کو قبول کر لیا اور حق کے محور پرآگئے ہیں پروردگار ان کی ہدایت کو زیادہ کر دیتا ہے ( والذین اھتدوا زادھم ھدی ) (٢) ان کی ہدایت رکتی نہیں ہے بلکہ وہ تسلیم و بندگی کی وجہ سے ہمیشہ تقرب اور تر قی کی منزلوں میں ہیں اور ان کے وجود کی شعاعیں اور تیز ہوجاتی ہیں ۔
تیسرا قدم : یہ لوگ چونکہ خدا کے راستے میں زحمت و مشقت برداشت کرتے ہیں پروردگار ان لوگوں کے لئے کمال تک پہنچنے کے تمام راستے کھول دیتا ہے ( و الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا ) (٣)
چوتھا قدم : جس وقت ان لوگوں کو شیطان چھونا بھی چا ہتا ہے تویہ فوراً سمجھ جاتے ہیں اور خدا سے طلب استغفار کرتے ہیں ( اذا مسھم طائف من الشیطان تذکروا ) (٤)
پانچواں قدم : خود سازی کرنے اور فحشاء و منکرات سے دور رہنے کا بہترین عامل نماز ہے:(انّ الصلاة تنھیٰ عن الفحشاء و المنکر ) (٥)
ان اقدامات کے بعد انسان اپنے نفس پر تسلط حاصل کر لیتا ہے، نفس کو کنٹرول کرتا ہے، کسی
وسوسہ اور لغزش کا شکار نہیں ہوتا بلکہ جب کبھی وسوسہ اور بیرونی طاغوت کا دباؤ بڑھ جاتا ہے تو نماز اور
………………………………
١۔ حدید ٢٨.
٢۔ محمد ٢٧.
٣۔ عنکبوت ٦٩.
٤۔ اعراف ٢٠١.
٥۔ بقرہ ٤٥.
صبر کے ذریعہ مدد حاصل کرتا ہے : ( واستعینوا بالصبر و الصلوٰة) (١)
چھٹا قدم : تقویٰ رکھنے والے افراد جن کا وجود نور الہی سے روشن ہو جاتا ہے وہ ہر نماز میں ایک قدم آگے بڑھتے ہیں ، اس لئے کہ نماز تکرار نہیں بلکہ معراج ہے ۔ ایک سیڑھی کے سارے زینے ایک جیسے ہیں لیکن سیڑھی کا ہر زینہ انسان کو اوپر کی طرف پہنچاتا ہے ۔ جیسے کہ کوئی شخص کنواں کھود تا ہے کہ بظاہر وہ ایک کام کی تکرار کرتا ہے ، مستقل پھاوڑا چلاتا رہتا ہے لیکن حقیقت میں ہر پھاوڑا مارنے کے بعد وہ مزید گہرائی کی طرف جاتا ہے۔
نماز کی رکعتیں ظاہراً تکراری چیز ہیں لیکن یہ کمال کی بلندیوں پر جانے کے زینے ہیں اور ایمان و معرفت کی گہرائی ہیں ۔
نماز پڑھنے والا ہرگز راضی نہیں ہوتا کہ اس کی عمر شیطان کی چراگاہ اور اس کی ٹھوکروں میں رہے۔
امام زین العابدین ـ دعا ئے'' مکارم الاخلاق '' میں خداوند عالم سے اس طرح سوال کرتے ہیں :
''خداوندا ! اگر ہماری عمر شیطان کی چراگاہ ہے تو اس کو ختم کر دے ۔ ''
صرف شیطان ہی نہیں کبھی کبھی وہم وخیال بھی انسان کی روح کو پامال کرتے ہیں اور انسان کو حق و حقیقت سے غافل کردیتے ہیں ۔
جی ہاں ! رسول اکرم ۖسوتے وقت بھی بیدار رہتے تھے اور ہم لوگ بیداری ، حتی نماز کی حالت میں بھی سوتے رہتے ہیں اور ہماری روح شیطان اوروہم و خیال کا کھلو نا بنی ہو ئی ہے ۔
………………………………
١۔ عنکبوت ٤٥.
بقول مولاناروم :
گفت پیغمبر ۖ کہ عینای َ ینام
لاینام القلب عن ربّ الانام

چشم تو بیدار و دل رفتہ بہ خواب
چشم من خفتہ دلم در فتح باب

''رسول اکرم ۖ نے فرمایا : کہ ہماری آنکھیں سو رہی ہیں لیکن ہمارا دل خدا کی یا د سے غافل نہیں ہے ۔ لیکن تمہاری آنکھیں کھلی ہیں اور تمہار دل سو رہا ہے ، ہماری آنکھیں بند ہیں اور دل خدا کی یاد میں بیدار ہے''۔ مولانا روم ایک اور مقام پر کہتے ہیں :

گفت پیغمبر کہ دل ہمچوں پری است
در بیابانی اسیر صرصری است

باد پر راہر طرف راند گزاف
گہ چپ و گہ راست با صد اختلاف

''پیامبر اکرم ۖ کا ارشاد ہے کہ دل ایسے پتےّ کی مانند ہے جو بیابان میں ہواکے دوش پر ہے یہ ہوا اسے ہر طرف اڑائے پھرتی ہے کبھی دائیں اور کبھی بائیں اڑا دیتی ہے ''۔
یہ نفس اگر کنٹرول نہ کیا جا ئے تو ہر گھڑی انسان کو فساد کی طرف کھینچتا ہے ( انّ النفس لأمارة بالسوء الا ما رحم رب ) (١)
اسی وجہ سے قرآن مجید جنت کو ان سے مخصوص قرار دیتا ہے جو لوگ صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ دل میں بھی برتری حاصل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور فکر فساد سے دور رہتے ہیں۔(٢)بہشت ان کاملجأ و ماویٰ ہے جو اپنے نفس کو ہوس سے روکتے ہیں ۔ (٣)
اولیائے خدا اپنے افکار و خیا لات کے اوپر حاکم ہیں نہ کہ ان کے محکوم ۔ یہ لوگ خدا کی عبادت کی وجہ سے اس طرح اپنے نفس پر مسلط ہیں کہ وہ اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتے کہ حتی وسوسہ ان کے دل میں داخل ہوجائے۔
………………………………
١۔ یوسف ٥٣.
٢۔ قصص ٨٣.
٣۔ نازعات ٤١.
من چو مرغ او جم اندیشہ مگس
کی بود بر من مگس را دسترس

یعنی میں ایک پر ندے کی طرح ہوں اور مکھی سے فکر و خیالات کے بلندیاں بھلا مکھی کے لئے مجھ تک رسا ئی کہا ممکن ہے ۔
انسان جب نور خدا اور معرفت و آگاہی حاصل کرلیتا ہے اور عارفانہ و عاشقانہ نماز کے ذریعہ اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور روح کو رضائے الہی کی سمت میں لگاکر اپنے نفس پر مسلط ہو جاتا ہے تو اس کے بعد عالم ہستی پر بھی حاکم ہو جاتا ہے ۔ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور وہ خدائی کام انجام دیتا ہے ۔
انبیاء کے معجزات یہی ہیں کہ یہ لوگ عالم ہستی میں تصرف کا اختیار اور کائنات پر تسلط رکھتے ہیں جو چاہیں اللہ کے حکم سے انجام دیتے ہیں ۔ '' العبودیة جوھرة کنھھا الربوبیة '' یعنی خالص عبادت ایک ایساجوہر ہے جس کی حقیقت ربوبیت ہے ۔ اس کا مطلب اسی عالم ہستی پر تسلط ہے جوخدائے تعالیٰ کی بندگی سے حاصل ہوتا ہے ۔
حدیث میں ہے کہ پروردگار فرماتا ہے :انسان مستحب کاموں کے ذریعہ قدم باقدم مجھ سے نزدیک ہوتا ہے یہاں تک کہ میرا محبوب ہو جاتا ہے اور جس وقت وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس وقت میں اس کی آنکھیں ، اسکے کان ، اس کی زبان اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں ۔ اس کی ساری حرکات خدائی ہو جاتی ہیں اور پھر وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ ابراہیم خلیل ـ کی طرح کہتا ہے :
( انّ صلات و نسک و محیا و ممات ﷲ ربّ العالمین ) (١)
میری نماز و عبادت ، موت و حیات تمام کی تمام عالمین کے پروردگار کے لئے ہیں۔
اس کے بعدجب بھی وہ دعا یاسوال کرے گا تو ہم قبول کریں گے ۔ (٢)
………………………………
١۔ انعام ١٦٢.
٢۔ بحار الانوار جلد ٧٠ صفحہ ٢٢ .

تصویر نماز
نماز کے بارے میں جتنا بھی لکھا اور پڑھا جائے پھر بھی اس کا حق ادا نہیں ہوگا ۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ دین کا ستون ،اسلام کا پر چم ، تمام ادیان و انبیاء کی یادگار ، تمام اعمال کی قبولیت کا محور چند جملوں میں بیان ہوجائے ؟
٭ نماز ہر صبح و شام کا عمل ہے ۔ صبح کا سب سے پہلا واجب کام نماز اورشام کا آخری واجب نماز ہے یعنی ہر روز کا آغاز و انجام خدائے تعالیٰ کی یاد کے ساتھ ہے اور خدا کے لئے ہے ۔
٭ سفر میں ہویا وطن میں ، زمین پر ہو یا ہوا میں ، فقیری میں ہو یا امیری میں ، ہر جگہ نماز کا راز یہ ہے کہ تم جہاں بھی ہو اور جو کچھ بھی ہو خدا کے مطیع رہو نہ غیر خدا کے ۔
٭ نماز مسلمانوں کی وہ عملی آئیڈیالوجی ہے جس میں وہ اپنے عقائد و افکار، اپنی چاہت اور اپنا آئیڈیل بیان کرتے ہیں ۔
٭ نماز؛ اقدار کو استحکام عطا کرنا اور سماج کی ہر فرد کی شخصیت کو مجروح ہونے سے محفوظ رکھنا ہے۔ اگر کسی مکان کا تعمیری مسالہ اور سامان کمزور ہو تو وہ مکان گر جاتا ہے ۔
٭ نماز کی اذان، توحید کا وہ بگل ہے جو اسلام کی متفرق فو ج کو ایک صف اور ایک پرچم تلے جمع ہونے کی دعوت دیتا ہے اور ان سب کو امام عادل کے پیچھے کھڑا کر دیتا ہے ۔
٭ امام جماعت ایک ہوتا ہے اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پوری قوم کا امام بھی ایک ہو تاکہ معاشرے کے امور میں مرکزیت رہے۔
٭ امام جماعت نماز میں ضعیف ترین لوگوں کی رعایت کرے تاکہ اس کے لئے یہ درس ہو کہ معاشرتی امور کا فیصلہ کرتے وقت بھی محروم طبقات کی رعایت کی جائے ۔ پیغمبر اکرم ۖ نے نماز کی حالت میں کسی بچہ کے رونے کی آواز سنی تو نماز کو جلدی تمام کردیا تاکہ اگر اس کی ماں نماز جماعت میں شریک ہو تو وہ اپنے بچہ کو چپ کرلے ۔ (١)
٭ انسان کی تخلیق کے بعد سب سے پہلا حکم سجدہ کا تھاجو فرشتوں کو دیا گیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔(٢)
٭ زمین کاسب سے پہلا ٹکڑا ( مکہ و کعبہ ) جو پانی سے باہر آیا اور خشکی بنا وہ عبادت کی جگہ قرار پایا ۔ (٣)
٭ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد پیغمبر اسلام ۖ کا سب سے پہلا کام تعمیرِ مسجد تھا ۔
٭ نماز ،امر بالمعروف بھی ہے اور نہی عن المنکربھی۔ ہم ہر روز اذان اور اقامت میں کہتے ہیں : '' حّ علی الصلاة ، حّعلی الفلاح ، حّعلی خیر العمل '' اور یہ جملا ت کہنا اعلیٰ ترین معروف یعنی نماز کا حکم ہے ۔
دوسری طرف نماز انسان کو تمام برائیوں سے روکتی ہے : ( انّ الصلاة تنھیٰ عن الفحشاء و المنکر ) (٤)
نماز ایک ایسی حرکت ہے جو آگاہی او رشناختِ خدا سے پیدا ہوتی ہے ۔ خداوند عالم کی ایسی شناخت کہ جس میں ہم اس کے حکم سے ، اس کے لئے اور اس کے اُنس میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے قرآن کریم نے مستی (٥)ا ورسستی(٦) کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے تاکہ جو کچھ بھی ہم نماز میں کہیں وہ توجہ اور آگاہی کے ساتھ ہو ۔

………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٨٨ صفحہ ٤١ و ٩٣ .
٢۔ بقرہ ٣٤.
٣۔ آل عمران ٩٦ .
٤۔ عنکبوت ٤٥ .
٥۔ نساء ٤٣ .
٦۔ نساء ١٤٢.
٭ نماز آگاہی دیتی ہے ۔ ہر ہفتہ ،جمعہ کے روز نماز جمعہ قائم ہوتی ہے اور نماز جمعہ سے پہلے دو خطبے پڑھے جاتے ہیں ۔ یہ دو خطبے دو رکعت نماز کی جگہ پر ہیں یعنی نماز کا جزء ہیں ۔ اورامام رضا کے ارشاد کے مطابق یہ خطبے اس طرح پڑھے جائیں کہ ان میں دنیا کے مسائل بیان ہوں۔ (١)
دونوں خطبوں کو سننا اس کے بعد نماز پڑھنا یعنی عالمی مسائل سے آگاہ ہونا اور اس کے بعد نماز پڑھنا ۔
نماز انانیت سے نکل کرخدائے تعالیٰ کی طرف پرواز کرنا ہے ۔ قرآن مجید فرماتا ہے :
( و مَن یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللہ و رسولہ ثم یدرکہ الموت فقد وقع اجرہ علی اللہ ) (٢)
جو شخص خدا اور اس کے رسول ۖ کی طرف ہجرت کے لئے اپنے گھر سے نکلے اور اس کو موت آجائے تو اس کا اجر خدا پر ہے ۔
امام خمینی فرماتے ہیں: خانہ ٔدل سے خدا کی طرف ہجرت کرنا بھی اس آیت کا ایک مصداق ہے، خود پسندی ، خود خواہی او رخود بینی سے خدا پرستی ا ور خدا خواہی کی طرف ہجرت ،سب سے بڑی ہجرت ہے ۔ (٣)
٭ نماز کی منزلت اسم اعظم جیسی ہے بلکہ خود نماز اسم اعظم ہے ۔
٭ نماز میںخدائے تعالیٰ کی عزت اور بندہ کی ذلت کابیان ہے اور یہ سب سے بڑا مقام ہے۔
٭ نماز پرچم اسلام ہے '' عَلَمُ الاسلام الصلوٰة '' (٤)
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٨٩ صفحہ ٢٠١ .
٢۔ ء نساء ١٠٠.
٣۔ اسرار الصلاة صفحہ ١٢ .
٤۔ کنز العمال حدیث ١٨٨٧٠ .
جس طرح کو ئی جھنڈا اور پرچم نشانی ہو تاہے اسی طرح نماز بھی مسلمان کی نشانی اور پہچان ہے ۔ جس طرح پرچم لائق احترام ہے ، پرچم کی توہین ایک قوم او رملک کی توہین ہے اسی طرح نماز کی توہین اور اس سے بے توجہی پورے دین سے بے توجہی ہے ۔ جس طرح پرچم کے لہرانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سیاست زندہ ہے ، اورقدرت و طاقت باقی ہے اسی طرح نماز کے قیام میں بھی یہی چیز پائی جاتی ہے ۔

نماز اور قرآن
کچھ جگہوںپر قرآن کریم و نماز کا ایک ساتھ ذکر ہوا ہے ، جیسے
( یتلون کتاب اللہ و اقاموا الصلاة ) (١)
قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ۔
دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہے
( یُمَسّکون با لکتاب و اقاموا الصلاة ) (٢)
قرآن سے تمسک کرتے ہیں اور نمازقائم کرتے ہیں ۔
کبھی قرآن مجیدا ور نماز کے لئے ایک ہی صفت بیان ہوئی ہے جیسا کہ کلمہ ذکر قرآن کے لئے بھی کہا گیا ہے ( انا نحن نزّلنا الذکر ) (٣) ہم نے ذکر کو نازل کیا ہے ۔
اور اسی صفت کو نماز کا فلسفہ بھی قرار دیا ہے ( اقم الصلاة لذکر )(٤) نماز کو ہماری یاد کے لئے قائم کرو۔
………………………………
١۔ فاطر ٢٩ .
٢۔ اعراف ١٧٠.
٣۔ حجر ٩ .
٤۔ طہٰ ١٤ .
عجیب بات تو یہ ہے کہ کبھی لفظ نماز کہ بجائے قرآن کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے (انّ قرآن الفجر کان مشہوداً ) (١) کہا یہی جاتا ہے کہ '' قرآن الفجر '' سے مراد نماز صبح ہے ، اس سے اہم بات یہ ہے کہ نماز میں قرآن کوحمد و سورہ کی شکل میں پڑھنا واجبات نماز میں سے ہے ۔ نماز کا تذکرہ قرآن کریم کے اکثر سوروں میں موجود ہے جیسے قرآن کے سب سے بڑے سورے، سورئہ بقرہ اور سب سے چھوٹے سورہ کوثر میں نماز کا ذکر موجود ہے۔

نماز اور قصاص
صرف دین اسلام میں نہیں بلکہ تمام ادیان الٰہی میں قصاص کا حکم موجود ہے اور قصاص گناہ کے مطابق ہوتا ہے ۔ جیسے اگر کسی کا کان کاٹا ہے تو اس کی سزا میں بھی کان ہی کاٹا جائے۔ اگر کسی نے دانت توڑا ہے تو اس کا بھی دانت توڑا جائے تاکہ عدالت قائم ہو ۔
انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ چور کا ہاتھ کا ٹ دیا جا ئے البتہ اس کی ہتھیلی باقی رہے کیونکہ قرآن فرماتا ہے:
(و انّ المساجد للہ ) (٢) مساجد ( سجدہ کی جگہیں ) خدا کے لئے ہیں ۔
چونکہ سجدہ کے وقت ہاتھ کی ہتھیلی زمین پر رکھنا واجب ہے لہذا چور کی سزا میں نماز او رسجدہ کے مسئلہ پر توجہ رہے اور اس کی ہتھیلی نہ کاٹی جائے تاکہ حق عبادت حتی چور کے لئے بھی محفوظ رہے ۔ ؟

عبادت و امامت
عبادت کی اہمیت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سطحی نہ ہو بلکہ آسمانی رہبر اور اس کی
………………………………
١۔ اسرائ٧٨.
٢۔ جن ١٨ .
ولایت کی پہچان اور اپنے مخصوص آداب نیزخشوع کے ساتھ ہو ۔
حضرت علی ـ کچھ خشک مقدس نماز پڑھنے والوں میں پھنس گئے تھے جو تاریخ میں مارقین و خوارج کے نام سے مشہور ہیں ، جن کی پیشانیوں پر زیادہ اور طویل سجدوںکی وجہ سے گھٹّے پڑے ہوئے تھے لیکن یہی لوگ حضرت علی ـ کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے اوپر تلوار کھینچ لی ، روایت میں آیا ہے کہ جب امام زمانہ ـ ظہور کریں گے اس وقت کچھ سجدہ کرنے والے آپ کی مخالفت کریں گے ۔
یہ گمان ہرگز نہ ہو کہ وہ لوگ جو امام حسین ـ کو شہید کرنے کے لئے آئے تھے وہ نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ وہ لوگ نمازجما عت پڑھا تے تھے ۔ خود یزیدا ور معاویہ بھی پیش نماز تھے۔
جی ہاں! اگر عبادت جہالت کے ساتھ ہو توانسان ، محراب عبادت میں عالمین کے سب سے بڑے عابد کو قتل کرنے کو سب سے بڑی عبادت سمجھنے لگتا ہے اور قصد قربت کے ساتھ شبِ قدر میں حضرت علی کو شہید کرنے کے لئے جاتا ہے ۔
صرف نماز ہی نہیں بلکہ ساری عبادتیں رہبر حق کی معر فت اور اس کی اطاعت کے ساتھ ہونی چاہئیں لہٰذا روایتوں میں آیا ہے کہ خداوند عالم نے حج کو واجب کیا تاکہ لوگ خانہ کعبہ کے گرد جمع ہوں اور اس اجتماع کے مقام پر معصوم اماموں سے را بطہ قا ئم کریں ، لیکن آج کل لا کھوں لو گ خانۂ کعبہ کے گرد جمع ہو تے ہیں مگر الٰہی رہبر سے تمسک نہ ہونے کی بنا پر ایک دوسرے سے جدا رہتے ہیں۔ مرکز وحدت اور اقتصادی خزانوں اور تجارتی منڈیوںکے مالک ہونے کے باوجود مٹھی بھر یہودیوں کے ہاتھوں ذلیل ہیں ۔
وا قعاًاسلام ایک ایسا مجموعہ ہے جس کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جا سکتا ۔ ولایت کو قبول کئے بغیر نماز قبول نہیں ، زکات ادا کئے بغیر نماز قبول نہیں، جس طرح انفاق بھی بغیر نماز کے قبول نہیں ہے۔
اسلام کے احکام بدن کے اعضاء کی طرح ہیں کہ ایک عضو دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا ۔ آنکھ کان کا کام نہیں انجام دے سکتی اور کان ہاتھ کا کام نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح اسلام میں نماز پڑھنا زکات کی جگہ نہیں لے سکتا یا نماز و زکات خدا کی راہ میں جہاد کی جگہ پُر نہیں کر سکتے بلکہ ان سب کے مجموعے کا نام اسلام ہے ۔

نماز اور رہبری
اگر الٰہی رہبر کے ذریعہ نماز قائم ہو تو ظلم وجور کا تختہ پلٹ جائے گا ۔ امام رضا ـ کی نمازِ عید اس ہیبت و عظمت سے شروع ہوئی کہ ظالم حکومت لرز اٹھی اور ظالم سمجھ گئے کہ اگر یہ نماز پڑھا دی گئی تو بنی عباس کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا ۔ لہذا مامون نے حکم دیا کہ امام کو راستہ ہی سے واپس بلا لیں ۔
آج کل کے مسلمانوں کی نماز میں کوئی اثر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے کچھ حصہ پر عمل ہوتا ہے اور کچھ پر نہیں ۔ قرآن کریم فرماتا ہے
(واقیموا الصلاة و آتوا الزکاة و اطیعوا الرسول ) (١)
نماز پڑھو زکات دو اور رسول کی اطاعت کرو ۔
لیکن آج کل بعض لوگ نماز پڑھتے ہیں اور زکات نہیں دیتے اور بعض لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں زکات بھی دیتے ہیں لیکن کفار کی حاکمیت قبول کئے ہوئے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں خدا پر ایمان رکھتے ہیں لیکن طاغوت سے دوری اختیار نہیں کرتے ہیں اور یہ ایمان ناقص ہے ۔جبکہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :
………………………………
١۔ نور ٥٦ .
( فمن یکفر بالطاغوت و یؤمن باللہ فقد استمسک بالعروة الوثقی)(١)
''اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبوط رسی سے متمسک ہوگیا ''یعنی طاغوت سے دوری بھی لازم ہے اور خدا پر ایمان بھی ۔ لیکن آج کل مسلمانوں نے طاغوت و کفر سے برائت کو فراموش کر دیا ہے لہذا جو لوگ طاغوت کے گرد گھومتے ہیں قرآن مجید ان کے بارے میں فرماتا ہے : وہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں ۔
( أ لم تر الی الذین یزعمون أنّھم آمنوا ) (٢)

عبادت کے درجات
اگر آپ کسی بچے سے یہ سوال کریں کہ تم اپنے ماں باپ کو کس لئے چاہتے ہو ؟
وہ کہتا ہے : اس لئے کہ وہ ہمارے لئے مٹھائی ،کپڑے اور جوتے خریدتے ہیں ۔ لیکن اگر یہی سوال کسی جوان سے کریں کہ اپنے والدین کو کس لئے چاہتے ہو ؟
تو وہ کہے گا اس لئے کہ والدین ہماری حیثیت و مقام کی علامت ہیں، وہ ہمارے مربی اور ہمارے دل سوز ہیں۔
اگر بچہ سمجھ دار اور بالغ ہو جائے تواس کے لئے والدین سے اُنسیت اور محبت زیادہ لذت بخش ہوتی ہے۔ پھر وہ جوتے اورکپڑوں کی فکر میں نہیں رہتا بلکہ اس سے زیادہ والدین کی خدمت کو قرب و کمال کا وسیلہ سمجھتا ہے اور مادیات سے بالاتر فکر کرتا ہے ۔
………………………………
١۔ بقرہ ٢٥٦.
٢۔ نساء ٦٠ .
اللہ کی عبادت بھی اسی طرح ہے کہ ہر شخص اپنی دلیل اور سوچ کے مطابق خدا کی عبادت کرتا ہے ۔ مختصر یہ کہ عبادت کے بھی چند مرحلے ہیں۔
پہلا قدم : بعض لوگ خدا کی نعمت کی خاطر اس کی عبادت کرتے ہیں تاکہ اس کا شکر بجا لائیں جیسا کہ قرآن مجید عام انسانوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے :
( فلیعبدواربّ ھذاالبیت الذ اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف)(١ )
لہٰذا انھیں چاہئے کہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں سیر کیا ہے اور خوف سے محفوظ رکھا ہے ۔
پہلی منزل کی عبادت جس کو ہم عبادت ِ شکر کہتے ہیں۔ وہ ایسے ہی ہے جیسے اس بچہ کی محبت جو اپنے والدین کو چاکلیٹ ، بستہ اور جوتا خریدنے کی وجہ سے چاہتا ہے ۔
دوسرا قدم : اس منزل میں انسان نماز کے اثرات اور اس کی برکات کی وجہ سے خدا کی عبادت کرتا ہے اس کی پوری توجہ نماز کے روحانی و معنوی اثرات پر ہوتی ہے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے :
( انّ الصلاة تنھیٰ عن الفحشاء و المنکر ) (٢)
بیشک نماز انسان کو گناہ اور بری باتوں سے روکتی ہے ۔
اس مرحلہ کی عبادت کو عبادت ِ رُشد و ترقی کہتے ہیں ۔ اس طرح کی عبادت اس جوان کی طرح ہے جو اپنے والدین کو اس لئے چاہتا ہے کہ وہ لوگ اس کے معلم اور اس کی تربیت کرنے والے ہیں اور انحرافات و خطرات سے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اسی لئے وہ ان کا احترام کرتا ہے ۔
………………………………
١۔ قریش ٣ و٤.
٢۔ عنکبوت ٤٥ .

تیسرا قدم : یہ پہلی منزلوں سے بالاتر ہے یہ منزل ایسی ہے کہ خداوند عالم حضرت موسیٰ ـ سے فرماتا ہے :
( ا قم الصلاة لذکری ) (١)
ہم کو یاد کرنے کے لئے نماز پڑھو ۔
جناب موسیٰ کھانے اور پانی کے لئے نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی گناہ اور غلط باتوں سے بچنے کے لئے نماز پڑھتے تھے۔ اس لئے کہ وہ اصولاً شکم پرستی اور برائیوںسے دور تھے۔ وہ اولو االعزم پیغمبر تھے ۔ وہ نماز کو خدا کی محبت اور اس کے لئے پڑھتے تھے ۔
اولیائے خدا کے یہاںخدا سے انس و محبت ہی عبادت کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔
جی ہاں ! یہ بچے ہوتے ہیں جو کسی پروگرام میں سب سے آگے بزرگوں کے پاس اس لئے آ بیٹھتے ہیں تاکہ ان کی خاطر داری اچھی طرح ہو لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو بزرگوں کے پاس معنوی فائدہ حاصل کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں انہیں اپنی خاطر داری سے مطلب نہیں ہوتا ۔ ان کے لئے علماء اورعقل مند وں سے محبت ہی قابل قدر ہے ۔
چوتھا قدم : یہ منزل عبادت کی سب سے اہم اور اعلیٰ ترین منزل ہے ۔یہ عبادت ؛ شکر و رُشد اور محبت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ قرب خدا کے لئے ہے ۔ تقرب الہی کے سلسلے میں قرآن مجید میں چار آیتیں ہیں ۔ جو شخص ان آیتوں کو پڑھ لے اس پر سجدہ کرنا واجب ہو جاتا ہے ،ان میں سے ایک آیت میں آیا ہے کہ تقرب ،عبادت سے حاصل ہوتا ہے خدا فرماتا ہے :
( و اسجد و اقترب )(٢)
سجدہ کرو اوراس کی قربت حاصل کرو ۔
بہرحال عبادت کے کچھ درجات اور مراتب ہیںجن میںلوگوںکے ایمان اور معرفت کے درجات کی بنا پر فرق ہوتا رہتاہے ۔
………………………………
١۔ طہٰ ١٤ .
٢۔ سورہ علق آخری آیت.