نماز؛ امام علی ـ کی زبانی
حضرت علی ـ نے متعدد بار نہج البلاغہ میں نماز اور یاد خدا کے بارے میں گفتگو فرمائی ہے جو کتاب '' نماز در نہج البلاغہ '' میں موجود ہے ۔ کچھ جملے جو عبادت اور ذکر و یاد خدا کا فلسفہ بتاتے ہیں اور ان کا سب سے اہم مصداق نماز ہے انھیںہم یہاں پر حضرت علی ـ سے نقل کرتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں : ''انّ اللہ جعل الذکر جلائً للقلوب تسمع بہ بعد الوقَرة و تبصر بہ بعد العشوة '' (١)
پروردگار نے اپنے ذکر اور اپنی یاد کو روحوں کا صیقل قرار دیا ہے ( یعنی روح پر ذکر خدا کے ذریعہ صیقل ہوتی ہے ) تاکہ کم سننے والے کان سننے لگیں اور بند آنکھیں دیکھنے لگیں۔
اس کے بعد آپ نماز کی برکتوں کے بارے میں فرماتے ہیں : '' قد حفت بھم الملائکة و نزلت علیھم السکینة و فتحت لھم ابواب السماء و اعدت لھم مقاعد الکرامات '' عبادت کرنے والوں کو فرشتے گھیر لیتے ہیں ان کے اوپر سکون نازل ہوتا ہے آسمان کے دروازے ان کے لئے کھلتے ہیں اور ان کے لئے اچھی جگہ تیار کی جاتی ہے ۔
آپ ایک دوسرے خطبہ میں فرماتے ہیں : '' و انھا لتحت الذنوب حت الورق و
………………………………
١۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٢٢.
تطلقھا اطلاق الرَّبَق '' (١)
نماز گناہوں کو سوکھے پتوں کی طرح گرادیتی ہے اور انسان کی گردن کو گناہ کی رسی سے آزاد کر دیتی ہے ۔ اس کے بعد آپ رسول اکرم ۖ سے ایک حسین تشبیہ نقل کرتے ہیں کہ نماز ایک پانی کی نہرکی طرح ہے۔ انسان اس میں ہر روز پانچ مرتبہ اپنے کو پاک کرتا ہے، دھوتا ہے ، کیا اس کے بعد بھی گندگی باقی رہے گی ؟
نہج البلاغہ خطبہ نمبر ١٩٦ میں تکبر و سرکشی اور ظلم جیسے اخلاقی مفاسد کا ذکر کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں : ان تمام برائیوں کی دوا نماز ، روزہ اور زکات ہے ۔ اس کے بعد آپ نے نماز کے اثرات کا یوں ذکر کیا ہے : '' تسکینا لاطرافھم تخشیعا لابصارھم ، تذلیلا لنفوسھم ، تخفیضا لقلوبھم ، ازالة للخیلاء عنھم ان اوحشتھم الوحشة آنسھم ذکرک ''نماز انسان کے پورے وجود کو سکون بخشتی ہے ، آنکھوں کو خاشع و خاضع کرتی ہے ، سرکش نفوس کو رام کرتی ہے ، دلوں کو نرم کرتی ہے ، غرور و تکبر کو ختم کرتی ہے ، وحشت و اضطراب اور تنہائی میں ( اے خدا تیری یاد ) انس و الفت کا سبب بنتی ہے ۔
البتہ واضح ہے کہ سارے لوگ نماز کے ان فوائد سے استفادہ نہیں کرسکتے بلکہ ان تمام فوائد کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہیں جو نماز اور یاد خدا کو دوست رکھتے ہیں اور ایسے عاشق ہیں کہ اس کو پوری دنیا کے عوض میں بھی نہیں چھوڑ سکتے ۔
………………………………
١۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٩٩ .
عبودیت و بندگی کے اثرات و برکات
١۔ احساس سر بلندی اور افتخار
امام زین العابدین ـ اپنی مناجات میں فرماتے ہیں: '' الٰہ کفیٰ ب عزّا انْ اکون لک عبدا '' (١)
پروردگارا ! میری عزت و افتخار کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں ۔
اس سے بڑا کون سا افتخار ہوگا کہ انسان اپنے خالق سے کلام کرے اور خالق انسان کے کلام کو سنے اور قبول بھی کرلے ۔
اس حقیر دنیا میں ! اگر انسان کا مخاطب کوئی بڑا آدمی یا کوئی معروف دانشمند ہو تو انسان اس سے بات کرنے کے بعدغرور کا احساس کرتا ہے یا یہ کہ ہم کسی وقت فلاں کے شاگرد تھے اس سے اپنی بڑائی جتاتا ہے ۔
٢۔ احساس قدرت
جس وقت بچے کا ہاتھ اپنے قوی اور مہربان باپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو وہ قدرت و طاقت کا احساس کرتا ہے لیکن اگر اکیلا ہو تو ہر وقت خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اسے اذیت پہنچائے۔
جس وقت انسان خدا سے متصل ہو جاتا ہے ، دنیا کی طاقتوں ، طاغوتوں اور متکبرین کے سامنے قدرت و طاقت کا احساس کرتا ہے ۔
……………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٧٧ صفحہ ٤٠٢.
٣۔ احساس عزت
عزت کے معنی : جس میں کسی کا اثر اور نفوذ نہ ہو ۔ انبیاء کے مکتب میں تمام عزتوں کا مالک خدا ہی ہے کیونکہ تمام قدرتوں کا مالک وہی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ لوگ جو غیر خدا کی تلاش میں ہیں قرآن حکیم ان پر تنقید کرتا ہے ! کیا غیر خدا سے عزت چاہتے ہو؟(١)
یہ طبیعی ہے کہ عزیز مطلق اور تمام قدرتوں سے بالاتر قدرت سے اتصال ، انسان کو عزت بخشتا ہے ۔ اسی وجہ سے '' اللہ اکبر '' جیسے کلمات ، طاغوت کو انسان کے نزدیک حقیر و ذلیل اور انسان کو اس کے مقابلہ میں عزیز کرتے ہیں۔
لہٰذا قرآن کریم ہم کو حکم دیتا ہے کہ سختی و مشکلات میں نماز و عبادت کے ذریعہ قدرت و قوت حاصل کرو ۔
( و استعینوا بالصبر و الصلوٰة ) (٢)
اولیائے خدا بھی حساس مواقع پر نماز کے ذریعہ اپنے کو تقویت دیتے تھے ۔ نو محرم کو عصر کے وقت یزیدی لشکر نے امام حسین ـ کے خیام پر حملہ کیا تو امام نے فرمایا کہ ایک رات جنگ میں تاخیر کرو ، ہم نماز کو زیادہ دوست رکھتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ آج کی شب ، صبح تک خدا کی عبادت میں بسر کریں ۔ (٣)
خدا کے صالح بندے فقط نماز واجب کو ہی نہیں چاہتے بلکہ مستحب نمازوں سے بھی محبت رکھتے ہیں ۔نافلہ نماز ، نماز سے عشق کی پہچان ہے ۔ ممکن ہے انسان واجب نماز کو خدا کے ڈر سے
………………………………
١۔ نساء ١٣٩.
٢۔ بقرہ ٤٥ .
٣۔ مقتل الشمس صفحہ ١٧٩.
پڑھتا ہو لیکن مستحب نمازوں میں کو ئی ڈرا ور خوف نہیں ہوتا بلکہ اس میں عشق خدا ہوتا ہے ۔
ہاں اگر کوئی کسی کو چاہتا ہے تو اس کا دل یہ بھی چاہتا ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ ہم کلام ہو ، اس سے جدا ہونا نہیں چاہتا ۔ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان یہ دعویٰ کرے کہ وہ خدا کو دوست رکھتا ہے لیکن اس سے بات کرنے کی تمنا نہ کرے۔
البتہ نافلہ نماز سے بے دلی بلاوجہ نہیں ہے بلکہ روایتوں کے مطابق رات دن کے گناہ نماز شب اور نافلہ صبح کی توفیق سلب کر لیتے ہیں ۔ (١)
بہرحال جو شخص نوافل نہیں پڑھتا ہے وہ ایسی کوئی فضیلت نہیں رکھتا جس سے خداوند عالم کے فضل وکرم کی امید رکھے ، چونکہ جو خود صالح ہوتا ہے وہ مصلح کا انتظار کرتا ہے ۔
نافلہ نمازیں واجب نمازوں کے نقا ئص کو پورا کرتی ہیں ۔ (٢)
ایک شخص نے امام ـ سے سوال کیا کہ نماز میں ہمارا ذہن حاضر نہیں رہتا اور ہم نماز کی برکتوں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے ، ہم کیا کریں ؟ امام ـ نے فرمایا : واجب نماز کے بعد نافلہ نماز بھی پڑھا کرو۔ نافلہ ، واجب نماز کے نقا ئص کو پورا کرتی ہیں اور یہ نماز کی قبولیت کا سبب بنتی ہیں ۔
نماز کے انہیں آثار و برکات کی وجہ سے اولیائے اللہ نہ صرف نماز واجب بلکہ مستحبی نمازوں پر بھی زیادہ توجہ رکھتے تھے اور جو چیز بھی اس کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے اور معنوی تکامل نیزروحی پرواز میں مانع ہوتی ہے ، اس سے پرہیز کرتے تھے، جیسے زیادہ کھانا ، زیادہ بات کرنا ، زیادہ سونا ، لقمۂ حرام کھانا ، لہو و لعب میں مصروف ہونا یاجو چیز بھی انسان کو عبادت کے لطف سے رو کے اور نماز کو اس کے اوپر بوجھ بنائے ۔ چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے :
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٨٣ صفحہ ١٧٩.
٢۔ تفسیر اطیب البیان جلد ١ صفحہ ١٦١.
( و انّھا لکبیرة ِلا علی الخاشعین ) (١)
بیشک نماز سنگین ہے لیکن خدا کے سامنے خشوع کرنے والوں پر نہیں ۔
٤۔ تربیت کا سبب
اگرچہ نماز ایک روحی اور معنوی ربط ہے اور اس کا مقصد خدا کو یاد کرنا ہے لیکن اسلام چاہتا ہے کہ اس روح کو تربیتی نظام کے سانچے میں ڈھال دے، اسی لئے نماز کے لئے کافی شرائط رکھے گئے ہیں یعنی نماز کے صحیح ہونے کے شرائط ، اس کے قبول ہونے کی شرطیں اس کے کمال کے شرائط ، جیسے جسم و لباس کا پاک ہونا ، قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہونا ، کلمات کا صحیح تلفظ کرنا ، نمازی کی جگہ اور لباس کا مباح ہونا ۔ یہ سب نماز کے صحیح ہونے کے شرائط ہیں ان کا تعلق نمازی کے جسم سے ہے نہ کہ اس کی روح سے ۔
اسلام نے عباد ت کو ایسے لباس میں ضروری قرار دیا تاکہ مسلمانوں کو صفائی و نظافت ، استقلال اور دوسروں کے حقوق کی رعایت کا درس دے جس طرح توجہ ، حضور قلب ، معصوم اماموں کی رہبری کو قبول کرنا ، مالی واجبات کی ادائیگی جیسے خمس و زکات ، یہ نماز کے قبول ہونے کی شرطیں ہیں ۔ نماز کا اوّل وقت ادا کرنا ، مسجد میں اور جماعت سے پڑھنا ، صاف ستھرے اور عطر لگے ہوئے کپڑے پہننا ، دانتوں کو صاف کر کے نماز پڑھنا ، صفوں کی ترتیب کی رعایت کرنا اور اس جیسی بہت سی چیزوں کی رعایت کرنا یہ کمال نماز کے شرائط ہیں ۔ ان شرائط میں غورکرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک شرط انسانوں کی تربیت میں بہتر ین کردار کی حامل ہے ۔
ہم نماز میں جس طرف بھی رخ کرلیں اللہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہیں قرآن مجید کہتا ہے:
………………………………
١۔ بقرہ ٤٥.
( فأینما تُولّوا فثَمّ وجہ اللہ ) (١)
لیکن قبلہ کو اس لئے معین کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو بتائیں کہ اسلامی سماج کا ایک جہت رکھنا ضروری ہے اور اس سے وحدت و بھائی چارگی کا درس ملتا ہے ۔ لہذا حکم دیا گیا کہ سب لوگ ایک طرف رخ کر کے کھڑے ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ایک سمت جس کا حکم ہوا کیوں وہ صرف کعبہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کعبہ وہ پہلا مرکز ہے جو عبادت کے لئے بنایا گیاہے
(انّ اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکاً ) (٢)
دوسری طرف پوری تاریخ میں اس کے بنانے اور تعمیر کرنے والے انبیا ء رہے ہیں لہذا کعبہ کی طرف رخ کرنا تاریخی طور پردین سے ایک طرح کا رشتہ جوڑنا ہے ۔ دوسری طرف کعبہ استقلال کا راز ہے اس لئے کہ جب مسلمان بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے اوپر احسان جتاتے تھے اور کہتے تھے کہ تم لوگ ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہو پس تم لوگ استقلال نہیں رکھتے ۔ قرآن کریم کافی واضح الفاظ میں فرماتا ہے :
( لئلا یکون للناس علیکم حجة ) (٣)
ہم نے کعبہ کو تمہارا قبلہ قرار دیا ہے تاکہ لوگ تم پر حجت نہ رکھیں ۔ خلاصہ یہ کہ قبلہ استقلال ، وحدت و ہمدلی کا راز ہے ۔ یہ نماز کے تربیتی درس ہیں ۔
٥۔ ارواح کا احضار
آج کل دنیا میں '' Hypnotism'' اور احضار روح کے بازار نے رونق حاصل کر رکھی
………………………………
١۔ بقرہ ١١٥.
٢۔ آل عمران ٩٦.
٣۔ بقرہ ١٥٠.
ہے ۔ لیکن یہاں پر یہ بحث ہمارا مقصد نہیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ نماز کے ذریعہ سے اپنی بھاگی ہوئی روح کو خالق کے سامنے پیش کرکے اور اس کلاس کے فراری کو درس میں حاضر کریں ۔
نماز کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ بھی ہے کہ نماز سرکش و فراری روح کو خدائے تعالیٰ کے حضور حاضر کرتی ہے ۔ امام زین العابدین ـ مناجات الشاکین میں پروردگار کی بارگاہ میں اپنے نفس کا یوں گلہ کر رہے ہیں :
'' خدا وندا ! ہم اپنے نفس کا تجھ سے گلہ و شکوہ کرتے ہیں یہ نفس ہویٰ و ہوس کی طرف رغبت رکھتا ہے اور حق سے بھاگتا ہے ۔'' یہی نفس ہے جو گناہ کو انسان کے سامنے شیرین و آسان بنا کر پیش کرتا ہے اور اس کی اس طرح توجیہ کرتا ہے کہ بعد میں توبہ کر لینا ، سبھی لوگ یہ کام کرتے ہیں ۔ نفس ، بچے کے کھیل کی طرح ہے اگر اس کا باپ اس کی مخالفت نہ کرے بچہ اپنے ہاتھ کو باپ کے ہاتھ سے چھڑا کر جدھر دل چاہے چلا جاتا ہے اور ہر گھڑی اس کے لئے خطرہ رہتا ہے ۔ اس نفس کے کنٹرول کا بہترین راستہ یہ ہے کہ انسان چند بار اس کو خدا وند عالم کی بارگاہ میں حاضر کرے اور غفلت کا خاتمہ کرے تاکہ مادیات کے سمندر میں اسے غرق ہونے سے نجات دلاسکے ۔
|