عبادت میں اعتدال
عبادت و پرستش اسی وقت باقی رہ سکتی ہے جب انسان اس کے بجا لانے میں اعتدال سے کام لے ،لہذا حدیث کی کتابوں میں بعض روایات '' باب الاقتصاد فی العبادة'' (عبادت میں میانہ روی کا باب)کے نام سے نقل ہوئی ہیں ۔ (١)
انسان اس وقت سالم ہے کہ جب اس کے تمام اعضاء و جوارح متناسب ہوں ، اگر حدّ معمول سے اعضاء چھوٹے یا بڑے ہوں تو وہ ناقص الخلقت کے زمرہ میں آئے گا ۔ اسی طرح انسان عبادت اور معنوی کاموں میں بھی نظم و ضبط پیدا کرے ۔ رسول اکرم ۖ سے لوگوں نے بتایا کہ آپ ۖ کی امت میں سے کچھ لوگ عبادت کی خاطر اپنی بیوی بچوں کو چھوڑ کر مسجد میں آگئے ہیں ۔ آپ ۖ نے فرمایا یہ میری راہ و روش نہیں ہے ہم خود اپنی بیوی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور گھر میں رہتے ہیں جو شخص بھی ہمارے راستہ سے ہٹ کر عمل کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (٢)
امام جعفر صادق ـ ایک مسلمان کا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک مسلمان کا پڑوسی عیسائی تھا یہ عیسائی مسلمان ہوگیا اس مسلمان نے اس تازہ مسلمان کو صبح ،سحر کے وقت جگایا اور اس کو مسجد لایا ۔ اس سے کہا کہ نماز شب پڑھو اس نے نماز شب پڑھی اس کے بعد صبح ہوگئی جب صبح ہوگئی تو کہا کہ نماز صبح پڑھو ۔ اس کے بعد سورج نکلنے تک دعائیں پڑھیں اور سورج نکلنے کے بعد نماز ظہر تک قرآن پڑھا اسی طرح اس مسلمان نے اس بے چارے تازہ مسلمان کو ٢٤ گھنٹے تک مسجد میں پھنسائے رکھا ۔ اب نماز پڑھو ،اب دعا پڑھو، اب قرآن پڑھو ۔ یہ عیسائی جب گھر واپس گیا تو اسلام سے منحرف ہوگیا
………………………………
١۔ کافی ج ٢ ص ٨٦.
٢۔ کافی جلد ٥ صفحہ ٤٩٦.
اور اس کے بعد دوبارہ مسجد میں قدم نہیں رکھا ۔ (١)
جی ہاں ! عبادت میں اس طرح کی افراط و تفریط لوگوں کو عبادت سے دور کردیتی ہے۔
شہید مطہری نقل کرتے ہیں کہ : عمرو عاص کے دو بیٹے تھے ایک حضرت علی ـ کا چاہنے والا تھا اور ایک معاویہ کا طرفدار ہوگیا ۔ ایک روز رسول اکرم ۖ نے عمرو عاص کے نیک بیٹے (عبداللہ ) سے فرمایا : ہم نے سنا ہے کہ تم راتیں عبادت میں گزارتے ہو اور دنوں کو روزہ رکھتے ہو ، اس نے کہا جی ہاں یا رسول اللہ ۖ ! رسول اکرم ۖ نے فرمایا ہم کو یہ روش قبول نہیں ۔ (٢)
دوسری روایت میں آیا ہے:
'' انّ للقلوب اقبالا و ادبارا '' (٣)
انسان کی روح لگاؤ اور فرار دونوں رکھتی ہے ۔ جس وقت روح متوجہ اور متمایل ہو اس وقت اس سے فائدہ اٹھاؤ اور جس وقت آمادہ نہ ہو اس کے اوپر دباؤ نہ ڈالو ۔ اس سے خود بخود بر عکس عمل وجود میں آتا ہے ۔
اسلام نے تاکید کی ہے کہ اپنے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کرو ان چار حصوں میں سے ایک حصہ کو تفریح و لذت میں گزارو ۔ اگر اس طریقہ پر عمل کرو گے تو دوسرے کاموں کے لئے نشاط حاصل ہوگا ۔ (٤)
وہ یہودی جو چھٹی اور آرام کے دن مچھلی کے شکار کے لئے جاتے تھے قرآن مجید نے ان کو زیادتی کرنے والوں میں سے یاد کیا ہے ۔
………………………………
١۔ سیری در سیرہ ٔنبوی ۖ صفحہ ٢١٣.
٢۔ طہارت روح صفحہ ١٢٢.
٣۔ بحار الانوار جلد ٧٨ صفحہ ٣٥٧، کافی ج ٢ ص ٨٦ .
٤۔ بحار الانوار جلد ١٤ صفحہ ٤١ .
( و لقد علمنا الذین اعتدوا منکم ف السبت ) (١)
تم ان لوگوں کو بھی جانتے ہو جنہوں نے ہفتہ کے معاملہ میں زیادتی سے کام لیا تو ہم نے حکم دے دیا کہ اب ذلّت کے ساتھ بندر بن جائیں ۔
بہرحال عبادت میں نشاط و آمادگی ایک اصل ہے جو اعتدال و میانہ روی کی رعایت کرنے سے حاصل ہوتی ہے ۔
عبادت میں انتظامی صلاحیت
صرف معاشرتی ، اقتصادی اور سیاسی مسائل میں ہی انتظامی صلاحیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ عبادت کے تمام کاموں میں بھی اس کی ضرورت ہے ۔
انتظامی صلاحیت میں جو چیزیں آتی ہیں وہ ہیں ، منصوبہ بندی ، طریقہ ٔکار ، تجربہ کار افراد کا انتخاب ، نظم و ضبط ، نظارت ، کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تمام چیزوں پر کنٹرول رکھنا وغیرہ ۔ عبادت میں بھی انہیں اصولوں کی رعایت کی جائے تاکہ رشد و کمال کا باعث بنے ۔
نماز ایک معین منصوبے کے ما تحت ہے جو تکبیر سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے اس کی رکعتوں اور رکوع و سجود کی تعداد بھی مشخص ہے ، نماز کے اوقات مخصوص ہیں اور اس کی سمت، قبلہ کی طرف ہے ۔
صرف یہ منصوبہ اور خاکہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے پڑھنے اور انجام دینے کے لئے امام جماعت کا انتخاب بھی ضروری ہے جو ہر طریقہ سے کامل ہو اور معاشرے کو پہچانتا ہو ۔ امام جماعت، آداب ، اخلاق ، پاکیزگی ، نماز میں نشاط اور مسجد میں آنے کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے اور
………………………………
١۔سورہ بقرہ ٦٥ .
انھیں اس کی ترغیب دلائے ۔ جماعت کی صفوں میں نظم و نسق اور امام جماعت کی اقتداء کی رعایت ہونی چاہئے ۔ بہر حال ایک کامل انتظامی صلاحیت کی ضرورت ہے تاکہ نماز بہترین طریقے سے انجام پائے۔
عبادت؛ شب و روز کا دواخانہ ہے
ہر شخص ہر وقت ہر حالت میں پہلے سے وقت لئے بغیر اور بلا واسطہ پروردگار عالم سے رابطہ قائم کر سکتا ہے ، اگرچہ مخصوص اوقات میں جیسے سحر کے وقت ، جمعہ کے روز ، سورج ڈوبتے وقت ، نماز جمعہ کے خطبے ختم ہونے کے بعد ، بارش کے وقت یا شب قدر میں دعا ما نگنے اورعبادت کر نے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتاہے ۔ لیکن دعا و مناجات کا کوئی وقت مخصوص نہیں ہے ۔
عبادت ہرحال میں غفلت اور بھول چوک اور گناہوں کی دوا ہے
( اقم الصلاة لذکر ) (١)
اللہ کا ذکر اور عبادت دل کو آرام و اطمینان پہنچاتے ہیں اوران سے دل کا اضطراب اورپریشانی ختم ہوجاتی ہے
( الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ) (٢)
عبادت سکون کا باعث ہے
آپ بڑے بڑے سرکش ، سرمایہ داروں اور صاحبان علم و صنعت کو پہچانتے ہیں لیکن کیا ان سب کے یہاں قلبی سکون کا سراغ ملتا ہے ؟ !
………………………………
١۔ طہ ۔ آیہ ١٤ .
٢۔ رعد آیہ ٢٨.
کیا اہل مغرب کے پاس روحانی ا ور نفسیاتی سکون موجود ہے ؟
کیا قدرت و صنعت اور مال و ثروت آج کے انسان کو صلح و دوستی اوردلی اطمینان و سکون عطا کرسکے ہیں ؟ لیکن خدا کی عبادت و اطاعت سے خدا کے اولیاء کو ایسی کیفیت و حالت حاصل ہوتی ہے کہ کسی بھی حالت میں یہ لوگ مضطرب او رپریشان نہیں ہوتے ۔ یہاں پر مناسب ہے کہ انقلاب اسلامی کے عظیم الشان قائد امام خمینی کے دو واقعے نقل کردیں :
شاہ ایران کے بھاگنے کے بعد اگرچہ شاہ کا بے اختیار نوکر شاہ پور بختیار حکومت کر رہا تھا ، پھر بھی امام خمینی نے یہ فیصلہ کیا کہ ١٥ سال کی جلا وطنی کے بعد اپنے ملک ( ایران ) واپس جائیں ۔ نامہ نگاروں نے آپ سے ہوائی جہاز میں سوال کیا : آپ اس وقت کیا محسوس کر رہے ہیں ؟ امام خمینی نے جواب دیا کچھ بھی نہیں ( یعنی آپ کو ہر اعتبار سے اطمینان تھا ) جبکہ اس وقت ان کے لاکھوں ایرانی عاشقان کی جان کو در پیش خطر ہ کی وجہ سے پریشان تھے مگرامام خمینی بہت اطمینان کے ساتھ ہوائی جہاز کے اندر عبادت و دعا میں مشغول تھے ۔ یہ اطمینان قلب صرف خدا کی یاد سے حاصل ہوتا ہے ۔
دوسرا واقعہ جس کو امام خمینی کے صاحبزادے جناب الحاج سید احمد خمینی سے سنا ہے وہ یہ ہے کہ جس روز شاہ ، ایران سے بھاگا اس روز پیرس میں دسیوںنا مہ نگار اور فوٹو گرافر، ان کی قیام گاہ پر آئے تاکہ اس مسئلہ میں امام کی بات کو دنیا میں پھیلائیں ۔ امام خمینی نے کرسی پر بیٹھ کر چند کلمے کہے پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ : کیا نماز ظہر کا وقت ہوگیا ہے ؟ ہم نے کہا جی ہاں ۔ امام خمینی نے فوراً اپنی بات منقطع کی اور اوّل وقت نماز کے لئے کرسی سے اتر آئے ۔ سارے لوگ پریشان ہوگئے کہ کیا بات ہوگئی ۔ ہم نے کہا کہ امام خمینی نماز کواوّل وقت پڑھتے ہیں۔
جو کچھ بھی امام خمینی نے پیرس میں انجام دیا وہ ایک درس تھا جو انہوں نے اپنے امام حضرت علی رضا ـ سے سیکھا تھا ۔ تاریخ میں ہے کہ صابئین (ستارہ پرست )جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے ۔ ان کا ایک عالم بہت مغرور و متعصب تھا ۔ جب بھی وہ امام رضا ـ سے بات چیت کرتا تھاتو کسی بات کو قبول نہیں کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ بحث میں امام نے اس کی فکر کا اس طرح سے قلع قمع کیا کہ اس نے کہا کہ اس وقت میرا دل کچھ نرم ہوا اور تمہاری دلیلوں کو قبول کرتا ہوں۔ اسی اثناء میں اذان کی آواز آئی ۔ امام نماز پڑھنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ آپ کے دوستوں نے کافی اصرار کیا کہ اگر تھوڑی دیر اس سے آپ اور بات چیت کرلیں تو وہ اور اس کے ساتھی سب مسلمان ہو جائیں گے ۔ امام نے فرمایا اوّل وقت کی نماز اس صابئی کی بحث سے بہتر ہے ۔ اگر وہ لیاقت رکھتا ہے تو نماز کے بعد بھی حق قبول کرسکتا ہے ۔ اس صابئی عالم نے جب یہ ایمانی پختگی اور حق سے عشق دیکھا تو اور زیادہ آپ پر فریفتہ ہوگیا ۔ (١)
عبادت کا ما حصل
عبادت ؛ نصرت و الطاف الہی کے حصول کا ذریعہ ہے :
( واعبد ربک حتی یاتیک الیقین ) (٢ )
اس قدر عبادت کرو کہ درجہ ٔ یقین پر فائز ہوجاؤ ۔
حضرت موسیٰ ـ آسمانی کتاب توریت کو حاصل کرنے کے لئے چالیس رات دن کوہِ طور پر مناجات میں مشغول رہے اور پیغمبر گرامی اسلام ۖ وحی کو حاصل کرنے کے لئے ایک طولانی مدت تک غار حرا میں عبادت کرتے رہے ۔ روایتوں میں آیا ہے : ''مَن اخلص العبادة للہ اربعین صباحا ظھرت ینابیع الحکمةمن قلبہ علی لسانہ''(٣)
………………………………
١۔ بحار الانوار جلد ٤٩ صفحہ ١٧٥.
٢۔ حجر آیہ ٩٩ .
٣۔ بحار الانوار جلد ٥٣ صفحہ ٣٢٦.
جو شخص بھی چالیس رات دن اپنے تمام کاموں کو عبادت و خلوص کا رنگ دے تو پروردگار عالم حکمت کے چشمے اس کے دل اورزبان پر جاری کر دیتا ہے ۔
جی ہاں خلوص دل سے عبادت وہ یونیورسٹی ہے جو چالیس روز کے اندر تعلیم سے فارغ ہونے و الوں کو ایسا حکیم بناتی ہے جو حکمت کو الٰہی سر چشمہ سے حاصل کرکے اسے دوسروں کی طرف منتقل کرتے رہتے ہیں ۔
ایمان و عبادت کا ایک دوسرے میں اثر
جس طرح سے ایمان انسان کو عبادت کی طرف کھینچتا ہے عبادت بھی ایمان کو عمیق بنانے میں مؤثر ہے جیسا کہ درخت کی جڑیںپتوں کو کھانا اور پانی پہنچاتی ہیں اور پتے جڑوں کی طرف گرمی اور نور منتقل کرتے ہیں ۔
ہاں عبادت جتنی اچھی اور زیادہ ہوگی، معبود سے انسان کی محبت و انس بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
قرآن مجید میں عبادت کا فلسفہ
قرآن کی نظر میں نماز کا فلسفہ یاد خدا ہے
( اقم الصلاة لذکر ) (١)
اور خدا کا ذکر دلوں کے سکون کا باعث ہے
( الا بذکر اللہ تطمئن القلوب)(٢)
اور قلبی سکون کا نتیجہ عالم ملکوت میں پرواز ہے
………………………………
١۔ طہ ١٤.
٢۔ رعد ٢٨.
( یا ایتھا النفس المطمئنة ارجع الی ربّک ) (١)
دوسرے مقام پر قرآن نے عبادت کی وجہ شکر پروردگار قرار دیا ہے۔
( أعبدوا ربّکم الذ خلقکم ) (٢)
اپنے پروردگار کی عبادت کرو کہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے ۔
( فلیعبدوا ربّ ھذا البیت الذ اطعمھم من جوع و آمَنَھم من خوف)(٣)
پس اس گھر(خانہ کعبہ ) کے پروردگار کی عبادت کریں کہ اس نے انہیں بھوک و پیاس سے نجات دی ۔
بعض آیتوں میں یہ اشارہ ہے کہ نماز تربیت کا کام کرتی ہے ۔
( انّ الصلاة تنھیٰ عن الفحشاء و المنکر ) (٤)
بیشک نماز برائیوں اور منکرات سے روکتی ہے ۔
نماز پڑھنے والا مجبور ہے کہ نماز کے صحیح اور قبول ہونے کے لئے کچھ دینی احکام کی رعایت کرے ۔ یہی رعایت سبب بنتی ہے کہ انسان گناہ اور برائیوں سے دور رہے ۔ ظاہر ہے کہ جو سفید کپڑا پہنے ہوگا وہ فطری طور پر گندی اور آلودہ جگہ پر نہیں بیٹھے گا۔
قرآن مجید نماز کی تاکید کرنے کے بعد فرماتا ہے :
( ان الحسنات یذھبن السیّئات ) (٥)
بیشک اچھے کام گناہوں کو ختم کردیتے ہیں ۔
پس اس لحاظ سے نماز گزشتہ گناہوں سے ایک عملی توبہ ہے اور پروردگار عالم اس آیت کے ذریعہ گنہگاروں کو امید دلا تا ہے کہ اگر اچھے کام ، جیسے نماز و عبادات بجا لاؤ گے تو خدا تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا ۔
………………………………
١۔فجر ٢٨ .
٢۔ نساء ١.
٣۔ قریش ٢.
٤۔ عنکبوت ٤٥.
٥۔ ہود١١٤.
|