نماز کی تفسیر
 

پہلا باب

عبادت و عبودیت

عبادت کیا ہے ؟
ہماری تخلیق کا اصل مقصد عبادت ہے '' و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون''(١)
ہم لوگ جو بھی کام انجام دیتے ہیں اگر رضائے پروردگار کی خاطر ہو تو وہ عبادت ہے چاہے وہ کام علم حاصل کرنا ، شادی کرنا یالوگوں کی خدمت کرنا ہو اور یااپنی یا معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر ہو ۔ جو چیز کسی کام کو عبادت بناتی ہے وہ انسان کی مقدس نیت ہے جس کو قرآن مجید کی زبان میں '' صبغة اللہ '' ( ٢) کہتے ہیں یعنی جس میں خدائی رنگ و بو پائی جائے ۔

فطرت و عبادت
ہمارے کچھ کام عادت کی بنا پر ہوتے ہیں اور بعض کام فطرت کی بنا پر انجام پاتے ہیں۔ جو کام عادت کی بنا پر ہوتے ہیں ممکن ہے کہ وہ کسی اہمیت کے حامل ہوں جیسے ورزش کی عادت اور ممکن ہے وہ کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں ، جیسے سگریٹ پینے کی عادت، لیکن اگر کوئی کام فطری ہو یعنی فطرت اور اس پاک سرشت کی بنا پر ہو جو اللہ تعالیٰ نے ہر بشر کے اندر ودیعت کی ہے تو ایسا ہر کام اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔عادت پر فطرت کی فوقیت یہ ہے کہ فطرت میں زمان ، مکان، جنسیت، نسل اورسن و سال مؤثر نہیں ہوتے ۔ ہر انسان اس جہت سے کہ انسان ہے فطرت رکھتا ہے جیسے اولاد سے محبت،کسی خاص نسل یازمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر انسان اپنے بچے
………………………………
١۔ ذاریات آیہ ٥٦.
٢۔بقرہ آیہ ١٣٨.
کو چاہتا ہے (١) لیکن لباس اور غذا جیسی چیزیں عادات میں شامل ہیں جن میںزمان و مکان کے اختلاف سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔ بعض جگہوں پر کچھ رسم و رواج مو جودہیں لیکن دوسری جگہ پر وہی رسم و رواج نہیں پائے جاتے ہیں۔
عبادت و پرستش بھی ایک فطری امر ہے اسی لئے جتنی بھی قدیم ، خوبصورت اور مضبوط عمارتیں دیکھنے میں آتی ہیں وہ عبادت گا ہیں ، مسجدیا مندر اور چرچ وغیرہ ہیں یا پھر آتش کدے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ عبادت و پرستش کے انواع و اقسام میں کافی فرق پایا جاتا ہے ۔ ایک طرف تو خود معبود میں فرق ؛ یعنی پتھر ، لکڑی اور بت کی عبادت سے لے کر خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت تک۔ اسی طرح عبادت کے طریقوں میں فرق ہے جیسے ناچنے ، مٹکنے سے لے کر اولیاء اللہ کی انتہائی عمیق و لطیف مناجات تک فرق پایا جاتا ہے ۔
انبیاء کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگوں کے اندر خدا کی عبادت و پرستش کی روح پھو نکیںبلکہ انکا اصل مقصد معبو د سے متعلق تصور اور عبادت کے طریقے کو صحیح کرنا تھا ۔
مساجد ، گرجا گھروں اور مندر وغیرہ کی عمارتوں میں اتنا زیادہ پیسہ لگانا ، اپنے وطن کے پرچم کو مقدس سمجھنا ، اپنی قوم کے بزرگوں اور بڑی شخصیتوں کی قدر کرنا ، لوگوں کے کمالات و فضائل کی تعریف کرنا حتی اچھی چیزوں سے رغبت ہو نایہ سب انسان کے وجود میں روحِ عبادت کے جلوے ہیں ۔
جو لوگ خدا کی عبادت نہیں کرتے ہیں وہ بھی مال و اقتدار یا بیوی ، بچوں،سندا ور ڈگری یا
………………………………
١۔ سوال: اگر بچے سے محبت کرنا فطری چیز ہے تو پھر کیوں بعض زمانوں ، جیسے دورجاہلیت میں لو گ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ؟ جواب : فطری مسائل کئی طرح کے ہوتے ہیں جیسے اولاد سے محبت فطری ہے اسی طرح حفظ آبرو بھی فطری ہے ۔عرب کے جاہل لڑکی، کو ذلت کاباعث سمجھتے تھے چونکہ جنگوں میں عورتیں اسیر ہوتی تھیں اور ان سے کوئی اقتصادی فائدہ نہیں ہوتا تھا، لہٰذا آبرو کے تحفظ کے لئے اپنی لڑکیوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے تھے ۔ دور جانے کی بات نہیں ہے مال اور جان دونوں سے محبت کرنا فطرت ہے لیکن کچھ لوگ مال کو جان پر اور کچھ لوگ جان کو مال پر قربان کر دیتے ہیں لہٰذا لڑکی کو آبرو پر قربان کرنا اولا د سے محبت کی فطرت کے منافی نہیں ہے۔
فکر و قانون اوراپنے مکتب فکر یا اپنی راہ و روش کی پوجا کرتے ہیں اور اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اس راہ میں اتنا زیادہ بڑھ جاتے ہیں کہ دل دے بیٹھتے ہیں اور جانفشانی پر تیار رہتے ہیں ۔ اپنی پوری ہستی کو اپنے معبودپر فدا کر دیتے ہیں ۔ خدا کی عبادت انسان کی فطرت کی گہرا ئیوں میں شامل ہے ، چاہے انسان اس سے غافل ہی ہو جیسے مولاناروم کہتے ہیں :

ہمچو میل کو دکان با مادران
سرِّّ میل خودنداند درلبان

'' انسان اپنی فطرت کی طرف اس طرح رغبت رکھتا ہے جیسے بچہ اپنی ماں سے ، جبکہ اس کا راز وہ نہیں جانتا''۔
خدائے حکیم نے جس رغبت اور چا ہت کو پیکر انسان میں قرار دیا ہے اس کی تکمیل و تشفی کے اسباب و وسائل بھی فراہم کئے ہیں ۔ اگر انسان کو پیاس لگے تواس کے لئے پانی پیدا کیا ، اگر انسان کو بھوک لگے تو غذا بھی موجود ہے ۔ اگر خداوند عالم نے انسان میں جنسی خو اہش کو رکھا تو اس کے لئے شریک حیات کو بھی خلق کیا،اگر خدا نے قوت شامّہ دی تو اس کے لئے اچھی خوشبوئیں بھی پیدا کیں ۔
انسان کے متعددجذبات میں سے ایک گہرا جذبہ یہ ہے کہ وہ لا متناہی چیز سے رغبت رکھتا ہے ، کمال سے عشق کرتا ہے اور بقاء کو دوست رکھتا ہے ۔ اور ان فطری رجحانات کی تکمیل ، خداوند متعال سے رابطہ اور اس کی پرستش کے ذریعہ ہوتی ہے ،نماز و عبادت ؛ کمال کے سر چشمہ انسان کا ارتباط ، محبوب واقعی سے اُنس اور اس کی قدرت لا متناہی میں احساس امنیت کرنا ہے ۔

عبادت کی بنیاد
ایساکون ہے جو خدا کے لا محدود اور نا متنا ہی اوصاف و کمالات کوپہچان لے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے اور خاضع نہ ہو ؟ قرآن مجید واقعات و تاریخ کے ذریعے پروردگار عالم کی قدرت و عظمت کی نشانیوں کو ہمارے لئے بیان کرتا ہے ۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ خدا نے کنواری جناب مریم کوبیٹا عنایت کیا۔ دریائے نیل میں جناب موسیٰ ـ کے لئے راستہ بنایا اور فرعون کو اسی میں غرق کر دیا ۔ اپنے نبیوں کو خالی ہاتھ دنیا کی بڑی طاقتوں پر کامیاب کیا اور ظالموں کی ناک مٹی میں رگڑ دی۔
وہ خدا جس نے بے جان مٹی سے تم کو پیدا کیا موت و زندگی ، عزت و ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ کون ہے جو اپنے ضعف و ناتوانی، اپنے جہل ،اپنی بے چارگی اور اپنے کو متوقع یا غیر متوقع حوادث و خطرات میں دیکھے لیکن نجات دینے والی قدرت کی ضرورت کااحساس نہ کرے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کرے ؟!
قرآن کریم جگہ جگہ پر انسان کے ضعف و ناتوانی کا ذکر کرتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : تم پیدائش کے وقت کچھ بھی نہیں جانتے تھے کسی چیز سے آگاہ نہ تھے تم سراپا فقر تھے اور طاقت حاصل ہونے کے بعد پھر اسی ضعف و ناتوانی کی طرف جاؤ گے ۔
تم کو ہر وقت مختلف قسم کے خطرے دھمکی دیتے ہیں ۔ اگر زمین کی حرکت کم ہو جائے رات و دن اپنی جگہ پر رک جائیں تو کون ہے جو ان کی حرکت کو بڑھا دے اور تغییر پیدا کرے؟! اگر سارا پانی زمین کے اندر جذب ہوجائے تو تمہارے لئے چشمہ کا پانی کون بہا کر لائے گا ؟ (١)
اگر ہم چاہتے تو اسے کھارا بنا دیتے تو پھر تم ہمارا شکریہ کیوں نہیں ادا کرتے ؟ (٢)
اگر ہم چاہیں تو درختوں کو ہمیشہ کے لئے خشک کر دیں ۔ (٣)
اگر ہم چاہیں تو زمین ہمیشہ لرزہ براندام و متزلزل رہے ۔ (٤)
………………………………
١۔ ملک آیہ ٣٠.
٢۔ واقعہ آیہ ٧٠ .
٣۔ واقعہ آیہ ٦٥.
٤۔سبا آیہ ٩ .

یہ اور اس کے علاوہ دسیوں نمونے قرآن بیان فرماتا ہے تاکہ انسان کو غفلت سے بیدار کرے ، اس کے تکبر کو توڑ دے اور پیدا کرنے والے کے سامنے عبادت و تذلل پر آمادہ کرے ۔

عبادت کی گہرائی
عبادت ایک ایسا عمل ہے جسکو ظاہراً خضوع کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ عمیق ہے ۔
عبادت کا مرکز ہماری روح ہے، عبادت کا سر چشمہ معرفت ہے ،عبادت کی بنیادتوجہ ہے، عبادت کی شروعات تقدس سے ہوتی ہے ،آغاز عبادت تعریف و ستائش سے ہے، عبادت دعا ہے ، عبادت میں التجا و استعانت ہے ، عبادت معبود کے کمالات سے عشق کا نام ہے ۔
عبادت ظاہراً ایک آسان کام ہے لیکن عبادت میں اگر مذکورہ بالا چیزیں نہ ہوں تو انسان سے عبادت نہیں ہو سکتی ۔ عبادت یعنی مادّیت سے رغبت کو ختم کر لینا اور اپنی روح کو پروازعطا کرنا۔ قدموں کو دیکھنے اور سننے والی اشیاء سے آگے رکھنا ۔ عبادت انسان کے عشق کی تکمیل کرتی ہے ،جس میں کبھی حمد و تعریف کے ذریعہ ،کبھی تسبیح و تقدیس کے ذریعہ اور کبھی اپنے قیمتی اوقات میں شکر و اظہار تسلیم کے ساتھ ،پروردگار عالم کے تئیں اپنے ادب و احترام کااظہار مقصودہوتا ہے۔

عبادت سے بے توجہی
حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں : اے انسان ! تمہاری آنکھیںاندھی ہوجائیں اگر تم اپنی عمر کے اتنے سال گزارنے کے بعد بھی ( جبکہ تمہارے پاس اتنی استعداد ، قابلیت ، وسا ئل ، عقل ، علم اور وحی احکام الٰہی مو جود ہیں ) حیوانوں کی طرح چراگاہ عالم میں کھاؤ پیواور سو جاؤ ۔ (١)
………………………………
١۔ قرّت اذاً عینہ اذا قتدیٰ بعد السنین المتطاولہ بالبھیمة الھاملة و السائمة المرعیّة ( نہج البلاغہ مکتوب٤٥ )
جی ہاں ! تمدن ، ٹیکنالوجی ، جدید آلات اور پیشرفت نے زندگی کو سکون بخشا اور یہ رفاہ و آسائش کا تحفہ لائیں لیکن کیاانسان کا کمال دنیا کی راحت بخش چیزوں کے حاصل کرنے میں ہے ؟
اگر ایسا ہی ہے تو پھر جانور ، کھانے پینے ، پوشاک ،گھرا ور جنسی تسکین میں انسان سے بھی آگے ہیں۔
جانور انسانوں سے زیادہ اچھا اوربغیر زحمت کے کھاتے ہیں ۔ ان کو کھا نا پکا نے اور تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ انہیں کپڑے سلنے ، دھلنے اور استری کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جانور کسی محنت و مشقت کے بغیر اپنی جنسی خواہش کو پورا کرتے ہیں ۔
کتنے پرندے اور کیڑے مکو ڑے ایسے ہیں جن کے اندر گھر اور گھونسلے بنانے کی مہارت کو دیکھ کر انسان تعجب میں پڑ جاتا ہے ۔ اصولاً کیا یہ ٹیکنالوجی کاارتقاء انسانیت کی ترقی کا سبب بناہے ؟ کیا انفرادی و معاشرتی برائیاں کم ہوگئی ہیں ؟ کیا یہ آسائش ،دل کو سکون بخشتی ہے ؟
بہرحال اگر انسان کے ہاتھ کو معصوم او رعادل رہبر کے ہاتھ میں نہ دیا جائے تو انسانیت پر ظلم ہوگا اگر انسان کا دل پروردگار سے وابستہ نہ ہو تو انسانیت کے مقام و منزلت کی توہین ہوگی ۔

رضائے الٰہی محور عبادت ہے
جس طرح سے آسمانی کرات اور کرہ ارضی مختلف ( وضعی و انتقالی ) حرکات کے باوجود ہمیشہ ایک ثابت مدار رکھتے ہیں اسی طرح عبادت بھی ہے اپنی مختلف شکلوںکے با وجود ایک ثابت مدار رکھتی ہے اور وہ رضائے الہی ہے ۔ اگرچہ زمان و مکان اور انفرادی و اجتماعی شرائط اس مدار میں انجام پانے والی حرکتوں کو معین کرتے ہیں ۔ جیسے سفر میں چار رکعتی نماز دو رکعت ہو جاتی ہے اور بیماری میں نماز پڑھنے کی شکل بدل جاتی ہے لیکن دو رکعتی یا قصر نماز ، نماز ہے یہ بھی یاد خداا ور رضائے پروردگار کو انجام دینے کے لئے ہوتی ہے ۔ ''واقم الصلاة لذکری''(١)

عبادت کا جذبہ
عبادت روح کی غذا ہے ۔ سب سے اچھی غذا وہی ہوتی ہے جو بدن میں جذب ہو جائے (یعنی بدن کے لئے سود مند ثابت ہو ) نیز بہترین عبادت وہ ہے جو روح میں جذب ہو جائے یعنی خوشی اور حضور قلب کے ساتھ انجام پائے ۔ زیادہ کھانا اچھی بات نہیں ہے بلکہ سود مند غذا کھانا ضروری ہے ۔
پیغمبر اکرم ۖ،جابر بن عبد اللہ انصاری سے ارشاد فرماتے ہیں :
'' انّ ھذا الدین لمتین فاوغل فیہ برفق و لا تبغض الی نفسک عبادة اللہ''۔(٢)
خدا کا دین مستحکم و استوار ہے اس کی نسبت نرم رویہ اختیار کرو ۔(لہٰذا جس وقت روحی اعتبار سے آمادہ نہ ہو اس وقت عبادت کو اپنے اوپر بوجھ نہ بناؤ )کہ تمہارا نفس اللہ کی عبادت سے نفرت کرنے لگے ۔
رسول اکرم ۖ کی دوسری حدیث میں ہے :
'' طوبیٰ لمن عشق العبادة و عانقھا '' (٣)
وہ شخص خوشحال ہے جو عبادت سے عشق کرتا ہے اور اپنے محبوب کی طرح عبادت کو گلے لگاتا ہے۔
………………………………
١۔ طہٰ آیہ ١٤.
٢۔ بحار الانوار جلد ٧١ صفحہ ٢١٢.
٣۔ بحارالانوار جلد ٧١ صفحہ ٢١٢ .