درود
اللھم صلي علي محمد واٰل محمد
خداوندا ۔۔۔ درود بھيج محمد اور خاندان محمد پر
محمد اور ان کا پاک اور طاہر خاندان ۔۔ خدا رحمتيں ان پر ہوں ۔۔۔۔ مکتب اسلام کا کامل اور اعليٰ ترين نمونہ ہيں۔ نماز پڑھنے والا اپني دعا کي زبان ميں ان اعليٰ نمونوں ، بہترين شخصيات اور مشعل راہ افراد کي ياد کو اپنے دل ميں تازہ کرتا ہے اور ان پر درود بھيج کر ان سے اپنا روحاني رشتہ استوار کرتا ہے۔
کامل نمونوں کا ہونا ضروري ہے
زندگي بسر کرنے والے اور کسي دوسرے مکتب پر عمل کرنے والے لوگوں کے لئے اس مکتب کے مطابق اگر اعليٰ اور کامل ترين نمونہ ہو اور وہ کسي شخصيت کو اپنے مکتب کے نظريے پر عمل پيرا نہ ديکھيں تو اس بات کا قوي امکان ہے کہ وہ عمل کے وقت غلط سمت ميں قدم اٹھائيں اور نتيجے ميں اپني راہ سے بھٹک جائيں اور يہي وجہ ہے کہ خدا کے راستے پر خدا کي بندگي کرنے والے لوگ اور انبيائ کے نظريے ہر زمانے ميں موجود رہے ہيں۔ ہر دور ميں جب انبيائ خدائي مکتب کا پيغام لے کر آئے تو انہوں نے عوام کے سامنے اعليٰ نمونوں کو پيش کيا اور اسي وجہ سے انبيائ کا پيش کردہ نظريہ حيات باقي اور محفوظ رہا۔
تاريخ ميں ايسے صاحبان عقل کثرت کے ساتھ مليں گے جن کي کوشش فقط يہ تھي کہ وہ انسانوں کي زندگي اور ان کي سعادت و خوش قسمتي کے لئے نقشے بنائيں، پروگرام مرتب کريں اور مدينہ فاضلہ ، ۔۔۔۔۔ کہ جو امن و امان کا شہر ہے ۔۔۔۔۔ کا تصور پيش کريں چنانچہ انہوں نے اس مقصد کے لئے کتابيں لکھيں ليکن پيغمبر کا طور طريقہ اور تھا انہوں نے دوسرے لوگوں کي طرح بحث اور فلسفيانہ خيالات کو نہيں چھيڑا بلکہ اپنے نظريے کو عملي طور سے پيش کيا ، خود اس پر عمل کيا اور اپنے نظريے پر عمل پيرا لوگوں کے ذريعے معاشروں اور سوسائٹي کے لئے افراد تيار کئے اور يہي وجہ ہے کہ پيغمبروں کا مکتب اور ان کا نظريہ ہر زمانے ميں زندہ رہا جبکہ عقلمند لوگوں اور فلسفيوں نے زندگي اور عظمت انساني کے جو فارمولے اور نظام تيار کئے ہيں وہ صرف کتابوں کے اوراق ميں ہي باقي رہے۔
نماز پڑھنے والا محمد اور ان کي آل کے لئے ۔۔۔ جو مکتب اسلام کے منتخب ترين نمونے اور روشن و درخشاں ستارے ہيں ۔۔۔۔ دل سے دعا کرتا ہے کہ جنہوں نے اپني مختصر سي زندگي مکتب اسلام کے قوانين کے مطابق بسر کي اور لوگوں کو بتايا کہ اسلامي نظريہ ميں اعليٰ درجے کا انسان کيسا ہوتا ہے؟
نمازي کي خواہش
نماز پڑھنے والا ان لوگوں کے لئے درود بھيجتا ہے اور ان کے لئے خدا سے درخواست کرتا ہے اور يہ خواہش کرتا ہے کہ ان اعليٰ ترين اور منتخب نمونوں يعني محمد و آل محمد سے اس کا روحاني رشتہ قائم ہوجائے کيونکہ يہ روحاني رشتہ اعليٰ کمالات کي طرف کشش کا سبب ہوگا۔ يہ طاقتور کشش ۔۔۔۔۔ اس راستے اور اس مقصد کي طرف جس راہ پر انہوں نے قدم بڑھايا اور جس سمت انہوں نے پيش قدمي کي۔۔۔۔۔ اسے بھي کھينچے اور اس کا ان پاکيزہ ترين افراد سے روحاني رشتہ اور قلبي لگاو اور زيادہ مستحکم ، مضبوط اور گہرا ہو۔
لہذا محمد و آل محمد پر درو د بھيجنے کا مقصد يہ ہے کہ نماز پڑھنے والا ان پاک و پاکيزہ ہستيوں کي طرف متوجہ ہو جو اسلام کے منتخب وجود اور اعليٰ ترين نمونے ہيں اور ان عظيم شخصيات کو اپنے سامنے لا کر اور انہيں ياد کرنے کي وجہ سے ہوسکتا ہے کہ ايک مسلمان اس راستے کو پہچانتا ہو رہے کہ جس راستے پر ان عظيم افراد نے قدم اٹھائے تاکہ وہ اس طرح عمل کے لئے جدوجہد پر آمادہ رہے۔
سلام
نماز ميں تشہد کے ساتھ ساتھ تين اور درود يعني سلام ہيں البتہ يہ سلام خدا اور اس کے نام کي ياد کے ساتھ ادا کئے جاتے ہيں (٣١)۔ پس معلوم ہوتا ہے نماز خدا کے نام سے شروع ہوتي ہے اور خدا ہي کے نام پر اپنے انجام و اختتام تک پہنچتي ہے اور اس ميں شروع سے آخر تک مسلسل خدا کا نام ليا جاتا اور اسے ياد کيا جاتا ہے۔ اگر کسي جملے يا ذکر ميں پيغمبر يا ان کے خاندان کا تذکرہ ہے تو وہ بھي خدا کي ياد اور اس سے دعا کے ساتھ ہوتا ہے کہ خداوند ا ۔۔۔۔ ان پر اپني لطف و رحمت نازل فرما۔
سلام ميں پہلا جملہ نماز پڑھنے والے کي طرف سے درود ہے خدا کا پيغمبر پر اور خدا سے اس کے بندے کے لئے طلب رحمت ہے جو خدا کا عظيم اور برگزيدہ بند ہ ہے۔
السلام عليک ايھا النبي و رحمۃ اللہ و برکاۃ
درود ( سلام )ہو آ پ پر اے پيغمبر اور خدا کي رحمتيں اور برکتيں آپ پر ہوں۔
خدا کے رسول کا اعلان حق
پيغمبر اسلام ۔۔۔۔ اسلام کے بنياد گذار يعني اسلام کے مقصد عظيم کو دنيا ميں رائج کرنے والے ہيں اور اس وقت نماز پڑھنے والا اس کام ميں اپنے آپ کو داخل خيال کرتا ہے کہ جس کام کے لئے انہوں نے قدم اٹھايا اور جس کام کي حضور نے بنياد ڈالي يعني توحيد کے اعلان حق کو انہوں نے باآواز بلند لوگوں کے سامنے پيش کيا اور اس کے ذريعے پوري دنيا کو ہلا ڈالا اور انہوں نے انسان کي بہترين زندگي کے نظام اور اصول و قوانين کو ہميشہ کے لئے زمانے ميں نافذ کرديا۔
يہ پيغمبر ہي تھے کہ جنہوں نے انسان اور معاشرے کے حقيقي چہرے کو ہم سے متعارف کرايا کہ جسے دين کے مطابق ہونا چاہئيے۔ ايسا معاشرہ کہ جس ميں اسلامي نظريات کے مطابق انسان تيار ہوں چنانچہ نماز پڑھنے والا انہي اعلان و شعار کو اپني نماز ميں کچھ درس اور راہنمائيوں کے ساتھ بيان کرتا ہے کہ جنہيں وہ اپني زندگي اور اپنے زمانے ميں عملي کرنا چاہتا ہے اور وہ اس بات کا بھي خواہش مند ہوتا ہے کہ وہ ايسا قدم اٹھائے جو ايک بے مثال و اعليٰ ترين معاشرے کے قيام اور انسان سازي کے لئے ہو۔
پس يہ بے موقع نہيں ہے کہ اس نماز کے آخر ميں اپنے پيغمبر و پيشوا کو ۔۔۔ جس نے خود اسے دين پر عمل کے لئے آمادہ کيا اوراس راہ پر اس کي راہنمائي کي ۔۔۔۔ سلام سے ياد کرے اور اپني زبان سے اپنے پيغمبر کي راہ اور ان کے ساتھ ہونے کا اعلان کرے کہ وہ اپنے رہبر کے راستے پر ہے۔
نماز پڑھنے والا دوسرے جملے ميں خود اپنے اپنے ساتھيوں اور خدا کے تمام نيک بندوں پر سلام و درود بھيجتا ہے۔
السلام علينا و عليٰ عباد اللہ الصالحين
سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نيک بندوں پر۔
نماز پڑھنے والا يہ سلام بھيج کر نيک بندوں کو اپنے دل ميں ياد کرتا ہے کيونکہ ان کي ياد اس کے دل کو گرمانے کا سبب بنتي ہے۔
دنيا کي ظاہري چمک اور اس کي حقيقت
يہ دنيا کہ جہاں ہر طرف گناہ کے جلوے ہيں ، پستي ، گھٹيا پن ، چھوٹي چھوٹي مادي باتيں ہيں ، ظلم و ستم ، نجاستيں ، برائياں ، بدياں اور ظلمت و تاريکياں چاروں جانب سے دنيا کو گھيرے ہوئے ہيں اور تمام لوگ انہي برائيوں ميں غرق ہيں ۔۔۔ ايسے ماحول ميں ايک ہوشيار اور صاحب دانش کي دور انديش نگاہيں اسے خبردار کردينگي کہ ہر طرف انسانيت کا افلاس ہے ، انسانيت ختم ہوچکي ہے اور تم دنيا ميں جو چمک دمک ديکھ رہے ہو اور جو ظاہري خوشنما رنگ تمہيں نظر آرہا ہے اس کے پيچھے صرف انسانيت کي پستياں ، ذلتيں ، نجاستيں ، خرابياں ، برائياں اور سياہياں اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ اپنے عروج پر ہيں۔
نمازي اس بات کي اچھي طرح مشاہدہ کرتا ہے کہ اس دنيا ميں حق کو طلب کرنے والے اور انسانيت کي اصلاح و بہبود کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے بکثرت موجود ہيں ليکن يہ دعوے کرنے والے اپنے ان دعوں کے ذريعے اپني اور اپني دنيا کي حقيقت کو چھپا نہيں سکتے کيونکہ حقيقت بڑي ذلت والي ہے کہ سب ہي نفس پرست اور دنياوي شان و شوکت کے طلبگار ہيں ۔ يہ سب وہ جگہ ہے کہ جسے امام علي ، امام حسين اور امام جعفر صادق نے خالي کرديا اور اب صرف شور و غل کرنے والے اور عوام کو دھوکہ دينے والے معاويہ ، يزيد اور منصور دوانيقي جيسے موجود ہيں۔
مختصر يہ کہ يہ زمانہ ايسا ہے کہ جہاں شيطان کے اطاعت گذار لوگ ايسے مقامات پر ہيں جہاں خدا کے نيک بندوں کو ہونا چاہئيے تھا۔ پھر بھلا ايسے برے زمانے ميں ايسا کيونکہ ہوسکتا ہے کہ انسان کسي نيکي ، بھلائي اور کسي حقيقت کي طرف توجہ کرے اور ايسا کيونکہ ممکن ہے کہ انسان اس انتظار ميں رہے کہ بھلائي کا ماحول پيدا ہوگا۔ ايسا زمانہ جس کے حالات ابھي بيان کئے گئے کہ ہم صرف انتظار ہي کرسکتے ہيں کہ ہر طرف گناہ ہوں گے، نجاستيں ہوں گي، ناکامياں ہوں گي اور ہر طرف لوگوں کا حق چھينا جارہا ہوگا۔ ان تمام باتوں اور کاموں کے علاوہ ہم اور اميد بھي کيا کرسکتے ہيں اگر ہم کوشش بھي کريں تم ہم آساني کے ساتھ بھي ( اميد) نہيں کرسکتے۔
خدا کے نيک بندے ۔۔۔۔۔۔ اميد کي کرن
چنانچہ ايسے برے ماحول ميں يہ کہنا کہ سلام ہو تم پر اے خدا کے نيک بندوں ، خدا کے نيک بندوں کو ( خدا کي اجازت سے) ہمراہي اور امداد کے لئے پکارنا افسردہ اور مردہ دلوں کو تسلي اور نويد مسرت ديتا ہے۔ گويا سلام ہو تم پر اے خدا کے نيک بندوں ۔۔ کہنا درحقيقت ہمارے قلوب کي تاريکي ميں اميد کي کرن ہے جو ہماري دل کي تاريکي کو يہ خوشخبري ديتي ہے کہ افسردہ مت ہو ، تاريکي سے مت گھبراو ۔۔۔ ابھي روشني باقي ہے، ابھي سپيدي سحر ہے جو تاريکيوں اور ظلمتوں کے بادلوں کو چھاٹ ديني والي ہے۔
نماز ميں يہ کہنا کہ سلام ہو تم پر اے خدا کے نيک بندوں ۔۔۔۔ نمازي کو متوجہ کرتا ہے کہ يہ دنيا نيک اور اچھے لوگوں سے خالي نہيں ہے بلکہ اس دنيا ميں تمہارے يار دوست اور تمہارے ساتھ محاذ پر جا کر کام اور جدوجہد کرنے والے موجود ہيں اور حقيقتاً اس جملے سے نمازي کے دل ميں اميد کي کرنيں پھوٹتي ہيں۔ يہ جملہ نمازي کي ہمت باندھتا ہے ، اس کي کمر کستا اور اس کے دل کو قوي و توانا کرتا ہے کہ تم تنہا نہيں ہو بلکہ تمہارے ساتھ اور بھي نيک بندے ہيں ، دنيا کے اس بياباں صحرا اور خشک ويرانے ميں ايسے ہرے بھرے درخت اور نخلستان موجود ہيں جو پھل بھي دينے والے ہيں اور دير تک تمہارا ساتھ بھي دينے والے ہيں۔
خدا کي سنت ۔۔۔۔۔ نيک لوگوں کا وجود
چنانچہ تاريخ ميں ہميشہ ايسے معاشرے اور سوسائٹياں ، جو تباہ ہوچکي تھيں ۔۔۔ سے ايسے افراد پيدا ہوئے جن کا ارادہ قوي اور مستحکم تھا اور وہ اعليٰ شخصيات کے مالک تھے۔ يہ افراد زمانے کو اچھا بنانے کا ذريعہ بنے ، انہوں نے ويران زندگي کو ہرا بھرا اور شاندار بنايا اور انقلاب سے ( معاشرے کي) کايا پلٹ دي۔ لہذا نماز پڑھنے والا اس وقت يہ خيال کرتا ہے کہ تاريخ ميں خدا کي ہميشہ يہ سنت رہي ہے کہ اچھے لوگ پيدا ہوں لہذا ايسے ہي لوگ جو نوراني طاقتوں کے مالک اور نيکيوں کو فروغ دينے والے ہيں اس تاريک دنيا ميں موجود ہيں ، وہ کام کررہے ہيں ، اپني جدوجہد جاري رکھے ہوئے ہيں اور صحيح راستے کي تلاش ميں ہيں يعني خدا کے نيک بندے خدا کي بندگي کے ساتھ ساتھ اس کے فرمان پر بھي عمل کرنے والے اور دنيا کي طاغوتي اور سرکش طاقتوں سے حالت جہاد ميں ہيں۔ ليکن ہميں سوچنا چاہئيے کہ ايسے لائق اور نيک بندے کہاں ہيں اور کيا ہميں ان کي زندگي سے سبق حاصل کرنا چاہئيے اور کيا ان کے قدم سے ملا کر چلنا چاہئيے ؟ کيوں نہيں ۔۔۔۔ ضرور!
لہذا نماز پڑھنے والا اللہ کے نيک بندوں پر سلام بھيج کر خود کو انہي ميں سے قرار ديتا ہے اور ان کے ساتھ خود کو قابل سلام سمجھتا ہے اور ايک جملے ميں خود اپنے اوپر ان نيک بندوں پر سلام بھيجتا ہے تو اس ميں غرور و سرور بلندي کي کيفيت پيدا ہوتي ہے اور اس کے دل ميں يہ اطمينان پيدا ہوتا ہے کہ اس کاروبار حيات ميں جہاں ہر طرف گندگي ، نجاست اور تاريکياں ہيں ۔۔۔۔ ميں تنہا نہيں ہوں بلکہ ميرے ساتھ اللہ کے نيک بندے بھي ہيں اور اس سلام کے بعد دل سے اس کي يہ خواہش ہوتي ہے کہ وہ واقعتاً ان کا ساتھي بن جائے، خود کو انہي ميں سے قرار دے۔ ان کے ساتھ مل کر اس دنيا کي گندگي اور نجاست کو دور کرنے کي کوشش کرے اور اس خيال کے ساتھ کہ وہ ان نيک بندوں کے ساتھ مل کر اس دنيا کي اصلاح و درستگي کي جدوجہد ميں شامل نہيں ہوسکے گا۔۔۔۔۔ احساس شرم کرتا ہے اور اسي شرم کے احساس کي وجہ سے اس ميں ايک ہمت پيدا ہوتي ہے اور ذمہ داري اور مسؤليت کو نبھانے کا جذبہ پيدا ہوتا ہے۔
نيک کون ہے ؟
يہ خدا کے نيک بندے کيسے ہيں اور ہم کس چيز کو ’’ صالح‘‘ کہتے ہيں کہ ۔ ۔۔۔ ’’ عباد اللہ الصالحين ‘‘ ۔۔۔۔ صالح اور نيک ہونے کا مطلب يہ نہيں ہے کہ وہ صرف نماز پڑھنے والا ہوگا بلکہ نيک وہ ہے جو خدا کي طرف سے اپنے اوپر عائد کردہ ذمہ داريوں اور مسؤليت کو قبول کرنے کے لئے تيار ہو اور ان ذمہ داريوں کو احسن طريقے سے نبھانے کے لئے ايسے اعمال انجام دے کہ اس کے لئے کہا جائے کہ وہ واقعتا خدا کا نيک بندہ ہے اور خدا کا نيک بندہ ہونا بھي اس کے نام کے لئے مناسب ہو ۔ اسي طريقے سے جيسے ايک جماعت ( کلاس) ميں کچھ خاص طالب علم ہوتا ہيں جن کے لئے کہا جاتا ہے کہ يہ واقعتا طالب علم ہيں۔
آخري اور تيسرے جملے ميں نماز پڑھنے والا انہي نيک بندوں ( يا اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے ہمراہ فرشتوں) کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ
السلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سلام ہو تم پر اور خدا کي رحمتيں اور برکتيں ہوں
چنانچہ اس آخري سلام کے ذريعے سے وہ ايک اور مرتبہ صلاح ( لايق ہونے) اور نيک ہونے کو ياد کرتا ہے اور اس سلام ميں نيک بندوں يا نمازيوں جيسے دوسرے عزت والے لوگوں کو جو خدا کي بارگاہ ميں قرب کي منزل پر ہيں ياد کرتا ہے اور اس ياد کے ساتھ ختم کرتا ہے۔
|