ولا الہ الا اللہ
يہ اسلام کا نعرہ ہے جو يہ ثابت کرتاہے کہ پوري کائنات ميں صرف ايک ہي نظام جاري و ساري ہے۔ يہ نعرہ و آئيڈيا لوجي ہے جو کائنات کے مطالعے ميں مختلف نظر آتي ہے مگر حقيقت ميں ايک ہي ہے۔ اس نعرے ميں ايک بات کا انکار ہے اور ايک بات کا اثبات و اقرار۔
انکار يہ ہے کہ دنيا کي تمام طاغوتي اور سرکش طاقتوں اور تمام غير الہي نظاموں کو يکسر مسترد کرديا جائے کہ ان ميں سے کوئي بھي قدرت کا مالک نہيں ہے سوائے خدا کے اور اس انکار سے انسان خو دکو ان کي غلامي سے نجات دے۔
نا م نہاد بڑي طاقتوں اور شيطاني قوتوں کي آرزو
تمام شيطاني طاقتيں اور نظام ہميشہ اس بات کے آرزو مند رہے ہيں کہ ان کے اصول و قوانين کي پيروي کي جائے۔ ان کے دست و بازو کي طاقتيں اور ذہني اختراع ہم سے يہ مطالبہ کرتي ہيں کہ خدا سے انحراف کے راستے پر قدم بڑھاو ليکن ہم لا الہ الا اللہ کے ذريعے سے ان کي تمام خواہشات کو مليا ميٹ اور اميدوں کو قطع کرديتے ہيں خدا کي قدرتوں کے علاوہ تمام قدرتوں ، تمام غير الہي اور خدا کے پسنديدہ جذبات کے علاوہ تمام جذبوں کو يہ جملہ ختم کرديتا ہے اور نمازي تمام غير الہي نظاموں کي نفي کے ساتھ خود کو تمام ہستيوں ، غلاميوں ، ذلتوں اور ہر قسم کے لوگوں کي ہر قسم کي بندگي سے آزاد قرار ديتا ہے۔ اس وقت وہ يہ سمجھتا ہے کہ صرف خدا ہي کا فرمان پيروي کے قابل ہے اور صرف خدا ہي کے ارادے سے کائنات کا نظام جاري و ساري ہے يعني ايک اسلامي معاشرے کے نظريے کو ۔۔۔ جو دنيا ميں حقيقي معنوں ميں عملي ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ ايک مسلمان لا الہ الا اللہ کے ذريعے سے اسے ضروري سمجھتا ہے اور خدا کي بندگي کو قبول کرکے باقي تمام بندگيوں کو نامناسب اور بے کار و بے فائدہ خيال کرتا ہے۔
خدا کي بندگي سے کيا مراد؟
بندگي خدا سے کيا مراد؟ بندگي خدا يعني حکمت سے بھرپور احکامات خدا کے زير سايہ اپني زندگي کو بہتر بنانا اور نظام الہي کے مطابق ۔۔۔۔ جو خدا کے واضح کردہ خطوط اور بيان شدہ احکام کے ذريعے ترتيب ديا گيا ہے ۔۔۔ زندگي بسر کرنا اور اپني تمام قدرت و فکر کو اسي قانون خد اکے نفاذ کے لئے استعمال کرنا تاکہ پوري دنيا اسي کے ساتھ حرکت کرے۔
اسلام کے علاوہ تمام نظاموں کي بنياد غلط افکار و نظريات پر ہے
خدا کے نظام کے علاوہ زندگي بسر کرنے کے لئے لوگوں نے جو دوسرے قوانين اور نظام بنائے ہيں وہ صرف ايک انسان کي فکر کا نتيجہ ہوتے ہيں جو صرف اسي انسان کي فکر کے محور پر گردش کرتے ہيں۔ ايسے غير الہي نظام اور اصول و قوانين اپنے دامن ميں عوام الناس کے لئے بہت سي خرابياں سميٹے ہوئے ہيں اور جو جہالت کي ظلمتوں سے اپنا سفر شروع کرتے ہيں۔ ايسے غير الہي نظام جو نا صرف انسان کي حقيقي سعادت و کاميابي سے بے خبر ہيں بلکہ ان کي بنياد غلط افکار و نظريات پر قائم ہے اور ايسے نظام و قوانين پر عمل پيرا ہوکر انسان نا ہي کامياب ہوسکتا ہے اور نا ہي اپني منزل کمال تک کہ جہاں اسے پہنچنا چاہئيے ۔ ۔۔۔ پہنچ سکتا ہے۔
صرف وہ معاشرہ ( سوسائٹي) اور نظام الہي ہے جسے خدا نے بنايا ہے جو حکمت سے پر ہے اور جسے خدا نے اپني رحمت کو ظاہر کرنے کے لئے بنايا ہے کيونکہ خداوند عالم کو انسانوں کي حاجتوں کا علم ہے اور وہ اس بات سے بھي آگاہ ہے کہ انسان کي يہ حاجتيں کن ذرائع سے پوري ہوسکتي ہيں چنانچہ اس نے انسانوں کے لئے قانون بنايا ہے تاکہ ( ہم ) انسان اپنے وجود کو ۔۔۔۔ جو ابھي ايک چھوٹے سے پودے کي شکل ميں ہے ۔۔۔ کمال تک پہنچيں۔
عوام الناس کي بہتري صرف اسلام ہي کے ذريعے ممکن ہے
ہم ان تمام نظاموں کے جو دوسروں کے بنائے ہوئے ہيں ۔۔۔۔ دشمن نہيں ہيں ، ہم ان کي قدر داني کرتے ہيں ليکن جو باتيں ميں عرض کررہا ہوں ۔۔۔۔ وہ انبيائ کي ہيں اور تمام انبيائے خدا عالم بشريت کے لئے ايک درد مند باپ کي حيثيت رکھتے ہيں ۔ لہذا وہ لوگ جو اس بات کے خواہشمند ہيں کہ عوام الناس کي زندگي کو بہتر بنائيں اور ايسے مکانات بنائيں کہ جن ميں انساني زندگي بہتر اور ٹھيک طور پر بسر ہوسکے يعني وہ لوگ جو معاشرے اور سوسائٹيوں کو آباد کرنا اور انہيں سنوارنا چاہتے ہيں ، ان لوگوں کو انبيائ نے يہ درس ديا اور يہ نصيحت کي کہتم جو ان عوام الناس کي تربيت کرنا چاہتے ہو ، نظام الہي کے سوا کسي اور نظام سے تربيت نہيں کرسکتے اور خدائے وحدہ لا شريک نے جو نظام مقرر کيا ہے ، عوام صرف اسي کے ذريعے کامياب و کامران ہوسکتے ہيں۔
تاريخ نے يہ بات ثابت کردي ہے اور ہم نے بھي ديکھا اور آئندہ بھي ديکھتے رہيں گے کہ وہ نظام جو خدا کے علاوہ لوگوں نے بنائے ہيں ان کے نتيجے ميں عوام الناس نے کيا کيا تکليفيں اٹھائيں، کس کس طرح انسانوں کي شخصيت کو پامال کيا گيا اور انسان کس کس طرح کي عذاب والي زندگي سے دوچار ہوا۔
واللہ اکبر
پس ہر قسم کے غير الہي نظاموں کا انکار کرنے کے بعد ايک معمولي انسان زمانہ جاہليت کي باتوں کو ديکھ کر اپنے يکتا و تنہا ہونے کا احساس کرتا ہے اور تنہائي سے گھبراتا ہے کہ مير اکوئي مددگار نہيں ہے جبکہ ميں خدا کے راستے پر قدم بڑھانے والا ہوں اور جب وہ اپني نظريں آگے دوڑاتا ہے تو زندگي گذارنے کے تمام نظاموں کو ۔۔۔ جن کو ابھي تک اچھا اور شاندار سمجھتا تھا ۔۔ بيکار و فضول خيال کرتا ہے ليکن جب زمانہ جاہليت کے لوگوں کي زندگي پر نظر ڈالتا ہے تو ان کي زندگي ايک پہاڑ کي مانند اس کي جانب رخ کيے نظر آتي ہے اور وہ اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ وہ جن چيزيں اور قدرتوں کي نفي کررہا ہے وہ اس کے سامنے جلوہ افروز ہيں اور اپني شان و شوکت کا مظاہرہ کررہي ہيں۔ زمانہ جاہليت کے نظاموں کي شان و شوکت اسے خوف زدہ کرتي ہے اور يہي وہ لمحہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ اکبر ۔۔۔۔ اللہ ان تمام باتوں سے بزرگ تر ہے، وہ تمام لوگ ، تمام قدرتوں اور ان تمام طاقتوں سے بھي جو لوگ ظاہر کررہے ہيں ، بڑا ہے اور وہ ا س سے بھي بزرگ ہے کہ ہم اس کي تعريف کريں۔
خدا ئي نظام سے وابستگي نجات اور کاميابي کي علامت ہے
کائنات کو چلانے کے لئے جو اصول و قوانين مرتب کيے گئے ہيں اور جو نظام جاري وساري ہيں خواہ وہ دنيا کے مادي قوانين ہوں يا تاريخ کے ، سب کے سب خدا ہي کے قوانين ہيں ۔ پس وہ يہ خيال کرتا ہے کہ انتہائي درجے کي سعادت و کاميابي اسي وقت ممکن ہے کہ جب ميں خود کو ان قوانين اور الہي سنتوں سے وابستہ کرلوں گا۔ حقيقي نجات صرف خدائي اصولوں کي پابندي اور ان کے مطابق زندگي گذارنے ميں ہے اور دنيا ميں صرف وہي لوگ کامياب ہيں جو تاريخ بشريت ميں ہونے والي کشمکش ميں صرف خدا کے اطاعت گذار رہے۔
انسان کامل کا ايمان
حضرت محمد نے اس حقيقت کو اچھي طرح سمجھا تھا کہ لوگ کچھ نہيں کرسکتے بلکہ خدا ہي سب کچھ کرنے پر قادر ہے اور آپ اپنے پورے وجود کے ساتھ اس بات پر ايمان کامل رکھتے تھے اور اس کا احساس کرتے تھے چنانچہ يہي وجہ تھي کہ آپ نے تن و تنہا مکے کے تمام گمراہوں کے سامنے قيام کيا تھا بلکہ آپ پوري دنيا کے مقابل کھڑے ہوگئے اور آپ جيسي ہي شخصيت سے ايسي پامردي، استقامت اور ہمت کي اميد کي جاسکتي ہے چنانچہ آپ نے استقامت کے ساتھ اپني کوشش کے ذريعے اس زمانے کي گمراہ انسانيت کے قافلے کو ۔۔۔ جو اپني منزل کي راہ کو گم کرکے مختلف خود ساختہ خداوں کے پاس بھٹک رہا ٹھا، اس بات پر آمادہ کيا کہ وہ طاغوتي طاقتوں کے پيچھے نہ چلے۔ اس طرح آپ نے ان گمراہوں کو ذلت و غلامي کے راستے سے نجات دلائي اور انہيں اس راستے پر گامزن کيا جو فطرت اور ان کے کمال کا راستہ تھا۔ با الفاظ ديگر آپ نے ان کو تاريکي و ظلمت سے نکال کر نور ميں لاکھڑا کيا۔
لہذا وہ شخص جو انسانوں کے درميان تھوڑي بہت قدرت رکھنے والے لوگوں ، ان کے ظلم و زيادتيوں اور سختيوں کے مقابلے ميں اپنے آپ کو چھوٹا اور کمزور سمجھتا ہے اور خود کو بے ارادہ ۔۔۔ کہ ميں کچھ بھي نہيں کرسکتا ہوں، خيال کرتا ہے کہ وہ اس نکتے کو سمجھ لے اور اس بات پر صدق دل سے ايمان لے آئے کہ يہ طاقتور لوگ اور ان کي طاقتيں کوئي حيثيت نہيں رکھتي ہيں کيونکہ ان سب سے بڑي بلکہ سب سے برتر طاقت خدا ہے ، تو اس کے دل کو سکون و اطمينان نصيب ہوگا اور اس کے باطن ميں اميد خدا کي آگ روشن ہوگي کہ خدا کي مرضي کے بغير يہ طاقتيں ميرا کچھ نہيں بگاڑ سکتيں اور يہي اطمينان و سکون اور خدا سے اميد اسے عظيم اور کامياب ترين انسان بنا دے گي۔
يہ تھا تسبيحات اربعہ کے چار ٹکڑوں کے فوائد و مقاصد کا خلاصہ جو يہاں بيان کيا گيا کہ جن کي ہم تيسري اور چوتھي رکعت ميں قيام کي حالت ميں تکرار کرتے ہيں۔
|