لم يلد ۔۔
۔۔۔ اس نے کسي کو پيدا نہيں کيا
ہمارے اور خدا کے درميان بندگي اور ربوبيت کا رشتہ ہے
ہمارا خدا ايسا نہيں ہے جيسا کہ لوگوں نے اپنے فضول خيالات ميں تراشا ہوا ہے اور جسے تحريف شدہ مذاہب اور شرک آميز عقائد ميں بيان کيا گيا ہے۔
وہ خدائي خيال جو عيسائيوں اور مشرکوں نے تخليق کيا ہے يعني جس خدا کا بيٹا يا کئي بيٹے ہوں ، ہم ايسے خدا کو قبول نہيں کرتے بلکہ ہم تو اس خدا کو ماننے والے ہيں کہ جس نے کائنات کي تمام چيزوں اور تمام انسانوں کو اپني قدرت و ارادے سے وجود کي نعمت دي ہے ليکن وہ ان سب کا باپ نہيں ہے بلکہ ان کا خالق ہے اور اس لحاظ سے آسمانوں اور زمين ميں زندگي بسر کرنے والے تمام جمادات ، نباتات ، حيوانات، انسان اور تمام چيزيں سب اس کے بندے ہيں نہ کہ اس کے بيٹے يا اولاد ، سب اس کے نظام قدرت کے تابع اوراس کي رحمت کے زير سايہ زندگي بسر کرنے والے ہيں اور يہي بندگي اور ر بوبيت کا رشتہ اس نے انسان اور اپنے درميان قائم کيا ہے جس کي وجہ سے خدا کے حقيقي بندے صرف خدا ہي کي بندگي کرتے ہيں اور اس کے علاوہ تمام بندگيوں سے خود کو آزاد قرار ديتے ہيں کہ زندگي ميں صرف ايک ہي خدا کي اطاعت ہوسکتي ہے نا کہ دو خداوں کي۔
خدا کي حقيقي بندگي کرنے والوں کے خلاف ايک طبقہ ايسا بھي ہے جو ان تمام حقائق اور عظمتوں کا نہ صرف انکاري ہے بلکہ مخالف بھي ہے۔ اس طبقے کا کہنا ہے کہ تمہارا خدا ايک مہربان باپ ہے۔ يہ طبقہ انسانوں کو خدا کا بيٹا قرار ديتاہے کيونکہ يہ طبقہ بندگي اور ربوبيت ( يعني تربيت کرنے ) کے رشتے کو خدا اور اس کي مخلوق کے درميان نامناسب خيال کرتا ہے اور نا ہي انساني عظمت اور اس کي کرامت و بزرگي کے لحاظ سے خدا کي بندگي کو درست شمار کرتا ہے اور اس مقدس رشتے کو ختم کرکے انسانوں کے لئے غير خدا کي بندگي کا دروازہ کھول ديتا ہے۔ يہ لوگ دوسروں کے مرتب کردہ نظاموں کے مطابق زندگي گذارنے اور ان کي بندگي کرنے کو ہي حق و حقيقت کا نام ديتے ہيں چنانچہ يہي وجہ ہے کہ انہوں نے ( دنيا کے ) بے شرف و بے حقيقت خداوں کي پرستش شروع کررکھي ہے ۔ ايسے لوگ خود اس امر کا سبب بنتے ہيں کہ لوگ خدا کي بندگي کے بجائے دوسروں کي غلامي کريں اور وہ خود بھي غلاموں کے مانند دوسروں کے آلہ کار بن کر اپني زندگي کو بربادي، ہلاکت اور تباہي کي طرف دھکيل رہے ہيں۔
ولم يولد
اور نا ہي اس کو کسي نے پيدا کيا
اس کا وجود کسي سے نہيں ہے
وہ کبھي پيدا نہيں ہوا اور نا ہي اس کے ساتھ ايسا ہے کہ وہ نہيں تھا اور نا ہي اس کے ساتھ ايسا معاملہ رہا کہ ايک دن ايسا آيا کہاس نے دنيا کي زندگي کو حاصل کيا کوئي ايسا نہيں ہے کہ جس نے اسے پيدا کيا۔ نا ہي کوئي ايسي فکر ، نظام اور طبقہ تھا اور نا ہي کوئي شکل انسانوں ميں ايسي تھي کہ وہ اس شکل سے خدا بن گيا ہو بلکہ وہ تو عظيم اور بالاترين ہستي ہے۔ ايسي حقيقت کہ جسے زوال نہيں ۔ وہ ہميشہ ہميشہ سے تھا اور ہميشہ ہميشہ رہے گا۔
ولم يکن لہ کفواً احد
اور کوئي ايک بھي اس کا کفو اور ہمسر نہيں۔
کائنات کا کوئي وجود اس کي برابري کي اہليت نہيں رکھتا
ايسا نا ممکن ہے کہ ہم کسي بے حقيقت اور محتاج کو خدا بناليں اور اسي طرح ہمارے لئے يہ بھي ممکن نہيں ہے کہ ہم کسي کو اس کا ہمسر وہم پايہ قرار ديں اور نا ہي ہم خدا کے زير اثر علاقوں اور اس کے احکامات کے بارے ميں ۔۔۔۔ جس ميں تمام کائنات اور تمام جہان شامل ہيں ۔۔۔۔۔۔ يہ کہہ سکتے ہيں کہ وہ کسي دوسرے کے درميان تقسيم ہوگئے ہيں اور نا ہي يہ ہوسکتا ہے کہ ہم کائنات کے ايک رخ اور انساني زندگي کے ايک پہلو کو خدا کي طرف سے خيال کريں اور کائنات کے دوسرے رخ اور انساني زندگي کے دوسرے پہلوو ں کو غير خدا سے وابستہ کرديں۔ غير خدا کون ۔۔۔ ؟ وہ سب جن کو خدا مانا جاتا ہے جاندار ہوں يا بے جان يا پھر اپني ربوبيت و قدرت کا دعويٰ کرنے والے المختصر ہم ان ميں سے کسي کو بھي خدائے حقيقي کے بر ابر درجہ دينے والے نہيں ہيں۔
خدا کي وحدانيت کا روشن مينارہ ۔۔۔ سورہ توحيد
يہ سورہ ۔۔۔۔ جيسا کہ نام سے ظاہر ہے ۔۔۔ حقيقتاً خدا کي وحدانيت اور کائنات ميں اس کے واحد و يکتا ہونے کي طرف متوجہ کرتا ہے جبکہ دوسري طرف اسي توحيد کي جانب قرآن مجيد ميں بار بار مختلف پيرايوں سے ہميں متوجہ کياگيا ہے اور قرآن کي سينکڑوں آيات ميں قسم قسم کے بيانات سے اس بات کو واضح کيا گيا ہے کہ اس کائنات کا مالک ايک ہے۔ تمام باطل عقائد کو ۔۔ جن ميں شرک شامل تھا ۔۔۔ اس سورے ميں بہت واضح طريقے سے بيان کيا گيا ہے اور ساتھ ہي ساتھ يہ بھي بيان کيا گيا ہے کہ تمام الوہيت ( خدائي) کے دعوے بے بنياد اور باطل ہيں۔
يہ سورہ تمام مسلمانوں بلکہ تمام جہان والوں کو اس خدا کي ۔۔ جو اسلام کي نظر ميں قابل پرستش اور قابل تعريف ہے۔۔۔۔ معرفت کرا رہا ہے کہ وہ خدا جو اکيلا نہ ہو، ايک نہ ہو ، وہ خدا کہ جس کي سينکڑوں بلکہ ہزاروں شبيہہ مخلوقات ميں بن سکتي ہيں ، اس قابل نہيں کہ وہ ہمارا رب اور معبود ہو۔ قدرت والي چيزيں اور صاحبان قدرت جو اپنے وجود اور اپني زندگي کي بقا کے لئے دوسروں کے محتاج ہيں ، خدا کيسے ہوسکتے ہيں اور جو خود اپني زندگي ميں دوسروں کا محتاج ہو وہ دوسروں کي مشکل کشائي ، دستگيري اور امداد کيونکر کرسکتا ہے؟ لہذا ايسے افراد کو بشريت کا معبود قرار دينا عقلاً نامناسب ہے۔
چنانچہ ايسے افراد جو جھوٹے خداوں کے سامنے ۔۔ جو خود اپنے وجود کي بقا کے لئے دوسروں کے محتاج ہيں ، جو پہلے نہيں تھے اور ان کو بعد ميں پيدا کيا گيا اور جن کے وجود کے لئے زوال و فنا لازمي ہے۔۔۔ ان کي عظمت کے لئے جھکتے ہيں انہوں نے حقيقتاً اپني انساني عظمت کو پامال کيا ہے اور اپني ذات اور انسانيت کو پستي کي جانب دھکيل ديا ہے لہذا سورہ توحيد کا ايک مثبت پہلو يہ ہے بھي ہے کہ حقيقتاً اس خدا کے وجود سے کيا جلوہ ظاہر ہوتا ہے، ہمارے معبود اور کائنات کو پالنے والے کي کيا پہچان اور کيا خصوصيات ہيں؟ ان تمام باتوں کو اس سورے ميں بيان کيا گيا اور اس کے ساتھ ساتھ تاريخ ميں جتنے جھوٹے اور خود ساختہ خدا گذرے ہيں ان کي بيکاري اور بے ثباتي کو بھي اس سورے ميں بيان کيا گيا ہے۔
خدا کي منع کردہ حدود سے تجاوز مت کرو
دوسري جانب يہ سورہ خدا پرستوں اور اسلام قبول کرنے والوں کو ہوشيار کر رہا ہے کہ خدا کي ذات اور اس کي صفات کے بارے ميں جو کچھ بيان کيا گيا ہے وہ کافي ہے اور يہ بھي بيان کيا گيا ہے کہ عقلي پيچيدگيوں اور دل ميں شبہ اور وسوسہ پيدا کرنے والي چيزوں ميں دلچسپي لے کر اپنے خيالات کو خراب مت کرو۔
اس مختصر بيان سے ہماري توجہ اس طرف بھي ہوتي ہے کہ خدائي کا دعويٰ کرنے والوں ميں تقديس کا کوئي وجود نہيں ہوتا اور نا ہي ان ميں ہماري ربوبيت کي قدرت ہے لہذا انہيں اپنے ذہن سے نکال کر ہميں چاہئيے کہ اس مختصر بيان ميں خدائے واحد کي طرف متوجہ ہوں اور اسے ياد کريں نہ کہ فلسفے کي گہرائي کي باتوں ميں اپنے آپ کو غرق کرديں اور ذہني الجھنوں ميں خود کو گرفتار کرليں بلکہ ہميں تو يہ چاہئيے کہ سورہ توحيد ميں بيان کردہ عقيدے کے مطابق آگے بڑھيں، اس توحيد کے ساتھ کام کريں اور اس کے مطابق اپنے ذہنوں کو آگے بڑھائيں۔ حضرت امام زين العابدين سے وارد شدہ ايک حديث ميں ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کو يہ معلوم تھا کہ تاريخ کے آئندہ زمانے ميں ايسے لوگ ہوں گے جو گہري فکر کے حامل ہوں گے اسي وجہ سے خدا نے سورہ توحيد اور سورہ حديد سے چند آيات
عليم بذات الصدور
تک نازل کيں تاکہ انسانوں کو پتہ چل جائے کہ خدا کي ذات و صفات کے بارے ميں کس حد تک ان کو تحقيق کرنے کي اجازت دي گئي ہے اور جو شخص خدا کي اس سورہ توحيد اور سورہ حديد ميں بيان کردہ حدود سے زيادہ باتوں کي گہرائي ميں جانے کي کوشش کرے گا سوائے اس کے کہ وہ اپنے آپ کو ہلاکت ميں ڈالے گا ، کوئي اور نتيجہ نہيں نکلے گا۔
گويا سورہ توحيد نماز سے يہ کہتا ہے کہ خدا کا نظام (قدرت) ايک ہي ہے وہ واحد، عاليشان اور سب سے برتر ہے ، وہ خود غني اور بے نياز ہے، کسي کا محتاج نہيں ہے، نا ہي اس نے کسي کو پيدا کيا ہے اور نا ہي اس نے کسي سے وجود حاصل کيا ہے۔ اس جيسا ہم ميں کوئي نہيں اور نا ہي پوري کائنات ميں اس جيسا کوئي کام کرنے والا ہے۔ خدا کا عالم و بصير ہونا، اس کي رحمت اور اس کي دوسري صفات ۔۔ کہ جن کا جاننا اور پہچاننا ايک مسلمان کے لئے لازم و ضروري ہے جو اس کي زندگي کو شکل کو مقرر کرنے اور اسکي روح کے عروج و کمال کے لئے موثر ترين ہے، کو قرآن کي دوسري آيات ميں بيان کيا گيا ہے۔ لہذا جو کچھ سورہ توحيد ميں بيان کيا گيا ہے اس سے زيادہ خدا کي ذات کہ گہرائي ميں جانے کي ضرورت نہيں ہے اور نا ہي زيادہ گہرائي جسے خدا کي کيفيات کو سمجھنے کي ضرورت ہے ( صرف اتني ہي جتني خدا نے اجازت دي ہے) ۔ خدا کي صفات قرآن ميں پھيلي ہوئي ہيں کہ اگر تم ان کے مطابق زندگي ميں خد اکے لئے کام کرو گے تو عمل کي منزل ميں باقي معرفتيں تمہاري سمجھ ميں آتي چلي جائيں گي۔ اس فکر ميں مت پڑو کہ زيادہ بحث کرنے اور زيادہ گہرے خيالات کي طرف دلچسپي رکھنے سے تم خدا کي معرفت زيادہ حاصل کرسکتے ہو بلکہ تمہارا فريضہ تو يہ ہے کہ معرفت خدا کے حصول کے لئے اپنے دل و نفس کو صاف اور روحانيت کے حصول کي کوشش کرو تاکہ باطن ميں خدا کي طرف توجہ اور تعلق زيادہ ہو اور جب تم عمل کي منزل ميں آگے بڑھو گے تو معرفت کي تمام باتيں تمہيں خود معلوم ہوجائيں گي چنانچہ دنيا ميں جتنے پيغمبر اور صديقين تھے ، ان سب کا اور توحيد کے ماننے والوں اور عارفوں کا يہي حال تھا کہ خدا کي معرفت کے ساتھ انہوں نے آگے قدم بڑھائے۔
|