|
سورہ توحيد
ہم نے پند و نصيحت سے بھرپور سورہ حمد ختم کي جس ميں حکمت و معرفت اور قرآن کے تمام خزانے موجود ہيں۔ سورہ حمد کے اختتام پر نمازي کو چاہئيے کہ وہ اس کے بعد قرآن سے ايک مکمل سورے کي تلاوت کرے۔ قرآن سے سورے کو پڑھنے کافعل آزادانہ ہو اور سورے کو بھي اپني پسند سے منتخب کيا جائے کيونکہ اس طرح قرآن کي ياد نماز کے دل ميں زندہ ہوجاتي ہے يعني معارف اسلامي کا ايک نيا سلسلہ اس کے سامنے روشن ہوجاتا ہے۔
نماز ميں قرآن کي تلاوت کا فريضہ حضرت امام علي رضا نے اپني حديث ميں فضل بن شاذان سے فرمايا ہے جو کہ ہم پہلے بيان کرچکے ہيں کہ قرآن کي تلاوت نماز ميں اس لئے ضروري قرار دي گئي ہے کہ لوگ قرآن کو ترک نہ کرديں اور کہيں ايسا نہ ہو کہ لوگ قرآن کو سمجھنا ہي چھوڑديں اور اس لحاظ سے بھي ضروري قرار ديا گياہے کہ انسان کے ذہن و خيالات ميں قرآن حاضر رہے۔ ہم اس سلسلے ميں سورہ توحيد ( سورہ اخلاص ) اور اس کے ترجمے کو جس کي عموماً نماز ميں تلاوت کي جاتي ہے۔۔ يہاں نقل کر رہے ہيں۔
بسم اللہ الرحمن الرحيم
( ابتدائ ہے) خدائے رحمان و رحيم کے نام سے
قل ۔۔۔ کہو ( اے پيغمبر)
اے پيغمبر ۔۔۔۔ تم خود بھي جانو اور دوسروں تک بھي يہي پيغام پہنچاو کہ
ھو اللہ احد۔۔۔
وہ خدا يکتا ہے۔
نظام کائنات ميں ہم آہنگي اور نظم خدا کے واحد ہونے کي دليل ہے۔
خدائے حقيقي و لا شريک ان خداوں کے مثل نہيں ہے جو دوسرے مذاہب، پرانے اور خرافات سے پر عقائد ميں خراب تھے بلکہ خدا تو ايسا ہي ہے نہيں کہ کوئي اس کا شريک يا ساتھي بنے يا کوئي اس کي اولاد ہو۔ پس اس بيان سے سمجھنا چاہئيے کہ کائنات کي تخليق کا ميدان خداو ں کے جھگڑے کا اکھاڑا نہيں ہے بلکہ کائنات کے تمام قوانين اور تمام نظاموں کو ايک ارادے اور ايک قدرت سے تربيت ديا گيا ہے اور يہي وجہ ہے کہ کائنات کي تخليق ميں ہم آہنگي ، ربط و تعلق اور نظم پايا جاتاہے۔
تمام مرتب شدہ قوانين ، تمام تبديلياں اور تمام حرکتيں جو طبعي لحاظ سے دنيا ميں رونما ہوتي ہيں سب ايک راستے پر جاري و ساري ہيں اور ان کا رخ اور ان کي منزل ايک ہي ہے۔ ان کے درميان صرف انسان ہي ہے جسے يہ قدرت حاصل ہے کہ وہ خود اپنے لئے فيصلہ کرے اور خدا کے عظيم نظام سے منہ موڑ کر تباہي و بربادي کے راستے کو اپنالے، نيا طريقہ اور سنت ايجاد کرے ، خود قوانين مرتب کرے اور ان کے مطابق زندگي بسر کرے يا پھر احکام خدا کے سامنے سر تسليم خم کردے اور خدا کے واضح کردہ بين اصولوں اور منفعت بخش قوانين پر اپني زندگي استوار کرے۔
اللہ الصمد
خدا بے نياز ہے
خد اکسي کا محتاج نہيں
وہ خداکہ جس کے سامنے سر جھکايا جاتا ہے، جس کي تعظيم کي جاتي ہے اور جس کي عبادت کے لئے اس کي بارگاہ ميں کھڑا ہوجاتا ہے، ان خيالي خداوں کے مثل نہيں ہے جنہيں اپني پيدائش اور زندگي کي بقائ کے لئے کسي کي مدد کي ضرورت ہو ، کوئي ان کي نگہداشت و نگراني کرے يا وہ کسي کي ہم کاري کے محتاج ہوں۔ دوسروں کا محتاج خدا اس قابل نہيں ہے کہ کوئي اس کي عزت و تعظيم کرے۔ اگر خدا دوسروں کا محتاج ہے تو وہ يا ايک انسان ہوگا يا اس سے بالاتر ليکن ہم اسے خدا نہيں کہہ سکتے۔
انساني وجود بہت عظيم ، اس کي زندگي بہت پر معني اور گہرائيوں والي ہے چنانچہ وہ کسي کي عظمت کا احساس ، اس کي بندگي اور تعريف اسي وقت کرے گا جب وہ يہ ديکھے گا کہ وہ ( خدا) ايسي قدرت کا مالک ہے جس ميں دوسروں کي محتاجي شامل نہيں۔وہ ہر ايک سے بے نياز ہے اور اس کا وجود ، اس کي طاقت اور ا س کي بقا کا انحصار اس کي اپني قدرت پر ہے۔
| |