نماز کي گہرائیاں
 
ولا الضالين
اور نہ گمراہوں کا راستہ

گمراہوں اور بے وقوفوں کا راستہ
وہ لوگ جو اپني بے خبري اور ناواقفيت کي بنا پر گمراہ کرنے والے رہبروں اور پيشواوں کي اتباع و پيروي سے اس راستے پر چلنے لگے جو خدا کا راستہ نہيں تھا، وہ حقيقت سے بہت دور تھے جبکہ وہ گمان کرتے تھے کہ حقيقتاً وہ درست راستے پر کاميابي کي سمت گامزن ہيں ليکن حقيقت يہ تھي کہ وہ غلط راستے پر تباہي کي جانب قدم بڑھارہے تھے کہ جس کا انجام بہت تلخ تھا۔
ہم اس گروہ کو ۔۔۔۔ جو گمراہوں کے راستے پر گامزن تھا ۔۔۔۔ تاريخ ميں بہت واضح ديکھتے ہيں۔ يہ تمام لوگ جو زمانہ جاہليت ميں اپنے رہبروں اور پيشواوں کي خواہشات اور ارادوں کے پيچھے پيچھے آنکھ بند کرکے اور سر کو جھکا کر چلتے رہے اور اپنے گمراہ رہبر ان کو فائدہ پہنچاتے رہے اور دوسري طرف حق و عدالت کے علم برداروں ، مناديوں ، انسانيت کے خير خواہوں يعني خدائي پيغام لانے والوں کي مخالفت کرتے رہے۔
يہ جاہل طبقہ ايک لمحہ کے لئے بھي اس بات کے لئے آمادہ نہيں تھا کہ وہ اپنے بارے ميں سوچے اور اپني احمقانہ زندگي پر نظر ڈالے اور اس کے بارے ميں فکر کرے۔ ہم ان لوگوں کي زندگي کو احمقانہ اس لئے کہہ رہے ہيں کہ اس قسم کے لوگوں کي زندگي کا فائدہ صرف اونچے طبقے کے لوگوں کو پہنچا ہے جبکہ نقصان صرف انہي بے وقوف لوگوں کا مقصد بنا۔
اس کے بر عکس پيغمبروں کي دعوت اس لحاظ سے تھي کہ وہ انسانيت کو گمراہ کرنے والوں کي بنيادوں کو اکھيڑ ديں اور ان کے وجود کو صفحہ ہستي سے ختم کرديں جن پر خدا کا غضب نازل ہوا ہے اور ان تمام اقدامات سے انبيائ کي يہ خواہش تھي کہ وہ مغضوب عليھم کو ختم کرديں جس کا فائدہ بہر حال اس محروم اور مستضعف ( کمزور طبقے کو ہي پہنچے گا جس کو تاريخ ميں ہميشہ بے وقوف بنايا گيا ۔
نمازي اس طرح گمراہوں اور ان لوگوں کے راستے پر ۔۔۔ جن پر خدا کا غضب نازل ہوا۔۔۔۔ توجہ کرکے غور کرتا ہے کہ وہ کون سا راستہ ہے جس پر ہميں قدم بڑھانا چاہئيے اور وہ نجات بخش طريقہ کيا ہے جسے انسانيت کے نجات دہندہ پيغمبروں نے بيان کيا ؟ اس مقام پر نمازي اگر اپني زندگي ميں محسوس کرے کہ وہ ہدايت پارہا ہے يا وہ اپنے قدموں کو سيدھے راستے پر اٹھتا ديکھے تو وہ نيکي کي توجہ اور ميلانات اور ہدايت کے لئے اس نعمت عظيم پر شکر کرے اور خدا کي تعريف يوں بيان کرے

الحمد للہ رب العالمين
ساري تعريفيں اللہ ہي کے لئے ہيں جو تمام عالمين کا پالنے والا ہے۔
سورہ حمد قرآن کا آغاز تھي يعني فاتحہ الکتاب

قرآن کا ابتدائيہ سورہ حمد
( اجمالي جائزہ) يہ قرآن کا ديباچہ ( ابتدايہ) ہے اسي طرح جيسے ہر کتاب کا ايک ديباچہ ( ابتدائيہ) ہوتا ہے جس ميں اجمالي طور پر اس کتاب کي تمام باتوں کو بيان کيا جاتا ہے اسي طرح نماز اسلام کے تمام احکامات کا خلاصہ اور مختصر سا خاکہ ہے۔ نماز ميں اسلامي آئيڈيا لوجي کے تمام پہلو نماياں طور پر موجود ہيں اور اس بارے ميں ہم پہلے اشارہ کرچکے ہيں۔ اسي طرح سورہ حمد بھي قرآن کے معارف اور اس کے خطوط کي اجمالي فہرست ہے يعني قرآن نے جن جن باتوں اور پہلووں کي جانب ہماري توجہ مبذول کرائي ہے اور جن راستوں پر قدم اٹھانے سے اجتناب کا حکم ديا ہے ان سب کا خلاصہ سورہ حمد ميں ہے چنانچہ :
تمام لوگ اور تمام عالمين سب ايک دوسرے سے منسلک ہيں اور سب خدا کي طرف رخ کيے ہوئے ہيں يعني رب العالمين
کائنات کي تمام چيزوں اور تمام اشخاص پر خدا کي محبت و مہرباني کا نزول ہے اور جو اہل ايمان ہيں وہ خدا کي رحمت و لطف کے زير سايہ زندگي گذار رہے ہيں يعني الرحمن الرحيم
انسان کي زندگي اس دنيا کے خاتمے کے بعد اس آنے والي آخرت کي زندگي ميں ہميشہ باقي رہنے والي ہے جس کا مالک ’’ حاکم مطلق ‘‘ ہے يعني مالک يوم الدين
انسان کو چاہئيے کہ وہ خود کو غير خدا کي بندگي سے آزاد کرے اور خدائي نظام کے مطابق انساني راستے پر انساني عظمتوں کے حصول کے لئے آزادانہ اور با اختيار زندگي بسر کرے يعني اياک نعبد
انسان کو يہ بھي چاہئيے کہ وہ اپني سعادت و خوش بختي اور زندگي کے سيدھے راستے کو خدا سے ہي طلب کرے يعني اھدنا الصراط المستقيم
انسان کو يہ بھي چاہئيے کہ وہ سمجھے کہ دشمن کون ہے اور دوست کون ؟ ہر ايک کے لئے کيا موقع ہے اور ہر ايک کے لئے کيا اغراض و مقاصد ہيں ۔۔۔ اور ان دونوں طبقوں اور ان کي عاقبت و آخرت کو ديکھ کر خود اپنے لئے شاندار ، بہترين اور کاميابي کا راستہ منتخب کرے يعني صراط الذين انعمت عليھم