صراط الذين انعمت عليھم
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے نعمتيں نازل کيں
حقيقي نعمت
وہ کون لوگ ہيں کہ جن کے وجود مقدس کو خداوند عالم نے اپني نعمتوں کے نزول کي جگہ قرار دي ہے۔
اس بات ميں ذرہ برار شک نہيں ہے کہ اس نعمت سے مراد مال و دولت اور مادي عيش و عشرت نہيں ہے بلکہ يہ نعمات تو ان لوگوں کو زيادہ ملتي رہي ہيں جو درندہ صفت ، دشمنان خدا اور دشمنان مخلوق واقع ہوئے ہيں۔ اس نعمت سے مراد وہ نعمت ہے جو اس ماديت اور کھيل کود سے بالاتر ہے بلکہ وہ تو خدا کي لطف و عنايت اور ہدايت کي نعمت ہے۔ وہ نعمت جسے ہم طلب کرتے ہيں اور يہ ہے کہ انسان سمجھے کہ واقعاً اس کي قدر و قيمت کيا ہے اور انسان اپني ذات کو پہچان کر اسے حاصل کرے۔
صاحبان نعمت کون ہيں؟
اس نعمت کو جن لوگوں نے حاصل کيا ہے ، قرآن کريم ميں ان کي معرفت کچھ اس انداز ميں کرائي گئي ہے
ومن يطع اللہ والرسول فاولئک مع الذين انعم اللہ عليھم من النبين والصديقين والشھدائ والصالحين
اور جو کوئي اللہ اور اس کے رسول کي اطاعت کرے تو يہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن اللہ نے نعمت نازل کي ہے جو نبيوں ، صديقوں ، شہدائ اور صالحين ميں سے ہيں۔
پس نماز پڑ ھنے والا اس جملے ميں خدا سے درخواست کرتا ہے کہ اے خدا تو ہميں اس راستے پر چلا جو پيغمبروں ۔ صديقوں ( سچوں) ۔ شہيدوں اور صالحين ( نيک لوگوں) کا راستہ ہے۔ خداوندا تو ہميں ان کے راستے کي ہدايت فرما۔
ان لوگوں کا راستہ تاريخ ميں بہت واضح اور روشن رہا ہے اور اس کے مقاصد اور اہداف بھي معين تھے جبکہ اس راستے کے مسافر ہر زمانے ميں معروف رہے ہيں جبکہ اس راستے کے مد مقابل کچھ دوسرے خطوط اور راستے کار فرما رہے ہيں لہذا نماز پڑھنے والا اس باطل راتے کي طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے مسافروں کي طرف بھي اور خود کو ہوشيار کرتا ہے کہ تو ہرگز اس راستے پر قدم نہيں رکھے گا اور نہ ہي اس سمت حرکت کرے گا۔
غير المغضوب عليھم
نہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تيرا غضب نازل ہوا۔
خدا کا غضب کن پر نازل ہوا؟
وہ کون لوگ ہيں جن کے وجود کو خدا نے اپنے غضب کي منزل قرار ديا ہے۔ يہ وہ لوگ ہيں جو خدا کے راستے کو چھوڑ کر دوسروں کے راستے پر چلنے والے ہيں۔ يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے خدا کي کثير مخلوق کو ۔ جو بے خبر اور بے ارادہ تھي۔ اپنے ساتھ گمراہي کي سمت چلايا اگر وہ مخلوق باخبر اور با ارادہ تھي تو ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ، وہ اسير تھے اور غضب خدا کے حقدار ان کو اپنے ساتھ چلاتے تھے۔
يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے انسانوں کے تمام امور زندگي کو اپني طاقت و قوت يا دھوکے ، فريب اور مختلف حيلہ سازي سے اپني گرفت ميں ليا ہوا تھا اور خدا کي مخلوق کے بے اختيار ، اپنے مذموم اور گھناونے مقاصد کي تکميل کے لئے آلہ کار اور اپنے پيچھے پيچھے چلنے والا مستضعف ۔۔۔ ايسا کمزور جسے بولنے ، احتجاج کرنے اور اپني غلامي کي راہ سے انحراف کرنے کا کوئي حق نہ ہو ۔۔۔ بناليا تھا۔ يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے انسانوں کو بے وقوف بنا کر خود کو ان پر مسلط کرديا اور اپني گندي عيش و عشرت اور پست خواہشات کي تکميل کے لئے ان انسانوں سے فائدہ اٹھايا۔
دوسرے الفاظ ميں ہم يوں کہہ سکتے ہيں کہ خدا کا غضب جن لوگوں پر آنے والا ہے ، وہ لوگ ہيں کہ جنہوں نے راہ شيطان و راہ باطل کو اپني جہالت و بے خبري سے اختيار نہيں کيا بلکہ بغض و عناد، دشمني ، خود پرستي اور اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے راہ باطل کو اپنے لئے منتخب کيا اور لوگوں کي تکليف و پريشاني کا باعث بنے۔
تاريخ کي واضح حقيقت
يہ ہميشہ کي ايک واضح حقيقت ہے کہ يہ گروہ ۔۔۔۔ جس پر خدا کا غضب نازل ہوا ہميشہ دنيا ميں لوگوں کے درميان طاقت و قدرت کا مالک رہا ہے اور اسي لئے دين نے ان کے وجود کو ہميشہ باطل قرار ديا ہے اور يہي وجہ ہے کہ دين نے جب بھي کسي کام کا آغاز کيا تو انہي کے خلاف اقدامات سے اس کي ابتدائ کي اور جو بھي قدم اٹھايا انہي کے مقابلے ميں اٹھايا ۔ ان دو گروہوں ۔۔۔ يعني گروہ ہدايت يافتہ اور گروہ غضب خدا ۔۔۔ کے علاوہ ايک تيسرا گروہ اور بھي ہے اور اسي آيت کا اگلا جملہ اسي کي طرف اشارہ کرتا ہے۔
|