سورہ حمد
ٍٍٍ بسم اللہ الرحمن الرحيم
ابتدائ اس خدا کے نام سے جو ايسي رحمت رکھتا ہے جو تمام عالم پرسايہ افگن ہے اور ايسي رحيميت ( مہرباني) والا ہے جو ہميشہ باقي رہنے والي ہے۔
قرآن کے ہر سورے کي ابتدائ اسي جملے سے ہے اور اسي جملے سے نہ صرف نماز کي ابتدائ ہوتي ہے بلکہ ايک مسلمان کے تمام کاموں کي ابتدائ اور آغاز نام خدا سے ہوتا ہے۔ انسان کي زندگي ، اس کے تمام معاملات اور اس کي زندگي کے تمام جلووں کي ابتدائ خدا کے نام سے ہے۔ مسلمان خدا کے نام سے اپنے دن کو شروع کرتا ہے اور خدا ہي کے نام سے اپنے روزمرہ کے امور کو انجام تک پہنچاتا ہے ۔۔۔۔ وہ خدا کے نام اور اس کي ياد کے ساتھ بستر ميں داخل ہوجاتا ہے ۔۔۔ اور اپنے نئے دن کے کاموں کو دوبارہ خدا کے نام سے شروع کرکے انہيں پايہ تکميل تک پہنچاتا ہے بلکہ اپنے خدا کي ياد سے اس دنيا سے آنکھيں بند کرتا ہے اور ہميشہ رہنے والي زندگي کي طرف منتقل ہوجاتا ہے۔
الحمد للہ رب العالمين
تعريف و توصيف صرف اس خدا کے لئے ہے جو پوري دنيا اور تمام کائنات کا پالنے والا ہے۔
سب تعريفيں خدا کے لئے ہيں
تعريف و توصيف کي جتني بھي قسميں ہيں وہ سب خد اکے لئے مخصوص ہيں کيونکہ کائنات ميں جتني عظمتيں وجود رکھتي ہيں اب سب کا خالق خدا ہے اور جتني رحمتيں ہيں وہ سب خدا کي طرف سے ہيں۔ خداوند عالم کي ذات ميں تمام اعليٰ صفات جمع ہيں اور تمام نيکياں اور نيک کام جو ہم دنيا ميں ديکھ رہے ہيں ان سب کا سر چشمہ اسي کا وجود ہے۔ لہذا خدا کي تعريف کرنا نيکيوں اور نيکوکاروں کي تعريف کرنا ہے اور خدا ہي کي تعريف کرنے کي وجہ سے ہماري کوشش اور جدوجہد کو ۔۔۔۔ جو نيک بننے اور نيک خواہشات کي تکميل کے لئے ہے، اپنے انجام تک پہنچنے کا راستہ مل جاتا ہے۔
اگر کوئي انسان خود ميں اچھي صفت ديکھے يا قابل تعريف کردار محسوس کرے تو وہ جان لے کہ اس ميں موجود وہ نيکي اور خوبي خدا کي رحمت کا فيض اور اس کا لطف و کرم ہے اس لئے کہ يہ صرف خدا ہي کي ذات ہے کہ جس نے انسانوں کي فطرت کو نيکيوں پر قائم کيا ہے اور يہ بھي خدا ہي کا کام ہے کہ جس نے انسان کے باطن ميں پوشيدہ صلاحيتوں کو ايسا بنايا ہے کہ اس کاباطن ہميشہ ايسي فکر ميں رہتا ہے کہ ان تمام نيکيوں اور صلاحيتوں کو ايسا بنايا ہے کہ اس کا باطن ہميشہ ايسي فکر ميں رہتا ہے کہ ان تمام نيکيوں اور صلاحيتوں کو ۔۔۔۔ جن کا سر چشمہ خدا کي ذات ہے۔ کمال تک پہنچائے اور يہ بھي خدا ہي کي ذات ہے جس نے انسانوں کو ايک اور قدرت دي ہے جسے ہم تصميم يا مصمم ( پکا ) ارادہ کہتے ہيں يعني کس کام کو کرکے ہي چھوڑنا يا کسي کام کو اس کے انجام تک پہنچانے کا عزم ۔ يہ انسان کے لئے ايسا سرمايہ ہے جس کے ذريعے سے انسان نيک بننے کے لئے اور نيک اعمال کے راستے پر قدم بڑھاتا ہے۔
خدا عالمين کا پالنے والا اور انہيں کمال تک پہنچانے والا ہے
انسان اپنے اس خيال سے ۔۔۔۔ کہ جو رحمت و خوبي دنيا ميں ہے وہ سب خدا کي طرف سے ہے ۔۔۔ اپني ذات کو اچھائيوں ميں گم نہيں ہوجاتا ہے اور نہ ہي اپني ذات کے شاندار ہونے کا خيال کرتا ہے۔ اگر انسان ميں نيک بننے اور کمالات حاصل کرنے کي توجہ ہوگي تو اس کي وجہ سے اس کي اس بات کي طرف بھي ہوگي کہ وہ اپنا وقت ضائع نہ کرے يا بيہودہ حرکات ميں وقت نہ گذارے اور اسي طرح يہ بھي خيال ہوگا کہ وہ نيکي کي صلاحيتوں اور قوتوں کي حفاظت و پاسداري بھي کرے۔
نماز پڑھنے والا جب عبادت ميں کہتا ہے کہ رب العالمين ۔۔ وہ تمام ( عالمين ) جہانوں کا رب ہے يعني کائنات ميں جتني دنيائيں اور لوگ وجود رکھتے ہيں وہ ان سب کا رب ہے اور ہم قبول کرتے ہيں کہ کائنات ميں يہي ايک دنيا نہيں ہے بلکہ اس کے علاوہ اور بہت سي دنيائيں ہيں۔ يہي ايک جہان نہيں ہے اور بہت سے پوشيدہ جہان اس کائنات کا حصہ ہيں اور ان تمام دنياوں اور جہانوں کا تعلق ہم ہي سے ہے سب کے سب آپس ميں ايک دوسرے سے منسلک ہيں۔۔ سب کو خدا نے خلق کيا ہے ۔۔۔۔ اور وہي سب کو کمال تک پہنچا رہا ہے۔
نماز پڑھنے والا اس بات کا احساس کرتا ہے کہ اس دنيا کے علاوہ اور بہت سي دنيائيں ہيں جبکہ اس سے قبل وہ نہ صرف خود کو اس دنيا تک محدود خيال کرتا تھا بلکہ اس کي زندگي کا نظريہ بھي ماديت کي قيد ميں تھا ليکن رب العالمين ۔۔۔ کہنے کے بعد اسے يہ خيال ہوتا ہے کہ ہماري اس دنيا کے علاوہ آگے اور بھي دنيائيں اور جہان پھيلے ہوئے ہيں۔۔۔۔۔ جو ميرا خدا ہے وہي ان جہانوں اور دنياوں کا خدا ہے اور ايسي فکر کي وجہ سے اس کي اپني دنيا سے متعلق تنگ نظري ختم ہوجاتي ہے اور محدوديت کا حصار ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ اس کي کوتاہ نظري کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اس ميں جرآت اور خواہش پيدا ہوتي ہے اور وہ کائنات ميں پوشيدہ رازوں کي تلاش شروع کرديتا ہے اور انسان اس خدا کي ۔۔۔۔۔ جو تمام جہانوں اور دنياوں کا پالنے والا اور انہيں کمال تک پہنچانے والا ہے۔۔۔۔ بندگي سے عظمت کا احساس کرتا ہے کہ ميں خدائے لاشريک کا بندہ ہوں۔
آيت الحمد للہ رب العالمين ۔۔۔ کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ نمازي کي توجہ اس بات کي طرف بھي ہوتي ہے کہ کائنات کے تمام موجودات ۔۔۔ انسان ۔۔۔ حيوان۔۔۔۔ جمادات۔۔۔ گھاس ۔۔۔۔ پھوس ۔۔۔ تمام آسمان ۔۔۔۔ اور ان کے علاوہ اس کائنات ميں پوشيدہ ان گنت دنيائيں اور جہان ۔۔۔۔ جو ہمارے ادراک کي رسائي سے بہت آگے ہيں ۔۔۔۔۔ سب خدا کي بندگي اور اطاعت کرنے والے ہيں اور خدا ہي ان کي تربيت کرنے والا ہے اور ان کو کمال تک پہنچانے والا ہے۔
ان تمام خيالات کے ساتھ نمازي يہ بھي خيال کرتا ہے کہ ميرا خدا نہ تو کسي خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہي وہ کسي نسل و ملت سے ہے بلکہ رب العالمين کہہ کر بندہ يہ خيال کرتا ہے کہ خدا صرف انسانوں کا ہي تربيت کرنے والا نہيں ہے بلکہ وہ تو ايک چيونٹي اور ايک معمولي سي گھاس کا بھي خدا ہے اور خدا ہي کي تربيت کي وجہ سے تمام آسمان ، کہکشائيں اور سيارے اپني اپني منزل کي طرف رواں دواں ہيں۔ نماز پڑھنے والا اس حقيقت کو بھي درک کرتا ہے کہ ميں تنہا نہيں ہوں بلکہ دنيا ميں جتنے دنيا کي چھوٹي سے چھوٹي اور بڑي سے بڑي چيزيں سب خدا کي تربيت کے زير سايہ ميرے ايک ساتھ تربيت کررہا ہے ۔۔۔ ہم سب کے سب شاہراہ حيات پر ايک دوسرے کے بھائي اور ہمسفر ہيں۔۔۔۔ اور يہ کاروان عظيم ۔۔۔ جس ميں کائنات کے ذرے سے لے کر کہکشاوں سميت سب جاندار ، حيوان و انسان شامل ہيں ۔۔۔۔ خدا کے مقرر کردہ ہدف کے تحت ايک ہي راہ پر ايک ہي سمت رخ کئے اپني منزل کي طرف رواں دواں ہے۔
نمازي جب اس ربط و تعلق کا احساس کرتا ہے تو اس کي وجہ سے تمام موجودات کي نسبت خود کو ذمہ دار اور مسؤل سمجھتا ہے کہ ميري ڈيوٹي يہ ہے کہ ميں انسانيت کي خدمت کروں ، اور ان کي خدمت ان کي ہدايت اور زندگي کے امور ميں ان کي امداد کرنا ہے۔ اور وہ يہ بھي خيال کرتا ہے کہ ميں سمجھوں کہ کون سي چيزيں کس لئے بنائي ہے ؟ ان کا صحيح کون سا ہے؟ وہ کون مقاصد کے تحت دنيا ميں آئي ہيں ؟ اور وہ توجہ کرتا ہے کہ تمام موجودات کو اس راستے پر چلنا چاہئيے جس ميں خدا کي غرض ہو۔
الرحمن الرحيم
خدا رحمان اور رحيم ہے
رحمت عام اور رحمت خاص
خدا کي ايک رحمت ۔۔۔۔۔ رحمت ہے جو مختلف شکلوں ميں دنيا ميں وجود رکھتي ہے اور ان ميں سے ايک شکل وہ طاقتيں اور قوانين ہيں جو حيات کي پيدائش کا سبب ہيں اور جن کے ذريعے اس کرہ ارض پر حيات کا وجود اور ا س کي بقائ ہے۔ خداوند عالم کي يہ رحمت عام کائنات کے تمام موجودات پر چھائي ہوئي ہے۔ کائنات کي تمام چيزيں اور انسان ۔۔۔ جب تک موت کي دہليز پر نہيں پہنچتے ۔۔۔۔ ہر آن و ہر لمحے خدا کي رحمت رحمانيت سے فائدہ اٹھاتے ہيں۔
جبکہ دوسري طرف خدا کي وہ رحمت ہے جو ہر ايک کے لئے مخصوص ہے۔ خداوند عالم کي يہ رحمت ، ہدايت اور اعليٰ کاموں ميں نصرت خدا کي رحمت ہے، اجر اور اس کي خاص محبت کي رحمت ہے جو خدا انہي بندوں کو عنايت کرتا ہے جن ميں ان کي لياقت و صلاحيت ہوتي ہے جو کمالات کے لائق اور نيک انسان ہيں۔
خداوند عالم کي يہ رحمت بھي اسي دنيا سے انسان کے شامل حال ہوجاتي ہے۔ اس نوراني رحمت کا اثر قابل موجودات اور نيک انسانوں ميں موت تک اور بعد از موت قيامت تک باقي رہتا ہے۔ يہاں تک کہ انسان اپني منزل آخر تک پہنچ جاتا ہے مگر خدا کي يہ رحمت اس کے ساتھ ساتھ ہوتي ہے۔
پس معلوم ہوا کہ يہ خدا ہي کي ذات ہے جو تمام موجودات پر رحمت کرنے والي ہے اگرچہ کہ وہ تھوڑي ہي کيوں نہ ہو اور يہ بھي خدا ہي کي ذات ہے جس کي رحمت ہميشہ رہنے والي ہے اور ہر انسان ميں موجود لياقت و صلاحيت کے اعتبار سے اس کے لئے مخصوص بھي۔
ہمارا نماز ميں ياد کرنا کہ ہمارا پروردگار رحمت والا ہے يا تلاوت قرآن سے قبل ۔۔۔ نماز کے آغاز ميں ۔۔۔۔ يا کسي بھي سورے کو شروع کرنے سے پہلے خدا اور اس کي رحمت کو ياد کرنا ۔۔۔۔ ہميں متوجہ کرتا ہے کہ خدا کي محبت و مہرباني اس کي نماياں ترين صفات ہيں جو کائنات کي تخليق اور اس کے وجود کي ابتدائ ہي سے ہر ايک کے ساتھ شامل ہيں اور اس کے بر خلاف اس کي دوسري صفات يعني اس کا قہر و غضب ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو خدا کے دشمن اور فساد و تباہياں پھيلانے والے ہيں۔ا س کي رحمت رحمانيت چار سو پھيلي ہوئي ہے جو تمام موجودات اور ہر ذي حيات تک پہنچ کر رہے گي۔
|