تعقیبات نماز
تسبیح حضرت فاطمہ زہرا
انسان جیسے ہی نمازسے فارغ ہوتواسے محل نمازسے فوراًبلندنہیں ہوناچاہئے بلکہ
اسی جگہ پر تورک کی حالت میں بیٹھے ہوئے تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھے، نمازکے بعد
سب سے بہترین تعقیب تسبیح حضرت فاطمہ __________ہے اورروایتوں میں تسبیح حضرت فاطمہ زہرا
) کی تاکیدکی گئی ہے اور فضیلت بھی بیان کی گئی ہے:( ١
امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص واجب نمازوں کے بعداس سے پہلے کہ اپنے دائیں
پیرکوبائیں پیرکے اوپرسے ہٹائے تسبیح حضرت فاطمہ پڑھے توخداوندعالم اس کے تمام گناہوں
) کوبخشدیتاہے اوراس تسبیح کوتکبیرکے ذریعہ شروع کیاجائے ۔( ٢
امام محمدباقر فرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ سے افضل وبہترکوئی ایسی چیزنہیں
ہے کہ جس کے ذریعہ خداوندعالم کی حمدوثناکی جائے،اگرتسبیح حضرت فاطمہ سے افضل
کوئی تسبیح ہوتی توپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)اسی چیز کو اپنی لخت جگرکوبطورہدیہ
عطا کرتے ۔
--------
. ٢)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۵ ) . ١(کافی /ج ٣/ص ٣۴٢ ۔تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١٠۵ (
امام صادق فرماتے ہیں:اے ابوہارون!جس طرح ہم اپنے بچوں کونمازپڑھنے کاحکم دیتے
ہیں اسی طرح تسبیح حضرت فاطمہ پڑھنے کابھی حکم دیتے ہیں ،تم بھی اسے پابندی کے
ساتھ پڑھاکرو،حقیقت یہ ہے کہ جس بندہ نے بھی اس کی مداومت کی وہ کبھی کسی
) شقاوت اوربدبختی میں گرفتارنہیں ہواہے ۔( ٣
ابوخالدقماط سے مروی ہے : میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے :میرے نزدیک
روزانہ ہرنمازکے بعدتسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھنا روزانہ ہزاررکعت (مستحبی)نمازیں پڑھنے
) سے زیادہ پسند ہے۔ ( ۴
--------
. ۴)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۵ ) . ٣(تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۵ (
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص خدائے عزوجل کا زیادہ
ذکرکرتاہے توخدابھی اسے بہت دوست رکھتاہے اورجوشخص خداکابہت زیادہ ذکرکرتاہے اسے
دوچیزوں سے نجات مل جاتی ہے ،ایک یہ کہ وہ شخص آتش جہنم سے نجات پاجاتاہے
) اوردوسرے یہ کہ اسے نفاق سے بھی نجات مل جاتی ہے۔( ١
. ١(کافی /ج ٢/ص ۵٠٠ (
پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی اس حدیث میں ذکرکثیرسے کیاچیز مرادہے؟
اس بارے میں شیخ صدوق نے اپنی کتاب معانی الاخبارمیں ایک روایت نقل کی ہے کہ
ایک شخص نے امام صادق سے اس قول خداوندی <یٰآاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوااذْکُرُاللهَ ذِکْرًاکَثِیْرًا>( ١)کے
بارے میں معلوم کیا :آیہ مٔبارکہ میں ذکرکثیرسے مرادکیاہے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:
من سبّح تسبیح فاطمة علیہاالسلام فقدذکرالله ذکراکثیر.
) جوشخص تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھتاہے وہ الله کاذکرکرتاہے وہ بھی ذکرکثیر ۔( ٢
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:تسبیح فاطمة الزہراء علیہاالسلام من الذکرالکثیرالذی
قال الله عزوجل :اُذْکُرُاللهَ ذِکْرًاکَثِیْرًا<
امام صادق فرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ زہرا اسی ذکرکثیرمیں سے ہے کہ جس
کے بارے میں خداوندعالم قرآن کریم میں صاحبان ایمان کوحکم دیاہے ::اے ایمان والو!الله
کاذکربہت زیادہ کیاکرو۔
--------
. ٢)معانی الاخبار/ص ١٩٣ ) . ١(سورہ أحزاب /آیت ۴٢ (
تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کانقطہ آغاز
تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کہ جس کے انجام دینے کے بارے میں احادیث میں ات نی
زیادہ تاکیدکی گئی ہے اوراس کی فضیلت بیان کی گئی ہے ،اسے ذکرکثیرسے تعبیرکیاگیاہے
اوراسے نمازکے بعدپہلی تعقیب کادرجہ دیاگیاہے ،سوال یہ ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ زہرا
کاآغازکب اورکیسے ہواہے ؟اوراس کے انجام دینے کاطریقہ کیاہے؟
تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کاآغازکب اورکیسے ہواہے اس بارے میں ہم دوروایت نقل
کررہے ہیں:
پہلی روایت
شیخ صدوق نے اپنی کتاب “ من لایحضرہ الفقیہ ”میں حضرت علی سے ایک روایت نقل
کی ہے کہ: امام امیرالمومینن علی ابن ابی طالب +نے قبیلہ بنی سعدکے ایک شخص سے
ارشادفرمایا:کیاتم یہ چاہتے ہوکہ میں تمھیں اپنے اورحضرت فاطمہ زہرا کے بارے میں کچھ بیان
کروں؟(اسنے عرض کیا:ضروربیان کیجئے)امام(علیه السلام) نے فرمایا:سنو!
میری زوجہ “فاطمہ زہرا ” میرے اوراپنے والدمحترم نزدیک اپنے اہل وعیال میں سب سے
زیادہ محبوب تھیں،مگرآپ نے رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)کی لخت جگرہونے کے باوجود
مشک میں ات ناڈھویاہے کہ سینہ پربندمشک کے نشان پڑگئے تھے اورچکی میں اس قدراناج
پیساہے کہ دستہائے مبارک میں گٹھاپڑگئی تھیں ،گھرمیں ات نی زیادہ جھاڑولگایاکرتی تھیں کہ
لباس گردآلودہوجاتے تھے اوردیگ کے نیچے ات نی جلایاکرتی تھیں کہ آپ کے لباس کارنگ بدل
گیاتھااوراپنے آپ کوگھرکے دیگرسخت کاموں میں بھی زحمت میں ڈالتی تھیں،ایک شب میں
نے ان سے کہا:کت نااچھاہوتاکہ تم اپنے کاموں میں مددکے لئے اپنے والدمحترم کے پاس جاتی
اوران سے ایک کنیزکاتقاضہ کرتی اوروہ خادمہ تمھاری مددکرتی .
حضرت فاطمہ زہرا اسی وقت بلندہوکراسی مقصدکی خاطر اپنے والدمحترم کے گھر
پہنچی اورجیسے ہی گھرمیں داخل ہوئیں تودیکھاکہ رسول خدا (صلی الله علیه و آله)کے پاس
چندلوگ تشریف فرماہیں اورآنحضرت ان سے محوگفتگوہیں لہٰذاکچھ نہ کہااور اپنے گھرواپس
آگئیں.
رسولخدا (صلی الله علیه و آله)کویہ محسوس ہواکہ ان کی لخت جگرکوئی حاجت لے
کرآئی تھیں اورحاجت کے پوراہوئے بغیرہی واپس چلی گئی ہیں لہٰذارسول اسلام (صلی الله
علیه و آله) صبح سویرے کہ ہم ابھی سورہے تھے ہمارے گھرتشریف لائے اورکہا:“السلام علیکم
” ہم آنحضرت کے سلام کوسنتے ہی بیدارہوگئے اور خاموش رہے (اوردل ہی دل میں سلام
کاجواب دیا)رسولخدا (صلی الله علیه و آله)نے دوسری مرتبہ کہا:“السلام علیکم ”ہم اس مرتبہ
بھی خاموش رہے اوردل ہی دل میں سلام کاجواب دیا،جب تیسری مرتبہ سلام کیاتوہمارے دل
میں یہ خوف پیداہواکہ اگراس مرتبہ ہم خاموش رہے اورکوئی جواب نہ دیاتوآنحضرتواپس چلے
جائیں گے،کیونکہ آنحضرت نے تین مرتبہ سلام کیاتھالہٰذاہم نے تین بارآنحضرتکے سلام کاجواب
دیااورکہا:یارسول الله!تشریف لائیے ،آنحضرت گھرمیں داخل ہوئے اورہمارے سرہانے بیٹھ گئے
اورکہا:اے میری پارہ جٔگر!تم رات میں کوئی حاجت لے کرمیرے پاس آئی تھی ؟
حضرت علی کہتے ہیں کہ:میرے دل میں یہ خوف پیداہواکہ اگرہم نے الله کے منتخب
شدہ رسول کے سوال کاجواب نہ دیااورنہ بتاکہ سیدہ عٔالم کسغرض سے ان کے پاس تشریف
لے گئیں تھیں تووہ اٹھ کرچلے جائیں گے لہٰذامیں نے اپنے سرکوبلندکیااورعرض کیا:
یارسول الله!میں آپ کو بتاؤں کہ آپ کی لخت جگرنے مشک کے ذریعہ گھرمیں اس
قدرپانی لائی ہیں کہ سینہ پربندمشک کے نشان پڑگئے ہیں اورچکی میں اناج پیستے پیستے
دستہائے مبارک میں گٹھاپڑگئی ہیں، گھرمیں ات نی زیادہ جھاڑولگاتی ہیں کہ لباس
گردآلودہوجاتے ہیں اوردیگ کے نیچے آگ جلانے کی وجہ سے لباس کارنگ بدل گیاہے لہٰذامیں
نے رات میں ان سے فرمائش کی کہ :کیابہترہوگاکہ تم اپنے باباکے پاس جاؤاورایک کنیزکی
درخواست کروتاکہ وہ کنیزمشکل کاموں میں تمھاری مددکرسکے ،مولائے کائنات کی یہ بات
سن کرپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:
ا فَٔلااَعلمکما ماہوخیرلکما من الخادم ؟ اذاخذتمامنامکمافسبحا ثلاثا وثلاثین ، واحمدا ثلاثا
وثلاثین ، وکبّر اربع وثلاثین
یعنی کیاتم یہ چاہتے ہوکہ میں تمھیں ایک ایسی چیزبتاؤں جوتمھارے لئے خادمہ سے
بھی بہترہو؟اوروہ یہ ہے کہ جب تم رات کوبسترپہ لیٹ جاؤتو/ ٣۴ مرتبہ
”الله اکبر” اور/ ٣٣ مرتبہ “الحمدلله”اور/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہو.
حضرت فاطمہ زہرا نے سربلندکیااور کہا:
رضیتُ عن الله وعن رسولہ ، رضیتُ عن الله وعن رسولہ ، رضیتُ عن الله وعن رسولہ.
میں خدااوراس کے رسول سے راضی ہوگئی ،میں خدااوراس کے رسول سے راضی
ہوگئی،میں خدااوراس کے رسول سے راضی ہوگئی ۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢١
دوسری روایت
حضرت علی فرماتے ہیں کہ:چندغیرعرب ممالک کے بادشاہوں نے پیغمبراسلام (صلی
الله علیه و آله)کی خدمت میں چندغلام وکنیزبطورہدیہ بھیجے تومیں نے حضرت فاطمہ زہرا سے
فرمایا:تم اپنے بابارسولخدا (صلی الله علیه و آله)کے پاس جاؤاور ان سے ایک خادمہ کی
درخواست کروتاکہ وہ گھرکے کاموں میں تمھاری مددکرسکے ،میری یہ بات سن کرحضرت
فاطمہ زہرا اپنے باباحضرت محمدمصطفیٰ (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں پہنچی
اورآنحضرت سے ایک خادمہ کی درخواست کی ،آنحضرت نے فرمایا:
اُعطیک ماہوخیرلک من خادم ، ومن الدنیابمافیہا ، تُکبّریْنَ الله بعدکلّ صلاة اربعا وثلاثین
تکبیرة ، وتحمّدین الله ثلاثاوثلاثین تحمیدة ، وتسبّحین الله ثلاثاوثلاثین تسبیحة ، ثمّ تختمین ذلک
بلاالٰہ الّاالله ؛ وذلک خیرلک من الذی اردتَ ومن الدنیاومافیہا.
اے فاطمہ !میں تمھیں ایک ایسی چیزعطاکرتاہوں جوتمھارے لئے خادمہ اوردنیااور جوکچھ
دنیامیں ہے سب سے بہترہے اوروہ یہ ہے کہ ہر نمازکے بعد/ ٣۴ مرتبہ “الله اکبر”
اور/ ٣٣ مرتبہ“الحمدلله” اور/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہواوراس کے بعد“لٰااِلٰہِ الّاالله” کہو.اس کے
بعدآنحضرت نے فرمایا:اے میری پارہ جٔگر! یہ کام تمھارے لئے جس کی تم نے درخواست کی
ہے اوردنیااورجوکچھ دنیامیں ہے ان سب سے بھی بہترہے
اس کے بعدحضرت فاطمہ زہرا ہرنمازکے بعداس تسبیح کوپڑھتی رہیں یہاں تک کہ یہ
تسبیح ان کے نام سے منسوب ہوگئی۔
. دعائم الاسلام/ج ١/ص ١۶٨
محمدابن عذافرسے مروی ہے :میں اپنے والدکے ہمراہ حضرت امام صادق کی خدمت
میں پہنچا، میرے والدنے امام (علیه السلام)سے تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کاطریقہ معلوم
کیاتوامام (علیه السلام)نے فرمایا:“اَللهُ اَکْبَر”کہویہاں تک کہ اس ذکرکی تعداد / ٣٣ تک پہنچ
جائے ،اس کے بعد“اَلْحَمْدُلله” کہویہاں تک کہ “اَللهُ اَکْبَر ” سمیت تعداد/ ۶٧ تک پہنچ جائے، اس
کے بعد“سبحان الله” کہویہاں تک کہ تسبیح کی تعداد/ ١٠٠ تک پہنچ جائے،اورامام (علیه
) السلام) نے تینوں ذکرکوالگ ،الگ اپنے دستہائے مبارک پرشمارکیا۔( ١
ابوبصیرسے مروی ہے کہ امام صادق فرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ پڑھنے کاطریقہ
یہ ہے کہ پہلے / ٣۴ مرتبہ “الله اکبر” کہیں،اس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ “الحمدلله” اوراس کے
) بعد/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہیں۔( ٢
--------
. ٢)کافی /ج ٣/ص ٣۴٢ ) . ١(تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۶ (
مفضل ابن عمرسے مروی ہے کہ امام صادق ایک طولانی حدیث میں ارشادفرماتے
ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھاکروجس کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے / ٣۴ مرتبہ“ اَللهُ اَکْبَر ”
کہواس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ“اَلْحَمْدُ لله” کہواوراس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ “ سُبْحَانَ الله ” کہو،خداکی
قسم! اگرکوئی چیزتسبیح فاطمہ سے افضل وبرترہوتی تورسول اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنی
بیٹی کواسی کی تعلیم د یتے ۔
. تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ۶۶
روایت میں آیاہے کہ:امام صادق کاایک صحابی آپ کی خدمت میں آیااورعرض کیا:اے
فرزندرسولخدا!مجھے اپنے کانوں سے بہت ہی کم سنائی دیتاہے (پس مجھے اس کے علاج
کے لئے کیاکرناچاہئے )؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:
عَلَیکَ بِتسبیحِ فاطمة سلام الله علیہا.
تم تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھاکرو(ان شاء الله تمھیں صحیح آوازآنے لگے گی )اس
صحابی نے امام (علیه السلام) سے کہا:آپ پر قربان جاؤں!یہ تسبیح حضرت فاطمہ کیاہے
اوراس کے پڑھنے کاطریقہ کیاہے؟امام (علیه السلام) نے فرمایا: تسبیح حضرت فاطمہ کواس
طرح پڑھناشروع کروکہ پہلے / ٣۴ مرتبہ “الله اکبر” اس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ “الحمدلله” کہو،اس کے
بعد/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہو۔
وہ صحابی کہتاہے کہ میں نے یہ تسبیح پڑھی ،ابھی پڑھے ہوئے کچھ دیرنہ گذری تھی
) کہ مجھے کانوں سے صاف دینے لگا ۔ ( ٣
. ٣(الدعوات /ص ١٩٧ (
دعا
لغت میں کسی کے پکارنے کودعاکہاجاتاہے اورقرآن واحادیث میں جہاں بھی لفظ دعا
بصورت مصدر،ماضی ،مضارع ،امر…استعمال ہواہے پکارنے میں دیتاہے جیساکہ آپ عنقریب
ذکرہونے والی آیات کریمہ اوراحادیث معصومین میں ملاحظہ کریں گے
لیکن اصطلاح میں کسی بلندمرتبہ ذات کی بارگاہ میں اس کی حمدوثنااورخضوع
وخشوع کے ساتھ اپنی حاجتوں کے بیان کرنے اوران کے پورے ہونے کی تمناکرنے
کودعاکہاجاتاہے۔
مدعو
وہ ذات کہ جسکی بارگاہ میں حاجتوں کوبیان کیاجائے اوران کے پوراہونے کی درخواست
کی جائے اسے“ مدعو ”کہتے ہیں اورمدعوکو چاہئے کہ وہ ہرچیزسے بے نیازہو،کسی دوسرے
کامحتاج نہ ہوبلکہ وہ تمام چیزوں کامالک ہو۔
خداوندعالم کی ذات وہ ہے کہ جوکسی کی محتاج نہیں ہے بلکہ وہ غنی مطلق ہے
اورتمام زمین وآسمان کامالک ہے اورجوزمین وآسمان میں ہے ان سب کابھی مالک ہے جیساکہ
قرآن کریم ارشادباری تعالیٰ ہے:
) >لِلّٰہِ مَافِی السَّمَوَاتِ وَمَافِی الْاَرْضِ اِنّ اللهَ ہُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْد>( ١
جوکچھ زمین وآسمان میں ہے وہ سب الله کے لئے ہیں،بیشک الله صاحب دولت بھی ہے
اورقابل حمدوثنابھی ۔
) >اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللهَ لَہ مُلْکُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَالَکُمْ مِنْ دُوْنِ الله مِنْ وَّلِیٍّ وَلَانَصِیْرٍ>( ٢
کیاتم نہیں جانتے کہ زمین وآسمان کی حکومت صرف الله کے لئے ہے اوراس کے علاوہ
تمھارانہ کوئی سرپرست ہے اورنہ کوئی مددگار۔
) >وَاللهُ مُلْکُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَہُمَا>( ٣
خداوندعالم زمین وآسمان اورجوکچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے ان سب کامالک ہے ۔
--------
. ٣)سورہ مٔائدہ /آیت ١٧ ) . ٢)سورہ بٔقرہ/آیت ١٠٧ ) . ١(سورہ لٔقمان/آیت ٢۶ (
مدعوکوچاہئے کہ وہ ہرانسان کواس کے نیک اعمال پراجروثواب عطاکرے اوران کی
درخواستوں کوپوراکرے اورالله تبارک وتعالیٰ کی ذات وہ ہے جوکسی بھی شخص کے نیک عمل
ضائع نہیں کرتاہے بلکہ اس پراجروثواب عطاکرتاہے اورنیک عمل کرنے والوں کی درخواست
کوپورابھی کرتاہے۔
) >فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنِّیْ لَااُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍاَوْاُنْثیٰ >( ١
پُس خدانے ان کی دعاکوقبول کیاکیوں کہ میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے
والے کے عمل کوضائع نہیں کروں گاخواہ وہ عامل مردہویاعورت ۔
) >اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ اِنّالَانُضِیْعُ اَجْرَمَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا>( ٢
یقیناًجولوگ ایمان لے آئے اورانھوں نے نیک اعمال کئے ،ہم ان لوگوں کے اجرکوضائع نہیں
کرتے ہیں جواچھے اعمال انجام دیتے ہیں۔
) >اِنَّ اللهَ لَایُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِیْنَ >( ٣
خداکسی بھی نیک عمل کرنے والے کے اجروثواب کوضائع نہیں کرتاہے ۔
--------
. ٣)سورہ تٔوبہ /آیت ١٢٠ ) . ٢)سورہ کٔہف/آیت ٣٠ ) . ١(سورہ آٔل عمران/آیت ١٩۵ (
اورحضرت علی دعائے کمیل میں ارشادفرماتے ہیں:
ماہکذالظنُّ بِک ولا اُخبرنا بفضلک عنک یاکریمُ یاربِّ.
تیرے وجودکی قسم !میں ہرگزیہ گمان نہیں کرتاہوں کہ تیری بارگاہ میں کوئی اجرضائع
ہوتاہے اورکوئی بغیرکسی علت کے تیرے لطف وکرم سے محروم ہوتاہے اوراے کریم
وپروردگار!ہمیں تونے اورتیرے کسی رسول نے یہ خبرنہیں دی ہے کہ تواجروثواب کوضائع کرتاہے ۔
مدعوکوچاہئے کہ جب وہ کسی کی درخواست کوپوراکرے تواس کے رحمت ونعمت کے
خزانہ میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ ہونے پائے ۔
اگرکوئی ذرہ برابربھی کارخیرانجام دیتاہے توخداوندعالم اسے اس کاثواب ضرور
عطاکرتاہے ،خداوندعالم کی ذات وہ ہے کہ جواپنے بندوں کوعطاکرتاآرہاہے اور عطا کرتا رہے گا
اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ نعمت میں نہ کوئی کمی آئی ہے اورنہ آسکتی ہے جیساکہ ہم
لوگ قرآن کریم پڑھتے ہیں:
>اِنَّ ہٰذَالَرِزْقُنَامَالَہ مِنْ نِّفَاذٍ<
یہ ہمارارزق ہے جوختم ہونے والانہیں ہے ۔
. سورہ صٔ/آیت ۵۴
داعی
جوشخص الله تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجتوں کوبیان کرتاہے اوران کے پوراہونے کی
تمناکرتاہے اسے “داعی” کہتے ہیں۔
دعاکرنے کی اسی کوضرورت ہوتی ہے جومحتاج ونیازمندہو،جومشکل میں گرفتار ہو،
جسے کسی چیزکے حاصل کرنے کی غرض ہواورجولطف و امداد کا خواہشمند ہو، اگردنیامیں
لوگوں کی حالت پرنگاہ کی جائے تویہی معلوم ہوگاکہ دنیامیں ہرشخص امیر،غریب ،حکیم
،طبیب ،منشی ،وکیل ،شہری ،دیہاتی کاشتکار،دوکاندار…کسی نہ کسی مشکل میں
گرفتارہے ،کوئی اولادنہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہے ،کوئی اولادکے بگڑجانے کی وجہ سے
پریشان ہے ،کسی کی ماں بیمارہے توکسی کی بیوی بیمارہے اورکسی کابچہ بیمارہے ،کسی
کے پاس نوکری نہیں ہے توکسی کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے…
ہرانسان ہروقت اپنے دل میں ایک نہ ایک آرزوساتھ لئے رکھتاہے جب اس کی ایک حاجت
پوری ہوجاتی ہے تودوسری کے پوراہونے کی تمناکرتاہے گویاہرانسان ہروقت کسی چیزکا
فقیرومحتاج ہے
خداوندعالم نے انسان میں یہ فطرت پیداکی ہے وہ اپنی مشکلوں کوآسان کرنے کے لئے
اوراپنی حاجتوں کے پوراہونے کے لئے کسی ایسے دروازہ پردستک دیتاہے اوراپنی حاجتوں
کوبیان کرتاہے جواس کی حاجت کوپوراکرنے کی صلاحیت رکھتاہے
انسان کوچاہئے کہ وہ کسی ایسے دروازہ پردستک دے کہ جسکے درسے کوئی خالی
نہ لوٹتاہو،جوزمین وآسمان کامالک ہواورجوغنی مطلق ہو،اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ میں
کوئی کمی نہ آسکتی ہواورخداوندعالم کی ذات وہ ہے کہ جوغنی مطلق ہے اورزمین وآسمان
کامالک بھی ہے اورجوکچھ زمین وآسمان میں ان سب
کابھی مالک ہے
) >یٰااَیُّہَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلٰی اللهِ وَاللهُ ہُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدِ>( ١
اے لوگو!تم سب الله کی بارگاہ کے فقیرہواورالله صاحب دولت اورقابل حمدوثناہے ۔
اس آیہ مٔبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ انسان کوصرف الله کے دروازہ کابھکاری
ہوناچاہئے اوراپنی حاجتوں کواسی کی بارگاہ میں بیان کرناچاہئے کیونکہ خداوندعالم کاقرآن
کریم میں اپنے بندوں سے اس بات کاوعدہ ہے کہ میں تمھاری آوازکوسنتاہوں لہٰذاتم اپنی
حاجتوں کومجھ سے بیان کرو
) >وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبُ لَکُمْ>( ٢
اورتمھارے پرودگارکاارشادہے کہ مجھ سے دعاکرومیں قبول کروں گا۔
--------
. ٢)سورہ غٔافر/آیت ۶٠ ) . ١(سورہ فٔاطر/آیت ١۵ (
مذکورہ آیات کریمہ سے یہ واضح ہوتاہے کہ انسان کوچاہئے کہ اپنے گناہوں کی بخشش
کے لئے اورکسی بھی چیزکے حاصل کرنے کے لئے اپنے پروردگارکی بارگاہ میں دست
دعابلندکرے ،الله کی بارگاہ میں دعاکرنے والے لوگ دنیامیں بھی کامیاب ہیں اورآخرت میں
،دنیامیں بھی صاحب عزت ہیں اورآخرت میں بھی ان کے لئے ایک بلندمقام ہے
خداوندعالم اپنے تمام بندوں کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہے ،جب بھی کوئی
بندہ اس کی بارگاہ میں دست نیازبلندسے یادکرتاہے ،اوراس سے مددطلب کرتاہے تووہ اسکی
آوازپرلبیک کہتاہے اوراس پراپنی نعمتیں نازل کرتاہے اورآخرت میں اسے آتش جہنم سے نجات
بھی دیتاہے
>اِذَاسَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌاُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاْعِِ اِذَادَعَانَ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُو مِٔنُوْابِیْ
) لَعَلَّہُمْ یُرْشَدُوْنَ>( ٣
اے پیغمبر!اگرمیرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تومیں ان سے قریب
ہوں،پکارنے والے کی آوازسنتاہوں جب بھی پکارتاہے لہٰذامجھ سے طلب قبولیت کریں اورمجھ ہی
پرایمان واعتقادرکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پرآجائیں۔
. ٣(سورہ بٔقرہ/آیت ١٨۶ (
خداوندعالم عالم غنی مطلق ہے ،تمام زمین آسمان ،اوراس میں موجوداشیاء سب کچھ
الله کی ملکیت ہیں مگرانسان ضعیف وناتواں ہے ،اسے جت نامل جائے پھربھی کم سمجھتاہے
اوراپنے آپ کومحتاج ونیازمندمحسوس کرتاہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ انسان دنیاوآخرت
کوخداسے طلب کرے ۔
جیسا کہ خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:
) >وَمِنْہُمْ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاآت نافِی الدُّنْیَاحَسَنَةً وَّفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَاعَذَاْبَ النَّاْرِ>( ١
ترجمہ:اوربعض کہتے ہیں کہ پروردگاراہمیں دنیامیں بھی نیکی عطافرمااورآخرت میں بھی
اورہم کوعذاب جہنم سے محفوظ فرما۔
. ١(بقرہ/آیت ٢٠١ (
دعاکے فضائل وفوائد
) قال امیرالمومنین علیہ السلام:احب الاعمال الی الله عزوجل فی الارض الدعاء.( ١
دعاخداوندعالم کے نزذیک روئے زمین پرسب سے بہترین عمل ہے ۔
) عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:علیک بالدعافانہ شفاء من کل داء.( ٢
امام صادق فرماتے ہیں:میں تمھیں دعاکے بارے میں وصیت کرتاہوں کیونکہ دعاہرمرض
کی دواہے۔
) قال امیرالمومنین علیہ السلام:ادفعواامواج البلاء بالدعاء قبل ورودالبلاء .( ٣
امام علی فرماتے ہیں :بلاو ںٔ کی موجوں کوبلاؤں کے نازل ہونے سے پہلے دعاکے ذریعہ
برطرف کردیاکرو۔
) قال رسول الله صلی الله علیہ والہ:لایردالقضاء الّاالدعاء.( ۴
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:قضا کودعاکے علاوہ کسی دوسری چیزکے
ذریعہ نہیں پلٹایاجاسکتاہے ۔
--------
. ٢)کافی /ج ٢/ص ۴٧٠ ) . ١(مکارم الاخلاق/ص ٢۶٩ (
. ۴)بحار/ج ٩٣ /ص ٢٩۶ ) . ٣(نہج البلاغہ/کلمات قصار ١۴۶ (
) قال امیرالمو مٔنین علیہ السلام:الدعاء مفتاح الرحمة ومصباح الظلمة( ١
حضرت علی فرماتے ہیں:دعارحمت کی کنجی ہے اور(قبرکی) تاریکی کاچراغ ہے ۔
) عن الصادق علیہ السلام :قال :ان الدعاء انفذ من سلاح الحدید .( ٢
امام صادق فرماتے ہیں:دعاتیزدھاراسلحہ سے بھی زیادہ نافذہوتاہے ۔
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں نے اپنی خدومت میں موجودلوگوں سے
فرمایا:کیاتمھیں ایسی چیزکی خبرکہ جوتمھیں تمھارے دشمنوں سے بچائے اورتمھارے لئے
رزق کاانبارلگائے ،سب نے کہا:یارسول الله!ضروربیان کیجئے ،پس آنحضرت نے فرمایا:اپنے
) پوردگارسے رات دن دعاکیاکروکیونکہ مومن کااسلحہ ہے۔( ٣
--------
. ٣)کافی /ج ٢/ص ۴۶٨ ) . ٢)مستدرک الوسائل/ج ۵/ص ١۶۵ ) . ١(الدعوات /ص ٢٨۴ (
زرارہ سے مروی ہے امام صادق نے مجھ سے فرمایا:کیاتمھیں ایسی چیزکی رہنمائی
کروں کہ جس کے بارے میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوبھی استثنا نہیں کیاگیاہے ؟
میں نے عرض کیا:ہاں!ضروربیان کیجئے ،امام (علیه السلام) نے فرمایا:دعااس قضاوتقدیرالٰہی
بھی کوواپسکردیتی ہے جوسختی کے ساتھ محکم ہوگئی ہے ،اس کے یعدامام (علیه السلام)
نے مطلب کے واضح ہونے کے لئے دونوں ہاتھ کی اپنی انگلیوں کوانگلیوں اپس میں ڈال کر
مضبوطی سے جکڑااورفرمایا:چاہے وہ تقدیرکالکھااسی طرح کیوں نہ مضبوط ہو۔
قال ابوالحسن موسی علیہ السلام :علیکم بالدعاء فان الدعاء لله والطلب الی الله
) یردالبلاء وقدقدّر وقضی ولم یبق الّاامضائہ ، فاذادعی الله عزوجل وسئل صُرف البلاء صرفة .( ٢
امام موسی کاظم فرماتے ہیں:تم دعائیں ضرورکیاکروکیونکہ خداوندعالم کی بارگاہ میں
دعاکرنے اوراس سے طلب حاجت کرنے سے بلا ئیں ٹل جاتی ہیں وہ بلائیں کہ جوتقدیرمیں
لکھی جاچکی ہیں اوران کاحکم بھی آچکاہومگرابھی نازل نہ ہوئی ہیں پس جیسے ہی الله کی
بارگاہ میں دعاکی جاتی ہے اوراس سے طلب حاجت کی جاتی ہے تووہ مصیبت فوراًپلٹ جاتی
ہے۔
--------
. ٢)کافی /ج ٢/ص ۴٧٠ ) . ١(کافی /ج ٢/ص ۴٧٠ (
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:خداوندعالم نے جت نے بھی نبی بھیجے
ہیں ان سے فرمایاہے کہ: جب بھی تمھیں کسی کوئی رنج وغم پہنچے تومجھے پکارو،بیشک
خداوندعالم نے اس نعمت( دعا) کومیری کوبھی عطاکیاہے کیونکہ قرآن کریم ارشادفرماتاہے:
>اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبُ لَکُم > تم مجھ سے دعاکروتومیں قبول کروں گا۔
. بحارالانوار/ج ٩٠ /ص ٢٩٠
سیف تمارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:تم دعائیں
کیاکرو؛کیونکہ دعاکے مانندکوئی بھی چیزخداسے قریب نہیں کرتی
ہے ،کسی بھی چھوٹی حاجت کوچھوٹی سمجھ کرترک نہ کروبلکہ اس کے لئے بھی
خداکی بارگاہ میں دعاکروکیونکہ جس کے اختیارمیں چھوٹی حاجتوں کوپوراکرناہے بڑی حاجتوں
__________) کوپوراکرنابھی اسی کے اختیارمیں ہے۔( ٢
. ٢(کافی /ج ١/ص ۴۶٧ (
معاویہ ابن عمارسے مروی ہے کہ میں امام صادق سے کہا:دوشخص ایک مسجدمیں
داخل ہوئے ،دونوں نے ایک ہی وقت پرنمازپڑھی ،ایک ساتھ نمازسے فارغ ہوئے لیکن نمازکے
بعدایک شخص نے قرآن کریم کی بہت زیادہ تلاوت کی اوردعابہت ہی کم کی مگردوسرے نے
تلاوت کم اوردعابہت زیادہ کی ،ان دونوں میں کس کاعمل زیادہ بہترہے ؟امام (علیه السلام)نے
فرمایا:دونوں کاعمل اچھااوربافضیلت ہے ،میں نے امام (علیه السلام) سے کہا:میں جانتاہوں کہ
دونوں کہ کا عمل صالح ہے لیکن میں یہ جانناچاہتاہوں کہ کسکاعمل زیادہ فضیلت رکھتاہے؟امام
(علیه السلام)نے فرمایا:کیاتم نے اس قول خداوندی کونہیں سناہے:
) >اُدْعُونِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاْخِرِیْنَ>( ١
ترجمہ:مجھ سے دعاکرومیں قبول کروں گااوریقیناًجولوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ
عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہونگے۔
اس کے بعدامام (علیه السلام)نے تین مرتبہ کہا:دعاافضل وبرترہے،دعاافضل وبرترہے
،دعاافضل وبرترہے اورفرمایا:کیادعاعبادت نہیں ہے؟اورکیادعامستحکم نہیں ہے ؟اورفرمایا:خداکی
) قسم!دعامناسب ترہے، دعااورمناسب ترہے، دعامناسب ترہے۔( ٢
--------
. ٢)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١٠۴ ) ١(سورہ غٔافر/آیت ۶٠ (
دعاکے آداب وشرائط
١۔معرفت خدا
ہم جس کی بارگاہ میں دعاکے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اس کی معرفت رکھنابہت ضروری
ہے اورجوخداکی جت نی معرفت رکھتاہوگاوہ اس سے ات ناہی زیادہ قریب ہوگااوراس کے خزانۂ
رحمت سے ات ناہی زیادہ فیض حاصل کرے گااوراسی مقدارمیں اس کی دعاقبول ہوگی
روایت میں آیاہے کہ کچھ لوگوں نے امام صادق سے سوال کیا:اے ہمارے مولا!ہماری
دعائیں کیوں قبول نہیں ہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:
لانّکم تدعون من لاتعرفونہ.
) اس لئے کہ تم جسے پکارتے ہواسے پہچانتے نہیں ہو۔( ١
عن النبی صلی الله علیہ قال:یقول الله عزوجل :من سئلنی وہویعلم انّی اضرواَنفع
) استجیب لہ.( ٢
رسول خدا (صلی الله علیه و آله)سے منقول ہے کہ:خدائے عزوجل ارشاد
فرماتاہے:جوشخص یہ سمجھتے ہوئے مجھ سے کچھ مانگے کہ نفع ونقصان سب کچھ میرے
ہاتھوں میں ہے تومیں اس کی دعاقبول کروں گا۔
--------
. ٢)بحارالانوار__________/ج ٩٣ /ص ٣٠۵ ) . ١(توحید/ص ٢٨٩ (
٢۔گناہوں سے دوری واستغفار
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان جب کسی گناہ کوانجام دیتاہے توتہہ دل سے
انجام دیتاہے اورانسان جیسے ہی گناہ کامرتکب ہوتاہے تو اس کے دل پرایک کالاداغ پڑجاتاہے
اوروہ داغ صرف توبہ کے ذریعہ پاک ہوسکتاہے اورجت نازیادہ گناہوں کامرتکب ہوتارہے گاتواس داغ
کی مقداربھی بڑھتی رہے گی اورپھراسے دورکرنانہایت مشکل ہے
گناہ ایک ایسی چیزہے جوانسان کو خیروبرکت سے محروم کردیتی ہے، لہٰذاانسان
کودعاکرنے سے پہلے استغفارکرناچاہئے کیونکہ گناہ ایک ایسی چیزہے جوانسان کی دعا قبول
نہ ہونے کاسبب واقع ہوتی ہے جیساکہ ہم کلام امیرالمومنین حضرت علی دعائے کمیل میں
پڑھتے ہیں:
اللّہمّ اغفرلی الذنوب التی تحبس الدعاء…فاسئلک بعزتک ان لایحجب دعائی سوءُ عملی
وفعالی ۔
ترجمہ :بارالٰہا!میرے گناہوں کومعاف کردے جوکہ دعاکے مانع واقع ہوتے ہیں …بارالٰہا!میں
تیرے جلال وعزت کی قسم کھاتاہوں اورتجھ سے یہ چاہتاہوں کہ میری بدکرداری اوررفتاری
کواپنی بارگاہ میں دعاکامانع قرارنہ دے ۔
قال علی علیہ السلام:المعصیة تمنع الاجابة.
حضرت علی فرماتے ہیں:گناہ ایک چیزہے جوبارگاہ خداوندی میں دعاؤں کے قبول نہ ہونے
کاسبب واقع ہوتاہے ۔
. غررالحکم /ص ٣٢
٣۔صدقہ
جب کوئی شخص کسی عظیم ذات کی بارگاہ میں کوئی حاجت لے کرجاتاہے تواس تک
پہنچنے کے لئے پہلے وہاں کے ملازم اوردربانوں کوکچھ دے کرخوش کرتاہے تاکہ آسانی سے
اس تک رسائی ہوسکے اوراس کی حاجتیں پوری ہوجائیں لہٰذاانسان کوچاہئے کہ مالک دوجہاں
سے کچھ مانگنے کے لئے پہلے اس کے دربان( فقراء ومساکین)کوصدقہ دے اوران کی مددکرے
تاکہ حاجتیں پوری ہوجائیں ۔
امام صادق فرماتے ہیں کہ :جب بھی میرے والدکوکوئی پیش آتی تھی توزوال کے وقت
آفتاب کے وقت اس حاجت کوطلب کرتے تھے پس جب بھی آپ کوکوئی حاجت ہوتی تھی
تودعاسے پہلے صدقہ دیاکرتے تھے اوراپنے آپ کومعطرکرتے تھے اس کے بعدمسجدروانہ ہوتے
تھے اورپھرجسچیزکی بھی حاجت ہوتی تھی اسے بارگاہ خداوندی سے طلب کرتے تھے۔
. عدة الداعی/ص ۴٨
۴۔طہارت
دعاکرنے والے کوچاہئے کہ دعاکرنے سے پہلے وضوکرے اس کے بعددورکعت نمازپڑھے
اوربارگاہ خداوندی اپنی حاجتوں کوبیان کرے۔
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)حدیث قدسی فرماتے ہیں:حدیت قدسی شریف میں آیا
ہے خدا وند متعال فرماتا ہے :اگر کسی شخص کی وضوباطل ہو جائے اوروہ وضونہ کرے تومجھ پر
جفاکرتا ہے اور اگر کوئی شخص وضو کرے اور دورکعت نماز نہ پڑھے وہ بھی مجھ پر جفا کرتا ہے
اور اگر کوئی شخص دورکعت نماز پڑھے اور مجھ سے اپنی حاجتوں کوبیان کرے اورکسی
چیزکی درخواست کرے اب اگرمیں اسے وہ چیزعطانہ کروں جواس نے مجھ سے اپنے دین
ودنیاکے بارے میں مجھ سے طلب کی ہے تومیں اس پرجفاکرتاہوں اور میں جفا کار پر ور دگار
) نہیں ہوں ۔ ( ٣
. ٣(تہذیب الاحکام/ج ۴/ص ٣٣١ (
۵۔دورکعت نماز
آپ نے گذشتہ میں ملاحظہ فرمایاکہ دعاکرنے سے پہلے وضوکی جائے اوردورکعت
نمازپڑھی جائے اس کے بعدباگاہ خداوندی میں اپنی حاجتوں کوبیان کیاجائے ،اس حدیث کے
علاوہ اوربھی احادیث ہیں کہ جن میں اس چیزکوبیان کیاگیاہے کہ نمازکے ذریعہ الله سے
مددطلب کرواوراپنی حاجتوں کوبیان کرو۔
امام صادق سے مروی ہے کہ امام علی کے سامنے جب بھی کوئی ہوناک حادثہ
ومشکل پیشآتی تھی تونمازکے ذریعہ پناہ لیتے تھے اوراس آیہ مٔبارکہ کی تلاوت کرتے تھے:
) >وَاسْتَعِینُوابِالصَّبْرِوَالصَّلَاةِ>( ١)صبراورنمازکے ذریعہ مددطلب کرو۔( ٢
--------
. ٢)کافی /ج ٣/ص ۴٨٠ ) . ١(سورہ بٔقرہ/آیت ۴٢ (
امام صادق فرماتے ہیں:جب بھی تمھیں دنیاوی مشکلوں میں سے کوئی مشکل پیش
آئے توتم وضوکرواورمسجدمیں جاکردورکعت نمازپڑھو اورخداسے دعاکریں ،کیاتم نے اس قول
خداوندی کونہیں سناہے:
) >وَاسْتَعِینُوابِالصَّبْرِوَالصَّلَاةِ>صبراورنمازکے ذریعہ مددطلب کرو۔( ٢
. ٢(وسائل الشیعہ/ج ۵/ص ٢۶٣ (
روایت میں ایاہے :ایک دن جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)ایک شب نمازمغربین
حضرت علیکے ہمراہ اپنی لخت جگرکے گھرتشریف لائے توگھرمیں کھانے پینے کاکوئی انتظام
نہیں تھااورجوانان جنت کے سردارامام حسن اورامام حسین +بھی دوروزسے بھوکے تھے
جناب سیدہ نے باباکی زیارت کی اوراس کے بعدایک حجرے میں تشریف لے گئیں،مصلے
پرکھڑے ہوکردو رکعت نماز پڑھی،اور سلام نماز پڑھنے کے بعد اپنے چہرہ مٔبارک کو زمین پر رکھ
کر بارگاہ رب العزت میں عرض کیا : پروردگا را! آج تیرے حبیب ہمارے گھر مہمان ہیں،اورتیرے
حبیب کے نواسے بھی بھوکے ہیں پس میں تجھے تیرے حبیب اوران کی آل کاواسطہ دیتی ہوں
کہ توہمارے لئے کوئی طعام وغذانازل کردے ، جسے ہم ت ناول کرسکیں اور تیرا شکر اداکریں۔
حبیب خدا کی لخت جگر نے جیسے ہی سجدہ سے سربلند کیاتوایک لذیذ کھانے کی
خوشبوآپ کے مشام مبارک تک پہنچی ،اپنے اطراف میں نگاہ ڈالی تودیکھا کہ نزدیک میں ایک
بڑاساکھانے کا طباق حاضر ہے جس میں روٹیاں اور بریاں گوشت بھرا ہوا ہے،یہ وہ کھاناتھاجو
خدا ئے مہربان نے بہشت سے بھیجا تھا اور فاطمہ زہرا نے پہلے ایسا کھانا نہیں دیکھا تھا ،آ پ
نے اس کھانے کواٹھاکردسترخوان پررکھااور پنجت ن پاک نے دستر خوان کے اطراف میں بیٹھ کر
اس بہشتی کھانا کو ت ناول فرمایا ۔
روایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اپنی پارہ جگرسے پوچھا:اے
میرے بیٹی ! یہ لذےذاورخوشبودار کھانا آپ کے لئے کہا ں سے آیا ہے ؟ بیٹی نے فرمایا: اے
باباجان!
) >ھُوَمِنْ عِنْدِالله اِنَّ الله یَرْزَقُ مَنْ یَشاَ ءُ بِغَیْرِحِسَا بٍ.>( ١
یہ کھانا الله کی طرف سے آیا ہے خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔
پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اپنی لخت جگرسے مخاطب ہوکر فرمایا:تمھارایہ
ماجرابالکل مریم اورذکریاجیساماجراہے اوروہ یہ ہے:
>کُلَّمَادَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّاالْمَحْرَابَ وَجَدَعِنْدَھَارِزْقاً قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ھٰذا قَالَتْ ھُوَمِنْ عِنْدِاللهِ
) اِنَّ اللھَیَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِحِسَاْبٍ.>( ٢
--------
. ٢)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧ ) . ١(سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧ (
جب بھی حضزت زکریا (علیه السلام)حضرت مریم (س )کی محراب عبادت میں داخل
ہوتے تھے تو مریم کے پاس طعام وغذا دیکھا کر تے تھے اور پو چھتے تھے : اے مریم ! یہ کھانا
کہاں سے آیاہے ؟ مریم(س)بھی یہی جواب دیتی تھیں: یہ سب خداکی طرف سے ہے بے
شک خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتاہے ۔
جنت سے کھانانازل ہونے میں دونوں عورتوں کی حکایت ایک جیسی ہے جس طرح نماز
وعبادت کے وسیلہ سے حضرت مریم (س)کے لئے بہشت سے لذیذکھاناآتاتھااسی طرح جناب
سیدہ کے لئے بھی جنت سے لذیذ اورخوشبودار غذائیں نازل ہوتی تھیں لیکن اس کوئی شک
نہیں ہے کہ جناب سیدہ کا مقام تواس سے کہیں درجہ زیادہ بلندو با لا ہے
حضرت مریم(س)صرف اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن جناب سیّدہ دونوں
جہاں کی عورتوں کی سردار ہیں ،جبرئیل آپ کے بچوں کوجھولاجھلاتے __________ہیں،گھرمیں چکیاں
پیستے ہیں،درزی بن جاتے ہیں اسی لئے آپ کوسیدة نساء العالمین کے لقب سے
یادکیاجاتاہے۔
وہ خاتون جودوجہاں کی عورتوں کی سردارہو،وہ بچے جوانان جنت کے سردار ہوں، وہ
گھرکہ جس میں میں فرشے چکیاں پیستے ہوں،جن بچوں کوجبرئیل جھولاجھلاتے
ہیں،خداوندعالم اس گھرکے افرادکو کس طرح فاقہ میں رہنے دے سکتاہے، ہم تویہ کہتے ہیں کہ
خداوندعالم انھیں کسی صورت میں فاقہ میں نہیں دیکھ سکتاہے بلکہ یہ فاقہ فقط اس لئے
تھے کہ خداوندعالم اس گھرافرادکے مقام ومنزلت کوبتاناچاہتاتھاورنہ مال ودولت توان ہی کی
وجہ سے وجودمیں آیاہے ،یہ تووہ شخصیت ہیں کہ اگرزمین پرٹھوکرماریں تووہ سوناچاندی اگلنے
لگے ۔
۶۔نیت وحضورقلب
انسان جس چیزکوخداسے طلب کررہاہے اس کادل میں ارادہ کرے اوردعاکرنے کویہ
معلوم ہوناچاہئے کہ وہ کیاکہہ رہاہے یعنی اس کے قلب کوزبان سے کہی جانے والی باتوں کی
اطلاع ہونی چاہئے اورنیت میں سچائی بھی ہونی چاہئے ۔
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)حضرت علی سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
) یاعلی .لایقبل الله دعاء قلب ساہٍ.( ١
اے علی!خداوندعالم ہراس دعاکوجودل غافل اوربے توجہی کے ساتھ انجام دی جاتی ہے
مستجاب نہیں کرتاہے۔
) قال امیرالمو مٔنین علیہ السلام:لایقبل الله دعاء قلب لاہ.( ٢
حضرت علی فرماتے ہیں:خداوندعالم دل مضطرب وغافل کی دعاقبول نہیں کرتاہے۔
امام صادق فرماتے ہیں جب کوئی بندہ صدق نیت اوراخلاص کے ساتھ الله کو پکارے
،جیسے ہی وہ اپنے اس عہدوپیمان کووفاکرتاہے تواس کی دعامستجاب ہوجاتی ہے اورجب
کوئی بندہ نیت واخلاص کے بغیرالله کوپکارتاہے تواس کی دعامستجاب نہیں ہوتی ہے ،کیاتم نے
قرآن کریم میں اس قول خداوندی کونہیں پڑھاہے؟کہ جسمیں وہ فرماتاہے:
>اَوْفُوْا بِعَہْدِیْ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ>( ٣) تم ہمارے عہدکوپوراکروہم تمھارے عہدکوپوراکریں
گے،اس کے بعدامام (علیه السلام) فرماتے ہیں:جس نے عہدخداکوپوراکیاخدابھی اس کے
) عہدکوپوراکرے گا ۔ ( ۴
--------
. ٢)کافی/ج ٢/ص ۴٧٣ ) . ١(من لایحضرہ الفقیہ /ج ۴/ص ٣۶٧ (
. ۴)سفینة البحار/ج ١/ص ۴٩٩ ) . ٣(سورہ بٔقرہ /آیت ۴٠ (
سلیمان ابن عمروسے مروی ہے :میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے:خداوندعالم
بے توجہی کے ساتھ کی جانے والی دعاقبول نہیں کرتاہے،پس جب بھی تم دعاکروتواپنے قلب
) خداکی طرف متوجہ رکھواوریہ یقین رکھوکہ تمھاری دعاضرورقبول ہوگی۔( ١
٧۔زبان سے
خداوندعالم ہرشخص کے حال دل سے آگاہ ہے ،وہ بغیرمانگے بھی عطاکرسکتاہے لیکن
وہ اپنے بندہ کی زبان سے دعاکوسننازیادہ پسندکرتاہے،لہٰذا بہترہے کہ انسان اپنی دعاوحاجت
کودل کے علاوہ زبان سے بھی اداکرے ۔
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:انّ الله تبارک وتعالیٰ یعلم مایریدالعبداذادعاہ ولکن یحبّ
) اَن یبث الیہ الحوائج فاذادعوت فسم حاجتک۔( ٢
--------
. ٢)کافی /ج ٢/ص ۴٧۶ ) . ١(کافی /ج ٢/ص ۴٧٣ (
امام صادق فرماتے ہیں:جب کوئی بندہ دعاکرتاہے توخداوندعالم دعاکرنے والوں کی
حاجتوں سے باخبررہتاہے مگراس چیزکودوست رکھتاہے کہ بندہ اپنی حاجتوں کوزبان سے بھی
ذکرکرے،پسجب بھی تم دعاکرواپنی حاجتوں کوزبان سے بیان کرو۔
٨۔ہاتھوں کوآسمان کی جانب بلندکرنا
مستحب ہے کہ دعاکرتے وقت دونوں ہاتھوں کوچہرہ اورسرکے سامنے تک بلندکریں
اوردونوں ہتھیلیوں کوآسمان کی جانب قراردیں۔
عن حسین بن علی علیہماالسلام قال:کان رسول الله صلی الله علیہ وآلہ، یرفع یدیہ
) اذاابتہل ودعاکمایستطعم المسکین۔( ١
روایت میں آیاہے کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں
دعااورگریہ وزاری کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کواس طرح بلندکرتے تھے جیسے کوئی مسکین
وبے چارہ کسی کے سامنے کھانے کے لئے ہاتھ پھیلاتاہے ۔
امیرالمومنین فرماتے ہیں:جب بھی تم میں کوئی شخص نمازسے فارغ ہوتواپنے دونوں
ہاتھوں کوآسمان کی طرف بلندکرے اوردعاکرے
ابن سبانے عرض کیا:یاامیرالمومنین!کیاخداسب جگہ موجودنہیں ہے(پھرآسمان کی طرف
ہاتھ بلندکرکے دعاکرنے کی وجہ کیاہے )؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیاتم نے اس آیہ مبارکہ
نہیں پڑھی ہے:
>وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُکُمْ وَمَاتُوعَدُوْنَ<
اورآسمان میں تمھارارزق ہے اورجن باتوں کاتم سے وعدہ کیاگیاہے سب کچھ موجودہے ۔
. سورہ ذاریات/آیت ٢٢ . من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢۵
٩۔اظہارذلت وتضرع
دعاکرنے والے کوچاہئے کہ اپنے آپ کوالله کی بارگاہ میں ذلیل وحقیراورمحتاج شمارکرے
اورعظمت پردگارکے سامنے اپنی حاجتوں کوناچیزشمار کرے اوردعاکرنے والے کوچاہئے کہ اپنے
آپ کو اس قدریادخدامیں غرق کرے کہ جب جسم پر تضرع وگریہ کی حالت پیداہوجائے تواس
وقت دعاکرے اوراپنی حاجتوں کوبیان کرے۔
) عن ابی عبدالله علیہ السلام:اذارقّ احدکم فلیدع فانّ القلب لایرقّ حتیٰ یلخّص.( ٢
جب تمھارے جسم پررقت طاری ہوجائے تودعاکروکیونکہ دل پررقت اسی وقت طاری ہوتی
ہے جب وہ خداکے لئے خالص ہواوراس کی جانب متوجہ ہوجائے
--------
. ٢)کافی /ج ٢/ص ۴٧٧ ۔مکارم الاخلاق/ص ٢٧١ ) . ١(مکارم الاخلاق/ص ٢۶٨ (
١٠ ۔ بسم الله کے ذریعہ آغاز
انسان جب بھی بارگاہ خداوندی میں دعاکے لئے ہاتھ بلندکرے اوراوراپنی حاجتوں کوبیان
کرے توسب سے پہلے “بسم الله الرحمن الرحیم ”کہے اسکے بعداپنی حاجتوں کوبیان کرے
پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہی:جس دعاکو“بسم الله الرحمن الرحیم”کے
) ذریعہ شروع کیاجاتاہے تو وہ واپسنہیں ہوتی ہے بلکہ مقبول واقع ہوتی ہے ۔( ١
١١ ۔ حمدوثنائے الٰہی
دعاکرنے والے کوچاہئے کہ دعاکرنے پہلے اپنے رب کوراضی وخوشنودکرے یعنی اس
کی تسبیح اور حمدوثنا کرے اوراپنے گناہوں کی معافی مانگے اس کے بعداپنی حاجتوں کوبیان
کرے
حارث ابن مغیرہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:
ایّاکم اذااراداحدکم ان یسئل من ربّہ شیئاًمن الحوائج الدنیاوالآخرة حتی یبدء بالثناء علی
) الله عزوجل والمَدحَ لہ والصلاة علی النبی ثمّ یسئل الله حوائجہ۔( ٢
تم میں جوشخص بھی حوائج دنیاوآخرت میں سے کسی چیزکوالله سے طلب کرے
تواسے چاہئے کہ دعاکرنے سے پہلے خدائے عزوجل کی مدح وثناکرے اورنبی اکرم (صلی الله
علیه و آله)اوران کی آل اطہارپردرودبھیجے اس کے بعداپنی حاجتوں کوخداکی بارگاہ میں طلب
کرے ۔
--------
. ٢)کافی /ج ٢/ص ۴٨۴ ) . ١(بحارالانوار/ج ٩٠ /ص ٣١٣ (
امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص دس مرتبہ“یاالله یالله” کہتاہے توخداوندعالم اپنے اس
بندہ سے کہتاہے :اے میرے بندے !میں حاضرہوں ،تواپنی حاجت تومجھ سے بیان کر۔
. کافی /ج ٢/ص ۵١٩
امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص دس مرتبہ“یارب یارب” کہتاہے توخداوندعالم اپنے اس
بندہ سے کہتاہے :اے میرے بندے !میں حاضرہوں ،تواپنی حاجت تومجھ سے بیان کر۔
. کافی /ج ٢/ص ۵٢٠
امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص ایک نفس میں چندمرتبہ “یاربِّ یاالله”کہتاہے
توخداوندعالم اپنے اس بندہ سے کہتاہے :اے میرے بندے !میں حاضرہوں ،تواپنی حاجت تومجھ
سے بیان کر۔
. کافی /ج ٢/ص ۵٢٠
امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص ہرنمازواجب کے بعدحالت تورک سے خارج ہونے سے
پہلے تین مرتبہ “استغفرالله الذی لاالہ الّاہوالحی القیوم ذوالجلال والاکرام واتوب الیہ”کہے
توخداوندعالم اسے تمام گناہوں کوبخش دیتاہے خواہ اس کے گناہ سمندرکے جھاگ کے برابرہی
کیوں نہ ہوں۔
. کافی /ج ٢/ص ۵٢١
١٢ ۔ توسل بہ معصومین
اگرکسی غلام سے کوئی خطاہوجائے تووہ اپنی خطاکومعاف کرانے کے لئے کسی
ایسے شخص کاسہارالیتاہے کہ جوبادشاہ سے بہت زیادہ قریب ہواوردوست بھی
ہواورخودبادشاہ بھی اسے دوست رکھتاہوکہ جس کے کہنے پربادشاہ اسے معاف کرسکتاہو
،اسی طرح اگرکوئی شخص کسی چیزکامحتاج اورضرورتمندہے توکسی بے نیازکادروازہ
کھٹکھٹانے کے لئے کسی ایسی ذات کاسہارالےتاہے جواس مالدارکاقریبی دوست ہوکہ جس
کے کہنے سے مرادپوری ہوجائے گی ،بس اسی طرح خداتک پہنچنے اوراس سے اپنے گناہوں
کی معافی مانگنے اوراس سے اپنی حاجتوں کے پوراکرنے کے لئے ایسی ذوات مقدسہ
کوسہارااوروسیلہ قرارضروری ہے جوالله تبارک وتعالیٰ سے بہت زیادہ قریب ہوں اوروہ انھیں
اپناحبیب سمجھتاہو،الله تک پہنچنے کے لئے کسی ذات کووسیلہ قراردینے کی سب سے بڑی
دلیل یہ ہے کہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:
) >یٰااَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااتَّقُوْااللهَ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ >( ١
ترجمہ:اے ایمان والو!الله سے ڈرواوراس تک پہنچنے کاوسیلہ تلاش کرو
. ١(سورہ مٔائدہ/آیت ٣۵ (
اس آیہ مٔبارکہ سے یہ ثابت ہے کہ الله تک پہنچنے کے لئے اوراس سے کوئی چیزطلب
کرنے کے لئے کسی کووسیلہ قراردیناضروری ہے کہ جن کے وسیلے سے ہماری توبہ قبول
ہوجائے اوربگڑی ہوئی قسمت سنورجائے اورجسچیزکی تمناہے وہ بھی حاصل ہوجائے
معصومین وہ ذوات مقدسہ ہیں جوالله تبارک وتعالیٰ سے بہت زیادہ قریب ہیں، پروردگار
ان کی بات کونہیں ٹال سکتاہے ،یہ زمین وآسمان ،آفتاب وماہتاب،چاند اور ستارے، دریا
وسمندر…شب کچھ انھیں کے طفیل سے قائم ہیں گویایہ پوری دنیاانھیں کی وجہ سے قائم ہے
،اب اگرکوئی شخص الله کوراضی کرناچاہتاہے توپہلے انھیں راضی کرے جسے پروردگاراپنی
مرضی فروخت کر چکاہو
اگرکوئی شخص اللھسے کسی چیزکوطلب کرناچاہتاہے تونبی اکرم (صلی الله علیه و
آله)اورآئمہ اطہار کوواسطہ قرادیناچاہئے ،یہی وہ عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کے وسیلے سے
امت نجات پاسکتی ہے ،ان کے وسیلہ کے بغیرنہ کوئی حاجت پوری ہوسکتی ہے اورنہ کسی
کوروزقیامت نجات مل سکتی ہے ،یہی وہ ذوات مقدسہ ہیں کہ جن کے واسطے سے آدم (علیه
السلام)کی توبہ قبول ہوئی ،ہابیل (علیه السلام)کی نذرقبول ہوئی ،کشتی نوح (علیه
السلام)میں سوارتمام لوگوں نے نجات پائی ،یونس (علیه السلام) مچھلی کے پیٹ سے
باہرآئے، ابراہیم (علیه السلام)کے لئے آتش نمرودگلزارہوئی ،اسماعیل (علیه السلام)قربان ہونے
سے بچ گئے ،موسیٰ (علیه السلام)کے لئے دریامیں راستہ بنا۔
معصومین کووسیلہ قراردینے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے:
امام حسن عسکری سے منسوب “ تفسیرامام عسکری ”میں ایک روایت نقل کی
گئی ہے کہ ایک دن جب سلمان فارسی قوم یہودکے پاس گذرے توان سے کہا:کیامیں تمھارے
پاس بیٹھ سکتاہوں اورتم سے وہ بات بتاسکتاہوں جوآج ہی میں نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه
و آله)کی زبان مبارک سے سنی ہے؟ان لوگوں نے کہا:ضروربیان کیجیے ،سلمان فارسی اس
قوم کے دین اسلام سے حرص رکھنے اوران اصرارکرنے کی وجہ سے بیٹھ گئے اورکہا: میں نے
پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کویہ فرماتے ہوئے سناہے:
خداوندعالم فرماتاہے :اے میرے بندو!کیاایسانہیں ہے کہ جب بھی کوئی شخص تمھارے
پاس کوئی حاجت لے کرآئے توتم اسے اس وقت پورانہیں کرتے ہوجب تک کہ وہ کسی ایسے
شخص کوواسطہ قرارنہ دے جوتمھیں مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے اورشفیع وواسطہ
کے ذریعہ حاجتوں کوپوراکیاجاتاہے؟
جان لو!میری مخلوق میں وہ ذات کہ جومجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اورجومیرے
نزدیک سب سے زیادہ افضل ہے وہ محمد (صلی الله علیه و آله) اوران بھائی علی اوران کے
بعداوران کے بعدآئمہ اطہار ہیں جومجھ تک پہنچنے کاوسیلہ اورواسطہ ہیں
اب تم جوشخص بھی کوئی حاجت رکھتاہے جواس کے لئے فائدہ مندہو، یا مشکل میں
گرفتارہے تواس حاجت پوراہونے اوراس مشکل کے برطرف ہونے کے لئے چاہئے کہ دعاکرے
اورحضرت محمد (صلی الله علیه و آله)اوران کی آل پاک کوواسطہ قرار دے طلب کروتاکہ میں
تمھاری حاجت کوپوراکروں اورمشکل کوبرطرف کروں، یادرکھو! میری بارگاہ میں ان عظیم ذوات
مقدسہ کے وسیلے سے حاجتوں کوپوراکرناان سے بہترہے جوتم اپنی حاجتوں کوپوراکرنے کے
) لئے اپنے محبوب ترین شخص کوواسطہ قرار دیتے ہو۔( ١
داو دٔرقی سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کوسناہے جب آپ دعاکرتے تھے تواپنی
دعامیں خداکے لئے پنجت ن پاک یعنی حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)اورامیرالمومنین
) اورفاطمہ زہرااورحسن اورحسین کوواسطہ قراردیاکرتے تھے ۔( ٢
--------
. ١(تفسیرامام حسن عسکری /ص ۶٨ (
. ٢)وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ١١٣٩ )
١٣ ۔ صلوات برمحمدوآل محمد
اگرکوئی بندہ اس چیزکی تمنارکھتاہے کہ اس کی بارگاہ خداوندی میں قبول ہوجائے
تودعاسے پہلے اوربعدمیں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی آل اطہار کوواسطہ
قراردے اوران پردرودوسلام بھیجے،اوران ذوات مقدسہ پرالله تبارک وتعالیٰ بھی درودوسلام
بھیجتاہے اوراس کے ملائکہ بھی ،جیساکہ قرآن میں ارشادباری تعالیٰ ہے:
) >اِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیْ یَااَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْاصَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا.>( ١
ترجمہ:بیشک الله اوراس کے ملائکہ رسول پرصلوات بھیجتے ہیں تواے صاحبان ایمان!تم
بھی ان پرصلوات بھیجتے رہواورسلام کرتے رہو۔
امام صادق سے روایت ہے کہ :ایک دن رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے امام
علیسے عرض کیا:اے علی!کیاتم نہیں چاہتے کہ میں تمھیں کوئی خوشخبری دوں؟عرض
کیا:آپ پرمیرے ماں باپ پرقربان جائیں ،آپ توہمیشہ مجھے خوشخبری دیتے رہتے ہیں
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:مجھے ابھی جبرئیل نے ایک خوشخبردی
ہے ،علینے عرض کیا:وہ کیاہے مجھے بھی بتائیے ؟آنحضرت نے فرمایا:مجھے خبردی گئی ہے
کہ میری امت میں سے جب کوئی شخص مجھ پردرودبھیجتاہے اوراس کے ساتھ میری آل
پردرودبھیجتاہے توآسمان کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں اورملائکہ اس پرسترمرتبہ صلوات
بھیجتے ہیں اوراگروہ گناہگارہوتاہے تواس کے گناہ درخت سے پتوں کے مانندگرجاتے ہیں
اورخداوندعالم اس بندے سے کہتاہے :“لبیک یاعبدی وسعدیک”اوراپنے ملائکہ سے کہتاہے:تم
میرے اس بندے پرسترصلوات بھیجو،(نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:) میں اس
پرسات سومرتبہ صلوات بھیجتاہوں
لیکن اگرمیرے ساتھ میری آل پرصلوات نہیں بھیجتاہے تواس کے اورآسمان کے درمیان
سترحجاب واقع ہوجاتے ہیں اورخداوندعالم اس کے جواب میں کہتاہے: “لالبیک
ولاسعدیک”اوراپنے ملائکہ کوحکم دیتاہے :اے میرے ملائکہ !اس کی دعااس وقت تک کوآسمان
پرنہ لاناجب تک کہ یہ میرے رسول کی آل پرصلوات نہ بھیجے (نبی اکرم (صلی الله علیه و
آله)فرماتے ہیں:)مجھ پردرودبھیجنے والاشخص جب تک میری آل پردرودوسلام نہیں بھیجتاہے
) اس وقت رحمت خداسے محروم رہتاہے۔( ٣
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:لایزالُ الدعاء محجوباً حتی یصلی علیٰ محمدوآل
) محمد.( ٢
امام صادق فرماتے ہیں:یہ ثابت ہے کہ جب تک محمدوآل محمدپرصلوات نہ بھیجی جائے
تودعاپردہ میں رہتی ہے (اوروہ خداتک نہیں پہنچتی ہے)۔
--------
٣)امالی/ص ۶٧۶ ۔ثواب ) . ٢)کافی/ج ٢/ص ۴٩١ ) . ١(سورہ أحزاب/آیت ۵۶ (
. الاعمال/ص ١۵٧
١۴ ۔خفیہ دعاکرنا
دعاکے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ انسان جب بھی کوئی دعاکرے اوربہترہے کہ ت
نہائی اورخلوت میں بے نیازکی بارگاہ میں دست نیازبلندکرے اورریاجیسی بیماری سے دوررہے
،وہ لوگ جواپنے آپ کے متقی وپرہیزگارہونے کااظہارکرتے ہیں اوران کے دل میں ریاکاری کے
علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتاہے توخداوندعالم ایسے لوگوں کی دعاقبول نہیں کرتاہے
عن ابی الحسن الرضاعلیہ السلام قال:دعوة العبدسرّاًدعوة واحدة تعدل سبعین دعوة
) علانیة۔( ١
امام علی رضا فرماتے ہیں:بندہ کات نہائی میں ایک دعاکرناظاہری وعام طورسے کی
جانے والی ستردعاؤں کے برابر ہے۔
لیکن اگرانسان کادل ریاکاری سے پاک ہے اورحقیقت میں اپنے آپ کو پروردگارکی بارگاہ
میں ذلیل وحقیرشمارکرتاہے ہوتوبہترہے کہ مومنین میں سے ایک شخص دعاپڑھے اورسب لوگ
“آمین” کہیں یاسب مل کرایک ساتھ دعاپڑھیں۔
١۵ ۔ اجتماعی طورسے دعاکرنا
مستحب ہے کہ نمازجماعت کے بعدسب لوگ ایک ساتھ مل کردعاکریں ،یاامام جماعت
یاکوئی دوسراشخص دعاکرے اورسب آمین کہیں
امام صادق فرماتے ہیں :ہمارے پدربزرگوارکوجب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی
) توعورتوں اوربچوں کوجمع کرکے دعاکرتے تھے اورسب آمین کہتے تھے۔( ٢
--------
. ٢)کافی/ج ٢/ص ۴٨٧ ) . ١(کافی/ج ٢/ص ۴٧۶ (
امام صادق فرماتے ہیں:اگرچالیس لوگ ایک جگہ جمع ہوکردعاکریں تو یقیناًخداوندعالم ان
دعاؤں کومستجاب کرتاہے ،اگرچالیس لوگ جمع نہ ہوسکیں بلکہ چارشخص جمع ہو ں
توہرشخص دس مرتبہ خداوندمتعال کوکسی حاجت کے لئے پکارے توخداان کی دعاقبول کرتاہے
،اگرچارشخص جمع نہ ہوسکیں توایک ہی شخص چالیس مرتبہ الله کوپکارے(یعنی چالیس مرتبہ
) “یاالله”کہے )تویقیناًخدائے عزیزوجباراسکی دعاکومستجاب قراردے گا۔( ٢
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:مااجتمع اربعة قط علیٰ امرواحد ، فدعوا(الله)الّاتفرقواعن
) اجابة.( ٣
امام صادق فرماتے ہیں:اگرچارشخص دعاکے لئے جمع ہوں اورایک ساتھ مل کررب العزت
کی بارگاہ میں کوئی دعاکریں ،اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے سے جداہوں وہ دعاقبول
ہوچکی ہوتی ہے ۔
--------
. ٣)کافی/ج ٢/ص ۴٨٧ ) . ٢(کافی/ج ٢/ص ۴٨٧ (
١۶ ۔ پہلے اپنے دینی بھائیوں کے لئے دعاکرنا
جب انسان رب کریم کی بارگاہ میں کوئی حاجت طلب کرناچاہتاہے اوراپنے رنج وغم
کوبیان کرناچاہتاہے تواسے چاہئے کہ اپنے رنج وغم کے ساتھ دوسروں کے رنج وغم کوبھی
یادرکھے بلکہ بہتریہ ہے کہ پہلے اپنے دینی بھائیوں کے لئے میں الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ
میں دعاکرے کیونکہ جوشخص دوسروں کے لئے دعاکرتاہے توخداوندعالم اس کی دعاکوقبول
کرتاہے اوراپنے فرشتوں سے کہتاہے :دیکھو!میرے اس بندے کواپنے رنج وغم کے ساتھ دوسروں
کارنج وغم بھی یادہے ،یہ خوداپنے لئے جس چیزکی تمنارکھتاہے اسے دوسروں کے لئے بھی
دوست رکھتاہے لہٰذاخداوندعالم اس دعاکوقبول کرلیتاہے
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:من قدم اربعین رجلامِن اِخوانہ فدعالہم ثمّ دعالنفسہ
) استجیب لہ فیہم وفیہ.( ١
امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص چالیس مومنوں کواپنے اوپرمقدم رکھے اورپہلے ان کے
لئے دعاکرے، اس کے بعداپنے لئے تواس کی دعاان کے لئے بھی اوراپنے لئے بھی مستجاب
ہوگی۔
--------
. ١(من لایحضرہ ا لفقیہ/ج ٢/ص ٢١٢ (
امام موسیٰ کاظمنے اپنے آباء سے نقل کیاہے کہ حضرت فاطمہ زہرا جب دعاکرتی تھیں
تو تمام اہل ایمان مردوعورتوں کے لئے دعاکرتی تھیں اوراپنے لئے کوئی دعانہیں کرتی تھیں ،
آپ سے پوچھا گیا:اے دختررسول خدا (صلی الله علیه و آله)!کیاوجہ ہے کہ آپ لوگوں کے لئے
) دعائیں کرتی ہیں مگراپنے لئے کوئی دعانہیں کرتی ہیں؟فرمایا:پہلے پڑوسی پھراپناگھر۔( ١
امام حسن فرماتے ہیں:میری والدہ حضرت فاطمہ زہرا پوری رات محراب عبادت میں
پیروں پہ کھڑی رہتی تھیں اورمرتب رکوع وسجودمیں رہتی تھیں یہاں تک صبح نمودارہوجاتی
تھی اورمیں اپنے کانوں سے سنتاتھاکہ آپ مومنین ومومنات کے لئے دعاکرتی اوران کانام بھی
لیاکرتی تھیں اوران کے لئے کثرت سے دعائیں کرتی تھیں،ایک دن میں نے اپنی والدہ سے
کہا:جسطرح آپ دوسروں کے لئے دعاکرتی ہیں اپنے لئے کیوں نہیں کرتی ہیں؟توآپ نے فرمایا:
یابنیَّ! اوّل الجارثمّ الدار.
) اے میرے بیٹا!دوسرے ہم پرمقدم ہیں ؛پہلے ہمسایہ پھراپناگھر۔( ٢
--------
. ٢)علل الشرائع /ج ١/ص ١٨٢ ) . ١(علل الشرائع /ج ١/ص ١٨٢ (
امام باقر اس آیہ مٔبارکہ<وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ آمَنُواوَعَمِلُواالصَّالِحَات وَیَزِیْدُہُمْ مِن فَضْلِہِ>( ١)کے
بارے میں فرماتے ہیں:جومومن اپنے دینی بھائی کے لئے اس کی پیٹھ پیچھے دعاکرتاہے
توخدااپنے فرشتوں کوحکم دیتاہے :تم سب آمین کہو،اورخداوندعالم بھی جوکہ عزیزوجبّار ہے
) کہتاہے کہ :میں تجھے اسی کے مثل عطاکرتاہوں جیساتواپنے بھائیوں کے لئے دعا کرتاہے ۔( ٣
١(ترجمہ:اورجولوگ ایمان لائے اورانھوں نے نیک اعمال کئے وہی دعوت الٰہی کوقبول (
. کرتے ہیں اورخدااپنے فضل وکرم سے ان کے اجرمیں اضافہ کردیتاہے،سورہ شٔوریٰ /آیت ٢۵
--------
. ٣(کافی/ج ٢/ص ۵٠٧ (
امام علی بن الحسین فرماتے ہیں:جب کوئی مومن اپنے مومن بھائی کے لئے غائبانہ
طورسے دعاکرتاہے یااسے اچھائی سے یادکرتاہے توملائکہ اس مومن سے کہتے ہیں:تواپنے
بھائی کے لئے ایک بہت اچھابھائی ہے ،جبکہ وہ تیری نظروں سے غائب ہے اورتواس
کاذکرخیرکررہاہے اوراس کے حق میں دعاکررہاہے ،خداوندعالم بھی تجھے اس
کادوبرابرعطاکرتاہے جوتونے اپنے بھائی کے لئے طلب کیاہے اوردوبرابراس کے بدلہ میں جوتونے
) اپنے بھائی کاذکرخیرکیاہے۔( ١
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:انّ دعاء المرء لاخیہ بظہرالغیب یدرّالرزق ویدفع
) المکروہ۔( ٢
امام صادق فرماتے ہیں:کسی شخص کااپنے دینی بھائی کے لئے غائبانہ طورسے
دعاکرنے سے اس کے رزق میں برکت ہوتی ہے اوربلائیں دورہوتی ہے۔
--------
. ٢)کافی/ج ٢/ص ۵٠٧ ) . ١(کافی/ج ٢/ص ۵٠٨ (
١٧ ۔ دعامیں رکھناعمومیت
دعاکرنے والے کوچاہیے کہ اپنی دعاؤں میں عمومیت رکھے اورالله تبارک وتعالیٰ کی
بارگاہ میں جسچیزکوطلب کرے اسے سب کے لئے طلب کرے اوربہترہے کہ انسان دعاؤں میں
جمع کی لفظیں استعمال کرے ،خداوندعالم قرآن کریم میں اپنے بندوں کویوں تعلیم دیتاہے کہ
اپنی عبادتوں،اوردعاؤں میں دوسروں کواپنے ساتھ شریک رکھو اوراس طرح دعاکرو:
>اِیّاکَ نَعْبُدُ وَاِیّاکَ نَسْتَعِیْنُ ، اِہدِنَاالصِّراطَ المُسْتَقِیْم<
پروردگارا!ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتجھ سے مددمانگتے ہیں،توہمیں راہ راست کی
ہدایت فرما۔
دعاکوعمومیت قراردینے کے لئے چندروایت ذکرہیں:
) قال رسول الله صلی علیہ وآلہ وسلم:اذادعااحدکم فلیعمّ فانّہ اَوجب للدعاء.( ١
رسول خدا (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:تم میں جب بھی کوئی شخص خداکی
بارگاہ میں دعاکرے تواپنی دعاکو عمومیت قرار دے اورتمام مسلمانوں کیلئے دعائیں کرے کیونکہ
اس طرح دعاکرنے سے خداتمھاری دعاکو بہت جلدمستجاب کرتاہے۔
امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص روزانہ پچیس مرتبہ “ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِلْمُو مِٔنِیْنِ وَالْمُو مِٔنَاتِ
وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَات” کہتاہے خداوندعالم ہرمومن ومومنہ کے برابر جواس دنیاسے رحلت
کرگئے اورقیامت آنے ہر مومن ومومنہ کے برابرایک حسنہ لکھتاہے اوراس کے نامہ أعمال سے
) گناہ کوپاک کردیتاہے اورایک درجہ اس کامقام بلندکریتاہے۔( ٢
--------
. ١(کافی/ج ٢/ص ۴٨٧ (
. ٢)امالی(شیخ صدرق)/ص ۴۶٢ )
عن صفوان بن یحییٰ عن ابی الحسن علیہ السلام انہ کان یقول:من دعالاخوانہ من
) المومنین والمو مٔنات والمسلمین والمسلمات وکّل الله بہ عن کل ملکایدعوالہ.( ١
صفوان ابن یحییٰ سے مروی ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:جوشخص مومن مردوعورت
اورمسلمان مردوعورت کے لئے دعاکرتاہے توخداوندعالم ہرمومن کے بدلے میں ایک فرشتہ موکل
کرتاہے تاکہ وہ اس دعاکرنے کے لئے دعاکرے ۔
عن صفوان بن یحییٰعن ابی الحسن علیہ السلا قال:مامن مومن یدعوللمومنین والمو مٔنات
والمسلمین والمسلمات الاحیاء منہم والاموات الّاکتب الله بعدد کل مومن ومومنة حسنة منذبعث
) الله آدم الی یوم ان تقوم الساعة .( ٢
صفوان ابن یحییٰ سے مروی ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:جوشخص مومن مردوعورت
اورمسلمان مردوعورت کے لئے دعاکرتاہے چاہے وہ مردہ ہوں یازندہ توخداوندعالم حضرت ادم کے
زمانہ سے روزقیامت تک پیداہونے والے ہرمومن اورمومنہ کے بدلہ میں ایک نیکی اس کے نامہ
اعمال میں درج کرتاہے ۔
--------
. ٢(ثواب الاعمال/ص ١۶١ )(١(
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:ہروہ مومن جودوسرے مومن مردوعورت کے
لئے دعاکرتاہے توخداوندعالم اس شخص کوہروہ چیزعطاکرتاہے جواس نے ان مومن مردوعورت
کے لئے طلب کیاہے جواول دہرآج تک رحلت کرگئے ہیں اورہراس چیزکوعطاکرتاہے جواس نے ان
مومن مردوعورت کے لئے طلب کیاہے جوروزقیامت تک آنے والے ہیں،روزقیامت جب اس بندہ
کوجہنم کی طرف روانہ کیاجائے گاتومومن ومومنات خداوندمتعال __________سے کہیں گے:اے پروردگار!یہ
تووہ شخص ہے جوہمارے حق میں دعائیں کرتاتھاپس ہم تجھ سے اسے کے بارے میں شفاعت
کرتے ہیں،پسخداوندعالم ان کی شفاعت کوقبول کرے اوروہ آتشجہنم سے نجات پاجائے گا۔
. کافی /ج ٢/ص ۵٠٨
١٨ ۔ دعابرائے استجابت دعا
دعاکرنے کے بعداپنی دعاکے قبول ہونے کے بارے میں دعاکرناچاہئے اوریہ کہاجائے
:“ربّناوتقبّل دعاء“.
تمام انبیاء واولیاء کایہی طریقہ رہاہے کہ وہ اپنی دعاؤں کے بعد“ربّناوتقبّل دعاء”کہاکرتے
تھے
حضرت ابراہیم بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں:
) >رَبِّ اجْعَلّنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ رَبَّنَاوَتَقَبَّلْ دُعَاءِ >( ١
ترجمہ: پروردگارا!مجھے اورمیری ذریت کونماز قائم کرنے والوں میں قراردے اور اے
پروردگار!تومیری دعاء کوقبول کرلے۔
١٩ ۔ دعاکے قبول ہونے پریقین واعتقاد رکھنا
دعاکرنے کرنے والے کوچاہئے کہ وہ دعاپریقین واعتقادرکھتاہے اوراس کے قبول ہونے
پربھی یقین رکھتاہوکا،وہ لوگ جودعاپراعتقاد نہیں رکھتے ہیں اوراپنی دعاؤں کے قبول ہونے کی
کوئی امیدنہیں رکھتے ہیں یعنی یقین واعتقادکے ساتھ دعانہیں کرتے ہیں بلکہ ناامیدی کے
ساتھ دعااورتوبہ کرتے ہیں اوراپنے گناہوں کے معاف ہونے کی کوئی امیدنہیں رکھتے ہیں
توخداوندعالم ایسے لوگوں کی دعاوتوبہ کوہرگزقبول نہیں کرتاہے
ناامیدی ایک گناہ عظیم اور شیطانی وسوسہ ہے لہٰذاانسان کوچاہئے اپنے آپ کوناامیدی
کی راہ سے باہرنکالے اورشیطانی وسوسہ کودورکرے بلکہ ضروری ہے کہ انسان خوش گمانی
رکھے اوراپنی نمازودعااورتوبہ کے قبول ہونے کی امیدرکھے اوراس بات کااعتقادرکھے کہ
پروردگارعالم میری نمازودعاکوقبول کرے گا،اگرتوبہ کروں تووہ میرے گناہوں کومعاف کردے
گا،اگراسے یادکروں تووہ جواب ضروردے گا،اگرعمل خیرانجام دوں توقبول کرے گااوراجروثواب بھی
عطاکرے گا۔
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:انّ الله عزوجل لایستجب دعاءً یظہرمن قلب ساہ
) ،فاذادعوت فاقبل بقلبک فظنّ حاجتک بالباب.( ٢
امام صادق فرماتے ہیں:بیشک خداوندعالم اس دعاکوہرگزقبول نہیں کرتاہے جوغفلت دل
کے ساتھ انجام دی جاتی ہے لہٰذاتم جب بھی دعاکروتواپنے دل کوخداکی طرف متوجہ رکھو،اس
کے قبول ہونے کادل میں یقین رکھواوریہ گمان کروکہ گویا حاجت تمھارے دروازے پہ کھڑی ہے۔
--------
. ٢)مکارم الاخلاق/ص ٧٠ ) . ١(سورہ أبراہیم (علیه السلام) /آیت ۴٠ (
|