نمازکے آداب واسرار
 


ترک نماز
کسی بھی حال میں نمازکاترک کرناجائزنہیں نمازکی اہمیت اوراس کے فضائل وفوائداوراس کے واجب ہونے کے بارے میں ذکرکی گئی آیات قرآنی واحادیث معصومین سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کسی بھی حال میں اس کاترک کرناجائز نہیں ہے اورجس صورت میں ممکن ہوسکے اورجس مقدارمیں بھی ممکن ہوسکے نمازپڑھی جائے اورانسان جس طرح سے مضطرہوتاجائے اسی کے اعتبارسے نمازمیں بھی تخفیف ہوتی ہوتی رہے ۔
عبدالرحمن ابن ابی عبداللھسے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے دریافت کیا:اگرآپ سواری حالت میں ہیں یاپیدل ہیں اورکسی چیزکاخوف ہے توکس طرح نمازپڑھیں گے ؟اورمیں نے پوچھا: اگرکسی کوچوریادرندہ کاخوف ہے تووہ کسی طرح نمازپڑھے ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:
یکبرویومی براسہ ایماء
وہ شخص تکبیرکہے اوراپنے سرکے اشارے سے نمازپڑھے۔
. تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٣٠٠
اگرکوئی شخص کسی درندہ وغیرہ کے چنگل میں پھنسجائے گیاہے اورنمازکاوقت بھی ہوتو اس صورت میں بھی نمازکاترک کرناجائز نہیں ہے بلکہ حسب امکان نمازکاپڑھناواجب ہے خواہ آنکھوں کے اشارہ ہی سے نمازپڑھے لیکن نمازکاترک کرناجائزنہیں ہے۔ روایت میں آیاہے کہ علی ابن جعفر (علیه السلام)نے اپنے بھائی امام موسیٰ کاظم سے دریافت کیا: اگر کوئی شخص کسی حیوان درندہ کے چنگل میں گرفتار ہوجائے اور بالکل بھی حرکت نہ کرسکتا ہو اور نماز کا وقت پہنچ گیا ہواوروہ اس درندہ کے خوف کی وجہ سے بالکل بھی حرکت نہ کرسکتاہو،اگروہ کھڑے ہوکرنمازپڑھے تورکوع وسجودکی حالت میں اس کااورزیادہ خطرہ ہے اوروہ شخص سمت قبلہ بھی نہ ہواب اگروہ اپنے چہرے کوقبلہ کی سمت کرے توپھربھی خطرہ ہے کہ وہ درندہ پیچھے سے حملہ کردے گاتواس صورت میں وہ شخص کیاکرے اورکسی طرح نمازپڑھے؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:
یصلی ویومی راسہ ایماء وہوقائم وان کان الاسدعلی غیرالقبلة.
ایسے موقع پر اس شخص کا وظیفہ یہ ہے کہ کھڑے ہوکرنمازپڑھے اورسرکے ذریعہ رکوع ) وسجودکی طرف اشارہ کرتارہے خواہ وہ شیرپشت بہ قبلہ ہی کیوں نہ ہو۔( ١
. ١(کافی/ج ٣/ص ۴۵٩ (
سماع ابن مہران سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے دریافت کیا:وہ شخص جومشرکین کے ہاتھوں گرفتارہوجائے اورنمازکاوقت پہنچ جائے اوراسے خوف ہوکہ یہ مشرک مجھے نمازنہیں پڑھنے سے منع کریں گے تووہ کیاکرے اورکس طرح نمازپڑھے؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:
یومی ایماء. وہ شخص فقط شارہ سے نمازپڑھے۔ . من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۴۶۴ قال ابوعبدالله علیہ السلام:من کان فی مکان لایقدرعلی الارض فلیو مٔ ایماء. اما م صادق فرماتے ہیں:اگرکوئی کسی جگہ میں گرفتارہوجائے وہ زمین پرنہ ٹھہراہوبلکہ (پانی غرق ہورہاہویاصولی پرلٹکاہو)تووہ اشارہ سے نمازپڑھے۔ . تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ١٧۵
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :مریض شخص کوچاہئے کہ کھڑے ہوکر نمازپڑھے اوراگرکھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتاہے توبیٹھ کرنمازپڑھے ،اگربیٹھنے سے بھی مجبورہے تودائیں کروٹ لیٹ کرنمازپڑھے اوراگردائیں کروٹ نہ لیٹ سکتاہو توبائیں کروٹ لیٹ کر نمازپڑھے اوربائیں کروٹ بھی نہیں لیٹ سکتاہے توسیدھالیٹ کرنمازپڑھے اوراپنے چہرے کوقبلہ کی سمت رکھے اور(رکوع سجودوغیرہ کواشارہ کے ذریعہ انجام دے )جب سجدہ کے لئے اشارہ کرے توجت نااشارہ رکوع کے لئے کیاتھااسسے تھوڑازیادہ اشارہ کرے۔
. من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣۶٢
امام صادق فرماتے ہیں:مریض شخص کوچاہئے کہ کھڑے ہوکر نمازپڑھے اوراگرکھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتاہے توبیٹھ کرنمازپڑھے ،اگربیٹھنے سے بھی مجبورہے تولیٹ کرنمازپڑھے،__________تکبیرکہے اورقرائت کرے ،جب رکوع کرنے کاراداہ کرے تواپنی آنکھوں کوبندکرے اورتسبیح کرے ،جب تسبیح کرلے توآنکھوں کوکھولے جورکوع سے بلندہونے کااشارہ ہے اورجب سجدہ کرنے کاارادہ کرے توآنکھوں کوبندکرے اورتسبیح کرے اس کے بعدآنکھوں کوکھولے جوسجدہ سے سربلندکرنے کااشارہ ہے (گویاہررکعت کواشارہ سے پڑھے )اس کے
بعدتشہدوسلام پڑھے اورنمازکوتمام کرے ۔
. کافی /ج ٣/ص ۴١١ ۔من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣۶١ ۔تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١۶٩
عمربن اذینہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کی خدمت میں ایک خط لکھااورپوچھاکہ اس مرض کی حدکیاہے کہ جس کی وجہ سے انسان روزہ کوافطارکرسکتاہے اوروہ مرض کہ جس کی وجہ انسان کھڑے ہوکرنمازپڑھنے کوترک کرسکتاہے اس کی حدکیاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:
بل انسان علیٰ نفسہ بصیرة،ذاک ہوا عٔلم بنفسہ۔
)اس کی کوئی حدنہیں ہے بلکہ)ہرانسان اپنے نفس کے بارے میں خودجانتاہے اورمرض کیمقدارکوتشخیص دیناخودمریض سے مربوط ہے ،وہ اپنے مرض کے بارے میں زیادہ علم رکھتاہے (کہ میں کت نامریض ہوں،کھڑے ہونے کی قدرت ہے یانہیں ،بیٹھنے کی ہمت ہے یانہیں )۔
. استبصار/ج ٢/ص ١١۴
معصومین کی تاریخ میں جنگ کے چندواقعات ایسے ملتے ہیں کہ انھوں نے جنگ جیسے پرآشوب ماحول میں بھی نمازکوترک نہیں کیااورمسلمانوں کودرس دے دیاکہ دشمن سے سے نبردآزمائی کے وقت بھی نمازکاترک کرناجائزنہیں ہے ۔ امام علی ابن ابی طالبکی تاریخ حیات میں لکھا ہے کہ آپ جنگ صفین میں دشمنان اسلام سے جنگ کررہے تھے کہ اچانک سورج کی طرف دیکھنے لگے ،ابن عباس نے کہا:یاامیرالمومنین ! یہ آپ کیاکررہے ہیں ؟حضرت علینے جواب دیا: اَنْظُرُاِلَی الزَّوَالِ حتّی نُصَلِّی”میں دیکھ رہاہوں کہ ابھی ظہرکاوقت ہواہے یانہیں تاکہ(معمول کے مطابق اورہمیشہ کی طرح اول وقت )نمازاداکروں،ابن عباس نے تعجب سے کہا:کیایہ نمازکاوقت ہے؟اس وقت ہم اسلام کے دشموں سے جنگ میں مشغول ہیں، اگرہم نے جنگ سے ہاتھوں کوروک لیاتودشمن ہم پرغالب آجائیں گے ،مولائے کائنات نے جواب دیا: ”علیٰ مانقاتلہم ؟انّمانقاتلہم علی الصلاة ”ہماری ان سے کس لئے جنگ ہورہی ہے ؟بے ) شک اسی نمازہی کے لئے توان سے جنگ ہورہی ہے ۔( ١
. ١(وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ١٧٩ (
تاریخ کربلامیں یہی ملتاہے ہے کہ امام حسین نے دشمنوں کے نرغہ میں جنگ کے درمیان بھی نمازکوترک نہیں بلکہ نمازوعبادت ہی وجہ سے دشمنوں سے ایک رات کی مہلت طلب کی تھی ،کرب سے ایک درس یہ بھی ملتاہے کہ دشمن کے نرغہ میں گھرجانے بعدنمازکاترک کرناجائزنہیں ہے
نواسہ رٔسول سیّد الشہداء حضرت اباعبدالله الحسیننے اسی نمازاوردین اسلام ناناکی قبرسے رخصت ہوئے ،بھائی کی قبرکوالوداع کہا،اور ٢٨ /رجب کوایک چھوٹاساکاروان لے کرمکہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن جب امام حسیننے حالات ایسے دیکھے کہ یہ دنیامیرے خون کی پیاسی ہے اورامام(علیه السلام) نہیں چاہتے تھے کہ خانہ کعبہ نبی کے نواسہ کے خون سے رنگین ہوجائے لہٰذاکربلاکی طرف رخ کیااوردومحرم الحرام کوخاک کربلاپروارد ہوئے، ہرطرف سے دشمنوں کے لشکرپہ لشکرآنے لگے ،لاکھوں کے تعدامیں میں تیر،تلوار، نیزے وغیرہ ہاتھوں میں لئے ہوئے رسول کے مختصرسے کنبہ کاخاتمہ کردینے کے لئے تیارکھڑے ہیں ، ٩/محرم کی شام آئی توامام حسیننے ( جونمازومناجات کوبہت ہی زیادہ دوست رکھتے تھے )دشمنوں سے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ زندگی کی آخری رات اصحاب باوفاکے ساتھ نمازوعبادت میں گذاریں،شب عاشورامام (علیه السلام)کے صحابی نمازودعامیں مشغول تھے ،کوئی رکوع میں تھا،توکوئی سجدہ میں گڑگڑارہاتھا،دشمن نے بھی اس بات کااقرارکیا ہے کہ حسین (علیه السلام)کے خیموں سے شہدکی مکھیوں کی آوازکے مانند پوری رات نمازومناجات کی آوازیں بلندتھیں
جب صبح عاشورنمادارہوئی توشبیہ رسول حضرت علی اکبرنے اذان کہی اورتمام دوستداران اہلبیت نے امام (علیه السلام)کی اقتدامیں نمازصبح اداکی ،نمازکے بعدامام (علیه السلام)جنگ کے لئے تیارکیانے وہ وقت بھی آیاکہ عمرابن سعدنے چلہ کمان میں تیرلگایااور خیام حسینی کی طرف پرتاب کرتے ہوئے کہا:اے لوگو!گواہ رہنامیں نے پہلاتیرچلایاہے ،یہیں سے دشمن کی طرف سے جنگ کاآغازہوا۔
اصحاب امام (علیه السلام)یکے بعدیگرے امام حسین کی خدمت میں آتے اوراذن جہادلے کرمیدان کارزارمیں جاتے اورجام شہادت پیتے رہے اورامام (علیه السلام)لاشے اٹھاکرلاتے رہے ،جب ظہرکاوقت پہنچاتواپنے ساتھیوں کوحکم دیاکہ نمازظہرکااہتمام کیاجائے
علامہ مجلسی “بحارالانوار” میں لکھتے ہیں:کتاب ابوثمامہ صیداوی نے جب یہ دیکھا کہ اصحاب امام (علیه السلام)یکے بعد دیگر ے میدان کا رزار میں جاکر اپنی شجاعت کے جوہر دکھا رہے ہیں اور درجہ شٔہادت پر فائز ہورہے ہیں تو امام حسین کی خدمت میں اکر عرض کیا : یا اباعبد الله ! میں آپ پر قربان جاؤں دشمنوں کے لشکر بالکل قریب آگئے ہیں اس سے پہلے کہ وہ آپ پر کوئی حملہ کریں میں قربان ہوجاؤں اوراب چو نکہ نماز ظہر کا وقت ہو گیا ہے میں چاہتا ہو ں کہ پہلے نماز پڑھوں اور اس کے بعد شہید ہو جاؤ ں امام (علیه السلام) نے فرمایا : تم نے نماز کو یاد کیا خدا تم کو نماز گزار وں میں سے قرار دے ،امام (علیه السلام)ابوثمامہ سے کہا: اے ابو ثمامہ ! نمازکااول وقت ہے لہٰذاتم دشمنوں سے کہوکہ وہ ہم کوہمارے حال پرچھوڑدیں (اورجنگ بندکردیں تا کہ ہم نماز پڑھ سکیں)ابوثمامہ نے جیسے ہی یہ پیغام دشمن تک پہنچا یاتو حصین بن نمیربولا :تمہاری نماز قبول نہیں ہے،حبیب ابن مظاہرنے فوراً جواب دیا : اے خبیث ،کیا تو گمان کرتا ہے کہ فرزندرسول کی نماز قبول نہیں ہے اورتیری نمازقبول ہے ؟یہ جواب سن کرحصین نے حبیب پرحملہ کیا،پھرحبیب نے بھی اس پرحملہ شروع کردیااورتلوار سے اس کے گھوڑے کامنھ کاٹ ڈالا.
زہیر ابن قین اور سعید ابن عبد اللھحنفی،ہلال بن نافع اورچنددیگرصحابی دشمنوں کے وحشیانہ ہجوم سے مقابلہ کرنے کے لئے دیواربن کر امام (علیه السلام)کے آگے کھڑے ہوگئے اس کے بعد امام (علیه السلام) نے اپنے آدھے صحابیوں کے ساتھ نمازظہرشروع کی چونکہ آپ ) نرغہ أعداء میں تھے اسلئے نمازخوف بجالائے۔( ١
تاریخ کے اوراق میں لکھا ہے کہ:جب امام (علیه السلام)نے نمازشروع کی توسعید ابن عبدالله حنفی حضرت امام حسین کے آگے کھڑے ہوئے اوردشمن کی طرف سے آنے والے ہر تیرکو اپنے سینے پر کھاتے رہے ،جس طرف بھی کوئی تیرآتا تھافوراً آگے بڑھ کراسے اپنے سینہ پرکھالیاکرتے تھے اوراپنے آپ کو سپر قرار دیتے تھے ،اسی طرح امام (علیه السلام)کی حفاظت کرتے رہے یہاں تک کہ پے درپے بہت زیادہ تیر کھانے کے بعد اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اورزمین پر گرنے کے بعد کہ رہے تھے:
پروردگارا!قوم عادوثمودکے عذاب کو ان دشمنوں پر نازل کرد ے اور اپنے رسول کی خدمت میں میرا سلام پہنچا .اور جوکچھ دردوزخم مجھ تک پہنچے ہیں ان کی بھی اپنے رسول کوخبر دے اور میں تیر ے رسول کے نواسہ کی مدد کے بدلے میں اجروثواب کا خواہشمند ہوں اس کے بعدسعیدابن عبدالله کی روح بار گاہ ملکو تی کی طرف پرواز کر گئی اور حالت یہ تھی کہ نیزہ اور ) شمشیر کے زخموں کے علاوہ ١٣ / تیر بدن میں پیوست تھے۔( ٢
--------
. ٢)مقتل الشمس/ص ٢١٧ ۔ ٢١٨ ) . ١(بحارالانوار/ج ۵۴ /ص ٢١ (

تار ک الصلاة کاحکم


تارک الصلاة کافرہے
تارک الصلاة لوگوں کے دوگروہ ہیں کچھ بے نمازی ایسے ہیں جونمازکے واجب ہونے سے انکارکرتے ہیں اوریہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نمازواجبات دین میں سے نہیں ہے ،وہ لوگ جوعمدانمازترک کرتے ہیں اورنمازسے کسی اجروثواب کی امیدنہیں رکھتے ہیں اورترک نمازکے عذاب وعقاب سے بھی نہیں ڈرتے ہیں وہ مسلمان کے دائرے سے خارج ہوجاتے ہیں اورمرتدو کافربن جاتے ہیں اوریہودی ،یانصرانی یامجوسی کی موت مرتے ہیں۔
منکرنمازایساہے کہ گویا اس نے حکم قرآن کے برخلاف ایک نیاحکم وضع کیاہے اوراسنے حلال خداکوحرام اورحرام خداکوحلال قراردیاہے لہٰذادین اسلام سے خارج ہوجاتاہے اوروہ اس طغیانی اورسرکشی کی وجہ سے عذاب وعقاب کامستحق ہے ،اس بات کوسب جانتے ہیں کہ خدانے شیطان کواپنی بارگاہ سے اس لئے نکالاتھاکہ اس نے الله کاحکم کوماننے سے انکارکردیاتھااورصرف انکارسجدہ کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے لعنت کاطوق اس کی گردن میں پڑگیا۔
نمازکے واجب ہونے سے انکارکرنے والوں کاحکم یہ ہے کہ ایسے لوگ کافراورمرتدہیں ،ان کابدن پاک نہیں ہے بلکہ وہ لوگ نجس ہیں ،دین اسلام میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے ،اگرکوئی مسلمان منکرنمازکو قتل کردے تواس کاقصاص نہیں ہے لیکن چونکہ خدادنیامیں سب پراپنا رحم وکرم نازل کرتاہے اس لئے وہ دنیامیں آرام سے زندگی بسرکرتاہے لیکن عالم برزخ وآخرت میں سخت عذاب الٰہی میں مبتلاہوگااورہمیشہ جہنم کی آگ میں جلتارہے گاجیساکہ قران میں ارشادخداوندی ہے:
) >وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْاوَکَذَّبُوْابِاٰیٰت نآاُوْلٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِہُمْ فِیْہَاخَالِدُوْنَ>( ١ جولوگ کافرہوگئے اورانھوں نے ہماری نشانیوں کوجھٹلادیاوہ جہنمی ہیں اورہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے۔
. ١(سورہ بٔقرہ/آیت ٣٨ (
کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جونمازکوواجب سجھتے ہیں لیکن چندعلل واسباب کی بناء پر(جنھیں ہم ذکرکریں گے)نمازکوبہت ہی آسان اورہلکاسمجھتے ہیں اورنمازکواپنے اوپرایک بوجھ محسوس کرتے ہوئے ،اس کے اداکرنے میں لاپرواہی کرتے ہیں ،نمازکی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ہیں ،اوراصلاًنمازنہیں __________پڑھتے ہیں یاایک دن پڑھتے ہیں اوردوسرے دن ترک کردیتے ہیں یاایک وقت پڑھتے اوردوسرے وقت کی قضاکردیتے ہیں اورقضاکی ہوئی نمازوں کوانجام دینے کی فکربھی نہیں کرتے ہیں اوراگرفکربھی کرتے ہیں توانھیں آئندہ سال تک کے لئے تاخیرمیں ڈال دیتے ہیں،یانمازمیں اس کے آداب وشرائط کارعایت نہیں کرتے ہیں اورجلدبازی میں نمازپڑھتے ہیں وہ لوگ کافرکاحکم رکھتے ہیں،ہم یہاں پراسبارے میں چندروایتوں کوذکرکررہے ہیں: عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:مابین المسلم ) وبین اَنْ یکفرالااَن یترک الصلاةالفریضة متعمداًاَویتہاون بہافلایصلیہا۔( ١ حضرت امام صادق سے مروی ہے :رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :کسی مسلمان کے کافرہوجانے میں صرف ات نافاصلہ ہے کہ وہ نمازکوعمداًترکرے یانمازپڑھنے میں سستی استعمال کرے اورنمازنہ پڑھے یہاں تک کہ قضاہوجائے ۔
--------
. ثواب الاعمال/ص ٢٠٧
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:من ترک الصلاة لایرجواثوابہا ولایخاف ) عذابہافلاابالی ا یٔموت یہودیاًا ؤنصرانیاًا ؤمجوسیاً۔( ۴ رسول خدا (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو ترک کرتا ہے اور نماز کے وسیلہ سے کسی اجرو ثواب کی امید نہیں ر کھتا ہے اور ترک نماز کے عذاب وعقاب سے بھی نہیں ڈرتاہے مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایساشخص یہود ی یانصرانی یا مجوسی کی موت مرتا ہے۔
--------
. ۴(مصباح الفلاح/ص ١٧۴ (
حضرت امام صادق فرماتے ہیں : ایک شخص رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کی خدمت میں حاضرہوااور عرض کیا :یا رسول الله آپ مجھے کو ئی نصیحت کیجئے آنحضرت نے فرمایا : نماز کو عمداً ترک نہ کرو کیو نکہ جو شخص عمداً نماز کو ترک کر تا ہے خدا اور اس کے رسول اورپوری ملت اسلا میہ اس سے بیزاررہتی ہے(اوروہ شخص کافرہے جس سے الله اوراس ) کے رسول ناخوش ہوں)۔ ( ١
. ١ (جامع الاحادیث الشیعہ،ج ۴،ص ٧۴ (
عبیدابن زرارہ سے مروی ہے: میں نے امام صادق سے سوال کیا: کن کاموں کو گناہ کبیرہ کہاجاتا ہے ؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا : کلام امیرالمومنین حضرت علی میں سات چیزیں گناہ کبیرہ ہیں:
١۔ وجودذات باری تعالیٰ کا انکار کرنا ٢۔ انسان کو قتل کرنا ٣۔ عاق والدین قرار پانا ۴۔ سودلینا ۵۔ ظلم وستم کے ساتھ یتمیوں کا مال کھانا ۶۔ میدان __________جہاد چھوڑکربھاگ جانا ٧۔ ہجرت کے بعد اعرابی ( ١)) ہوجانا
میں نے امام (علیه السلام)سے عرض کیا : کیا یہ چیزیں گناہ کبیرہ ہیں ؟ فرمایا: ہاں . میں نے امام (علیه السلام)سے سوال کیا : یتیم کے مال سے ظلم کے ساتھ ایک درہم کھانا بڑا گناہ ہے یا نماز کا ترک کرنا ؟ امام (علیه السلام)نے جواب دیا : ترک نمازاس سے بھی بڑا گناہ ہے میں نے پو چھا : پھر آپ نے ترک نماز کوگناہ کبیر ہ میں شمار کیوں نہیں کیاہے ؟ امام (علیه السلام) (علیه السلام)نے فرمایا : میں نے گناہ کبیرہ میں سب سے پہلے کس چیزکوذکر کیا ہے ؟ میں نے کہا : کفرکو، تو امام (علیه السلام) نے فرمایا : نماز ترک کرنے والا ) شخص کافر ہے( ١
. ١(وسائل الشیعہ/ج ١١ /ص ٢۵۴ (
١ (صحرانشینی کوچھوڑکررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)یا ان کے جانشین کی ( خدمت میں پہنچ کردین اسلام اختیارکرنااوراس کے احکام ومسائل سے آگاہ ہونے کوہجرت کہاجاتاہے لہٰذاجوشخص دین اسلام سے مشرف ہوکراوراس کے احکام ومسائل سے مطلع ہونے کے بعداپنی پہلی والی حالت پرواپس آجائے ےعنی دوبارہ جہالت ونادانی کی طرف پلٹ .) جائے اسے اعرابی کہاجاتا ہے (گناہان کبیرہ /ج ٢/ص ۵۔ ۶
مسعدہ ابن صدقہ سے مروی ہے کہ :کسی نے امام صادق سے سوال کیا : کیاوجہ ہے کہ آپ زانی جیسے شخص کوکافرنہیں کہتے ہیں اورتارک الصلاة کو کا فرکہتے ہیں ؟امام (علیه السلام) نے جواب دیا : کیونکہ زانی وہ شخص ہے جو شہوت نفسانی کے غالب ہوجانے کی وجہ سے زناکا مرتکب ہوتاہے ، لیکن وہ شخص جو نمازکو ترک کرتا ہے وہ اسے ہلکااورناچیز سمجھ کرترک کرتاہے
تارک الصلاة کوکافرقراردینے اورزانی کوکافرقرارنہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زانی جب اس گناہ کی طرف قدم اٹھاتاہے اورکسی نا محرم عورت کی تلاش میں نکلتاہے اوراس کے ساتھ زناکامرتکب ہوتاہے تووہ اس گناہ کو انجام دینے میں لذّت حاصل کرنے کاارادہ رکھتاہے لیکن تارک الصلاة کو ترک نماز سے ہر گز لذّت کاارا دہ نہیں رکھتاہے کیونکہ ترک نماز میں کوئی لذّت نہیں پائی جاتی ہے اسی لئے نماز کو ہلکااورنا چیز سمجھ کر ترک کرتا ہے اور نماز کو ہلکا شمار کرنے کی وجہ سے کفرحاصل ہوجاتاہے ۔
علامہ مجلسی فرماتے ہیں : اس حدیث میں کفرسے اس کے حقیقی معنی مرادنہیں ہیں کہ تارک الصلاة نجس ہے اور یہ بھی مراد نہیں ہے کہ تارک الصلاة سے ہاتھ سے کسی مرطوب چیزکا لیناحرام ہے وغیرہ وغیرہ تارک الصلاة منکرنماز نہیں ہے اور نہ ترک نماز کو حلال ) شمار کرتا ہے کیونکہ اسصورت میں اگر زناکار بھی زناکو حلال جانتاہے ، کافر ہے۔( ١ ) قال الصادق علیہ السلام:لیسمن شیعت نامن لم یصل الصلاة۔( ٢ امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازکوترک کرتاہے وہ ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہے
--------
. ٢)المقنہ( شیخ مفید)/ص ١١٩ ) . ٢(اصول کافی(باب کفر)/ج ۴/ص ٩٧ ۔ ٩٨ (


تارک الصلاة کو ہنساناگناہ عظیم ہے
دین اسلام میں بے نمازی کے چہرے پرمسکراہٹ دلانا گناہ کبیرہ ہے قال رسو ل الله صلی الله علیہ وآلہ:من تبسم فی وجہ تارک الصلاة فکانماہدم الکعبة ) سبعین مرة وقتل سبعین ملکا۔( ١
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص کسی بے نمازی کے چہرے پرمسکراہٹ دلائے گویااسنے سترمرتبہ کعبہ کومنہدم کیااورسترملائکہ کوقتل کیا۔ قال علیہ السلام:من تبسم فی وجہ تارک الصلاة فکانماہدم بیت المعمورسبع ) مرة،وکانّماقتل الف ملک من الملائکة المقربین والانبیاء المرسلین۔( ٢ امامفرماتے ہیں:جوشخص کسی بے نمازی کے چہرے پرمسکراہٹ دلائے گویااس نے بیت المعمورکوسات مرتبہ منہدم کیااورگویااسنے اللھمقرب ہزارفرشتوں اورہزارنبیوں کوقتل کیا۔
--------
. ٢)لئالی الاخبار/ج ۴/ص ١۵ ) . ١ (لئالی الاخبار/ج ۴/ص ١۵ (

تارک الصلاة کی مددکرناحرام ہے
قال علیہ السلام:من اعان تارک الصلاةبلقمة ا ؤکسوة فکانّماقتل سبعین نبیّااوّلہم ) آدم(ع)وآخرہم محمد(ص)۔( ۴
امامفرماتے ہیں:جوشخص کسی بے نمازی کی ایک لقمہ یاکسی کپڑے سے مددکی گویااس نے سترنبیوں کاقتل کیاجن میں سب سے پہلے آدم (علیه السلام)اورآخری حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)ہیں۔
۴(لئالی الاخبار/ج ۴/ص ۵١ (
) قال:من اعان تارک الصلاة بلقمة کانّمااعان علی قتل الانبیاء کلّہم ۔( ١ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جس شخص نے کسی بے نمازی کی ایک لقمہ کے ذریعہ بھی مددکی گویااس نے تمام انبیاء کے قتل میں مددکی ہے ۔

تارک الصلاة کے ساتھ کھاناپیناحرام ہے
قال صلی الله علیہ وآلہ وسلم :من آکل مع من لایصلی کانّمازنیٰ بسبعین محصنة من ) بناتہ وامہاتہ وعماتہ وخالاتہ فی بیتہ الحرام ۔( ٢ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص بے نمازی کے ساتھ کھاناکھائے ایساہے جیسے اس نے بیت الحرام میں اپنی ٧٠ /پاکدامن لڑکیوں اورماو ںٔ اورپھوپھی،خالہ اورچچی کے ساتھ زناکیاہو۔
بے نمازی کو غسل وکفن نہ دیں اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کریں قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:من ترک الصلاة ثلاثة ایام فاذامات لایغسّل ولایکفّن ) ولایُدفنُ فی قبورالمسلمین ۔( ٣
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص تین دن تک عمداً نمازترک کرتاہے اسے غسل وکفن نہ دیاجائے اوراسے مسلمانوں کے قبرستان میں بھی دفن نہ کیاجائے ۔
--------
٣)جامع ) . ٢)لئالی الاخبار/ج ۴/ص ۵١ ) . ١(لسان المیزان /ج ٢/ص ٢۵١ ( . الاخبار/ص ١٨٧

نمازکوہلکاسمجھ کرترک یاضایع کرنے کاعذاب
وہ لو گ جونمازچندعلل واسباب(جنھیں ہم ذکرکریں گے )کی بنا پرنمازکوبہت ہی آسان اورہلکاسمجھتے ہیں اورنمازکواپنے اوپرایک بوجھ محسوس کرتے ہوئے ،اس کے اداکرنے میں لاپرواہی کرتے ہیں ،نمازکی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ہیں ،اوراصلاًنمازنہیں پڑھتے ہیں یاایک دن پڑھتے ہیں اوردوسرے دن ترک کردیتے ہیں یاایک وقت پڑھتے اوردوسرے وقت کی قضاکردیتے ہیں اورقضاکی ہوئی نمازوں کوانجام دینے کی فکربھی نہیں کرتے ہیں اوراگرفکربھی کرتے ہیں توانھیں آئندہ سال تک کے لئے تاخیرمیں ڈال دیتے ہیں،یانمازکے آداب وشرائط کی رعایت نہیں کرتے ہیں ،یااہلبیت کی محبت کے بغیرنمازیں پڑھتے ہیں: ١۔ایسے لوگوں کے لئے الله کی طرف سے دنیامیں بھی عذاب ہے اورآخرت میں بھی انھیں دردناک عذاب میں مبتلاکیاجاے گااوراس کوئی نیک عمل بھی قبول نہیں کیاجائے گا۔ قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:
) >وَکَاَیِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِرَبِّہَاوَرُسُلِہِ فَحَاسَبْنٰہَاحِسَاباً شَدِیْدًا وَعَذَّبْنَاہَاعَذَابًانُکْرًا>( ١ اورکت نی ہی بستیاں ایسی ہیں جنھوں نے حکم خدا ورسول کی نافرمانی کی توہم نے ان کاشدیدمحاسبہ کیااورانھیں بدترین عذاب میں مبتلاکردیا۔
. ١(سورہ طٔلاق /آیت ٨۔ ١٠ (
قال رسول الله صلی الله علیہ والہ:من ترک الصلاة حتی تفوتہ من غیرعذرفقدحبط ) عملہ۔( ٢
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص نمازکوبغیرکسی مجبوری کے ترک کردیتاہے اس کے تمام اعمال اس سے سلب کرلئے جاتے ہیں اوراسے اس کے بقیہ نیک کاموں پرکوئی اجرنہیں ملتاہے۔
. ٢(بحارالانوار/ج ٧٩ /ص ٢٠٢ (
٢۔ بے نمازی محمدوآل محمد کی شفاعت سے محروم رہے گا اوراسے حوض کوثرسے سیراب نہیں کیاجائے گا
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:لیس منی من استخف بصلاتة ،لایردعلیّ الحوض ) لاوالله،ولیسمنی من شرب المسکراً،لایردعلیّ الحوض لاوالله( ١ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جواپنی نمازوں کے بارے میں بے توجہی ولاپرواہی کرتاہے اورخداکی قسم ایسا شخص میرے ساتھ حوض پرنہیں ہوگااوروہ شخص بھی میرے پاس حوض کوثرپرنہیں ہوگاجومسکرات کااستعمال کرتاہے۔
عن ابی بصیرعن ابی جعفرعلیہ السلام قال:قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:لاینال ) شفاعتی من استخف بصلاتہ ،لایردعلیّ الحوض لاوالله۔( ٢
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جونمازکوہلکاشمارکرتاہے اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی اوروہ حوض کوثرپرمیرے پاس نہیں ہوگا۔
--------
. ٢)اصول کافی/ج ۶/ص ۴۴٠ ) . ١(من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠۶ (
ابوبصیر سے مروی ہے:میں حضرت امام صادقکی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ امّ حمیدہ کی خدمت میں تسلیت پیش کرنے کیلئے پہنچا تو انھوں نے رونا شروع کردیا انھیں روتے ہوئے دیکھ کر میں بھی امام (علیه السلام)کی یاد میں رونے لگا اس وقت انھوں نے مجھ سے کہا:اے ابوبصیر! اگر تم امام (علیه السلام)کی شہادت کے وقت ان کے پاس موجو د ہوتے تو ایک عجیب منظر دیکھتے ، امام نے پروازروح سے قبل اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا : میرے تمام عزیزوں واقارب کومیرے پاس جمع کیا جائے ، کوئی ایساباقی نہ رہاجواس وقت نہ آیاہو،جب سب امام (علیه السلام)کی خدمت میں حاضر ہوگئے توامام صادق نے ان کی طرف نگاہ کر کے ارشاد فرمایا :
انّّ شفاعت نالات نال مستخفاًبالصلاة نمازکوہلکاسمجھنے والے کوہرگزہماری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔
. من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠۶
بے نمازی دنیاوآخرت میں پندرہ مشکلوں میں گرفتارہوتاہے حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول خدا (صلی الله علیه و آله)فرماتی ہیں:ایک دن میں نے اپنے والدمحترم سیدالمرسلین حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) سے پوچھا : اے بابا جان ! ہروہ مرد اور عورت جو نمازپڑھنے میں لاپرواہی اور بے توجہّی استعمال کرتے ہیں اور نماز کو بہت آسان کام سمجھتے ہیں ان کی سزاکیاہے؟
ختم المرسلین نے جواب دیا: اے میری پارئہ جگر ! اگر کوئی مرد یا عورت نماز کو آسان کام سمجھتا ہے اوراس کے اداکرنے میں لاپرواہی استعمال کرتا ہے توایساشخص دنیا وآخرت میں ١۵ /مشکلوں میں گرفتار ہوتا ہے ،چھ مشکلیں دنیا میں ہی اس کودرپیش آتی ہیں اور تین مشکلوں میں مرتے وقت گرفتار ہوتا ہے اور تین مشکلیں قبر کے اندرواقع ہونگی اور تین مشکلوں میں اس وقت گرفتارہوگاجب اسے روز قیامت قبر سے بلند کیا جائے گا لیکن وہ مصبتیں جو دنیا ہی میں بے نمازی پرنازل ہوتی ہیں یہ ہیں:
یرفع الله البرکة من عمرہ ،یرفع الله البرکة من رزقہ، یمحوالله عزوجل سیماء الصالحین من وجہہ،کلّ عمل یعملہ لایوج علیہ،لایرتفع دعائہ الی السماء، لیسلہ حظٌ فی دعاء الصالحین. ١۔خدااس کی عمرسے برکت کوسلب کرلےتاہے جس سے اس کس کی عمربہت کم ہوتی ہے.
٢۔خدوندعالم نمازترک والوں کے رزق سے برکت اٹھالیتاہے . ٣۔( متقی اورپرہیز گارجیسے لوگوں کے چہرے شاداب ا ورنورا نی ہوتے ہیں اور)تارک الصلاة لوگوں کے چہروں پراکثراداسی رہتی ہے . ۴۔بے نمازی کواپنے دیگر نیک اعمال پرکوئی اجروثواب نہیں ملتاہے(جس طرح کسان کواپنی زمین کی سنچائی کئے بغیرکوئی چیزدستیاب نہیں ہوتی ہے چاہے وہ اس میں کت نے ہی کام کرتارہے اسی طرح بے نمازی اس کے کسی اچھے کام پرکوئی اجرنہیں ملتاہے چاہے کت نے ہی نیک کام انجام دیتارہے .(
۵۔الله کی بارگاہ میں اس کی دعائیں مستجاب نہیں ہو تی ہیں بلکہ اس کی بارگاہ میں اسی کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں جوواجبات کواداکرتاہے۔
۶۔بے نمازی متقی وپر ہیز گا ر لوگوں دعاؤمیں کوئی حصہ نہیں رکھتاہے اگروہ بے نمازی کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں تو خداان کی دعاؤں کوہرگزقبول نہیں کرتاہے ۔ اوروہ تین عذاب جو احتضار کے وقت بے نمازی پر نازل ہوتے ہیں یہ ہیں: انّہ یموت ذلیل، یموت جائعا،یموت عطشانا،فلوسقی من انہارالدنیالم یروِّعطشہ. ١۔مومن اورصالح افرادعزت کی موت مرتے ہیں لیکن بے نمازی لوگ ذلّت کی موت مرتے ہیں . ٢۔بھوک کے عالم میں بے نمازی کی روح قبض ہوتی
ہے . ٣۔مرتے وقت بے نمازی کو اس قدر پیاس لگتی ہے کہ اگرپوری دنیا کے دریا وسمندر کاپانی بھی اسے پلادیاجائے پھر بھی سیراب نہیں ہوسکتاہے۔ اور وہ تین عذاب جوعالم برزخ میں بے نمازی پرنازل ہوتے ہیں یہ ہیں: یوکل الله بہ ملکاً یزعجہ فی قبرہ ، یضیق علیہ قبرہ ، تکون الظلمة فی قبرہ. ١۔ خدا وند عالم ایک فرشتہ کو اس کی قبر میں موکل کرتاہے جو اسے روزقیامت تک عذاب و شکنجہ دیتا رہے گا۔
٢۔جب تمام لوگ اسے ت نگ کوٹھری میں بند کرکے اپنے گھروں کوواپسچلے جاتے ہیں تواس کی وہ قبراوربھی زیادہ ت نگ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بے نمازی فشار قبر میں مبتلا ہوتاہے ۔
٣۔اسکی قبر میں اندھیراہی اندھیراہوتاہے ۔ وہ تین عذاب جوروزمحشر قبرسے بلندہوتے وقت بے نمازی پر نازل ہونگے یہ ہیں: ان یوکل اللھملکایسبحہ علی وجہہ والخلائق ینظرون الیہ ، یحاسب حساباشدیداً ، لاینظرالله الیہ ولایزکیہ ولہ عذاب الیم
١۔ ایک فرشتہ حکم خدا سے بے نمازی کو زمین پر پیٹ کے بل لٹاکرکھینچ کر خدا کے سامنے لا ئے گا اور تمام مخلوق اس کا نظا رہ کرتی ہو گی۔
٢۔ اس کابہت ہی سخت حساب لیا جائے گا۔ ٣۔ خدا وند متعال اسے رحمت کی نگاہوں سے ہرگزنہیں دیکھے گا اوروہ پاک نہیں ہوسکتاہے اور اس کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
. ٢ (فلاح السائل /ص ٢٢ ۔بحارالانوار/ج ٨٠ /ص ١٢١ ۔ ١٢٢ (
آپ حضرات اس طولانی حدیث میں بے نمازی اورنمازکوہلکاسمجھنے والے اورنمازکوضایع کرنے والے لوگوں پردنیاوآخرت میں نازل ہونے عذاب سے مطلع ہوئے لیکن بے نمازی پردنیامیں نازل ہونے عذاب سے متعلق یہ دوواقعہ بھی قابل ذکر ہیں:
١۔ حضرت عیسیٰکے بارے میں تاریخ میں ملتاہے کہ آپ ایک مرتبہ کسی دیہات میں کے قریب سے گذررہے تھے تودیکھاکہ وہ دیہات بہت ہی سبزوشاداب ہے اور اس کے پاس سے پانی کی نہریں بھی گزررہی ہیں ،وہاں کے لوگوں نے آپ کابہت اچھااستقبال کیا اوران کی بہت عمدہ مہمان نوازی کی حضرت عیسیٰ ان کے اس حسن سلوک اورخوش اخلاقی کودیکھ کربہت زیادہ متعجب ہوئے،اتفاقاًتین سال کے بعدپھردوبارہ حضرت عیسیٰ کاوہاں سے گذرہواتودیکھاکہ وہ تمام ہرے بھرے باغ ا وردرخت، پانی کی نہریں اورچشمہ سب خشک ہوچکے ہیں ،حضرت عیسیٰ اس قریہ کی یہ حالت دنگ رہ گئے اورنہایت تعجب کے ساتھ اپنے پروردگارسے کہا: بارالٰہا!ات نی کم مدت میں یہ سب کیاہوگیاہے یہ آبادی کیوں بربادہوگئی ہے ؟ وحی الٰہی نازل ہوئی :اے عیسیٰ !ٰاس قریہ کی تباہی کی وجہ یہ ہے کہ ایک بے نمازی جب اس قریہ میں پہنچااور اس نے قریہ کے چشمہ کے پانی سے اپنامنھ ہاتھ دھویاتواس بے نمازی کی نحوست سے یہ پوراگاؤں ویران ہوگیا،زمین سے چشموں پانی کانکلنابندہوگیا،دریاکی روانی رک گئی اوراے عیسیٰ سنو!جس طرح ترک نمازکی وجہ سے دین تباہ ہوجاتاہے اسی طرح ترک ) نماز کی وجہ سے دنےا بھی تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔( ١
٢۔ ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں پہنچااورکہا:یارسول الله!میں مالدارشخص تھالیکن میں اس وقت بہت ت نگدست ہوچکاہوں،آنحضرت نے فرمایا:کیاتم نمازنہیں پڑھتے ہو؟عرض کیا:میں پانچوں وقت کی نمازیں اپ ہی کے ساتھ اداکرتاہوں،آنحضرت نے پوچھا: کیاتم روزہ نہیں رکھتے ہو؟جواب دیا:میں سال میں تین ماہ( رجب شعبان رمضان )کے روزے رکھتاہوں،آنحضرت نے پھرسوال کیا:کیاتم امرکونہی اورنہی کوامرقراردیتے ہو؟عرض کیا:نہیں یارسول الله !.
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:پھرتم ایسا کونسا گناہ انجام دیتے ہو؟ عرض کیا:اے الله کے رسول !میں کے خداو رسول کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرتاہوں،یہ بات سن کرآنحضرت نہایت تعجب کے ساتھ گہری فکرمیں مبتلاہوگئے ، پروردگارکی جانب سے جبرئیل امین نازل ہوئے اورکہا:
یارسول الله! خداآپ پردرودوسلام بھیجتاہے اورفرماتاہے:اس شخص سے کہدیجئے کہ تیرے فقیروت نگدست ہوجانے کی وجہ یہ ہے کہ تیرے گھرکے برابرمیں ایک باغ ہے جس میں ایک درخت پرچڑیاکاگھونسلہ ہے اوراس گھونسلہ میں ایک بے نمازی کی ہڈی رکھی ہوئی ہے جسکی نحوست کی وجہ سے یہ شخص فقیرہوگیاہے ۔
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے الله تبارک وتعالیٰ کے اس پیغام کواس شخص سے بیان کیا،وہ شخص باغ میں گیااور ہڈی کوگھونسلہ سے نکال کر اپنے گھرسے دورکسی جگہ ) پرپھینک آیااس کے بعدوہ شخص دوبارہ مالدارہوتاگیا۔( ٢
--------
. ٢)شناخت نماز/ص ١٧۵ ) . ١(شناخت نماز/ص ١٧۵ (

دنیامیں چارقسم کے مسلمان ہیں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری امت میں چارقسم کے لوگ ہیں: ١۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جوہمیشہ نمازپڑھتے ہیں مگراپنی نمازوں میں غفلت اورسستی کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے خداکی طرف ایک عذاب معین ہے جسکانام ویل ہے (ویل جہنّم کے ایک کنوے کانام ہے) جیسا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے: ) >فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّیْنَ الَّذِ یْنَ ھُمْ عَن صَلاَ تِھِمْ سٰاھُونَ >( ١
ویل جہنم میں ایک تباہی کی جگہ ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔
٢۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کبھی نماز پڑھتے ہیں اور کبھی ترک کردیتے ہیں ،ایسے لوگوں کواہل غی کہا جاتاہے اورغی جہنم کے کنوں میں ایک کنواں کانام ہے ،خدا وندمتعال اس گروہ کے بارے میں قرآنکریم میں ارشادفرماتا ہے: ) >فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِ ھِمْ خَلْفٌ اَضٰا عُو االصَّلٰو ةَ وَ اتَّبِعُو االشَّھَوٰ تِ فَسَوفَ یَلْقُونَ غَیا>( ٢ پھر ان کی جگہ پر وہ لوگ آئے جنھوں نے نماز کو برباد کر دیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پسیہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے۔
٣۔ دنیامیں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جوہر گز نماز نہیں پڑھتے ہیں ، ایسے لوگوں کو“اہل سَِقَرْ” کہا جاتاہے ، سَقَرْ بھی جہنم کے ایک کنوے کانام ہے ، خداوند متعال بے نمازی لوگوں کے بارے میں قرآن کریم ارشادفرماتاہے: ) >یَتَسَائَلُونَ عَنِ اْلمُجَرَ مِیْن مٰاسَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ قَا لُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ>( ٣ اہل سقرسوال کیاجائے تمھیں کس چیز نے سقرمیں پہنچا یا ہے ، وہ کہیں گے کہ ہم نمازنہیں پڑھتے تھے ۔
۴۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں اور نماز میں حضورقلب رکھتے ہیں یہ لوگ اہل بہشت ہیں جن کے مقام کے بارے میں خداوندعالم ارشادفرماتاہے: ) > قَدْ اَ فْلَحَ المُومِنُونَ الَّذِ یْنَ ھُمْ فِی صَلاٰ تِھِمْ خٰشِعُونَ >( ۴ یقیناً صاحبان ایمان کا میاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع وحضورقلب رکھتے ) ہیں۔( ۵
--------
. ٢)سورہ مٔریم/آیت ۵٩ ) . ١(سورہ ماعون /آیت ۴۔ ۵ ( . ۴)سورہ مٔومنون/آیت ١۔ ٢ ) . ٣(سورہ مٔدثر/آیت ۴٢ ۔ ۴٣ ( . ۵(شناخت نماز/ص ٧۶ (

گناہگار لوگ مومنین کے وجودسے زندہ ہیں
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب خداوندعالم اپنے تمام بندوں کے افعال وکردارسے بخوبی واقف ہے توپھران سب گناہگاروں کوزندہ رکھے ہوئے اورانھیں رزق وروزی کیوں عطاکرتاہے ؟
گناہگارر لوگ کیوںزندہ ہیں اورکیوں رزق وروزی پاتے ہیں مندرجہ ذیل احادیث اورواقعات سے یہ واضح ہوجائے گاکہ گناہگارلوگ مومنین کے طفیل سے رزق وروزی پاتے ہیں اورانھیں کے طفیل سے زندہ بھی ہیں اگردنیاسے مومنین کاوجودختم ہوجائے توپوری دنیاتباہ ہوجائے گی قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ :ان اللھجل جلالہ اذارا یٔ اہل قریة قداسرفوافی المعاصی وفیہاثلاثة نفرمن المومنین ناداہم جل جلالہ وتقدست اسمائہ:یااہل معصیتی !لولامَن فیکم مِن المومنین المتحابّین بجلالی العامرین بصلواتہم ارضی ومساجدی والمستغفرین ) بالاسحارخوفاًمِنّی ،لَاَنزَلْتُ عَذَابِیْ ثُمَّ لااُبَالِی۔( ١
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب خداوندعالم کسی بستی کے لوگوں کوگناہوں میں آلودہ دیکھتاہے او راس بستی میں فقط تین افرادمومن باقی رہ جاتے ہیں تواس وقت خدائے عزوجل ان اہل بستی سے کہتاہے:
اے گنا ہگا ر انسانو ! اگرتمھارے درمیان وہ اہل ایمان جومیری جلالت کے واسطے سے ایک دوسرے کودوست رکھتے ہیں،اورمیری زمین ومساجدکواپنی نمازوں کے ذریعہ آبادرکھتے ہیں،اورمیرے خوف سے سحرامیں استغفارکرتے ہیں نہ ہوتے تومیں کسی چیزکی پرواہ کئے بغیرعذاب نازل کردیتا۔
. ١ (علل الشرایع /ج ٢/ص ۵٢٢ (
قال الله تعالٰی: یااہل معصیتی لولاشیوخ رکّع وشابٌ خشّعٌ وصبیان الرضع وبہائم رتّع ) لصببت علیکم العذاب صبّةً۔( ١
حدیث قدسی شریف میں آیا ہے کہ خداوند متعال فرماتا ہے : اے گنا ہگا ر انسانو ! اگر رکوع کرنے والے ضعیف لوگ نہ ہوتے اور گریہ وزاری کرنے والے جوان نہ ہوتے ، شیرخوار بچے نہ ہو تے اورعلف خوار چوپائے وغیرہ نہ ہوتے تو تمہارے گنا ہوں کی وجہ سے ضرور تم پر کوئی عذاب نازل کردیتا ۔
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:انّ اللھلیدفع بمن یصلی من شیعت ناعمّن لایصلی من ) شیعت ناولواجتمعواعلی ترک الصلاة لہلکوا۔( ٢ حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خداوندعالم ہمارے شیعوں میں سے ایک نمازی کے طفیل سے بے نمازی شیعوں پرنازل ہونے والی بلاؤں کودورکرتاہے اور اگر تمام شیعہ نماز کو ترک کرنے میں متحدہو جائیں اور سب کے سب بے نمازی بن جائیں تو اس وقت تمام لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔
اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ بے نمازی شیعہ بلکہ پوری دنیاکے گناہگارلوگ شیعہ نماز گزاروں کے وجود کی برکت سے زند ہ ہیں اور انھیں کے طفیل میں رزق وروزی حاصل کرتے ہیں ۔
--------
. ٢)تفسیرالمیزان /ج ٢/ص ٢٩۵ ) . ١(عرفان اسلامی/ج ۵/ص ٧٨ (
تفسیرنورالثقلین میں لکھاہے کہ: نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)-نمازجمعہ کاخطبہ پڑھ رہے تھے کہ اسی وقت ملک شام سے دحبہ کٔلبی کاایک تجارتی قافلہ بڑے سازوسنگیت کے ساتھ شہر مدینہ میں داخل ہوااورلوگوں کوخریداری کے لئے اعلان کرنے لگا،اہل مدینہ اس کارواں کے طبل کی آوازسن کر خریداری کے لئے اپنے گھروں سے باہرنکل آئے یہاں تک کہ جومسلمان مسجدمیں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے خطبہ سن رہے تھے ،بارہ افرادکے علاوہ سبھی لوگ نمازجمعہ کو چھوڑکرمال وآذوقہ اور کھانے پینے کی اشیاء وگندم وغیرہ خریدنے کے لئے دوڑپڑے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے خطبہ کے درمیان میں ارشادفرمایا: لولاہو لٔاء لسومت علیہم الحجارة من السماء اگریہ بارہ لوگ بھی نمازکوچھوڑکر مسجدسے باہرچلے جاتے توخداوندعالم نمازچھوڑکرچلے جانے والے لوگوں پرآسمان سے پتھروں کی بارش کردیتا اسی موقع پریہ آیہ مٔبارکہ نازل ہوئی:
>اِذَارَاَوْتِجَارَةً ا ؤْلَہْوًاانْفَضُّوْااِلَیْہَاتَرَکُوْکَ قَائِمًا، قُلْ مَاعِنْدَاللهِ خَیرٌ مِنَ اللَّہْوِوَمِنَ التِّجَارَةِ ) ،وَاللھُخَیْرٌالرَّازِقِیْنَ>( ١
اے پیغمبر!یہ لوگ جب تجارت یا لہوولعب کودیکھتے ہیں تواس کی طرف دوڑپڑتے ہیں اورآپ کوت نہا چھوڑکرچلے جاتے ہیں،آپ ان سے کہہ دیجئے کہ خداکے پاس جوکچھ بھی ہے وہ ) اس کھیل وتجارت سے بہرحال بہترہے اوروہ بہترین رزق دینے والاہے۔( ٢
--------
. ٢)تفسیرنورالثقلین/ج ۵/ص ٣٢٩ ) . ١(سورہ جٔمعہ/ آیت ١١ (
حضرت امام علی رضاکے ایک صحابی جوکہ قم المقدس میں زندگی بسرکرتے تھے ایک دن قم سے امام (علیه السلام)کی خدمت میں پہنچے اورعرض کیا:اے فرزندرسول ! میں شہرقم کو چھوڑکرکسی دوسری جگہ جاناچاہتاہوں کیونکہ اس شہرمیں نادان اورگناہگارلوگ بہت زیادہ ہیں،امام (علیه السلام)نے فرمایا:
تم ایساہرگزنہ کرناکیونکہ تمھارے احترام کی وجہ سے قم کے لوگوں سے بلائیں دورہوتی ہیں،جس طرح حضرت موسیٰ کے وجود کی خاطر اہل بغدادکے سروں سے بلائیں ) دورہوتی تھیں۔( ٣
. ٣(نماز،وحکایتہاوروایتہا/ص ٢٠ (

نمازکے ترک وضائع کرنے کی اسباب
جب نمازکامقام ات نازیادہ بلندہے کہ وہ دین کاستون ہے اورہرمسلمان جانتاہے کہ الله کی طرف سے ہم پرنمازکوواجب قراردیاگیاہے اورانسان اس چیزسے اچھی طرح واقف ہے کہ نمازپڑھنے سے ہماراہی فائدہ ہے اوریہ بھی جانتے ہیں کہ نماز کثیرفضائل وکمال کی مالک ہے اورنمازکے بہت زیادہ فوائدہیں توانسان ان تمام چیزوں کوجاننے کے با وجود نمازسے دورکیوں بھاگتاہے یااسے بے اہمیت جان کرکبھی پڑھتاہے اورترک کردیتاہے یااول وقت ادانہیں کرتاہے یاوقت گزرجانے کے بعدقضاکی صورت میں پڑھتاہے؟۔
اس کے چندعلل واسباب ہیں کہ جنھیں ہم نے قرآن احادیث کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوششکی ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:

١۔لہوولعب اورکاروبارتجارت کی رغبت
دنیامیں ایسے لوگ بہت زیادہ پائے جاتے ہیں جوکھیل کود،کرکٹ ،فٹبال ہاکی …میچ کھیلنے یادیکھنے کی وجہ سے نمازکواہمیت نہیں دیتے ہیں اوراسے ترک کردیتے ہیں یاتاخیرسے اداکرتے ہیں اوربعض لوگ ایسے بھی ہیں جوکاروبارکی تجارت اورخریدفروش کی وجہ سے نمازکواہمیت نہیں دیتے ہیں یہاں تک کہ کھیل کوداورتجارت کی وجہ سے نمازجماعت کوچھوڑکربھاگ جاتے ہیں یافرادی پڑھ کرمسجد سے خارج ہوجاتے ہیں جیساکہ آپ نے گذشتہ صفحہ پر نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے خطب ۂ نمازجمعہ کے دوران کاواقعہ ملاحظہ فرمایا کہ بارہ افراد کے علاوہ سبھی لوگ نماز جمعہ چھوڑ کرمال وآذوقہ اور کھانے پےنے کی اشےاء خرےدنے کے لئے دوڑپڑے تھے اورنمازکوکوئی اہمیت نہ دی تو رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے خطبہ کے درمیان میں ارشادفرمایا:
لولاہو لٔاء لسومت علیہم الحجارة من السماء
اگریہ بارہ لوگ بھی نمازکوچھوڑکر مسجدسے باہرچلے جاتے توخداوندعالم نمازچھوڑکرچلے جانے والے لوگوں پرآسمان سے پتھروں کی بارش کردیتااور اسی وقت یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی:
) >اِذَارَاَوْتِجَارَةً ا ؤْلَہْوًاانْفَضُّوااِلَیْہَاتَرَکُوْکَ قَائِمًا…>( ١
اے پیغمبریہ لوگ جب تجارت اورلہوولعب کودیکھتے ہیں تواس کی طرف دوڑپڑتے ہیں اورآپ کوت نہاکھڑاچھوڑدیتے ہیں اپ ان سے کہہ دیجئے کہ خداکے پاس جوکچھ بھی ہے وہ اس ) کھیل اورتجارت سے بہترہے اوروہ بہترین رزق دینے والاہے۔( ٢
حضرت علیفرماتے ہیں :الله کے نزدیک کوئی بھی عمل نمازسے بہترنہیں ہے پس دنیاکاکوئی بھی کام تمھیں اول وقت نمازپڑھنے سے نہ روکے کیونکہ خداوندعالم ان لوگوں کی ملامت وسرزنشکرتے ہوئے ارشادفرماتاہے : >اَلَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ<
) تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جواپنی نمازوں کواول وقت پڑھنے سے غافل رہتے ہیں۔( ٣
--------
. ٢)تفسیرنورالثقلین/ج ۵/ص ٣٢٩ ) . ١(سورہ جٔمعہ/ آیت ١١ ( . ٣)بحارالانوار/ج ٨٣ /ص ٢١ )
ایک صحابی رسول جوپنجگانہ نمازوں کونبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پیچھے جماعت سے اداکرتے تھے اوربہت زیادہ ت نگدست رہتے تھے مگرجب الله کی جانب سے عطاکردہ درہم کے ذریعہ انھوں نے تجارت شروع کی تواس کاانجام کیاہواوہ آپ امام (علیه السلام) سے منقول اس حدیث میں ملاحظہ کریں:
حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ایک صحابی جن کانام سعدتھا،وہ متقی وہیزگار تھے،اورآپ کا شماراصحاب صفہ ( ۴)میں ہوتاتھا، وہ روزانہ تمام پنجگانہ نمازوں کو پیغمبر کے ساتھ جماعت سے اداکرتے تھے اورکسی بھی نماز جماعت میں غائب نہیں ہوتے تھے لیکن فقیرو ت نگدست ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ غمگین رہتے تھے ۔
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بھی سعد کی فقروت نگد ستی کو دیکھ کرغمگین رہتے تھے اور سعد سے کہتے تھے: مجھے امیدہے کہ ایک دن خداوندعالم تمھیں ہرچیزسے بے نیاز کردے گا ۔
ایک دن جبر ئیل امین درہم کے دوسکہ لے کرپیغمبرپرنازل ہوئے اورکہا : اے محمد! خدائے عزوجل جانتا ہے کہ آپ سعدکی ت نگد ستی کی وجہ سے غمگین رہتے ہیں،کیا آپ اسے ت نگدستی سے بے نیاز کرنا چا ہتے ہیں؟ آنحضرت نے فرمایا : ہاں ،تو جبرئیل نے کہا : یہ دو درہم لیجئے اور انھیں سعد کوعطا کر دیجئے اور کہیں کہ وہ ان دو درہم کے ذریعہ تجارت شروع کرے آنحضرت نے جبرئیل سے دو درہم لئے اور نماز ظہر کے لئے جیسے ہی گھر سے با ہر نکلے تو دیکھا کہ سعد مسجدمیں جانے کے لئے آپ کی انتظار میں کھڑے ہیں ، آنحضرت نے کہا:
اے سعد ! کیا تم تجارت کرنا چا ہتے ہو ؟ عرض کیا : ہا ں یا رسول الله! لیکن میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ جسکے ذرےعہ تجارت کرسکوں
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے سعد کو دو درہم عطا کئے اور کہا : ان کے ذریعہ تجارت شروع کرو ، سعد درہم لے کر آنحضرت کے ہمراہ مسجد گئے اور نمازظہرین باجماعت اداکی ، جب نماز سے فارغ ہوگئے توآنحضرت نے فرمایا:
اے سعد !اٹھو اور کسب روزی کے لئے حرکت کرو کیونکہ میں تمھاری ت نگدستی کی وجہ سے غمگین رہتاتھا،سعد خدا کی طرف سے بھیجے گئے دو درہم کے ذریعہ کسب روزی وتجارت میں مشغول ہوگئے ،کچھ ہی دن گزرے تھے کہ سعد کی زندگی میں بہار آگئی اور آہستہ آہستہ کاروبارتجارت میں رونق آتی گئی یہاں تک کہ ایک دن سعد نے مسجد کے درواز ے کے پاس ہی اپنی دکان کا افتتا ح کیا اور خرید وفروش میں مشغول ہوگئے سعدجوکہ روزانہ نمازپڑھنے کے لئے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ہمراہ مسجدجایاکرتے تھے مگرجب سے دوکانداری میں مصروف ہوئے ہیں آہستہ آہستہ اول وقت مسجدمیں جانابندکردیا،جب نمازوقت شروع ہوتاتھاتوبلال اذان دیاکرتے تھے ،اوررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجد میں آتے تھے تودیکھتے تھے کہ سعد دوکانداری میں مشغول ہیں اور وضو کر کے نماز کے لئے مسجدمیں نہیں آئے ہیں لہٰذاسعد سے کہتے تھے: اے سعد ! دنیا نے تمھیں مشغول کردیا ہے اور اول وقت نماز پڑھنے سے روک دیا ہے توسعدجواب دیتے تھے : یا رسول الله! کیا کروں دوکان میں نہ میراکوئی شریک ہے اورنہ کوئی شاگردہے اور یہ ایساوقت ہے کہ جب چیزوں کی بکری زیادہ ہوتی ہے اگر ایسے موقع پردوکانداری کوچھوڑکر نمازکے لئے مسجدجاؤں تویہ سب مال اسی طرح پڑارہے گااورپھرخراب بھی ہو جائے گااور یہ شخص جومال لے کرآیاہواہے اس سے چندچیزیں خریدی ہیں اورابھی اس کوپیسہ بھی نہیں دیاہے لہٰذامیں تھوڑی دیرکے بعدنمازپڑھوں گا(سعداسی طرح روزانہ کوئی بات کہہ دیاکرتے تھے )۔
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سعدکی اول وقت عبادت سے غافل ہو جا نے کی وجہ سے بہت رنجیدہ رہنے لگے ، جب سعد ت نگدست تھے تو ات نا غمگیں نہیں تھے جت نا اب اس کے نماز کو تا خیر سے اور بغیر جماعت کے پڑھنے سے رنجیدہ رہتے ہیں پس ایک دن جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا:
اے الله کے نبی! الله تمھاری افسردگی سے با خبر ہے، تم سعد کی کس طرح کی زندگی پسندکرتے ہو، فی الحال کی زندگی پسند کرتے ہو یا پہلے جیسی فقیری کی زندگی ؟ آنحضرت نے فرمایا : مجھے سعد کی پہلی والی ہی زندگی پسند ہے کیونکہ اس کی دنیا نے اس کی آخرت کو تبا ہ کردیا ہے، جبرئیل نے کہا : مال ودنیا کی محبت ایک ایسا فت نہ ہے جو انسان کو یا د خداوآخرت سے غافل کردیتی ہے پس اب جب تمھیں سعد کی پہلی والی ہی زندگی پسند ہے تو سعدسے وہ دونوں درہم واپسلے لیجئے۔ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) سعدکے پاس آئے اورکہا : اے سعد ! کیا تم وہ درہم واپس نہیں کرو گے جومیں نے تمھیں عطاکئے تھے ؟ سعد نے عرض کیا :اب میراکاروبارات نے عروج اورترقی پرہے کہ میں آپ کوان دو درہم کے ساتھ دوسو درہم اضافہ کرکے دے سکتا ہو ں، آنحضرت نے فرمایا: تم مجھے صرف وہ دودرہم واپس کردیجئے اورمیں ان کے علاوہ کوئی دورہم نہیں لیناچاہتاہوں،سعد نے دو درہم واپس کردئے، ابھی کچھ دن نہ گزرے تھے کہ سعد کے کا رو با رتجارت کی رونق ختم ہوگئی اور آہستہ آہستہ پہلے جیسی حالت واپس آگئی اور سعد پہلے ) کی طرح اذان سے پہلے مسجد میں جانے لگے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔( ١
. ١(حیاة القلوب /ج ٢/ص ۵٧٧ ۔ ۵٧٨ (

٢۔جنسی تمایل اورخواہشات نفسانی کی پیروی
وہ چیزیں جونمازکوضایع کرنے اورہلکاسمجھ کرترک کرنے کاسبب واقع ہوتی ہیں ان میں ایک جنسی تمایل اورخواہشات نفسانی کی پیروی کرناہے جیساکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:
) >فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِ ھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُواالصَّلٰوةَ وَاتَّبِعُواالشَّھَوٰتِ فَسَوفَ یَلْقُونَ غَیّاً>( ٢ پھر ان کی جگہ پر وہ لوگ آئے جنھوں نے نماز کو برباد کر دیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پسیہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے۔

٣۔نمازکوہلکاسمجھنا
نمازکے ذریعہ الله کی طرف سے کسی رحمت ونعمت کے نازل ہونے پراعتقادنہ رکھنااوراس کی عظمت وارزش کو درک نہ کرنا،اسے حقیروناچیزشمارکرنا،نمازکواپنے اوپرایک بوجھ محسوس کرنایاایک دن پڑھنااورایک دن ترک کردینا،یاایک وقت پڑھ لینااوردوسرے وقت کی ترک کردینایہ سب نمازکوترک یاضایع کرنے کے سبب واقع ہوتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے الله کی طرف سے دنیامیں بھی عذاب نازل ہوتاہے اورآخرت میں بھی ان لوگوں کے لئے سخت عذاب معین کیاگیاہے ،اس بارے میں معصومین کی چندروایت ذکرکرچکے ہیں۔ . ٢(سورہ مٔریم/آیت ۵٩ (

۴۔گناہ کبیرہ کامرتکب ہونا
ہم نے نمازکے فضائل وفوائدبارے میں اس آیہ مبارکہ کوذکرکیاتھا: > اَقِمِ الصَّلاةَاِنَّ الصَّلٰوةَ ت نٰھی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرْ وَلَذِکْرُاللهِ اَکْبَرُ، وَاللهُ یَعْلَمُ ) مَاتَصْنَعُونَ>( ١
. ١(سورہ عٔنکبوت/آیت ۴۵ (
نمازقائم کروکیونکہ نمازہربرائی اوربدکاری سے روکنے والی ہے اورالله کاذکربڑی شے ہے اورالله تمھارے کاروبارسے خوب واقف ہے۔
جس طرح نماز انسان کو فحشاء ومنکرات سے دور رکھتی ہے اس کے برعکس فحشاء ومنکرات بھی انسان کو نماز وروزہ سے دورکھتے ہیں یہ ممکن نہیں ہے کہ نماز تو انسان کو فحشاء ومنکرات سے دوررکھے اور فحشاء ومنکر ات انسان کو نماز سے نہ ر کھے ،اگر نماز انسان کو گنا ہوں سے باز رکھتی ہے تو گنا ومعصیت بھی انسا ن کو نماز سے دور رکھتے ہیں اوراگرگناہگارانسان نمازپڑھتابھی ہے تووہ نمازکوبے توجہی کے ساتھ اورفقط ایک واجب کو گر دن سے رفع کرنے کے لئے پڑھتا ہے ،ایسے شخص کو اپنی نمازوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے اور نہ اسے اہل نماز کہا جاتاہے ۔
گناہوں کامرتکب ہونے والاشخص گناہوں کے عذاب وعقاب سے بھی نہیں ڈرتاہے اورشیطان پوری طرح اس پرغالب ہوجاتاہے جس کی وجہ سے وہ گناہوں کوانجام دیناہی اپنی زندگی سمجھتاہے اور ایسا شخص نمازپڑھنے کی فکربھی نہیں کرتاہے جیساکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:
>یَااَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوااِنَّمَاالْخَمْرُوَالْمَیْسَرُوَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْت نبُوہُ لَعَلَّکُم تُفْلِحُونَ، اِنَّمَایُرِیْدُالشَّیْطَانُ اَنْ یُوقَعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةوَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِوَالْمَیْسَرِوَیَصُدُّکُمْ عَنِ ) ذِکْرِاللھِوَعَنِ الصَّلٰوةِ فَہَلْٰ اَنْتُمْ مُنْتَہُونَ>۔( ١
اے ایمان والو!شراب ،جوا،بت،پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہٰذاان سے پرہیزکروتاکہ کامیابی حاصل کرسکو،شیطان توبسیہی چاہتاہے کہ شراب اورجوے کے بارے میں تمھارے درمیان بغض وعداوت پیداکردے اورتمھیں یادخدااورنمازسے روک دے توکیاتم واقعاًرک جاؤگے ۔
اورسورہ تٔوبہ میں ارشادفرماتاہے: >قُلْ اَنْفِقُوْاطَوْعًااَوْکَرْہًالَنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًافَاسِقِیْنَ،وَمَامَنَعَہُمْ اَنْ یُقْبَلَ مِنْہُمْ ) نَفَقَاتُہُمْ اِلّااَنَّہُمْ کَفَرُوْابِاللهِ وَبِرَسُوْلِہِ وَلَایَاتُوْنَ الصَّلٰوة اِلّاوَہُمْ کُسَالٰی وَلَایُنْفِقُوْنَ اِلّاوَہُمْ کٰرِہُوْنَ>( ٢
)اے رسول!)ان سے کہدیجئے کہ تم بخوشی خرچ کرویاجبراًتمھاراعمل قبول ہونے والانہیں ہے کیونکہ تم ایک فاسق قوم ہو اوران کے نفقات کوقبول ہونے سے صرف اس بات نے روک دیاہے کہ انھوں نے خداورسول کاانکارکیاہے اوریہ نمازکوبھی سستی اورکسلمندی کے ساتھ بجالاتے ہیں اورراہ خدامیں کراہت اورناگواری کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔
--------
. ٢)سورہ تٔوبہ /آیت ۵٣ ۔ ۵۴ ) . ١(سورہ مٔائدہ/آیت ٩٠ ۔ ٩١ (