|
معصومین اورحضورقلب وخشوع
جب آپ حضورقلب ،خضوع وخشوع کے معنی ومفہوم اوران کی اہمیت سے آگاہ ہوگئے
تواسی جگہ پران روایتوں کوبھی ذکرکردینامناسب ہے کہ جن میں معصومین کی طرزنمازاوران
کے اخلاص وحضورقلب اورخضوع وخشوع کوذکرکیاگیاہے اوروہ احادیث یہ ہیں:
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے بارے میں آیاہے:
) کان النبی صلی الله علیہ والہ:اذاقام الی الصلاة تربد وجہہ خوفامن الله تعالیٰ ( ١
جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازکے لئے قیام کرتے تھے توآپ کے چہرہ
کارنگ متغیرہوجاتاتھا۔
) ان النبی صلی الله علیہ والہ:کان اذاقام الی الصلاة کانّہ ثوب ملقی( ٢
جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازمیں مشغول ہوتے تھے توایسے نظرآتے تھے
جیسے گوشہ میں کوئی کپڑاپڑارہتاہے۔
--------
. ٢)فلاح السائل/ص ١۶١ ) . ١(میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٣ (
امام علی بن ابی طالب +کے بارے میں روایتوں میں ملتاہے کہ آپ نمازمیں اس
قدرحضورقلب اورخضوع وخشوع رکھتے تھے کہ ایک جنگ کے دوران آپ کے پائے مبارک میں تیر
پیوست ہوگیا تھااور لوگوں نے تیر کو نکالنے کی کوشش کی مگر تیر ہڈّی میں اس طرح پیوست
ہوگیاتھا کہ گوشت وپوست کے کاٹے بغیر تیرکانکالنامحال تھا ،لہٰذا آپ کے فرزندوں نے کہا:
اگریہی صورتحال ہے تو صبرکیا جائے اورجب امام (علیه السلام)نمازمیں مشغول ہوجائیں توپائے
مبارک سے آسانی سے تیر نکالاجاسکتاہے اورآپ کوخبربھی نہیں ہوگی
جب امام (علیه السلام) نماز میں مشغول ہوئے ،توطبیب نے گوشت وپوست کوکاٹ کر
یہاں تک کہ ہڈّی کو توڑکر تیرنکالا اورزخم پرمرہم لگاکر پٹّی باندھی ،جب امام(علیه السلام) نماز
سے فارغ ہوئے توفرمایاکہ :میرے پیر میں تیرپیوست ہے مگر اسوقت پیر میں کوئی دردوتکلیف
محسوس نہیں ہورہی ہے ؟سب نے کہا:نماز کی حالت میں آپ کے پیر سے گوشت وپوست کو
کاٹ کر تیر نکالیا گیا، اور آپ کو محسوس بھی نہ ہوا امام (علیه السلام)نے فرمایا : جب میں
ذکرویادالٰہی میں مشغول رہتاہوں اگردنیا بھی زیروزبر ہوجائے یا میرے بدن میں تیغ وتبر بھی
مارے جائیں تومجھے اپنے پروردگار سے مناجات کی لذت میں کی وجہ سے کوئی تکلیف
محسوس نہیں ہوگی۔
فلاح السائل میں نقل کیاگیاہے کہ حضرت علیجب نمازکے لئے قیام کرتھے تو آیہ مبارکہ
<اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِی لِلَّذِی فَطَرَالسَّمَوٰاتِ وَالْاَرْض وَمَااَنَامِنَ المُشْرکِین>( ١) (میرارختمامتراس
خداکی طرف ہے جس نے آسمانوں کوپیداکیاہے اورمیں باطل سے کنارہ کش ہوں اورمشرکین
) میں سے نہیں ہوں)اورزمین کی تلاوت کرتے تھے اورآپ کے چہرہ کارنگ متغیرہوجاتاتھا۔( ٢
--------
. ٢)فلاح السائل /ص ١٠١ ) . ١(سورہ أنعام /آیت ٧٩ (
امام علیجب نمازپڑھتے تھے توآپ سیدھے ستون کی مانندنظرآتے تھے اوربالکل بھی
حرکت نہیں کرتھے اوررکوع وسجودکی حالت میں آپ کے جسم پر پرندہ بھی آکربیٹھ
جاتاتھااورامام علی (علیه السلام) وامام زین العابدین +کے علاوہ کوئی بھی رسول اکرم کی
حالت نمازکاانعکاس نہیں کرسکتاتھا۔
. دعام الاسلام /ج ١/ص ١۵٩
امیرالمومنین حضرت علی جس وقت آپ نماز کے لئے قیام کرناچاہتے تھے توخوف خدا
میں پورابدن کا نپ جاتاتھااورچہر ے کا رنگ متغیرہوجاتاتھا اور کہتے تھے : بارالٰہا! اس امانت کے
ادا کرنے کا وقت آگیاہے ، جس کو سات زمین وآسمان عرضہ کیاگیا اور وہ اس کے تحمل کی
قوت نہیں رکھتے تھے۔
. میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٣
روایت میں آیاہے کہ: ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت آیااورآپ کی
خدمت میں دواونٹ بطورہدیہ پیشکئے ، آنحضرت نے فرمایا:
من صلی رکعتین ولم یحدث فیہما نفسہ من امورالدنیاغفراللھلہ ذنبہ.
جو شخص دورکعت نماز اس طرح پڑھے کہ نماز کسی بھی دنیاوی چیز کی طرف توجہ
پیدانہ کرے تو میں ان میں سے ایک اونٹ اسے عطا کردوں گا ،علی ابن ابی طالب+کے علاوہ
کوئی بھی شخص آنحضرت کی اس درخواست پرعمل کرنے کوتیارنہ ہوااور رسول خدا (صلی
الله علیه و آله) نے دونوں اونٹو ں کو حضرت علی کو عطا کر دئے۔
. میزا ن الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٨
حضرت فاطمہ زہرا کے نمازمیں حضورقلب اورخضوع وخشوع کے بارے میں روایتوں میں
آیاہے:
کانت فاطمة سلام الله علیہات نہج فی الصلاة فی خیفة الله تبارک وتعالی
حضرت فاطمہ زہرا نماز کی حالت میں خوف خدا میں اس طرح لرزتی تھیں کہ آپ پر
) جاں کنی کی حالت طاری ہو جاتی تھی ( ١
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : میری لخت جگرحضرت فاطمہ دونوں جہاں
گذشتہ اورآئندہ کی عورتوں کی سردار ہیں ، وہ جسوقت محراب عبادت میں اپنے
پروردگارکے سامنے کھڑی ہوتی ہیں تو آپ کے چہرہ سے ایک نورساطع ہوتاہے وہ نور
آسمان کے ملائکہ کے لئے اسی طرح درخشاں ہو تا ہے جیسے اہل زمین کے لئے ستاروں کا
نور چمکتا ہے ،جب یہ نورساطع ہوتاہے توخدا وندعالم اپنے فرشتوں سے کہتاہے :
اے میرے فرشتوں!تم ذرا میرے حبیب کی لخت جگرپر نگاہ ڈالو ، میری کنیز وں کی
سردار میرے پاس کھڑی ہے اور میرے خوف سے اس کے تمام اعضاء وجوارح لرزرہے ہیں اور
خلوص دل سے میری عبادت کررہی ہے ، میں تم فرشتوں کو شاہد قرار دیتا ہوں کہ میں نے ان
) کے تمام شیعوں پر آتشجہنم کو حرام قرار دیتا ہوں۔( ٢
--------
. ٢)بحارالانوار/ج ٧٠ /ص ۴٠٠ ) . ١(بحارالانوار/ج ٧٠ /ص ۴٠٠ (
امام زین العابدین کے نمازمیں حضورقلب اورخضوع وخشوع کے بارے میں چندروایت
ذکرہیں:
قال مولاناالصادق علیہ السلام :کان علی بن الحسین علیہ السلام اذاحضرت الصلاة
) اِقشعرّجلدہ ، واصفرّلونہ وارتعدکالسعفة.( ١
امام صادق فرماتے ہیں:جب علی ابن الحسین +نمازکے لئے قیام کرتے تھے تو(خوف
خدامیں)بدن کے بال کھڑے ہوجاتے تھے اوررنگ پیلاہوجاتھا اورخرمے کے سوکھے ہوئے درخت
کے مانندلرزتے رہتے تھے ۔
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال :کان علی بن الحسین علیہ السلام صلوات الله
) علیہمااذ اقام فی الصلاة کانہ ساق شجرة لایتحرک منہ شی ألاماحرکہ الریح منہ .( ٢
امام صادق فرماتے ہیں:جب علی ابن الحسین +نمازکے لئے قیام کرتے تھے تو(خوف
خدامیں) اس ساقہ دٔرخت کے مانندکھڑے رہتے تھے کہ جس کی کوئی چیزحرکت نہیں کرتی
تھی مگروہی کہ جوہواکی وجہ سے ہلتی تھی ۔
--------
.٣/ ٢)کافی /ج ٣٠٠ ) . ١ (مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ٩٣ (
ایک روایت میں آیاہے کہ ایک دن حضرت امام زین العابدینکے گھرمیں اگ لگ گئی اورآپ
اس وقت نمازمیں اس طرح مشغول تھے کہ آپ کو__________آگ لگنے کااحساس بھی نہ ہوا،جب نمازسے
فارغ ہوئے توآپ کوگھر میں آگ لگ جانے کی اطلاع دی گئی توامام (علیه السلام)نے فرمایا:آتش
جہنم کی یادنے مجھے اس دنیاوی آگ سے بالکل بے خبرکردیاتھا۔
. تحلیلی اززندگانی امام سجاد/ج ١/ص ٢٨٧
اوردوسری روایت میں آیاہے کہ امام زین العابدین کے بچے اس انتظارمیں رہتے تھے کہ
امام (علیه السلام) کب نماز شروع کرتے ہیں تاکہ ہم پورے شوروغل کے ساتھ کھیل کود
کرسکیں، بچےّ آپس میں کہتے تھے کہ جب امام (علیه السلام) نماز میں مشغول ہوجاتے ہیں
توخداکی یاد میں اس طرح غرق ہوجا تے ہیں کہ انھیں ہماری طرف کوئی دھیان نہیں رہتا ہے ،
چاہے ہم کت ناہی زیادہ شوروغل مچائیں۔
. ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٢١٨ /ص ۶٨
ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ : میں نے حضرت امام سجاد کو نماز کی حالت میں
دیکھا کہ آپ کی عباء دوش مبارک سے نیچے گرگئی اور آپ نے کوئی تو جہ نہ کی ،جب آپ
نمازسے فارغ ہوئے تومیں نے آپ سے پو چھا : نماز کی حالت میں آپ کی عبادوش سے نیچے
گر گئی اور آپ نے کوئی توجہ بھی نہیں کی ؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا:
اے ابوحمزہ ثمالی ! کیا تم نہیں جانتے ہو میں کس کی بارگاہ میں کھڑاتھا ؟ بے شک
بندے کی نماز الله کی بارگاہ میں اسی مقدارمیں قبول ہو تی ہے جس مقدار میں نمازی کادل
اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گا ۔
. تحلیلی اززندگانی مام سجاد/ج ١/ص ٢٨٧
امام صادق کے نمازمیں حضورقلب اورخضوع وخشوع کے بارے میں روایتوں میں آیاہے:
حضرت امام جعفر صادق کے ایک صحابی“حمّادبن عیسیٰ ”سے روایت ہے وہ کہتے ہیں
: ایک دن امام (علیه السلام) نے مجھ سے پوچھا: اے حماد!تم نمازکس طرح پڑھتے
ہواورکیااسے پورے آداب وشرائط کے اداکرتے ہو؟ میں نے کہا : اے میرے مولاو آقا ! میں“ حریزبن
عبدالله سجستانی ”کی لکھی ہوئی کتاب نمازپڑھتاہوں
امام (علیه السلام)نے فرمایا : یہ کافی نہیں ہے بلکہ تم ابھی اٹھواور میرے سامنے
دورکعت نماز پڑھو
حمّاد کہتے ہیں :میں نے امام (علیه السلام) کی فرمائش پر عمل کیا اورامام (علیه
السلام)کے حضور میں روبقبلہ کھڑے ہوکر نماز شروع کی ، رکوع وسجود کو انجام دیا اور نماز کو
تمام کیا
امام (علیه السلام)نے فرمایا :اے حماد!تم نے نمازاس کے آداب وشرائط کے مطابق نہیں
پڑھی ہے اور تعجب ہے کہ تمہاری عمرساٹھ یا ستّر سال ہو گئی ہے اور تم صحیح و مکمل طور
سے نماز نہیں پڑھ سکتے ہو!
حمّاد کہتے ہیں : میں امام (علیه السلام)کی یہ باتیں سنکر بہت ہی شرمندہ ہوا اور
میں نے امام (علیه السلام)سے عرض کیا : اے میرے مولا آپ پرقربان جاؤں آپ مجھے صحیح
اورمکمل نماز کی تعلیم دیجئے
امام صادق اپنی جگہ سے بلند ہوئے اور روبقبلہ کھڑے ہوئے دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو
آپس میں چسپاں کیا اور دستہائے مبارک کومرتب طریقہ سے ران پر رکھا ،دونوں کے درمیا ن
چار انگلی کے برابر فاصلہ دیا اور پیروں کی انگلیوں کو روبقیلہ قرار دیا اور خضوع وخشوع کے
“الله اکبر”کہہ کر نمازکاآغازکیا،سورئہ حمد و سورئہ“قُلْ ھَوَا لله اَحَد”کو سکون واطمینان کے ساتھ
قرائت کیا پھرایک سانس کے برابر صبر کیا اور حرکت کئے بغیر“الله اکبر”کہا ،اسکے بعد رکوع
میں گئے ،
رکوع کی حالت میں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو زانوپر رکھا اوردونوں زانوبالکل سیدھے
تھے اور کمراس طرح سیدھی تھی کہ اگر کمر پر کوئی قطرئہ آب یا روغن گر جاتا تو وہ اپنی
جگہ سے نہیں ہٹ سکتا تھا اور رکوع میں گردن کو سیدھا رکھا اور آنکھیں بند کر کے تین مرتبہ
“سبحان الله”کہا : اسکے بعد“سبحان ربی العظیم و بحمدہ ”کہا ،پھررکوع سے بلند ہو ئے اور
اطمینان کے ساتھ “سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَہ ” کہا اور دونوں ہاتھوں کو کانوں تک لاکر “الله اکبر ”کہا
،پھر سجد ے میں گئے اور دونوں زانوں کو زمین پر رکھنے سے پہلے دونوں ہا تھوں کو زمین پر
رکھا اور سجدے میں آپ کی حالت یہ تھی کہ بدن کا کوئی حصّہ آپس میں چسپاں نہیں تھا اور
آٹھ اعضاء بدن ( پیشانی ،دونوں ہاتھ کی ہتھیلی ،دونوں زانو کے سرے ، دونوں پیرکے انگوٹھے
اور ناک کی نوک) کو زمین پر رکھے ہو ئے تھے ، ناک کی نوک کو زمین پر رکھنا مستحب ہے اور
بقیہ چیزیں واجب ہیں آپ نے سجدے میں تین مرتبہ “سُبَحَانَ رَبِّیَ الْاَعَلیٰ وبَحَمْدِہِ”کہا اور
سجدے سے سرکو بلند کیا “الله اکبر ”کہا اور بائیں پیرپرزور دیکر بیٹھے اور“اُسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّیْ وَاَ
تُوبُ اِلَیہْ”کہا اور “ا لله اکبر ”کہنے کے بعد دوسرے سجدے میں گئے اور پہلے سجدے کی طرح
دوسرا سجدہ کیا اور سجدے میں کہنیوں کو زمین پر قرار نہیں دیا اور اسی طرح دوسری رکعت
پڑھ کرنمازکو تشہدوسلام کے ساتھ تمام کیا ، اور نماز کے بعد فرمایا:
اے حمّاد ! نماز پڑھنے کا یہی طریقہ ہے جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ، پس
نماز کی حالت میں ہاتھ، پاؤں ، ڈاڑھی و غیرہ سے کھیل نہ کرو ، اپنی انگلیوں سے بھی کھیل
نہ کرو ،اپنے دائیں بائیں نگاہ نہ کرو اور قبلہ کی سمت بھی نگاہ نہ کرو کیونکہ ان کاموں کی
وجہ سے نماز میں خضوع وخشوع نہیں پایا جاتا ہے اورجونمازی کے حواس اڑجانے کا سبب واقع
ہو تے ہیں
اوردوسری روایت میں آیاہے کہ حضر ت امام مو سیٰ کاظم بچپن میں اپنے وا لد
ماجدحضرت امام جعفر صادق کے حضور میں نما ز اداکررہے تھے کہ اس
وقت شہر کا ایک متفکراوردانشمند شخص امام (علیه السلام)کی خدمت میں موجود
تھا ،اس نے دیکھاکہ یہ فرزند کھُلے ہو ئے درازہ کے سا منے کھڑے ہوکرنماز پٹرھ رہا ہے جو کہ
مکر وہ ہے لہٰذاامام صادق سے کہا:آپ کا یہ فرزند کھُلے دروازہ کے سامنے نماز کیو ں پٹرھ رہا
ہے ؟ امام (علیه السلام) نے فرمایا : بہتر ہے کہ آپ اپنے اس سوال کا جواب خود بچّے سے
معلوم کریں ! اس عا لم ومتفکر نے بچے کی جانب رخ کیا اور پو چھا ! تم کھُلے دروازے کے سا
منے نماز کیوں پٹرھ رہے ہو ؟کمسن بچے(امام کا ظم ) نے جواب دیا :وہ ذات کہ جسکی طرف
میں نماز پٹرھتا ہوں وہ اسی درواز ہ سے مجھ سے بہت زیا دہ قریب ہے ۔
. ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ١۶ /ص ١٢
٣۔ایمان
دریامیں کشتی اسی وقت حرکت کرسکتی ہے جبکہ اسے پانی میں مسقرکیاجائے
لہٰذاکشتی کوحرکت کرنے کے لئے پانی کی ضرورت ہے ،اگراسے کسی خشک زمین
پررکھاجائے تووہ خشکی میں ذرّہ برابر حرکت نہیں کر سکتی ہے، نماز بھی کشتی کے مانند
ہے ،نمازی کوچاہئے کہ وہ اللھورسول ،قرآن اورغیب پرایمان رکھتاہو تاکہ اس کی کشتی حرکت
کر سکے اوراسے دریاکے دوسری طرف ساحل تک پہنچاسکے،جب تک اس کی نماز اللھورسول
،قرآن ،معاداورغیب پرایمان کے دریامیں قرارنہ پائے اس وقت تک اس کابارگاہ خداوندی میں قبول
ہوناغیرممکن ہے۔
اگر دریامیں کشتی کی حرکت کے لئے پانی موجودنہیں ہے توکشتی کے وجودکاکوئی
فائدہ نہیں ہے اسی طرح اگرنمازگزارخداورسول ،قرآن ،معاداورغیب پرایمان نہیں رکھتاہے تواس
کی وہ نماز کسی بھی کام کی نہیں ہے اورہرگزقبول نہیں ہوسکتی ہے ۔
قرآن کریم کی چندآیتوں میں ایمان اورنمازکوایک ساتھ ذکرکیاگیاہے:
) >اِنَّمَایَعْمرُمَسَاجِدَالله مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآ خَراَقَامَ الصَّلٰوةَ >( ١
الله کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا و آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور
جنھوں نے نماز قائم کی ہے ۔
. ١(سورہ تٔوبہ/آیت ١٨ (
>وَالمُو مِنُونَ یُومِنُونَ بِمَا اُنْرِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَالَمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوةَ وَالْمُوْتُوْنَ الزَّکٰوةَ
) وَالْمُوْمِنُوْنَ بَاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اُولٰئِکَ سَنُوتِیْھِمْ اَجْراًعَظِیْماً>( ١
اے رسول !مومنین حضرات جوتم پر نازل ہوا ہے یا تم سے پہلے نازل ہو چکاہے ان سب
پرایمان رکھتے ہیں اور نماز بھی برگزار کرتے ہیں اورہم عنقریب نماز قائم کر نے والے اور زکات
دینے والے اور آخرت پر ایمان رکھنے والے لوگوں کو اجر عظیم عطاکریں گے۔
) >اَلَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَوَمَمّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُو نَ >( ٢
متقی وپر ہیز گا ر وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور پابندی سے پورے اہتمام
کے ساتھ نماز اداکر تے ہیں اور ہم نے جوکچھ رزق ونعمت عطاکی ہیں ان میں سے ہماری راہ
میں خرچ کرتے ہیں ۔
امام علی ابن ابی طالب “ نہج البلاغہ ” میں نمازاورایمان کوخداسے تقرب حاصل
کرنے کاذریعہ قراردیتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:
انّ افضل ماتوسل بہ المتوسلوں الی اللھسبحانہ وتعالیٰ ،الایمان بہ وبرسولہ …واقام
) الصلاة فانّہاالملة۔( ٣
بے شک سب سے بہترین شی کٔہ جس کے ذریعہ خدا سے قربت حاصل کیا جاسکتا
ہے وہ خدا ورسول پر ایمان رکھنا اور نماز کا قائم کرناہے جو کہ دین کا ستون ہے۔
--------
. ١(سورہ نٔساء/آیت ١۶٢ (
. ٢) سورئہ بقرہ آیت ٣ )
٣)نہج البلاغہ /خطبہ ١١٠ )
۴۔دلایت
نمازقبول ہونے کی سب سے اہم شرط یہ کہ نمازگزاراپنے دل میں پیغمبراکرم (صلی الله
علیه و آله)کے علاوہ ان کی آل اطہارکی بھی محبت رکھتاہواوران کے دشمن سے بیزاری بھی
کرتاہو،الله کی بارگاہ میں صرف انھیں لوگوں کی نمازقبول ہوتی ہے جوآ ل محمدکی محبت
ومودت کے ساتھ نمازاداکرتے ہیں اوراپنے دلوں میں ال رسول کی محبت کاچراغ روشن رکھتے
ہیں لیکن اگران کی محبت کاچراغ دل میں روشن نہیں ہے تووہ عبادت بے کارہے اورالله کی
بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی ہے،نمازو عبادت اسی وقت فائدہ مندواقع ہوسکتی ہے جب
نمازکواہلبیت کی محبت و معرفت اوران کی اطاعت وولایت کے زیرسایہ انجام دیاجائے ،اہلبیت
کی محبت وولایت کے بغیرسب نمازیں بےکارہیں۔
وہ نمازجواس کے تمام ظاہری آداب شرائط کے ساتھ انجام دی گئی ہو،قبلہ کی سمت
رخ کرکے پڑھی گئی ہو،حمدوسورہ قرائت بھی صحیح طرح کی گئی ہو،رکوع وسجودمیں
طمانینہ کابھی خیال رکھاگیاہواوردیگرشرائط کوبھی ملحوظ خاطررکھاگیاہویہاں تک خدارسول
پرایمان کے ساتھ انجام دی گئی ہو،نمازپڑھنے والامتقی وپرہیزگاربھی ہومگردل میں آل رسول
کی محبت نہ پائی جاتی ہوتوہرگزقبول نہیں ہوتی ہے
مثال کے طور پر: اگرپولیس والاکسی ڈرائیورسے ڈرائیوری کارٹ طلب کرے لیکن اس
ڈرائیورکے پاس ڈرائیوری کارٹ موجودنہ ہوتو وہ پولیس والااسے آگے جانے دے
گااورسزاکامستحق قراردے گا،چاہے ڈارئیورلاکھ کہے :جناب پولیس !میں نے ڈرائیوری کے تمام
قوانین کی رعایت کی ہے اورکسی طرح کی کوئی غلطی نہیں کی ہے ،میں اپنی لائن پرگاڑی
چلارہاتھااورآپ کی یہ بات صحیح ہے کہ میرے پاس ڈرائیوری کارٹ نہیں لیکن میرے پاس
شناختی کارٹ موجودہے،پاسپورٹ بھی موجودہے لہٰذاتم ان کاغذات کودیکھ کرمجھے
آزادکردیجئے،مگروہ پولیس اس کی ایک بات بھی سنی گی اورکہے گاتھمارے یہ کاغذات یہاں
پرکسی کام نہیں آسکتے ہیں مجھے صرف ڈرائیوری کارٹ چاہئے ،اگر تمھارے پاس نہیں ہے
توتمھیں سزادی جائے اورآگے سزاملنے کے بعدنہیں جاسکتے ہو
علامہ طباطبائی “ تفسیرالمیزان ”میں لکھتے ہیں :اہلبیت اطہار کی محبت وولایت کے
بغیرنمازکاکوئی نہیں ہوتاہے اسی لئے ہم لوگ نمازسے پہلے اپنی اذان
واقامت میں “اشھدانّ علیّاًولی الله”اور قرائت نمازمیں<اِہْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم> اور
تشہدمیں درودشریف پڑھتے ہیں اورمحمدوآل محمدمحبت اوران کی ولایت کاثبوت پیش کرتے
ہیں اور آئمہ اطہار کی امامت کااقرار کرتے ہیں
ہم لوگ سورہ حٔمدکی قرائت میں <اِہْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم>کے یہ معنی مرادلیتے ہیں:
بارا لہٰا ! تو ہم کو آئمہ کی راہ پرگا مزن رکھ اور ہمیں امامت کے پیرو کاراور دوستدا
رولایت میں سے قرار دے اوراس بارے میں امام صادق فرماتے ہیں : صراط المستقیم سے مراد
علی ابن ابی طالب ہیں اور حضرت امام سجاد فرماتے ہیں :“نحن صراط المستقیم” ہم (آئمہ طا
) ہرین )صراط مستقیم ہیں۔( ٢
تفسیرنمازمیں لکھاہے:جنگ نہروان میں حضرت علی کے مقابلہ میں آنے والے سب
لوگ(جنھیں تاریخ اسلام میں خوارج کے نام دیاگیاہے ) بے نمازی نہیں تھے بلکہ ان میں
اکثرنمازی وروزے دارتھے اوران کی پیشانیوں پر مکرر اور طولانی سجدوں کی وجہ سے گٹھے
پڑے ہو ئے تھے لیکن ان کے دل اہلبیت کی محبت سے خالی تھے اورولایت اہلبیت کے منکر
تھے،ان لوگوں نے امام علی ابن ابی طالب کے مقا بلے میں قیام کیا اور آپ کی طرف تلوار یں
چلائی(ان لوگوں کی نمازیں ہرگزقبول نہیں ہیں)( ٣)۔
--------
. ٣)تفسیرنماز/ص ٣٩ ) . ٢(تفسیرالمیزان /ج ١/ص ۴١ (
اسی جنگ نہروان میں حضرت علینے جب یہ سناکہ دشمنوں میں ایک شخص ایسابھی
ہے جوشب بیدار ی کرتا ہے رات بھر نماز یں پڑھتا ہے ، قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو آپ نے فرمایا:
) نومٌ علیٰ یقین خیرٌمن صلاة فی شکّ( ١
اس شخص کا یقین کے ساتھ سونا ان دو قلبی نمازیں پڑھنے سے بہتر ہے
یعنی وہ شخص جو الله اوراس کے رسول کومانتاہومگردل میں آل سے دشمنی
رکھتاہوتوخداوندعالم اس کی نمازہرگزقبول نہیں کرتاہے بلکہ ایسے شخص کارات میں نمازیں
پڑھنے کے بجائے چین کی نیندسونابہترہے۔
. ١(نہج البلاغہ /کلمات قصار/ش ٩٧ /ص ٣٧۶ (
جنگ صفین کے بارے تاریخ کے اوراق اٹھاکردیکھیں تویہی معلوم ہوگاکہ دشمنوں نے
نیزوں پرقرآن بلندکررکھے اورناطق ومفسرقرآن سے جنگ کرنے آئے تھے ۔
کرب وبلاکی المناک تاریخ کودیکھیں تواس میں بھی ملے گاکہ جولوگ حضرت امام
حسین اور ان کی اولاد واصحاب کو شہیدکرنے کے لئے کربلائے معلی میں یزیدی لشکرمیں
موجودتھے وہ سب تارک الصلوة نہیں تھے بلکہ ان میں اکثرنمازی تھے اورجماعت کے ساتھ
نمازیں پڑھتے تھے،کیاان سب دشمنان اہلبیت کی نمازقبول ہے؟ہرگزنہیں قبول ہے۔
اہلبیت اطہار کی محبت کے بغیرنمازپڑھناایساہی ہے جیسے کوئی بغیرطہارت کے
نمازپڑھتاہے ایک ایرانی شاعرکیاخوب کہاہے:
بہ منکر علی بگو نماز خو د قضاکند
نمازبے ولائے اوعبادتی است بی وضو
علی (علیه السلام)کی ولایت سے انکارکرنے والے چاہئے کہ اہلبیت رسول کی ولایت
کااقراکرتے ہوئے اپنی نمازی کی قضابجالائے کیونکہ علی کی ولایت کے
بغیرنمازپڑھنابغیروضوکے نمازپڑھنے کے مانندہے جس طہارت کے بغیرنمازقبول نہیں ہوتی ہے
اسی طرح آئمہ اطہار کی ولایت کے بغیربھی نمازقبول نہیں ہوتی ہے ،فقط وہی نمازقبول ہوتی
ہے جسپراہلبیت (علیه السلام)کی ولایت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے
ولایت اہلیت سے متعلق امام شافعی کاایک مشہور شعرہے:
یا آل رسول الله حبکم فرض من الله فی القرآن انزلہ
کفاکم من عظیم القدرانّکم من لم یصل علیکم لاصلاة لہ
اے اہلبیت رسالت آپ کی محبت تواس قرآن میں واجب کی گئی ہے جس کوخدانے نازل
فرمایاہے اور آپ کی قدرمنزلت کے بارے میں بس ات ناجان لیناکافی ہے کہ جوتم پرنمازمیں
) درودنہ بھیجے اس کی نمازہی نہیں ہے ۔( ۴
--------
. ۴(ینابیع المو دٔة /ج ٢/ص ٣۴٣ .(صواعق محرقہ باب/ ١١ فصل ١ (
ابوحازم سے مروی کہ ایک شخص نے حضرت امام زین العابدین سے معلوم کیا: وہ کو
نسی چیز ہے جوبارگاہ رب العزت میں نماز کے قبول ہونے کا سبب واقع ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا
:
ولایت ناوالبرائة من اعدائنا
ہماری ولایت ومحبت اور ہما رے دشمنوں سے اظہارنفرت وبیزاری بارگاہ خداوندی میں
) نمازوں کے قبول ہونے کاسبب واقع ہو تی ہے ۔( ١
حضرت امام صادق اس قول خداوندی <اِلَیہِ یَصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ وَالَّذِیْنَ
یَمْکُرُوْنَ السَیِّئَاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ>( ٢)(پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلندہوتے ہیں اورعمل صالح
انھیں بلندکرتاہے اورجولوگ برائیوں کی تدبیرکرتے ہیں ان کے لئے شدیدعذاب ہے )کے بارے
میںفرماتے ہیں:
ولاییت نااہل البیت، فمن لم بتولنالم یرفع الله عملا۔
جوبھی ہماری ولایت کوقبول نہیں کرتاہے اورہماری رہبری پرسرتسلیم خم نہیں کرتاہے
) خداوندعالم اس کے کسی بھی عمل کوقبول نہیں کرتاہے۔( ٣
اوررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :
) من صلی صلاة ولم یصل علیّ فیہاوعلیٰ اہل بیتی لم تقبل منہ۔( ۴
جو شخص نماز پڑھے اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ بھیجے اس کی نماز قبول
نہیں ہے۔
--------
٣)الکافی ) . ٢)سورہ فاطر/آیت ١٠ ) . ١(مناقب آل ابی طالب /ج ٣/ص ٢٧۴ (
. /ج ١/ص ۴٣٠
. ۴(الغدیر(علامہ امینی)/ج ٢/ص ٣٠۴ (
عن محمدبن مسلم قال:سمعت ا بٔاجعفرعلیہ السلام یقول:کلّ من دان الله بعبادة
) یجہدفیہانفسہ ولاامام لہ من الله فسعیہ غیرمقبول۔( ١
امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص خداپرایمان رکھتاہواورعمدہ طریقہ سے عبادت کرتاہولیکن
خداکی طرف سے معین کسی امام صالح کی پیروی نہ کرتاہواس ساری محنت ومشقت
بےکارہے اوروہ قبول بھی نہ ہونگی۔
١(کافی /ج ١/باب معرفت امام (علیه السلام). (
۵۔تقویٰ
نمازقبول ہوے کے شرائط میں سے ایک شرط __________یہ بھی ہے کہ نمازگزارگناہ کبیرہ وصغیرہ
سے دوری کرتاہو،غیبت سے پرہیزکرتاہو،والدین کے حکم کی نافرمانی نہ کرتاہو،مال حرام نہ
کھاتاہو،شراب ومسکرات کااستعمال نہ کرتاہو،اپنے دینی بھائیوں سے بغض وحسدنہ
کرتاہو،مرداپنی بیوی کواوربیوی اپنے شوہرکواذیت نہ
کرتے ہوں،اپنے ہمسایہ کے لئے رنج واذیت کاباعث نہ ہو،ظام وجابرشخص کی ہمایت نہ
کرتاہو،وغیرہ وغیرہ ۔
خداوندعالم انسان کے ظاہری عمل کونہیں دیکھتاہے بلکہ اس کے تقویٰ پرہیزگاری
کونظرمیں رکھتاہے اب اگرکوئی شخص اپنے دل میں ریاکاری کاقصدرکھتے ہوئے اپنے مال سے
خمس نکالے یا اسے لوگوں کے درمیان خیرات کرے یاکسی دوسرے کامال چوری کرکے خمس
نکالے یاغریبوں میں تقسیم کرے یہ کام الله کے نزدیک قبولیت کادرجہ نہیں رکھتے ہیں اورنہ
ایسے کاموں پروہ شخص کسی اجروثواب کاحق رکھتاہے بس اسی طرح اگرکوئی شخص
نمازبھی پڑھتاہے اورگناہوں کابھی مرتکب ہوتاہے ،اپنے ماں باپ کے ساتھ گرم مزاجی سے کلام
کرتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے ،عزیزواقارب کے ساتھ صلہ رحم نہیں کرتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے
،عورت اپنے شوہرکی درآمدسے فائدہ اٹھاتی ہے مگراس کے ساتھ تمکین نہیں کرتی ہے ،اس
کی اجازت کے بغیرگھرسے باہرقدم نکالتی ہے یااپنی زبان وغیرہ سے اسے اذیت کرتی ہے
اورنمازبھی پڑھتی ہے،یاشوہراپنے زوجہ کے ساتھ بدسلوکی کرتاہے،اسے آزارواذیت دیتاہے
اورنمازبھی پڑھتاہے ،یاانسان کسی دوسرے کی غیبت کرتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے،کسی
دوسرے پرظلم وستم بھی کرتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے ،غیبت بھی کرتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے
دوسروں کی ناموس کوبری نگاہ سے دیکھتاہے اورنمازبھی پڑھتاہے یاکسی معصوم (علیه
السلام)کی قبرمطہر کی زیارت کرتاہے خداایسی نمازوزیارت کوہرگزقبول نہیں کرتاہے پس صاب
تقویٰ وپرہیزگارہونادینداری کی پہچان ہے جیساکہ امام رضا فرماتے ہیں:
لادینَ لِمن لاوَرَع لہ۔
) جوشخص ورع وتقویٰ نہ رکھتاہووہ دین بھی نہیں رکھتاہے۔( ١
. ١(کمال الدین وتمام النعمة /ص ٣٧١ (
| |