نمازکے آداب واسرار
 


رازنمازقصر
سفراورخوف کی حالت میں آٹھ شرائط کے ساتھ چاررکعتی نمازکودورکعت پڑھناواجب ہے لیکن نمازصبح اورمغرب کوپوری پڑھناواجب ہے اوراس بارے میں علمائے کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہمسافر کو قصرو اتمام کے درمیان کوئی اختیارنہیں ہے بلکہ قصرپڑھناواجب ہے۔
قال رسول صلی الله علیہ وآلہ :ان الله عزوجل تصدق علی مرضی امتی ومسافریہابالتقصیروالافطار، وہل یسراحدکم اذاتصدق بصدقة ان تردعلیہ. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:بیشک خدائے عزوجل نے میری امت کے مریضوں اورمسافروں پرنمازکے قصرہونے اورروزے کانہ رکھنے کاتصدق عطاکیاہے ،اگرتم کسی کے ساتھ کوئی اچھائی کرواوروہ تمھارے اس تصدق کوواپس کردے توکیاتمھیں اس سے کوئی خوشی ملے گی ؟۔
. کافی/ج ۴/ص ١٢٧
زرارہ اورمحمدابن مسلم سے روایت ہے: ہم دونوں نے امام محمدباقر سے عرض کیا:سفرکی حالت میں نمازپڑھنے کے بارے میں کیاحکم ہے ،اورکس طرح سے نمازپڑھنی چاہئے اورکت نی رکعت پڑھنی چاہئے ؟ اما م(علیه السلام) نے فرمایا:کیاتم نے اس آیہ مبارکہ کونہیں پڑھاہے جسمیں خداوندعالم ارشادفرمایاتاہے:
>وَاِذَاضَرَبْتُمْ فِی الاَرْضِ فَلَیْسَعَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْامِنَ الصَّلاةِ< ترجمہ:اورجب تم زمین میں سفرکروتوتمھارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اپنی نمازیں قصرکرو۔
. سورہ نساء /آیت ١٠١
یہ آیہ مبارکہ اس چیزپردلالت کرتی ہے کہ سفرمیں نمازکوقصرپڑھناواجب ہے جس طرح حضرمیں نمازکوپوری پڑھناواجب ہے ،راوی کہتے ہیں کہ ہم نے امام (علیه السلام) نے سے عرض کیا:خداوندعالم نے آیہ مبارکہ میں<لیس علیکم جناح>فرمایاہے کہ جس سے وجوب کے معنی نہیں سمجھے جاتے ہیں اوراس نے “افعلوا” نہیں کہاہے کہ جس سے وجوب کے معنی سمجھ میں ائیں پس اس آیہ مبارکہ سے کس طرح ثابت کیاجاسکتاہے کہ سفرمیں نمازکوقصرپڑھناواجب ہے جس طرح حضرمیں پوری واجب ہے؟امام (علیه السلام) نے فرمایا: کیاخداوندعالم نے صفااورمروہ کے بارے میں ارشادنہیں فرمایاہے:
>فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَفَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ یَطُوْفَ بِہِمَا< جوشخص بھی حج یاعمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان کادونوں پہاڑیوں کاچکرلگائے ۔
. سورہ بقرہ/آیت/ ١۵٨
اورکیاتم نہیں جانتے ہوکہ ان دونوں کاچکرلگاناواجب ہے کیونکہ خدائے عزوجل نے اس کا اپنی کتاب میں ذکرکیاہے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اسے انجام دیاہے پس اسی طرح سفرمیں نمازکوقصرپڑھنا واجب ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے سفرمیں نمازکوقصرپڑھا ہے اورخداوندعالم نے قصرکواپنی کتاب میں ذکرکیاہے،راوی کہتے ہیں کہ ہم نے امام باقر سے عرض کیا: اگرکوئی شخص سفرمیں نمازکوچاررکعتی پڑھے،اسے اپنی نمازکااعادہ کرناچاہئے یانہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:
اگراس کے سامنے آیہ تٔقصیرکوپڑھاگیاہے اوراسے تقصیرکے بارے میں بتایاگیاہے تواعادہ کرناواجب ہے لیکن اگرآیت کی قرائت نہیں کی گئی ہے اوراسے تقصیرسے آگاہ نہیں کیاگیاہے اوراسے تقصیرکے بارے میں تعلیم نہیں دی گئی ہے تواس کااعادہ نہیں ہے ،اس کے بعدامام (علیه السلام)نے فرمایا:
الصلوات کلہافی السفررکعتان کل صلاة الّاالمغرب فانہاثلاث لیس فیہا تقصیرترکہارسول الله صلی الله علیہ وآلہ فی السفروالحضرثلاث رکعات. نمازمغرب کے علاوہ روزانہ کی تمام نمازوں میں سے ہرنمازکوسفرمیں دورکعت پڑھناواجب ہے، نمازمغرب میں کوئی تقصیرنہیں ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سفراورحضرمیں نمازمغرب کواسی طرح پڑھتے تھے ۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۴٣۴
عیون اخبارالرضا میںفضل بن شاذان سے مروی ہے: اگرکوئی شخص یہ سوال کرے کہ : سفرمیں نمازکے قصرپڑھنے کاحکم کیوں جاری ہواہے؟تواسے اس طرح جواب دو:کیونکہ نمازاصل میں دس رکعت واجب تھی اورسات رکعت کابعدمیں(پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی فرمائش سے ) اضافہ کیاگیاہے اس کے بعدخداوندعالم نے مسافرکے لئے ان زحمت ومشقت کی وجہ سے جواسے سفرمیں اٹھانی پڑتی ہیں اورچونکہ نمازالله کے لئے ہی پڑھی جاتی ہے اسی لئے اس نے نمازمغرب کے علاوہ تمام اضافی کی گئی رکعتوں کوختم کردیاہے اورنمازمغرب سے اس لئے کوئی رکعت کم نہیں کی ہے کیونکہ نمازمغرب اصل میں مقصورہ ہے ۔
. عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١٠۶
محمدابن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق کی محضرمبارک میں ان سے معلوم کیاکہ: سفراورحضرمیں نمازمغرب کوتین رکعت کیوں پڑھاجاتاہے اوربقیہ نمازوں کودورکعت ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)پرنمازدودورکعتی واجب کیاگیاتھااوراورآنحضرت نے تمام نمازوں میں دودورکعت کاضمیمہ کیااورپھرنمازمغرب سے ایک رکعت کوکم کردیااورسفرمیں ہرنماز میں سے دورکعت کوکم کردیالیکن نمازمغرب کوسفرمیں اسی تین رکعت کی حالت پررکھاکیونکہ اورفرمایا:نمازمغرب سے کسی رکعت کوکم کرتے ہوئے مجھے حیاآتی ہے اسی لئے نمازمغرب کوسفروحضرمیں تین رکعت ہی پڑھی جائے ۔
. بحارالانوار/ج ٨۶ /ص ۵۶
نمازصبح کوسفروحضرمیں اسی دورکعتی حالت پررکھاگیاہے اس بارے میں سعدنے مسیب سے منقول امام علی بن الحسین کی ایک روایت“پنچگانہ نمازوں”کے عنوان میں ذکرکرچکے ہیں لہٰذاتکرارکی ضرورت نہیں ہے ۔
عیون اخبارالضا میںفضل بن شاذان سے مروی ہے: اگرکوئی شخص یہ سوال کرے کہ آٹھ فرسخ کے سفرمیں ہی نمازکوکیوں قصرقراردیاگیاہے اس سے کم میں کیوں نہیں؟تواس کاجواب یہ ہے:کیو نکہ عموماً قافلہ اورحیوان بردارلوگ اوردی__________گرمسافروں کے لئے آٹھ فرسخ ایک دن کی سیرہے اسی لئے ایک دن کی سیرکے حساب سے نمازکوقصرقراردیاگیاہے
اوراگرکوئی یہ کہے کہ ایک دن کی سیرکی مقدارمیں نمازکوقصرکیوں رکھاگیاہے ؟اس کاجوب یہ ہے کہ اگرایک دن کی سیرمیں نمازکے قصرہونے کوواجب قرارنہ دیاجاتاتو ہزارسال کی سیرمیں بھی قصرکوواجب قرارنہ دیاجاتاکیونکہ ہروہ دن جوآج کے بعدآتاہے وہ بھی آج ہی کے مانند ہوتاہے یعنی دن سب برابرہیں اج ہویاکل،آج اورکل کے دن میں کوئی فرق نہیں ہے ،اگرایک دن کی سیرمیں نمازکوقصرنہ رکھاجاتاتواس کے نظیرمیں بھی قصرنہ رکھاجاتا اگرکوئی یہ کہے کہ سیرمیںفرق ہوتاہے اونٹ ایک دن میں اٹھ فرسخ راستہ طے کرتاہے مگرگھوڑامثلاًبیس فرسخ راستہ طے کرتاہے (اورآج کے زمانہ میں انسان ایک دن جہازکے ذریعہ نہ معلوم کت نی دورپہنچ جاتاہے)پس یہ ایک دن کی مسافت کوآٹھ فرسخ کیوں قراردیاگیاہے ؟اس کاجواب یہ ہے :کیونکہ اونٹ اورقافلے والوں کی سیرغالب آٹھ فرسخ ہوتی ہے اوراونٹ اورقافلے والے لوگ غالباًاس مقدارمسافت کوایک دن میںطے کرتے ہیں۔
. عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١٠۶

حیض کی حالت میں ترک شدہ نمازوں کاحکم
دین اسلام میں کسی بھی شخص کے لئے نمازکومعاف نہیں کیاگیاہے بلکہ ہرحال میں نمازواجب ہے اوروہ نمازیں جوعمداًیاسہوایاکسی مجبوری کی بناء پرترک وجاتی ہیں ان کی قضابجالاناواجب ہے البتہ عورتوں کی وہ نمازیں جوہرماہ کی عادت کے دنوں میں یانفاس کی حالت میں ترک ہوجاتی ہیں ان کے لئے دین اسلام میں رخصت دی گئی ہے اور ان کی قضابجالاناواجب نہیں ہے لیکن روزوں کی قضابجالاناواجب ہے ۔ عن ابی جعفروابی عبدالله علیہماالسلام قالا:الحائض تقضی الصیام ولاتقضی الصلاة. امام باقراورامام صادقفرماتے ہیں:حائضہ عورت اپنے روزوں کی قضاکرے اورنمازکی قضانہیں کرے گی۔
. تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١۶٠
حالت حیض میں ترک شدہ نمازوں کی قضاکیوں واجب نہیں ہے ؟ حیض ونفاس کی حالت میں ترک شدہ نمازکی قضاہے مگرروزہ کی نہیں ہے دین اسلام میں کسی بھی شخص کے لئے نمازکومعاف نہیں کیاگیاہے بلکہ ہرحال میں نمازواجب ہے اوروہ نمازیں جوعمداًیاسہوایاکسی مجبوری کی بناء پرترک ہوجاتی ہیں ان کی قضابجالاناواجب ہے البتہ عورتوں کی وہ نمازیں جوہرماہ کی عادت کے دنوں میں یانفاس کی حالت میں ترک ہوجاتی ہیں ان کے لئے دین اسلام میں رخصت دی گئی ہے اور ان کی قضابجالاناواجب نہیں ہے لیکن روزوں کی قضابجالاناواجب ہے ۔ عن ابی جعفروابی عبدالله علیہماالسلام قالا:الحائض تقضی الصیام ولاتقضی الصلاة. امام باقراورامام صادق +فرماتے ہیں:حائضہ عورت اپنے روزوں کی قضاکرے اورنمازکی قضانہیں کرے گی۔
. تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١۶٠
اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ نمازروزہ سے افضل ہے ،جب حائضہ پرروزہ کی قضاواجب ہے تونمازکی قضابدرجہ اولیٰ واجب ہے کیونکہ نمازروزہ سے افضل ہے ؟ اس کاجواب یہ کہ ایک چیزکوکسی دوسری چیزپرقیاس نہیں کیاجاسکتاہے لہٰذانمازکاروزہ پرقیاس کرناباطل ہے،یہی قیاس ابوحنیفہ نے کیاتھااورکہاتھا کہ جب نمازروزہ سے افضل ہے اورروزہ کی قضاواجب ہے تونمازکی قضابطریق اولیٰ واجب ہے روایت میں آیاہے کہ امام صادق نے ابوحنیفہ سے پوچھا:یہ بتاؤ نمازافضل ہے یاروزہ ؟ کیانمازافضل ہے (جب حائضہ روزہ کی قضاواجب ہے تونمازکی بطریق قضاواجب ہے )آپ نے امام(علیه السلام) نے فرمایا:تم نے قیاس کیاہے پس تقوائے الٰہی اختیارکرواورقیاس نہ کرو بلکہ حکم شرعی یہ ہے حائضہ پرروزہ کی قضاواجب ہے اورنمازکی قضانہیں ہے ۔ . علل الشرائع/ج ١/ص ٨٧
حیض ونفاس کی حالت میں عورت کے لئے نہ روزہ رکھناصحیح ہے اورنہ نمازپڑھنا۔ فضل بن شاذان مروی ہے امام علی فرماتے ہیں:اگرکوئی سوال کرے کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہوتواس کے لئے روزہ رکھنااورنمازپڑھناکیوںصحیح نہیں ہے؟اس کاجواب یہ ہے :کیونکہ کیونکہ حیض حدّنجاست میں ہے ،لاجرم خداوندمتعال یہ چاہتاہے کہ عورت فقط طہارت کی حالت میں اس کی عبادت کرے اورایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس کی نمازصحیح نہ ہواورجس کےلئے اصل میں نمازکومشروع نہ کیاگیاہوتوروزہ بھی اس کے مشروعیت نہیں رکھتاہے
اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ وہ نمازیں جوعورت سے حیض کے ایام میں ترک ہوجاتی ہیں ان کی قضابجالاناکیوں واجب نہیں ہے اورروزہ کی قضابجالاناکیوں واجب ہے ؟تواس کاجواب یہ ہے کہ چند(مندرجہ ذیل)وجوہات کی بناپرعورت پرنمازکی قضاواجب ہے مگرروزہ کی قضاواجب نہیں ہے:
١۔ روزہ رکھناعورت کوروزانہ کے ضروری کام کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتاہے ،روزہ نہ امورخانہ داری سے منع کرتاہے ،نہ شوہرکی خدمت کرنے سے ،نہ شوہرکے فرمان کوانجام دینے سے منع کرتاہے ،نہ گھرکی صفائی کرنے اورنہ کپڑوں وغیرہ کی دھلائی کرنے سے منع کرتاہے ،روزہ کی حالت میں ان سب کاموں کوانجام دیاجاسکتاہے لیکن نمازکے لئے وقت درکارہوتاہے اورنمازکی قضاکابجالاناعورت کے لئے امورخانہ داری ،صفائی ،دھلائی وغیرہ میں مانع واقع ہوتاہے کیونکہ نمازروزانہ بطورمکررواجب ہوتی ہے اورعورت اس چیزکی قدرت نہیں رکھتی ہے کہ اپنی روزانہ کی نمازیں بھی پڑھے اورناپاکی کی حالت میں ترک کی گئی نمازوں بھی کی قضابجالائے اورگھروزندگی کے ضروری کاموں کوبھی انجام دے لیکن روزے میں ایسانہیں ہے ،عورت روزہ کی حالت میں امورخانہ داری کوانجام دے سکتی ہے ۔
٢۔ نمازپڑھنے میں رکوع وسجود،تشہدوسلام وغیرہ کے لئے اٹھنے ،بیٹھنے ، کی زحمت ہوتی ہے لیکن روزہ میں ایسانہیں ہے،بلکہ روزہ میں اپنے آپ کوکھانے پینے سے روکناپڑتاہے اورکھانے پینے سے رکنے کے لئے نہ اٹھنے کی ضرورت پڑتی ہے اورنہ بیٹھنے کی ضرورت ہوتی اورنہ کوئی حرکت کرنی پڑتی ہے ۔ ٣۔ شب وروزکی مدت میں ایک وقت کے بعدجب دوسراوقت شروع ہوتاہے تواس وقت میں دوسری نمازواجب ہوجاتی ہے (نمازظہرکے بعدنمازعصرواجب ہوجاتی ہے ،نمازمغرب کے عشاکی نمازواجب ہوجاتی ہے اورجیسے ہی صبح ہوتی ہے تونمازصبح واجب ہوجاتی ہے )لیکن روزہ میں ایسانہیں ہے ،ماہ رمضان المبارک کے بعدکوئی روزہ نہیں آتاہے کہ جواس پرواجب ہوجائے لہٰذاروزہ رکھنے کاوقت خالی رہتاہے مگرنمازتووقت کے ساتھ ساتھ واجب ہوتی رہتی ہے ۔
. علل الشرائع /ج ١/ص ٢٧١

قبولیت نمازکے شرائط
ہر شخص کی نمازدوحالت سے خالی نہیں ہوتی ہے یااس کی نماز بارگارب العزت میں قبول ہوتی ہے اورخداعالم اس نمازی پردنیاوآخرت میں نعمتیں نازل کرتاہے یاقبول نہیں ہوتی ہے اورخداوندعالم جس نمازکوقبول نہیں کرتاہے اسے نمازی کی طرف واپس کردیتاہے جیساکہ حدیث میں آیاہے:
حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خدا کی جانب سے ایک فرشتہ نماز کے کا موں کے لئے مامور ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسراکام نہیں کر تاہے،جب بندہ نمازسے فارغ ہوجاتاہے تو وہ فرشتہ اس کی نماز کو آسمان پر لے جاتاہے اگر اس کی نماز قبولیت کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ بارگا ہ رب ا لعزت میں قبول ہوجاتی ہے اور اگر قبول ہونے کی صلالیت نہیں رکھتی ہے تواس فرشتے کو حکم دیا جاتاہے کہ اس نماز کو صاحب نماز کی طرف واپسلوٹا دے، وہ فرشتہ نماز کو واپسلے کر زمین پر آتا ہے اور اسے صا حب نماز کے منھ پر مارکر کہتا ہے : وائے ہو تجھ ) پر کیونکہ تیری اس نماز نے مجھے زحمت میں ڈالاہے اور واپسلے کر آناپڑاہے۔( ١
. ١(ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٢٣٠ (
روزقیامت صرف انھیں لوگوں کی نمازقبول ہوگی جونمازکو پورے آداب شرائط کے ساتھ انجام دیتے ہیں،وہ لوگ جو نماز کو اس کے تمام آداب و شرائط کی رعایت کے ساتھ انجام دیتے ہیں توان کی یہ صحیح اورمکمل نماز بقیہ دوسرے انجام دئے گئے واجبات کے قبول ہونے کاسبب واقع ہوگی اوروہ لوگسعادتمند محسوب ہونگے لیکن وہ لوگ جونمازکواس کے پورے آداب وشرایط کے ساتھ انجام نہ دیتے ہیں تو وہ بدبخت اور بدنصیب شمارہونگے ۔ قال صادق علیہ السلام :اوّل مایحاسب بہ العبد،الصلاة،فاذاقبلت قبل منہ سائرعملہ ) واذاردت علیہ ردعلیہ سائرعملہ.( ١
امام صادق فرماتے ہیں:روزقیامت سب سے پہلاسوال نمازکے بارے میں کیاجائے جن لوگوں کی نمازقبول ہوگی ان کے دوسرے اعمال بھی قبول ہونگے اورجن کی نمازقبول نہیں ہوگی ان بقیہ اعمال بھی قبول نہیں ہونگے ۔
. ١(من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٠٨ (
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:لکل شی ؤجہ ووجہ دینکم الصلاة فلایشیئنّ احدکم ) وجہ دینہ.( ١
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :ہر چیز کے لئے ایک چہرہ ہو تا ہے جو اس کی اصل وحقیقت کوبیان کرتا ہے اور نماز تمھارے دین کاچہرہ ہے ، ہر شخص پر واجب ہے کہ اپنے دین کی شکل و صورت کو نہ بگاڑے
دین اسلام بھی انسان کی طرح اپنے جسم میں اعضاء جوارح رکھتاہے ،جس طرح انسان اپنے جسم میں ہاتھ ،پیر،آنکھ ناک ،کان …رکھتاہے اسی طرح دین اسلام بھی رکھتاہے انسان کے جسم کاارجمندترین حصہ اس کاسرہے اورسرکابہترین حصہ انسان کاچہرہ ہے کیونکہ چہرہ میں حساس اعضاء پا ئے جاتے ہیں : جیسے آنکھ، کان ،ناک ، زبان ، دانت وغیرہ اسی طرح دین اسلام کے اعضا میں نمازمقدس ترین حصہ ہے جسے پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نے دین اسلام کاچہرہ قراردیاہے اورنمازکودین اسلام کاچہرہ قراردئے جانے کارازیہ ہے کہ انسان کا بدن چہرے کی خوبصورتی کی وجہ سے خوشنما معلوم ہو تاہے اگر کسی کا چہرہ خوبصورت نہیں ہے تو اسے حسین نہیں کہا جاتا ہے ،جس طرح بدن کی خوبصورتی چہرہ سے تعلق رکھتی ہے اسی طرح دین اسلام بھی نمازسے تعلق رکھتاہے ،اگر نماز میں حُسن وکمال پایا جا تا ہے تو دین بھی حسین وخو بصورت معلوم ہو تا ہے ۔ مثال کے طورپراگرہم خلوص کے ساتھ کسی شخص کے دیداروملاقات کے لئے اس کے گھرجاتے ہیں تو وہ پہلے ہمارے چہرہ پرنگاہ ڈالتاہے ،اگرہمارے چہرے چہرے کے تمام اعضاء صحیح و سالم ہوں ، اور دونوں اَبرو آپس میں پیوستہ ہوں ،آنکھوں میں کشش پائی جاتی ہو، ناک حالت زیبائی رکھتی ہو ،ہونٹوں پرکلیوں کی طرح مسکراہٹ ہو،دانت صدف کے ماننددرخشاں ہوں پیشانی پر نور خشاں ہو یقیناً ایساچہرہ مکمل زیبا اورباعث اشتیاق ہو گااوروہ شخص ہمارے اس چہرے کودیکھ کر خوشحال ہو جا ئے گااورعطوفت ومہربانی
--------
. ١(کافی /ج ٣/ص ٢٧٠ ۔تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢٣٨ (
کااظہارکرے گا،ہمیں اپنے قریب میں جگہ دے گا،ہم سے میٹھی اورنرم باتیں کرے گا لیکن اگرہمارے چہرے بگڑے ہوئے ہوں، پیشانی کے تیورچڑھے ہوں ، چہرے پرکمال درخشندگی نہ ہو،ابروکے بال بالکل صاف ہوں ، آنکھیں غضبناک ہوں، ناک پرورم آگیا ہو ،ہو نٹ زخمی ہوں ، دانت گر چکے ہیں(یقیناًایسا چہرے کودیکھ دل میں نفرت پیداہوجاتی ہے) تو ہمیں اس طرح دیکھ کراس کے تیوربھی چڑھ جائیں گے ،اب وہ اپنے بٹھاناتو دورکی بات اپنے دربارمیں کھڑے ہونے کی مہلت بھی نہیں دے گااورہمیںفوراً اپنے دربارسے باہرنکال دے گااورسزابھی سنائے گا
بس اسی طرح جب قیامت میں تمام لوگوں کوقبرسے بلندکیاجائے توسب پہلاسوال
نمازکے بارے جائے گا،جن ہم سے لوگوں نے دنیامیں نمازیں نہیں پڑھی ہونگی انھیں واصل جہنم کردے گااورجن لوگوں نے نمازیں پڑھی ہونگی ان کی نمازوں کودیکھاجائے گا اگرہماری وہ نمازیں اس کے معیارکے مطابق ہونگی اورپروردگار خوشنودی کا سبب واقع ہو نگی تو وہ ہم پراپنا رحم وکرم کرے گااورہمیں جنت عطاکرے گالیکن اگر خدا وندعالم ہماری نمازوں سے ناراض ہوگیا تو ہم اس کی رحمت ومغفرت سے محروم ہو جائیں گے اور ہماری بقیہ دوسری عبادتیں ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچائیں گی۔
جس طرح انسان کاچہرہ اعضاء رکھتاہے اوراعضائے چہرہ کی وجہ سے خوبصورت معلوم ہوتاہے اسی طرح نمازجودین اسلام کاچہرہ ہے اس کے بھی اعضاء ہیں وہ بھی اپنے چہرے پر آنکھ ناک ، کان ،دانت… وغیرہ رکھتی ہے اگروہ سب اعضامناسب ہوں توالله تبارک تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کاسبب ہوتے ہے ،خضوع وخشوع ،حضورقلب ،ارکان نماز(نیت ،تکبیر ة الاحرام ،قیام ، قرئت ،ذکر، رکوع، سجوداور تشہدوسلام )اور مستحبات نماز اعضاء وجوارح کا حکم رکھتے ہیں، اگرنمازکاچہرہ خوبصورت ہے اوراس کے تمام اعضاء صحیح و کامل ہیں یعنی نمازکوخضوع وخشوع، حضورقلب اورارکان نمازکی رعایت کے ساتھ اداکیاہے تووہ خدا کی خوشنودی اور اس کی بارگاہ میں قبولیت کا سبب واقع ہو گی اور اگر نماز کی شکل و صورت بگڑی ہو ئی ہو اور ارکان نماز کو مکمل طور سے رعایت نہ کی گئی ہو تو یہ نماز خداکے غضبناک ہو نے کا سبب واقع ہوتی ہے اور خدا وندعالم ایسی نماز کی طرف کوئی توجہ نہیں کرے گا بلکہ ایسی نماز کو اسی نمازی کے منھ پر ماردے گا۔ یہ ممکن ہے کہ انسان کی نمازظاہری اعتبارسے بالکل صحیح ہواوراس میں کوئی کمی نہ ہو،روبقبلہ پڑھی گئی ہو،طمانینہ کی بھی رعایت کی گئی ہومگروہ بارگاہ خداوندی مقبول نہ کیونکہ ظاہری آداب کے لئے کچھ قلبی آداب بھی ہیں کہ جن کی رعایت کے سبب ہماری نمازیں بارگاہ خداوندی میں مقبول واقع ہوتی ہیں،اگرہماری نمازوں میں وہ شرائط موجودہیں توقبول واقع ہوسکتی ہیں اوران کے ذریعہ خداکا تقرب اوراس کی رضایت حاصل ہوسکتی ہے اوروہ شرائط یہ ہیں:
١۔حضورقلب
وہ الفاظ اورذکروتسبیح کہ جنھیں نمازگزار اپنے زبان سے اداکررہاہے اگرانھیں سے دل بھی کہے اوران کے معنی ومفہوم کوذہن میں رکھنے کے ساتھ زبان پرجاری کرے اوراپنی نمازسے بالکل غافل نہ ہواوراس طرح خداکی طرف متوجہ ہوگیاہوکہ وہ یہ بھی نہ جانتاہوکہ میرے برابرمیں کون ہے اورکیاکررہاہے تو اسے حضورقلب کہاجاتاہے۔ نمازی کے لئے ضروری ہے کہ نمازکی حالت میں اس کے تمام اعضاء وجوارح اور دل ودماغ سب کچھ خداکی طرف ہواس کے دل میں خداکاعشق اوراس سے ہمکلام ہونے کاشوق ہو،سستی اورکسلمندی نہ پائی جاتی ہوعبادت میں لذت محسوس کرتاہوکیونکہ جس مقدارمیں نمازی کادل خداکی طرف متوجہ رہے گااسی مقداراس کی نمازبارگاہ خداوندی میں باعث قبول ہوگی ،اگرعبادت کی حالت میں نمازی کادل دنیاکی طرف مبذول ہوتواس کی وہ عبادت کی کوئی حقیقت نہیں رکھتی ہے اور ہر نمازی حضو ر قلب وخوف خداکے اعتبار سے اجر وثواب حاصل کرتا ہے جو نمازی اپنے دل خت نازیادہ خوف خدا رکھتا ہے اسی مقدار میںثواب ونعمت حاصل کرتا ہے کیونکہ خدا وند متعال نمازگزار کے قلب پر نگاہ رکھتا ہے نہ اسکی ظاہری حر کتوں پر، روزقیامت صرف وہی نمازوعبادت کام آئے گی جوسچے دل سے انجام دی گئی ہو ۔ ) >وَ لِکُلِّ دَرَ جٰا تٌ مِمَّا عَمِلوُاوَمَارَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمّایَعْمَلُونَ>( ١ بے شک ہر ایک شخص کے لئے اسکے اعمال کے مطابق درجات ہیں اورجوکچھ تم انجام دیتے ہوتمھاراپروردگارہرگزاس سے غافل نہیں ہے ) >یَوْمٌ لایَنْفَعُ مَالٌ وَلابَنُونَ، اِلَّاْ مَنْ اَتَی الله بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ >( ٢ روزقیامت نہ مال کام آئے اورنہ اولاد ،فقط وہی لوگ نجات پائیں گے جو قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ باری تعالیٰ میں حاضر ہوتے ہیں ۔
--------
. ٢)سورہ شٔعراء /آیت ٨٨ ۔ ٨٩ ) . ١(سورہ أنعام /آیت ١٣٢ (
بعض نماز یں ایسی ہیں جو آدھی قبول ہوتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو ایک سوم یا ایک چہارم ،ایک پنجم …یا ایک دہم قبول ہوتی ہیں اور بعض نماز یں ایسی ہیں جو ایک بوسیدہ کپڑے میں لپیٹ کر اس نمازی کے منھ پر مار دی جاتی ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تیری نماز تجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہے فقط وہی نماز تیرے کام آسکتی ہے جنھیں توحضور قلب کے ساتھ انجام دیتاہے ۔
. بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۶١
٢۔خضوع وخشوع
) >قَدْ اَ فْلَحَ المُو مِنُونَ الَّذِ یْنَ ھُمْ فِی صَلاٰ تِھِمْ خٰشِعُونَ >( ٣ یقیناً صاحبانِ ایمان کا میاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع وحضورقلب رکھتے ہیں۔
. ٣(سورہ مٔومنون/آیت ١۔ ٢ (
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جب تم نمازپڑھوتوخضوع اور حضور قلب رکھاکروکیونکہ خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے: >اَلَّذِینَ ہُمْ فی صَلاتِہِمْ خَاشِعُونَ>۔ روزقیامت وہی لوگ نجات پائیں گے جواپنی نمازوں میں حضورقلب اورخضوع وخشوع رکھتے ہیں۔
. وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ۶٨۵
اعضاء وجوارح اوربدن میں نشاط پائے جانے اورجسم پرخوف خداکے آثارنمایاں ہونے کوخضوع خشوع کہاجاتاہے
ایک شخص نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے خشوع کے معنی معلوم کئے توآپ نے فرمایا: نمازی کوچاہئے کہ اپنے اعضاء وجوارح بھی نماز میں شامل کرے اوراپنے دائیں بائیں جانب نگاہ نہ کرے ،ہاتھ پیرنہ ہلائے ،روایت میں آیاہے کہ ایک دن رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے ایک شخص کودیکھا کہ وہ نماز پڑھتے ہو ئے اپنی ڈاڈھی سے کھیل رہا ہے ، آپ نے فرمایا:
”لوخشع قلبہ لخشعت جوارحہ” اگر اس نماز ی کا دل خضوع وخشوع رکھتا ہے تو اُس کے اعضاء وجوارح کو بھی خاشع و خاضع ہو نا چا ہئے ۔
. بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۶١
خشو ع یعنی نماز میں تواضع کا استعمال کرنا اورکسی بندہ کا پورے دل اورنشاط کے ساتھ کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرنے کوخشوع کہاجاتاہے
. مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١٠٣
فقہ الّرضا میں منقول ہے کہ امام علی رضا فرماتے ہیں : جب تم نماز کے لئے قیام کرو تو اپنے آپ کو کھیل کو داور خواب وکسالت سے دورکرلیاکرواوروقارو سکون قلب کے ساتھ نماز ادا کیا کرواورتم پرلازم ہے کہ نماز میں خضوع وخشوع کی حالت بنائے رکھو، خدا کے لئے تواضع کرو،اپنے جسم پرخوف وخشوع کی حالت طاری رکھو اور اپنی حالت ایسی بناؤ جیسے کوئی فراری اور گنا ہگا ر غلام اپنے مولا وآقا کی خدمت میں آکر کھڑاہو جاتا ہے اور اپنے دو پیروں کے درمیان (چار انگلیوں کے برابر) فاصلہ دیا کرو ، بالکل سیدھے کھڑ ے ہو اکرو ، دائیں بائیں چہرے کو نہ گھمایاکرو اور یہ سمجھوکہ گویا خدا سے ملاقات کررہے ہو ،اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہومگر وہ توتمھیں دیکھ رہا ہے۔
. فقہ الرضا/ص ١٠١
عن النبی صلیہ الله علیہ وآلہ :لاصلاة لمن لایتخشع فی قلبہ. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس نمازی کے دل میں خشوع نہیں پایاجاتاہے اسکی نمازقبول نہیں ہے۔
. میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٢
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس نمازی کے دل میں خشوع نہیں پایاجاتاہے اسکی نمازقبول نہیں ہے۔
. میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٢
حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خدا ئے عزوجل نے حضرت موسیٰپر وحی نازل کی : اے موسیٰ ! کیا تم جانتے ہو ، میں نے پوری مخلوق سے صرف تم ہی کو اپنے سے ہمکلام ہونے کے لئے کیوں منتخب کیا ہے ؟ عرض کیا : پرو درگار ا ! تو نے مجھ ہی کو کیوں منتخب کیا ہے ؟ خدا نے کہا : اے موسیٰ ! میں نے اپنے تمام بندوں پر نظر ڈالی لیکن تمھارے علاوہ کسی بھی بندے کو تجھ سے زیادہ متواضع نہ پایا ، کیونکہ اے موسیٰ ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اپنے چہرے کو خاک پر رکھتے ہو۔
.١/ من لایحضرہ الفقیہ /ج ٣٣٢
خدا وند متعا ل نے حضرت داو دٔپروحی نازل کی :اے داو دٔ!بہت سے نماز ی ایسے ہیں جو اپنی نماز وں میں خضوع وخشوع رکھتے ہیں اورگر یہ وزاری کرتے ہیں اور رکعتوں کوطول دیتے ہیں ،ان کی یہ طولانی رکعتیں میرے نزد یک ایک فتیلہ ١)کی بھی قیمت نہیں رکھتی ہیں کیو نکہ جب میں ان کے قلوب پر نگا ہ کر تا ہو ں دیکھتا ہوں ) کہ ان کے دل ایسے ہیں کہ اگر نماز سے فراغت پا نے کے بعد کو ئی عورت ت نہائی میں ان سے ملاقات کر ے اوراپنے آپ کو اس نمازی کے حوالے کر دے تو وہ اس عورت پر فر یفتہ ہوجائیں گے اور گنا ہ کبیرہ کا مرتکب ہوجائیں گے اوراگرکسی مومن سے کوئی معاملہ کریں ) تواس کے ساتھ دھو کااورخیانت کریں گے۔( ٢ ١ (لغت عرب میں فتیلہ اس باریک دھاگے کوکہاجاتاہے جوخرماکی گٹھلی کے درمیان ( پایاجاتاہے.
. ٢(بحارالانوار/ج ١۴ /ص ۴٣ (