|
رازتشہد
تشہدمیں چارچیزواجب ہیں: ١۔بیٹھنا ٢۔طمانینہ ٣۔شہادتین ۴۔محمدوآل محمد
پردرودبھیجنا۔
ہردورکعتی نمازمیں ایک مرتبہ اورتین یاچاررکعتی نمازمیں دومرتبہ تشہد پڑھنا واجب ہے ۔
ہرنمازی پرواجب ہے کہ تمام دورکعتی نمازکی دوسری رکعت کے دونوں سجدے بجالانے
کے بعداوراسی طرح چاررکعتی نماز(ظہروعصروعشاء)کی دوسری وچوتھی رکعت کے بعداورتین
رکعتی نماز(مغرب)کی دوسری وتیسری رکعت کے دونوں سجدے بجالانے کے بعد خضوع
وخشوع کے ساتھ زمین پربیٹھے اورجب بدن ساکن ہوجائے توالله کی وحدانیت اورپیغمبراکرم
(صلی الله علیه و آله)کی رسالت کی گواہی دے اورمحمدوآل محمدپرصلوات بھیج کران کی
ولایت واطاعت کاثبوت دے اورتشہدمیں صرف ات ناکہناکافی ہے:
اَشْہَدُاَنْ لَااِلٰہَ اِلّاالله وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ وَاَشْہَدُاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہ وَرَسُولُہ ، اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ
مُحَمَّدٍوَآلِ مُحَمَّدٍ۔
امام صادق فرماتے ہیں:پہلی دورکعتوں(کے سجدہ کرنے کے بعدبیٹھ جائیں )اوراس طرح
تشہدپڑھیں:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَشْہَدُاَنْ لَااِلٰہَ اِلّاالله وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ وَاَشْہَدُاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہ وَرَسُولُہ ، اَللّٰہُمَّ صَلِّ
عَلیٰ مُحَمَّدٍوَآلِ مُحَمَّد، وَتَقبَّلْ شَفَاعَتَہ فِیْ اُمَّتِہ وَارْفَعْ دَرَجَتَہ۔
. تہذیب الاحکام / ٢/ص ٩٢
حدیث معراج میں آیاہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سات آسمانی حجاب کو
عبورکرتے ہوئے “قاب قوسین اوادنیٰ ”کے مقام تک پہنچے توپروردگارنے آپ کو نماز پڑھنے
کاحکم دیا…جب دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ سے سر بلندکیاتوخداندعالم نے کہا:اے
محمد!بیٹھ جاؤ، پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرمان الٰہی کے مطابق بیٹھ گئے ،وحی نازل
ہوئی :اے محمد!میں نے تم پرجونعمتیں نازل کی ہیں اس کے بدلہ میں میرانام اپنی زبان
پرجاری کرواورالہام کیاگیاکہ یہ کہو:
بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَلَااِلٰہَ اِلّاالله وَالْاَسْمَاءِ الْحُسْنیٰ کُلّہَا۔
اس کے بعدوحی الٰہی نازل ہوئی کہ اے محمد!اپنے آپ پراوراپنے اہلبیت
پردرودبھیجو،توپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے کہا:
صَلّی اللهُ عَلَیَّ وَعَلیٰ اَہْلِ بَیْتِیْ۔
. الکافی/ج ٣/ص ۴٨۶
حقیقت یہ ہے کہ ہرنمازی تشہدکے ذریعہ الله کی وحدانیت اورنبی اکرم (صلی الله علیه
و آله)کی رسالت کااقرارکرتاہے ،ان دونوں گواہی کوشہادتین کانام دیاجاتاہے اور توحیدونبوت
کااقرارکرنااصول دین کی مہم اصل ہیں،انسان ان دونوں کلموں کوزبان پرجاری کرنے سے دین
اسلام سے مشرف ہوجاتاہے ،یہ دونوں گواہی اسلام میں داخل ہونے اورکفروشرک جیسی
باطنی پلیدگی اورجسمانی نجاست سے پاک ہونے کی کنجی ہیں ۔
نمازمیں شہادتین کوتجدیدبیعت کے عنوان سے واجب قراردیاگیاہے ،ہرنمازی روزانہ
٩مرتبہ اپنی واجب نمازوں میں ان دونوں کلموں کوزبان پرجاری کرکے الله اوراس کے رسول
حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کی تجدیدبیعت کرتاہے اورہرروزان کلموں کی
تکرارکرناانسان کے ایمان وعقیدہ کومضبوط بناتاہے ،بے نمازی لوگوں کاایمان وعقیدہ ضعیف
وکمزورہوتاہے اورشیطان اسپرغالب رہتاہے ۔
فضل بن شاذان سے مروی ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں:
اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ دوسری رکعت کے بعدتشہدپڑھناکیوں واجب
قراردیاگیاہے ؟ اس کاجواب یہ ہے :کیونکہ جس طرح رکوع وسجودسے پہلے اذان،دعااورقرائت
کولایاگیاہے اسی طرح ان دونوں کے بعد تشہد، تحمید اور دعا کو قرار دیا گیا ہے۔
. علل الشرائع /ج ١/ص ٢۶٢
راز تورک
مردکے لئے مستحب ہے کہ سجدہ سے سربلندکرنے بعداس طرح بیٹھے کہ بدن کا
زوربائیں ران پررہے اوردائیں ران تھوڑاسابائیں ران کے اوپرقرارپائے اوردائیں پیرکی پشت کوبائیں
پیرکے تلوے پررکھے اسی طرح دونوں سجدونوں کے درمیان بیٹھنامستحب ہے، اس حالت سے
بیٹھنے کو تورّک کہاجاتاہے لیکن عورت کے لئے مستحب ہے کہ اپنی رانوں کوآپس میں ملائے
رکھے ۔
دائیں جانب کوحق اوربائیں جانب کوباطل کہاجاتاہے لہٰذانمازمیں تشہدپڑھتے وقت دائیں
ران کواٹھاکرتھوڑاسابائیں پراوردائیں پیرکی پشت کوبائیں پیرکے تلوے پررکھناباطل
کونابوداورمٹادینے کی طرف اشارہ ہوتاہے اسی لئے تورّک کوتشہدمیں مستحب قراردیاگیاہے
اسی مطلب کے بارے میں امام معصوم(علیه السلام) سے “من لایحضرہ الفقیہ” ایک حدیث نقل
کی گئی ہے:
روایت میں آیاہے کہ ایک شخص نے امام علی ابن ابی طالب سے پوچھا:اے خداکی
محبوب ترین مخلوق(حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)) کے چچازادبھائی!تشہدمیں
دائیں ران کوبلندرکھنااوربائیں ران کونیچے رکھناکارازوفلسفہ کیاہے؟امام(علیه السلام) نے
فرمایا:یعنی
اللّٰہمّ اَمِتِ البَاطل وَاَقِمِ الْحَق۔
بارالٰہا!باطل کونابودکردے اورحق کوسربلندوقائم رکھ،(کیونکہ داہناعضو حق اور سچائی
کامظہرہوتاہے اوربایاں باطل وجھوٹ کاکنایہ ہوتاہے ،اسی لئے تشہدمیں دائیں ران اورقدم کوبائیں
ران اورقدم کے اوپررکھنے کومستحب قرار دیاگیاہے تاکہ کفروباطل دب کرمرجائے ،نابودہوجائے
اورحق بلندہوجائے (
اس شخص نے دوبارہ سوال کیااورکہا:امام جماعت کاسلام میں “السلام علیکم ”کہنے
کاکیامقصدہوتاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:
انّ الامام یترجم عن الله عزوجل ویقول فی ترجمتہ لاہل الجماعة ا مٔان لکم من عذاب الله
یوم القیامة۔
بیشک امام جماعت خداوندمتعال کی جانب سے اس کے بندوں کے لئے ترجمانی
کرتاہے جواپنے ترجمہ میں اہل جماعت سے خداکی طرف کہتاہے مومنین سے کہتاہے :تمھیں
روزقیامت کے عذاب الٰہی سے امان ونجات مل گئی ہے ۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢٠
جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ میں مولاامیرالمومنین علی ابن ابی طالب کی
خدمت میں موجودتھا،آپ نے ایک شخص کونماز پڑھتے ہوئے دیکھاجب وہ نمازسے فارغ
ہواتومولانے اس سے پوچھا:اے مرد!کیاتم نمازکی تاویل وتعبیرسے آشنائی رکھتے ہو؟اس نے
جواب دیا:میں عبادت کے علاوہ نمازکی کوئی تاویل وتعبیرنہیں جانتاہوں،میں فقط ات ناجانتاہوں
کہ نمازایک عبادت ہے ،امام (علیه السلام)نے اسسے فرمایا:
قسم اس خدا کی جس نے محمد (صلی الله علیه و آله)کونبوت عطاکی، خداوند عالم
نے جت نے بھی کام نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کوبجالانے کاحکم دیاہے اس میں کوئی
رازاورتعبیرضرورپائی جاتی ہے اوروہ سب کام بندگی واطاعت کی نشانی ہیں ،اس مردنے
کہا:اے میرے مولا!آپ مجھے ان سے ضرورآگاہ کیجئے اوربتائے کہ وہ کیاچیزیں ہیں؟امام (علیه
السلام)نے فرمایا:
تشہدپڑھتے وقت بائیں ران پربیٹھنااوردائیں پیرکی پشت کوبائیں پیرکے تلوے
پررکھنااوردائیں ران کوتھوڑاسابلندکرکے بائیں ران رکھناتاکہ وہ تھوڑی سی دب جائے (اس
طرزسے بیٹھنے کو تورّک کہاجاتاہے)کامطلب یہ ہے نمازی اپنے دل میں یہ ارادہ کرے:بارالٰہا!میں
نے حق کواداکیااورباطل کودفنادیاہے ہے ،تشہدیعنی تجدیدایمان اوراسلام کی طرف بازگشت
اورمرنے کے بعددوبارہ زندہ ہونے کااقرارکرنااورتشہدکے یہ بھی معنی ہیں:میں الله کوان سب
باتوں سے بزرگ وبرترمانتاہوں جوکفارومشرکین اس کی توصیف کرتے ہیں۔
. بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٣
رازصلوات
تشہدنمازمیں صلوات کے واجب قراردئے جانے کارازیہ ہے:
نمازگزارکے لئے ضروری ہے کہ اپنے دل میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے علاوہ
ان کی آل اطہارکی بھی محبت رکھتاہواوران کے دشمن سے بیزاری بھی کرتاہو،نمازگزارکے لئے
ضروری ہے کہ وہ تابع امامت وولایت ہونے کاثبوت دے ،اورصاحب محبت ومودت محمدآل
محمدہونے کاثبوت دے اسی لئے نمازمیںصلوات واجب قراردیاگیاہے کیونکہ صلوات کے ذریعہ
ولایت کاثبوت دیاجاتاہے کہ جس کے بغیرنمازہرگزقبول نہیں ہوتی ہے ،بارگاہ خداوندی میں صرف
انھیں لوگوں کی نمازقبول ہوتی ہے جوآ ل محمدکی محبت ومودت کے ساتھ نمازاداکرتے ہیں
اوراپنے دلوں میں ال رسول کی محبت کاچراغ روشن رکھتے ہیں لیکن اگران کی محبت کاچراغ
دل میں روشن نہیں ہے تووہ عبادت بے کارہے اورالله کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی ہے،نمازو
عبادت اسی وقت فائدہ مندواقع ہوسکتی ہے جب نمازکواہلبیت کی محبت و معرفت اوران کی
اطاعت وولایت کے زیرسایہ انجام دیاجائے ،اہلبیت کی محبت وولایت کے بغیرسب نمازیں
بےکارہیں۔
قال رسول الله صلی الله علیہ آلہ وسلم : من صلی صلاة ولم یصل علیّ فیہاوعلیٰ اہل
) بیتی لم تقبل منہ۔( ۴
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : جو شخص نماز پڑھے اور مجھ پر اور میرے
اہل بیت پر درود نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہے۔
. الغدیر(علامہ امینی)/ج ٢/ص ٣٠۴
نمازمیں صلوات کواس لئے واجب قراردیاگیاہے کیونکہ تاکہ اس کے ذریعہ اہلبیت اطہار
کی ولایت ومحبت کااقرارکیاجاتاہے اورنمازمیں محمدوآل محمدعلیہم الصلاة والسلام
پردرودبھیجنانمازکے صحیح وکامل اورمقبول ہونے کاثبوت ہے لہٰذااگرکوئی شخص صلوات کوترک
کردے تواس کی نمازباطل ہے
عن ابی یصیروزرارة قالا: قال ابو عبدالله علیہ السلام :من تمام الصوم اعطاء الزکاة (یعنی
الفطرة) کماان الصلاة علی النبی صلی الله علیہ وآلہ من تمام الصلاة ومن صام ولم یو دٔہافلاصوم
لہ ان ترکہامتعمداً ، ومن صلی ولم یصل علی النبی صلی الله علیہ وآلہ وترک متعمدافلاصلاة لہ.
ابوبصیراورزرارہ سے مروی ہے :امام صادق فرماتے ہیں:روزہ زکات فطرہ کے ذریعہ
مکمل(اورقبول) ہوتاہے جس طرح نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پرسلام کے مکمل اورقبول
ہوتی ہے ، پس اگرکوئی شخص روزہ رکھے اورعمداًزکات فطرہ دیناترک کردے تواس کاروزہ قبول
نہیں ہوتاہے اورجوشخص نمازپڑھے اورعمداًمحمدوآل محمد علیہم الصلاة والسلام پردرودنہ
بھیجے تواس نمازقبول ہوتی ہے۔
رازسلام
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نمازکومومن کی معراج قراردیاہے اور جو شخص
بارگاہ ملکوتی کی طرف پروازکرتاہے تومعنوی طورسے لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجاتاہے
لہٰذاجیسے ہی مومن سفرالٰہی اورمعراج سے واپس آتاہے تواسے چاہئے کہ سب پہلے الله کی
محبوب ترین وعظیم الشان مخلوق حضرت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پرسلام بھیجے اس
کے بعدتمام انبیاء وصلحاء کوسلام کرے اسکے بعدتمام مومنین کوسلام کرے ۔
نمازی سلام کے ذریعہ نمازسے فارغ ہوجاتاہے اوروہ چیزیں جوتکبیرة الاحرام کہنے کے
ساتھ حرام ہوجاتی ہیں مثلاکسی چیزکاکھانا ،سونا،قبلہ سے منحرف ہوناوغیرہ یہ سب سلام
کے ذریعہ حلال ہوجاتی ہیں۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:مفتاح الصلاة الطہور وَتحریمِہاالتکبیر
وتحلیلہاالسّلام ولایقبل الله صلاةً بغیرالطہور.
رسول __________اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:طہارت نمازکی کنجی ہے اورتکبیر“الله
اکبر”اس کی تحریم ہے اورسلام نمازاس کی تحلیل ہے(یعنی جوچیزیں نمازکے منافی ہیں وہ
تکبیرکے ذریعہ حرام ہوجاتی ہیں اورسلام کے بعدحلال ہوجاتی ہیں)اورخداوندعالم بے طہارت
لوگوں کی نمازقبول نہیں کرتاہے.
. بحارالانوار/ج ٧٧ /ص ٢١۴
رازسلام کے بارے میں حدیث معراج میں آیاہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)
معراج پرتشریف لے گئے اورآپ کونمازپڑھنے کاحکم دیاگیاتوآپ نے نمازپڑھناشروع کی
اورتشہدوصلوات کوانجام دینے کے بعدملائکہ وانبیائے کرام کونمازمیں حاضردیکھا،حکم
پروردگارہوا :اے محمد!ان سب کوسلام کرو،پسآنحضرت نے کہا:
”السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ“
پروردگاکی طرف سے وحی نازل ہوئی:
ان السلام والتحیة والرحمة والبرکات انت وانت وذریتک
تم پراورتمھاری آل پرخداوندعالم کی رحمت ،برکت اورسلامت نازل ہو،اس کے بعدوحی
نازل ہوئی :اے پیغمبر!اب اپنے دائیں جانب متوجہ ہوجاؤ۔
. کافی/ج ٣/ص ۴٨۶
فضل بن شاذان سے مروی ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں :نمازمیں تکبیریاتسبیح یا
کسی اوردوسری چیزکوتحلیل نمازنہیں قراردیاگیاہے بلکہ سلام کوتحلیل نماز قراردیا گیاہے
اورسلام کوتحلیل نمازقراردئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ (تکبیرة الاحرام کے ذریعہ) نمازمیں داخل
ہوتے ہی بندوں سے کلام وباتیں کرناحرام ہوجاتاہے اورپوری توجہ خالق کی معطوف ہوجاتی ہے
،جب انسان نمازتمام کرے اورحالت نمازسے فارغ ہونے لگے تومخلوق سے کلام کرناحلال
ہوجاتاہے اورمخلوق سے باتوں کی ابتداء سلام کے ذریعہ ہونی چاہئے اسی لئے سلام کوتحلیل
نمازقراردیاگیاہے۔
. عیون اخبارالرضا(علیه السلام)/ج ١/ص ١١۵
محمدابن سنان نے مفضل ابن عمرسے ایک طولانی روایت نقل کی ہے ،مفضل کہتے
ہیں کہ میں نے امام صادق سے پوچھا:نمازمیں سلام کے واجب قراردئے جانے کی کیاوجہ ہے ؟
امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ سلام تحلیل نمازہے
میں نے عرض کیا:اس کی کیاوجہ ہے کہ نماز گزار کو سلام پڑھتے وقت اپنی دائیں
جانب نگاہ کرناچاہئے اوربائیں جانب سلام نہیں دیناچاہئے ؟
امام(علیه السلام) نے فرمایا : کیونکہ وہ مو کٔل فرشتہ جو انسان کی نیکیوں کو لکھتا
ہے وہ دا ئیں جانب رہتا ہے اور وہ فرشتہ جوبرائیوں کو درج کرتاہے وہ بائیں جانب رہتا ہے
اور(صحیح ومکمل )نمازمیں نیکیاں ہی نیکیاں پائی جاتی ہیں اوربرائی کاکوئی وجودہی نہیں
ہوتاہے اس لئے مستحب ہے کہ نماز گزار سلام پڑھتے وقت اپنی دائیں جانب نگاہ کرے نہ بائیں
جانب میں نے پوچھا:جب دائیں جانب ایک فرشتہ مو کٔل ہے توسلام میں واحدکاصیغہ استعمال
کیوں نہیں کرتے ہیں یعنی “السلام علیک ”(سلام ہوتجھ پر)کیوں نہیں کہتے ہیں بلکہ جمع کی
لفظ استعمال کرتے ہیں اس کی کیاوجہ ہے کہ سلام “ السلام علیکم ” کہتے ہیں؟
امام(علیه السلام) نے فرمایا: “السلام علیکم”اس لئے کہاجاتاہے تاکہ دائیں وبائیں جانب
کے دونوںفرشتوں کوسلام کیاجاسکے لیکن دائیں جانب کے فرشتہ کی فضیلت دائیں طرف
اشارہ کرنے سے ثابت ہوجاتی ہے ورنہ حقیقت میں دونوںفرشتوں کوسلام کیاجاتاہے ،میں نے
کہا:ماموم کوتین سلام کیوں کہنے چاہئے ؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:
پہلاسلام امام جماعت کے سلام کا جواب اورامام جماعت کواورامام جماعت کے
دونوںفرشتوں کو سلام کرنامقصودہوتاہے
دوسراسلام ان مومنین کے لئے ہوتاہے جواس کے دائیں جانب ہوتے ہیں اوران فرشتوں
کوسلام کیاجاتاہے جو مومنین اورخود پرمو کٔل ہیں
تیسراسلام ان مومنین کے لئے ہوتاہے جواس کے بائیں جانب ہوتے ہیں اور ان فرشتوں
کوسلام کیاجاتاہے جو مومنین اورخود پرمو کٔل ہیں اوروہ شخص کہ جس کے بائیں جانب کوئی
نمازی نہ ہوتوبائیں جانب سلام نہ کرے ،ہاں اگر اس کے دائیں جانب دیوارہواورکوئی نمازی دائیں
طرف نہ ہواوربائیں طرف کوئی نمازی موجودہوجواس کے ہمراہ امام جماعت کے پیچھے نمازپڑھ
رہاتھاتواس صورت میں بائیںطرف سلام کرے
مفضل کہتے ہیں :میں نے امام(علیه السلام) سے معلوم کیا:امام جماعت کس لئے
سلام کرتاہے اورکس چیزکاقصدکرتاہے؟امام(علیه السلام) نے جواب دیا:دونوںفرشتوں
اورمامومین کوسلام کرتاہے ،وہ اپنے دل میں ان دونوں فرشتوں سے کہتاہے :نمازکی صحت
وسلامتی کولکھواوراسے ان چیزوں سے محفوظ رکھو جونمازکوباطل کردیتی ہیں اورمامومین
سے کہتاہے تم لوگ اپنے آپ کو عذاب الٰہی سے محفوظ وسالم رکھو
فضل کہتے ہیں: میں نے امام(علیه السلام) سے کہا:سلام ہی کوکیوں تحلیل نمازکیوں
قرادیاگیاہے؟(تکبیر،تسبیح یاکسی دوسری چیزکوکیوں نہیں قراردیاگیاہے؟)امام(علیه السلام) نے
فرمایا:کیونکہ اس کے ذریعہ (دونوں کاندھوں پرمو کٔل)دونوںفرشتوں کاسلام کیاجاتاہے
اورنمازکااس کے پورے آداب شرائط کے ساتھ بجالانااور رکوع وسجودوسلام نمازبندہ کانارجہنم
سے رہائی کاپروانہ ہے ،روزقیامت جس کی نمازقبول ہوگئی اس کے دوسرے اعمال بھی قبول
ہوجائیں گے ،اگرنمازصحیح وسالم ہے تودوسرے اعمال بھی صحیح واقع ہونگے اورجس کی
نمازردکردی گئی اس کے دوسرے اعمال صالح بھی ردکردئے جائیں گے ۔
. علل الشرایع/ص ١٠٠۵
”معانی الاخبار”میں عبدالله ابن فضل ہاشمی سے مروی ہے میں نے امام صادق سے
سلام نمازکے معنی ومقصودکوپوچھاتوامام(علیه السلام) نے فرمایا:سلام امن وسلامتی کی
علامت ہے اورتحلیل نمازہے کہ جس کے ذریعہ نمازسے فارغ ہواجاتاہے ،میں نے کہا:اے میرے
امام !میری جان آپ پرقربان ہومجھے آگاہ کیجئے کہ نمازمیں سلام کوواجب قراردئے جانے کی
وجہ کیاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:
گذشتہ زمانہ میں لوگوں کی یہ روش تھی کہ اگرآنے والاشخص لوگوں کوسلام
کردیاکرتاتھاتواس کامطلب یہ ہوتاتھاکہ لوگ اسکے شرسے امان میں ہیں اوراگرآنے والے کواپنے
سلام کاجواب مل جاتاتھاتواس کے یہ معنی ہوتے تھے کہ وہ بھی ان لوگوں کے شرسے امان
میں ہے ،لیکن اگرآنے والاشخص سلام نہیں کرتاتھا تواس کے یہ معنی ہوتے تھے کہ لوگ اس
کے شرسے محفوظ نہیں ہیں اوراگرآنے سلام کرتاتھامگردوسری طرف سے کوئی جواب سلام
نہیں دیاجاتھاتویہ اس چیزکی پہچان تھی کہ آنے والاشخص کی خیرنہیں ہے اوروہ ان کے
شرسے ا مان میں نہیں ہے اوریہ اخلاق عربوں کے درمیان رائج تھا،پس سلام نمازسے فارغ
ہونے کی علامت ہے اورسلام مومنین سے کلام کرنے کے جائزہونے کی پہچان ہے ،اب بندوں
سے باتیں کرناجائزہے، “سلام ”الله تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے کہ جسے
نمازگزارخداوندعالم کی طرف معین کئے گئے دوفرشتوں سے مخاطب ہوکرانجام دیتاہے۔
. معانی الاخبار/ص ١٧۶
فضل بن شاذان سے روایت ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:نمازمیں سلام کوتحلیل
نمازاس لئے قراردیاگیاہے اوراس کے بدلہ میں تکبیر،تسبیح یااورکسی دوسری چیزکوتحلیل نماز
قرارنہیں دیاگیاہے کیونکہ جب بندہ تکبیرکے ذریعہ نمازمیں داخل ہوجاتاہے تو اس کابندوں سے
ہمکلام ہوناحرام ہوجاتاہے اورفقط خداکی جانب متوجہ رہناہوتاہے لاجرم نمازسے خارج ہونے میں
مخلوق سے کلام حلال ہوجاتاہے اورپوری مخلوق کواپنے کلام کی ابتد اسلام کے ذریعہ کرنی
چاہئے لہٰذانمازگذارجب نمازسے خارغ ہوتاہے پہلے مخلوق سے ہمکلام ہونے کوحلال کرے یعنی
پہلے سلام کرے اوراس کے بعدکوئی کلام کرے اسی نمازکے آخرمیں سلام کوقراردیاگیاہے۔
. علل الشرائع /ج ١/ص ٢۶٢ ۔عیون اخبارالرضا/ج ١/ص ١١۵
روایت میں آیاہے کہ ایک شخص نے امام علی ابن ابی طالب +سے پوچھا:اے خداکی
محبوب ترین مخلوق (حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله))کے چچازادبھائی!امام
جماعت کاسلام میں “السلام علیکم ”کہنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ تو امام (علیه السلام) نے
فرمایا:
انّ الامام یترجم عن الله عزوجل ویقول فی ترجمتہ لاہل الجماعة ا مٔان لکم من عذاب الله
یوم القیامة۔
کیونکہ امام جماعت خداوندمتعال کی جانب سے اس کے بندوں کے لئے ترجمانی
کرتاہے جواپنے ترجمہ میں اہل جماعت سے کہتاہے :تمھیں روزقیامت کے الٰہی عذاب سے امان
ونجات مل گئی ہے ۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢٠
مفضل ابن عمروسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے پوچھا:کیاوجہ ہے کہ سلام
نمازکے بعدتین مرتبہ ہاتھوں کوبلندکیاجائے اورتین مرتبہ“الله اکبر” کہاجائے؟امام (علیه
السلام)نے فرمایا:جس وقت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے مکہ فتح کیاتواپنے اصحاب
کے ساتھ حجراسودکے قریب نمازظہراداکی اورسلام پڑھاتواپنے ہاتھوں کواوپرلے گئے اورتین
مرتبہ تکبیرکہی اسکے بعدیہ دعاپڑھی:
لَااِلٰہَ اِلّااللهُ وَحْدَہ وَحْدَہ ، اَنْجَزَوَعْدَہ ، وَنَصَرَعَبْدَہ ، وَاَعَزَّجُنْدَہ ، وَغَلَبَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ ، فَلَہُ
الْمُلْکُ ، وَلَہُ الْحَمْدُ ، یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَعَلٰی کُلِّ شَی قَٔدِیْرٌ.
اس کے بعداپنے اصحاب کی طرف رخ کرکے ارشادفرمایا:اس تکبیراوردعاکوکسی بھی
واجب نمازکے بعدترک نہ کرناکیونکہ جوشخص سلام کے بعداس دعاکوپڑھے گویااس نے اس
شکرکوجواسلام وسپاہیان اسلام کاشکراس کے اوپرواجب تھااداکردیاہے۔
. علل الشرائع /ج ٢/ص ٣۶٠
رازقنوت
لغت میں خضوع وخشوع اوراطاعت وفرمانبرداری کوقنوت کہتے ہیں اوردعا ونمازاورعبادت
کوبھی قنوت کہتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم حضرت مریم کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :
<یٰامَرْ یَمُ اُقْت نیْ لِرَبِّکِ >( ١) (اے مریم ! تم اپنے پروردگار کی اطاعت کرو(
. ١(آل عمران /آیت ۴٢ (
محمدابن مسعودکی “تفسیرعیاشی ”میں امام صادق سے نقل کیاگیاہے کہ :اس قول
خداوندی <قومواللھقانتین> ( ١) میں“ قانتین ” سے “مطیعین”مرادہے یعنی نمازکوخضوع
وخشوع اوراطاعت خداوندی کے ساتھ بجالاو ۔ٔ
. ١(بقرہ /آیت ٢٣٨ تفسیرعیاشی /ج ١ج/ص ١٢٧ (
فقہا کی اصطلاح میں نمازمیں ایک مخصوص موقع پرایک خاص طریقہ سے دعاکرنے
کوقنوت کہاجاتاہے اوردعاکے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دونوں ہاتھوں کوچہرے کے
مقابل دونوں ہاتھوں کوآپس میں ملاکرہتھیلیوں کے رخ کوآسمان کی جانب قراردیاجائے
اورہتھیلیوں پرنگاہ کھی جائے
قنوت میں کسی مخصوص ذکرکاپڑھناشرط نہیں ہے بلکہ جائزہے نمازی جس
دعاوذکراورمناجات کوبھی چاہے پڑھے لیکن مستحب ہے کہ قنوت میں معصومسے منقول یہ
دعاپڑھی جائے:
امام صادق فرماتے ہیں:قنوت میں یہ دعاپڑھناکافی ہے:
اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا،وَارْحَمْنَا،وَعَافِنَا،وَاعْفُ عَنَّافِی الدُّنْیَاوَالآخِرَةِ ،اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَی ءٍ قَدِیْر۔
. تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٨٧
اورامام صادق فرماتے ہیں: نمازجمعہ کی پہلی رکعت میں قرائت کے بعد کلمات فرج
کوذکرکیاجائے اوروہ یہ ہیں:
لاالہ الّاالله الحلیم الکریم ،لاالہ الّاالله العلی العظیم ، سبحان الله ربّ السموات السبع وربّ
الارضین سبع ،ومافیہنّ ،ومابینہنّ، وربّ العرش العظیم، والحمدللھربّ العالمین ،اللّٰہم صلّ علی
محمدوآلہ کماہدیت نابہ ۔
. تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ١٨
| |