نمازکے آداب واسرار
 


رازسجدہ
سجدہ لغت میں خضوع میں استعمال ہوتاہے لیکن شرع میں خداوندعالم کی تعظیم کے لئے خضوع وخشوع کے ساتھ زمین پرپیشانی رکھ دینے کے بعداس کی تسبیح وتقدیس کرنے کوسجدہ کہاجاتاہے ۔
سجدہ ایک انتہائی خضوع ہے جس سے بڑھ کرکوئی خضوع وتواضع نہیں ہے اسی کے ذریعہ بندگی کااظہارہوتاہے، اسی لئے نمازپڑھنے کی جگہ کو مسجد کہا جاتا ہے۔ سجدہ فقط خداکے لئے ہوتاہے اوراس کے علاوہ کسی دوسرے کوسجدہ کرناجائزنہیں ہے، قرآن کریم کی متعددآیات ( ١) میں خداوندعالم کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاہے اورروایات میں بھی اس کی اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے
١(فصلت/آیت ٣٧ ۔ (
سورہ نٔجم/آیت ۶٢ ۔سورۂ .… حجر/آیت ٩٨ ۔سورہ عٔلق/آیت ١٩ ۔حج ٧٧ >مُحَمَّدٌرَسُولُ اللهِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِرُحْمٰاءُ بَیْنَہُمْ تَرٰیہُمْ رُکَّعاًسُجَّدًا یَبْتَغُوْنَ فَضْلاًمِنَ اللھِوَرِضْوَاناًسِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِنْ اَثَرِالسُّجُوْدِ<… محمدالله کے رسول ہیں اورجولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفارکے لئے سخت ترین اورآپس میں رحمدل ہیں،تم انھیں دیکھوگے کہ وہ بارگااحدیت میں سرتسلیم خم کئے ہوئے سجدہ ریزہیں اوراپنے پروردگارسے فضل وکرم اوراس کی خوشنودی کے طلب گارہیں ،کثرت سجودکی بناپران کے پیروں پرسجدہ کے نشانات پائے جاتے ہیں۔ . سورہ فٔتح/آیت ٢٩
>یٰااَیُّہَاالَّذِیْنَآمَنُواارْکَعُواوَاسْجُدُواوَاعْبُدُوارَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَلَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ< اے ایمان __________والو!رکوع کرو،سجدہ کرواوراپنے پروردگارکی عبادت کرواورکارخیرانجام دوکہ شایداسی طرح کامیاب ہوجاؤاورنجات حاصل کرلو۔
. سورہ حٔج/آیت ٧٧
قال الصادق علیہ السلام : اقرب مایکون العبد الی الله عزّوجل وہوساجدٌ۔ وہ چیزجوبندہ کوخدائے عزوجل سے بہت زیادہ قریب کردیتی ہے وہ سجدہ کی حالت ہے۔
. ثواب الاعمال/ص ٣۴
روایت میں آیا ہے :روز قیامت خدا وند متعا ل آ تشجہنم سے کہے گا: یانارُانضجی، یانارُاِحرقی وامّاموضع السجودفلاتقربی۔ اے جہنم کی آگ! توجس کو جلانا چاہتی ہے جلا دے لیکن اعضاء سجدہ کے ہر گز قریب نہ جا نا ۔
. منہج الصادقین،ج ٨،ص ٣٩٧ سجدہ اسی وقت مفیدہے جبکہ اسے خداوندعالم کی حقیقی معرفت کے ساتھ انجام دیاجائے ،اگرسجدہ کورب دوجہاں کی معرفت کے ساتھ انجام نہ دیاجائے تووہ سجدہ بیکارہے قال الصادق علیہ السلام:ماخسروَاللھمَن اتی بحقیقة السجود ولوکان فی العمرمرة واحدة۔
حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں : خدا کی قسم اگر کوئی شخص حقیقی سجد ہ کرے اسے زندگی میں کوئی مشکل نہیں آسکتی ہے اورنہ کو ئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے خواہ پوری زندگی میں ایک ہی مر تبہ ایسا سجدہ کرے ۔
. مصباح الشریعہ /ص ٩٠
العلوی علیہ السلام :سجدابلیسسجدة واحدة اربعة الٰاف عام لم یردبہازخرف الدنیا. حضرت علی فرماتے ہیں: شیطان چارہزارسال تک ایک ہی سجدے میں پڑارہااوراس کا مقصد دنیااور زینت دنیا کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
. مستدرک سفینة البحار/ج ۴/ص ۴۶٧
شیطان ہرسجدہ کودشمن نہیں رکھتاہے بلکہ اسی سجدہ کودشمن کورکھتاہے جوحقیقت میں سجدہ ہوتاہے، شیطان کو امیرشام ،ولید،مروان ابن حکم ،مامون ،ہارون وغیرہ کے سجدوں سے کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ ان کاسجدہ حقیقی سجدہ نہیں تھا،شیطان اگرخوف ہراساں ہوتاہے توانبیاء وآئمہ اطہار اوران کے چاہئے والوں کے سجدوں سے خوف کھاتاہے کیونکہ یہ خداوندعالم کوحقیقت میں سجدہ کرتے ہیں شیطان کے ایک چیلے نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی پشت مبارک پرسجدہ کی حالت اونٹ کی اوجھڑی رکھی،امام علی (علیه السلام)کے سرمبارک پرمسجدمیں حالت سجدہ میں ضربت لگائی ،امام حسین کاسرمبارک شمرملعون نے سجدہ کی حالت میں تن سے جداکیااورآج بھی اسی شیطان کے چیلے روحانی پیشواؤں پرنمازکی حالت میں گولیاں چلاکرفرارہوجاتے ہیں،محرابوں میں بم دھماکہ کرادیتے ہیں
آیت الله مکارم شیرازی تفسیرنمونہ میں لکھتے ہیں: ابو جہل اپنے ساتھیوں سے کہتاتھا :اگر میں نے رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)کوسجدہ کی حالت میں دیکھ لیا تو اپنے پیروں کے ذریعہ ان کی گردن کوتوڑ کر رکھ دوں گا، ایک دن جب رسول خدا (صلی الله علیه و آله)نماز میں مشغول تھے توابوجہل اپنے اس نا پاک ارادہ کو انجام دینے کے لئے مسجد میں داخل ہوا لیکن جیسے ہی نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے قریب پہنچا تو سب نے دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں کواس طرح چلارہاہے جیسے کوئی چیزاس کی طرف حملہ کررہی ہے اوروہ اپنے آپ کواس سے بچارہاہے اوراپنے ہاتھوں سے دفاع کرتے ہوئے پیچھے کی طرف ہٹ رہا ہے،اس سے پوچھاگیا:تواس طرح کیاکرہاہے اوراپنے ہاتھوں سے کس چیز کو دور کررہاہے ؟ اس نے کہا : میں اپنے اور پیغمبر کے درمیان ایک نشیب دیکھ رہا ہوں جس میں آگ روشن ہے جومجھے جلادینے کاارادہ رکھتی ہے اورمیں ایک خوفناک منظر دیکھ رہا تھا مجھے کچھ بال وپر نظر آرہے تھے ،اسی مو قع پر رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے فرمایا: قسم اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر ابوجہل ذرہ برابر بھی نز دیک ہو جاتا تو الله کے فر شتے اس کو قطعہ قطعہ کر دیتے اور اس کے جسم کے ٹکڑ ے اٹھا کر لے جا تے ۔
. تفسیرنمونہ/ج ٢٧ /ص ١۶۵

آدم(علیھ السلام) کواوریوسف کے سامنے سجدہ کرنے کی وجہ
سوال یہ ہے کہ جب خداکے علاوہ کسی ذات کوسجدہ کرناجائزنہیں ہے توپھرخداوندعالم نے شیطان سے آدم کوسجدہ کرنے کاحکم کیوں دیا؟اورارشادفرمایا: <قُلْنَالِلْمَلائِکَةِ اسْجُدُوالآدَمَ فَسَجُدُوااِلّااِبْلِیْسَ>( ١)(ہم نے ملائکہ سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو توابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا)اورجب حضرت یعقوب(علیه السلام) اوران کے فرزنددربار یوسف (علیه السلام)میں مصرپہنچے توانھوں نے اپنے والدین ( ١)کوتخت پرجگہ دی <وَخَرُّوالَہُ سُجَّداً>( ٢)اورسب لوگ یوسف کے سامنے سجدہ میں گرپڑے ،حضرت یعقوب جوکہ الله کے نبی تھے انھوں نے اوران کے دوسرے فرزندوں نے غیرخداکو سجدہ کیوں کیا؟
--------
٢)سورہ یٔوسف ) . ١(سورہ بٔقرہ/آیت ٣۴ ۔اعراف/ ١١ ۔اسراء / ۶١ ۔کہف/ ۵٠ ۔طٰہٰ/ ١١۶ ( . /آیت ١٠٠
١(بعض کاخیال ہے کہ ابوین سے مرادباپ اورخالہ ہیں اوربعض نے یہ بھی کہاہے کہ ( خداوندعالم نے ماں کودوبارہ زندہ کیاتاکہ اپنے لال کاعروج دیکھ سکیں،ترجمہ وتفسیرعلامہ جوادی۔
ملائکہ نے حضرت آدم کومعبودکے عنوان سے سجدہ نہیں کیاتھابلکہ آدم (علیه السلام)بعنوان قبلہ قابل تعظیم وتکریم قراردئے گئے تھے ،پس یہ سجدہ آدم (علیه السلام)کے لئے نہیں تھابلکہ درحقیقت حضرت آدم کے طرف رخ کرکے تعظیم وتکریم پروردگارکوسجدہ کیاگیاتھاجیساکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: فرشتوں کاسجدہ آدم(علیه السلام) کے لئے نہیں تھابلکہ آدم(علیه السلام) ان کے لئے قبلہ بنائے گئے تھے کہ جن کی طرف رخ کرکے انھوں نے خداوندعالم کوسجدہ کیااوراس سجدہ کی بناپرآدم(علیه السلام) معظم ومکرم ثابت ہوئے ،اورکسی کے لئے سزاوارنہیں ہے کہ وہ خداکے علاوہ کسی دوسرے کوسجدہ کرے اوراس کے لئے اس طرح خضوع کرے جس طرح خداکے لئے خضوع کیاجاتاہے اورسجدہ کے ذریعہ اس کی اس طرح تعظیم وتکریم کرے جیسے خداکی تعظیم وتکریم کی جاتی ہے ،اگرکسی ایک کوتعظیم وتکریم کی خاطرغیرخداکوسجدہ کرنے دیاجاتاتوحتماًہمارے ضعفائے شیعہ اورہمارے شیعوں میں سے دیگرمکلفین کویہ حکم دیاکہ وہ اپنے اس علم کے واسطہ سے علی ابن ابی طالب وصی پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوسجدہ کریں ۔
. تفسیرامام عسکری /ص ٣٨۶
زندیق نے امام جعفر صادق سے غیرخداکے لئے سجدہ کرنے کے بارے میں پوچھا :کیا خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو سجدہ کرناجائز ہے ؟آپ نے فرمایا :ہرگز نہیں،زندیق نے امام (علیه السلام)سے دوبارہ پوچھا :جب غیرخداکے لئے سجدہ جائزنہیں ہے توپھر خداوند متعال نے فرشتوں کو آدم (علیه السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا تھا؟آپ نے جواب دیا:
خدا کے فرمان کے مطابق کسی کے آگے سر جھکا دینے کو اس کے لئے سجدہ شمار نہیں ہو تا ہے بلکہ وہ سجدہ خدا کے لئے ہو تا ہے ۔
. وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٩۵٨
ملائکہ کاآدم (علیه السلام)کوسجدہ کرنے کی اصلی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے حضرت آدم کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے محمدوآل محمد کے نورکوخلق کیامگرجب آدم (علیه السلام) کوپیداکیاگیاتوالله تبارک تعالیٰ نے ان انوارمقدسہ کوصلب آدم (علیه السلام) میں قراردیالہٰذافرشتوں کوحکم دیاکہ آدم (علیه السلام) کے سامنے سجدہ کرو،ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا،درحقیقت یہ سجدہ آدم (علیه السلام) کونہیں تھابلکہ ان انوارمقدسہ کی تعظیم کاحکم تھاکہ جن کے صدقہ میں یہ پوری کائنات خلق کی گئی ہے اوروہ اس وقت صلب آدم (علیه السلام)میں موجودتھے اس لئے ملائکہ کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاتھا،اسی حقیقت کے بارے میں خودنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)ارشادفرماتے ہیں: الله تبارک وتعالیٰ نے آدم(علیه السلام) کوخلق کیااورہمیں ان کی صلب میں قراردیااورفرشتوں کوحکم دیاکہ وہ ہماری تعظیم واکرام کے لئے آدم کے سامنے سجدہ کریں(ابلیس کے علاوہ تمام ملائکہ نے سجدہ کیا)جن کایہ سجدہ الله کی اطاعت اوراکرام آدم کے لئے تھاکیونکہ ہم ان کی صلب میں تھے۔
. مستدرک الوسائل/ج ۴/ص ۴٧٩
یوسف (علیه السلام)کے سامنے جناب یعقوب اوران بھائیوں کاسجدہ صرف رب العالمین کاسجدہ شٔکرتھااور یوسف فقط ایک قبلہ کی حیثیت رکھتے تھے جس کے ذریعہ ان کے احترام کااظہارکیاجارہاتھا،اسبارے میں علی ابن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیرمیں یہ روایت نقل کی ہے :
موسیٰ ابن احمدنے حضرت ابوالحسن امام علی نقیکی خدمت میں چندسوال مطرح کئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھا : اے میرے مولاوآقا!مجھے اس قول الٰہی<وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوالَہُ سُجَّداً> ( ١)کے بارے میں آگاہ کیجئے کہ حضرت یعقوب (علیه السلام)اوران کے فرزندوں نے حضرت یوسف (علیه السلام)کے سامنے کس لئے سجدہ کیاتھاجبکہ وہ الله کے نبی تھے ؟امام علی نقینے جواب دیا:
امّاسجودیعقوب وولدہ فانّہ لم یکن لیوسف انماکان ذلک منہم طاعة للّٰہ وتحیة لیوسف کماکان السجودمن الملائکة لآدم ولم یکن لآدم انماکان ذلک منہم طاعة للّٰہ وتحیةلآدم وسجدیوسف معہم شکرالله۔
حضرت یعقوب اوران کے فرزندوں کاحضرت یوسف کے آگے سجدہ کرنا،ان کو سجدہ کرنامقصودنہیں تھابلکہ وہ سجدہ الله کی اطاعت اوراحترام یوسف (علیه السلام) کی خاطرتھاجس طرح ملائکہ کاسجدہ آدم(علیه السلام) کے لئے نہیں تھابلکہ الله کی اطاعت اوراکرام آدم(علیه السلام) کی خاطرتھااورحضرت یوسف (علیه السلام) نے بھی ان کے ساتھ ) سجدہ شٔکراداکیا( ٢
--------
. ٢)تفسیرقمی /ج ١/ص ٣۶۵ ) . ١(سورہ یٔوسف /آیت ١٠٠ (

منہج الصادقین میں لکھاہے :جب حضرت نوح کشتی میں سوارہوئے توشیطان بھی اس میں سوارہوا،حضرت نوح (علیه السلام)نے شیطان سے کہا:اے ابلیس !تونے تکبرکی وجہ سے اپنے آپ کوبھی اوردوسرے لوگوں کوبھی ہلاک کردیاہے ،شیطان نے کہا:میں اب کیاکروں؟نبی الله نے کہا:توبہ کرلے ،کہا:کیامیری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ حضرت نوح نے بارگاہ خدا وند ی میں عرض کیا : پروردگا ر ا! اگر ابلیس توبہ کرے ، کیا تواس کی توبہ قبول کر لے گا ؟ خطاب ہوا : اگر ابلیس اب بھی قبرآدم (علیه السلام) کو سجدہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کر لوں گا ، حضرت نوح(علیه السلام) نے جب یہ شیطان سے کہاتو ابلیسنے وہی اپنے بڑے مغرورکے ساتھ جواب دیا: جسوقت آدم زندہ تھے ، میں نے انھیں اس وقت سجدہ نہیں کیا، اب جبکہ مردہ ہوچکے ہیں کیسے سجدہ کرسکتاہوں؟۔
. تفسیرمنہج الصادقین /ج ١/ص ١٧٢

ہررکعت میں دوسجدے قراردئے جانے کی وجہ
ہررکعت میں ایک رکوع ہے اوردوسجدہ ہیں سوال یہ ہے کہ جس طرح ایک رکعت میں دوسجدہ ہیں تو دورکوع کیوں نہیں ہیں یاپھریہ کہ جب ہررکعت میں ایک رکوع ہے توسجدہ بھی ایک کیوں نہیں ہے ،ہررکعت میں یادورکوع ہوتے یاپھر سجدہ بھی ایک ہوتا،دونوں میں مطابقت کیوں نہیں ہے؟
رکوع وسجوددونوں میں مطابقت پائی جاتی ہے کیونکہ نمازوہ حصہ جوبیٹھ کرانجام دیاجاتاہے نمازکے اس حصہ کاآدھاہوتاہے جو حصہ قیام کی حالت میں انجام دیاجاتاہے ،رکوع قیام کی حالت میں شمارہوتاہے اورسجدہ قعودمیں شمارہوتاہے یعنی ایک سجدہ آدھے رکوع کے برابرہوتاہے اسی لئے ایک رکعت دوسجدہ رکھے گئے ہیں تاکہ رکوع سجودمیں مطابقت رہے ،اس بارے میں روایت میں ایاہے:
عیون اخبارالرضا(علیه السلام)میں امام علی رضا فرماتے ہیں :اگرکوئی تم سے یہ سوال کرے کہ ہررکعت میں دوسجدہ کیوں ہیں تواس کاجواب یہ ہے: انّماجعلت الصلاة رکعة وسجدتین لانّ الرکوع من فعل القیام والسجودمن فعل القعودوصلاة القاعدعلی النصف من صلاة القائم فضوعفت السجودلیستوی بالرکوع فلایکون بینہماتفاوت لانّ الصلاة انّماہی رکوع وسجود۔
نمازکی ہرایک رکعت میں ایک رکوع اوردوسجدہ قراردئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ رکوع کھڑے ہوکر انجام دیاجاتاہے اورسجودکوبیٹھ کر،وہ نمازکہ جوبیٹھ کرپڑھی جاتی ہے کھڑے ہوکرپڑھی جانے والی نمازکی آدھی ہوتی ہے اس لئے نمازمیں ایک سجدہ کورکوع کے دوبرابرقراردیاگیاہے تاکہ دونوں میں کوئی فرق نہ رہے کیونکہ رکوع وسجودہی اصل نماز ہیں۔
. عیون اخبارالرضا(علیه السلام) /ج ١/ص ١١۵
حدیث معراج میں نمازمیں دوسجدہ کے واجب قراردئے جانے کی وجہ اس طرح بیان کی گئی ہے:
جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازپڑھنے کاحکم ہوا،جب نمازمیں مشغول ہوئے اوررکوع سے سربلندکیااورپروردگارکی عظمت کامشاہدہ کیاتوالله کی طرف سے وحی نازل ہوئی:اے محمد!اپنے پروردگارکے لئے سجدہ کرو،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے زمین پرسجدہ میں گرگئے ،خدائے عزوجل کی طرف سے وحی نازل ہوئی:اے رسول !کہو“ سبحان ربی الاعلیٰ ” پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس ذکرکو تین مرتبہ زبان پرجاری کیا،اس کے بعدسجدہ سے سربلندکرکے بیٹھ گئے تودوبارہ عظمت پروردگارکامشاہدہ کیالہٰذاپھردوبارہ سجدہ میں گرگئے اورپہلے سجدہ کی طرح دوسراسجدہ کیا(اوراس طرح ہرنمازکی ہررکعت میں دوسجدہ واجب قرارپائے۔
. الکافی/ج ٣/ص ۴٨۶
اسی حدیث کے مانندایک اورحدیث میں ایاہے: ابوبصیرنے امام صادق سے پوچھادورکعت نمازمیں چارسجدے کیوں قراردئے ہیں(یعنی ہررکعت میں ایک رکوع اوردوسجدہ کیوں ہیں؟) امام (علیه السلام)نے فرمایا:کھڑے ہوکرپڑھی جانے والی ایک رکعت نماز،بیٹھ کرپڑھی جانے والی دورکعت کے برابرہے (اورسجدہ بیٹھ کرکیاجاتاہے اس لئے دورکعت میں چارسجدے ہیں)اوریہ کہ رکوع میں“سبحان ربی العظیم وبحمدہ” اورسجدہ “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ ”میں کیوں کہاجاتاہے اس دلیل یہ ہے کہ جب خداوندعالم نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)آیہ مٔبارکہ “ فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ ” نازل کی توآنحضرت نے لوگوں کوحکم دیاکہ تم اسے اپنی نمازکے رکوع میں قراردواورجب آیۂ مبارکہ“فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْاَعْلی ” نازل ہوئی توآنحضرت نے حکم دیاکہ تم اسے اپنی نمازکے سجدہ میں میں قراردو۔
. من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣١۴
ایک شخص امیرالمومنین حضرت علی کی خدمت میں ایااورکہا:اے خداکی بہترین مخلوق(حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله))کے چچازادبھائی !میں اپ سے معلوم کرناچاہتاہوں کہ پہلے سجدہ کے کیامعنی ہیں اوراس کاکیارازہے ؟ آپ نے فرمایا : سجدہ کارازیہ ہے کہ جب نمازی (ہررکعت میں)پہلے سجدے کے لئے زمین پر سر رکھتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :بارالٰہا!تونے مجھے اسی خاک سے پیدا کیاہے اورجب سجدہ أول سے سربلندکرتاہے تواس کامقصدیہ ہوتا ہے :بارالٰہا!،تونے مجھے اسی خاک سے نکالاہے اورجب دوسرے سجدے کے لئے زمین پر دوبارہ سر رکھتاہے تواس بات کی گواہی دیتاہے :ہمیں مرنے کے بعد اسی زمین میں دفن ہونا ہے اور جب سجدہ دٔوم سے سربلندکرتاہے تووہ معادکی گواہی دہتے ہوئے کہتاہے : روزمحشر ہمیں دوبارہ خاک سے بلند جائے گا( جیسا کہ خداوندمتعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے : <مِنْھَا خَلَقْنَا کُمْ وَفِیْھٰا نُعِیْدُ کُمْ وَمِنْھٰا نُخرِ جُکُمْ تَارَةً اُخُریٰ >( ١) اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا ہے اور اسی میں پلٹا کر لے جائیں گے اور پھر دوبارہ اُس سے نکا ) لیں گے )۔ ( ٢
--------
. ٢)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣١۴ ) . ١ (سورہ طٰٔہٰ/آیت ۵۵ (

رازاعضائے سجدہ
سجدہ کی حالت میں بدن کے سات اعضاء کوزمین پرٹیکناواجب ہے،جنھیں اعضاء سجدہ کانام دیاگیاہے اوروہ یہ ہیں:پیشانی ،دونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں،دونوں گھٹنے ،دونوں پیرکے انگوٹھے اورناک کے سرے کومحل سجدہ پرٹیکناسنت پیغمبر ہے ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:سجدہ میں بدن کے سات اعضاء کوزمین پررکھناچاہئے : پیشانی، دونوں ہاتھ کی ہتھیلی ،دونوں گھٹنے ،دونوں پیرکے انگوٹھے اورناک کوبھی زمین پررکھیں لیکن ان میں سے سات اعضاء کازمین پرٹیکناواجب ہے اورناک کازمین پررکھناسنت پیغمبرہے ۔
. استبصار/ج ١/ص ٣٢٧
روایت میں آیا ہے :روز قیامت خدا وند متعا ل آ تشجہنم سے کہے گا: یانارُانضجی، یانارُاِحرقی وامّاموضع السجودفلاتقربی۔ اے جہنم کی آگ! توجس کو جلانا چاہتی ہے جلا دے لیکن اعضاء سجدہ کے ہر گز قریب نہ جا نا ۔
. منہج الصادقین،ج ٨،ص ٣٩٧
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سجدہ کی حالت میں ان سات اعضاء کوزمین پررکھنے کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
خلقتم من سبع ورزقتم من سبع فاسجدوالِلّٰہِ علی سبع۔ خداوندعالم نے تمھیں سات چیزوں سے خلق کیاہے اورسات سے چیزوں سے رزق دیتاہے لہٰذاسات چیزوں پرخداکوسجدہ کرو۔
. مستدک الوسائل /ج ۴/ص ۴۵۵
سجدے کی حالت میں دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کوزمین پرقراردینے کی وجہ حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے:
قال امیرالمومنین علیہ السلام:اذاسجداحدکم فلیباشربکفیہ الارض لعل اللھیصرف عنہ الغل یوم القیامة.
حضرت علی فرماتے ہیں:جب بھی تم میں کوئی شخص سجدہ کرے تواپنے دونوں ہاتھوں کوزمین رکھے شاید خداوندعالم روزقیامت تشنگی کے سوزش کواسسے برطرف کردے۔
. ثواب الاعمال/ص ٣۴

چورکی ہتھلیوں کوقطع نہ کئے جانے کی وجہ
شیعہ اثناعشری مذہب کے نزدیک اسلامی قانو ن یہ ہے کہ اگرکوئی شخص پہلی مرتبہ چوری کرے تواس کے دونوں ہاتھ کی چاروں انگلیاں قطع کردی جائیں اوردونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں وانگوٹھوں کوباقی رکھاجائے تاکہ چوربھی عبادت الٰہی کواس کے حق کے ساتھ اداکرسکے اورفریضہ الٰہی کواداکرنے میں کوئی دشواری نہ ہو روایت میں آیاہے کہ معصتم نے حضرت امام محمدتقی سے سوال کیاچورکے ہاتھوں کوکہاں تک واجب ہے ؟امام (علیه السلام)نے جواب دیا:اس کی چاروں انگلیوں کوقطع کیاجائے اورہتھیلی کوباقی رہنے دیاجائے ،معتصم نے سوال کیا:آپ کے پاس اس کی کوئی دلیل موجودہے ؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایاہے کہ سجدہ میں سات اعضائے بدن: پیشانی ،دونوں ہاتھ کی ہتھیلی،دونوں گھٹنے ،دونوں پیرکے انگوٹھوں کازمین پرٹیکناواجب ہے اگرچورکے ہاتھوں کوگٹے یاکہنی سے قطع کیاجائے تواس کے ہاتھ ہی باقی نہیں رہے گاجسے وہ سجدہ میں زمین ٹیک سکے اورخداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:
) > وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّہِ فَلَاتَدْعُوْامَعَ الله احَدًا >( ١
بیشک مساجدسب الله کے لئے ہیں لہٰذااس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔ اس کے بعدامام (علیه السلام) نے فرمایا:اس قول خداوندی میں “مساجد”سے وہی سات اعضاء مرادہیں کہ جن کازمین پرٹیکناواجب ہے اور“ فَلَاتَدْعُوْامَعَ الله احَدًا ” سے مرادیہ ہے کہ اس کے ہاتھوں کوقطع نہ کیاجائے (بلکہ فقط اس کی انگلیوں قطع کیاجائے تاکہ وہ عبادت ) الٰہی کواس کے حق کے ساتھ اداکرسکے)( ٢
--------
. ٢)تفسیرالمیزان /ج ۵/ص ٣٣۵ ) . ١(سورہ جٔن /آیت ١٨ (

راز ذکرسجدہ
سجدہ میں بھی رکوع کے مانندذکرخداواجب ہے ،سجدہ کاکوئی ذکرمخصوص نہیں ہے بلکہ جوذکربھی کیاجائے کافی اورصحیح ہے ،چاہے “الحمدلله ”کہے یا“لاالہ الّاالله” کہے یاتکبیر“الله اکبر”کہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ذکرتین مرتبہ“سبحان الله”اورایک مرتبہ “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ”کی مقدارسے کم نہ ہوالبتہ تسبیح کرنااحتیاط کے مطابق ہے یعنی بہترہے کہ تین مرتبہ “سبحان الله”یاایک مرتبہ “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ” کہاجائے اور مستحب ہے کہ “سبحان ربی الاعلیٰ و بحمدہ” کو اختیارکرے اورمستحب ہے کہ اس ذکرکوتین مرتبہ کہاجائے
ذکرسجدہ اوراس کے اسرارکوذکررکوع کے ساتھ ذکرکرچکے ہیں لہٰذاتکرارکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اشیائے ماکول وملبوس پرسجدہ کیوں جائزنہیں ہے واجب ہے کہ نمازگزارزمین یاوہ چیزیں جوزمین سے اگتی ہیں اورانسان کی پوشاک یاخوراک کے کام میں نہیں آتی ہیں جیسے لکڑی اوردرختوں کے پتے پرسجدہ کرے لیکن وہ چیزیں جو انسان کی خوراک وپوشاک میں استعمال ہوتی ہیں ان پرسجدہ کرناجائزنہیں ہے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مجھے پانچ ایسی چیزعطاکی گئی ہیں جومجھ سے پہلے کسی کونہیں دی گئی :زمین کومیرے لئے سجدہ گاہ اورپاک کرنے والی قراردیاگیاہے،میرے چہرے پردشمن کے لئے رعب وحشت عطاکرکے میری مددکی گئی ہے،مال غنیمت کومیرے لئے حلال قراردیاگیاہے،جوامع الکلام مجھے دی گئی ہیں اورمجھے شفاعت بھی عطاکی گئی ہے۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢۴١
ہشام ابن حکم سے مروی ہے میں نے امام صادق کی محضرمبارک میں عرض کیا:میں اپ پرقربان جاؤں مجھے ان چیزوں کے بارے میں مجھے مطلع کیجئے کہ کن چیزوں پرسجدہ کرناصحیح ہے اورکن پرصحیح نہیں ہے؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا: زمین پراوروہ چیزیں جوزمین سے اگتی ہیں سجدہ کرناجائز ہے لیکن زمین سے اگنے والی وہ چیزیں جوکھانے یاپہننے کے کام میں اتی ہیں ان پرسجدہ کرناجائزنہیں ہے،ہشام نے کہا:میری جان آپ پرقربان جائے اس کارازہے اورکیادلیل ہے؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا:کیونکہ سجدہ خداکے لئے ایک خضوع وتواضع کاحکم رکھتاہے لہٰذا کھانے اورپہننے کی چیزوں پرسجدہ کرناسزوارنہیں ہے کیونکہ دنیاکے لوگ کھانے ،پینے اورپہننے والی اشیاء کے معبودہیں گویاان کی پوچاکرتے ہیں لیکن سجدہ کرنے والاشخص خداکی عبادت کرتاہے لہٰذااسے چاہئے کہ دنیاکے فرزندوں کے معبودپرسجدہ کے لئے اپنی پیشانی کونہ رکھے جنھوں نے اس کادھوکاکھایاہے ،اس کے بعد امام (علیه السلام)نے فرمایا:زمین پرسجدہ کرناافضل ہے کیونکہ زمین پرسررکھنے سے انسان کے دل میں خداکے لئے اورزیادہ خضوع خشوع پیداہوجاتاہے ۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٧٢

رازطول سجدہ
سجدہ کوطول دینامستحب ہے ،سجدہ کوجت نازیادہ طولانی کیاجائے تواس کے لئے ات ناہی زیادہ فضیلت کاباعث ہوتاہے اورشیطان کی ناراضگی اورمایوسی کاسبب واقع ہوتاہے لہٰذامستحب ہے کہ سجدہ کوطول دیاجائے تاکہ شیطان کی کمرٹوٹ جائے اوروہ نمازی کے پاس بھی نہ آسکے ۔ امام صادق فرماتے ہیں: جب کوئی بندہ سجدہ کرتا ہے اور اس کو طول دیتا ہے تو شیطان بہت ہی حسرت سے فریاد کرتے ہوئے کہتا ہے : وائے ہومجھ پر ! الله کے بندوں نے اس کے فرمان کی اطاعت کی اور میں نے اس کے حکم کی خلاف ورزی کی، انھوں نے خداکی بارگاہ میں سجدہ کیااور میں نے اس سے خودداری کی ۔ . وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ٢۶
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:اپنے سجدوں کوطولانی کروکیونکہ شیطان کے لئے اس سے زیادہ سخت اورپریشان کردینے والاعمل کوئی نہیں ہے کہ وہ اولادآدم(علیه السلام) کوسجدہ کی حالت میں دیکھے کیونکہ شیطان کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاتواس نے نافرمانی کی (اورہمیشہ کے لئے لعنت کاطوق اس کے گلےمیں پڑگیا)اورانسان کوسجدہ کرنے کاحکم ملاتواسنے خداکے اس امرکی اطاعت کی (اورکامیاب ہوگیا)۔
. علل الشرایع/ج ٢/ص ٣۴٠
روایت میں آیاہے کہ ایک جماعت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس آئی اورکہا:یارسول الله!آپ ہمارے لئے اپنے پروردگارسے جنت کی ضمانت کرائیں توآنحضرت نے فرمایا:تم اس کام میں طولانی سجدوں کے ذریعہ میری مددکرو(تاکہ میں تمھارے لئے جنت کی ضمانت کروں)۔
. مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ۴٧١
حضرت علیسے روایت ہے ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں ایااورعرض کیا:یارسول الله!مجھے کسی ایسے کام کی تعلیم دیجئے کہ جس کے واسطہ سے خدامجھے اپنادوست بنالے اوراس کی مخلوق بھی مجھے دوست رکھے ،خدامیرے مال کوزیادہ کرے ،میرے جسم میں سلامتی دے ،میری عمرکوطولانی کرے اورمجھے آپ کے ساتھ محشورکرے ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:
یہ چھ صفتیں چھ عمل کی محتاج ہیں اگرتو یہ چاہتاہے کہ خداتجھے دوست رکھے تواپنے دل میں خوف پیداکراورتقوااختیارکر،اوراگرتو یہ چاہتاہے کہ بندے بھی تجھے دوست رکھیں توان کے حق میں نیکی کراوروہ چیزجومخلوق کے ہاتھوں میں ہے اس سے پرہیزکر،اوراگرتو یہ چاہتاہے کہ خداتیرے مال کوزیادہ کردے توزکات اداکر،اوراگرتواپنے جسم کی ت ندرستی وسلامتی چاہتاہے توزیادہ صدقہ دیاکر،اوراگرتواپنے طول عمرکی تمناکرتاہے توصلہ رحم کرتارہ ،اورتویہ چاہتاہے کہ خداتجھے میرے ساتھ محشورکرے توبارگاہ خداوندی میں جواکیلاہے اورقہاربھی ہے اپنے سجدہ کوطول دیاکر۔
. مستدرک الوسائل/ج ۴/ص ۴٧٢
فضل بن شاذان سے مروی ہے : ایک مرتبہ جب میں عراق پہنچا تودیکھا کہ ایک شخص اپنے ایک دوست کوملامت کررہا ہے اوراس سے کہہ رہاہے : اے بھائی ! توصاحب اہل وعیال ہے ،تجھے اپنے بچوں کی معیشت کے لئے کسب وکار کی ضرورت ہے اور مجھے خوف ہے کہ اگر تو ہمارے ساتھ تجارت کے لئے سفرنہیں کرے گاتوان سجدوں کی وجہ سے تیری آنکھوں کا نور ختم ہوجا ئے گا
اس نے جواب دیا : وائے ہو تجھ پر، تو !مجھے سجدہ کرنے کی وجہ سے ات نی زیادہ ملامت کررہاہے ،اگر ان سجدوں کی وجہ سے کسی کی آنکھوں کا نور چلاجاتاہے توپھرمحمدابن ابی عمیرکی آنکھوں کا نور ختم ہوجانا چاہئے تھا،مجھے بتاکہ تیرا ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جس نے نماز صبح کے بعد سجدہ شٔکرمیں سررکھاہواورظہرکے وقت تک بلند کیا ہو
فضل بن شاذان کہتے ہیں :میں اس شخص کی یہ بات سن کر محمدابن ابی عمیرکی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ سرسجدے میں ہے، بہت دیرکے بعد سجدے سے سراٹھایا ،میں نے ان سے طول سجدہ کے بارے میں پوچھاتوانھوں نے سجدے کو طول دینے کی فضیلت بیان کرنا شروع کی اور کہا:
اے فضل ! اگر تم جمیل ا بن درّاج کو دیکھیں گے تو کیاکہیں گے ؟ فضل کہتے ہیں کہ میں جمیل ابن درّاج کے پاس پہنچاتو انھیں بھی سجدے کی حالت میں پایا، اورواقعاًانھوں نے سجدے کو بہت زیادہ طول دیا ، جب سجدے سے بلند ہوئے تو میں نے کہا : محمد ابن ابی عمیر صحیح کہتے ہیں کہ آپ سجدے کو بہت زیادہ طول دیتے ہیں ، جمیل نے کہا : اگر تم “معروف خربوز ”کو دیکھیں گے توکیاکہیں گے ؟
دوسری حدیث میں آیاہے کہ ایک شخص نے جمیل ابن درّاج سے کہا : تعجب ہے کہ آپ سجدے میں کت نازیادہ تو قّف کرتے ہیں اور بہت طولانی سجد ہ کرتے ہیں؟ جواب دیا :اگر تم نے حضرت امام جعفر صادق کو دیکھاہوتا تو تمھیں معلوم ہوجاتا کہ ہمارے یہ سجدے ان کے مقابلہ میں کچھ بھی طولانی نہیں ہیں۔
. ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٢٨٩ /ص ٩٢

سجدہ گاہ کی رسم کاآغاز
کسی پتھریاخاک کوسخت کرکے سجدہ گاہ قراردیناقدیمی رسم ہے اوراسے مذہب تشیع کی اختراع وایجادقراردینابالکل غلط ہے کیونکہ جب دین اسلام میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کونمازپڑھنے کاحکم دیاگیاتوآپ اورآپ کی اتباع کرنے والے نمازمیں زمین پرسجدہ کرتے تھے لیکن جب الله ورسول اوراس کی نازل کی گئی کتاب پرایمان لانے والوں کی میں اضافہ ہوتاگیااوردین اسلام رونق افروزہوتاگیااوررسول اسلام (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرے مدینہ پہنچے توآپ نے زمین کے ایک ٹکڑے کومحل عبادت ومسجدکے عنوان سے معین کیااورزمین پرعلامت لگادی گئی کہ یہ جگہ محل عبادت ہے اورتمام مسلمان اس جگہ نمازاداکریں گے ،اس وقت اس کی کوئی چہاردیواری نہیں تھی اوراس زمین پرچھت وغیرہ بنائی گئی تھی اورنہ کسی سایہ کاانتظام کیاگیاتھا،جب یہ دیکھاگیااس زمین محل عبادت میں کوئی نجس جانوربھی چلاآتاہے تواس کی چہاردیواری کردی گئی مگراس وقت اس زمیں پرکسی چھت یاسایہ کاانتظام نہیں گیااورت نہ ہونے کی وجہ سے دوپہرکی جلتی دھوپ میں نمازپڑھنابہت مشکل کام تھااسی سردی کی ٹھنڈک میں نمازپڑھنانہایت مشکل تھالہٰذاآنحضرت سے لوگوں نے کہا:اے الله کے پیارے نبی !اس تپتی زمین پرپیشانی رکھنابہت مشکل ہے اورہماری پیشانی جلی جاتی ہیں (کیاہم زمین کے علاوہ اپنے ساتھ میں موجودکسی کپڑے پر سجدہ کرسکتے ہیں؟) پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان کی بات کونہ سنااور اسی طرح زمین پرسجدہ کرنے کاحکم دیااورتمام مسلمان زمین پرسجدہ رہے ۔ بیہقی نے اپنی کتاب “سنن کبری”میں خباب ابن ارث سے روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ:ہم نے زمین سجدہ کرنے بارے میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے گرمی کی شدت کی شکایت کی اورکہا:یانبی الله!نمازکی حالت میں گرم پتھریوں پرسجدہ کرنے سے ہماری پیشانی اورہتھیلیاں منفعل ہوجاتی ہیں(پس ہم کیاکریں؟)رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)ان بات پرشکایت کوئی دھیان نہیں دیااورنہ ہی کسی نئی چیزکااظہارکیابلکہ اسی طرح سجدہ کرنے کاحکم دیااورہم زمین پرسجدہ کرتے رہے۔
. سنن کبروی/ج ٢/ص ١٠۵
اسی زمانہ میں ایک صحابی نے نمازجواعت شروع ہونے سے قبل زمین سے ایک پتھری اٹھائی اوراسے ٹھنڈاکرلیااورنمازمیں اسی پرسجدہ کیا،اس کایہ عمل رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کرپسندآیااور آنحضرت نے اس کی تائیدکردی اس روزکے بعدلوگوں نے یہ کام شروع کردیااورنمازشروع ہونے سے قبل پتھری اٹھانے لگے اوراسی پرسجدہ کرنے لگے اوربعث اسلام ہی سے کسی ایک چیزکوسجدہ گاہ قرادینا مشروعیت ہوگیا۔ بیہقی نے اپنی کتاب “سنن کبری”میں یہ رویات نقل کی ہے: ابوولیدسے مروی ہے کہ میں نے فرزندعمرسے سوال کیا:وہ کون شخص ہے جو مسجدمیں سب سے پہلے سنگریزہ لایا؟جواب دیا:مجھے اچھی طرح یادہے کہ بارش کی رات تھی اورمیں نمازصبح کے لئے گھرسے باہرآیاتودیکھاکہ ایک مردریگ پرٹہل رہاہے ،اس نے ایک مناسب پتھری اٹھائی اوراسے اپنے کپڑے میں رکھااوراس پرسجدہ کیاجب رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اسے اس کام کوکرتے دیکھاتوبہت خرسندی اورخوشحالی کے ساتھ عرض کیا:یہ تونے کت نااچھاکام کیاہے ،پس یہ پہلاشخص ہے کہ جس نے اس چیزکی ابتداء کی ہے ) ۔( ١
. ١(سنن کبروی/ج ٢/ص ۴۴٠ (
اسی واقعہ سے یہ ثابت ہے کہ کسی چیزکو سجدہ گاہ کاعنوان قراردیناصحیح ہے یہی وہ شخص ہے کہ پہلی مرتبہ کسی چیزکوبعنوان سجدہ گاہ مسجدمیں اپنی جانمازپرقراردیاہے۔ جب مسجدمیں کسی چیزکوسجدہ گاہ کے طورپرلاناصحیح قرارپاگیاتواس کے اصحاب نے شدیدگرمی کی شکایت کی اورکہا:یانبی الله!ہم پیشانی اورہتھیلیوں کے جلنے سے محفوظ ہوگئے ہیں،ہرشخص ایک پتھری کوبطورسجدہ پہلے ہی اٹھالیتاہے اوراسے ٹھنڈی کرلیتاہے مگراس جسم کے جلنے کابھی کوئی علاج کیاجائے کیونکہ دھوپ میں کھڑے ہوکرنمازپڑھنابہت ہی مشکل کام ہے پس رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)ن حکم دیاکہ مسجدکے ایک حصہ میں چھت بنادی جائے تاکہ لوگ گرمی اور سردی سے محفوظ رہ سکیں ،فرمان رسول کے مطابق مسجدکے ایک حصہ میں چھت بنادی گئی اورمسلمان سایہ میں نمازپڑھنے لگے کچھ قرائن وشواہدسے معلوم ہوتاہے کہ خلفائے راشدین کے زمانہ تک مسجد میں کسی فرش اورچٹائی وغیرہ کاکوئی انتظام نہیں کیاگیاتھا بلکہ لوگ زمین ہی پر سجدہ کرتے تھے ،خلیفہ دوم نے اپنے زمانہ حکومت میں حکم دیاکہ مسجدمیں پتھریاںڈادی جائیں تاکہ نمازی لوگ اس پرسجدہ کر تے رہیں،خلفائے راشدین کے بعدصحابہ اورتابعیں کے زمانہ میں بھی یہی معمول تھا اورلوگ پتھریوں پرسجدہ کرتے تھے یاکسی چھوٹے سے پتھرکویاتھوڑی سی خاک اٹھاکرجانمازپربطورسجدہ گاہ رکھ لیاکرتے تھے اوراس پرسجدہ کرتے تھے یہاں تک کہ خاک کوپانی ذریعہ گیلی کرکے سخت کرلیاکرتے اوراسے سجدہ قراردئے کرتھے اوریہ روش آج تک شیعوں کے درمیان قائم ورائج ہے پس شیعوں کاکسی پتھرکویاخاک کوسخت کرکے سجدہ گاہ قراردیناکوئی نئی ایجادنہیں ہے بلکہ یہ روش توپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے زمانہ سے شروع ہے
خلیفہ دوم کے مسجدمیں سنگریزے ڈلوانے اوراس پرسجدہ کر نے کے بارے میں ابن سعد اپنی کتاب “الطبقات”میں یہ رویات نقل کی ہے: عبدالله ابن ابراہیم سے مروی ہے :عمرابن خطاب وہ شخص ہیں کہ جنھوں نے سب سے پہلے مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں پتھریاںڈلوائیں لیکن ان کے اس کام کی وجہ یہ تھی کہ جب لوگ نمازڑھتے تھے اورسجدہ سے سربلندکرتے تھے تواپنے ہاتھوں کوجھاڑتے تھے جوکہ گردآلوہوجاتے تھے یاپھونک مارتے تھے تاکہ گردجھڑجائے لہٰذاحضرت عمرنے حکم دیاکہ وادی عقیق سے پتھریاں اٹھاکرمسجدمیں بچھادی جائیں ۔ . المصنف /ج ٨/ص ٣۴۵ ۔کنزالعمال/ج ١٢ /ص ۵۶٣ ۔الطبقات الکبری/ج ٣/ص ٢٨۴ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے تابعین میں سے ایک شخص جن کانام مسروق بن اجدع تھاانھوں نے خاک مدینہ سے بعنوان سجدہ گاہ ایک چھوٹی سی خشت (یعنی اینٹ)بنارکھی تھی اوروہ جب بھی کہیں سفرکرتے تھے تواسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اوراس پرسجدہ کرتے تھے
اس بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب “المصنف ”میں ابن سیرین سے اس طرح روایت نقل کی ہے:
ابن سیرین سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: میں باخبراورآگاہ ہواہوں کہ مسروق ابن اجدع نے خاک مدینہ سے ایک اینٹ کوبنارکھی تھی ،جب بھی وہ کشتی میں سفرکرتے تھے تواسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اوراسی پرسجدہ کرتے تھے ۔
. المصنف /ج ٢/ص ١٧٢
ابن ابی عینیہ سے مروی کہ میں نے ابن عباس کے ایک غلام “رزین”کویہ کہتے سناہے :وہ کہتے ہیں کہ علی ابن عبدالله ابن عباس نے میرے پاس ایک خط لکھااوراس میں مجھ سے فرمائش کی کہ میرے لئے “مروہ ” سے ایک صاف ستھراپتھرروانہ کردوتاکہ میں اس پرسجدہ کروں۔
. تاریخ مدینہ دمشق/ج ۴٣ /ص ۵٠ ۔المصنف /ج ١/ص ٣٠٨
ان روایتوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کسی چیزکوسجدہ گاہ قراردیناشیعوں سے مخصوص کرناغلط ہے بلکہ یہ توآغازاسلام ہی سے دین اسلام میں مشروعیت رکھتاہے جیساکہ پہلے ایک روایت میں و ذکرکرچک ہیں کہ ایک شخص نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے زمانہ میں نمازشروع ہونے سے پہلے ایک چھوٹاساپتھراٹھایااوراسے ٹھنڈاکرلیااورپھراس پرنمازمیں سجدہ کیااورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس کے اس کام کی صحیح ہونے کی تائیدبھی کی،کیااس شخص نے اس پتھرکوسجدہ گاہ قرارنہیں دیاتھا؟کیامسروق ابن اجدع خاک مدینہ سے سجدہ گاہ نہیں بنارکھی تھی ؟اورکیاعلی ابن عبدالله ابن عباس نے رزین کے پاس خط لکھ کرمروہ سے ایک پتھرکوبعنوان سجدہ گاہ طلب نہیں کیاتھا؟۔

خاک شفاپرسجدہ کرنے کاراز
ہم اوپریہ ثابت کرچکے ہیں کہ سجدعہ گاہ بناناکوئی ایجادواختراع نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے اوائل سے ہی سے رائج ہے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس کی تائیدکی ہے لیکن اب ہمیں یہ ثابت کرناہے کہ بعض جگہ کی خاک بہت ہی زیادہ صاحب تکریم وتفضیل ہوتی ہے اورقابل احترام ہوتی ہے
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے چچاجناب حمزہ جنگ احدمیں شہیدہوئے اورکفارومشرکین ان کے لاشہ کے ساتھ یہ سلوک کیاکہ ابوسفیان کی بیوی (مادرمعاویہ )نے جگرچاک کیااوراسے اپنے ناپاک دانتوں سے چبایا
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے حضرت حمزہ کو“سیدالشہداء ” کالقب دیا اورعملی طورسے دین اسلام کی اتباع کرنے والوں کواس خاک کے متبرک ہونے کو سمجھانے کے لئے حضرت حمزہ کی قبرسے تھوڑی سی خاک اٹھائی اوراسے اپنے ساتھ لے گئے ،صدیقہ کٔبریٰ حضرت فاطمہ زہرا نے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کی ابتاع کی اورآپ نے بھی حضرت حمزہ کے حرم سے خاک اٹھائی اوراس سے ایک تسبیح تیارکی
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے نواسہ حضرت امام حسیناورجوانان بنی ہاشم کو ان کے اصحاب وانصارکے ساتھ سرزمین کرب وبلاپرنہایت ظلم وبے رحمی کے ساتھ شہیدکیاتوسیدالشہداء کالقب حضرت حمزہ سے حضرت امام حسین کی طرف منتقل ہوگیااورآپ کے حرم مطہرکی خاک خاک شفاقرارپائی ،امام زین العابدیننے عملی طورسے قرآن وعترت کی اتباع کرنے والوں کواس خاک کی عظمت وبرکت کوسمجھانے کے لئے امام حسین کے مرقدمطہرسے بعنوان تبرک کچھ خاک اٹھائی اوراس سے سجدہ گاہ بنائی اوراس کے بعدجب بھی نمازپڑھتے تھے تواسی تربت پاک پرسجدہ کرتے تھے اورآپ کے شیعہ بھی اسی خاک پاک پرسجدہ کرنے لگے
امام زین العابدین کے بعددیگرآئمہ اطہار نے بھی اسی سیرت پرعمل کیااوراسے جاری رکھااوریہی سیرت آج تک ان کی اتباع کرنے والوں درمیان رائج وقائم ہے تربت کربلاکی اہمیت اوراس پرسجدہ کرنے کی فضیلت کے بارے میں چندروایت مندرجہ ذیل ذکرہیں:
امام صادق فرماتے ہیں:رسول خدا (صلی الله علیه و آله)ام سلمہ کے گھر موجود تھے اوران سے کہہ رہے تھے :مجھے اس وقت یہاں پرت نہائی کی ضرورت ہے (پس تم کمرے سے باہرچلی جاؤ) اوردیکھو!کوئی میرے پاس آنے نہ پائے ،اتقاقاًامام حسین آگئے، لیکن چونکہ امام حسیناس وقت بہت ہی کمسن تھے لہٰذاام سلمہ انھیں کمسنی کی وجہ سے نہ روک سکیں،جسبہانہ سے سے بھی روکناچاہاکامیاب نہ ہوسکیں اورامام حسین رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس پہنچ گئے چند لحظہ بعدام سلمہ امام حسین کے پیچھے آئیں تودیکھاکہ حسین (علیه السلام) پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے سینہ مٔبارک پہ بیٹھے ہوئے ہیں اورآنحضرتاپنے ہاتھوں میں ایک چیزلئے ہوئے ہیں جسے گھماپھراکردیکھ رہے ہیں اورگریہ کررہے ہیں(میں نے پوچھا؟ یانبی الله! یہ آپ کے ہاتھ میں کیاہے ؟تو) آنحضرت نے فرمایا: اے ام سلمہ !ابھی میرے جبرئیل آئے تھے اورانھوں نے مجھے خبردی ہے کہ تمھارایہ بچہ (حسین (علیه السلام))قتل کردیاجائے گااوریہ چیزکہ جسے میں اپنے ہاتھوں میں گھماکردیکھ رہاہوں اسی سرزمین کی خاک ہے کہ جسپریہ میرانواسہ قتل کردیاجائے گا اے ام سلمہ! (جب میرایہ نواسہ قتل کیاجائے گااس وقت میں زندہ نہ ہوں گا مگر تم اس وقت زندہ ہونگی)پس میں اس خاک کو تمھارے سپردکرتاہوں تم اس خاک کو ایک شیشی میں رکھدواوراس کی حفاظت کرتے رہنا اوریادرکھناجب یہ خاک خون ہوجائے توسمجھ لیناکہ میرایہ عزیز شہیدکردیاگیاہے
ام سلمہ نے کہا:یارسول الله!خداسے کہوکہ وہ اس عظیم مصیبت کواس بچہ سے دورکردے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:میں نے خداوندعالم سے اس مصیبت کے دفع ہوجانے کوکہا توخدانے مجھ پروحی نازل کی:یہ شہادت اس بچہ کے لئے ایک بلندمقام ہے جواس بچہ سے پہلے کسی بھی مخلوق کوعطانہیں کیاگیاہے اورخداوندعالم نے مجھ سے وحی کے ذریعہ بتایاکہ اس بچہ کی پیروی کرنے والے لوگ قابل شفاعت قرارپائیں گے اورخودبھی دوسروں کی شفاعت کریں گے
بیشک مہدی صاحب الزمان (عج ) اسی حسین (علیه السلام)کے فرزندوں میں سے ہیں،خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئے جوان کودوست رکھتاہوگااوربیشک روزقیامت ان ہی کے شیعہ کامیاب وسربلندہونگے ۔
. امالی(شیخ صدوق)/ص ٢٠٣
قال الصادق علیہ السلام:السجودعلی طین قبرالحسین (ع)ینورالیٰ الارضین السبعة ،ومن کانت معہ سبحة من طین قبرالحسین (ع)کتب مسبح اوان لم یسبح بہا۔ امام صادقفرماتے ہیں:امام حسینکی خاک قبرپرسجدہ کرناساتوں زمینوں کومنور کردیتاہے اورجوشخص تربت امام حسینکی تسبیح اپنے ہمراہ رکھتاہوچاہے اس کے دانوں پرکوئی ذکربھی نہ پڑھے پھربھی تسبیح کرنے والوں میں شمارہوگا۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢۶٨
عن معاویہ بن عمارقال:کان لابی عبدالله علیہ السلام خریطة دیباج صفراء فیہاتربة ابی عبدالله علیہ السلام فکان اذاحضرتہ الصلاة صبّہ علی سجادتہ وسجدعلیہ ثمّ قال(ع):انّ السجودعلی تربة ابی عبدالله الحسین علیہ السلام یخرق الحجب السبع ۔ معاویہ ابن عمارسے روایت ہے کہ:امام صادق کے پاس ایک پیلے رنگ کی تھیلی تھی جس میں امام (علیه السلام)خاک شفا رکھتے تھے ،جیسے ہی نمازکاوقت پہنچتاتھا تو اس تربت کوسجادہ پرڈالتے اوراس پرسجدہ کرتے تھے ،اگرکوئی آپ سے اس بارے میں سوال کرتاتھاتوفرماتے تھے :تربت امام حسین پرسجدہ کرناسات (آسمانی )پردوں کوپارہ کردیتاہے ۔
. بحارالانوار/ج ٩٨ /ص ١٣۵
کان الصادق علیہ السلام لایسجدالّاعلیٰ تربة الحسین علیہ السلام تذللا لله واستکانة الیہ۔
روایت میں آیاہے کہ امام صادق تربت امام حسینکے علاووہ کسی دوسری پرخاک سجدہ نہیں کرتے تھے اوریہ کام(یعنی خاک کربلاپرسجدہ کرنا)خضوع وخشوع خداوندمتعال میں زیادتی کے لئے انجام دیاکرتے تھے۔
. وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۶٠٨