نمازکے آداب واسرار
 


سورہ تٔوحیدکی مختصرتفسیر
سورہ توحیدکوتوحیدکہے جانے اوراس کے نزول کی وجہ اس سورہ کوتوحیدکہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس پورے سورہ میں پہلی آیت سے آخری آیت تک توحیدباری تعالیٰ کاذکرہے اوراس سورہ کواخلاص بھی کہتے ہیں کیونکہ انسان اس سورہ کی معرفت اوراس پرایمان واعتقاد رکھنے سے شرک جیسی نجاست سے پاک وخالص ہوجاتاہے بعض کہتے ہیں:اگرکوئی اس سورہ کوتعظیم خداکوذہن میں رکھ کرقرائت کرتاہے توخداوندعالم اسے آتشجہنم سے نجات دے دیتاہے۔ کتب تفاسیرمیں اس سورہ کی شان نزول کی حدیث کے ضمن میں چندوجہ بیان کی گئی ہیں:
١۔ابی ابن کعب اورجابرسے مروی ہے کہ مشرکین نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)سے کہا:آپ ہمارے لئے اپنے خداکی معرفت بیان کریں توآنحضرت پریہ سورہ نازل ہوا۔ ٢۔ابن عباس سے مروی ہے :عامربن طفیل اوراردبن ربیعہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں آئے ،عامرنے کہا: اے محمد!تم ہمیں کس کی طرف دعوت دیتے ہو؟آنحضرت نے کہا: خداکی طرف،اس نے کہا:تم اپنے اس خداکی صفت بیان کرو،وہ سونے سے بناہے یاچاندی سے ،لوہے سے بناہے یالکڑی سے؟پسخداوندعالم نے یہ سورہ نازل کیا۔ ٣۔محمدابن مسلم نے حضرت امام صادق سے روایت کی ہے ،امام فرماتے ہیں کہ: یہودیوں نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے سوال کیااورکہا :اے محمد!تم اپنے پروردگارکی معرفت بیان کرواوراس کانسب بتاؤ(کہ وہ خدا کون ہے ، اس کا باپ کون ہے ، اس کافرزند کون ہے شایدہم ایمان لے آئیں ) آنحضرت نے تین دن ان کی بات کاجواب نہ دیااورغور وفکر کرتے رہے کیونکہ وحی پروردگا ر کے منتظر تھے ، الله کی مرضی کے بغیر کوئی بھی جملہ اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے تھے لہٰذاخدا کی طرف سے سورئہ “قُلْ ھُوَاللهُ اَحَدْ … ” نازل ہوا۔
. تفسیرمجمع البیان/ج ١٠ /ص ۴٨۵
مرحوم کلینی نے کافی معراج النبی سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ جسوقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازکاوقت پہنچاتوخدانے آپ کووضوکرنے کاحکم دیا ،آپ نے وضوکیااورنمازکے کھڑے ہوئے ،انبیاء ملائکہ نے آپ کے پیچھے نمازجماعت کے کھڑے ہوئے ہیں خداوندعالم نے وحی نازل کی:
اے محمد! “بسم الله الرحمن الرحیم”کہواورسورہ حٔمدپڑھو ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ایسا ہی کیااور“ولاالضالین”کہنے کے بعد“الحمدللھرب العالمین”کہا(آمین نہیں کہا لہٰذاسنت رسول یہ ہے کہ سورہ حمدکے بعد“الحمدللھرب العالمین”کہاجائے ) خدانے کہا: اے محمد!(ص)سورہ حمدکے بعداپنے پروردگارکاشناسنامہ اورنسبت کوپڑھواوراے رسول !ان مشرکین سے کہدو <قُلْ ہُوَاللهُ اَحَدٌ، اَلله الصَّمَدُ،لَمْ یَلِدْوَلَمْ یُوْلَدْ،وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًااَحَدْ> وہ الله ایک ہے،اللھبرحق اوربے نیازہے ،اس کاکوئی عدیل ونظیرنہیں ہے کہ جواس کے مثل ہو،پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نماز کی پہلی رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سورہ تٔوحید کی قرائت کی اورجب دوسری رکعت میں سورہ حٔمدپڑھاتوپروردگارطرف سے وحی نازل ہوئی: اے محمد!(ص)دوسری رکعت میں سورہ حٔمدکے بعد<اِنّااَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْر...> کی قرائت کروکیونکہ یہ سورئہ روزقیامت تک تمھارااورتمھارے اہلبیت سے منسوب ہے یہ سورہ تمھارااورتمھارے اہلبیت کاشناسنامہ ہے جسمیں تمھاراشجرہ موجودہے ۔
. کافی/ج ٣/ص ۴٨۵

اَحَدْکہے جانے کی وجہ
سوال یہ ہے کہ خداوندعالم نے “احد”کیوں کہا“واحد”کیوں نہیں کہا؟مختصرجواب یہ کہ احداورواحددونوں میں فرق پایاجاتاہے “احد”یعنی وہ اکیلاعددکہ جس میں کسی طرح کی دوئی ،ترکیب اورتجزیہ کاامکان نہیں ہے اوروہ اپنی ذات میں تجزیہ وتقسیم کی صلاحیت نہیں رکھتاہے اوراس کے لئے ثانی اوردوئی کاوجودنہیں پایاجاتاہے لیکن “واحد”ایساعددہے جس میں تجزیہ وترکیب اورتقسیم بندی کاامکان پایاجاتاہے اوراسکاثانی موجودہوتاہے۔ امیرا لمو منین حضرت علی سے سورئہ توحید کی تفسیربیان کرنے کی فرمائش کی گئی تو آپ نے فرمایا :“قل ھوالله احد” یعنی خدا ایسااکیلاہے کہ جس کی ذات وصفات میں تعددنہیں پایاجاتاہے (اور کوئی اس کا شریک نہیں ہے )“الله الصمد”یعنی خدا کی ذات ایسی ہے کہ جس کے کوئی اعضاء واجزاء نہیں ہیں اور ہر چیز سے بے نیاز ہے(یعنی خداجسم نہیں رکھتاہے (
”لَمْ یَلدِْ”یعنی اس کے کوئی فرزند بھی نہیں ہے تاکہ وہ فرزند اس کی حکومت کا وارث بن سکے کیونکہ جوصاحب فرزندہوتاہے وہ جسم بھی ضرور رکھتاہے اور جو جسم رکھتا ہے اس کے فنابھی ہے اور جو مر جاتاہے اس کی حکومت وباد شاہت کسی دوسرے کی طرف منتقل ہوجاتی ہے (لیکن خدا نہ جسم رکھتا ہے نہ کوئی فرزند اور نہ اس کو موت آ ئے گی ، وہ ہمشیہ سے ہے اور ہمشیہ رہے گا(
”وَلَم لوُلَدْ”یعنی اس کوکسی نے پیدا نہیں کیا ہے ،اگراس کے کوئی باپ ہوتاتووہ بادشاہت اورخدائی کے لئے زیادہ لائق ومستحق ہوتا اورکم ازکم وہ باپ اپنے بیٹے کا شریک ضرورہوتا۔
. تفسیرمجمع البیان/ج ١٠ /ص ۴٨٩

رازتسبیحات اربعہ
تین اورچاررکعتی نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں نمازی کواختیارہے چاہے ایک مرتبہ سورہ حٔمدپرھے یاتین مرتبہ تسبیحات اربعہ یعنی “سبحان الله والحمدللھولاالہ الّاالله والله اکبر”کہے اورایسابھی کرسکتاہے کہ تیسری رکعت میں حمداورچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ پڑھے
اس کی کیاوجہ ہے کہ تین وچاررکعتی نمازوں کی تیسری وچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کاپڑھنازیادہ ثواب رکھتاہے اورسورہ حٔمدبھی پڑھ سکتے ہیں لیکن پہلی ودوسری رکعت میں حمدکاپڑھناواجب ہے تسبیحات اربعہ نہیں پڑھ سکتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ پنجگانہ نمازوں میں سے ہرنمازدورکعت تھی کیونکہ جب شب معراج الله تعالیٰ نے امت رسول پرنمازکوواجب قراردیاتوہرنمازکودورکعتی واجب قراردیاتھالیکن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)نے ظہرکی نمازمیں دورکعت ،عصرکی نمازمیں دورکعت، مغرب کی نمازمیں ایک رکعت اورعشاکی نمازمیں دورکعت کوزیادہ کیا۔ پہلی دونوں رکعتوں میں قرائت اورتیسری وچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کے ذریعہ فرق کئے کی وجہ امام علی رضا نے اس طرح بیان کی ہے:
شروع کی دونوں رکعتوں میں قرائت اورآخرکی دونوں رکعتوں میں تسبیحات اربعہ کواس لئے معین کیاگیاہے تاکہ الله کی طرف سے واجب کی گئی دونوں رکعتوں اورپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی طرف سے واجب کی گئی آخری دونوں رکعتوں کے درمیان فرق ہوجائے (الله تعالیٰ نے دونوں رکعتوں میں قرائت کوواجب قراردیاہے اگرپیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)بھی اپنی طرف سے واجب کی گئی نمازمیں حمدکی قرائت کوواجب قراردے دیتے توالله تعالیٰ سے واجب کی گئی رکعتوں اوررسول اسلام کی طرف واجب کی گئی رکعتوں میں کوئی فرق نہ رہتا)۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠٨
محمدابن عمران نے حضرت امام صادق سے پوچھا:اس کی کیاوجہ ہے کہ نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کاپڑھناقرائت کرنے سے زیادہ افضل ہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورآپ آخری دورکعتوں میں مشغول تھے کہ عظمت پرودگارکامشاہدہ کیاتوحیرت ذرہ ہوگئے اورکہا:“سبحان الله ، والحمدلله ، ولاالہ الّاالله ، والله اکبر”اسی وجہ سے تسبیح کو قرائت سے افضل قراردیاگیاہے۔ . من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠٨
اس کی کیاوجہ ہے کہ تسبیح فقط چارہیں اسسے کم وزیادہ کیوں نہیں ہیں؟ روایت میں آیاہے کہ امام صادق سے کسی نے پوچھا:کعبہ کوکعبہ کس لئے کہاجاتاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ اس کے چارگوشہ ہیں،پوچھا:اس کے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ وہ بیت المعمورکے مقابلہ میں ہے اوراس کے چارگوشہ ہیں (لہٰذاکعبہ کے چارگوشہ ہیں)راوی نے پوچھا:بیت المعمورکے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ وہ عرش کے مقابلہ میں ہے اورعرش کے چارگوشہ ہیں اسی لئے بیت المعمورے کے بھی چارگوشہ ہیں،راوی نے پوچھا:عرش کے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام نے فرمایا:کیونکہ وہ کلمات کہ جن پردین اسلام کی بنیادرکھی گئی ہے چارہیں اوروہ کلمات یہ ہیں:
”سبحان الله ، والحمدلله ، ولاالہ الّاالله ، والله اکبر“
. علل الشرایع/ج ٢/ص ٣٩٨

رکوع کے راز
کسی کی تعظیم وادب کی خاطراس کے آگے اپنے سراورکمرکوخم کردینے کورکوع کہتے ہیں،رکوع ایک ایسی عبادت ہے جونمازگزارکی حالت تذلل کودوبالاکردیتی ہے اورانسان رکوع کی حالت میں اپنے آپ کوخدائے قیوم کے سامنے ذلیل وحقیرشمارکرتاہے جس سے اس کاایمان اورزیادہ پختہ ہوجاتاہے،بارگارہ خداوندی میں خضوع خشوع کے ساتھ اس کی تعظیم کے لئے سروگردن کے خم کردینے کورکوع کہاجاتاہے ،قرآن کریم اوراحادیث میں اس کی بہت زیادہ اہمیت اورفضیلت بیان کی گئی ہے۔
>وَاَقِیْمُوْالصَّلٰوة وَآتُوْالزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْامَعَ الرّٰاکِعِیْنَ< نمازقائم کرو،زکات اداکرواوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ . سورہ بٔقرہ/آیت ۴٣
>یٰامَرْیَمُ اقْنُتی لِرَبِّکِ وَاسْجُدی وَارْکَعی مَعَ الرّٰاکِعیْنَ< اے مریم تم اپنے پروردگارکی اطاعت کرواورسجدہ اوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
. سورہ آٔل عمران/آیت ۴٣ >یٰااَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُواارْکَعُواوَاسْجُدُواوَاعْبُدُوارَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَلَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ< اے ایمان والو!رکوع کرو،سجدہ کرواوراپنے پروردگارکی عبادت کرواورکارخیرانجام دوکہ شایداسی طرح کامیاب ہوجاؤاورنجات حاصل کرلو۔
. سورہ حٔج/آیت ٧٧
مرحوم طبرسی تفسیرمجمع البیان میں لکھتے ہیں کہ جب رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرکے مدیہ پہنچے تونوی ہجری میں اہل مدینہ گروہ درگروہ آنحضرتکے پاس رہے آتے رہے اوراللھورسول اوراس کی نازل کی ہوئی کتاب پرایمان لاتے رہے اورمسلمان ہوتے گئے اوردین اسلام کے ہرقانون کوقبول کرتے گئے ،ایک دن طائفہ ثقیف سے ایک جماعت جب آنحضرت کی خدمت میں پہنچی اورآپ نے انھیں بتوں کے بجائے الله تبارک تعالیٰ کے سامنے جھکنے اورنمازپڑھنے کاحکم دیاتواس جماعت نے جواب دیا:ہم ہرگزخم نہیں ہوں گے کیونکہ یہ کام ہمارے لئے ننگ وعارہے ، پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا: لاخیرفی دینٍ لیسفیہ رکوع ولاسجود
جس مذہب میں رکوع وسجود نہ ہواس میں کوئی خیر وکا میا بی نہیں پائی جاتی ہے ،خداوندعالم نے ان کے اس خیال کوباطل قراردینے کے لئے اس آیہ مبارکہ کونازل کیا: ) >وَاِذَاقِیْلَ لَہُمْ ارْکَعُوالَایَرْکَعُْونَ>( ١
) اورجب ان سے رکوع کرنے کے لئے کہاجاتاہے تورکوع نہیں کرتے ہیں۔( ٢ . ٢)مجمع البیان /ج ١٠ /ص ٢٣۶ ) . ١(سورہ مٔرسلات/آیت ۴٨ ( عن ابی جعفرعلیہ السلام انّہ قال:لاتعادالصلاة الّامن خمسة : الطہور ، والوقت ، والقبلة ) ، والرکوع ، والسجود .( ١
امام صادق فرماتے ہیں:پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر نمازباطل ہے اور وہ پانچ چیزیں یہ ہیں :وضو وقت قبلہ رکوع سجود۔
. ١(من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣٣٩ (
قال ابوجعفرعلیہ السلام:من اتمّ رکوعہ لم یدخلہ وحشة القبر۔ امام محمد باقر فرماتے ہیں:جسکارکوع __________مکمل ہوتاہے وہ وحشت قبرسے محفوظ رہے گا۔
. بحارالانوار/ج ۶/ص ٢۴۴
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:لاصلاة لمن لم یتم رکوعہا وسجودہا۔ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس شخص کارکوع وسجودکامل نہ ہواس کی نمازباطل ہے ۔
. بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٣
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:انّ اسرق السراق مَن سرق مِن صلاتہ قیل:یارسول الله:کیف یسرق صلاتہ ؟قال:لایتم رکوعہا ولاسجودہا۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:وہ شخص سب سے بڑاچورہے جواپنی نمازکی چوری کرتاہے توآنحضرت سے پوچھاگیا:نمازکی چوری کسی طرح کی جاتی ہے؟فرمایا:رکوع وسجودکوکامل طورسے انجام نہ دینا۔
. مستدرک الوسائل /ج ١٨ /ص ١۵٠

رکوع میں تسبیح کے قراردئے جانے کاراز
واجب ہے کہ ہرنمازگزاراپنی نمازکی پہلی رکعت میں حمدوسورہ کی قرائت کے بعداوردوسری رکعت میں حمدوسورہ کی قرائت وقنوت کے بعداورتیسری وچوتھی رکعت میں سورہ حمدیاتسبیحات اربعہ پڑھنے کے بعدتکبیرکہے اوررکوع میں جانے کے بعد اطمینان کے ساتھ تین مرتبہ “سبحان الله”یاایک مرتبہ “سبحان ربی العظیم وبحمدہ”کہے یاتحمید(الحمدللّٰہ)یاتہلیل(لاالہ الاالله)یاتکبیر(الله اکبر)کہے یاان کے علاوہ کوئی بھی دوسراذکرکرے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ذکرتین مرتبہ “سبحان الله”کہنے کے برابرہو،اگرکوئی شخص رکوع بطورکلی تسبیح کو ترک کردے تواس کی نمازباطل ہے ۔ رکوع وسجودمیں تسبیح ہی کوقراردیاگیاہے ،اورقرائت وغیرہ میں کیوں نہیں ہے اس میں کیارازہے؟
فضل بن شاذان سے مروی ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں:رکوع وسجودمیں تسبیح کے قراردئے جانے کی چندوجہ ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ بندہ مٔومن کے لئے ضروری ہے کہ خضوع خشوع،تعبدوتقوا،سکون واطمینان،تواضع وتذلل اورقصدقربت کے علاوہ اپنے رب کی تسبیح وتقدیس ،تعظیم وتمجیداورشکرخالق ورازق بھی کرے ،جس طرح تکبیر(الله اکبر) اورتہلیل (لاالٰہ الّا الله) کہتاہے اسی طرح تسبیح وتحمید(سبحان ربی العظیم وبحمدہ)بھی کہے اوراپنے دل ودماغ کوذکرخدامیں مشغول کرے تاکہ نمازی کی فکروامیداسے غیرخداکی طرف متوجہ ومبذول نہ کرسکے ۔
. علل الشرایع /ج ١/ص ٢۶١ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مجھے رکوع وسجودکی حالت میں قرائت (قران)سے منع کیاگیاہے، رکوع میں خداوندعالم کی تعظیم کرنی چاہئے اورسجدہ میں دعازیادہ کرنی چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ سجدہ کی حالت میں کی جانے والی تمھاری دعا(بارگاہ رب العزت میں )قبول ہوجائے۔
معانی الاخبار/ص ٢٧٩
حضرت علی فرماتے ہیں کہ رکوع وسجودمیں قرائت نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان دونوں میں خدائے عزوجل کی حمدثناکی جاتی ہے۔
. قرب الاسناد/ص ١۴٢

رکوع وسجودکی تسبیح فرق رکھنے کی وجہ
ذکررکوع وسجودکی تسبیح میںفرق پایاجاتاہے یعنی رکوع میں “ سبحان ربی العظیم وبحمدہ ” اورسجدہ میں“ سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ”کہاجاتاہے اس کارازکیاہے کہ رکوع میں “ربی العظیم”اورسجدہ میں“ ربی الاعلیٰ”کہاجاتاہے؟ عقبہ ابن عامرجہنی سے مروی ہے: جب آیہ مٔبارکہ <فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ > نازل ہوئی تورسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ہمیں حکم دیاکہ اسے اپنی نمازکے رکوع میں قراردواورجب آیہ مٔبارکہ<فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْاَعْلی > نازل ہوئی توآنحضرت نے ہمیں حکم دیاکہ اسے اپنی نمازکے سجدہ میں میں قراردو۔
. تہذب الاحکام/ج ٢/ص ٣١٣
حسین بن ابراہیم نے محمدبن زیادسے روایت کی ہے کہ: ہشام بن حکم نے امام موسیٰ کاظم سے پوچھا:اس کی وجہ کیاہے کہ رکوع میں“ سبحان ربی العظیم وبحمدہ ” اورسجدہ میں “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ”کہاجاتاہے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا: اے ہشام !جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازپڑھناشروع کی جب قرائت سے فارغ ہوئے توآنحضرت کے ذہن میں سات حجاب آسمانی کوعبورکرنایادآیاتوعظمت پروردگارکی خاطرگردن کی رگوں میں لرزش پیداہوگئی لہٰذااپنے دونوں ہاتھوں کوزانوں پررکھااور اس طرح تسبیح پروردگارکرنے لگے“ سبحان ربی العظیم وبحمدہ ”( میرا پرور دگا ر جو کہ با عظمت ہے ہر عیب ونقص سے پاک ومنزّہ ہے اور میں اس کی حمد میں مشغول ہوں ) جب رکوع سے بلندہونے لگے توآپ کی نظروں نے اس سے بھی زیادہ بلندی دیکھی جوآپ دیکھ چکے تھے لہٰذافوراًزمین پرگرپڑے اورپیشانی مبارک کو زمین رکھنے کے بعدکہا:“ سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ”(میرا پر ور دگا رجو کہ سب سے بلندوبرتر ہے . ہر عیب ونقص سے پاک ومنزّہ ہے اور میں اس کی حمد میں مشغول ہوں)جب آپ نے سات مرتبہ ان جملوں کی تکرارکی توآپ کے جسم سے رعب برطرف ہوااوریہ سنت قرارپایا۔
. علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٣٢

رکوع کوسجدوں سے پہلے رکھنے کی وجہ
نماز میں پہلے رکوع ہے اس کے بعد دوسجدے ہیں . اگربندہ رکوع کو حقیقت کے ساتھ بجالاتا ہے تو سجدے کرنے کی لیاقت رکھتا ہے ، رکوع میں بندگی کا ادب واحترام پایاجاتاہے اور سجدے میں معبود سے قربت حاصل کی جاتی ہے اب اگر کوئی نماز گزار حقیقت میں خدا کا ادب واحترام نہیں کرتا ہے اور معرفت خدا کے ساتھ رکوع نہیں کرتا ہے وہ سجدے میں جاکر خدا سے قربت حاصل نہیں کرسکتا ہے اور رکوع کو وہی شخص عمدہ طریقہ سے انجام دے سکتا ہے جس کے دل میں خضوع وخشوع پایاجاتاہو اور وہ اپنے آپ کو خداکے سامنے ذلیل وحقیر اور محتاج سمجھتا ہو اور خوف خدا میں اپنے اعضاء وسرو گردن کو جھکا ئے رکھتا ہو ۔
. رسائل الشہیدالثانی /ص ١٣١

گردن کوسیدھی رکھنے کاراز
مردکے لئے مستحب ہے کہ رکوع کی حالت میںزانوں کواندرکی طرف اور کمر کو ہموار اور گردن کمرکے برابرسیدھی اورکھینچ کررکھے معصومین کے بارے میں روایتوں میں ملتاہے کہ رکوع کی حکالت میں اپنی اس طرح سیدھی اورصاف رکھتے تھے کہ اگرپانی کاکوئی قطرہ آپ کی ڈالاجاتاتووہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتاتھا۔
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)جب رکوع کرتے تھے تواپنی کمرکواس طرح ہمواررکھتے تھے کہ اگران کی کمرپرپانی ڈال دیاجاتاتووہ بھی اپنی جگہ پرثابت رہتا۔
. معانی الاخبار/ص ٢٨٠
امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازمیں رکوع وسجود کی حالت میں اپنی کمرکوہمواراورسیدھی نہ رکھے اس نمازہی نہیں ہوتی ہے
. معانی الاخبار/ص ٢٨٠
زرارہ سے روایت ہے :امام محمدباقر فرماتے ہیں: جب تم رکوع کروتواپنے رکوع میں دونوں قدموں کے درمیان ایک بالشت کافصلہ دواوراپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں کوزانوں پررکھواورپہلے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیںزانوں پررکھواس کے بعدبائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں زانوں پررکھواورہاتھ کی انگلیوں کوزانوں کے اطراف میں رکھواورانگلیوں کوآپس میں نہ ملاؤ،اگرتمھاری انگلیاںزانوں کے اطراف تک پہنچ رہی ہوں توکافی ہے اورمیں یہ دوست رکھتاہوں کہ ہتھیلیوں کوزانوں پررکھواورانگلیوں کوکھول کررکھونہ انھیں اپس میں نہ ملاؤاوراپنی کمرکوسیدھی رکھو،گردن کوکھینچ کررکھواوراپنے دونوں پیروں کے درمیان نگاہ کرو۔
. تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٨٣
ایک شخص امام علیکی خدمت میں ایااورکہا:اے خداکی محبوب ترین مخلوق کے چچازادبھائی__________!رکوع میں گردن کوسیدھے رکھنے کے کیامعنی ہیں؟ آپ نے فرمایا: رکوع میں گردن کو سیدھا رکھنے کارازاورفلسفہ یہ ہے یعنی بارالٰہا!میں تجھ پرایمان رکھتاہوں،تیرے حکم کامطیع ہوں اورتیرے سامنے میری یہ گردن حاضرہے اگرچاہے توقطع کردے۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١١

رازطول رکوع
رکوع کوذکرودعاکے ساتھ طول دینامستحب ہے ، خصوصاً امام جماعت کے لئے اگرکوئی شخص نمازجماعت میں شامل ہوناچاہتاہے اورامام کومحسوس ہوجائے کہ کوئی شخص نمازمیں شریک ہوناچاہتاہے تورکوع کودوبرابرطول دےنامستحب ہے تاکہ وہ شخص نمازجماعت میں شریک ہوجائے ۔
ابواسامہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:…میں تمھیںطول کوع وسجودکی وصیت کرتاہوں کیونکہ تم میں سے جب بھی کوئی شخص رکوع وسجودکوطول دیتاہے توشیطان اس کے پیچھے فریادبلندکرتاہے اورکہتاہے :انھوں نے خداکی اطاعت کی اوراس حکم سے کے خلاف سرکشی کی اورگناہ کیا،انھوں نے سجدہ کیااورمیں نے سجدہ کرنے سے خودداری کی۔
. کافی /ج ٢/ص ٧٧
بریدعجلی سے مروی ہے :میں نے امام صادقسے پوچھا:نمازمیں قرآن کی زیادہ تلاوت کرنازیادہ ثواب رکھتاہے یارکوع وسجودکوطول دینا؟امام (علیه السلام)نے جواب دیا:رکوع وسجودکوطول دینازیادہ ثواب رکھتاہے ،کیاتم نے اس قول خداوندی کونہیں سناہے جس میں وہ فرماتاہے:
) >فَاقْرَءُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنْہُ ، وَاَقِیْمُواالصَّلاةَ>( ١ جت ناتم سے میسرہوسکے قرآن کی تلاوت کرواورنمازکوقائم کرو،آیہ مٔبارکہ میں ) نمازقائم کرنے سے مرادیہ ہے کہ رکوع وسجودکوطول دینا۔( ٢ . ٢)السرائر(ابن ادریسحلی)/ج ٣/ص ۵٩٨ ) ١(سورہ مٔزمل/آیت ٢٠ ( ہم باب رکوع میں کے آخرمیں ایک حدیث نقل کررہے ہیں کہ جس میں معصوم (علیه السلام) نے رکوع کے آداب ومستحبات کوذکرکیاہے اوروہ حدیث یہ ہے: زرارہ سے مروی ہے امام باقر فرماتے ہیں:جب تم رکوع کرنے کاارادہ کرو تو(قرائت کے بعد)سیدھے کھڑے ہوئے “الله اکبر”کہواورجاؤاسکے بعدرکوع کی حالت میں یہ کہو :
”اللّہم لک رکعتُ ولکَ اسلمتُ وعلیکَ توکلتُ وانتَ ربّی خشعَ لکَ قلبی وسمعی وبصری وشعری وبشری ولحمی ودمی ومُخّی وعصبی وعظامی ومااقّلَّتْہُ قدمائی غیرمنکرٍولامستکبرٍولامستحسرٍ سبحان ربی العظیم وبحمدہ“ اوراس ذکرکی تین مرتبہ آرام وسکون کے ساتھ تکرارکرواوررکوع میں اپنے پیروں کو اس طرح مرتب قراردوکہ دونوں پاؤں کے درمیان ایک بالشت کافاصلہ رہے اوردونوں زانوں پرہتھیلی کواس طرح رکھو کہ پہلے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیں زانوپرقراردواس کے بعدبائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں زانوں پررکھو، انگلیوں کوزانوں کے اطراف میں رکھو ،جب ہاتھوں کوزانوں پررکھوتو انگلیوں کوآپس میں نہ ملاؤبلکہ انھیں کھلارکھو،کمراورگردن کوسیدھی رکھو اوردونوں پاؤں کے درمیان نگاہ کرواور(ذکررکوع سے فارغ ہونے کے بعد)رکوع سے سربلندکرو اورسیدھے کھڑے ہوکر“سمع الله لمن حمدہ” کہواس کے بعد“الحمدللھرب العالمین اہل الجبروت والکبریاء والعظمة للھرب العالمین”اسکے بعددونوں ہاتھوں کوبلندکرکے تکبیرکہو اورسجدہ میں جاؤ۔
. کافی /ج ٣/ص ٣١٩