نمازکے آداب واسرار
 


سورعزائم کے قرائت نہ کرنے کی وجہ
اگرکوئی نمازی عمداًاپنی واجب نمازوں میں ان میں کسی ایک سورہ کی قرائت میں مشغول ہوجائے اورابھی سجدہ والی آیت کی قرائت نہیں کی ہے توواجب ہے کہ کسی دوسرے سورہ کی طرف منتقل ہوجائے اوراگرسجدہ ؤاجب والی آیت قرائت کرچکاہے تونمازباطل ہے کیونکہ اس آیت کی قرائت کرنے سے سجدہ کرناواجب ہے اوراس سجدہ کے کرنے سے نمازمیں ایک سجدہ کی زیادتی ہوجائے گی جوکہ نمازکے باطل ہوجانے کاسبب ہے لہٰذااس صورت میں واجب ہے کہ بیٹھ جائے اورسجدہ کرے اس کے بعدکھڑے ہوکردوبارہ نمازپڑھے ۔ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں:واجب نمازوں میں قرآن کریم کے چار عزائم سوروں میں سے کسی ایک بھی سورہ کی قرائت نہ کرواوروہ چارسورے یہ ہیں سورۂ سجدہ لٔقمان ، حم سجدہ،نجم،علق،اگرکوئی شخص ان چارسورں میں سے کسی ایک سورہ کی قرائت کرے تواس پرواجب ہے کہ سجدہ کرے اوریہ دعاپڑھے:
”الٰہی آمنابماکفرواوعرفناماانکروا ، واجبناک الیٰ مادعوا ، الٰہی فالعفو العفو“ اس کے بعدسجدہ سے سربلندکرے اورتکبیرکہے (اوردوبارہ نمازپڑھے)۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠۶
زرارہ نے امام باقریاامام صادق سے روایت کی ہے ،امام (علیه السلام)فرماتے ہیں:اپنی واجب نمازوں میں سجدہ والے سوروں کوقرائت نہ کروکیونکہ ان پڑھنے سے نمازمیں ایک سجدہ زیادہ ہوجائے گااور زیادتی کی وجہ سے نمازباطل ہوجائے گی ۔
. تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٩۶

رازجہراوخفات
مردوں پرواجب ہے کہ صبح اورمغرب وعشا کی نمازمیں حمدوسورہ کوبلندآوازسے پڑھیں لیکن عوتیں بلنداورآہستہ آوازمیں پڑھ سکتی ہیں جبکہ کوئی نامحرم ان کی آوازنہ سن رہاہو،اگرکوئی نامحرم عورت کی آوازسن رہاہے تواحتیاط واجب یہ ہے کہ آہستہ پڑھے اورنمازظہروعصرکی نمازمیں مردوعورت دونوں پرواجب ہے کہ حمدوسورہ کوآہستہ پڑھیں لیکن مردوں کے لئے مستحب ہے ان نمازوں میں “بسم الله الرحمٰن الرحیم” کوبلندآوازسے کہیں۔ حداخفات یہ ہے کہ نمازی خوداپنی قرائت کوسن سکتاہواورحدجہریہ ہے کہ امام جہری نمازوں میں قرائت کوات نی بلندآوازسے پڑھے کہ مامومین تک اس کی آوازپہنچ سکے اورمعمول سے زیادہ آوازبلندنہ کرے یعنی اسے چیخ نہ کہاجائے ،اگرچیخ کرپڑھے تونمازباطل ہے بلکہ معتدل طریقہ اختیارکرے یعنی آوازنہ ات نی زیادہ ہوکہ اسے چیخ کہاجائے اورنہ ات نی کم ہوکہ خودکوبھی آوازنہ آئے جیساکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے: >لَاتَجْہَرْبِصَلَاتِکَ وَلَاتُخَافِت بِہَا<
اے رسول!اپنی نمازمیں میانہ روی اختیارکرو،نہ زیادہ بلندآوازسے اورنہ زیادہ آہستہ سے پڑھو۔
. سورہ أسراء /آیت ١١٠
ظہروعصرکی نمازمیں قرائت حمدوسورہ کے آہستہ پڑھنے اورنمازصبح ومغربین میں بلندآوازسے پڑھنے کاحکم کیوں دیاگیاہے ،تمام نمازوں میں حمدوسورہ کوبلندیاآہستہ پڑھنے میں کیاحرج ہے ؟
فضل بن شاذان نے امام علی رضا سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں امام(علیه السلام) نے اس چیزکی وجہ بیان کی ہے کہ بعض نمازوں کوبلندآوازسے اوربعض کوآہستہ کیوں پڑھناچاہئے؟
امام علی رضا فرماتے ہیں:بعض نمازوں کوبلندآوازسے پڑھنے کی وجہ یہ ہے کیونکہ یہ نمازیں اندھرے اوقات میں پڑھی جاتی ہیں لہٰذاواحب ہے کہ انھیں بلندآوازسے پڑھ__________اجائے تاکہ راستہ گزرنے والاشخص سمجھ جائے کہ یہاں نمازجماعت ہورہی ہے اگروہ نمازپڑھناچاہتاہے توپڑھ لے کیونکہ اگروہ نمازجماعت کونہیں دیکھ سکتاہے تونمازکی آوازسن کرسمجھ سکتاہے نمازجماعت ہورہی ہے (لہٰذانمازصبح ومغربین کوبلندآوزسے پڑھناواجب قراردیاگیاہے)اوروہ دونمازیں جنھیں آہستہ پڑھنے کاحکم دیاگیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دونوں نمازیں دن کے اجالہ میں پڑھی جاتی ہیں اوروہاں سے گزرنے والوں کونظرآتاہے کہ نمازقائم ہے لہٰذااس میں سننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اسی لئے ان دونماز(ظہرین)کوآہستہ پڑھنے کاحکم دیاگیاہے۔
. علل الشرایع/ج ١/ص ٢۶٣
محمدابن حمزہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے پوچھا: کیاوجہ ہے کہ نمازجمعہ اورنمازمغرب وعشاء اورنمازصبح کوبلندآوازسے پڑھاجاتاہے اور نماز ظہر و عصر کو بلندآوازسے نہیں پڑھاجاتا ہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:
جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے توجمعہ کادن تھااورالله کی طرف واجب کی گئی پہلی نمازظہرکاوقت تھا(جب آنحضرت نے نمازجمعہ پڑھناشروع کی)خداوندعالم نے ملائکہ کوحکم دیاکہ وہ پیغمبر اسلام کے پیچھے جماعت سے نمازپڑھیں اورپیغمبرکوحکم دیاکہ حمدوسورہ کوبلندآوازسے قرائت کریں تاکہ انھیں اس کی فضیلت معلوم ہوجائے اس کے بعدالله نے نمازعصرکوواجب قراردیااور(جوفرشتے نمازظہرمیں حاضرتھے ان کے علاوہ) کسی فرشتہ کونمازجماعت میں اضافہ نہیں کیااورپیغمبراسلام کوحکم دیاکہ نمازعصرکوبلندآوازسے نہ پڑھیں بلکہ آہستہ پڑھیں کیونکہ اس نمازمیں آنحضرت کے پیچھے کوئی (نیافرشتہ )نہیں تھا
نمازظہروعصرکے بعدالله تعالیٰ نے نمازمغرب کوواجب قراردیااورجیسے ہی مغرب کاوقت پہنچاتوآنحضرت نمازمغرب کے لئے کھڑے ہوئے توآپ کے پیچھے نمازمغرب پڑھنے کے لئے ملائکہ حاضرہوئے ،الله نے اپنے حبیب کوحکم دیاکہ اس نمازمیں حمدوسورہ کوبلندآوازسے پڑھوتاکہ وہ سب قرائت کوسن سکیں اوراسی طرح جب نمازعشاء کے کھڑے ہوئے توملائکہ نمازمیں حاضرہوئے توخدانے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوحکم دیاکہ اس نمازمیں بھی حمدوسورہ کوبلندآوازسے پڑھو،اس کے بعدجب طلوع فجرکاوقت پہنچاتوالله نے نمازصبح کوواجب قراردیااوراپنے حبیب کوحکم دیاکہ اس نمازکوبھی بلندآوازسے پڑھوتاکہ جس ملائکہ پراس نمازکی فضلیت واضح کی گئی اسی طرح لوگوں کوبھی اس کی فضیلت معلوم ہوجائے۔ . علل الشرایع/ج ٢/ص ٣٢٢
یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس آئی اورانھوں نے آنحضرت سے سات سوال کئے جن میں سے ایک یہ بھی تھاکہ تین نمازوں کوبلندآوازسے پڑھنے کاحکم کیوں دیاگیاہے ؟آنحضرت نے فرمایا:
اس کی وجہ یہ ہے انسان جت نی بلندآوازسے قرائت کرے گااورجس مقدارمیں اس کی آوازبلندہوگی اسی مقدارمیں جہنم کی آگ سے دوررہے گااورآسانی کے ساتھ پل صراط سے گزرجائے گااوروہ خوش وخرم رہے گایہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ . خصال(شیخ صدوق)/ص ٣۵۵
روایت میں ایاہے کہ حضرت امام علی بن محمد +سے قاضی یحییٰ ابن اکثم نے چندسوال کئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ نمازصبح میں قرائت کے بلندآوازسے پڑھنے کی کیاوجہ ہے ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:
نمازصبح اگرچہ دن کی نمازوں میں شمارہوتی ہے لیکن اس کی قرائت کورات کی نمازوں (مغرب وعشا)کی طرح بلندوآوازسے پڑھناجاتاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اس نمازکی قرائت کوبلندآوازسے پڑھتے تھے اوراس لئے بلندآوازسے پڑھتے تھے کیونکہ یہ نمازشب سے قریب ہے۔
. علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٢٣

حمد کے بعدآمین کہناکیوں حرام ہے
سورہ حمدکی قرائت کے بعدآمین کہناجائزنہیں ہے بلکہ “الحمدلله رب العالمین”کہنامستحب ہے کیونکہ سنت رسول یہی ہے کہ قرائت حمدکے بعد “الحمدلله رب العالمین” کہاجائے۔
حدیث معراج میں آیاہے :جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورخداوندعالم نے آپ کونمازپڑھنے کاحکم دیااوروحی نازل کی:
اے محمد! <بسم الله الرحمن الرحیم >کہواورسورہ حٔمدپڑھو ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ایسا ہی کیااور“ولاالضالین”کہنے کے بعد“الحمدللھرب العالمین”کہا(آمین نہیں کہا لہٰذاسنت رسول یہ ہے کہ سورہ حمدکے بعد“الحمدللھرب العالمین”کہاجائے )۔
. کافی/ج ٣/ص ۴٨۵
جمیل ابن دراج سے مروی ہے امام صادق فرماتے ہیں:جب تم جماعت سے نمازپڑھو اورامام جماعت سورہ حٔمدکی قرائت سے فارغ ہوجائے توتم“ الحمدللھرب العالمین” کہواورآمین ہرگزنہ کہو۔
. الکافی/ج ٣/ص ٣١٣
معاویہ ابن وہب سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :میں نے امام صادقسے کہا:میں امام جماعت کے “غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین”کہنے کے بعدآمین کہتاہوں توامام (علیه السلام)نے فرمایا:
وہ لوگ یہودی اورمسیحی ہیں جوامام جماعت کے “غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین” کے کہنے بعدآمین کہتے ہیں۔
اس کے بعد امام(علیه السلام) نے کوئی جملہ نہیں کہااورامام(علیه السلام) کااس سائل کے سوال کاجواب دینے سے منھ پھیرلینااس بات کی دلیل کے ہے کہ امام(علیه السلام) قرائت کے بعد اس جملہ کہنے کوپسندنہیں کرتے تھے ۔
. تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٧۵

سورہ حمدکی مختصرتفسیر
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
کچھ لوگ امیرالمومنین حضرت علی کی خدمت میں موجودتھے کاایک شخص نے امام (علیه السلام)سے عرض کیا:اے میرے مولاآقاآپ پرہماری جان قربان ہو،ہمیں < بِسْمِ الله الرَّحمٰنِ الرّحِیْمِ >کے معنی سے آگاہ کریں، امام (علیه السلام)نے فرمایا:سچ یہ ہے کہ جب تم لفظ “الله” کو اپنی زبان پر جاری کرتے ہوتوتم خداکے افضل ترین ناموں میں سے ایک نام کا ذکرکرتے ہو ،یہ ایسانام ہے جس کے ذریعہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو اس نام سے یاد نہیں کیا جاسکتا ہے اور خداکے علاوہ کسی بھی مخلوق کواس نام سے نہیں پکارا جاسکتاہے ،دوسر ے شخص نے پوچھا: “الله”کی تفسیر کیا ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا: ”الله” وہ ذات ہے کہ دنیاکی ہر مخلوق ہرطرح کے رنج وغم ، مشکلات ،حاجتمندی اورنیاز مندی کے وقت اسی سے لولگا تی ہے،اور تم بھی اپنے ہر چھوٹے بڑے کام کو شروع کرتے وقت “بسم الله الرحمن الرحیم ”کہتے ہوپس تم درحقیقت یہ کہتے ہو: ہم اپنے اس کام میں اس خدا سے مدد طلب کرتے ہیں جس کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت کرناجائز نہیں ہے اور اس خدا سے جو رحمن ہے یعنی رزق وروزی کو وسعت کے ساتھ ہم پر نازل کرتا ہے اور وہ خدا جو رحیم ہے اوردونوں جہاں میں یعنی دنیاوآخرت میں ہم پررحم کرتاہے ۔ . بحارالانوار/ج ٢٩ /ص ٢٣٢

الحمدللھرب العالمین
ایک شخص امیرالمومنین علی بن ابی طلب +کی خدمت میں ایااورعرض کیا : یاامیرالمومنین !آپ میرے لئے “ اَلْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن”کی تفسیر بیان کیجئے ،امام علینے فرمایا : “الحمدلِلّہ”کی تفسیریہ ہے کہ خداوندعالم نے اپنی بعض نعمتوں کو اجمالی طور سے اپنے بندوں کے سامنے ان کی معرفی کی ہے اورواضح طورسے ان کی معرفی نہیں کی ہے کیونکہ بندے تمام نعمتوں کوکامل طورسے شناخت کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ہیں اس لئے کہ خداکی عطاکی ہوئی نعمتیں ات نی زیادہ ہیں کہ انسان انھیں شمار کرنے اوران کی معرفت حاصل کرنے سے قاصرہے لہٰذا “الحمدلله”کے معنی یہ ہیں کہ تمام حمدوثناء خداسے مخصوص ہے ان نعمتو ں کی وجہ سے جو اس نے ہمیں عطا کی ہیں اورامام (علیه السلام) نے فرمایا:“ربّ العالمین”یعنی خداوند عالم دونوں جہاں( دنیاوآخرت )کاپیداکرنے والاہے ،اوردونوں جہاں کا مالک وصاحب اختیار ہے یعنی حیوانات وجمادات ونباتات ،آگ،ہوا،پانی ،زمین ،آسمان ،دریا… کا مالک ہے۔
. بحارالانوار/ ٢٩ /ص ٢۴۵

الرحمن الرحیم
”رحمٰن”الله کی ایک صفت عام ہے جودنیامیں مومن اورکافردونوں کے شامل حال ہوتی ہے اورتمام بندوں پراس کی رحمت نازل ہوتی ہے ،وہ دنیامیں ہرانسان مومن ،منافق،عالم ،جاہل ،سخی ، ظالم ،حاکم …کورزق عطاکرتاہے ،اورکسی بندے کواپنے دروازہ رٔحمت سے خالی نہیں لوٹاتاہے
” رحمٰن” وہ ذات ہے جواپنے تمام بندوں(مومن ،منافق کافر…)کی روزی کے بارے میں شدیدطورسے متمائل رہتاہے اوران کی روزی کوقطع نہیں کرتاہے چاہے وہ کت ناہی گناہ کریں،چاہے کت نی ہی اس کی نافرمانی کریں،وہ اپنی وسیع رحمت کے ذریعہ اپنے تمام بندوں کو روزی عطا کرتا ہے اور کسی کا رزق قطع نہیں کرتا ہے اب چاہے اس بندہ کامسلمان ہویاکافر،مومن ہویامنافق ،اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہوں یا نافرمانی ،لیکن یہ یادرہے کہ خداوندعالم زمین پر مومنین کے وجودکی خاطردوسروں پررحم کرتاہے اگردنیاسے مومینن کاوجودختم ہوجائے تویہ دنیاتباہ وبربادہوجائے ،اسبارے میں ہم پہلے حدیث کو ذکرکرچکے ہیں۔ ” رحیم”خداکی ایک خاص صفت ہے کہ جوآخرت میں فقط مومنین سے مخصوص ہے امام صادق رحمن ورحیم کے معنی اس طرح بیان کرتے :الله تبارک تعالیٰ ہرشئے پرقدرت رکھتاہے ،وہ (دنیامیں)اپنی تمام مخلوق پررحم کرتاہے اور(روزقیامت )فقط مومنین پررحم کرے گا۔
. کافی /ج ١/ص ١١۴
امام صادق فرماتے ہیں:رحمن ایک اسم خاص ہے جوفقط الله تبارک تعالیٰ سے مخصوص ہے اورصفت عام ہے یعنی الله تبارک وتعالیٰ اپنے تمام بندوں پررحم کرتاہے اوررحیم اسم عام لیکن صفت خاص ہے یعنی روزقیامت فقط ایک مخصوص گروہ پررحم کیاجائے گا۔
. تفسیرمجمع البیان /ج ١/ص ۵۴
حضرت علی فرماتے ہیں : خدا وند عالم اپنے تمام بندوں پررحم کرتاہے اور یہ خداکی رحمت ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے ١٠٠ /رحمت پیدا کی ہیں اور ان میں سے ایک رحمت کو اپنے بندوں کے درمیان قرار دیا ہے کہ جس کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں،والداپنے اپنے فرزندپررحم کرتاہے اورحیوانات مائیں اپنے بچوں پررحم کرتی ہیں،جب قیاوت کادن آئے گاتواس ایک رحمت کی ٩٩ /قسم ہوں گی کہ جس کے ذریعہ امت محمدی پرحم کیاجائے گا۔
. تفسیرامام حسن عسکری/ص ٣٧
خداکی رحمت اس درجہ عام اوروسیع ہے کہ اس کی رحمت سے ناامیدہوناگناہ کبیرہ ہے کیونکہ وہ خودقرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:
) >لَاتَقْنَطُوامِنْ رَحْمَةِ اللهِ،اِنَّ اللھَیَغْفِرُالذُّنُوبَ جَمِیْعاًاِنّہُ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ>( ١ الله کی رحمت سے مایوس نہ ہوناالله تمام گناہوں کامعاف کرنے والاہے اوروہ بہت زیادہ بخشنے والااورمہربان ہے۔
. ١(سورہ زٔمر/آیت ۵٣ (

مالک یوم الدین
ایک دن وہ بھی آئے گاجب تمام لوگوں کوان کی قبروں سے بلندکیاجائے اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ وعدالت میں کھڑاکیاجائے گا،وہاں کسی کی نہ اولاد کام آئے گی ،نہ کسی کواس کامال کام آئے گا،لوگوں کے تمام ذریعے ،وسیلے اورامیدیں ختم ہوجائیں گی اوراس روزنہ فرعون کی حکومت ہوگی ،نہ نمرودکی ،نہ ہامان کی ،نہ شدادکی ،نہ اورکسی دوسرے شیطان صفت انسان کی بلکہ صرف خداکاکی حکومت ہوگی اوراسی کاحکم نافذہوگا، سورہ أنفطارمیں ارشادباری تعالیٰ ہے:
>وَالامرُ یومَئِذٍلِلّٰہِ>اس دن تمام امورخداکے ہاتھ میں ہونگے۔ اس روزتمام لوگوں سے یہ سوال ہوگا:<لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْم>آج حکومت کس کی ہے؟ جواب دیں گے<لِلّٰہ الْوَاحِدِالْقَہّار>اس خداکی جواکیلا ہے اورقہاربھی ہے،جسدن لوگوں یہ سوال کیاجائے گااس روزکوقیامت کہتے ہیں۔
. سورہ أنفطار/آیت ١٩
اس روزصرف انسان کے وہ نیک اعمال کام آئیں گے جواس نے دنیامیں آل محمدکی محبت وولایت کے زیرسایہ انجام دئے ہونگے
امیرالمومنین علی ابی طالب آیہ مٔبارکہ <مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ >کے بارے میں فرماتے ہیں : حقیقت یہ ہے کہ خدا وند عالم قیامت کے دن تمام مخلوق کی تقدیر کا مالک ہو گا اور جس نے دنیا میں خدا کے بارے میں شک کیاہوگا ،اس کے حکم کی نافرمانی کی ہوگی اورطغیانی وسر کشی کی ہوگی وہ ان سب کو واصل جہنم کرے گا اورجن لوگوں نے اس کی اطاعت کی ہوگی اوران میں تواضع وانکسا ری پائی جاتی ہو گی ان کو خلد بریں میں جگہ عنایت کر گا۔ . ” ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز”/ش ٧٧۵ /ص ٢۴٢

ایاک نعبدوایاک نستعین
یہاں تک بندہ نے سورہ حٔمدکی آیتیں قرائت کی ہیں ان میں الله تبارک وتعالیٰ کی رحمت اوراس کی کرامت کااقرارکرتاہے اوراس کے مالک وخالق دونوں ہونے کی شہادت دیتاہے لیکن اب یہاں سے اس آیہ کریمہ کے ذریعہ اظہاربندگی کرتاہے اورکہتاہے :میری عبادت فقط تیرے لئے ہے ،تیرے علاوہ کسی دوسرے کوعبادت میں شریک قرارنہیں دیتاہوں یعنی میں اقرارکرتاہوں کہ میرامعبودفقط ایک ہے ۔
جوبندہ حقیقت میں الله تبارک تعالی کے رحیم وکریم اورمالک دوجہاں ہونے کااقرارکرتاہے ،اوراپنی عبادت کواسی سے مخصوص کرتاہے وہ کسی بھی مخلوق کے آگے سرنہیں جھکاتا ہے،اپنے آپ کوذات پروردگارکے علاوہ کسی دوسرے محتاج نہیں سمجھتاہے ،اب وہ لوگ جوالله تعالیٰ کی عبادت بھی کرتے ہیں اوردوسروں کے آگے سربھی جھکاتے ہیں اوردوسروں کے سامنے اپنی حاجتوں کوبیان کرتے ہیں وہ لوگ فقط زبان سے خداکوایک مانتے ہیں ،اوریقین کامل کے ساتھ اسے اپنامعبودنہیں مانتے ہیں ،اس پرمکمل بھروسہ نہیں رکھتے ہیں البتہ کسی ایسی بابرکت ذات گرامی کوجوالله تبارک سے بہت زیادہ قریب ہواسے وسیلہ قراردینے کوشرک نہیں کہاجاتاہے اوروسیلہ کے بغیرکسی جگہ کوئی رسائی ممکن نہیں ہے ،وسیلہ کے بارے میں ذکرہوچکاہے لہٰذایہاں پربحث طولانی اورتکرارہوجائے گی ۔

جمع کی لفظ استعمال کئے جانے کاراز
اس آیہ مبارکہ کے بارے میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ متکلم ایک شخص ہے اور وہ خدا سے کہہ رہا ہے : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں جب قرائت کرنے والا ایک شخص ہے پھروہ اپنے لئے جمع کا صیغہ کیوں استعمال کرتا ہے ؟ مندرجہ ذیل امورمیں سے کوئی ایک وجہ ہوسکتی ہے ١۔دین اسلام میں نمازجماعت کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے کیونکہ الله تبارک وتعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:
>وَارْکَعُوا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ>( ١) رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ نمازجماعت کی اہمیت وفضیلت کے بارے میں روایتوں کوذکرکرچکے ہیں،جماعت میں موجودتمام بندے رکوع وسجودکرتے ہیں اس لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہے اورنمازمیں موجودہربندہ یہ کہتاہے: بارالٰہا!میں اکیلانہیں ہوں بلکہ اس پوری جماعت کے ساتھ ہوں اورسب کی جانب سے کہتاہوں ہم تیری عبادت کرتے ہیں اورتجھ ہی سے مددطلب کرتے ہیں،جمع کی لفظ استعمال کرنے سے ایک طرح کی گواہی بھی دی جاتی ہے میرے یہ بندہ بھی تیری عبادت میں مشغول ہیں۔
شہیدمطہری فرماتے ہیں:سورہ حٔمد نماز کا قطعی جزء ہے ،ہم اس سورے میں خداسے کہتے ہیں :“ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَاِ یَّاکَ نَسْتَعِیْنُ” (بارالٰہا! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مددچاہتے ہیں) یعنی خدا یا ! میں ت نہانہیں ہوں ، بلکہ میں تمام مسلمانوں کے ساتھ ) ہوں ،میں اس جماعت کے ساتھ ہوں اسی لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہوں۔( ٢
--------
. ٢)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٩۶۶ /ص ٢٩٨ ) . ١(سورہ بٔقرہ/آیت/ ۴٣ (
اگرکوئی یہ اعتراض کرے ،جومومن فرادیٰ نمازپڑھتاہے تووہ جمع کاصیغہ کیوں استعمال کرتاہے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ اگرمومن ت نہائی میں بھی نمازپڑھتاہے اس لئے وہ جماعت کاحکم رکھتاہے اور جمع کاصیغہ استعمال کرتاہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:
المومن وحدہ جماعة مومن بندے کی ت نہائی میں پڑھی جانے والی نمازبھی جماعت میں شمارہوتی ہے ۔
. تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۶۵
٢۔انبیاء وآئمہ اطہار کے علاوہ کوئی بھی شخص دعوے کے ساتھ نہیں کہہ سکتاہے کہ میرارب مجھ سے راضی ہے اورمیں نے جواس کی عبادت کی ہے وہ سچے دل سے کی ہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ مکمل معرفت کے ساتھ الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اوران کی عبادت برگاہ رب العزت میں قبول بھی ہوتی ہے اوروہ اپنے ان نورانی بندوں کی مددبھی کرتاہے،مگرہم تمام بندے خاک کے پتلے ہیں ،گناہوں میں الودہ ہیں،الله تبارک تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتے ہیں اوراس کی عبادت ،اطاعت اوربندگی میں ناقص ہیں اورہم اپنی حاجتوں کوالله کے علاوہ دوسروں کے آگے بھی بیان کرتے ہیں ،شایدہماری یہ عبادت بارگاہ خداوندی میں مقبولیت کادرجہ نہ رکھتی ہولہٰذاہم اپنی عبادتوں کے ساتھ انبیاء ورسل اورآئمہ اطہار کی عبادتوں کو بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں تاکہ خداوندعالم ان کی عبادت کے وسیلے سے ہماری عبادت کوبھی قبول کرلے اوران کے وسیلے سے ہماری بھی مددکردے کیونکہ ہمیں اس بات کایقین ہے کہ وہ انبیاء ورسل اورآئمہ اطہار کی عبادتوں کوضرورقبول کرتاہے لہٰذاہم اپنی معیوب عبادتوں کوان صلحاء کے ساتھ بارگاخداوندی میں پیش کرتے __________ہیں جس سے خداہماری ان معیوب عبادتوں کوقبول کرسکتاہے اورہماری مددکرسکتاہے۔
اگریہ سوال کرے کہ اگرہم اس مذکورقصدسے جمع کی لفظ استعمال کرتے ہیں توپھرخودانبیاء وآئمہ جمع کی لفظ کیوں استعمال کرتے تھے ؟
اس کاجواب یہ ہوسکتاہے کہ انبیاء وآئمہ اپنے محبوں کوہمیشہ یادرکھتے ہیں اوران ترقی وکامیابی کی دعاکرتے ہیں لہٰذابارگاہ خداوندی میں کہتے ہیں:بارالٰہا!توہماری عبادتوں کے ساتھ ہمارے محبوں کی بھی عبادت کوقبول کراورجس طرح توہماری مددکرتاہے ان بھی مددکراورروزقیامت بھی اپنے محبوں کاخاص خیال رکھیں اورانھیں اپنی شفاعت کے ذریعہ بہشت میں جگہ دلائیں گے ۔
٣۔ نمازمیں انسان کی فقط زبان ہی تسبیح وتقدیس پروردگانہیں کرتی ہے بلکہ اس کے تمام اعضاء وجوارح ،ہاتھ ،پیر،آنکھ، ناک، کان، دل اوردماغ شریک عبادت رہتے ہیں ،انسان نمازمیں اخلاص وحضورقلب رکھتاہے،خضوع خشوع رکھتاہے لہٰذاوہ اکیلانہیں ہے اس لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہے ۔
۴۔ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے: >مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلّالِیَعْبُدُوْنِِ>( ١)میں نے جن وانس کونہیں پیداکیامگریہ کہ وہ میری عبادت کریں
جب خدانے تمام لوگوں کواپنی عبادت کے لئے، نمازگزارنمازمیں جمع کی لفظ سے یہ بتاناچاہتاہے چونکہ الله نے تمام لوگوں کواپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے اورسب اس کی حمدوثناء کرتے ہیں اورمیں بھی انھیں میں سے ہوں لہٰذاہم سب تیری ہی توعبادت کرتے ہیں۔
. ١(سورہ ذٔاریات/آیت ۶۵ (

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم.
تفسیرفاتحة الکتاب میں لکھاہے : ہم نمازمیں اس آیہ مٔبارکہ کو زبان پر جاری کرتے ہو ئے پروردگار سے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے پروردگار ! تو ہمیں توفیق عطاکر کہ جس طرح ہم تیری پہلے سے عبا دت کرتے آرہے ہیں آئندہ بھی تیرے مطیع وفرما نبردار بندے بنے رہیں . تفسیرفاتحة الکتاب/ص ۴۵
امیرالمومنین حضرت علی سے پوچھا گیا : پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)اور تمام مسلمان نماز میں دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں:“ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم” پروردگارا! تو ہم کو راہ راست کی ہدایت فرما جبکہ وہ سب ہدایت یافتہ ہیں؟ امام(علیه السلام) نے جواب دیا “اِھْدَنا”سے مرادیہ ہے کہ خدایا! توہم کو راہ راست پر ثابت قدم رکھ۔ . ہزارویگ نکتہ دربارہ نٔماز__________/ش ٧١٣ /ص ٢٢۵
امام صادق فرماتے ہیں:“ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم”یعنی پروردگارا! توہمیں ایسے راستے کی ہدایت کرتارہ جو تیری محبت ودوستی پر منتہی ہوتاہواوروہ سیدھاجنت کوپہنچتاہو اورتو ہمیں خواہشات نفسکی پیروی ( اورجہنم کے راستہ )سے دوررکھ ۔
تفسیرالمیزان/ج ١/ص ٣٨
امام صادقفرماتے ہیں: علی ابن ابی طالب +صراط المستقیم ہیں عن السجادعلیہ السلام قال:نحن ابواب الله ونحن صراط المستقیم. حضرت امام سجاد فرماتے ہیں : ہم آئمہ طا ہرین الله کے دروازہ ہیں اورہم ہی صراط مستقیم ہیں
معانی الاخبار/ص ٣۵ ۔
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْن رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)آیہ مبارکہ “اہدناالصراط المستقیم ”کے بارے میں فرماتے ہیں:صرط مستقیم سے مرادوہ دین خداہے کہ جس کوخدانے جبرئیل کے ذریعہ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)پرناز ل کیااوراس آیہ مٔبارکہ “صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْن”کے بارے میں فرماتے ہیں: اس آیت میںصراط سے مراد حضرت علی کے وہ شیعہ ہیں کہ جن پرخداوندعالم نے ولایت علی ابن ابی طالب +کے ذریعہ اپنی نعمتیں نازل کی ہیں،نہ ان پرکبھی اپناغضب نازل کرے گااورنہ وہ کبھی گمراہ ہوں گے۔
. تفسیرنورالثقلین/ج ١ج/ص ٢٣
امام صادق فرماتے ہیں:“صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ”سے حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) اوران کی ذریت مرادہے۔
. تفسیرنورالثقلین/ج ١ج/ص ٢٣
امیرالمومنین حضرت علی - فرماتے ہیں:الله تبارک وتعالیٰ کاانکارکرنے والے “مغضوب علیہم ”اور“ضالین”میں شمارہوتے ہیں۔
. بحارلانوار/ج ٩٢ /ص ٣۵۶
امام صادق “غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْن”کے بارے میںفرماتے ہیں: “مغضوب علیہم ”سے ناصبی مرادہیں اور“ضالین ” سے وہ لوگ مرادہیں جوامام کے بارے میں شک کرتے ہیں اوران کی معرفت نہیں رکھتے ہیں۔
. تفسیرقمی /ج ١/ص ٢٩
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:“المغضوب علیہم”سے یہودی اور“ضالین ”سے نصاری مرادہیں
. بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢١
حسین دیلمی “ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز”میں لکھتے ہیں: قرآن کریم نے فرعون وقارون اور ابولہب کواورقوم عادوثموداورقوم بنی اسرائیل کوان میں شمارکیاہے جن پر خداوند عالم کا قہروغضب نازل ہو ا ہے ( ١) اسی لئے ہم لوگ نماز میں روزانہ کہتے ہیں <غَیْرِالْمَفْضُوب عَلَیِْمْ وَلِاالضّٰالّیِْن >بارالہا ! تو ہم کو ان لوگو ں میں سے قرار نہ دے جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا ، اور جو لوگ گمراہ ہو گئے پروردگارا! تو ہم کو اعتقاد واخلاق وعمل میں فرعون ،قارون وابو لہب اور قوم عادوثمو دو بنی اسرائیل کے مانند قرار نہ دے اور ہمارے ) قدموں کوان کے راستے کہ طر ف اٹھنے سے باز رکھ۔( ٢
--------
١ (اعراف /آیت ٨۵ ۔ ٩٢ ۔بقرہ /آیت ۶١ کی طرف اشارہ ہے. ( . ٢(ہزارویک نکتہ دربارہ نماز/ش ٨٨٠ /ص ٢٧٣ (