واجبات نمازکے اسرار
واجبات نمازگیارہ ہیں:
١۔نیت ٢۔تکبیرة الاحرام ٣۔قیام ۴۔قرائت ۵۔ذکر ۶۔رکوع ٧۔سجود ٨۔تشہد
٩۔سلام ١٠ ۔ترتیب ١١ ۔موالات.
١۔نیت ٢۔تکبیرة الاحرام ٣۔قیام متصل بہ رکوع یعنی رکوع سے پہلے کھڑ ے
ہونااورتکبیرة الاحرام کہتے وقت اوررکوع میں جانے سے پہلے قیام کرنا ۴۔رکوع ۵۔دوسجدے
اب ہم ان واجبات نمازکے رازاوروجوہا__________ت کویکے یعددیگرے بالترتیت ذکرکررہے ہیں:
رازنیت
انسان جس کام کوانجام دیتاہے اس کی طرف متوجہ ہونے اوراس کے مقصدسے آگاہ
ہونے کونیت کہاجاتاہے اورہرکام کے انجام پرثواب وعقاب نیت پرموقوف ہوتاہے ،اگر عمل کو آگاہی
وارادہ کے ساتھ انجام دیتاہے تووہ باعث قبول ہوتاہے
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ : انّماالاعمال بالنیات ولکلّ امرءٍ مانویٰ،فمن غزیٰ ابتغاء
) ماعندالله فقدوقع اجرہ علی الله،ومن غزیٰ یریدعرض الدنیاا ؤنویٰ عقالاًلم یکن لہ الّامانواہ۔( ١
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:انسان کے ہر عمل کاتعلق اس کی نیت
سے ہوتاہے اور عمل کی حقیقت نیت کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اورثواب بھی نیت کے حساب
دیاجاتاہے ،اس کے نصیب میں وہی ہوتاہے جس چیزکاوہ قصدکرتاہے ،پس وہ جو شخص رضای
الٰہی کی خاطرجنگ کرتاہے اورکسی نیک کام خداکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انجام
دیتاہے توخداوندعالم اسے اس کااجروثواب عطاکرتاہے ضروراجرعطاکرتاہے اورجوشخص متاع
دنیاکوطلب کرتاہے اسے اس کے علاوہ جسچیزکی اس نے نیت کی ہے کچھ بھی نصیب نہیں
ہوتاہے۔
. ١(تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٨٣ (
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:لاقول الّابعمل ولاقول ولاعمل الّابنیة ،ولاقول ولاعمل
ولانیة الّاباِصابة السنة
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:عمل کے بغیرکوئی قول نہیں ہوتاہے اورکوئی
قول وعمل نیت کے بغیرکے بغیرنہیں ہوتاہے اورکوئی قول وعمل اورنیت سنت کے بغیرنہیں
ہوتاہے۔
. کافی/ج ١/ص ٧٠
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:انّ الله یحشرالناس علیٰ نیاتہم یوم القیامة ۔
امام صادق فرماتے ہیں:خداوندعالم روزقیامت انسان کوان کی نیت کے اعتبارسے
محشورکرے گا۔
. تہذیب الاحکام/ج ۶/ص ١٣۵
رازاخلاص وقصدقربت
جس طرح انسان ظاہری طور سے ذکرخداکرتاہے اسی طرح باطنی اعتبارسے اپنی
نمازوعبادت کوصرف پروردگارعالم سے قربت حاصل کرنے اوراس کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے
لئے انجام دے،نمازی کوچاہئے کہ اپنے دل میں حکم وفرمان الٰہی کوانجام دینے کا ارادہ کرے
اورخالصتاًخداکے لئے انجام دے، اگردل میں تھوڑاسابھی غیرخداکاارادہ ہوتووہ عمل باطل ہے
،عمل وہی قیمتی ہے جس عمل پرالٰہی رنگ چڑھاہواورجت نازیادہ رنگ چڑھاہوات ناہی زیادہ
قیمتی ہوتاہے
عمل کوصرف خداکے لئے انجام دینا،کسی دوسرے کوعبادت میں شریک نہ بنانے اوردل
میں خوف خدارکھنے کواخلاص اورصدق نیت کہاجاتاہے ،خداوندعالم کثرت عمل اور طولانی رکوع
وسجودکونہیں دیکھتاہے بلکہ حُسن نیت اوراخلاص کی طرف نگاہ کرتاہے عمل میں اخلاص
کودیکھتاہے،عمل میں اخلاص پیداکرناہرانسان کے بس کی بات نہیں ہے،اگرنیت خالص
ہوتوتھوڑاکام بھی بہت زیادہ ہے اوراخلاص کے ساتھ انجام دیاجانے والاچھوٹاکام بھی باعث
عظمت ہوجاتاہے،اگر عمل میں اخلاص ہوتوایک ضربت بھی ثقلین کی عبادت پربھاری ہوسکتی
ہے اوریہ مقام مولائے کائنات علی ابن ابی طالب +ہی کوحاصل ہواہے ۔
نمازگزاراپنی نمازوں کوفقط الله کے لئے انجام دے اوراس میں کسی دوسرے کاقصدنہ
کرے اگرعمل میں اخلاص نہیں ہے تواس عمل کاکوئی فائدہ نہیں ہے اوروہ قبول ہونے کی
صلاحیت نہیں رکھتاہے ،خداندعالم نیت کے اعتبارسے عمل کوقبول کرتاہے اگرنیت صحیح ہے
توانجام بھی اچھاہوتاہے لیکن اگرمیں خرابی اورریاکاری پائی جاتی ہے تووہ عمل ہرگزقبول نہیں
ہوتاہے ۔
اگرکوئی شخص نمازوعبادت کوظاہری کے علاوہ باطنی طورسے بھی ماں باپ ، یاکسی
رئیس وسرپرست کے خوف سے یالوگوں کودکھانے کی غرض سے انجام دے اوردل میں نمازی
،متقی ،پرہیزگاراورایک نیک انسان کہلائے جانے کاارادہ کرے ،مثلا یہ قصدکرے کہ اگرمیں نے
نمازنہ پڑھی تومیرے والدین یاکوئی دوسراشخص مجھے ضرب لگائے یامجھے ت نبیہ کریں گے
یاخوف ہوکہ نمازنہ پڑھنے کی وجہ سے مجھے محفل میں شرمندہ ہوناپڑے گایامجھے کسی
کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی اوراس کے علاوہ جت نی بھی چیزیں ریاکاری میں شمارہوتی
ہیں ان کاقصدکرے تووہ نمازالله کی بارگاہ میں مقبولیت کادرجہ نہیں رکھتی ہے
ریاکاری سے مرادیہ ہے کہ انسان ظاہروباطن یکسان نہ ہو، دوسرے لوگوں کی
موجودگی میں نماز پڑھتے وقت خضوع وخشوع کا اظہار کرتا ہوتا کہ وہ لوگ اسے متقی وپرہیز
گار شمار کریں لیکن جب ت نہائی میں نماز پڑھے تو اس کی نماز میں کوئی خضوع وخشوع نہ
پایاجاتا ہو ا وربہت جلدبازی میں نماز پڑھتا ہو
حضرت امام خمینی کی تو ضیح المسائل میں لکھا ہے : انسان کو چاہئے کہ فقط حکمِ
خدا انجام دینے کے لئے نماز پڑھے پس جو شخص نماز میں ریاکاری کرتا ہے اور لوگوں کو دکھا
نے کی غرض سے نماز پڑھتا ہے تا کہ لوگ اس کومتقی وپر ہیز گا ر کے نام سے یاد کریں ،
اسکی نماز باطل ہے خواہ وہ نماز کو فقط لوگوں کو دکھا نے کے لئے پڑھتا ہو یا خدا اور لوگوں کو
دکھا نے کے لئے پڑھتا ہویعنی دل میں خدا کا قصد کرے اور ریاکاری کا بھی خیال رکھے
اور دوسرے مسلٔہ میں لکھاہے کہ: اگرانسان نماز کا کچھ حصّہ غیرخدا کے لئے انجام
دے پھر بھی نماز باطل ہے خواہ وہ حصّہ جو غیر خدا کے لئے انجام دیا گیا ہے نماز کا واجبی
جزء ہو جیسے حمد وسورہ کی قرائت یا مستحبی جزء ہو جیسے قنوت ، بلکہ اگرانسان نماز کو
خدا کے لئے انجام دے لیکن لوگوں کو دکھا نے کے لئے کسی مخصوص جگہ میں مثلاً مسجد
میں ، یا ایک مخصوص وقت میں مثلاً اوّلِ وقت ، یا ایک مخصوص طریقہ سے مثلاً جماعت سے
نماز پڑھے ، اسکی نماز باطل ہے۔
. توضیح المسائل (امام خمینی )مسئلہ ٩۴۶ ۔ ٩۴٧
) >صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنَ مِنَ اللهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَہُ عَابِدُوْنَ>۔( ٢
رنگ توصرف الله کارنگ ہے اوراس سے بہترکس کارنگ ہوسکتاہے اورہم سب اسی کے
عبادت گذارہیں۔
>وَمَااُمِرُوْااِلّالِیَعْبُدُوااللهَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفٰاءَ وَیُقِیْمُواالصَّلَاةَ وَیُوتُوالزَّکٰوةَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِ
) >۔( ۴
اورانھیں صرف اس بات کاحکم دیاگیاتھاکہ خداکی عبادت کریں اوراس عبادت کواسی کے
لئے خالص رکھیں اورنمازقائم کریں اورزکات اداکریں اوریہی سچااورمستحکم دین ہے۔
--------
. ۴)سورہ بٔیّنہ/آیت ۵ ) . ٢(سورہ بٔقرہ /آیت ١٣٨ (
) >مَن کَانَ یَرجُوالِقَاءَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاصَالِحا وَلَایُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّہِ اَحَداً>( ١
ہروہ شخص جواپنے پروردگارسے ملاقات کاامیدوارہے اسے چاہئے خداکی عبادت میں
کسی بھی ذات کوشریک قرارنہ دو۔
) > قُلْ اِنَّ صَلَاْ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ ومَمَا تِی للهِ رَبِّ الْعاَ لَمِیْن >( ٢
)اے رسول!)کہدیجئے کہ میری نماز ، عبادت ،زند گی ، موت سب الله کے لئے ہیں جو
عالمین کا پالنے والا ہے ۔
٢) سورئہ انعام آیت ١۶٢ ) . ١(سورہ کٔہف /آیت ١١٠ (
) >قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلیٰ شاکِلَةٍ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَاَہْدیٰ سَبِیْلاً >( ١
)اے رسول!)کہدیجئے کہ ہرایک اپنے طریقہ پرعمل کرتاہے توتمھاراپردوگاربھی خوب
جانتاہے کہ کون سب سے زیادہ سیدھے رستے پرہے۔
. ١(سورہ أسراء/آیت ٨۴ (
امام صادق فرماتے ہیں:اہل جہنم کے ہمیشہ آگ میں رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی
دنیامیں یہ نیت تھی کہ اگرہم ہمیشہ کے لئے بھی دنیامیں رہیں گے توہمیشہ معصیت خداوندی
کوانجام دیتے رہیں گے اوراہل بہشت کے جنت میں ہمیشہ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی
دنیامیں یہ نیت تھی کہ اگرہم دنیامیں بھی باقی رہے توہمیشہ اطاعت باری تعالیٰ کوانجام دیتے
رہیں گے،یہ صرف نیت ہی کاانجام ہے کہ یہ گروہ ہمیشہ کے لئے جنت میں اوروہ گروہ ہمیشہ
کے لئے جہنم میں رہے گااس کے بعدامام(علیه السلام) نے آیہ کٔریمہ <قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلیٰ
شَاکِلَة>کی تلاوت کی :اورفرمایا:“علٰی شاکلتہ”سے“ علٰی نیّتہ ”مرادہے۔
. کافی/ج ٢/ص ٨۵
امام صادق ایک اورحدیث میں آیہ مٔبارکہ<لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً>( ١) کے بارے میں
فرماتے ہیں: آیت میں خداکامقصدیہ نہیں ہے کہ عمل کوطول دیاجائے بلکہ مرادیہ ہے کہ تم میں
کس کاعمل سب سے زیادہ صحیح ہے اورعمل وہی صحیح ہوتاہے جوخوف خدااورنیک وسچّی
نیت کے ساتھ انجام دیاجاتاہے،خداوندعالم طولانی رکوع وسجودکونہیں دیکھتاہے بلکہ عمل میں
اخلاص کودیکھتاہے اورعمل کو اخلاص کے ساتھ انجام دیناخودعمل سے زیادہ سخت ہوتاہے
اورعمل خالص یہ ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کی حمدوثناء کادل میں
ارادہ نہ کرنا،اس کے علاوہ کسی کواپنی عبادت میں شریک نہ بنانااورنیت عمل سے افضل
ہوتی ہے بلکہ عمل ہی کونیت کہاجاتاہے ،اس بعدامام (علیه السلام)نے اس آیہ مٔبارکہ کی
) تلاوت کی :<قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلیٰ شَاکِلَة>اورفرمایا:“علٰی شاکلتہ”سے“ علٰی نیّتہ ”مرادہے۔( ٢
١(اس نے مووت وحیات کواس لئے پیداکیاہے تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں (
. حُسن نیت کے اعتبارسے سب سے بہترکون ہے ،سورہ مٔلک /آیت ٢
. ٢(کافی/ج ٢/ص ١۶ (
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: ریاکارشخص کی تین پہچان بیان کی ہیں:
١۔ جب ت نہائی میں ہوتاہے توعمل کوسستی اورلاپرواہی کے ساتھ انجام دیتاہے
٢۔ جب اپنے پاس لوگوں کودیکھتاہے (اوران کی موجوگی میں نمازپڑھتاہے )تواپنے عمل
میں طول ونشاط بڑھادیتاہے
٣۔ اوراسچیزکوبہت زیادہ دوست رکھتاہے ہرکام میں اس کی تعریف کی جائے ۔
. قرب الاسناد/ص ٢٨
عن النبی صلی الله علیہ وآلہ قال:انّ الله تعالی لایقبل عملافیہ مثقال ذرّة من ریاءٍ۔
نبی اکرمفرماتے ہیں:خداوندعالم انسان کے ہراس عمل کوکہ جس میں ذرہ برابربھی
ریاکاری کی بوپائی جاتی ہے ہرگز قبول نہیں کرتاہے ۔
. مستدرک الوسائل /ج ١/ص ١٢
قال __________ابو عبدالله علیہ السلام:کل ریاء شرک انّہ من عمل للناس کان ثوابہ علی الناس ومن
عمل لله کان ثوابہ علی الله۔
امام صادقفرماتے ہیں ہرطرح کی ریاکاری شرک ہے ،جوشخص کسی کام کولوگوں کے
دکھانے کے لئے انجام دیتاہے اس کاثواب لوگوں کی طرف جاتاہے اورجوشخص خداکے لئے انجام
دیتاہے اس کاثواب الله کی طرف جاتاہے۔
. کافی /ج ٢/ص ٢٩٣
عن ابی جعفرعلیہ السلام قال : لوانّ عبداًعمل عملاًیطلب بہ وجہ الله عزوجل
والدارالآخرةوفادخل فیہ رضااحد مّن الناس کان مشرکاً۔
اما م باقر فرماتے ہیں:اگرکوئی بندہ کسی کام کوالله کی خوشنودی اورعاقبت خیرکے
لئے انجام دے لیکن اس میں کسی شخص کی خوشنودی بھی شامل حال ہوتووہ مشرک ہے ۔
. ثواب الاعمال/ص ٢۴٢
روایت میں آیاہے:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے کسی نے پوچھا:یارسول الله !وہ
کونسی شئے ہے جس کے ذریعہ روزقیامت نجات پائی جائے گی ؟آنحضرت نے فرمایا:نجات اس
چیزمیں ہے کہ آپ (دنیامیں)خداکودھوکانہ دیں،ورنہ وہ کل روزقیامت تمھیں دھوکادے گاکیونکہ
جوخداکومکروفریب دیتاہے خدابھی اسے مکروفریب دے گااوراس کے دل سے ایمان کوسلب
کرلے گا،اگرانسان غورفکرکرے تووہ خداکونہیں بلکہ خودکودہوکادے رہاہے
اس نے پوچھا:انسان خدا کو کیسے دھوکادے سکتاہے ؟آپ نے فرمایا: خدا کو
دھوکادینایہ ہے کہ انسان اس کام کوجس کاالله نے حکم دیاہے انجام دے لیکن اس کوانجام
دینے میں کسی دوسرے کاقصدکرے.میں تمھیں وصیت کرتاہوں کہ ریاکاری کرنے میں خداسے
ڈرو،کیونکہ ریاکاری شرک ہے، روزقیامت ریاکارشخص کو چارنام سے پکاراجائے گا:اے کافر!،اے
فاسق!،اے خائن!،اے تباہ کار!تیرے تمام اعمال حبط ہوگئے اورثواب باطل ہوگیاہے ،آج تیری رہائی
ونجات کاکوئی سامان نہیں ہے ،اپنے کئے ہوئے اعمال کااجروثواب اسی سے طلب کرجس کے
لئے تونے انجام دئے ہیں۔
. امالی /ص ۶٧٧ ۔ ثواب الاعمال/ص ٧۵۵ ۔معانی الاخبار/ص ٣۴١
اگرکوئی شخص لوگوں کے درمیان ترویج دین اسلام کی خاطر نمازکو اچھے اندازمیں
اداکرتاہے تواسے ریاکاری نہیں کہتے ہیں،اس بارے میں عبدالله ابن بکیرنے عبیدسے رویات کی
ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے میں نے امام صادق سے پوچھا:اس شخص کے بارے میں کیاحکم
ہے جواپنی نمازکولوگوں کے درمیان اس قصدسے انجام دیتاہے تاکہ لوگ اسے نمازپڑھتے ہوئے
دیکھیں اوراس کے دین کی طرف تمایل پیداکریں اوراس کے طرفدارہوجائیں ؟
امام(علیه السلام) نے فرمایا:اسے ریاکاری میں شمارنہیں کیاجاتاہے۔
. وسائل الشیعہ /ج ١/ص ۵۶
راز تکبیرة الاحرام
تکبیرکے ذریعہ نمازکاآغازکئے جانے کی وجہ
واجب ہے کہ انسان جیسے ہی نمازکی نیت کرے تواس کے فوراًبعدبغیرکسی فاصلے
کےتکبیرة الاحرام یعنی “الله اکبر”کہے اوراس کے ذریعہ اپنی نمازکاآغاز کرے ۔
اگرکوئی شخص یہ سوال کرے کہ آغازنمازکے لئے تکبیرکوکیوں معین کیاگیاہے
،کیانمازکوتکبیرکے علاوہ خداوندمتعال کے کسی دوسرے نام سے ابتدا نہیں کیاجاسکتاہے ؟
روایت میں ایاہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت
میں مشرف ہوئی ان کے عالم نے آنحضرتسے چندسوال کئے جن میں ایک یہ بھی تھاکہ
نمازکوتکبیرکے ذریعہ شروع کیوں جاتاہے؟نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:
”الله اکبر”فہی کلمة اعلی الکلمات واحبہاالی الله عزوجل یعنی لیس شی أکبرمنہ،
ولایفتح الصلاة الّابہالکرامتہ علی اللھوہواسم الاکرم ۔
”الله اکبر”کلموں میں سب سے افضل وبرترکلمہ ہے اوراس کلمہ کوخداوندعالم بہت زیادہ
عزیزرکھتاہے یعنی الله کے نزدیک اس کلمہ سے بڑھ کرکوئی چیزنہیں ہے اوراس کلمہ کے
علاوہ کسی دوسرے کلمہ سے نمازکی ابتداء کرناصحیح نہیں ہے کیونکہ خداصاحب کرامت ہے
اوریہ کلمہ اسم اکرم ہے ۔
. علل الشرایع /ج ١/ص ٢۵١
ناک ایک ایسی چیزہے کہ جس کی وجہ سے انسان کے چہرے کی خوبصورتی معلوم
ہوتی ہے ،لیکن اگرکسی کے چہرے پرناک ہی موجودنہ تواسے لوگ کیاکہیں گے اورکیانام دیں
،نمازمیں تکبیرة الاحرام کوناک کادرجہ دیاگیاہے کہ جس کے بغیرنمازادھوری ہے جیساکہ ایک
حدیث میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:
ہرشے کٔے ایک چہرہ ہوتاہے اورتمھارے دین کاچہرہ نمازہے لہٰذاتمھیں چاہئے کہ اپنے
کے دین چہرہ نہ بگاڑیں اورہرچیزکی ایک ناک ہوتی ہے اورنمازکی ناک تکبیرہے (ناک سے چہرے
کی خوبصورتی معلوم ہوتی ہے اگرکسی شخص کے چہرہ سے ناک کوختم کردیاجائے تووہ
برامعلوم ہوتاہے اسی طرح اگرنمازسے تکبیرکونکال دیاجائے تواس کی خوبصورتی ختم ہوجائے
گی)۔
. کافی/ج ٣/ص ٢٧٠
اس تکبیرکوتکبیرة الاحرام کہے جانے کی وجہ
اس تکبیرکوتکبیرة الاحرام کہتے ہیں،اوراستکبیرکوتکبیرة الاحرام کہنے کی وجہ یہ ہے کہ
انسان اس کے ذریعہ محرم ہوجاتاہے اورکچھ چیزیں( جونمازگزارکے لئے غیرنمازکی حالت میں
حلال ہوتی ہیں مثلاکسی چیزکاکھاناپینا،قبلہ سے منحرف ہونا،کسی سے کلام کرناچاہے ایک
ہی حرف ہو)نمازگزارپرحرام ہوجاتی ہیں،اس بارے میں روایت میں آیاہے:
قال رسول الله صلی الله علیہ والہ:افتتاح الصلاة الوضوء وتحریمہا التکبیر وتحلیلہاالتسلیم۔
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: نمازکی ابتداء وضوکے ذریعہ ہوتی ہے
اورتکبیراس کی تحریم ہے اورسلام اس کی تحلیل ہے
. وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧١۵
سات تکبیرکہنے کاراز
تکبیرة الاحرام کے علاوہ جوکہ واجب ہے تکبیرة الاحرام سے پہلے یابعدمیں چھ
تکبیرکہنامستحب ہے یہ مجموعاسات تکبیرہوجاتی ہیں لیکن پانچ یاتین تکبیرپربھی اکتفاء
کرسکتے ہیں، ان تکبیروں کوافتتاحی تکبیرکہتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ نمازکی ابتداء ہوتی ہے
لیکن حقیقت میں تکبیرة الاحرام کوافتتاحی تکبیرکہاجاتاہے۔
احادیث معصومین میں نمازکے شروع میں سات افتتاحی تکبیرکہے جانے کے بارے میں
چندوجہ بیان اس طرح بیان کی گئی ہیں:
١۔نمازکے شروع میں سات تکبیریں کہنے کارازیہ ہے کہ نبی اکرم نے بھی نمازکومومن
کے لئے بارگارہ ملکوتی میں پروازکرنے کاایک بہترین ذریعہ قراردیاہے اورپروازکے لئے سات
آسمان کے پردوں کوعبورکرناضروری ہے ،جب مومن تکبیرکہتاہے تو آسمان کاایک پردہ کھل
جاتاہے لہٰذاساتوں حجاب عبورہونے کے لئے سات تکبیرکہناچاہئے تاکہ بارگاہ ملکوتی میں
پروازکرسکے ۔
ہشام ابن حکم سے روایت ہے کہ امام موسیٰ بن جعفر +نے سات افتتاحی تکبیرکے یہ
بیان کی ہے:
انّ النبی صلی الله علیہ وآلہ لما اسری بہ الی السماء قطع سبعة حُجُبٍ، فکبّرعندکلّ
حجابٍ تکبیرة فاوصلہ الله عزوجل بذلک الیٰ منتہی الکرامة
جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے آسمانوں کی سیرکی توسات پردوں سے گزرے
توہرحجاب کے نزدیک ایک تکبیرکہی اوران تکبیروں کے وسیلے سے الله تبارک وتعالیٰ نے
آنحضرت کو انتہائے کرامت و بلندی پرپہنچایا۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠۵
٢۔ان سات تکبیروں کارازیہ ہے کہ ان کے ذریعہ خداکے صفات ثبوتیہ اورسلبیہ کی تصدیق
کی جاتی ہے۔
جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ میں مولاامیرالمومنین علی ابن ابی طالب
+کی خدمت میں موجودتھا،آپ نے ایک شخص کونماز پڑھتے ہوئے دیکھا،جب وہ نمازسے فارغ
ہواتومولانے اس سے پوچھا:اے مرد!کیاتم نمازکی تاویل وتعبیرسے آشنائی رکھتے ہو؟اس نے
جواب دیا:میں عبادت کے علاوہ نمازکی کوئی تاویل نہیں جانتاہوں،بس ات ناجانتاہوں کہ نمازایک
عبادت ہے ،امام (علیه السلام)نے اس سے فرمایا:
قسم اس خدا کی جس نے محمد (صلی الله علیه و آله)کونبوت عطاکی ،خداعالم نے
جت نے بھی کام نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کوبجالانے کاحکم دیاہے اس میں کوئی
رازاورتعبیرضرورپائی جاتی ہے اوروہ سب کام بندگی واطاعت کی نشانی ہیں ،اس مردنے
کہا:اے میرے مولا!آپ انھیں مجھے ضروربتائے وہ کیاہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:
نمازکے شروع میں سا ت تکبیرکہناچاہئے ان سات تکبیرکارازیہ ہے کہ جب تم پہلی “الله
اکبر” کہوتواپنے ذہن میں یہ خیال کرو کہ خداوندعالم قیام وقعودکی صفت سے پاک ومنزہ ہے
،وہ نہ کھڑاہوتاہے اورنہ بیٹھتاہے ،اورجب دوسری مرتبہ “الله اکبر” توخیال کروکہ خدانہ چلتاہے
اورنہ بیٹھتاہے اورتیسری تکبیرسے یہ ارادہ کروکہ خداجسم نہیں رکھتاہے اوراسے ذہن میں
تصورنہیں کیاجاسکتاہے ،چوتھی تکبیرکہنے کارازیہ ہے کہ اس میں کوئی بھی عرض حلول نہیں
کرسکتاہے اوراسے کوئی مرض نہیں لگ سکتاہے اورپانچوی تکبیرکہنے کارازیہ ہے وہ جوہروعرض
جیسی صفت سے منزہ ہے اورچھٹی تکبیرکہنے سے اس چیزکاارادہ کروکہ وہ نہ کسی
چیزمیں حلول کرسکتاہے اورنہ کوئی چیزاس میں حلول کرسکتی ہے اورچھٹی تکبیرکہنے سے
یہ خیال کروکہ خداونداعالم نہ کبھی نابودہوسکتاہے اورنہ اس میں کسی طرح کی تبدیلی
آسکتی ہے وہ تغیروتبدل سے مبراء ہے اورساتوی تکبیرکہنے سے یہ خیال کروکہ اس میں
کبھی بھی حواس خمسہ حلول نہیں کرسکتے ہیں۔
. بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٣
٣۔سات تکبیروں کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے جسے ہم معصوم کی ایک
دوحدیث کے ضمن میں ذکرکررہے ہیں جسے “تہذیب الاحکام ”اور“من لایحضرہ الفقیہ”میں
ذکرکیاگیاہے:
حضرت امام صادق سے روایت ہے کہ :ایک دن جب پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)
نمازکے لئے کھڑے ہوئے توامام حسین آنحضرتکے پاس کھڑے ہوئے تھے، آنحضرت نے تکبیرکہی
مگرامام حسیننے تکبیرنہ کہی ،پیغمبرنے دوبارہ تکبیرکہی پھرامام حسین (علیه السلام) نے
تکبیرنہ کہی ،آنحضرتاسی طرح پیوستہ تکبیرکہتے رہے اورمنتظرتھے کہ حسین (علیه
السلام)کب تکبیرکہتے ہیں یہاں تک کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے سات مرتبہ
تکبیرکہی،جیسے ہی ساتوی تکبیرکہی توحسین (علیه السلام)نے تکبیرکاجواب دیا،امام صادق
فرماتے ہیں :اسی لئے نمازکے شروع میں سات تکبیرکہنامستحب قرارپائی ہیں ۔
. تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ۶٧
امام محمدباقر فرماتے ہیں کہ:امام حسیننے کچھ دیرمیں بولناشروع کیایہاں تک کہ امام
حسین -نے بولنے میں انتی دیرکی کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوامام حسینکے کی
زبان اقدس میں قوت گویائی نہ رکھنے کاخوف پیداہوا، آنحضرت جب نمازکے لئے مسجدمیں ائے
توامام حسین - کوبھی اپنے ہمراہ لے کر آئے اورنمازپڑھتے وقت امام حسین کواپنے دائیں
جانب کھڑاکیااورنمازپڑھناشروع کی ،لوگوں نے بھی آنحضرت کے پیچھے صف میں کھڑے
ہوکرشروع کی ،آنحضرت نے جیسے ہی تکبیرکہی توحسین (علیه السلام)نے بھی تکبیرکہی
،رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے دوبارہ تکبیرکہی توحسین (علیه السلام)نے دوبارہ
تکبیرکہی،یہاں تک کہ پیغمبرنے سات مرتبہ تکبیرکہی اورحسین (علیه السلام)نے آپ کی اتباع
میں سات مرتبہ تکبیرکہی ،اسی لئے نمازکے شروع میں سات تکبیرکہنامستحب قرارپائی ہیں۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣٠۵١
۴۔روایت میں سات افتتاحی تکبیرکی ایک اوروجہ اس طرح بیان کی گئی ہے:
فضل بن شاذان سے مروی ہے کہ امام علی رضا ان سات تکبیروں کی مشروعیت کی
وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ نمازکے شروع میں سات تکبیروں کوکیوں مشروع
کیاگیاہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ ان سات تکبیروں میں ایک تکبیرواجب ہے اوربقیہ مستحب ہیں
اوران استحبابی تکبیرکی وجہ یہ ہے کہ اصل میں نمازدورکعت ہے( ١)اوردورکعت نمازمیں
مجموعاًسات تکبیرپائی جاتی ہیں:
١۔تکبیراستفتاح یعنی تکبیرة الاحرام ٢۔پہلی رکعت کے رکوع میں جانے کی تکبیر
٣۔ ۴۔ پہلی رکعت کے دونوں سجدوں میں جانے کی تکبیر ۵۔دوسری رکعت کے رکوع
کی تکبیر
۶۔ ٧ دوسر ی رکعت کے دونوں سجدوں کی تکبیر
نمازکے شروع میں سات تکبیرکہنے رازیہ ہے کہ اگرنمازی ان مذکورہ سات تکبیروں میں
کوئی تکبیربھول ہوجائے یاکلی طورسے ان سے غافل ہوتوشروع میں کہی جانے والی تکبیریں
) اس کاتدارک کرسکتی ہیں اورنمازمیں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔( ١
١(اوربعدمیںظہروعصراورعشاکی __________نمازمیں دودورکعت کاضمیمہ کیاہے اورمغرب میں ایک (
رکعت اورنمازصبح میں کوئی اضافہ نہیں کیاہے اسے ہم پہلے حدیث کے ضمن میں“واجب
نمازوں کی رکعتوں کی تعدادکت نی ہے”کے عنوان میں ذکرکرچکے ہیں۔
. ١(علل الشرایع/ج ١/ص ٢۶١ (
تکبیرکہتے وقت دونوں ہاتھوں کوکانوں تک بلندکرنے کاراز
تکبیرة الاحرام اوراس کے علاوہ نمازکی دیگرتمام تکبیرکہتے وقت دونوں ہاتھوں کوکانوں
تک بلندکرنامستحب ہے،اوردونوں ہاتھوں کوکانوں تک اس طرح بلندکریں کہ ہتھیلیاں قبلہ کی
سمت قرارپائیں۔
عن علی علیہ السلام فی قولہ تعالیٰ<فصلّ لربک وانحر>انّ معناہ ارفع یدیک الی
النحرفی الصلاة ۔
حضرت علی اس آیہ مٔبارکہ <فصلّ لربک وانحر>کے بارے میں فرماتے ہیں: اس کے
معنی یہ ہیں کہ تم نمازمیں (تکبیرکہتے وقت)ہاتھوں کوکانوں تک بلندکرو۔
. وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧٢٨
تفسیرمجمع البیان میں آیہ کٔریمہ <فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ>کی تفسیر کے ذیل میں حضرت
علیسے یہ روایت نقل کی ہے:
حضرت علی فرماتے ہیں :جب یہ آیہ مٔبارکہ نازل ہوئی تونبی اکرم (صلی الله علیه و
آله)نے جبرئیل امین سے پوچھا:یہ نحیرہ کیاچیزہے جس کامجھے حکم دیاگیاہے؟کہا: جبرئیل
امین نے جواب دیا:نحیرہ سے مرادکچھ نہیں ہے مگریہ کہ پرودگارکاحکم ہے :جب تم نماز کیلئے
قیام کرو توتکبیرة الاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلندکرواوراسی طرح رکوع میں
جانے سے پہلے اوررکوع میں جانے کے بعداورسجدے میں جاتے وقت اور سجدے سے
سربلندکرتے ہوئے تکبیرکہواوردونوں ہاتھوں کوکانوں تک بلند کروکیونکہ ہماری نمازاورساتوں
اسمان میں ملائکہ کی نمازکایہی طریقہ ہے(کہ وہ تکبیرکہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کوکانوں تک
بلندکرتے ہیں)کیونکہ ہرچیزکیلئے ایک زینت ہوتی ہے اورنمازکی زینت یہ ہے کہ ہر تکبیرمیں
ہاتھوں کوبلندکیاجائے۔
. تفسیرمجمع البیان/ج ٢٠ /ص ٣٧١
ایک شخص امیرالمومنین حضرت علی کی خدمت میں آیااور عرض کیا:اے خدا کی
بہترین مخلوق (حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)) کے چچازادبھائی میں آپ پرقربان
جاو ںٔ،تکبیرةالاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرنے کے کیامعنی اوراس
کارازکیاہے ؟ امام نے فرمایا:
الله اکبرالواحدالاحدالذی لیسکمثلہ شی لٔایلمسبالاخماس ولایدرک بالحواس۔
”الله اکبر”یعنی وہ ایک اوراکیلاہے ،اس کاکوئی مثل نہیں ہے ،وہ “ وحدہ لاشریک ”ہے
اوراسے حواسپنجگانہ کے ذریعہ درک ومحسوسنہیں کیا جاسکتا ہے۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠۶
نبی اکرمفرماتے ہیں: تکبیرة الاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں بلند کرنا قیامت میں نامۂ
اعمال لینے کے لئے ہاتھ بڑھانے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد
فرماتاہے :
) >اِقْرَء کِتٰا بَکَ کَفیٰ بِنَفْسِکَ الْیَومَ عَلَیْکَ حَسِیْباً> ( ١
) اب اپنی کتاب کو پڑھ لوآج تمھارے حساب کے لئے یہی کتاب کافی ہے۔( ٢
. ٢)اسرارالصلاة (عبدالحسین تہرانی)/ص ۴١ ) . ١(سورہ طٰٔہٰ/آیت ١١١ (
فضل بن شاذان سے مروی ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی تم سے یہ معلوم
کرے کہ تکبیرکہتے وقت دونوں کوکانوں تک بلندکرنے کارازکیاہے توا سے یہ جواب دوکہ دونوں
ہاتھوں کوبلندکرنا ایک نوع تضرع وزاری ہے اورغیرخداسے دوری کرناہے لہٰذاخداوندعالم دوست
رکھتاہے کہ نمازی عبادت میں خضوع ،التماس اورتضرع کی کیفیت پیداکرے اوردوسری وجہ یہ
) ہے کہ ہاتھوں کوبلند کرنے سے نیت میں استمدادپایاجاتاہے اورحضورقلب پیداہوتاہے۔( ١
. ١(علل الشرایع/ج ١/ص ٢۴۶ (
عرفان اسلامی میں لکھاہے ،بعض علمائے دین کہتے ہیں : نماز کی نیت کرنے کے بعد
تکیبرة الاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلندکرنے کے معنی ہیں:بارالٰہا! میں گناہوں
میں غرق ہوں ،تو میر ے ان دونوں ہاتھوں کو پکڑلے اورمجھے نجات دیدے ۔
. عرفان اسلامی /ج ۵/ص ٢٠٣
رازقیام
جب نمازکے لئے کھڑے ہوجائیں تو نہایت اخلاص وحضورقلب کے ساتھ تکبیرة الاحرام
کہیں اوربغیرکسی حرکت کے سیدھے کھڑے رہیں،بدن کوحرکت نہ دیں ،نہ ذرہ برابرکسی طرف
جھکیں اورنہ کسی چیزپرٹیک لگائیں بلکہ سیدھے کھڑے ہوکرسکون وآرام کے ساتھ تکبیرة
الاحرام کہیں ۔
تکبیرة الاحرام کہتے وقت قیام کرنااوررکوع میں جانے سے پہلے قیام کرناجسے قیام
متصل بہ رکوع کہتے ہیں یہ دونوں قیام رکن نمازہیں اگران دونوں میں سے کوئی قیام
عمداًیاسہواًترک ہوجائے تونمازکادوبارہ پڑھناواجب ہے لیکن حمدوسورہ پڑھتے وقت اورراسی
طرح رکوع کے بعدبھی قیام کرناواجب ہے مگر یہ ایساقیام ہے کہ جس کے عمداًًترک کرنے سے
نمازباطل ہے اورسہواًترک ہوجانے سے نمازباطل نہیں ہوتی ہے ۔
مستحب ہے کہ نمازگزارقیام کی حالت میں اپنے دونوں کاندھوں کونیچے کی طرف
جھکائے رکھے، دونوں ہاتھوں کو نیچے لٹکائے رکھے،دونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں کواپنی ران
پررکھے،پیرکے انگوٹھوں کوقبلہ کی سمت رکھے،دونوں پیروں کے درمیان حداقل تین انگلیوں کے
برابر اورحداکثرایک بالشت کے برابرفاصلہ رکھے،بدن کاوزن ایک ساتھ دونوں پاو ںٔ پررکھے اورالله
کی بارگاہ میں خضوع وخشوع کے ساتھ قیام کریں۔
رازوجوب قیام
نمازمیں قیام کواس لئے واجب قراردیاگیاہے تاکہ نمازگزاراس کے ذریعہ اس قیام کویادکرے
جب اسے قبرسے بلندکیاجائے گااورپروردگارکے سامنے حاضرکیاجائے گا، پس نمازگزار قیام
نمازکے ذریعہ روزقیامت قبروں سے بلندہوکربارگاہ خداوندی میں قیام کرنے کویادکرتاہے اورقیام
نمازروزقیامت کے قیام کی یادتازہ کراتی ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:
>یَومَ یَقُومُ النّٰاسُ لِرَبِّ الْعٰالَمِیْن >( ١)یادکرواس دن کوکہ جس دن سب رب العالمین کی
بارگاہ میں حاضر ہو نگے۔
. ١(سورہ طٰٔہٰ/آیت ١١١ (
حضرت آیت الله جوادملکی تبریزی “اسرارالصلاة”میں لکھتے ہیں :نمازکی حالت میں قیام
کرنے کافلسفہ یہ ہے کہ انسان با رگا ہ باری تعا لیٰ میں کھڑے ہو کر اس کی بند گی کا حق
اداکر ے اور الله کی نعمت و برکتوں بہرہ مند ہو اور اپنے دل میں یہ خیال پیداکرے کہ کل مجھے
قیامت میں بھی اس کی بارگاہ میں قیام کرنا ہے ،قیام میں قیام کواسی لئے واجب قرادیاگیاہے
تاکہ نمازگزاراس قیام کے ذریعہ روزقیامت کے قیام کویادکرے ۔
. اسرارالصلاة /ص ٢٠۴
تفسیر“کشف الاسرار” میں لکھاہے:نمازمیں کی حالت میں نماز گزارکی چار شکل وہیئت
پائی جاتی ہیں قیام، رکوع،سجود قعود، اس کی حکمت و فلسفہ یہ ہے کہ مخلوقات عالم کی
بھی چار صورت ہیں بعض موجودات ایسے ہیں جو ہمیشہ سیدھے کھڑا رہتے ہیں وہ درخت
وغیرہ ہیں (جوالله کی حمدوثنا کرتے رہتے ہیں )اوربعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ رکوع کی
مانندخمیدہ حالت میں رہتے ہیں جیسے چوپائے، اونٹ، گائے ،بھیڑ ،بکریاں وغیرہ اوربعض ایسے
بھی جو ہمیشہ زمیں پرسجدہ کے مانندپڑے رہتے ہیں وہ حشرات اورکیڑے وغیرہ ہیں اور بعض
موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ زمین پر بیٹھے رہتے ہیں وہ حشیش و نبا تات وگل وگیا ہ وغیرہ
ہیں اوریہ سب الله کی تسبیح کرتے ہیں
خدا وند عالم اپنی عبادت کے لئے انسان پرنمازمیں موجودات جہان کی ان چاروں
صورتوں کوواجب قراردیاہے تاکہ انسان قیام ورکوع وسجود وقعو د کے ذریعہ ان تمام موجودات کی
تسبیح کاثواب حاصل کرسکے کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اس لئے خدانے انسان
کوعبادت میں بھی ان سے افضل قراردینے کے لئے نمازمیں قیام وقعود،رکوع وسجودکوواجب
قراردیاہے ۔
. تفسیرکشف الاسرار/ج ٢/ص ٣٧۶ ۔ ٣٧٧
نمازمیں قیام ورکوع وسجوداورقعودکے واجب قراردئے جانے کی وجہ اس طرح بیان کی
گئی ہے : دنیاکی ہرشئے الله کی عبادت وبندگی کرتی ہے ،کچھ موجودات ایسے ہیں جوزندگی
بھرسیدھے کھڑے رہتے ہیں وہ درخت وغیرہ ہیں اوربعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ رکوع
کی طرح خمیدہ حالت میں رہتے ہیں وہ چوپائے (اونٹ گائے،بھیڑ،بکری ،گھوڑے)وغیرہ ہیں
اورکچھ ایسے ہیں جومنھ کے بل زمین پر پڑے رہتے ہیں وہ حشرات وغیرہ ہیں اورکچھ ایسے
بھی ہیں جوزمین پربیٹھے رہتے ہیں وہ حشیش ونباتات وغیرہ ہیں اوریہ سب موجودات الله کی
تسبیح کرتے رہتے ہیں ،اس کی حمدونثاکرتے رہتے ہیں لہٰذاخدوندعالم نے اشرف المخلوقات
کواپنی عبادت کے لئے ان سب موجودات کے طرزعبادت کویکجاجمع کردیاہے جس کے مجموعہ
کونمازکہاجاتاہے تاکہ انسان موجودات عالم کی تسبیح کوانجام دے سکے ۔
رازقرائت
نمازمیت کے علاوہ تمام دورکعتی (واجب اورمستحبی )نمازوں کی دونوں رکعتوں میں
اوردورکعتی نمازوں کے علاوہ تین رکعتی (نمازمغرب)اورچاررکعتی (ظہروعصر وعشاء)نمازوں کی
پہلی دونوں رکعتوں میں تکبیرة الاحرام کے فوراًبعدسورہ حٔمداورکسی ایک اورسورے کی قرائت
کرناواجب ہے۔
حمدکے بجائے کسی دوسرے کی قرائت کرناصحیح نہیں ہے اورکوئی شخص حمدکے
بجائے کسی دوسرے سورہ کی قرئت کرے تواسکی نمازباطل ہے ۔
ابن ابی جمہوراحسائی نے اپنی کتاب“ عوالی اللئالی ”میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه
و آله)سے یہ روایت کی ہے:
قال صلی الله علیہ وآلہ وسلم:لاصلاة الّابفاتحة الکتاب.
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :سورہ حٔمدکے بغیرنمازی ہی نہیں ہوتی
ہے ۔
. عوالی اللئالی/ج ١/ص ١٩۶
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:لاصلاة لمن لم یقرا بٔامّ الکتاب فصائداً۔
پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جو شخص نماز میں سور ئہ حمداوراس
کے علاوہ دوسرے کی قرا ئت نہیں کرتا ہے اسکی نماز صحیح نہیں ہے ۔
. مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١۵٨
سورہ حٔمدکے بعدکسی ایک مکمل سورہ کی قرائت کرناواجب ہے ،اگرکوئی شخص
دونوں سوروں سے ایک سورے کے ترک کرنے پرمجبورہوجائے میں تواس صورت میں حمدکاترک
کرناجائزنہیں ہے، ایسانہیں ہوسکتاہے کہ حمدکوچھوڑکردوسرے سورہ کی قرائت پراکتفاء کرے
خواہ واجبی نمازہویا مستحبی جیساکہ حدیث میں آیاہے:
عن محمدبن مسلم عن ابی عبدجعفرعلیہ السلام قال : سئلتہ عن الذی لایقرء بفاتحة
الکتاب فی صلاتہ ؟ قال: لاصلاة الّاا نٔ یقرء بہافی جہرا ؤاخفات، قلت:ایمااحبّ الیک اذاکان
خائفاا ؤمستعجلایقرء سورة ا ؤفاتحة ؟فقال:فاتحة الکتاب.
محمدابن مسلم سے مروی ہے ،میں نے امام باقر سے پوچھا:اس شخص کی نمازکے
بارے میں کیاحکم ہے جواپنی نمازمیں سورہ حٔمدکی قرائت نہیں کرتاہے ؟امام(علیه السلام)
نے جواب دیا:
سورہ حٔمدکے بغیرنماز(قبول)نہیں ہوتی ہے ،چاہے جہری نمازپڑھ رہاہویااخفاتی ،میں نے
کہا:اگروہ شخص حالت خوف میں ہے یاکسی ضروری کام کے لئے جلدی ہے(اوراس کے پاس
صرف ات ناوقت ہے کہ وہ فقط ایک سورہ کی قرائت کرسکتاہے) آپ کس چیزکودوست رکھتے
ہیں وہ اس صورت میں سورہ کوپڑھے یاحمدکو؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:سورۂ
حمدکوپڑھے۔
. الکافی/ج ٣/ص ٣١٧
قرائت کے واجب قراردئے جانے کی وجہ
بعض لوگ ایسے ہیں جواصلاً قرآن کی تلاوت نہیں کرتے ہیں یاکسی روزکرتے ہیں
اورکسی روزنہیں کرتے ہیں ،نمازمیں اس لئے تلاوت کوواجب قراردیاگیاہے تاکہ قرآ ن نہ پڑھنے
والے لوگ کم ازکم روزانہ پانچ مرتبہ نمازکے واسطہ سے قرآن کی تلاوت کرسکے اوراس کے
ثواب سے محروم نہ رہے ۔
فضل بن شاذان نے امام علی رضا سے منقول نمازمیں قرائت کے واجب قرادئے جانے
کی وجہ اس طرح بیان کی ہے:
امرالناس بالقرائة فی الصلاة لنلایکون القرآن مہجوراًمضیعاً، ولیکن محفوظا مدرسا
فلایضمحل ولایجہل.
نمازمیں قرائت قرآن کریم کواس لئے واجب قرار دیا گیا ہے تاکہ قرآن مجیدلوگوں کے
درمیان مہجورومتروک واقع نہ ہونے پائے بلکہ (گروآلود اورضایع ہونے سے )محفوظ رہے بلکہ حفظ
ومطالعہ کے دامن میں قراررہے اورتاکہ لوگ اسے نہ بھول پائیں۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١٠
قال صلی الله علیہ وآلہ:قراء ة القرآن فی الصلاة افضلٌ من قراء ة القرآن فی غیرالصلاة ۔
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: نماز میں قرآن کی قرائت کرنا غیرنماز میں
تلاوت کرنے سے افضل ہے۔
. تحف العقول/ص ۴٣
حضرت امام محمدباقر فرماتے ہیں:جوشخص کھڑے ہوکرنمازپڑھتاہے اوروہ نمازمیں قیام
کی حالت میں قرآن کریم کی قرائت کرتاہے تو جت نے بھی حرفوں کی قرائت کرتاہے ،ہرحرف
کے بدلہ اس کے نامہ اعمال میں سونیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اگر بیٹھ کر نمازپڑھتاہے تو ہر
حرف پر پچاس نیکیاں لکھی جاتی ہیں،لیکن اگرکوئی شخص غیرنمازکی حالت میں قرآن کی
قرائت کرتاہے توخداوندعالم اس کے نامہ أعمال میں ہرحرف کے عوض دس نیکیاں درج کرتاہے ۔
. ثواب الاعمال/ص ١٠١
رازاستعاذہ
سورہ حٔمدکی قرائت شروع کرنے سے پہلے مستحب ہے کہ الله تبارک وتعالی سے
شیطان رجیم کے بارے میں پناہ مانگی جائے کیونکہ نمازمیں واجب ہے کہ انسان اپنی نیت
کوآخرصحیح وسالم رکھے،اورنمازمیں اخلاص وحضورقلب رکھے،خداکے علاوہ کسی دوسری
چیزکواپنے ذہن میں نہ لائے اورانسان کاعمل جت نازیادہ مہم ہوتاہے شیطان بھی اپنی پوری
قدرت کے ساتھ اس پرحملہ کرنے کوشش کرتاہے اورشیطان نمازوعبادت خداوندی کوبہت زیادہ
دشمن رکھتاہے کیونکہ وہ یہ جانتاہے ہے کہ نمازوعبادت انسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی
ہے لہٰذابندہ مٔومن جب نمازکے لئے قیام ہے توشیطان اس کے دل میں وسوسہ پیداکرنا چاہتا
ہے اوراسے نمازمیں اخلاص وحضورقلب رکھنے سے منحرف کرنے اور ریاکاری کی چنگاری
پیداکرنے کی کوشش کرتاہے ،اورہروقت بندوں کوراہ عبادت سے چھوڑدےنے اور گناہ ومنکرات
میں ملوث ہونے کی دعوت دینے کے لئے حاضرہوتاہے ۔
وسوسہ شیطانی سے بچنے اورنمازمیں اخلاص وحضورقلب پیداکرنے لئے مستحب ہے
کہ نمازگزارجب نمازکے لئے قیام کرے توسورہ حٔمدسے پہلے الله سے شیطان رجیم کی پناہ
مانگے اور“آعوذباللھمن الشیطان الرجیم ”کہے ۔
نمازکے شروع میں استعاذہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے قرآن کریم کی تلاوت سے
پہلے اللھسے شیطان رجیم کی پناہ مانگنامسحتب ہے لہٰذانمازمیں قرآن کی قرائت کرنے سے
شیطان رجیم سے پناہ مانگنامستحب ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:
>فَاِذَاقَرَا تِٔ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْبِاللهِ مِنَ الشَّیْطَاْنِ الرَّجِیْمِ،اِنّہُ لَیْسَ لَہُ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ
آمَنُوْاوَعَلیٰ رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ<
جب آپ قرآن پڑھیں توشیطان رجیم کے مقابلہ کے لئے الله سے پناہ طلب کریں،شیطان
ہرگزان لوگوں پرغلبہ نہیں پاسکتاہے جوصاحبان ایمان ہیں اورجواللھپرتوکل واعتمادرکھتے ہیں۔
. سورہ نٔحل/آیت ٩٨ ۔ ٩٩
ہرسورہ کے شروع میں“بسم الله…”ہونے کی وجہ
”بسم ا لله…” سورہ کاجزء ہے اس لئے سورہ کی ابتداء اسی کے ذریعہ ہونی چاہئے
،کیونکہ ہرکام کی ابتداء “ بسم ا لله الرحمن الرحیم ” کے ذریعہ ہونی چاہئے ،اگرکسی نیک کی
کام ابتدا الله تبارک تعالیٰ کے نام سے ہونی چاہئے ،اگرکسی کام کی ابتدا الله کے نام سے نہ
کی جائے تواس میں شیطان کے دخل ہونے کاامکان پایاجاتاہے اوراس کام کے نامکمل ہونے
کابھی امکان رہتاہے اس لئے ہرنیک کی ابتداء الله کے نام کی جائے اسی لئے ہرسورہ کی
ابتداء “ بسم ا لله…” کے ذریعہ ہونی چاہئے اسبارے میں حدیث میں آیاہے:
عن النبی صلی الله علیہ وسلم انہ قال:کلّ امرٍذی بالٍ لم یذکرفیہ باسم الله فَہوابتر.
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:ہروہ کام جو“بسم الله… ”سے شروع نہیں
ہوتاہے وہ پایہ تٔکمیل کونہیں پہنچتاہے۔
. المیزان /ج ١/ص ١۴ ۔بحارالانوار/ج ٩٢ /ص ٢۴٢
راز قرائت حمد
نمازمیت کے علاوہ تمام دورکعتی (واجب اورمستحبی )نمازوں کی دونوں رکعتوں میں
اوردورکعتی نمازوں کے علاوہ تین رکعتی (نمازمغرب)اورچاررکعتی (ظہروعصر وعشاء)نمازوں کی
پہلی دونوں رکعتوں میں تکبیرة الاحرام کے فوراًبعدسورہ حٔمدکی قرائت کرناواجب ہے
اورحمدکے بجائے کسی دوسرے کی قرائت کرناصحیح نہیں ہے اورکوئی شخص حمدکے بجائے
کسی دوسرے سورہ کی قرئت کرے تواس کی نمازباطل ہے ۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:لاصلاة لمن لم یقرا بٔامّ الکتاب فصاعداً۔
پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جو شخص نماز میں سور ئہ حمداوراس
کے علاوہ دوسرے کی قرا ئت نہیں کرتا ہے اسکی نماز صحیح نہیں ہے ۔
. مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١۵٨
سورہ حٔمدکے ذریعہ قرائت کے آغازکئے جانے ک وجہ روایتوں میں اس طرح بیان کی
گئی ہے:
فضل بن شاذان نے امام علی رضا سے منقول نمازمیں قرائت کے واجب قرادئے جانے
کی وجہ اس طرح بیان کی ہے:
انمابدء بالحمددون سائر السورلانّہ لیس شی مٔن القرآن والکلام جمع فیہ من جوامع
الخیروالحکمة ماجمع فی سورة الحمد.
قران کریم میں کوئی سورہ یاکوئی کلام ایسانہیں ہے کہ جس میں سورہ حٔمدکے
برابرخیروحکمت موجودہوں اورقول“الحمدلله”ادائے شکرالٰہی ہے کہ جسے خداوندعالم نے واجب
قراردیاہے ان نعمتوں کے بدلہ میں جواسنے اپنے بندوں پرنازل کی ہیں۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١٠
حدیث معراج میں آیاہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورآپ
کونمازپڑھنے کاحکم دیاگیاتوآپ نمازکے لئے کھڑے ہوئے اورتکبیرکہہ نمازشروع کی تووحی
پروردگارنازل ہوئی :میرانام لو!تونبی راکرم (صلی الله علیه و آله)نے “بسم الله …”اوراس طرح
“بسم الله…”کوہرسورہ کے شروع میں رکھاگیااوراسے سورہ کاجزء قراردیاگیااس کے بعدوحی
نازل ہوئی:اے رسول !میری حمدکرو،آنحضرت نے سورہ حٔمدکی قرائت کی ۔
. الکافی/ج ٣/ص ۴٨۵
روایت میں آیاہے ،امام صادق سے کسی نے اس آیہ مٔبارکہ <وَلَقَدْآتَیْنَاکَ سَبْعً مِنَ
الْمَثَانِی وَالْقُرآنِ الْعَظِیْمِ>( ١)کے بارے میں پوچھاتو امام (علیه السلام)نے فرمایا:سورہ حٔمدکو
سبع مثانی کہاجاتاہے کیونکہ سورہ حٔمدایساسورہ ہے جس میں سات آیتیں ہیں اوران میں
سے ایک <بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ >بھی ہے اسی لئے سبع کہاجاتاہے اورمثانی اس لئے
کہتے ہیں کیونکہ یہ سورہ نمازکی پہلی دورکعتوں میں پڑھا جاتا ہے ۔
. مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١۵٧
پہلی رکعت میں سورہ قٔدراوردوسری میں توحیدکے مستحب ہونے کی وجہ
فقہاء کے درمیان مشہوریہ ہے کہ واجب نمازوں کی پہلی اوردوسری رکعت میں سورہ
حمدکے بعدایک مکمل سورہ کی قرائت کرناواجب ہے لیکن مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں
سورہ حٔمدبعدسورہ قدراوردوسری رکعت میں سورہ تٔوحیدکی قرائت مستحب ہے
ہمارے تمام آئمہ اطہار کی یہی سیرت رہی ہے وہ اپنی نمازوں کی پہلی رکعت میں
سورہ حمدکے بعدسورہ قدراوردوسری رکعت میں سورہ تٔوحیدکی قرائت کرتے تھے ۔
رویات میں آیاہے کہ امام علی ابن موسی الرّضا واجب نماز وں کی پہلی رکعت میں
سورئہ حمد کے بعد سورئہ قدر<اِنَّا اَنْزَ لْنَاہُ …>اور دوسری رکعت میں سورئہ حمد کے بعد
سورئہ توحید<قُلْ ھُوَاللهُ اَحَدْ…> کی قرائت کرتے تھے ۔
. وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧۶٠
ایک اورروایت میں آیاہے:ایک شیعہ اثنا عشری شخص نے حضرت مہدی (عجل الله تعالیٰ
فرجہ شریف) کی خدمت میں خط تحریرکیااور امام (علیه السلام) سے پوچھا:اے میرے مولا!آپ
پرمیری جان قربان ہو!میں آپ سے ایک چیزمعلوم کرناچاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ نماز کی پہلی
اوردوسری رکعت میں سورہ حٔمدکے بعدکس سورہ کی قرائت کرنازیادہ فضیلت رکھتاہے ؟امام
(علیه السلام)نے جواب میں تحریرفرمایا:
پہلی رکعت میں سورئہ <اِنَّااَنْرَ لْنَاہُ فی لَیْلَةاِلْقَدْر …>اور دوسری رکعت میں سورئہ <قُلْ
ھُوَ الله احَدْ…>اور امام (علیه السلام)نے فرمایا:تعجب ہے کہ لوگ نمازوں میں سورئہ قدر کی
قرائت نہیں کرتے ہیں، کسطرح ان کی نمازیں بارگاہ ربّ العزّت میں قبول ہوتی ہیں ۔
. وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧۶١
لیکن روایت میں یہ بھی ملتاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پہلی رکعت میں
حمدکے سورہ توحیداوردوسری رکعت میں سورہ قدرکی قرائت کرتے تھے اورشب معراج بھی
آپ کوپروردگارنے پہلی رکعت میں حمدکے سورہ تٔوحیدپڑھنے کاحکم دیا:
اے محمد!(ص)سورہ حمدکے بعداپنے پروردگارکاشناسنامہ اورنسبت کوپڑھوقُلْ ہُوَاللهُ
اَحَدٌ،اَلله الصَّمَدُ،لَمْ یَلِدْوَلَمْ یُوْلَدْ،وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًااَحَدْ<
پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نماز کی پہلی رکعت میں سورئہ حمد کے
بعدسورہ تٔوحید کی قرائت کی اورجب دوسری رکعت میں سورہ حٔمدپڑھاتوپروردگارکی طرف
سے وحی نازل ہوئی:
اے محمد!(ص)دوسری رکعت میں سورہ حٔمدکے بعد<اِنّااَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْر...> کی
قرائت کروکیونکہ یہ سورہ روزقیامت تک تمھارااورتمھارے اہلبیت سے منسوب ہے ،یہ سورہ
تمھارااورتمھارے اہلبیت کی پہچان نامہ ہے جسمیں تمھاراشجرہ موجودہے ۔
. کافی/ج ٣/ص ۴٨۵
سوال یہ ہے جب سنت رسول یہ ہے کہ پہلی رکعت میں توحیداوردوسری رکعت میں
قدرکی قرائت کی جائے توپھرپہلی رکعت سورہ قٔدرکی قرائت کرنازیادہ ثواب کیوں رکھتاہے؟ اس
کی وجہ اوررازکیاہے؟
اس کاجواب خودحدیث معراج سے واضح ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی
ذات وہ ہے کہ جوالله تبارک وتعالیٰ سے اس درجہ قریب تھے کہ قاب وقوسین کی منزل تک پہنچ
گئے تھے اورالله ورسول کے درمیان کوئی واسطہ نہیں تھااسی الله نے اپنے حبیب کوحکم
دیا:سورہ حٔمدکے بعدتوحیدکی قرائت کرواوردوسری رکعت میں سورہ قدرپڑھوکیونکہ سورۂ
توحید میراشجرہ نامہ ہے اوراس میں میری نسبت ذکر ہے اورسورہ قٔدر تمھارے اہلبیت اطہار
سے ایک خاص نسبت رکھتاہے اوراس میں تمھارے اہبیت کاشجرہ نامہ ذکرہے
وہ لوگ جوالله سے قربت حاصل کرناچاہتے ہیں انھیں چاہئے کہ ان عظیم القدرذات
کاسہارالے کر جوالله سے بہت زیادہ قریب ہوں اس کی بارگامیں قدم رکھیں تاکہ وہ ان کی
عبادت کوان ذوات مقدسہ کے طفیل سے قبول کرلے
اہلبیت اطہار وہ ذوات مقدسہ ہیں جواللھسے بہت زیادہ قریب ہیں اسی لئے مستحب
ہے کہ پہلی رکعت میں اہلبیت سے منسوب سورہ قدرکی قرائت کی جائے اوردوسری رکعت
میں خداوندعالم سے منسوب سورہ کی قرائت کی جائے لیکن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و
آله)کوخدانے شب معراج پہلی رکعت میں سورہ توحید اوردوسری رکعت میں سورہ قٔدرکی
قرائت کرنے حکم دیااس کی وجہ یہ ہے:
آنحضرت حبیب خداہیں اورخداورسول کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ خداوندعالم
براہ راست وحی کے ذریعہ اپنے حبیب سے گفتگوکرتاہے اسلئے رسول اکرم (صلی الله علیه و
آله)کوخدانے پہلی رکعت میں اپنی ذات سے منسوب سورہ کی قرائت کاحکم دیا۔
روایت میں آیاہے :مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ حٔمدکے بعد “انّا انزلناہ…”
اوردوسری رکعت میں “قل ہوالله…”کی قرائت کی جائے کیونکہ سورہ قٔدرنبی اکرم (صلی الله
علیه و آله)اوران کے اہلبیت اطہار کاسورہ ہے لہٰذاہمیں چاہئے کہ اپنی نمازوں میں ان ذوات
مقدسہ کو خدا تک پہنچنے کا وسیلہ قراردیں کیونکہ انھیں کے وسیلہ سے خداکی معرفت
حاصل ہوتی ہے۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١۵
|